بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

فِیْ وَقْتِ الشُّوْرٰى

شوریٰ کے موقع پر فرمایا

لَنْ یُّسْرِعَ اَحَدٌ قَبْلِیْ اِلٰی دَعْوَةِ حَقٍّ، وَ صِلَةِ رَحِمٍ، وَ عَآئِدَةِ کَرَمٍ، فَاسْمَعُوْا قَوْلِیْ، وَعُوْا مَنْطِقِیْ، عَسٰۤی اَنْ تَرَوْا هٰذَا الْاَمْرَ مِنْۢ بَعْدِ هٰذَا الْیَوْمِ تُنْتَضٰی فِیْهِ السُّیُوْفُ، وَ تُخَانُ فِیْهِ الْعُهُوْدُ، حَتّٰی یَکُوْنَ بَعْضُکُمْ اَئِمَّةً لِّاَهْلِ الضَّلَالَةِ، وَ شِیْعَةً لِّاَهْلِ الْجَهَالَةِ.

مجھ سے پہلے تبلیغِ حق، صلہ رحم اور جود و کرم کی طرف کسی نے بھی تیزی سے قدم نہیں بڑھایا، لہٰذا تم میرے قول کو سنو اور میری باتوں کو یاد رکھو کہ تم جلدی ہی دیکھ لو گے کہ اس دن کے بعد سے خلافت کیلئے تلواریں سونت لی جائیں گی اور عہد و پیمان توڑ کر رکھ دیے جائیں گے، یہاں تک کہ کچھ لوگ گمراہ لوگوں کے پیشوا بن کے کھڑے ہوں گے اور کچھ جاہلوں کے پیروکار ہو جائیں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:14
عون نقوی

یُوْمِئُ فِیْهَا اِلٰى ذِکْرِ الْمَلَاحِمِ

اس میں آنے والے فتنوں اور ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا ہے

یَعْطِفُ الْهَوٰی عَلَی الْهُدٰی اِذَا عَطَفُوا الْهُدٰی عَلٰی الْهَوٰی، وَ یَعْطِفُ الرَّاْیَ عَلَی الْقُرْاٰنِ اِذَا عَطَفُوا الْقُرْاٰنَ عَلَی الرَّاْیِ.

وہ خواہشوں کو ہدایت کی طرف موڑے گا جبکہ لوگوں نے ہدایت کو خواہشوں کی طرف موڑ دیا ہو گا اور ان کی رایوں کو قرآن کی طرف پھیرے گا جب کہ انہوں نے قرآن کو (توڑ مروڑ کر) قیاس و رائے کے دھڑے پر لگا لیا ہو گا۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے

حَتّٰی تَقُوْمَ الْحَرْبُ بِکُمْ عَلٰی سَاقٍ، بَادِیًا نَّوَاجِذُهَا، مَمْلُوْٓءَةً اَخْلَافُهَا، حُلْوًا رَضَاعُهَا، عَلْقَمًا عَاقِبَتُهَا.اَلَا وَ فِیْ غَدٍ ـ وَ سَیَاْتِیْ غَدٌۢ بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ ـ یَاْخُذُ الْوَالِیْ مِنْ غَیْرِهَا عُمَّالَهَا عَلٰی مَسَاوِیْۤ اَعْمَالِهَا، وَتُخْرِجُ لَهُ الْاَرْضُ اَفَالِیْذَ کَبِدِهَا، وَ تُلْقِیْ اِلَیْهِ سِلْمًا مَّقَالِیْدَهَا، فَیُرِیْکُمْ کَیْفَ عَدْلُ السِّیْرَةِ وَ یُحْیِیْ مَیِّتَ الْکِتَابِ وَ السُّنَّةِ.

(اس داعی حق سے پہلے) یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھن بھرے ہوئے، جن کا دودھ شیریں و خوش گوار معلوم ہو گا، لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہو گا۔ ہاں! کل اور یہ کل بہت نزدیک ہے کہ ایسی چیزوں کو لے کر آ جائے جنہیں ابھی تم نہیں پہچانتے۔ حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہو گا تمام حکمرانوں سے ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے مواخذہ کرے گا اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے انڈیل دے گی اور اپنی کنجیاں بسہولت اس کے آگے ڈال دے گی، چنانچہ وہ تمہیں دکھائے گا کہ حق و عدالت کی روش کیا ہوتی ہے اور وہ دم توڑ چکنے والی کتاب و سنت کو پھر سے زندہ کر دے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

کَاَنِّیْ بِهٖ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ کُوْفَانَ، فَعَطَفَ عَلَیْهَا عَطْفَ الضَّرُوْسِ، وَ فَرَشَ الْاَرْضَ بِالرُّؤُوْسِ. قَدْ فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، بَعِیْدَ الْجَوْلَةِ، عَظِیْمَ الصَّوْلَةِ.

