بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُحَذِّرُکُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرِةٌ، حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ، وَ تَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ، وَ رَاقَتْ بِالْقَلِیْلِ، وَ تَحَلَّتْ بِالْاٰمَالِ، وَ تَزَیَّنَتْ بِالْغُرُوْرِ، لَا تَدُوْمُ حَبْرَتُهَا، وَ لَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا، غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ، حَآئِلَةٌ زَآئِلَةٌ، نَافِدَةٌ بَآئِدَةٌ، اَکَّالَةٌ غَوَّالَةٌ، لَا تَعْدُوْـ اِذَا تَنَاهَتْ اِلٰۤی اُمْنِیَّةِ اَهْلِ الرَّغْبَةِ فِیْهَا وَ الرِّضَآءِ بِهَا ـ اَنْ تَکُوْنَ کَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰی سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا.

میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوشگوار، تر و تازہ و شاداب ہے، نفسانی خواہشیں اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ اپنی جلد میسر آ جانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرائشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، نقصان رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوؤں تک پہنچ جاتی ہے تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ نے بیان کیا ہے: ’’ (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے) جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

لَمْ یَکُنِ امْرُؤٌ مِّنْهَا فِیْ حَبْرَةٍ اِلَّاۤ اَعْقَبَتْهُ بَعْدَهَا عَبْرَةً، وَ لَمْ یَلْقَ مِنْ سَرَّآئِهَا بَطْنًا اِلَّا مَنَحَتْهُ مِنْ ضَرَّآئِهَا ظَهْرًا، وَ لَمْ تَطُلَّهُ فِیْهَا دِیْمَةُ رَخَآءٍ اِلَّا هَتَنَتْ عَلَیْهِ مُزْنَةُ بَلَآءٍ، وَ حَرِیٌّ اِذَا اَصْبَحَتْ لَهٗ مُنْتَصِرَةً اَنْ تُمْسِیَ لَهٗ مُتَنَکِّرَةً، وَ اِنْ جَانِبٌ مِّنْهَا اعْذَوْذَبَ وَ احْلَوْلٰی، اَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَاَوْبٰی.

جو شخص اس دنیا کا عیش و آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رخ دیکھتا ہے وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رخی بھی دکھاتی ہے اور جس شخص پر راحت و آرام کی بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں اس پر مصیبت و بلا کی دھواں دھار بارشیں بھی ہوتی ہیں یہ دنیا ہی کے مناسب ِ حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہو جائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک جنبہ شیریں و خوشگوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلا انگیز۔

لَا یَنَالُ امْرُؤٌ مِّنْ غَضَارَتِهَا رَغَبًا، اِلَّاۤ اَرْهَقَتْهُ مِنْ نَّوَآئِـبِهَا تَعَبًا، وَ لَا یُمْسِیْ مِنْهَا فِیْ جَنَاحِ اَمْنٍ، اِلَّاۤ اَصْبَحَ عَلٰی قَوَادِمِ خَوْفٍ، غَرَّارَةٌ غُرُوْرٌ مَّا فِیْهَا، فَانِیَةٌ فَانٍ مَّنْ عَلَیْهَا، لَا خَیْرَ فِیْ شَیْءٍ مِّنْ اَزْوَادِهَا اِلَّا التَّقْوٰی، مَنْ اَقَلَّ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُؤْمِنُهٗ، وَ مَنِ اسْتَکْثَرَ مِنْهَا اسْتَکْثَرَ مِمَّا یُوْبِقُهٗ، وَ زَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ عَنْهُ.

جو شخص بھی دنیا کی تر و تازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جسے امن و سلامتی کے پر و بال پر شام ہوتی ہے تو اسے صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا، وہ خود بھی فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی زاد میں سوا زادِ تقویٰ کے بھلائی نہیں ہے۔ جو شخص کم حصہ لیتا ہے وہ اپنے لئے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے اور جو دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے وہ اپنے لئے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے۔ (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔

کَمْ مِّنْ وَّاثِقٍۭ بِهَا قَدْ فَجَعَتْهُ، وَ ذِیْ طُمَاْنِیْنَةٍ اِلَیْهَا قَدْ صَرَعَتْهُ، وَ ذِیْۤ اُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْهُ حَقِیْرًا، وَ ذِیْ نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْهُ ذَلِیْلًا، سُلْطَانُهَا دُوَلٌ، وَ عَیْشُهَا رَنِقٌ، وَ عَذْبُهَا اُجَاجٌ، وَ حُلْوُهَا صَبِرٌ، وَ غِذَآؤُهَا سِمَامٌ، وَ اَسْبَابُهَا رِمَامٌ، حَیُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ، وَ صَحِیْحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ، مُلْکُهَا مَسْلُوْبٌ، وَ عَزِیْزُهَا مَغْلُوبٌ، وَ مَوْفُوْرُهَا مَنْکُوْبٌ، وَ جَارُهَا مَحْرُوْبٌ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انہیں مصیبتوں میں ڈال دیا اور کتنے ہی اس پر اطمینان کئے بیٹھے تھے جنہیں اس نے پچھاڑ دیا اور کتنے ہی رعب و طنطنہ والے تھے جنہیں حقیر و پست بنا دیا اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنہیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سر چشمہ گدلا، اس کا خوشگوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کے مانند تلخ) ہیں، اس کے کھانے زہر ہلاہل اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں، زندہ رہنے والا معرض ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے، اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مالدار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لُٹا لُٹایا ہوا ہے۔

اَلَسْتُمْ فِیْ مَسَاکِنِ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَطْوَلَ اَعْمَارًا، وَ اَبْقٰۤی اٰثَارًا، وَ اَبْعَدَ اٰمَالًا، وَ اَعَدَّ عَدِیْدًا، وَ اَکْثَفَ جُنُوْدًا، تَعَبَّدُوْا لِلدُّنْیَا اَیَّ تَعَبُّدٍ، وَاٰثَرُوْهَا اَیَّ اِیْثَارٍ، ثُمَّ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِغَیْرِ زَادٍ مُّبَلِّغٍ وَّ لَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ؟ فَهَلْ بَلَغَکُمْ اَنَّ الدُّنْیَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْسًۢا بِفِدْیَةٍ؟ اَوْ اَعَانَتْهُمْ بِمَعُوْنَةٍ؟ اَوْ اَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً‍‍؟ بَلْ اَرْهَقَتْهُمْ بِالْفَوَادِحِ، وَ اَوْهَنَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ، وَ ضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَآئِبِ، وَ عَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ، وَ وَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ، وَ اَعَانَتْ عَلَیْهِمْ ﴿رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝﴾، فَقَدْ رَاَیْتُمْ تَنَکُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا، وَ اٰثَرَهَا وَ اَخْلَدَ اِلَیْهَا، حَتّٰی ظَعَنُوْا عَنْهَا لِفِرَاقِ الْاَبَدِ. وَ هَلْ زَوَّدَتْهُمْ اِلَّا السَّغَبَ؟ اَوْ اَحَلَّتْهُمْ اِلَّا الضَّنْکَ؟ اَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ اِلَّا الظُّلْمَةَ؟ اَوْ اَعْقَبَتْهُمْ اِلَّا النَّدَامَةَ؟ اَفَهٰذِهٖ تُؤْثِرُوْنَ؟ اَمْ اِلَیْهَا تَطْمَئِنُّوْنَ؟ اَمْ عَلَیْهَا تَحْرِصُوْنَ؟.

