بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

بَعَثَ اللهُ رُسُلَهٗ بِمَا خَصَّهُمْ بِهٖ مِنْ وَّحْیِهٖ، وَ جَعَلَهُمْ حُجَّةً لَّهٗ عَلٰی خَلْقِهٖ، لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّةُ لَهُمْ بِتَرْکِ الْاِعْذَارِ اِلَیْهِمْ، فَدَعَاهُمْ بِلِسَانِ الصِّدْقِ اِلٰی سَبِیْلِ الْحَقِّ.

اللہ سبحانہ نے اپنے رسولوں کو وحی کے امتیازات کے ساتھ بھیجا اور انہیں مخلوق پر اپنی حجت ٹھہرایا تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوئی۔ چنانچہ اللہ نے انہیں سچی زبانوں سے راہ حق کی دعوت دی۔

اَلَا اِنَّ اللهَ قَدْ کَشَفَ الْخَلْقَ کَشْفَةً، لَاۤ اَنَّهٗ جَهِلَ ماۤ اَخْفَوْهُ مِنْ مَّصُوْنِ اَسْرَارِهِمْ وَ مَکْنُوْنِ ضَمَآئِرِهِمْ، وَ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، فَیَکُوْنَ الثَّوَابُ جَزَآءً، وَ الْعِقَابُ بَوَآءً.

(یوں تو) اللہ مخلوقات کو اچھی طرح جانتا بوجھتا ہے اور لوگوں کے ان رازوں اور بھیدوں سے کہ جنہیں وہ چھپا کر رکھتے ہیں بے خبر نہیں۔ (پھر یہ حکم و احکام اس لئے دیئے ہیں) کہ وہ ان لوگوں کو آزما کر ظاہر کر دے کہ ان میں اعمال کے اعتبار سے کون اچھا ہے تاکہ ثواب ان کی جزا اور عقاب ان کی (بد اعمالیوں) کی پاداش ہو۔

اَیْنَ الَّذِیْنَ زَعَمُوْۤا اَنَّهُمُ ﴿الرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ دُوْنَنَا، کَذِبًا وَّ بَغْیًا عَلَیْنَا، اَنْ رَّفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ، وَ اَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ، وَ اَدْخَلَنَا وَ اَخْرَجَهُمْ. بِنَا یُسْتَعْطَی الْهُدٰی، وَ یُسْتَجْلَی الْعَمٰی.

کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادّعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم؟ چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں (منصبِ امامت) دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اور ہمیں (منزلِ علم میں) داخل کیا ہے اور انہیں دور کر دیا ہے۔ ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے۔

اِنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ قُرَیْشٍ غُرِسُوْا فِیْ هٰذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ، لَا تَصْلُحُ عَلٰی سِوَاهُمْ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَیْرِهِمْ.

بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہو سکتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اٰثَرُوْا عَاجِلًا، وَ اَخَّرُوْا اٰجِلًا، وَ تَرَکُوْا صَافِیًا، وَ شَرِبُوْا اٰجِنًا، کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی فَاسِقِهِمْ وَ قَدْ صَحِبَ الْمُنکَرَ فَاَلِفَهٗ، وَ بَسِئَ بِهٖ وَ وَافَقَهٗ، حَتّٰی شَابَتْ عَلَیْهِ مَفَارِقُهٗ، وَ صُبِغَتْ بِهٖ خَلَآئِقُهٗ، ثُمَّ اَقْبَلَ مُزْبِدًا کَالتَّیَّارِ لَا یُبَالِیْ مَا غَرَّقَ، اَوْ کَوَقْعِ النَّارِ فِی الْهَشِیْمِ لَا یَحْفِلُ مَا حَرَّقَ!.

