بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

قَبْلَ مَوْتِهٖ

شہادت سے پہلے فرمایا

اَیُّهَا النَّاسُ! کُلُّ امْرِئٍ لَّاقٍ مَّا یَفِرُّ مِنْهُ فِیْ فِرَارِهٖ، وَ الْاَجَلُ مَسَاقُ النَّفْسِ، وَ الْهَرَبُ مِنْهُ مُوَافَاتُهٗ. کَمْ اَطْرَدْتُّ الْاَیَّامَ اَبْحَثُهَا عَنْ مَّکْنُوْنِ هٰذَا الْاَمْرِ، فَاَبَی اللهُ اِلَّاۤ اِخْفَآءَهٗ، هَیْهَاتَ! عِلْمٌ مَّخْزُوْنٌ!.

اے لوگو! ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے وہی حیات کی منزل منتہا ہے۔ موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ میں نے اس موت کے چھپے ہوئے بھیدوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزارا مگر مشیت ایزدی یہی رہی کہ اس کی (تفصیلات) بے نقاب نہ ہوں۔ اس کی منزل تک رسائی کہاں وہ تو ایک پوشیدہ علم ہے۔

اَمَّا وَصِیَّتِیْ: فَاللهُ لَا تُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ ﷺ فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ، وَ خَلَاکُمْ ذَمٌّ مَّالَمْ تَشْرُدُوْا. حُمِّلَ کُلُّ امْرِئٍ مَّجْهُوْدَهٗ، وَ خُفِّفَ عَنِ الْجَهَلَةِ، رَبٌّ رَّحِیْمٌ، وَ دِیْنٌ قَوِیْمٌ، وَ اِمَامٌ عَلِیْمٌ.

تو ہاں میری وصیت یہ ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرو۔ ان دونوں ستونوں کو قائم و برقرار رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن کئے رہو۔ جب تک منتشر و پراگندہ نہیں ہوتے تم میں کوئی برائی نہیں آئے گی۔ تم میں سے ہر شخص اپنی وسعت بھر بوجھ اٹھائے۔ نہ جاننے والوں کا بوجھ بھی ہلکا رکھا گیا ہے۔ (کیونکہ) اللہ رحم کرنے والا، دین سیدھا (کہ جس میں کوئی الجھاؤ نہیں) اور پیغمبرؐ عالم و دانا ہے۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُکُمْ، وَ اَنَا الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّکُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُکُمْ! غَفَرَ اللهُ لِیْ وَ لَکُمْ! اِنْ تَثْبُتِ الْوَطْاَةُ فِیْ هٰذِهِ الْمَزَلَّةِ فَذَاکَ، وَ اِنْ تَدْحَضِ الْقَدَمُ فَاِنَّا کُنَّا فِیْۤ اَفْیَآءِ اَغْصَانٍ، وَ مَهَابِّ رِیَاحٍ، وَ تَحْتَ ظِلِّ غَمَامٍ، اضْمَحَلَّ فِی الْجَوِّ مُتَلَفِّقُهَا، وَ عَفَا فِی الْاَرْضِ مَخَطُّهَا.

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوا ہوں اور کل تم سے چھوٹ جاؤں گا۔ خدا مجھے اور تمہیں مغفرت عطا کرے۔ اگر اس پھسلنے کی جگہ پر قدم جمے رہے تو خیر اور اگر قدموں کا جماؤ اکھڑ گیا تو ہم بھی انہی (گھنی) شاخوں کی چھاؤں، ہوا کی گزرگاہوں اور چھائے ہوئے ابر کے سایوں میں تھے، (لیکن) اس کے تہ بہ تہ جمے ہوئے لکے چھٹ گئے اور ہوا کے نشانات مٹ مٹا گئے۔