کیا تم انہی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پائیدار نشانیوں والے، بڑی بڑی امیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لاؤ لشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس کس طرح پرستش کرتے رہے اور اسے آخرت پر کیسا کیسا ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے جو انہیں راستہ طے کر کے منزل تک پہنچاتا، چل دئیے۔ کیا تمہیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلہ میں کسی فدیہ کی پیشکش کی ہو؟ یا انہیں کوئی مدد پہنچائی ہو؟ یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی سہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انہیں عاجز و در ماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹایا۔ تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کر لی، یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہو کر چل دئیے اور اس نے انہیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہرنے کا سامان نہ کیا اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا۔ تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو؟ یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو؟ یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟۔

فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَّمْ یَتَّهِمْهَا، وَ لَمْ یَکُنْ فِیْهَا عَلٰی وَجَلٍ مِّنْهَا، فَاعْلَمُوْا ـ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ـ بِاَنَّکُمْ تَارِکُوْهَا وَ ظَاعِنُوْنَ عَنْهَا، وَ اتَّعِظُوْا فِیْهَا بِالَّذِیْنَ ﴿قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ ﴾، حُمِلُوْا اِلٰی قُبُوْرِهِمْ فَلَا یُدْعَوْنَ رُکْبَانًا، وَ اُنْزِلُوْا الْاَجْدَاثَ فَلَا یُدْعَوْنَ ضِیْفَانًا، وَ جُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِیْحِ اَجْنَانٌ، وَ مِنَ التُّرَابِ اَکْفَانٌ، وَ مِنَ الرُّفَاتِ جِیْرَانٌ.

جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کیلئے یہ بہت بُرا گھر ہے۔ جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمہیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ: ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے؟ انہیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھا جائے، انہیں قبروں میں اتار دیا گیا مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے، پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔

فَهُمْ جِیْرَةٌ لَّا یُجِیْبُوْنَ دَاعِیًا، وَ لَا یَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا، وَ لَا یُبَالُوْنَ مَنْدَبَةً، اِنْ جِیْدُوْا لَمْ یَفْرَحُوْا، وَ اِنْ قُحِطُوْا لَمْ یَقْنَطُوْا، جَمِیْعٌ وَّ هُمْ اٰحَادٌ، وَ جِیْرَةٌ وَّ هُمْ اَبْعَادٌ، مُتَدَانُوْنَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ قَرِیْبُوْنَ لَا یَتَقَارَبُوْنَ، حُلَمَآءُ قَدْ ذَهَبَتْ اَضْغَانُهُمْ، وَ جُهَلَآءُ قَدْ مَاتَتْ اَحْقَادُهُمْ، لَا یُخْشٰی فَجْعُهُمْ، وَ لَا یُرْجٰی دَفْعُهُمْ.

وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں مگر الگ الگ، وہ آپس میں ہمسائے ہیں مگر دور دور۔ پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے۔

اِسْتَبْدَلُوْا بِظَهْرِ الْاَرْضِ بَطْنًا، وَ بِالسَّعَةِ ضِیْقًا، وَ بِالْاَهْلِ غُرْبَةً، وَ بِالنُّوْرِ ظُلْمَةً، فَجَآؤُوْهَا کَمَا فَارَقُوْهَا، حُفَاةً عُرَاةً، قَدْ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِاَعْمَالِهِمْ اِلَی الْحَیَاةِ الدَّآئِمَةِ وَ الدَّارِ الْبَاقِیَةِ، کَمَا قَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿کَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ۝﴾.

انہوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے اور گھر بار پر دیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہو گئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرما یا ہے: ’’جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔‘‘


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:46
عون نقوی

اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِهِ الْمُتَوَسِّلُوْنَ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهُ الْاِیْمَانُ بِهٖ وَ بِرَسُوْلِهٖ، وَ الْجِهَادُ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَاِنَّهٗ ذِرْوَةُ الْاِسْلَامِ، وَ کَلِمَةُ الْاِخْلَاصِ فَاِنَّهَا الْفِطْرَةُ،وَ اِقَامُ الصَّلٰوةِ فَاِنَّهَا الْمِلَّةُ، وَ اِیْتَآءُ الزَّکٰوةِ فَاِنَّهَا فَرِیْضَةٌ وَّاجِبَةٌ، وَ صَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَاِنَّهٗ جُنَّةٌ مِّنَ الْعِقَاب، وَ حَجُّ الْبَیْتِ وَاعْتِمَارُهٗ فَاِنَّهُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَ یَرْحَضَانِ الذَّنْۢبَ، وَ صِلَةُ الرَّحِمِ فَاِنَّهَا مَثْرَاَةٌ فِی الْمَالِ وَ مَنْسَاَةٌ فِی الْاَجَلِ، وَ صَدَقَةُ السِّرِّ فَاِنَّهَا تُکَفِّرُ الْخَطِیْٓئَةَ، وَ صَدَقَةُ الْعَلَانِیَةِ فَاِنَّهَا تَدْفَعُ مِیْتَةَ السُّوْٓءِ، وَ صَنَآئِعُ الْمَعْرُوْفِ فَاِنَّهَا تَقِیْ مَصَارِعَ الْهَوَانِ.

اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈنے والوں کیلئے بہترین وسیلہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ہے اور اس کی راہ میں جہاد کرنا کہ وہ اسلام کی سر بلند چوٹی ہے اور کلمہ توحید کہ وہ فطرت (کی آواز) ہے اور نماز کی پابندی کہ وہ عین دین ہے اور زکوٰة ادا کرنا کہ وہ فرض و واجب ہے اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا کہ وہ عذاب کی سپر ہیں اور خانہ کعبہ کا حج و عمرہ بجا لانا کہ وہ فقر کو دور کرتے اور گناہوں کو دھو دیتے ہیں اور عزیزوں سے حسن سلوک کرنا کہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہے اور مخفی طور پر خیرات کرنا کہ وہ گناہوں کا کفارہ ہے اور کھلم کھلا خیرات کرنا کہ وہ بری موت سے بچاتا ہے اور لوگوں پر احسانات کرنا کہ وہ ذلّت و رسوائی کے مواقع سے بچاتا ہے۔

اَفِیْضُوْا فِیْ ذِکْرِ اللهِ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الذِّکْرِ، وَ ارْغَبُوْا فِیْمَا وَعَدَ الْمُتَّقِیْنَ فَاِنَّ وَعْدَهٗ اَصْدَقُ الْوَعْدِ، وَ اقْتَدُوْا بِهَدْیِ نَبِیِّکُمْ فَاِنَّهٗ اَفْضَلُ الْهَدْیِ، وَ اسْتَنُّوْا بِسُنَّتِهٖ فَاِنَّهَا اَهْدَی السُّنَنِ.