ان لوگوں نے دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور عقبیٰ کو پیچھے ڈال دیا ہے، صاف پانی چھوڑ دیا ہے اور گندا پانی پینے لگے ہیں۔ گویا میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ برائیوں میں رہا اتنا کہ انہی برائیوں سے اسے محبت ہو گئی اور ان سے مانوس ہوا اور ان سے اتفاق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ (انہی برائیوں میں) اس کے سر کے بال سفید ہو گئے اور اسی رنگ میں اس کی طبیعت رنگ گئی۔ پھر یہ کہ وہ (منہ سے) کف دیتا ہوا متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھا، بغیر اس کا کچھ خیال کئے کہ کس کو ڈبو رہا ہے اور بھوسے میں لگی ہوئی آگ کی طرح پھیلا، بغیر اس کی پروا کئے ہوئے کہ کون سی چیزیں جلا رہا ہے۔

اَیْنَ الْعُقُوْلُ الْمُسْتَصْبِحَةُ بِمَصَابِیْحِ الْهُدٰی، وَ الْاَبْصَارُ اللَّامِحَةُ اِلٰی مَنَارِ التَّقْوٰی! اَیْنَ الْقُلُوْبُ الَّتِیْ وُهِبَتْ لِلّٰهِ، وَ عُوْقِدَتْ عَلٰی طَاعَةِ اللهِ! ازْدَحَمُوْا عَلٰی الْحُطَامِ، وَ تَشَاحُّوْا عَلَی الْحَرَامِ، وَ رُفِعَ لَهُمْ عَلَمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ، فَصَرَفُوْا عَنِ الْجَنَّةِ وُجُوْهَهُمْ، وَ اَقْبَلُوْۤا اِلَی النَّارِ بِاَعْمَالِهِمْ، دَعَاهُمْ رَبُّهُمْ فَنَفَرُوْا وَ وَلَّوْا، وَ دَعَاهُمُ الشَّیْطٰنُ فَاسْتَجَابُوْا وَ اَقْبَلُوْا!.

کہاں ہیں ہدایت کے چراغوں سے روشن ہونے والی عقلیں؟ اور کہاں ہیں تقویٰ کے روشن مینار کی طرف دیکھنے والی آنکھیں؟ اور کہاں ہیں اللہ کے ہو جانے والے قلوب اور اس کی اطاعت پر جم جانے والے دل؟ وہ تو مال دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں اور (مال) حرام پر جھگڑ رہے ہیں۔ ان کے سامنے جنت اور دوزخ کے جھنڈے بلند ہیں، لیکن انہوں نے جنت سے اپنے منہ موڑ لئے ہیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ کی طرف بڑھ نکلے ہیں۔ اللہ نے ان لوگوں کو بلایا تو یہ بھڑک اٹھے اور پیٹھ پھرا کر چل دیئے اور شیطان نے ان کو دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف لپک پڑے۔


اس سے ’’عبد الملک ابن مروان‘‘ مراد ہے کہ جس نے اپنے عامل حجاج ابن یوسف کے ذریعہ ظلم و سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:34
عون نقوی

فِی الْاِسْتِسْقَآءِ

طلب باراں کے سلسلہ میں

اَلَا وَ اِنَّ الْاَرْضَ الَّتِیْ تَحْمِلُکُمْ، وَ السَّمَآءَ الَّتِیْ تُظِلُّکُمْ، مُطِیْعَتَانِ لِرَبِّکُمْ، وَ مَاۤ اَصْبَحَتَا تَجُوْدَانِ لَکُمْ بِبَرَکَتِهِمَا تَوَجُّعًا لَّکُمْ، وَ لَا زُلْفَةً اِلَیْکُمْ، وَ لَا لِخَیْرٍ تَرْجُوَانِهٖ مِنْکُمْ، وَ لٰکِنْ اُمِرَتَا بِمَنَافِعِکُمْ فَاَطَاعَتَا، وَ اُقِیْمَتَا عَلٰی حُدُوْدِ مَصَالِحِکُمْ فَقَامَتَا.