گویا یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ(داعی باطل) شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے اور کاٹ کھانے والی اونٹنی کی طرح اس پر ( حملہ کرنے کیلئے) جھکا ہوا ہے اور اس نے زمین پر سروں کا فرش بچھا دیا ہے۔ اس کا منہ (پھاڑ کھانے کیلئے) کھل چکا ہے اور زمین میں اس کی پامالیاں بہت سخت ہو چکی ہیں وہ دور دور تک بڑھ جانے والا اور بڑے شد و مد سے حملہ کرنے والا ہے۔

وَاللهِ! لَیُشَرِّدَنَّکُمْ فِیْۤ اَطْرَافِ الْاَرْضِ حَتّٰی لَا یَبْقٰی مِنْکُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ، کَالْکُحْلِ فِی الْعَیْنِ، فَلَا تَزَالُوْنَ کَذٰلِکَ، حَتّٰی تَؤُوْبَ اِلَی الْعَرَبِ عَوَازِبُ اَحْلَامِهَا! فَالْزَمُوا السُّنَنَ الْقَآئِمَةَ، وَالْاٰثَارَ الْبَیِّنَةَ، وَ الْعَهْدَ الْقَرِیْبَ الَّذِیْ عَلَیْهِ بَاقِی النُّبُوَّةِ. وَاعْلَمُوْا اَنَّ الشَّیْطٰنَ اِنَّمَا یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ لِتَتَّبِعُوْا عَقِبَهٗ.

بخدا! وہ تمہیں اطراف زمین میں بکھیر دے گا، یہاں تک کہ تم میں سے کچھ تھوڑے ہی بچیں گے جیسے آنکھ میں سرمہ۔ تم اسی سراسیمگی کے عالم میں رہو گے، یہاں تک کہ عربوں کی عقلیں پھر اپنے ٹھکانے پر آ جائیں۔ تم مضبوط طریقوں، روشن نشانیوں اور اسی قریب کے عہد پر جمے رہو کہ جس میں نبوت کے پائیدار آثار ہیں اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان اپنے قدم بقدم چلانے کیلئے راہیں آسان کرتا رہتا ہے۔


امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حضرت حجت علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں ہے۔

یہ عبد الملک ابن مروان کی طرف اشارہ ہے کہ جو مروان کے بعد شام میں بر سر اقتدار آیا اور پھر مصعب کے مقابلہ میں مختار ابن ابی عبید کے مارے جانے پر یہ اپنے پرچم لہراتا ہوا عراق کی طرف بڑھا اور اطراف کوفہ میں دیر جاثلیق کے نزدیک مقام مسکن پر مصعب کی فوجوں سے نبرد آزما ہوا اور اسے شکست دینے کے بعد فتح مندانہ کوفہ میں داخل ہوا اور وہاں کے باشندوں سے بیعت لی اور پھر حجاج ابن یوسف ثقفی کو عبد اللہ ابن زبیر سے لڑنے کیلئے مکہ روانہ کیا، چنانچہ اس نے مکہ کا محاصرہ کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور ہزاروں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا، ابن زبیر کو قتل کر کے اس کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور خلق خدا پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ جن سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:11
عون نقوی

فِىْ مَعْنٰى طَلْحَةَ وَ الزُبَیْرِ

طلحہ و زبیر کے متعلق ارشاد فرمایا

وَ اللهِ! ماۤ اَنْکَرُوْا عَلَیَّ مُنْکَرًا، وَ لَا جَعَلُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ نِصْفًا، وَ اِنَّهُمْ لَیَطْلُبُوْنَ حَقًّا هُمْ تَرَکُوْهُ، وَ دَمًا هُمْ سَفَکُوْهُ، فَاِنْ کُنْتُ شَرِیْکَهُمْ فِیْهِ فَاِنَّ لَهُمْ نَصِیْبَهُمْ مِنْهُ، وَ اِنْ کَانُوْا وَلُوْهُ دُوْنِیْ فَمَا الطَّلِبَةُ اِلَّا قِبَلَهُمْ، وَ اِنَّ اَوَّلَ عَدْلِهِمْ لَلْحُکْمُ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ اِنَّ مَعِیْ لَبَصِیْرَتِیْ، مَا لَبَّسْتُ وَ لَا لُبِّسَ عَلَیَّ، وَ اِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، فِیْهَا الْحَمَاُ وَ الْحُمَةُ وَ الشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ،وَ اِنَّ الْاَمْرَ لَوَاضِحٌ، وَ قَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِّصَابِهٖ، وَ انْقَطَعَ لِسَانُهٗ عَنْ شَغَبِهٖ.

خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، میں نہیں تو پھر اس کا مطالبہ صرف انہی سے ہونا چاہیے اور ان کے عدل و انصاف کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف حکم لگائیں اور میرے ساتھ میری بصیرت کی جلوہ گری ہے، نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا اور بلا شبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنک (حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردے ڈالنے والے شبہے ہیں۔ (اب تو) حقیقت حال کھل کر سامنے آ چکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے اور شررانگیزی سے اس کی زبان بندی ہو چکی ہے۔

وَایْمُ اللهِ! لَاُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضًا اَنَا مَاتِحُهٗ، لَا یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ بِرِیٍّ، وَ لَا یَعُبُّوْنَ بَعْدَهٗ فِیْ حَسْیٍ.