وَ اِنَّمَا کُنْتُ جَارًا جَاوَرَکُمْ بَدَنِیْۤ اَیَّامًا، وَ سَتُعْقَبُوْنَ مِنِّیْ جُثَّةً خَلَآءً: سَاکِنَةًۢ بَعْدَ حَرَاکٍ، وَ صَامِتَةًۢ بَعْدَ نُطْقٍ، لِیَعِظْکُمْ هُدُوِّیْ، وَ خُفُوْتُ اِطْرَاقِیْ، وَ سُکُوْنُ اَطْرَافِیْ، فَاِنَّهٗ اَوْعَظُ لِلْمُعْتَبِرِیْنَ مِنَ الْمَنْطِقِ الْبَلِیْغِ وَ الْقَوْلِ الْمَسْمُوْعِ، وَ دَاعِیْکُمْ وَدَاعُ امْرِئٍ مُّرْصِدٍ لِّلتَّلَاقِیْ! غَدًا تَرَوْنَ اَیَّامِیْ، وَ یُکْشَفُ لَکُمْ عَنْ سَرَآئِرِیْ، وَ تَعْرِفُوْنَنِیْ بَعْدَ خُلُوِّ مَکَانِیْ وَ قِیَامِ غَیْرِیْ مَقَامِیْ.

میں تمہارا ہمسایہ تھا کہ میرا جسم چند دن تمہارے پڑوس میں رہا اور میرے مرنے کے بعد مجھے جسدِ بے روح پاؤ گے کہ جو حرکت کرنے کے بعد تھم گیا اور بولنے کے بعد خاموش ہو گیا، تاکہ میرا یہ سکون اور ٹھہراؤ اور آنکھوں کا مندھ جانا اور ہاتھ پیروں کا بے حس و حرکت ہو جانا تمہیں پند و نصیحت کرے، کیونکہ عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے یہ (منظر) بلیغ کلموں اور کان میں پڑنے والی باتوں سے زیادہ موعظت و عبرت دلانے والا ہوتا ہے- میں تم سے اس طرح رخصت ہو رہا ہوں جیسے کوئی شخص (کسی کی) ملاقات کیلئے چشم براہ ہو۔ کل تم میرے اس دور کو یاد کرو گے اور میری نیتیں کھل کر تمہارے سامنے آ جائیں گی اور میری جگہ کے خالی ہونے اور دوسروں کے اس مقام پر آنے سے تمہیں میری قدر و منزلت کی پہچان ہو گی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:19
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ اَهْلِ الْبَصْرَةِ

(اہل بصرہ کے بارے میں)

کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا یَرْجُو الْاَمْرَ لَهٗ، وَ یَعْطِفُهٗ عَلَیْهِ دُوْنَ صَاحِبِهٖ، لَا یَمُتَّانِ اِلَی اللهِ بِحَبْلٍ، وَ لَا یَمُدَّانِ اِلَیْهِ بِسَبَبٍ. کُلُّ واحِدٍ مِّنْهُمَا حَامِلُ ضَبٍّ لِّصَاحِبِهٖ، وَ عَمَّا قَلِیْلٍ یُّکْشَفُ قِنَاعُهٗ بِهٖ!.

ان دونوں (طلحہ و زبیر) میں سے ہر ایک اپنے لئے خلافت کا امیدوار ہے اور اسے اپنی ہی طرف موڑ کر لانا چاہتا ہے، نہ اپنے ساتھی کی طرف۔ وہ اللہ کی طرف کسی وسیلہ سے توسل نہیں ڈھونڈتے اور نہ کوئی ذریعہ لے کر اس کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف سے (دلوں میں) کینہ لئے ہوئے ہیں اور جلد ہی اس سلسلے میں بے نقاب ہو جائیں گے۔

وَاللهِ! لَئِنْ اَصَابُوا الَّذِیْ یُرِیْدُوْنَ لَیَنْتَزِعَنَّ هٰذَا نَفْسَ هٰذَا، وَ لَیَاْتِیَنَّ هٰذَا عَلٰی هٰذَا، قَدْ قَامَتِ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، فَاَیْنَ الْمُحْتَسِبُوْنَ؟! قَدْ سُنَّتْ لَهُمُ السُّنَنُ، وَ قُدِّمَ لَهُمُ الْخَبَرُ.

