بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَرْسَلَهٗ دَاعِیًا اِلَی الْحَقِّ، وَ شَاهِدًا عَلَی الْخَلْقِ، فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّهٖ غَیْرَ وَانٍ وَّ لَا مُقَصِّرٍ، وَ جَاهَدَ فِی اللهِ اَعْدَآئَهٗ غَیْرَ وَاهِنٍ وَّ لَا مُعَذِّرٍ، اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصَرُ مَنِ اهْتَدٰی.

اللہ نے آپؐ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچایا۔ نہ اس میں کچھ سستی کی، نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا، جس میں نہ کمزوری دکھائی، نہ حیلے بہانے کئے۔ وہ پرہیزگاروں کے امام اور ہدایت پانے والوں (کی آنکھوں) کیلئے بصارت ہیں۔

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَاۤ اَعْلَمُ مِمَّا طُوِیَ عَنْکُمْ غَیْبُهٗ، اِذًا لَّخَرَجْتُمْ اِلَی الصُّعُدَاتِ، تَبْکُوْنَ عَلٰۤی اَعْمَالِکُمْ، وَ تَلْتَدِمُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَ لَتَرَکْتُمْ اَمْوَالَکُمْ لَا حَارِسَ لَهَا وَ لَا خَالِفَ عَلَیْهَا، وَ لَهَمَّتْ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ نَفْسُهٗ، لَا یَلْتَفِتُ اِلٰی غَیْرِهَا وَ لٰکِنَّکُمْ نَسِیْتُمْ مَا ذُکِّرْتُمْ، وَ اَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ، فَتَاهَ عَنْکُمْ رَاْیُکُمْ، وَ تَشَتَّتَ عَلَیْکُمْ اَمْرُکُمْ.

جو چیزیں تم سے پردۂ غیب میں لپیٹ دی گئی ہیں اگر تم بھی انہیں جان لیتے جس طرح میں جانتا ہوں تو بلا شبہ تم اپنی بداعمالیوں پر روتے ہوئے اور اپنے نفسوں کا ماتم کرتے ہوئے اور اپنے مال و متاع کو بغیر کسی نگہبان اور بغیر کسی نگہداشت کرنے والے کے یونہی چھوڑ چھاڑ کر کھلے میدانوں میں نکل پڑتے اور ہر شخص کو اپنے ہی نفس کی پڑی ہوتی، کسی اور کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا۔ لیکن جو تمہیں یاد دلایا گیا تھا اسے تم بھول گئے اور جن چیزوں سے تمہیں ڈرایا گیا تھا اس سے تم نڈر ہو گئے۔ اس طرح تمہارے خیالات بھٹک گئے اور تمہارے سارے امور درہم و برہم ہو گئے۔

وَ لَوَدِدْتُّ اَنَّ اللهَ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ، وَ اَلْحَقَنِیْ بِمَنْ هُوَ اَحَقُّ بِیْ مِنْکُمْ، قَوْمٌ وَّاللهِ! مَیَامِیْنُ الرَّاْیِ، مَرَاجِیْحُ الْحِلْمِ، مَقَاوِیْلُ بِالْحَقِّ، مَتَارِیْکُ لِلْبَغْیِ. مَضَوْا قُدُمًا عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ اَوْجَفُوْا عَلَی الْمَحَجَّةِ، فَظَفِرُوْا بِالْعُقْبَی الْدَّآئِمَةِ، وَ الْکَرَامَةِ الْبَارِدَةِ.

میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے اور مجھے ان لوگوں سے ملا دے جو تم سے زیادہ میرے حقدار ہیں۔ خدا کی قسم! وہ ایسے لوگ ہیں جن کے خیالات مبارک اور عقلیں ٹھوس تھیں۔ وہ کھل کر حق بات کہنے والے اور سرکشی و بغاوت کو چھوڑنے والے تھے۔ وہ قدم آگے بڑھا کر اللہ کی راہ پر ہو لئے اور سیدھی راہ پر (بے کھٹکے) دوڑے چلے گئے۔ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی آخرت اور عمدہ و پاکیزہ نعمتوں کو پا لیا۔

اَمَا وَاللهِ! لَیُسَلَّطَنَّ عَلَیْکُمْ غُلَامُ ثَقِیْفٍ الذَّیَّالُ الْمَیَّالُ، یَاْکُلُ خَضِرَتَکُمْ، وَ یُذِیْبُ شَحْمَتَکُمْ، اِیْهٍ اَبَا وَذَحَةَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم پر بنی ثقیف کا ایک لڑکا تسلط پا لے گا وہ دراز قد ہو گا اور بل کھا کر چلے گا۔ وہ تمہارے تمام سبزہ زاروں کو چر جائے گا اور تمہاری چربی (تک) پگھلا دے گا۔ ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور!۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:14
عون نقوی

فِی الْاِسْتِسْقَآءِ

طلبِ باراں کیلئے آپؑ کے دُعائیہ کلمات

اَللّٰهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا، وَ اغْبَرَّتْ اَرْضُنَا، وَ هَامَتْ دَوَابُّنَا، وَ تَحَیَّرَتْ فِیْ مَرَابِضِهَا، وَ عَجَّتْ عَجِیْجَ الثَّکَالٰی عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ مَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِیْ مَرَاتِعِهَا، وَ الْحَنِیْنَ اِلٰی مَوَارِدِهَا.