اللہ کے ذکر میں بڑھے چلو اس لئے کہ وہ بہترین ذکر ہے اور اس چیز کے خواہشمند بنو کہ جس کا اللہ نے پرہیز گاروں سے وعدہ کیا ہے۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ سب وعدوں سے زیادہ سچا ہے۔ نبیؐ کی سیرت کی پیروی کرو کہ وہ بہترین سیرت ہے اور ان کی سنت پر چلو کہ وہ سب طریقوں سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہے۔

وَ تَعَلَّمُوا الْقُرْاٰنَ فَاِنَّهٗ اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ، وَ تَفَقَّهُوْا فِیْهِ فَاِنَّهٗ رَبِیْعُ الْقُلُوْبِ، وَ اسْتَشْفُوْا بِنُوْرِهٖ فَاِنَّهٗ شِفَآءُ الصُّدُوْرِ، وَ اَحْسِنُوْا تِلَاوَتَهٗ فَاِنَّهٗۤ اَنْفَعُ الْقَصَصِ.

اور قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اور اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کیلئے شفا ہے اور اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ رساں ہیں۔

فَاِنَّ الْعَالِمَ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمِهٖ کَالْجَاهِلِ الْحَآئِرِ الَّذِیْ لَا یَسْتَفِیْقُ مِنْ جَهْلِهٖ، بَلِ الْحُجَّةُ عَلَیْهِ اَعْظَمُ، وَ الْحَسْرَةُ لَهٗۤ اَلْزَمُ، وَ هُوَ عِنْدَ اللهِ اَلْوَمُ.

وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا اس سرگرداں جاہل کے مانند ہے جو جہالت کی سر مستیوں سے ہوش میں نہیں آتا، بلکہ اس پر (اللہ کی ) حجت زیادہ ہے اور حسرت و افسوس اس کیلئے لازم و ضروری ہے اور اللہ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:43
عون نقوی

کُلُّ شَیْءٍ خَاشِعٌ لَّهٗ، وَکُلُّ شَیْءٍ قَآئِمٌۢ بِهٖ: غِنٰی کُلِّ فَقِیْرٍ، وَ عِزُّ کُلِّ ذَلِیْلٍ، وَ قُوَّةُ کُلِّ ضَعِیْفٍ، وَ مَفْزَعُ کُلِّ مَلْهُوْفٍ، مَنْ تَکَلَّمَ سَمِـعَ نُطْقَهٗ، وَ مَنْ سَکَتَ عَلِمَ سِرَّهٗ، وَ مَنْ عَاشَ فَعَلَیْهِ رِزْقُهٗ، وَ مَنْ مَّاتَ فَاِلَیْهِ مُنْقَلَبُهٗ. لَمْ تَرَکَ الْعُیُوْنُ فَتُخْبِرَ عَنْکَ، بَلْ کُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِیْنَ مِنْ خَلْقِکَ.

ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے۔ وہ ہر فقیر کا سرمایہ، ہر ذلیل کی آبرو، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہے۔ جو کہے اس کی بات بھی وہ سنتا ہے اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگاہ ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے اور جو مر جائے اس کا پلٹنا اسی کی طرف ہے۔ (اے اللہ!) آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں کہ تیری خبر دے سکیں، بلکہ تو تو اس وصف کرنے والی مخلوق سے پہلے موجود تھا۔

لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ، وَ لَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ، وَ لَا یَسْبِقُکَ مَنْ طَلَبْتَ، وَ لَا یُفْلِتُکَ مَنْ اَخَذْتَ، وَ لَا یَنْقُصُ سُلْطَانَکَ مَنْ عَصَاکَ، وَ لَا یَزِیْدُ فِیْ مُلْکِکَ مَنْ اَطَاعَکَ، وَ لَایَرُدُّ اَمْرَکَ مَنْ سَخِطَ قَضَآءَکَ، وَ لَایَسْتَغْنِیْ عَنْکَ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ اَمْرِکَ، کُلُّ سِرٍّ عِنْدَکَ عَلَانِیَةٌ، وَ کُلُّ غَیْبٍ عِنْدَکَ شَهَادَةٌ.

تو نے (تنہائی کی) وحشتوں سے اکتا کر مخلوق کو پیدا نہیں کیا اور نہ اپنے کسی فائدے کے پیش نظر ان سے اعمال کرائے۔ جسے تو گرفت میں لانا چاہے وہ تجھ سے آگے بڑھ کر جا نہیں سکتا اور جسے تو نے گرفت میں لے لیا پھر وہ نکل نہیں سکتا۔ جو تیری مخالفت کرتا ہے ایسا نہیں کہ وہ تیری فرمانروائی کو نقصان پہنچائے اور جو تیری اطاعت کرتا ہے وہ تیرے ملک (کی وسعتوں) کو بڑھا نہیں دیتا اور جو تیری قضا و قدر پر بگڑ اُٹھے وہ تیرے امر کو رد نہیں کر سکتا اور جو تیرے حکم سے منہ موڑ لے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ہر چھپی ہوئی چیز تیرے لئے ظاہر اور ہر غیب تیرے سامنے بے نقاب ہے۔

اَنْتَ الْاَبَدُ فَلَاۤ اَمَدَ لَکَ، وَ اَنْتَ الْمُنْتَهٰی فَلَا مَحِیْصَ عَنْکَ، وَ اَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجٰی مِنْکَ اِلَّاۤ اِلَیْکَ، بِیَدِکَ نَاصِیَةُ کُلِّ دَآبَّةٍ، وَ اِلَیْکَ مَصِیْرُ کُلِّ نَسَمَةٍ.

تو ابدی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور تو ہی (سب کی) منزل منتہا ہے کہ جس سے کوئی گریز کی راہ نہیں اور تو ہی وعدہ گاہ ہے کہ تجھ سے چھٹکارا پانے کی کوئی جگہ نہیں مگر تیری ہی ذات۔ ہر راہ چلنے والا تیرے قبضہ میں ہے اور ہر ذی روح کی بازگشت تیری طرف ہے۔

سُبْحَانَکَ مَاۤ اَعْظَمَ مَا نَرٰی مِنْ خَلْقِکَ! وَ مَاۤ اَصْغَرَ عِظَمَہٗ فِیْ جَنْۢبِ قُدْرَتِکَ! وَ مَاۤ اَهْوَلَ مَا نَرٰی مِنْ مَّلَکُوْْتِکَ! وَ مَاۤ اَحْقَرَ ذٰلِکَ فِیْمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِکَ! وَ مَاۤ اَسْبَغَ نِعَمَکَ فِی الدُّنْیَا، وَ مَاۤ اَصْغَرَهَا فِیْ نِعَمِ الْاٰخِرَةِ!.