دیکھو یہ زمین جو تمہیں اٹھائے ہوئے ہے اور یہ آسمان جو تم پر سایہ گُستر ہے، دونوں تمہارے پروردگار کے زیر فرمان ہیں۔ یہ اپنی برکتوں سے اس لئے تمہیں مالا مال نہیں کرتے کہ ان کا دل تم پر کڑھتا ہے، یا تمہارا تقرب چاہتے ہیں، یا کسی بھلائی کے تم سے امیدوار ہیں، بلکہ یہ تو تمہاری منفعت رسانی پر مامور ہیں جسے بجا لاتے ہیں اور تمہاری مصلحتوں کی حدوں پر انہیں ٹھہرایا گیا ہے چنانچہ یہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔

اِنَّ اللهَ یَبْتَلِیْ عِبَادَهٗ عِنْدَ الْاَعْمَالِ السَّیِّئَةِ بِنَقْصِ الثَّمَرَاتِ، وَ حَبْسِ الْبَرَکَاتِ، وَ اِغْلَاقِ خَزَآئِنِ الْخَیْرَاتِ، لِیَتُوْبَ تَآئِبٌ، وَ یُقْلِعَ مُقْلِعٌ، وَ یَتَذَکَّرَ مُتَذَکِّرٌ، وَ یَزْدَجِرَ مُزْدَجِرٌ.

(البتہ) اللہ سبحانہ بندوں کو ان کی بد اعمالیوں کے وقت پھلوں کے کم کرنے، برکتوں کے روک لینے اور انعامات کے خزانوں کو بند کر دینے سے آزماتا ہے، تاکہ توبہ کرنے والا توبہ کرے، (انکار و سرکشی سے) باز آنے والا باز آ جائے، نصیحت و عبرت حاصل کرنے والا نصیحت و بصیرت حاصل کرے اور گناہوں سے رکنے والا رک جائے۔

وَ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ الْاِسْتِغْفَارَ سَبَبًا لِّدُرُوْرِ الرِّزْقِ وَ رَحْمَةِ الْخَلْقِ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ؕ اِنَّهٗ کَانَ غَفَّارًاۙ۝یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًاۙ۝ وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ﴾. فَرَحِمَ اللهُ امْرَاًَ اسْتَقْبَلَ تَوْبَتَهٗ، وَ اسْتَقَالَ خَطِیْٓـئَتَهٗ، وَ بَادَرَ مَنِیَّتَهٗ!.

اللہ سبحانہ نے توبہ و استغفار کو روزی کے اترنے کا سبب اور خلق پر رحم کھانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ارشاد ہے کہ: ’’اپنے پروردگار سے توبہ و استغفار کرو، بلا شبہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہی تم پر موسلا دھار مینہ برساتا ہے اور مال و اولاد سے تمہیں سہارا دیتا ہے‘‘ ۔ خدا اس شخص پر رحم کرے جو توبہ کی طرف متوجہ ہو اور گناہوں سے ہاتھ اٹھائے اور موت سے پہلے نیک اعمال کر لے۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا خَرَجْنَاۤ اِلَیْکَ مِنْ تَحْتِ الْاَسْتَارِ وَ الْاَکْنَانِ، وَ بَعْدَ عَجِیْجِ الْبَهَآئِمِ وَ الْوِلْدَانِ، رَاغِـبِیْنَ فِیْ رَحْمَتِکَ، وَ رَاجِیْنَ فَضْلَ نِعْمَتِکَ، وَخَآئِفِیْنَ مِنْ عَذَابِکَ وَنِقْمَتِکَ.

بار الٰہا! تیری رحمت کی خواہش کرتے ہوئے اور نعمتوں کی فراوانی چاہتے ہوئے اور تیرے عذاب و غضب سے ڈرتے ہوئے ہم پردوں اور گھروں کے گوشوں سے تیری طرف نکل کھڑے ہوئے ہیں، اس وقت جبکہ چوپائے چیخ رہے ہیں اور بچے چلا رہے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ فَاسْقِنَا غَیْثَکَ، وَ لَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْقَانِطِیْنَ، وَ لَا تُهْلِکْنَا بِالسِّنِیْنَ، وَ لَا تُؤَاخِذْنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

خدایا! ہمیں بارش سے سیراب کر دے اور ہمیں مایوس نہ کر اور خشک سالی سے ہمیں ہلاک نہ ہونے دے اور ہم میں سے کچھ بے وقوفوں کے کرتوت پر ہمیں اپنی گرفت میں نہ لے، اے رحم کرنے والوں میں بہت رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا خَرَجْنَاۤ اِلَیْکَ نَشْکُوْۤ اِلَیْکَ مَا لَا یَخْفٰی عَلَیْکَ، حِیْنَ اَلْجَاَتْنَا الْمَضَآئِقُ الْوَعْرَةُ، وَ اَجَآءَتْنَا الْمَقَاحِطُ الْمُجْدِبَةُ، وَ اَعْیَتْنَا الْمَطَالِبُ الْمُتَعَسِّرَةُ، وَ تَلَاحَمَتْ عَلَیْنَا الْفِتَنُ الْمُسْتَصْعَبَةُ.