بار الٰہا! (خشک سالی سے) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل سوکھ گیا ہے اور زمین پر خاک اُڑ رہی ہے، ہمارے چوپائے پیاسے ہیں اور اپنے چوپالوں میں بوکھلائے ہوئے پھرتے ہیں اور اس طرح چلّا رہے ہیں جس طرح رونے والیاں اپنے بچوں پر بین کرتی ہیں اور اپنی چراگاہوں کے پھیرے کرنے اور تالابوں کی طرف بصد شوق بڑھنے سے عاجز آ گئے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ فَارْحَمْ اَنِیْنَ الْاٰنَّةِ، وَ حَنِیْنَ الْحَانَّةِ، اَللّٰهُمَّ فَارْحَمْ حَیْرَتَهَا فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ اَنِیْنَهَا فِیْ مَوَالِجِهَا، اَللّٰهُمَّ خَرَجْنَا اِلَیْکَ حِیْنَ اعْتَکَرَتْ عَلَیْنَا حَدَابِیْرُ السِّنِیْنَ، وَ اَخْلَفَتْنَا مَخَآئِلُ الْجَوْدِ، فَکُنْتَ الرَّجَآءَ لِلْمُبْتَئِسِ، وَ الْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ.

پروردگارا! ان چیخنے والی بکریوں اور ان شوق بھرے لہجے میں پکارنے والے اونٹوں پر رحم کر۔ خدایا! تو راستوں میں ان کی پریشانی اور گھروں میں ان کی چیخ و پکار پر ترس کھا۔ بار خدایا! جب کہ قحط سالی کے لاغر اور نڈھال اونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں اور بظاہر برسنے والی گھٹائیں آ آ کے بِن برسے گزر گئیں تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ تو ہی دکھ درد کے ماروں کی آس ہے اور تو ہی التجا کرنے والوں کا سہارا ہے۔

نَدْعُوْکَ حِیْنَ قَنَطَ الْاَنَامُ، وَ مُنِعَ الْغَمَامُ، وَ هَلَکَ الْسَّوَامُ، اَنْ لَّا تُؤَاخِذَنَا بِاَعْمَالِنَا، وَ لَا تَاْخُذَنَا بِذُنُوْبِنَا، وَ انْشُرْ عَلَیْنَا رَحْمَتَکَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ، وَ الرَّبِیْعِ الْمُغْدِقِ، وَ النَّبَاتِ الْمُوْنِقِ، سَحًّا وَّابِلًا تُحْیِیْ بِهٖ مَا قَدْ مَاتَ،وَ تَرُدُّ بِهٖ مَا قَدْ فَاتَ.

جب کہ لوگ بے آس ہو گئے اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو گیا اور مویشی بے جان ہو گئے تو ہم تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری گرفت نہ کر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں (اپنے عذاب میں) نہ دھر لے۔ اے اللہ! تو دھواں دھار بارشوں والے ابر اور چھاجوں پانی برسانے والی برکھا رُت اور نظروں میں کھب جانے والے ہریاول سے اپنے دامانِ رحمت کو ہم پر پھیلا دے۔ وہ موسلا دھار اور لگاتار اس طرح برسیں کہ ان سے مَری ہوئی چیزوں کو تو زندہ کر دے اور گزری ہوئی بہاروں کو پلٹا دے۔

اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْکَ مُحْیِیَةً مُّرْوِیَةً، تَامَّةً عَامَّةً، طَیِّبَةً مُّبَارَکَةً، هَنِیْٓئَةً مَرِیْعَةً، زَاکِیًا نَّبْتُهَا، ثَامِرًا فَرْعُهَا، نَاضِرًا وَّرَقُهَا، تَنْعَشُ بِهَا الضَّعِیْفَ مِنْ عِبَادِکَ، وَ تُحْیِیْ بِهَا الْمَیِّتَ مِنْۢ بِلَادِکَ.

خدایا! ایسی سیرابی ہو کہ جو (مردہ زمینوں کو) زندہ کرنے والی، سیراب بنانے والی اور بھرپور برسنے والی اور سب جگہ پھیل جانے والی اور پاکیزہ و با برکت اور خوشگوار و شاداب ہو، جس سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں، شاخیں بار آور اور پتے ہرے بھرے ہو جائیں اور جس سے تو اپنے عاجز و زمین گیر بندوں کو سہارا دے کر اوپر اٹھائے اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش دے۔

اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْکَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا، وَ تَجْرِیْ بِهَا وِهَادُنَا، وَ یُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا، وَ تُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا، وَ تَعِیْشُ بِهَا مَوَاشِیْنَا، وَ تَنْدٰی بِهَا اَقَاصِیْنَا، وَ تَسْتَعِیْنُ بِهَا ضَوَاحِیْنَا، مِنْۢ بَرَکَاتِکَ الْوَاسِعَةِ، وَ عَطَایَاکَ الْجَزِیْلَةِ، عَلٰی بَرِیَّتِکَ الْمُرْمِلَةِ وَ وَحْشِکَ الْمُهْمَلَةِ.