سبحان اللہ! یہ تیری کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں، کتنی عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ان کی عظمت کتنی کم ہے اور یہ تیری بادشاہت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کتنی پر شکوہ ہے۔ لیکن تیری اس سلطنت کے مقابلہ میں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے کتنی حقیر ہے اور دنیا میں یہ تیری نعمتیں کتنی کامل و ہمہ گیر ہیں مگر آخرت کی نعمتوں کے سامنے وہ کتنی مختصر ہیں۔

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

مِنْ مَّلٰٓئِکَةٍ اَسْکَنْتَهُمْ سَمٰوَاتِکَ، وَ رَفَعْتَهُمْ عَنْ اَرْضِکَ، هُمْ اَعْلَمُ خَلْقِکَ بِکَ، وَ اَخْوَفُهُمْ لَکَ، وَ اَقْرَبُهُمْ مِّنْکَ. لَمْ یَسْکُنُوا الْاَصْلَابَ، وَ لَمْ یُضَمَّنُوا الْاَرْحَامَ، وَ لَمْ یُخْلَقُوْا ﴿مِنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍۚ۝﴾، وَ لَمْ یَتَشَعَّبْهُمْ رَیْبُ الْمَنُوْنِ، وَ اِنَّهُمْ عَلٰی مَکَانِهِمْ مِنْکَ، وَ مَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَکَ، وَ اسْتِجْمَاعِ اَهْوَآئِهِمْ فِیْکَ، وَکَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَکَ، وَ قِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ اَمْرِکَ، لَوْ عَایَنُوْا کُنْهَ مَا خَفِیَ عَلَیْهِمْ مِنْکَ لَحَقَّرُوْا اَعْمَالَهُمْ، وَ لَزَرَوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ لَعَرَفُوْۤا اَنَّهُمْ لَمْ یَعْبُدُوْکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ، وَ لَمْ یُطِیْعُوْکَ حَقَّ طَاعَتِکَ.

تو نے فرشتوں کو آسمانوں میں بسایا اور انہیں زمین کی سطح سے بلند رکھا۔ وہ سب مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتے ہیں اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں۔ نہ وہ صلبوں میں ٹھہرے، نہ شکموں میں رکھے گئے، نہ ذلیل پانی (نطفہ) سے ان کی پیدائش ہوئی اور نہ زمانہ کے حوادث نے انہیں منتشر کیا۔ وہ تیرے قرب میں اپنے مقام و منزلت کی بلندی اور تیرے بارے میں خیالات کی یکسوئی اور تیری عبادت کی فراوانی اور تیرے احکام میں عدم غفلت کے باوجود اگر تیرے راز ہائے قدرت کی اس تہ تک پہنچ جائیں کہ جو ان سے پوشیدہ ہے، تو وہ اپنے اعمال کو بہت ہی حقیر سمجھیں گے اور اپنے نفسوں پر حرف گیری کریں گے اور یہ جان لیں گے کہ انہوں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور نہ کماحقہ تیری اطاعت کی ہے۔

سُبْحَانَکَ خَالِقًا وَّ مَعْبُوْدًا! بِحُسْنِ بَلَآئِکَ عِنْدَ خَلْقِکَ، خَلَقْتَ دَارًا وَّ جَعَلْتَ فِیْهَا مَاْدُبَةً: مَشْرَبًا وَّ مَطْعَمًا، وَ اَزْوَاجًا وَّ خَدَمًا، وَ قُصُوْرًا وَّ اَنْهَارًا، وَ زُرُوْعًا وَّ ثِمَارًا.

میں خالق و معبود جانتے ہوئے تیری تسبیح کرتا ہوں۔ تیرے اس بہترین سلوک کی بنا پر جو تیرا اپنے مخلوقات کے ساتھ ہے۔ تو نے ایک ایسا گھر (جنت) بنایا ہے کہ جس میں مہمانی کیلئے کھانے پینے کی چیزیں، حوریں، غلمان، محل، نہریں، کھیت اور پھل مہیا کئے ہیں۔

ثُمَّ اَرْسَلْتَ دَاعِیًا یَّدْعُوْۤ اِلَیْهَا، فَلَا الدَّاعِیَ اَجَابُوْا، وَ لَا فِیْمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوْا، وَ لَاۤ اِلٰی مَا شَوَّقْتَ اِلَیْهِ اشْتَاقُوْا.

پھر تو نے ان نعمتوں کی طرف دعوت دینے والا بھیجا، مگر نہ انہوں نے بلانے والے کی آواز پر لبیک کہی اور نہ ان چیزوں کی طرف راغب ہوئے جن کی تو نے رغبت دلائی تھی اور نہ ان چیزوں کے مشتاق ہوئے جن کا تو نے اشتیاق دلایا تھا۔

اَقْبَلُوْا عَلٰی جِیْفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوْا بِاَکْلِهَا، وَ اصْطَلَحُوْا عَلٰی حُبِّهَا، وَ مَنْ عَشِقَ شَیْئًا اَعْشٰی بَصَرَهٗ، وَ اَمْرَضَ قَلْبَهٗ، فَهُوَ یَنْظُرُ بِعَیْنٍ غَیْرِ صَحِیْحَةٍ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنٍ غَیْرِ سَمِیْعَةٍ، قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَهٗ، وَ اَمَاتَتِ الدُّنْیَا قَلْبَهٗ، وَ وَلِهَتْ عَلَیْهَا نَفْسُهٗ، فَهُوَ عَبْدٌ لَّهَا، وَ لِمَنْ فِیْ یَدَیْهِ شَیْءٌ مِّنْهَا، حَیْثُمَا زَالَتْ زَالَ اِلَیْهَا، وَ حَیْثُمَاۤ اَقْبَلَتْ اَقْبَلَ عَلَیْهَا، لَا یَنْزَجِرُ مِنَ اللهِ بِزَاجِرٍ، وَ لَایَتَّعِظُ مِنْهُ بِوَاعِظٍ، وَ هُوَ یَرَی الْمَاْخُوْذِیْنَ عَلَی الْغِرَّةِ، حَیْثُ لَاۤ اِقَالَةَ لَہُمْ وَ لَا رَجْعَةَ، کَیْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا کَانُوْا یَجْهَلُوْنَ، وَ جَآءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْیَا مَا کَانُوْا یَاْمَنُوْنَ، وَ قَدِمُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ عَلٰی مَا کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ.

وہ تو اسی مردار دنیا پر ٹوٹ پڑے کہ جسے نوچ کھانے میں اپنی عزت آبرو گنوا رہے تھے اور اس کی چاہت پر ایکا کر لیا تھا۔ جو شخص کسی شے سے بے تحاشا محبت کرتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو اندھا، دل کو مریض کر دیتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے، سنتا ہے تو نہ سننے والے کانوں سے۔ شہوتوں نے اس کی عقل کا دامن چاک کر دیا ہے اور دنیا نے اس کے دل کو مردہ بنا دیا ہے اور اس کا نفس اس پر مرمٹا ہے۔ یہ دنیا کا اور ان لوگوں کا جن کے پاس کچھ بھی وہ دنیا ہے بندہ و غلام بن گیا ہے۔ جدھر وہ مڑتی ہے ادھر یہ مڑتا ہے، جدھر اس کا رخ ہوتا ہے ادھر ہی اس کا رخ ہوتا ہے۔ نہ اللہ کی طرف سے کسی روکنے والے کے کہنے سننے سے وہ رکتا ہے اور نہ ہی اس کے کسی وعظ و پند کرنے والے کی نصیحت مانتا ہے۔ حالانکہ وہ ان لوگوں کو دیکھتا ہے کہ جنہیں عین غفلت کی حالت میں وہاں پر جکڑ لیا گیا کہ جہاں نہ تدارک کی گنجائش اور نہ دنیا کی طرف پلٹنے کا موقعہ ہوتا ہے اور کس طرح وہ چیزیں ان پر ٹوٹ پڑیں کہ جن سے وہ بے خبر تھے اور کس طرح اس دنیا سے جدائی (کی گھڑی سامنے) آ گئی کہ جس سے پوری طرح مطمئن تھے اور کیونکر آخرت کی ان چیزوں تک پہنچ گئے کہ جن کی انہیں خبر دی گئی تھی۔