خدا کی قسم! میں ان کیلئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں کہ جس سے سیراب ہو کر پلٹنا ان کے امکان میں نہ ہو گا اور نہ اس کے بعد کوئی گڑھا کھود کر پانی پی سکیں گے۔

[مِنْهُ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَاَقْبَلْتُمْ اِلَیَّ اِقْبَالَ الْعُوْذِ الْمَطَافِیْلِ عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، تَقُوْلُوْنَ: الْبَیْعَةَ الْبَیْعَةَ! قَبَضْتُ کَفِّیْ فَبَسَطْتُّمُوْهَا، وَ نَازَعْتُکُمْ یَدِیْ فَجَاذَبْتُمُوْهَا.

تم اس طرح (شوق و رغبت سے) بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑھے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا تو تم نے انہیں اپنی جانب پھیلایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا قَطَعَانِیْ وَ ظَلَمَانِیْ، وَ نَکَثَا بَیْعَتِیْ، وَ اَلَّبَا النَّاسَ عَلَیَّ، فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا، وَ لَا تُحْکِمْ لَهُمَا مَاۤ اَبْرَمَا، وَ اَرِهِمَا الْمَسَآءَةَ فِیْمَاۤ اَمَّلَا وَ عَمِلَا، وَ لَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَ اسْتَاْنَیْتُ بِهِمَاۤ اَمَامَ الْوِقَاعِ، فَغَمَطَا النِّعْمَةَ، وَ رَدَّا الْعَافِیَةَ.

خدایا! ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے، لہٰذا تو جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے بٹا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا بُرا نتیجہ دکھا۔ میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا، لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:08
عون نقوی

لَمْ تَکُنْۢ بَیْعَتُکُمْ اِیَّایَ فَلْتَةً، وَ لَیْسَ اَمْرِیْ وَ اَمْرُکُمْ وَاحِدًا. اِنِّیْۤ اُرِیْدُکُمْ لِلّٰهِ وَ اَنْتُمْ تُرِیْدُوْنَنِیْ لِاَنْفُسِکُمْ.

تم نے میری بیعت اچانک اور بے سوچے سمجھے نہیں کی تھی اور نہ میرا اور تمہارا معاملہ یکساں ہے۔ میں تمہیں اللہ کیلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کیلئے چاہتے ہو۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اَعِیْنُوْنِیْ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَایْمُ اللهِ! لَاُنْصِفَنَّ الْمَظْلُوْمَ مِنْ ظَالِمِهٖ، وَ لَاَقُوْدَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهٖ حَتّٰۤی اُوْرِدَهٗ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ اِنْ کَانَ کَارِهًا.

اے لوگو! اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلہ میں میری اعانت کرو۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سر چشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا۔ اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:05
عون نقوی

وَقَدْ وَقَعتْ مُشَاجَرَةُ بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ عُثْمَانَ، فَقَالَ الْمُغِیْرَةُ بْنُ الْاَخْنَسِ لِعُثْمَانَ: اَنَا اَکْفِیْکَهٗ، فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ لِلْمُغِیْرَةِ:

آپؑ میں اور عثمان ابن عفان میں کچھ بحث ہوئی تو مغیرہ ابن اخنس نے عثمان سے کہا: میں تمہاری طرف سے نپٹے لیتا ہوں، جس پر آپؑ نے مغیرہ سے کہا:

یَابْنَ اللَّعِیْنِ الْاَبْتَرِ، وَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ لَاۤ اَصْلَ لَهَا وَ لَا فَرْعَ، اَنْتَ تَکْفِیْنِیْ؟ فَوَاللهِ مَاۤ اَعَزَّ اللهُ مَنْ اَنْتَ نَاصِرُهٗ، وَ لَا قَامَ مَنْ اَنْتَ مُنْهِضُهٗ، اخْرُجْ عَنَّاۤ اَبْعَدَ اللهُ نَوَاکَ، ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَکَ، فَلَاۤ اَبْقَی اللهُ عَلَیْکَ اِنْ اَبْقَیْتَ!.

اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ، تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا۔ خدا کی قسم! جس کا تجھ ایسا مدد گار ہو، اللہ اسے غلبہ و سرفرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ ایسا ابھارنے والا ہو وہ (اپنے پیروں پر) کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ہم سے دور ہو! خدا تیری منزل کو دور ہی رکھے اور اس کے بعد جو بن پڑے کرنا اور اگر کچھ بھی مجھ پر ترس کھائے تو خدا تجھ پر رحم نہ کرے۔


’’مغیرہ ابن اخنس‘‘ حضرت عثمان کے ہوا خواہوں میں سے تھا۔ اس کا بھائی ابو الحکم ابن اخنس اُحد میں امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ حضرتؑ کی طرف سے دل میں کینہ و عناد رکھتا تھا۔ اس کا باپ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے موقع پر بظاہر ایمان لے آئے، مگر دلوں میں کفر و نفاق لئے ہوئے تھے، اس لئے اسے ’’لعین‘‘ فرمایا ہے۔ اور ’’ابتر‘‘ اس لئے کہا ہے کہ جس کی مغیرہ ایسی اولاد ہو وہ بے اولاد ہی سمجھے جانے کے لائق ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:34
عون نقوی