اے اللہ! ایسی سیرابی کہ جس سے ہمارے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں اور ندی نالے بہہ نکلیں اور آس پاس کے اطراف سر سبز و شاداب ہو جائیں اور پھل نکل آئیں اور چوپائے جی اٹھیں اور دور کی زمینیں بھی تر بتر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی اس سے مدد پا سکیں۔ اپنی پھیلنے والی برکتوں اور بڑی بڑی بخششوں سے جو تیری تباہ حال مخلوق اور بغیر چرواہے کے کھلے پھرنے والے حیوانوں پر ہیں۔

وَ اَنْزِلْ عَلَیْنَا سَمَآءً مُّخْضِلَةً، مِدْرَارًا هَاطِلَةً، یُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ، وَ یَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ، غَیْرَ خُلَّبٍۭ بَرْقُهَا، وَ لَا جَهَامٍ عَارِضُهَا، وَ لَا قَزَعٍ رَّبَابُهَا، وَ لَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا، حَتّٰی یُخْصِبَ لِاِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُوْنَ، وَ یَحْیَا بِبَرَکَتِهَا الْمُسْنِتُوْنَ، فَاِنَّکَ تُنْزِلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا، وَ تَنْشُرُ رَحْمَتَکَ، وَ اَنْتَ ﴿الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ۝﴾.

ہم پر ایسی بارش ہو جو پانی سے شرابور کر دینے والی اور موسلا دھار اور لگاتار برسنے والی ہو۔ اس طرح کہ بارشیں بارشوں سے ٹکرائیں اور بوندیں بوندوں کو تیزی سے دھکیلیں (کہ تار بندھ جائے)، اس کی بجلی دھوکہ دینے والی نہ ہو اور نہ اُفق پر چھا جانے والی گھٹا پانی سے خالی ہو اور نہ سفید ابر کے ٹکڑے بکھرے بکھرے سے ہوں اور نہ صرف ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں والی بوندا باندی ہو کر رہ جائے، (یوں برسا) کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبزیوں سے خوشحال ہو جائیں اور خشک سالی کی سختیاں جھیلنے والے اس کی برکتوں سے جی اٹھیں اور تو ہی وہ ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کے دامن پھیلا دیتا ہے اور تو ہی والی و وارث اور (اچھی)صفتوں والا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:11
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْوَاصِلِ الْحَمْدَ بِالنِّعَمِ، وَ النِّعَمَ بِالشُّکْرِ، نَحْمَدُهٗ عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ کَمَا نَحْمَدُهٗ عَلٰی بَلَآئِهٖ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی هٰذِهِ النُّفُوْسِ الْبِطَآءِ عَمَّا اُمِرَتْ بِهٖ، السِّرَاعِ اِلٰی مَا نُهِیَتْ عَنْهُ، وَ نَسْتَغْفِرُهٗ مِمَّاۤ اَحَاطَ بِهٖ عِلْمُهٗ، وَ اَحْصَاهُ کِتَابُهٗ، عِلْمٌ غَیْرُ قَاصِرٍ، وَ کِتَابٌ غَیْرُ مُغَادِرٍ، وَ نُؤْمِنُ بِهٖ اِیْمَانَ مَنْ عَایَنَ الْغُیُوْبَ وَ وَقَفَ عَلَی الْمَوْعُوْدِ، اِیْمَانًا نَّفٰۤی اِخْلَاصُهٗ الشِّرْکَ، وَیَقِیْنُهُ الشَّکَ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو حمد کا پیوند نعمتوں سے اور نعمتوں کا سلسلہ شکر سے ملانے والا ہے۔ ہم اس کی نعمتوں پر اسی طرح حمد کرتے ہیں جس طرح اس کی آزمائشوں پر ثنا و شکر بجا لاتے ہیں اور ان نفسوں کے خلاف اس سے مدد مانگتے ہیں کہ جو احکام کے بجا لانے میں سست قدم اور ممنوع چیزوں کی طرف بڑھنے میں تیز گام ہیں۔ اور (ان گناہوں سے) مغفرت چاہتے ہیں کہ جن پر اس کا علم محیط اور نامۂ اعمال حاوی ہے۔ نہ علم کوئی کمی کرنے والا ہے اور نہ نامۂ اعمال کسی چیز کو چھوڑنے والا ہے۔ ہم اس شخص کے مانند اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جس نے غیب کی چیزوں کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیا ہو اور وعدہ کی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہو چکا ہو۔ ایسا ایمان کہ جس کے خلوص نے شرک کو اور یقین نے شک کو دور پھینک دیا ہو۔

وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، شَهَادَتَیْنِ تُصْعِدَانِ الْقَوْلَ، وَ تَرْفَعَانِ الْعَمَلَ، لَا یَخِفُّ مِیْزَانٌ تُوْضَعَانِ فِیْهِ، وَ لَا یَثْقُلُ مِیْزَانٌ تُرْفَعَانِ عَنْهُ.

اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو وحدہٗ لاشریک ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں۔ یہ دونوں شہادتیں (اچھی) باتوں کو اونچا اور (نیک ) اعمال کو بلند کرتی ہیں۔ جس ترازو میں انہیں رکھ دیا جائے گا اس کا پلہ ہلکا نہیں ہو گا اور جس میزان سے انہیں الگ کر لیا جائے گا اس کا پلہ بھاری نہیں ہو سکتا۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّتِیْ هِیَ الزَّادُ وَ بِهَا الْمَعَادُ، زَادٌ مُّبَلِّغٌ وَّ مَعَادٌ مُّنْجِحٌ، دَعَاۤ اِلَیْهَاۤ اَسْمَعُ دَاعٍ، وَ وَعَاهَا خَیْرُ وَاعٍ، فَاَسْمَعَ دَاعِیْهَا، وَ فَازَ وَاعِیْهَا.

اے اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لئے کہ یہی تقویٰ زاد راہ ہے اور اسی کو لے کر پلٹنا ہے۔ یہ زاد (منزل تک) پہنچانے والا اور یہ پلٹنا کامیاب پلٹنا ہے۔ اس کی طرف سب سے بہتر سنا دینے والے نے دعوت دی اور بہترین سننے والے نے اسے سن کر محفوظ کر لیا۔ چنانچہ دعوت دینے والے نے سنا دیا اور سننے والا بہرہ اندوز ہو گیا۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ تَقْوَی اللهِ حَمَتْ اَوْلِیَآءَ اللهِ مَحَارِمَهٗ، وَ اَلْزَمَتْ قُلُوْبَهُمْ مَخَافَتَهٗ، حَتّٰۤی اَسْهَرَتْ لَیَالِیَهُمْ، وَ اَظْمَاَتْ هَوَاجِرَهُمْ، فَاَخَذُوْا الرَّاحَةَ بِالنَّصَبِ، وَ الرِّیَّ بِالظَّمَاِ، وَ اسْتَقْرَبُوْا الْاَجَلَ فَبَادَرُوا الْعَمَلَ، وَ کَذَّبُوا الْاَمَلَ فَلَاحَظُوا الْاَجَلَ.

اللہ کے بندو! تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو منہیات سے بچایا ہے اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی راتیں جاگتے اور تپتی ہوئی دوپہریں پیاس میں گزر جاتی ہیں اور اس تعب و کلفت کے عوض راحت (دائمی) اور اس پیاس کے بدلہ میں (تسنیم و کوثر سے) سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے موت کو قریب سمجھ کر اعمال میں جلدی کی اور امیدوں کو جھٹلا کر اجل کو نگاہ میں رکھا۔

ثُمَّ اِنَّ الدُّنْیَا دَارُ فَنَآءٍ وَّ عَنَآءٍ، وَ غِیَرٍ وَّ عِبَرٍ:

پھر یہ دنیا تو فنا اور مشقت، تغیر اور عبرت کی جگہ ہے:

فَمِنَ الْفَنَآءِ اَنَّ الدَّهْرَ مُوَتِّرٌ قَوْسَهٗ، لَا تُخْطِئُ سِهَامُهٗ، وَ لَا تُؤْسٰی جِرَاحُهٗ، یَرْمِی الْحَیَّ بِالْمَوْتِ، وَ الصَّحِیْحَ بِالسَّقَمِ، وَ النَّاجِیَ بِالْعَطَبِ، اٰکِلٌ لَّا یَشْبَعُ، وَ شَارِبٌ لَّا یَنْقَعُ.

چنانچہ فنا کرنے کی صورت یہ ہے کہ زمانہ اپنی کمان کا چلہ چڑھائے ہوئے ہے جس کے تیر خطا نہیں کرتے اور نہ اس کے زخموں کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے، زندہ پر موت کے، تندرست پر بیماری کے اور محفوظ پر ہلاکت کے تیر چلاتا رہتا ہے۔ وہ ایسا کھاؤ ہے کہ سیر نہیں ہوتا اور ایسا پینے والا ہے کہ اس کی پیاس بجھتی ہی نہیں۔

وَ مِنَ الْعَنَآءِ اَنَّ الْمَرْءَ یَجْمَعُ مَا لَا یَاْکُلُ، وَ یَبْنِیْ مَا لَا یَسْکُنُ، ثُمَّ یَخْرُجُ اِلَی اللهِ، لَا مَالًا حَمَلَ، وَ لَا بِنَآءً نَقَلَ.