خدا کی قسم! اگر وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائیں تو ایک ان میں دوسرے کو جان ہی سے مار ڈالے اور ختم کرکے ہی دم لے۔ (دیکھو) باغی گروہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ (اب) کہاں ہیں اجر و ثواب کے چاہنے والے جب کہ حق کی راہیں مقرر ہو چکی ہیں اور یہ خبر انہیں پہلے سے دی جا چکی ہے۔

وَ لِکُلِّ ضَلَّةٍ عِلَّةٌ، وَ لِکُلِّ نَاکِثٍ شُبْهَةٌ. وَاللهِ! لَاۤ اَکُوْنُ کَمُسْتَمِـعِ اللَّدْمِ، یَسْمَعُ النَّاعِیَ، وَ یَحْضُرُ الْبَاکِیَ، ثُمَّ لَا یَعْتَبِرُ!.

ہر گمراہی کیلئے حیلے بہانے ہوا کرتے ہیں اور ہر پیمان شکن (دوسروں کو) اشتباہ میں ڈالنے کیلئے کوئی نہ کوئی بات بنایا کرتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس شخص کی طرح نہیں ہوں گا جو ماتم کی آواز پر کان دھرے، موت کی سنائی دینے والے کی آواز سنے اور رونے والے کے پاس (پرسے کیلئے) بھی جائے اور پھر عبرت حاصل نہ کرے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:16
عون نقوی

فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهٗ مِنْ عِبَادَةِ الْاَوْثَانِ اِلٰی عِبَادَتِهٖ، وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطٰنِ اِلٰی طَاعَتِهٖ، بِقُرْاٰنٍ قَدْ بَیَّنَهٗ وَ اَحْکَمَهٗ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ اِذْ جَهِلُوْهُ، وَ لِیُقِرُّوْا بِهٖ بَعْدَ اِذْ جَحَدُوْهُ، وَ لِیُثْبِتُوْهُ بَعْدَ اِذْ اَنْکَرُوْهُ. فَتَجَلّٰی سُبْحَانَهٗ لَهُمْ فِیْ کِتَابِهٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْا رَاَوْهُ، بِمَاۤ اَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِهٖ، وَ خَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِهٖ، وَ کَیْفَ مَحَقَ مَنْ مَّحَقَ بِالْمَثُلَاتِ، وَ احْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ!.

اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں، تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔ اللہ ان کے سامنے بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو قدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اسے مٹانا تھا انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا۔

وَ اِنَّهٗ سَیَاْتِیْ عَلَیْکُمْ مِنْۢ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْهِ شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لَاۤ اَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لَاۤ اَکْثَرَ مِنَ الْکَذِبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ، وَ لَیْسَ عِنْدَ اَهْلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَةٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ، وَ لَاۤ اَنْفَقَ مِنْهُ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ، وَ لَا فِی الْبِلَادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَ لَاۤ اَعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ!.

میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا اور اللہ و رسولؐ پر افترا پردازی کا زور ہو گا۔ اس زمانہ والوں کے نزیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہو گی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہو گی اس وقت جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور نہ (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہو گی۔

فَقَدْ نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُهٗ، وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُهٗ، فَالْکِتَابُ یَوْمَئِذٍ وَّ اَهْلُهٗ مَنْفِیَّانِ طَرِیْدَانِ، وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِیْ طَرِیْقٍ وَّاحِدٍ لَّا یُؤْوِیْهِمَا مُؤْوٍ، فَالْکِتَابُ وَ اَهْلُهٗ فِیْ ذٰلِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیْهِمْ، وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ! لِاَنَّ الضَّلَالَةَ لَا تُوَافِقُ الْهُدٰی وَ اِنِ اجْتَمَعَا.

چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے اور قرآن اور قرآن والے (اہلبیتؑ) بے گھر اور بے در ہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہو گا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ۔ ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق۔ اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں۔

فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلَی الْفُرْقَةِ وَ افْتَرَقُوْا عَنِ الْجَمَاعَةِ، کَاَنَّهُمْ اَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ اِمَامَهُمْ، فَلَمْ یَبْقَ عِنْدَهُمْ مِنْهُ اِلَّا اسْمُهٗ، وَ لَا یَعْرِفُوْنَ اِلَّا خَطَّهٗ وَ زَبْرَهٗ، وَ مِنْ قَبْلُ مَا مَثَّلُوْا بِالصَّالِحِیْنَ کُلَّ مُثْلَةٍ، وَ سَمَّوْا صِدْقَهُمْ عَلَی اللهِ فِرْیَةً، وَ جَعَلُوْا فِی الْحَسَنَةِ عُقُوْبَةَ السَّیِّئَةِ. وَ اِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِطُوْلِ اٰمَالِهِمْ وَ تَغَیُّبِ اٰجَالِهِمْ، حَتّٰی نَزَلَ بِهِمُ الْمَوْعُوْدُ الَّذِیْ تُرَدُّ عَنْهُ الْمَعْذِرَةُ، و َتُرْفَعُ عَنْهُ التَّوْبَةُ، وَ تَحُلُّ مَعَهُ الْقَارِعَةُ وَ النِّقْمَةُ.

لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کر لیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں۔ گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط و نقوش کو پہچان سکتے ہیں۔ اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بہتان رکھ دیا ہو گا اور نیکیوں کے بدلہ میں انہیں بری سزائیں دی ہوں گی۔ تم سے پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب یہ ہے کہ وہ امیدوں کے دامن پھیلاتے رہے اور موت کو نظروں سے اوجھل سمجھا کئے، یہاں تک کہ جب وعدہ کی ہوئی (موت) آ گئی تو ان کی معذرت کو ٹھکرا دیا گیا اور توبہ اٹھا لی گئی اور مصیبت و بلا ان پر ٹوٹ پڑی۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ مَنِ اسْتَنْصَحَ اللهَ وُفِّقَ، وَ مَنِ اتَّخَذَ قَوْلَهٗ دَلِیْلًا هُدِیَ ﴿لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ﴾، فَاِنَّ جَارَ اللهِ اٰمِنٌ وَّ عَدُوَّهٗ خَآئِفٌ، وَ اِنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْ لِمَنْ عَرَفَ عَظَمَةَ اللهِ اَنْ یَّتَعَظَّمَ، فَاِنَّ رِفْعَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا عَظَمَتُهٗۤ اَنْ یَّتَوَاضَعُوْا لَهٗ، وَ سَلَامَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا قُدْرَتُهٗۤ اَنْ یَّسْتَسْلِمُوْا لَهٗ، فَلَا تَنْفِرُوْا مِنَ الْحَقِّ نِفَارَ الصَّحِیْحِ مِنَ الْاَجْرَبِ، وَ الْبَارِیْ مِنْ ذِی السَّقَمِ.

اے لوگو! جو اللہ سے نصیحت چاہے اسے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے اور جو اس کے ارشادات کو رہنما بنائے وہ سیدھے راستہ پر ہو لیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی ہمسائیگی میں رہنے والا امن و سلامتی میں ہے اور اس کا دشمن خوف و ہراس میں۔ جو اللہ کی عظمت و جلالت کو پہچان لے اسے کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی عظمت کی نمائش کرے، چونکہ جو اس کی عظمت کو پہچان چکے ہیں ان کی رفعت و بلندی اسی میں ہے کہ اس کے آگے جھک جائیں اور جو اس کی قدرت کو جان چکے ہیں ان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ حق سے اس طرح بھڑک نہ اٹھو جس طرح صحیح و سالم خارش زدہ سے یا تندرست بیمار سے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ تَرَکَهٗ، وَ لَنْ تَاْخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَقَضَهٗ، وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِهٖ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَبَذَهٗ.

تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک اسے دور پھینکنے والے کی شناخت نہ کرلو۔

فَالْتَمِسُوْا ذٰلِکَ مِنْ عِنْدِ اَهْلِهٖ، فَاِنَّهُمْ عَیْشُ الْعِلْمِ، وَ مَوْتُ الْجَهْلِ، هُمُ الَّذِیْنَ یُخْبِرُکُمْ حُکْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ، وَ صَمْتُهُمْ عَنْ مَّنْطِقِهِمْ، وَ ظَاهِرُهُمْ عَنْۢ بَاطِنِهِمْ، لَا یُخَالِفُوْنَ الدِّیْنَ وَ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ، فَهُوَ بَیْنَهُمْ شَاهِدٌ صَادِقٌ، وَ صَامِتٌ نَّاطِقٌ.

جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو۔ وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا (دیا ہوا) ہر حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے۔ وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں۔ دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:13
عون نقوی

وَ قَدِ اسْتَشَارَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الشُّخُوْصِ لِقِتَالِ الْفُرْسِ بِنَفْسِهٖ:

جب حضرت عمر ابن خطاب نے جنگ فارس میں شریک ہونے کیلئے آپؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا: [۱]

اِنَّ هٰذَا الْاَمْرَ لَمْ یَکُنْ نَّصْرُهٗ وَ لَا خِذْلَانُهٗ بِکَثْرَةٍ وَّ لَا بِقِلَّةٍ، وَ هُوَ دِیْنُ اللهِ الَّذِیْۤ اَظْهَرَهٗ، وَ جُنْدُهُ الَّذِیْۤ اَعَدَّهٗ وَ اَمَدَّهٗ، حَتّٰی بَلَغَ مَا بَلَغَ، وَ طَلَعَ حَیْثُ طَلَعَ، وَ نَحْنُ عَلٰی مَوْعُوْدٍ مِّنَ اللهِ، وَاللهُ مُنْجِزٌ وَّعْدَهٗ، وَ نَاصِرٌ جُنْدَهٗ.

اس امر میں کامیابی و ناکامیابی کا دارو مدار فوج کی کمی بیشی پر نہیں رہا ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جسے اُس نے (سب دینوں پر) غالب رکھا ہے اور اسی کا لشکر ہے جسے اُس نے تیار کیا ہے اور اس کی ایسی نصرت کی ہے کہ وہ بڑھ کر اپنی موجودہ حد تک پہنچ گیا ہے اور پھیل کر اپنے موجودہ پھیلاؤ پر آ گیا ہے اور ہم سے اللہ کا ایک وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی خود ہی مدد کرے گا۔

وَ مَکَانُ الْقَیِّمِ بِالْاَمْرِ مَکَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ یَجْمَعُهٗ وَ یَضُمُّهٗ، فَاِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ یَجْتَمِـعْ بِحَذَافِیْرِهٖۤ اَبَدًا. وَ الْعَرَبُ الْیَوْمَ وَ اِنْ کَانُوْا قَلِیْلًا، فَهُمْ کَثِیْرُوْنَ بِالْاِسْلَامِ، وَ عَزِیْزُوْنَ بِالْاِجْتِمَاعِ! فَکُنْ قُطْبًا، وَ اسْتَدِرِ الرَّحٰی بِالْعَرَبِ، وَ اَصْلِهِمْ دُوْنَکَ نَارَ الْحَرْبِ، فَاِنَّکَ اِنْ شَخَصْتَ مِنْ هٰذِهِ الْاَرْضِ انْتَقَضَتْ عَلَیْکَ الْعَرَبُ مِنْ اَطْرَافِهَا وَ اَقْطَارِهَا، حَتّٰی یَکُوْنَ مَا تَدَعُ وَرَآءَکَ مِنَ الْعَوْرَاتِ اَهَمَّ اِلَیْکَ مِمَّا بَیْنَ یَدَیْکَ.

امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔ آج عرب والے اگرچہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں اور اتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں۔ تم اپنے مقام پر کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرب کا نظم و نسق برقرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔ اس لئے کہ اگر تم نے اس سرزمین کو چھوڑا تو عرب اطراف و جوانب سے تم پر ٹوٹ پڑیں گے، یہاں تک کہ تمہیں اپنے سامنے کے حالات سے زیادہ ان مقامات کی فکر ہو جائے گی جنہیں تم اپنے پس پشت غیر محفوظ چھوڑ کر گئے ہو۔

اِنَّ الْاَعَاجِمَ اِنْ یَّنْظُرُوْۤا اِلَیْکَ غَدًا یَقُوْلُوْا: هٰذَا اَصْلُ الْعَرَبِ، فَاِذَا اقْتَطَعْتُمُوْهُ اسْتَرَحْتُمْ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ اَشَدَّ لِکَلَبِهِمْ عَلَیْکَ، وَ طَمَعِهِمْ فِیْکَ.

کل اگر عجم والے تمہیں دیکھیں گے تو (آپس میں) یہ کہیں گے کہ یہ ہے ’’سردار عرب‘‘ اگر تم نے اس کا قلع قمع کردیا تو آسودہ ہو جاؤ گے۔تو اس کی وجہ سے ان کی حرص و طمع تم پر زیادہ ہو جائے گی۔

فَاَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ مَّسِیْرِ الْقَوْمِ اِلٰی قِتَالِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ هُوَ اَکْرَهُ لِمَسِیْرِهِمْ مِنْکَ، وَ هُوَ اَقْدَرُ عَلٰی تَغْیِیْرِ مَا یَکْرَهُ. وَ اَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ عَدَدِهِمْ، فَاِنَّا لَمْ نَکُنْ نُّقَاتِلُ فِیْمَا مَضٰی بِالْکَثْرَةِ، وَ اِنَّمَا کُنَّا نُقَاتِلُ بِالنَّصْرِ وَ الْمَعُوْنَةِ!.

لیکن یہ جو تم کہتے ہو کہ وہ لوگ مسلمانوں سے لڑنے بھڑنے کیلئے چل کھڑے ہوئے ہیں تو اللہ ان کے بڑھنے کو تم سے زیادہ بُرا سمجھتا ہے اور وہ جسے بُرا سمجھے اس کے بدلنے (اور روکنے) پر بہت قدرت رکھتا ہے اور ان کی تعداد کے متعلق جو کہتے ہو (کہ وہ بہت ہیں) تو ہم سابق میں کثرت کے بل بوتے پر نہیں لڑا کرتے تھے بلکہ (اللہ کی) تائید و نصرت (کے سہارے) پر۔