فَغَیْرُ مَوْصُوْفٍ مَّا نَزَلَ بِهِمْ: اِجْتَمَعَتْ عَلَیْهِمْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ وَ حَسْرَةُ الْفَوْتِ، فَفَتَرَتْ لَهَا اَطْرَافُهُمْ، وَ تَغَیَّرَتْ لَهَا اَلْوَانُهُمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِیْهِمْ وُلُوْجًا، فَحِیْلَ بَیْنَ اَحَدِهِمْ وَ بَیْنَ مَنْطِقِهٖ، وَ اِنَّهٗ لَبَیْنَ اَهْلِهٖ یَنْظُرُ بِبَصَرِهٖ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنِهٖ، عَلٰی صِحَّةٍ مِّنْ عَقْلِهٖ، وَ بَقَآءٍ مِّنْ لُّبِّهٖ، یُفَکِّرُ فِیْمَ اَفْنٰی عُمْرَهٗ، وَ فِیْمَ اَذْهَبَ دَهْرَهٗ! وَ یَتَذَکَّرُ اَمْوَالًا جَمَعَهَا، اَغْمَضَ فِیْ مَطَالِبِهَا، وَ اَخَذَهَا مِنْ مُّصَرَّحَاتِهَا وَ مُشْتَبِهَاتِهَا، قَدْ لَزِمَتْهُ تَبِعَاتُ جَمْعِهَا، وَ اَشْرَفَ عَلٰی فِرَاقِهَا، تَبْقٰی لِمَنْ وَّرَآءَهٗ یَنْعَمُوْنَ فِیْهَا، وَ یَتَمَتَّعُوْنَ بِهَا، فَیَکُوْنُ الْمَهْنَاُ لِغَیْرِهٖ، وَالْعِبْءُ عَلٰی ظَهْرِهٖ. وَالْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُوْنُهٗ بِهَا، فَهُوَ یَعَضُّ یَدَهٗ نَدَامَةً عَلٰی مَاۤ اَصْحَرَ لَهٗ عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ اَمْرِهٖ، وَ یَزْهَدُ فِیْمَا کَانَ یَرْغَبُ فِیْهِ اَیَّامَ عُمُرِهٖ، وَ یَتَمَنّٰۤی اَنَّ الَّذِیْ کَانَ یَغْبِطُهٗ بِهَا وَ یَحْسُدُهٗ عَلَیْهَا قَدْ حَازَهَا دُوْنَهٗ.

اب جو مصیبتیں ان پر ٹوٹ پڑی ہیں انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، موت کی سختیاں اور دنیا چھوڑنے کی حسرتیں مل کر انہیں گھیر لیتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور رنگتیں بدل جاتی ہیں۔ پھر ان (کے اعضاء) میں موت کی دخل اندازیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے ہی اس کی زبان بند ہو جاتی ہے، در صورتیکہ اس کی عقل درست اور ہوش و حواس باقی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے پڑا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے کانوں سے سنتا ہے اور ان چیزوں کو سوچتا ہے کہ جن میں اس نے اپنی عمر گنوا دی ہے اور اپنا زمانہ گزار دیا ہے اور اپنے جمع کیے ہوئے مال و متاع کو یاد کرتا ہے کہ جس کے طلب کرنے میں (جائز و ناجائز سے) آنکھیں بند کر لی تھیں اور جسے صاف اور مشکوک ہر طرح کی جگہوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کا وبال اپنے سر لے کر اسے چھوڑ دینے کی تیاری کرنے لگا۔ وہ مال (اب) اس کے پچھلوں کیلئے رہ جائے گا کہ وہ اس سے عیش و آرام کریں اور گل چھڑے اڑائیں۔ اس طرح وہ دوسروں کو تو بغیر ہاتھ پیر ہلائے یونہی مل گیا، لیکن اس کا بوجھ اس کی پیٹھ پر رہا اور یہ اس مال کی وجہ سے ایسا گروی ہوا ہے کہ بس اپنے کو چھڑا نہیں سکتا۔ مرنے کے وقت یہ حقیقت جو کھل کر اس کے سامنے آ گئی تو ندامت سے وہ اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے اور عمر بھر جن چیزوں کا طلب گار رہا تھا اب ان سے کنارہ ڈھونڈتا ہے اور یہ تمنا کرتا ہے کہ جو اس مال کی وجہ سے اس پر رشک و حسد کیا کرتے تھے (کاش کہ) وہی اس مال کو سمیٹتے نہ وہ۔

فَلَمْ یَزَلِ الْمَوْتُ یُبَالِغُ فِیْ جَسَدِهٖ حَتّٰی خَالَطَ لِسَانُهٗ سَمْعَهٗ، فَصَارَ بَیْنَ اَهْلِهٖ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانِهٖ، وَ لَا یَسْمَعُ بِسَمْعِهٖ: یُرَدِّدُ طَرْفَهٗ بِالنَّظَرِ فِیْ وجُوْهِهِمْ، یَرٰی حَرَکَاتِ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ لَا یَسْمَعُ رَجْعَ کَلَامِهِمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِیَاطًا بِهٖ، فَقُبِضَ بَصَرُهٗ کَمَا قُبِضَ سَمْعُهٗ، وَ خَرَجَتِ الرُّوْحُ مِنْ جَسَدِهٖ، فَصَارَ جِیْفَةًۢ بَیْنَ اَهْلِهٖ، قَدْ اَوْحَشُوْا مِنْ جَانِبِهٖ، وَ تَبَاعَدُوْا مِنْ قُرْبِهٖ. لَا یُسْعِدُ بَاکِیًا، وَ لَا یُجِیْبُ دَاعِیًا. ثُمَّ حَمَلُوْهُ اِلٰی مَخَطٍّ فِی الْاَرْضِ، فَاَسْلَمُوْهُ فِیْهِ اِلٰی عَمَلِهٖ، وَ انْقَطَعُوْا عَنْ زَوْرَتِهٖ.

اب موت کے تصرفات اس کے جسم میں اور بڑھے، یہاں تک کہ زبان کے ساتھ ساتھ کانوں پر بھی موت چھا گئی۔ گھر والوں کے سامنے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ زبان سے بول سکتا ہے، نہ کانوں سے سن سکتا ہے، آنکھیں گھما گھما کر ان کے چہروں کو تکتا ہے، ان کی زبانوں کی جنبشوں کو دیکھتا ہے، لیکن بات چیت کی آوازیں نہیں سن پاتا۔ پھر اس سے موت اور لپٹ گئی کہ اس کی آنکھوں کو بھی بند کر دیا جس طرح اس کے کانوں کو بند کیا تھا اور روح اس کے جسم سے مفارقت کر گئی۔ اب وہ گھر والوں کے سامنے ایک مردار کی صورت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی طرف سے انہیں وحشت ہوتی ہے اور اس کے پاس پھٹکنے سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ نہ رونے والے کی کچھ مدد کر سکتا ہے، نہ پکارنے والے کو جواب دے سکتا ہے۔ پھر اسے اٹھا کر زمین میں جہاں اس کی قبر بننا ہے لے جاتے ہیں اور اسے اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اب وہ جانے اور اس کا کام اور اس کی ملاقات سے ہمیشہ کیلئے منہ موڑ لیتے ہیں۔

حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ الْکِتَابُ اَجَلَهٗ، وَ الْاَمْرُ مَقَادِیْرَهٗ، وَ اُلْحِقَ اٰخِرُ الْخَلْقِ بِاَوَّلِهٖ، وَ جَآءَ مِنْ اَمْرِ اللهِ مَا یُرِیْدُهٗ مِنْ تَجْدِیْدِ خَلْقِهٖ، اَمَادَ السَّمَآءَ وَ فَطَرَهَا، وَ اَرَجَّ الْاَرْضَ وَ اَرْجَفَهَا، وَ قَلَعَ جِبَالَهَا وَ نَسَفَهَا، وَ دَکَّ بَعْضُهَا بَعْضًا مِّنْ هَیْبَةِ جَلَالَتِهٖ وَ مَخُوْفِ سَطْوَتِهٖ، وَ اَخْرَجَ مَنْ فِیْهَا، فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ اِخْلَاقِهِمْ، وَ جَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ.