اور رنج و تعب کی صورت یہ ہے کہ انسان مال جمع کرتا ہے لیکن اس میں سے کھانا اسے نصیب نہیں ہوتا، گھر بناتا ہے مگر اس میں رہنے نہیں پاتا اور پھر اللہ کی طرف اس طرح چل دیتا ہے کہ نہ مال ساتھ اٹھا کر لے جا سکتا ہے اور نہ گھر ہی ادھر منتقل کر سکتا ہے۔

وَمِنْ غِیَرِهَا اَنَّکَ تَرَی الْمَرْحُوْمَ مَغْبُوْطًا، وَ الْمَغْبُوْطَ مَرْحُوْمًا، لَیْسَ ذٰلِکَ اِلَّا نَعِیْمًا زَلَّ،وَ بُؤْسًا نَزَلَ.

اور اس کے تغیّر کی یہ حالت ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے اور وہ (دیکھتے ہی دیکھتے)اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر رشک کھایا جائے اور قابل رشک آدمی کو دیکھتے ہو کہ (چند ہی دنوں میں) اس کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔ اس کی یہی وجہ تو ہے کہ اس سے نعمت جاتی رہی اور اس پر فقر و افلاس ٹوٹ پڑا۔

وَ مِنْ عِبَرِهَا اَنَّ الْمَرْءَ یُشْرِفُ عَلٰۤی اَمَلِهٖ فَیَقْطَعُهٗ حُضُوْرُ اَجَلِهٖ، فَلَاۤ اَمَلٌ یُّدْرَکُ، وَ لَا مُؤَمَّلٌ یُّتْرَکُ.

اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنی امیدوں کی انتہا تک پہنچنے والا ہی ہوتا ہے کہ موت پہنچ کر امیدوں کے سارے بندھن توڑ دیتی ہے۔ اس طرح نہ امیدیں بر آتی ہیں اور نہ امیدیں باندھنے والا ہی باقی چھوڑا جاتا ہے۔

فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَغَرَّ سُرُوْرَهَا! وَ اَظْمَاَ رِیَّهَا! وَ اَضْحٰی فَیْئَهَا! لَا جَآءٍ یُّرَدُّ، وَ لَا مَاضٍ یَّرْتَدُّ. فَسُبْحَانَ اللهِ! مَاۤ اَقْرَبَ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ لِلَحَاقِهٖ بِهٖ، وَ اَبْعَدَ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ لِانْقِطَاعِهٖ عَنْهُ.

اللہ اکبر! اس دنیا کی مسرت کی فریب کاریاں اور اس کی سیرابی کی تشنہ کامیاں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے سایہ میں دھوپ کی شرکت کتنی زیادہ ہے۔ نہ آنے والی (موت) کو پلٹا یا جا سکتا ہے اور نہ جانے والا پلٹ کر آ سکتا ہے۔ سبحان اللہ! زندہ مُردوں سے انہی میں مل جانے کی وجہ سے کتنا قریب ہے اور مُردہ زندوں سے تمام تعلقات کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کس قدر دور ہے۔

اِنَّهٗ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِشَرٍّ مِّنَ الشَّرِّ اِلَّا عِقَابُهٗ، وَ لَیْسَ شَیْءٌۢ بِخَیْرٍ مِّنَ الْخَیْرِ اِلَّا ثَوَابُهٗ، وَ کُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الدُّنْیَا سَمَاعُهٗ اَعْظَمُ مِنْ عِیَانِهٖ، وَ کُلُّ شَیْءٍ مِّنَ الْاٰخِرَةِ عِیَانُهٗ اَعْظَمُ مِنْ سَمَاعِهٖ، فَلْیَکْفِکُمْ مِنَ الْعِیَانِ السَّمَاعُ، وَ مِنَ الْغَیْبِ الْخَبَرُ.

بیشک کوئی بدی سے بدتر شے نہیں سوا اس کے عذاب کے اور کوئی اچھائی سے اچھی چیز نہیں سوا اس کے ثواب کے۔ دنیا کی ہر چیز کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ہے، مگر آخرت کی ہر شے کا دیکھنا سننے سے کہیں بڑھا چڑھا ہوا ہے۔ تم اسی سننے سے اس کی اصلی حالت کا جو مشاہدہ میں آئے گی اندازہ اور خبر ہی سن کر اس غیب کی تصدیق کر لو۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مَا نَقَصَ مِنَ الدُّنْیَا وَ زَادَ فِی الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ مِّمَّا نَقَصَ مِنَ الْاٰخِرَةِ وَ زَادَ فِی الدُّنْیَا، فَکَمْ مِنْ مَّنْقُوْصٍ رَّابِحٍ وَّ مَزِیْدٍ خَاسِرٍ! اِنَّ الَّذِیْۤ اُمِرْتُمْ بِهٖۤ اَوْسَعُ مِنَ الَّذِیْ نُهِیْتُمْ عَنْهُ، وَ مَاۤ اُحِلَّ لَکُمْ اَکْثَرُ مِمَّا حُرِّمَ عَلَیْکُمْ، فَذَرُوْا مَا قَلَّ لِمَا کَثُرَ، وَ مَا ضَاقَ لِمَا اتَّسَعَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کمی اور آخرت کا اضافہ عقبیٰ کی کمی اور دنیا کے اضافے سے کہیں بہتر ہے۔ بہت سے گھاٹا اٹھانے والے فائدہ میں رہتے ہیں اور بہت سے زیادہ سمیٹ لینے والے نقصان میں رہتے ہیں۔ جن چیزوں کا خدا نے تم کو حکم دیا ہے (اور تمہارے لئے جائز رکھی ہیں) ان کا دامن ان چیزوں سے کہیں وسیع ہے جن سے روکا ہے اور حرام کی ہوئی چیزوں سے حلال چیزیں کہیں زیادہ ہیں۔ لہٰذا زیادہ چیزوں کی وجہ سے کم چیزوں کو چھوڑ دو، اور تنگنائے حرام سے نکل کر حلال کی وسعتوں میں آ جاؤ۔