وَ اِنَّه لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْکَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِه لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.
جب حضرت عمر کو کچھ لوگوں نے جنگ قادسیہ یا جنگِ نہاوند کے موقع پر شریک کا رزار ہونے کا مشورہ دیا تو آپ نے لوگوں کے مشورہ کو اپنے جذبات کے خلاف سمجھتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینا بھی ضروری سمجھا کہ اگر انہوں نے ٹھہرنے کا مشورہ دیا تو دوسروں کے سامنے یہ عذر کر دیا جائے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مشورہ کی وجہ سے رک گیا ہوں اور اگر انہوں نے بھی شریک جنگ ہونے کا مشورہ دیا تو پھر کوئی اور تدبیر سوچ لی جائے گی۔ چنانچہ حضرتؑ نے دوسروں کے خلاف انہیں ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ دیا۔ دوسرے لوگوں نے تو اس بنا پر انہیں شرکت کا مشورہ دیا تھا کہ وہ دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ صرف لشکر والوں ہی کو جنگ میں نہ جھونکتے تھے بلکہ خود بھی شرکت فرماتے تھے اور اپنے خاندان کے عزیز ترین فردوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے پیش نظر یہ چیز تھی کہ ان کی شرکت اسلام کیلئے مفید نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کا اپنے مقام پر ٹھہرے رہنا ہی مسلمانوں کو پراگندگی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرتؑ کا ارشاد کہ ’’حاکم کی حیثیت ایک محور کی ہوتی ہے جس کے گرد نظام مملکت گھومتا ہے‘‘، ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی خاص شخصیت کے متعلق نہیں ہے۔ چنانچہ حکمران مسلمان ہو یا کافر، عادل ہو یا ظالم، نیک عمل ہو یا بد کردار، مملکت کے نظم و نسق کیلئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جیسا کہ حضرتؑ نے اس مطلب کو دوسرے مقام پر وضاحت سے بیان فرمایا ہے:؛جب حضرتؑ نے انہیں بتایا کہ ان کے پہنچ جانے سے عجم انہی کی تاک میں رہیں گے اور ہتھے چڑھ جانے پر وہ قتل کئے بغیر نہ رہیں گے تو ایسی باتیں اگرچہ شجاعوں کیلئے سمند ہمت پر تازیانہ کا کام دیتی ہیں اور ان کا جوش و ولولہ اُبھر آتا ہے، مگر آپ نے ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ پسند فرمایا اور جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانا ہی بہتر سمجھا۔ اگر یہ مشورہ ان کے طبعی میلان کے موافق نہ ہوتا تو وہ اس طرح خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم نہ کرتے، بلکہ کچھ کہتے سنتے اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ملک میں کسی کو نائب بنا کر ملکی نظم و نسق کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور پھر جب اور لوگوں نے جانے کا مشورہ دیا تھا تو امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینے کا داعی اس کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا تھا کہ رک جانے کا کوئی سہارا مل جائے۔[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۴۰۔
لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، وہ نیک ہو یا بد کردار۔ (اگر نیک ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور (اگر فاسق ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں بہرہ اندوز ہوں گے اور اللہ اس نظام حکومت کی ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اس حاکم کی وجہ سے (چاہے وہ اچھا ہو یا برا) مالیات فراہم ہوتے ہیں، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم (کے مرنے یا معزول ہونے) سے دوسروں کو راحت پہنچے۔(۴)
حضرتؑ نے مشورہ کے موقع پر جو الفاظ کہے ہیں ان سے حضرت عمر کے حاکم و صاحب اقتدار ہونے کے علاوہ اور کسی خصوصیت کا اظہار نہیں ہوتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں دنیاوی اقتدار حاصل تھا، چاہے وہ صحیح طریق سے حاصل ہوا ہو یا غلط طریق سے اور جہاں اقتدار ہو وہاں رعیت کی مرکزیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرتؑ نے فرمایا کہ: اگر وہ نکل کھڑے ہوں گے تو پھر عرب بھی جوق در جوق میدان جنگ کا رُخ کریں گے، کیونکہ جب حکمران ہی نکل کھڑا ہو تو رعیت پیچھے رہنا گوارا نہ کرے گی اور ان کے نکلنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہروں کے شہر خالی ہو جائیں گے اور دشمن بھی ان کے میدان جنگ میں پہنچ جانے سے یہ اندازہ کر لے گا کہ اسلامی شہر خالی پڑے ہیں۔ اگر انہیں پسپا کر دیا گیا تو پھر مسلمانوں کو مرکز سے کمک حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر حکمران ہی کو ختم کر دیا گیا تو فوج خود بخود منتشر ہو جائے گی۔ کیونکہ حکمران بمنزلہ اساس و بنیاد کے ہوتا ہے۔ جب بنیاد ہی ہل جائے تو دیواریں کہاں کھڑی رہ سکتی ہیں۔ یہ ’’اصل العرب‘‘ (عرب کی جڑ) کی لفظ حضرتؑ نے اپنی طرف سے نہیں فرمائی، بلکہ عجموں کی زبان سے نقل کی ہے اور ظاہر ہے کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی نظروں میں بنیاد عرب ہی سمجھے جا رہے تھے اور پھر یہ اضافت ’’ملک‘‘ کی طرف ہے، ’’اسلام‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کی طرف نہیں ہے کہ اسلامی اعتبار سے ان کی کسی اہمیت کا اظہار ہو۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:09
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِیْهِ الْمَنَایَا، مَعَ کُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ، وَ فِیْ کُلِّ اَکْلَةٍ غَصَصٌ! لَا تَنَالُوْنَ مِنْهَا نِعْمَةً اِلَّا بِفِرَاقِ اُخْرٰی، وَ لَا یُعَمَّرُ مُعَمَّرٌ مِّنْکُمْ یَوْمًا مِّنْ عُمُرِهٖ اِلَّا بِهَدْمِ اٰخَرَ مِنْ اَجَلِهٖ، وَ لَا تُجَدَّدُ لَهٗ زِیَادَةٌ فِیْۤ اَکْلِهٖۤ اِلَّا بَنَفَادِ مَا قَبْلَهَا مِنْ رِّزْقِهٖ، وَ لَا یَحْیَا لَهٗۤ اَثَرٌ اِلَّا مَاتَ لَهٗ اَثَرٌ، وَ لَا یَتَجَدَّدُ لَهٗ جَدِیْدٌ اِلَّا بَعْدَ اَنْ یَّخْلَقَ لَهٗ جَدِیْدٌ، وَ لَا تَقُوْمُ لَهٗ نَابِتَةٌ اِلَّا وَ تَسْقُطُ مِنْهُ مَحْصُوْدَةٌ، وَ قَدْ مَضَتْ اُصُوْلٌ نَّحْنُ فُرُوْعُهَا، فَمَا بَقَآءُ فَرْعٍ بَعْدَ ذَهَابِ اَصْلِهٖ!.