خدایا! جب ہمیں سخت تنگیوں نے مضطرب و بے چین کردیا اور قحط سالیوں نے بے بس بنا دیا اور شدید حاجتمندیوں نے لاچار بنا ڈالا اور منہ زور فتنوں کا ہم پر تانتا بندھ گیا تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں گلہ لے کر اس کا جو تجھ سے پوشیدہ نہیں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ اَنْ لَّا تَرُدَّنَا خَآئِبـِیْنَ، وَ لَا تَقْلِبْنَا وَاجِمِیْنَ، وَ لَا تُخَاطِبْنَا بِذُنُوْبِنَا، وَ لَا تُقَایِسْنَا بِاَعْمَالِنَا.

اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمیں محروم نہ پلٹا اور نہ اس طرح کہ ہم اپنے نفسوں پر پیچ و تاب کھا رہے ہوں اور ہمارے گناہوں کى بنا پر ہم سے (عتاب آمیز) خطاب نہ کر اور ہمارے کئے کے مطابق ہم سے سلوک نہ کر۔

اَللّٰهُمَّ انْشُرْ عَلَیْنَا غَیْثَکَ وَ بَرَکَتَکَ، وَ رِزْقَکَ وَ رَحْمَتَکَ، وَ اسْقِنَا سُقْیًا نَّافِعَةً مُّرْوِیَةً مُّعْشِبَةً، تُنْۢبِتُ بِهَا مَا قَدْ فَاتَ، وَ تُحْیِیْ بِهَا مَا قَدْ مَاتَ، نَافِعَةَ الْحَیَا، کَثِیْرَةَ الْمُجْتَنٰی، تُرْوِیْ بِهَا الْقِیْعَانَ، وَ تُسِیْلُ الْبُطْنَانَ، وَ تَسْتَوْرِقُ الْاَشْجَارَ، وَ تُرْخِصُ الْاَسْعَارَ، اِنَّکَ عَلٰی مَا تَشَآءُ قَدِیْرٌ.

خداوندا! تو ہم پر باران و برکت اور رزق و رحمت کا دامن پھیلا دے اور ایسی سیرابی سے ہمیں نہال کر دے جو فائدہ بخشنے والی اور سیراب کرنے والی اور گھاس پات اُگانے والی ہو کہ جس سے تو گئی گزری ہوئی (کھیتیوں میں پھر سے) روئیدگی لے آئے اور مردہ زمینوں میں حیات کی لہریں دوڑا دے۔ وہ ایسی سیرابی ہو کہ جس کی تر و تازگی (سر تاسر) فائدہ مند اور چنے ہوئے پھلوں کے انبار لئے ہو جس سے تو ہموار زمینوں کو جل تھل بنا دے اور ندی نالے بہا دے اور درختوں کو برگ و بار سے سر سبز کر دے اور نرخوں کو سستا کر دے۔ بلاشبہ تو جو چاہے اس پر قادر ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:31
عون نقوی

وَ لَیْسَ لِوَاضِعِ الْمَعْرُوْفِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ وَ عِنْدَ غَیْرِ اَهْلِهٖ، مِنَ الْحَظِّ فِیْمَاۤ اَتٰی اِلَّا مَحْمَدَةُ اللِّئَامِ، وَثَنَآءُ الْاَشْرَارِ، وَ مَقَالَةُ الْجُهَّالِ، مَادَامَ مُنْعِمًا عَلَیْهِمْ، ماۤ اَجْوَدَ یَدَهٗ! وَ هُوَ عَنْ ذَاتِ اللهِ بَخِیْلٌ!.