قَدْ تَکَفَّلَ لَکُمْ بِالرِّزْقِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالْعَمَلِ، فَلَا یَکُوْنَنَّ الْمَضْمُوْنُ لَکُمْ طَلَبُهٗۤ اَوْلٰی بِکُمْ مِنَ الْمَفْرُوْضِ عَلَیْکُمْ عَمَلُهٗ، مَعَ اَنَّهٗ وَاللهِ! لَقَدِ اعْتَرَضَ الشَّکُّ، وَ دَخِلَ الْیَقِیْنُ، حَتّٰی کَاَنَّ الَّذِیْ ضُمِنَ لَکُمْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْکُمْ، وَ کَاَنَّ الَّذِیْ قَدْ فُرِضَ عَلَیْکُمْ قَدْ وُضِعَ عَنْکُمْ.

اس نے تمہارے رزق کا ذمہ لے لیا ہے اور تمہیں اعمال بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا جس چیز کا ذمہ لیا جا چکا ہے اس کی تلاش و طلب، اعمال و فرائض کے بجا لانے سے تمہاری نظروں میں مقدم نہ ہونا چاہیے۔ مگر خدا کی قسم! تمہارا طرز عمل ایسا ہے کہ دیکھنے والے کو شبہ ہونے لگے اور ایسا معلوم ہو کہ رزق کا حاصل کرنا تو تم پر فرض ہے اور جو واقعی تمہارا فریضہ ہے یعنی واجبات کا بجا لانا، وہ تم سے ساقط ہے۔

فَبَادِرُوا الْعَمَلَ، وَ خَافُوْا بَغْتَةَ الْاَجَلِ، فَاِنَّهٗ لَا یُرْجٰی مِنْ رَجْعَةِ الْعُمُرِ مَا یُرْجٰی مِنْ رَّجْعَةِ الرِّزْقِ، مَا فَاتَ الْیَوْمَ مِنَ الرِّزْقِ رُجِیَ غَدًا زِیَادَتُهٗ، وَ مَا فَاتَ اَمْسِ مِنَ الْعُمُرِ لَمْ یُرْجَ الْیَوْمَ رَجْعَتُهٗ. اَلرَّجَآءُ مَعَ الْجَآئِیْ، وَ الْیَاْسُ مَعَ الْمَاضِیْ، فَـ ﴿اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝﴾.

عمل کی طرف بڑھو اور موت کے اچانک آ جانے سے ڈرو۔ اس لئے کہ عمر کے پلٹ کر آنے کی آس نہیں لگائی جا سکتی، جبکہ رزق کے پلٹنے کی امید ہو سکتی ہے۔ جو رزق ہاتھ نہیں لگا کل اس کی زیادتی کی توقع ہو سکتی ہے اور امید نہیں کہ عمر کا گزرا ہوا ’’کل‘‘ آج پلٹ آئے گا۔ امید تو آنے والے کی ہو سکتی ہے اور جو گزر جائے اس سے تو مایوسی ہی ہے۔ ’’اللہ سے ڈرو، جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور جب موت آئے تو تم کو بہر صورت مسلمان ہونا چاہیے‘‘ ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:53
عون نقوی

وَ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا مَنْزِلُ قُلْعَةٍ، وَ لَیْسَتْ بِدَارِ نُجْعَةٍ، قَدْ تَزَیَّنَتْ بِغُرُوْرِهَا، وَ غَرَّتْ بِزِیْنَتِهَا، دَارٌ هَانَتْ عَلٰی رَبِّهَا، فَخَلَطَ حَلَالَهَا بِحَرَامِهَا، وَ خَیْرَهَا بِشَرِّهَا، وَ حَیَاتَهَا بِمَوتِهَا، وَ حُلْوَهَا بِمُرِّهَا. لَمْ یُصْفِهَا اللهُ تَعَالٰی لِاَوْلِیَآئِهٖ، وَ لَمْ یَضِنَّ بِهَا عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ، خَیْرُهَا زَهِیْدٌ، وَ شَرُّهَا عَتِیْدٌ، وَ جَمْعُهَا یَنْفَدُ، وَ مُلْکُهَا یُسْلَبُ، وَ عَامِرُهَا یَخْرَبُ. فَمَا خَیْرُ دَارٍ تُنْقَضُ نَقْضَ الْبِنَآءِ، وَ عُمُرٍ یَّفْنٰی فَنَآءَ الزَّادِ، وَ مُدَّةٍ تَنْقَطِعُ انْقِطَاعَ السَّیْرِ!.