یہاں تک کہ نوشتہ (تقدیر) اپنی میعاد کو اور حکمِ الٰہی اپنی مقررہ حد کو پہنچ جائے گا اور پچھلوں کو اَگلوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا اور فرمان قضا پھر سرے سے پیدا کرنے کا ارادہ لیکر آئے گا تو وہ آسمانوں کو جنبش میں لائے گا اور انہیں پھاڑ دے گا اور زمین کو ہلا ڈالے گا اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دے گا اور پہاڑوں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دے گا اور وہ اس کے جلال کی ہیبت اور قہر و غلبہ کی دہشت سے آپس میں ٹکرانے لگیں گے۔ وہ زمین کے اندر سے سب کو نکالے گا اور انہیں سڑ گل جانے کے بعد پھر از سر نو تر و تازہ کرے گا اور متفرق و پراگندہ ہونے کے بعد پھر یکجا کر دے گا۔

ثُمَّ مَیَّزَهُمْ لِمَا یُرِیْدُ مِنْ مَّسْئَلَتِهِمْ عَنْ خَفَایَا الْاَعْمَالِ وَ خَبَایَا الْاَفْعَالِ، وَ جَعَلَهُمْ فَرِیْقَیْنِ: اَنْعَمَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ وَ انْتَقَمَ مِنْ هٰٓؤُلَآءِ. فَاَمَّا اَهْلُ الطَّاعَةِ فَاَثَابَهُمْ بِجِوَارِهٖ، وَ خَلَّدَهُمْ فِیْ دَارِهٖ، حَیْثُ لَا یَظْعَنُ النُّزَّالُ، وَ لَا تَتَغَیَّرُ بِهِمُ الْحَالُ، وَ لَا تَنُوْبُهُمُ الْاَفْزَاعُ، وَ لَا تَنَالُهُمُ الْاَسْقَامُ، وَ لَا تَعْرِضُ لَهُمُ الْاَخْطَارُ، وَ لَا تُشْخِصُهُمُ الْاَسْفَارُ.

پھر ان کے چھپے ہوئے اعمال اور پوشیدہ کار گزاریوں کے متعلق پوچھ گچھ کرنے کیلئے انہیں جدا جدا کرے گا اور انہیں دو حصوں میں بانٹ دے گا۔ ایک کو وہ انعام و اکرام دے گا اور ایک سے انتقام لے گا۔ جو فرمانبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اس کے جوارِ رحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کیلئے ٹھہرا دے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اور نہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اور نہ انہیں سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لئے پھرتے ہیں۔

وَ اَمَّا اَهْلُ الْمَعْصِیَةِ فَاَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ، وَ غَلَّ الْاَیْدِیَ اِلَی الْاَعْنَاقِ، وَ قَرَنَ النَّوَاصِیَ بِالْاَقْدَامِ، وَ اَلْبَسَهُمْ سَرَابِیْلَ الْقَطِرَانِ، وَ مُقَطَّعَاتِ النِّیْرَانِ، فِیْ عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّهٗ، وَ بَابٍ قَدْ اُطْبِقَ عَلٰۤی اَهْلِهٖ، فِیْ نَارٍ لَّهَا کَلَبٌ وَّ لَجَبٌ، وَ لَهَبٌ سَاطِعٌ، وَ قَصِیْفٌ هَآئِلٌ، لَا یَظْعَنُ مُقِیْمُهَا، وَ لَا یُفَادٰۤی اَسِیْرُهَا، وَ لَا تُفْصَمُ کُبُوْلُهَا. لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنٰی، وَ لَا اَجَلَ لِلْقَوْمِ فَیُقْضٰی.

اور جو نافرمان ہوں گے انہیں ایک برے گھر میں پھینکے گا اور ان کے ہاتھ گردن سے (کس کر) باندھ دے گا اور ان کی پیشانیوں پر لٹکنے والے بالوں کو قدموں سے جکڑ دے گا اور انہیں تارکول کی قمیضیں اور آگ سے قطع کئے ہوئے کپڑے پہنائے گا (یعنی ان پر تیل چھڑک کر آگ میں جھونک دے گا)۔ وہ ایسے عذاب میں ہوں گے کہ جس کی تپش بڑی سخت ہو گی اور (ایسی جگہ میں ہوں گے کہ جہاں) ان پر دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور ایسی آگ میں ہوں گے کہ جس میں تیز شرارے، بھڑکنے کی آوازیں، اٹھتی ہوئی لپٹیں اور ہولناک چیخیں ہوں گی۔ اس میں ٹھہرنے والا نکل نہ سکے گا اور نہ ہی اس کے قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑا یا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی بیڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ اس گھر کی کوئی مدّت مقرر نہیں کہ اس کے بعد مٹ مٹاجائے، نہ رہنے والوں کیلئے کوئی مقررہ میعاد ہے کہ وہ پوری ہو جائے (تو پھر چھوڑ دیئے جائیں)۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اسی خطبہ کا یہ جز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَهَا، وَ اَهْوَنَ بِهَا وَ هَوَّنَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ زَوَاهَا عَنْهُ اخْتِیَارًا، وَ بَسَطَهَا لِغَیْرِهِ احْتِقَارًا، فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا عَنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِکَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، اَوْ یَرْجُوَ فِیْهَا مُقَامًا. بَلَّغَ عَنْ رَّبِّهٖ مُعْذِرًا، وَ نَصَحَ لِاُمَّتِهٖ مُنْذِرًا، وَ دَعَاۤ اِلَی الْجَنَّةِ مُبَشِّرًا.

انہوں نے (اس) دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور جانتے تھے کہ اللہ نے ان کی شان کو بالاتر سمجھتے ہوئے دنیا کا رخ ان سے موڑا ہے اور اسے گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کیلئے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہٰذا آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا اور اس کی یاد اپنے نفس سے مٹا ڈالی اور یہ چاهتے رہے کہ اس کی سج دھج ان کی نظروں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اس میں قیام کی آس لگائیں۔ انہوں نے عذر تمام کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور ڈراتے ہوئے اُمت کو پند و نصیحت کی اور خوشخبری سناتے ہوئے جنت کی طرف دعوت دی۔

نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ، وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ، وَ مُخْتَلَفُ الْمَلٰٓئِکَةِ، وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، وَ یَنَابِیْعُ الْحِکَمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا یَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ، وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا یَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.

ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن اور حکمت کا سر چشمہ ہیں۔ ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کیلئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر (الٰہی) کا منتظر رہنا چاہیے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:41
عون نقوی

وَ هِیَ مِنْ خُطَبِ الْمَلَاحِمِ

یہ ان خطبوں میں سے ہے جن میں زمانہ کے حوادث و فتن کا تذکرہ ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمُتَجَلِّیْ لِخَلْقِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ الظَّاهِرِ لِقُلُوْبِهِمْ بِحُجَّتِهٖ، خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، اِذْ کَانَتِ الرَّوِیَّاتُ لَا تَلِیْقُ اِلَّا بِذَوِی الضَّمَآئِرِ، وَ لَیْسَ بِذِیْ ضَمِیْرٍ فِیْ نَفْسِهٖ. خَرَقَ عِلْمُهٗ بَاطِنَ غَیْبِ السُّتُرَاتِ، وَ اَحَاطَ بِغُمُوْضِ عَقَآئِدِ السَّرِیْرَاتِ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اپنے مخلوقات کی وجہ سے مخلوقات کے سامنے عیاں ہے اور اپنی حجت و برہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے۔ اس نے بغیر سوچ بچار میں پڑے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس لئے کہ غور و فکر اس کے مناسب ہوا کرتی ہے جو دل و دماغ (جیسے اعضاء) رکھتا ہو اور وہ دل و دماغ کی احتیاج سے بری ہے۔ اس کا علم غیب کے پردوں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عقیدوں کی گہرائیوں کی تہ تک اترا ہوا ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اس خطبہ کا یہ جُز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

اِخْتَارَهٗ مِنْ شَجَرَةِ الْاَنْۢبِیَآءِ، وَ مِشْکَاةِ الضِّیَآءِ، وَ ذُؤَابَةِ الْعَلْیَآءِ، وَ سُرَّةِ الْبَطْحَآءِ، وَ مَصَابِیْحِ الظُّلْمَةِ، وَ یَنَابِیْعِ الْحِکْمَةِ.

انہیں انبیاءؑ کے شجرہ، روشنی کے مرکز (آل ابراہیمؑ)، بلندی کی جبیں (قریش)، بطحاء کی ناف (مکہ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا۔

[وَ مِنْهَا]

[اس خطبہ کا یہ حصہ بھی رسول ﷺ ہی سے متعلق ہے]

طَبِیْبٌ دَوَّارٌۢ بِطِبِّهٖ، قَدْ اَحْکَمَ مَرَاهِمَهٗ، وَ اَحْمٰی مَوَاسِمَهٗ، یَضَعُ مِنْ ذٰلِکَ حَیْثُ الْحَاجَةُ اِلَیْهِ، مِنْ قُلُوْبٍ عُمْیٍ، وَ اٰذَانٍ صُمٍّ، وَ اَلْسِنَةٍۭ بُکْمٍ، مُتَتَبِّـعٌۢ بِدَوَآئِهٖ مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ، وَ مَوَاطِنَ الْحَیْرَةِ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِاَضْوَآءِ الْحِکْمَةِ، وَ لَمْ یَقْدَحُوْا بِزِنَادِ الْعُلُوْمِ الثَّاقِبَةِ، فَهُمْ فِیْ ذٰلِکَ کَالْاَنْعَامِ السَّآئِمَةِ، وَ الصُّخُوْرِ الْقَاسِیَةِ.

وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو، اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لئے ہوں اور داغنے کے آلات تپا لئے ہوں، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں، گونگی زبانوں ( کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لئے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ مگر لوگوں نے نہ تو حکمت کی تنویروں سے ضیا و نور کو حاصل کیا اور نہ علومِ درخشاں کے چقماق کو رگڑ کر نورانی شعلے پیدا کئے، وہ اس معاملہ میں چرنے والے حیوانوں اور سخت پتھروں کے مانند ہیں۔

قَدِ انْجَابَتِ السَّرآئِرُ لِاَهْلِ الْبَصَآئِرِ، وَ وَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا، وَ اَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَّجْهِهَا، وَ ظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا. مَا لِیْۤ اَرَاکُمْ اَشْبَاحًۢا بِلَاۤ اَرْوَاحٍ، وَ اَرْوَاحًۢا بِلَاۤ اَشْبَاحٍ، وَ نُسَّاکًۢا بِلَا صَلَاحٍ، وَ تُجَّارًۢا بِلَاۤ اَرْبَاحٍ، وَ اَیْقَاظًا نُّوَّمًا، وَ شُهُوْدًا غُیَّبًا، وَ نَاظِرَةً عَمْیَآءَ، و سَامِعَةً صَمَّآءَ، وَ نَاطِقَةًۢ بَکْمَآءَ.

اہل بصیرت کیلئے چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہو گئی ہیں اور بھٹکنے والوں کیلئے حق کی راہ واضح ہو گئی اور آنے والی ساعت نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی اور غور سے دیکھنے والوں کیلئے علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں، لیکن تمہیں مَیں دیکھتا ہوں کہ پیکر بے روح اور روحِ بے قالب بنے ہوئے ہو، عابد بنے پھرتے ہو بغیر صلاح و تقویٰ کے اور تاجر بنے ہوئے ہو بغیر فائدوں کے، بیدار ہو مگر سو رہے ہو، حاضر ہو مگر ایسے جیسے غائب ہوں، دیکھنے والے ہو مگر اندھے، سننے والے ہو مگر بہرے، بولنے والے ہو مگر گونگے۔

رَایَةُ ضَلَالَۃٍ قَدْ قَامَتْ عَلٰی قُطْبِهَا، وَ تَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا، تَکِیْلُکُمْ بِصَاعِهَا، وَ تَخْبِطُکُمْ بِبَاعِهَا، قَآئِدُهَا خَارِجٌ مِّنَ الْمِلَّةِ، قَآئِمٌ عَلٰی الضَّلَّةِ، فَلَا یَبْقٰی یَوْمَئِذٍ مِّنْکُمْ اِلَّا ثُفَالَةٌ کَثُفَالَةِ الْقِدْرِ، اَوْ نُفَاضَةٌ کَنُفَاضَةِ الْعِکْمِ، تَعْرُکُکُمْ عَرْکَ الْاَدِیْمِ، وَ تَدُوْسُکُمْ دَوْسَ الْحَصَیْدِ، وَ تَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْۢ بَیْنِکُمُ اسْتِخْلَاصَ الطَّیْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِیْنَةَ مِنْۢ بَیْنِ هَزِیْلِ الْحَبِّ.