جو شخص غیر مستحق کے ساتھ حسن سلوک برتتا ہے اور نااہلوں کے ساتھ احسان کرتا ہے، اس کے پلے یہی پڑتا ہے کہ کمینے اور شریر اس کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں اور جب تک وہ دیتا دلاتا رہے جاہل کہتے رہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کتنا سخی ہے۔ حالانکہ اللہ کے معاملہ میں وہ بخل کرتا ہے۔

فَمَنْ اٰتَاهُ اللهُ مَالًا فَلْیَصِلْ بِهِ الْقَرَابَةَ، وَ لْیُحْسِنْ مِنْهُ الضِّیَافَةَ، وَ لْیَفُکَّ بِهِ الْاَسِیْرَ وَ الْعَانِیَ، وَ لْیُعْطِ مِنْهُ الْفَقِیْرَ وَ الْغَارِمَ، وَ لْیَصْبِرْ نَفْسَهٗ عَلَی الْحُقُوْقِ وَ النَّوَآئِبِ ابْتِغَآءَ الثَّوَابِ، فَاِنَّ فَوْزًۢا بِهٰذِهِ الْخِصَالِ شَرَفُ مَکَارِمِ الدُّنْیَا، وَ دَرْکُ فَضَآئِلِ الْاٰخِرَةِ، اِنْ شَآءَ اللهُ.

چاہیے تو یہ کہ اللہ نے جسے مال دیا ہے وہ اس سے عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خوش اسلوبی سے مہمان نوازی کرے، قیدیوں اور خستہ حال اسیروں کو آزاد کرائے، محتاجوں اور قرضداروں کو دے اور ثواب کی خواہش میں حقوق کی ادائیگی اور مختلف زحمتوں کو اپنے نفس پر برداشت کرے۔ اس لئے کہ ان خصائل و عادات سے آراستہ ہونا دنیا کی بزرگیوں سے شرفیاب ہونا اور آخرت کی فضیلتوں کو پا لینا ہے۔ ان شاء اللہ!


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:27
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! مَنْ عَرَفَ مِنْ اَخِیْهِوَثِیْقَةَ دِیْنٍ وَّ سَدَادَ طَرِیْقٍ، فَلَا یَسْمَعَنَّ فِیْهِ اَقَاوِیْلَ الرِّجَالِ، اَمَاۤ اِنَّهٗ قَدْ یَرْمِی الرَّامِیْ، وَ تُخْطِئُ السِّهَامُ، وَ یَحِیْلُ الْکَلَامُ، وَ بَاطِلُ ذٰلِکَ یَبُوْرُ، وَاللهُ سَمِیْعٌ وَّ شَهِیْدٌ.

اے لوگو! اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کی دینداری کی پختگی اور طور طریقوں کی درستگی کا علم ہو تو پھر اس کے بارے میں افواہی باتوں پر کان نہ دھرو۔ دیکھو! کبھی تیر چلانے والا تیر چلاتا ہے اور اتفاق سے تیر خطا کر جاتا ہے اور بات ذرا میں اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور جو غلط بات ہو گی وہ خود ہی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اللہ ہر چیز کا سننے والا اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔

اَمَاۤ اِنَّهٗ لَیْسَ بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَرْبَعُ اَصَابِـعَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ سچ اور جھوٹ میں صرف چار انگلیوں کا فاصلہ ہے۔

فَسُئِلَ ؑ عَنْ مَّعْنٰی قَوْلِهٖ هٰذَا، فَجَمَعَ اَصَابِعَهٗ وَ وَضَعَهَا بَیْنَ اُذُنِهٖ وَ عَیْنِهٖ، ثُمَّ قَالَ:

جب آپؑ سے اس کا مطلب پوچھا گیا تو آپؑ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کر کے اپنے کان اور آنکھ کے درمیان رکھا اور فرمایا:

اَلْبَاطِلُ اَنْ تَقُوْلَ سَمِعْتُ، وَ الْحَقُّ اَنْ تَقُوْلَ رَاَیْتُ!.