میں تمہیں دنیا سے خبردار کئے دیتا ہوں کہ یہ ایسے شخص کی منزل ہے جس کیلئے قرار نہیں اور ایسا گھر ہے جس میں آب و دانہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ یہ اپنے باطل سے آراستہ ہے اور اپنی آرائشوں سے دھوکا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا گھر ہے جو اپنے رب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ چنانچہ اس نے حلال کے ساتھ حرام اور بھلائیوں کے ساتھ برائیاں اور زندگی کے ساتھ موت اور شیرینیوں کے ساتھ تلخیاں خلط ملط کر دی ہیں اور اپنے دوستوں کیلئے اسے بے غل و غش نہیں رکھا اور نہ دشمنوں کو دینے میں بخل کیا ہے۔ اس کی بھلائیاں بہت ہی کم ہیں اور برائیاں (جہاں چاہو) موجود۔ اس کی جمع پونجی ختم ہو جانے والی اور اس کا ملک چھن جانے والا اور اس کی آبادیاں ویران ہو جانے والی ہیں۔ بھلا اس گھر میں خیر و خوبی ہی کیا ہو سکتی ہے جو مسمار عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں جو زادِ راہ کی طرح ختم ہو جائے اور اس مدت میں جو چلنے پھرنے کی طرح تمام ہو جائے۔

اِجْعَلُوا مَا افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْکُمْ مِنْ طَلَبِکُمْ، وَ اسْئَلُوْهُ مِنْ اَدَآءِ حَقِّهٖ مَا سَئَلَکُمْ، وَ اَسْمِعُوْا دَعْوَةَ الْمَوْتِ اٰذَانَکُمْ قَبْلَ اَنْ یُّدْعٰی بِکُمْ. اِنَّ الزَّاهِدِیْنَ فِی الدُّنْیَا تَبْکِیْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِنْ ضَحِکُوْا، وَ یَشْتَدُّ حُزْنُهُمْ وَ اِنْ فَرِحُوْا، وَ یَکْثُرُ مَقْتُهُمْ اَنْفُسَهُمْ وَ اِنِ اغْتُبِطُوْا بِمَا رُزِقُوْا.

جن چیزوں کی تمہیں طلب و تلاش رہتی ہے ان میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کو بھی داخل کرلو اور جو اللہ نے تم سے چاہا ہے اسے پورا کرنے کی توفیق بھی اس سے مانگو۔ موت کا پیغام آنے سے پہلے موت کی پکار اپنے کانوں کو سنا دو۔ اس دنیا میں زاہدوں کے دل روتے ہیں، اگرچہ وہ ہنس رہے ہوں اور ان کا غم و اندوہ حد سے بڑھا ہوتا ہے، اگرچہ ان (کے چہروں) سے مسرت ٹپک رہی ہو اور انہیں اپنے نفسوں سے انتہائی بیر ہوتا ہے، اگرچہ اس رزق کی وجہ سے جو انہیں میسر ہے ان پر رشک کیا جاتا ہو۔

قَدْ غَابَ عَنْ قُلُوْبِکُمْ ذِکْرُ الْاٰجَالِ، وَ حَضَرَتْکُمْ کَوَاذِبُ الْاٰمَالِ، فَصَارَتِ الدُّنْیَا اَمْلَکَ بِکُمْ مِنَ الْاٰخِرَةِ، وَ الْعَاجِلَةُ اَذْهَبَ بِکُمْ مِنَ الْاٰجِلَةِ، وَ اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ اِخْوَانٌ عَلٰی دِیْنِ اللهِ، مَا فَرَّقَ بَیْنَکُمْ اِلَّا خُبْثُ السَّرَآئِرِ، وَ سُوْٓءُ الضَّمَآئِرِ، فَلَا تَوَازَرُوْنَ، وَ لَا تَنَاصَحُوْنَ، وَلَا تَبَاذَلُوْنَ، وَ لَا تَوَادُّوْنَ.