گمراہی کا جھنڈا تو اپنے مرکز پر جم چکا ہے اور اس کی شاخیں (ہرسو) پھیل گئی ہیں۔ تمہیں (تباہ کرنے کیلئے) اپنے پیمانوں میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمہیں اِدھر ُادھر بھٹکا رہا ہے اس کا پیشرو ملتِ (اسلام) سے خارج ہے اور گمراہی پر ڈٹا کھڑا ہے۔ اس دن تم میں سے کوئی نہیں بچے گا، مگر کچھ گرے پڑے لوگ، جیسے دیگ کی کھرچن یا تھیلے کے جھاڑنے سے گرے ہوئے ریزے۔ وہ گمراہی تمہیں اس طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑے کو مسلا جاتا ہے اور اس طرح روندے گی جیسے کٹی ہوئی زراعت کو روندا جاتا ہے اور (مصیبت و ابتلا کیلئے) تم میں سے مومن (کامل) کو اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں میں سے موٹے دانہ کو چن لیتا ہے۔

اَیْنَ تَذْهَبُ بِکُمُ الْمَذَاهِبُ، وَ تَتِیْهُ بِکُمُ الْغَیَاهِبُ، وَ تَخْدَعُکُمُ الْکَوَاذِبُ؟ وَ مِنْ اَیْنَ تُؤْتَوْنَ وَ ﴿اَنّٰی تٌؤْفَکُوْنَ﴾؟ فَلِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ، وَ لِکُلِّ غَیْبَةٍ اِیَابٌ، فَاسْتَمِعُوْا مِنْ رَّبَّانِیِّکُمْ، وَ اَحْضِرُوْا قُلُوْبَکُمْ، وَ اسْتَیْقِظُوْا اِنْ هَتَفَ بِکُمْ، وَ لْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیَجْمَعْ شَمْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ ذِهْنَهٗ، فَلَقَدْ فَلَقَ لَکُمُ الْاَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ، وَ قَرَفَهٗ قَرْفَ الصَّمْغَةِ.

یہ (غلط) روشیں تمہیں کہاں لئے جا رہی ہیں اور یہ اندھیاریاں تمہیں کن پریشانیوں میں ڈال رہی ہیں اور یہ جھوٹی امیدیں تمہیں کاہے کا فریب دے رہی ہیں؟ کہاں سے لائے جاتے ہو اور کدھر پلٹائے جاتے ہو؟ ہر میعاد کا ایک نوشتہ ہوتا ہے اور ہر غائب کو پلٹ کر آنا ہے۔ اپنے عالم ربانی سے سنو۔ اپنے دلوں کو حاضر کرو۔ اگر تمہیں پکارے تو جاگ اٹھو۔ قوم کے نمائندہ کو تو اپنی قوم سے سچ ہی بولنا چاہیے اور اپنی پریشاں خاطری میں یکسوئی پیدا کرنا اور اپنے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس نے حقیقت کو اس طرح واشگاف کر دیا ہے جس طرح (دھاگے میں پروئے جانے والے)مہرہ کو چیر دیا جاتا ہے اور اس طرح اسے (تہ سے) چھیل ڈالا ہے جیسے درخت سے گوند۔

فَعِنْدَ ذٰلِکَ اَخَذَ الْبَاطِلُ مَاٰخِذَهٗ، وَ رَکِبَ الْجَهْلُ مَرَاکِبَهٗ، وَ عَظُمَتِ الطَّاغِیَةُ، وَ قَلَّتِ الدَّاعِیَةُ، وَ صَالَ الدَّهْرُ صِیَالَ السَّبُعِ الْعَقُوْرِ، وَ هَدَرَ فَنِیْقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ کُظُوْمٍ، وَ تَوَاخَی النَّاسُ عَلَی الْفُجْوْرِ، وَ تَهَاجَرُوْا عَلَی الدِّیْنِ، وَ تَحَابُّوْا عَلَی الْکَذِبِ، وَ تَبَاغَضُوْا عَلَی الصِّدْقِ.

باوجود اس کے باطل پھر اپنے مرکز پر آ گیا اور جہالت اپنی سواریوں پر چڑھ بیٹھی، اس کی طغیانیاں بڑھ گئی ہیں اور (حق کی) آواز دَب گئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر دیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعد پھر بلبلانے لگا ہے، لوگوں نے فسق و فجور پر آپس میں بھائی چارہ کر لیا ہے اور دین کے سلسلہ میں ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، جھوٹ پر تو ایک دوسرے سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے اور سچ کے معاملہ میں باہم کد رکھتے ہیں۔

فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَانَ الْوَلَدُ غَیْظًا، وَ الْمَطَرُ قَیْظًا، وَ تَفِیْضُ اللِّئَامُ فَیْضًا، وَ تَغِیْضُ الْکِرَامُ غَیْضًا، وَ کَانَ اَهْلُ ذٰلِکَ الزَّمَانِ ذِئَابًا، وَسَلَاطَیْنُهٗ سِبَاعًا، وَ اَوْسَاطُهٗ اُکَّالًا، وَ فُقَرَاؤُهٗ اَمْوَاتًا، وَ غَارَ الصِّدْقُ، وَ فَاضَ الْکَذِبُ، وَ اسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ، وَ تَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوْبِ، وَ صَارَ الْفُسُوْقُ نَسَبًا، وَ الْعَفَافُ عَجَبًا، وَ لُبِسَ الْاِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوْبًا.

(ایسے موقعہ پر) بیٹا (آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کے بجائے) غیظ و غضب کا سبب ہو گا اور بارشیں گرمی و تپش کا، کمینے پھیل جائیں گے اور شریف گھٹتے جائیں گے۔ اس زمانہ کے لوگ بھیڑیئے ہوں گے اور حکمران درندے، درمیانی طبقہ کے لوگ کھاپی کر مست رہنے والے اور فقیر و نادار بالکل مردہ، سچائی دَب جائے گی اور جھوٹ اُبھر آئے گا، محبت (کی لفظیں) صرف زبانوں پر آئیں گی اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے، نسب کا معیار زنا ہو گا، عفت و پاکدامنی نرالی چیز سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 17:37
عون نقوی

وَ قَدْ سَمِعَ قَوْمًا مِّنْ اَصْحَابِہٖ یَسُبُّوْنَ اَھْلَ الشَّامِ اَیَّامَ حَرْبِھِمْ بِصِفِّیْنَ:

آپؐ نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو سنا کہ وہ شامیوں پر سب و شتم کر رہے ہیں تو آپؑ نے فرمایا:

اِنِّیْۤ اَکْرَهُ لَکُمْ اَنْ تَکُوْنُوْا سَبَّابِیْنَ، وَ لٰکِنَّکُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ اَعْمَالَهُمْ، وَ ذَکَرْتُمْ حَالَهُمْ، کَانَ اَصْوَبَ فِی الْقَوْلِ، وَ اَبْلَغَ فِی الْعُذْرِ، وَ قُلْتُمْ مَکَانَ سَبِّکُمْ اِیَّاهُمْ: اَللّٰهُمَّ احْقِنْ دِمَآءَنَا وَ دِمَآءَهُمْ، وَ اَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَ بَیْنِهِمْ، وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ، حَتّٰی یَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهٗ، وَ یَرْعَوِیَ عَنِ الْغَیِّ وَ الْعُدْوَانِ مَنْ لَّهِجَ بِهٖ.

میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو۔ اگر تم ان کے کرتوت کھولو اور ان کے صحیح حالات پیش کرو تو یہ ایک ٹھکانے کی بات اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریق کار ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدایا! ہمارا بھی خون محفوظ رکھ اور ان کا بھی اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف لا، تاکہ حق سے بے خبر حق کو پہچان لیں اور گمراہی و سرکشی کے شیدائی اس سے اپنا رخ موڑ لیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 January 23 ، 11:40
عون نقوی