جھوٹ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے سنا اور سچ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے دیکھا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:25
عون نقوی

فِی النَّهْیِ عَنْ عَیْبِ النَّاسِ

اس میں لوگوں کو دوسروں کے عیب بیان کرنے سے روکا ہے

وَ اِنَّمَا یَنْۢبَغِیْ لِاَهْلِ الْعِصْمَةِ وَ الْمَصْنُوْعِ اِلَیْهِمْ فِی السَّلَامَةِ اَنْ یَّرْحَمُوْۤا اَهْلَ الذُّنُوْبِ وَ الْمَعْصِیَةِ، وَ یَکُوْنَ الشُّکْرُ هُوَ الْغَالِبَ عَلَیْهِمْ وَ الْحَاجِزَ لَهُمْ عَنْهُمْ، فَکَیْفَ بِالْعَآئِبِ الَّذِیْ عَابَ اَخَاهُ وَ عَیَّرَهٗ بِبَلْوَاهُ!.

جن لوگوں کا دامن خطاؤں سے پاک صاف ہے اور بفضل الٰہی گناہوں سے محفوظ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ گنہگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس چیز کا شکر ہی (کہ اللہ نے انہیں گناہوں سے بچائے رکھا ہے) ان پر غالب اور دوسروں (کے عیب اچھالنے) سے مانع رہے، چہ جائیکہ وہ عیب لگانے والا اپنے کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرے اور اس کے عیب بیان کر کے طعن و تشنیع کرے۔

اَمَا ذَکَرَ مَوْضِعَ سَتْرِ اللهِ عَلَیْهِ مِنْ ذُنُوْبِهٖ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنَ الذَّنْۢبِ الَّذِیْ عَابَهٗ بِهٖ! وَ کَیْفَ یَذُمُّهٗ بِذَنْۢبٍ قَدْ رَکِبَ مِثْلَهٗ! فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ رَّکِبَ ذٰلِکَ الذَّنْۢبَ بِعَیْنِهٖ فَقَدْ عَصَی اللهَ فِیْمَا سِوَاهُ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنْهُ. وَایْمُ اللهِ لَئِنْ لَّمْ یَکُنْ عَصَاهُ فِی الْکَبِیْرِ وَ عَصَاهُ فِی الصَّغِیْرِ، لَجُرْاَتُهٗ عَلٰی عَیْبِ النَّاسِ اَکْبَرُ!.

یہ آخر خدا کی اس پر دہ پوشی کو کیوں نہیں یاد کرتا جو اس نے خود اس کے ایسے گناہوں پر کی ہے جو اس گناہ سے بھی جس کی وہ غیبت کر رہا ہے بڑے تھے اور کیونکر کسی ایسے گناہ کی بنا پر اس کی بُرائی کرتا ہے جبکہ خود بھی ویسے ہی گناہ کا مرتکب ہو چکا ہے اور اگر بعینہ ویسا گناہ نہیں بھی کیا تو ایسے گناہ کئے ہیں کہ جو اس سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے۔ خدا کی قسم! اگر اس نے گناہ کبیرہ نہیں بھی کیا تھا اور صرف صغیرہ کا مرتکب ہوا تھا تب بھی اس کا لوگوں کے عیوب بیان کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

یَا عَبْدَ اللهِ! لَا تَعْجَلْ فِیْ عَیْبِ اَحَدٍۭ بِذَنْۢبِهٖ فَلَعَلَّهُ مَغْفُوْرٌ لَّهٗ، وَ لَا تَاْمَنْ عَلٰی نَفْسِکَ صَغِیْرَ مَعْصِیَةٍ فَلَعَلَّکَ مُعَذَّبٌ عَلَیْهِ، فَلْیَکْفُفْ مَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ عَیْبَ غَیْرِهٖ لِمَا یَعْلَمُ مِنْ عَیْبِ نَفْسِهٖ، وَلْیَکُنِ الشُّکْرُ شَاغِلًا لَّهٗ عَلٰی مُعَافَاتِهٖ مِمَّا ابْتُلِیَ بِهٖ غَیْرُهٗ.