تمہارے دلوں سے موت کی یاد جاتی رہی ہے اور جھوٹی امیدیں (تمہارے اندر) موجود ہیں۔ آخرت سے زیادہ دنیا تم پر چھائی ہوئی ہے اور وہ عقبیٰ سے زیادہ تمہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تم دین خدا کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو، لیکن بد نیتی اور بد باطنی نے تم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ نہ تم ایک دوسرے کا بوجھ بٹاتے ہو، نہ باہم پند و نصیحت کرتے ہو، نہ ایک دوسرے پر کچھ خرچ کرتے ہو، نہ تمہیں ایک دوسرے کی چاہت ہے۔

مَا بَالُکُمْ تَفْرَحُوْنَ بِالْیَسِیْرِ مِنَ الدُّنْیَا تُدْرِکُوْنَهٗ، وَ لَا یَحْزُنُکُمُ الْکَثِیْرُ مِنَ الْاٰخِرَةِ تُحْرَمُوْنَهٗ، وَ یُقْلِقُکُمُ الْیَسِیْرُ مِنَ الدُّنْیَا یَفُوْتُکُمْ، حَتّٰی یَتَبَیَّنَ ذٰلِکَ فِیْ وُجُوْهِکُمْ، وَ قِلَّةِ صَبْرِکُمْ عَمَّا زُوِیَ مِنْهَا عَنْکُمْ، کَاَنَّهَا دَارُ مُقَامِکُمْ، وَ کَاَنَّ مَتَاعَهَا بَاقٍ عَلَیْکُمْ.

تھوڑی سی دنیا پا کر خوش ہونے لگتے ہو اور آخرت کے بیشتر حصہ سے بھی محرومی تمہیں غم زدہ نہیں کرتی۔ ذرا سی دنیا کا تمہارے ہاتھوں سے نکلنا تمہیں بے چین کر دیتا ہے، یہاں تک کہ بے چینی تمہارے چہروں سے ظاہر ہونے لگتی ہے اور کھوئی ہوئی چیز پر تمہاری بے صبریوں سے آشکارا ہو جاتی ہے، گویا یہ دنیا تمہارا (مستقل ) مقام ہے اور دنیا کا ساز و برگ ہمیشہ رہنے والا ہے۔

وَ مَا یَمْنَعُ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ اَخَاهُ بِمَا یَخَافُ مِنْ عَیْبِهٖ، اِلَّا مَخَافَةُ اَنْ یَّسْتَقْبِلَهٗ بِمِثْلِهٖ. قَدْ تَصَافَیْتُمْ عَلٰی رَفْضِ الْاٰجِلِ وَ حُبِّ الْعَاجِلِ، وَ صَارَ دِیْنُ اَحَدِکُمْ لُعْقَةً عَلٰی لِسَانِهٖ، صَنِیْعَ مَنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهٖ، وَ اَحْرَزَ رِضٰی سَیِّدِهٖ.

تم میں سے کسی کو بھی اپنے کسی بھائی کا ایسا عیب اچھالنے سے کہ جس کے ظاہر ہونے سے ڈرتا ہے صرف یہ امر مانع ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کا ویسا ہی عیب کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔ تم نے آخرت کو ٹھکرانے اور دنیا کو چاہنے پر سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ تم لوگوں کا دین تو یہ رہ گیا ہے کہ جیسے ایک دفعہ زبان سے چاٹ لیا جائے (یعنی صرف زبانی اقرار) اور تم تو اس شخص کی طرح (مطمئن) ہو چکے ہو کہ جو اپنے کام دھندوں سے فارغ ہو گیا ہو اور اپنے مالک کی رضا مندی حاصل کر لی ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:50
عون نقوی

ذَکَرَ فِیْهَا مَلَکَ الْمَوْتِ وَ تَوْفِیَۃَ النَّفْسِ

اس میں ملک الموت اور اس کے روح قبض کرنے کا ذکر فرمایا ہے

هَلْ تُحِسُّ بِهٖۤ اِذَا دَخَلَ مَنْزِلًا؟ اَمْ هَلْ تَرَاهُ اِذَا تَوَفّٰی اَحَدًا؟ بَلْ کَیْفَ یَتَوَفَّی الْجَنِیْنَ فِیْ بَطْنِ اُمِّهٖ؟ اَ یَلِجُ عَلَیْهِ مِنْ بَعْضِ جَوَارِحِهَا؟ اَمِ الرُّوْحُ اَجَابَتْهُ بِاِذْنِ رَبِّهَا؟ اَمْ هُوَ سَاکِنٌ مَّعَهٗ فِیْۤ َحْشَآئِهَا؟ کَیْفَ یَصِفُ اِلٰهَهٗ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَةِ مَخْلُوْقٍ مِّثْلِهٖ؟!

جب (ملک الموت) کسی گھر میں داخل ہوتا ہے تو کبھی تم اس کی آہٹ محسوس کرتے ہو؟ یا جب کسی کی روح قبض کرتا ہے تو کیا تم اسے دیکھتے ہو؟ (حیرت ہے) کہ وہ کس طرح ماں کے پیٹ میں بچے کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔ کیا وہ ماں کے جسم کے کسی حصہ سے وہاں تک پہنچتا ہے؟ یا اللہ کے حکم سے روح اس کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی بڑھتی ہے؟ یا وہ بچہ کے ساتھ شکم مادر میں ٹھہرا ہوا ہے؟ جو اس جیسی مخلوق کے بارے میں بھی کچھ نہ بیان کر سکے، وہ اپنے اللہ کے متعلق کیا بتا سکتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:47
عون نقوی