اے لوگو! تم اس دنیا میں موت کی تیر اندازیوں کا ہدف ہو (جہاں) ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو ہے اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے۔ جہاں تم ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتے جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور تم میں سے کوئی زندگی پانے والا ایک دن کی زندگی میں قدم نہیں رکھتا جب تک اس کی مدتِ حیات میں سے ایک دن کم نہیں ہو جاتا اور اس کے کھانے میں کسی اور رزق کا اضافہ نہیں ہوتا جب تک پہلا رزق ختم نہ ہو جائے اور جب تک ایک نقش مٹ نہ جائے دوسرا نقش ابھرتا نہیں اور جب تک کوئی نئی چیز کہنہ و فرسودہ نہ ہو جائے دوسری نئی چیز حاصل نہیں ہوتی اور جب تک کٹی ہوئی فصل گر نہ جائے نئی فصل کھڑی نہیں ہوتی۔ آباؤ اجداد گزر گئے اور ہم انہی کی شاخیں ہیں۔ جب جڑ ہی نہ رہی تو شاخیں کہاں رہ سکتی ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ مَاۤ اُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ اِلَّا تُرِکَ بِهَا سُنَّةٌ، فَاتَّقُوا الْبِدَعَ، وَ الْزَمُوا الْمَهْیَعَ، اِنَّ عَوَازِمَ الْاُمُوْرِ اَفْضَلُهَا، وَ اِنَّ مُحْدَثَاتِهَا شِرَارُهَا.

کوئی بدعت وجود میں نہیں آتی، مگر یہ کہ اس کی وجہ سے سنت کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ بدعتی لوگوں سے بچو، روشن طریقہ پر جمے رہو۔ پرانی باتیں ہی اچھی ہیں اور (دین میں) پیدا کی ہوئی نئی چیزیں بد ترین ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:36
عون نقوی