اے خدا کے بندے! جھٹ سے کسی پر گناہ کا عیب نہ لگا، شاید اللہ نے وہ بخش دیا ہو اور اپنے کسی چھوٹے (سے چھوٹے) گناہ کیلئے بھی اطمینان نہ کر، شاید کہ اس پر تجھے عذاب ہو۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی کسی دوسرے کے عیوب جانتا ہو اسے ان کے اظہار سے باز رہنا چاہیے اس علم کی وجہ سے جو خود اسے اپنے گناہوں کے متعلق ہے اور اس امر کا شکر کہ اللہ نے اسے ان چیزوں سے محفوظ رکھا ہے کہ جن میں دوسرے مبتلا ہیں کسی اور طرف اسے متوجہ نہ ہونے دے۔


عیب جوئی و خوردہ گیری کا مشغلہ اتنا عام اور ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اس کی برائی کا احساس تک جاتا رہا ہے اور اب تو نہ خواص کی زبانیں بند ہیں نہ عوام کی، نہ منبر کی رفعت اس سے مانع ہے نہ محراب کی تقدیس، بلکہ جہاں چند ہم خیال جمع ہوں گے موضوع سخن اور دلچسپ مشغلہ یہی ہو گا کہ اپنے فریق مخالف کے عیوب رنگ آمیزیوں سے بیان کئے جائیں اور کان دھر کر ذوق سماعت کا مظاہرہ کیا جائے۔ حالانکہ غیبت کرنے والے کا دامن ان آلودگیوں سے خود آلودہ ہوتا ہے جن کا اظہار وہ دوسروں کیلئے کرتا ہے، مگر وہ اپنے لئے یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے عیوب آشکارا ہوں تو پھر اسے دوسروں کے جذبات کا بھی پاس و لحاظ کرتے ہوئے ان کی عیب گیری و دل آزاری سے احتراز کرنا چاہئے اور« آنچہ برای خود نمی پسندی برای دیگران ھم مپسند» پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
’’غیبت‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ اپنے کسی برادر مومن کے عیب کو بغرض تنقیص اس طرح بے نقاب کرنا کہ اس کیلئے دل آزاری کا باعث ہو، چاہے یہ اظہار زبان سے ہو، یا محاکات سے، اشارہ سے ہو یا کنایہ و تعریض سے۔ بعض لوگ غیبت بس اسی کو سمجھتے ہیں جو غلط اور خلاف واقع ہو اور جو دیکھا اور سنا ہو اسے جوں کا توں بیان کر دینا ان کے نزدیک غیبت نہیں ہوتی اور وہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غیبت نہیں کرتے، بلکہ جو دیکھا یا سنا ہے اسے صحیح صحیح بیان کر دیا ہے۔ حالانکہ غیبت اسی سچ کہنے کا نام ہے اور اگر جھوٹ ہو تو وہ افترا و بہتان ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ:
هَلْ تَدْرُوْنَ مَا الْغِیْبَةُ؟ قَالُوْا: اللّٰهُ وَ رَسُوْلُه اَعْلَمُ، قَالَ: ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَهُ، قِیْلَ: اَ رَاَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْۤ اَخِیْ مَاۤ اَقُوْلُ؟ قَالَ: اِنْ کَانَ فِیْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَه وَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْهِ فَقَدْ بَهَتَّه‏.تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جو اس کیلئے ناگواری کا باعث ہو۔ کہنے والے نے کہا کہ: اگر میں وہی بات کہوں جو واقعاً اس میں پائی جاتی ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ: اگر ہو جب ہی تو وہ غیبت ہے اور اگر نہ ہو تو تم نے اس پر افترا باندھا ہے۔(۱)
غیبت میں مبتلا ہونے کے بہت سے وجوه و اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان کہیں دانستہ اور کہیں نا دانستہ اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ امام غزالی نے احیائے العلوم میں ان وجوہ و اسباب کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ان میں چند نمایاں اسباب یہ ہیں:
۱۔ کسی کی ہنسی اڑانے اور اسے پست و سبک دکھانے کیلئے۔
۲۔لوگوں کو ہنسانے اور اپنی زندہ دلی و خوش طبعی کا مظاہرہ کرنے کیلئے۔
۳۔ غیظ و غضب کے تقاضوں سے متاثر ہو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے۔
۴۔ کسی کی تنقیص سے اپنا تفوق جتلانے کیلئے۔
۵۔ اپنی بے تعلقی اور برائت ظاہر کرنے کیلئے کہ یہ بات مجھ سے سرزد نہیں ہوئی بلکہ فلاں سے سرزد ہوئی ہے۔
۶۔ کسی بزم میں بیٹھ کر ہم رنگ جماعت ہونے کیلئے تا کہ اس سے اجنبیت نہ برتی جائے۔
۷۔ کسی ایسے شخص کی بات کو بے وقعت بنانے کیلئے کہ جس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ اس کے کسی عیب کو بے نقاب کر دے گا
۸۔ اپنے کسی ہم پیشہ رقیب کی سرد بازاری کیلئے۔
۹۔ کسی رئیس کی بار گاہ میں تقرب حاصل کرنے کیلئے۔
۱۰۔ اظہار رنج و تاسف کیلئے یہ کہنا کہ مجھے افسوس ہے کہ فلاں شریف زادہ فلاں بُری بات میں مبتلا ہو گیا ہے۔
۱۱۔ اظہار تعجب کیلئے مثلاً اس طرح کہنا کہ مجھے حیرت ہے کہ فلاں شخص اور یہ کام کرے۔
۱۲۔ کسی امر قبیح پر غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے اس کے مرتکب کا نام لے دینا۔
البتہ چند صورتوں میں عیب گیری و نکتہ چینی غیبت میں شمار نہیں ہوتی:
۱۔ مظلوم اگر داد رسی کیلئے ظالم کا گلہ کرے تو غیبت نہیں ہے۔ جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:
﴿لَا یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ‌ؕ﴾
اللہ برائی کے اچھالنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ کہ جس پر ظلم کیا گیا ہو۔(۲)
۲۔ مشورہ دینے کے موقعہ پر کسی کا کوئی عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے، کیونکہ مشورہ میں غل و غش جائز نہیں ہے۔
۳۔ اگر استفتاء کے سلسلہ میں کسی خاص شخص کو متعین کئے بغیر مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو علی قدر الضرورة اس کا عیب بیان کر دینا غیبت نہ ہو گا۔
۴۔ کسی مسلمان کو ضرر سے بچانے کیلئے کسی خائن و بد دیانت کی بد دیانتی سے آگاہ کر دینا غیبت نہ ہوگا۔
۵۔ کسی ایسے شخص کے سامنے کسی کی برائی بیان کرنا کہ جو اسے برائی سے روک سکتا ہو غیبت نہیں ہے۔
۶۔ روایت کے سلسلہ میں رواة پر نقد و تبصرہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
۷۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی عیب ہی سے متعارف ہو تو اسے پہچنوانے کیلئے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہ ہو گا جیسے بہرا، گونگا، گنجا، لنگڑا وغیرہ۔
۸۔ بغرض علاج طبیب کے سامنے مریض کے کسی عیب کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔
۹۔ اگر کوئی غلط نسب کا مدعی ہو تو اس کے نسب کی تردید کرنا غیبت نہ ہو گا۔
۱۰۔ اگر کسی کی جان، مال یا عزت کا بچاؤ اسی صورت میں ہو سکتا ہو کہ اسے کسی عیب سے روشناس کیا جائے تو یہ بھی غیبت نہیں ہے۔
۱۱۔ اگر دو شخص آپس میں کسی کی ایسی برائی کا ذکر کریں کہ جو انہیں پہلے سے معلوم ہو تو یہ اگرچہ غیبت نہیں ہے تاہم زبان کو بچانا ہی بہترہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک بھول چکا ہو۔
۱۲۔ جو علانیہ فسق و فجور کرتا ہو، اس کی برائی کرنا غیبت نہیں جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے:
مَنْ اَلْقٰى جِلْبَابَ الْحَیَآءِ فَلَا غِیْبَةَ لَه.
جو حیا کی چادر اتار ڈالے اس کی غیبت، غیبت نہیں۔(۳)

[۱]۔ عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۲۷۵۔ تفسیر الطبری، ج ۲۲، ص ۳۰۵۔
[۲]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۴۸۔
[۳]۔ تفسیر در‎ منشور، ج ۷، ص ۵۷۷۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:23
عون نقوی