بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ رُؤْیَةٍ، وَ الْخَالِقِ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ قَآئِمًا دَآئِمًا، اِذْ لَا سَمَآءٌ ذَاتُ اَبْرَاجٍ، وَ لَا حُجُبٌ ذَاتُ اِرْتَاجٍ، وَ لَا لَیْلٌ دَاجٍ، وَ لَا بَحْرٌ سَاجٍ، وَ لَا جَبَلٌ ذُوْ فِجَاجٍ، وَ لَا فَجٌّ ذُو اعْوِجَاجٍ، وَ لَاۤ اَرْضٌ ذَاتُ مِهَادٍ، وَ لَا خَلْقٌ ذُوا اعْتِمَادٍ: ذٰلِکَ مُبْتَدِعُ الْخَلْقِ وَ وَارِثُهٗ، وَ اِلٰهُ الْخَلْقِ وَ رَازِقُهٗ، وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ دَآئِبَآنِ فِیْ مَرْضَاتِهٖ: یُبْلِیَانِ کُلَّ جَدِیْدٍ، وَ یُقَرِّبَانِ کُلَّ بَعِیْدٍ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو نظر آئے بغیر جانا پہچانا ہوا ہے اور سوچ بچار میں پڑے بغیر پیدا کرنے والا ہے۔ وہ اس وقت بھی دائم و برقرار تھا جب کہ نہ برجوں والا آسمان تھا، نہ بلند دروازوں والے حجاب تھے، نہ اندھیری راتیں، نہ ٹھہرا ہوا سمندر، نہ لمبے چوڑے راستوں والے پہاڑ، نہ آڑی ترچھی پہاڑی راہیں اور نہ یہ بچھے ہوئے فرشوں والی زمین، نہ کس بل رکھنے والی مخلوق تھی۔ وہی مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور اس کا وارث ہے اور کائنات کا معبود اور ان کا رازق ہے۔ سورج اور چاند اس کی منشا کے مطابق (ایک دھرے پر) بڑھے جانے کی سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ہر نئی چیز کو فرسودہ اور دور کی چیزوں کو قریب کر دیتے ہیں۔

قَسَمَ اَرْزَاقَهُمْ، وَ اَحْصٰۤی اٰثَارَهُمْ وَ اَعْمَالَهُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسَهُمْ، وَ خَآئِنَةَ اَعْیُنِهِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ مِنَ الضَّمِیْرِ، وَمُسْتَقَرَّهُمْ وَ مُسْتَوْدَعَهُمْ مِّنَ الْاَرْحَامِ وَالظُّهُوْرِ، اِلٰۤی اَنْ تَتَنَاهٰی بِهِمُ الْغَایَاتُ.

اس نے سب کو روزی بانٹ رکھی ہے۔ وہ سب کے عمل و کردار اور سانسوں کے شمار تک کو جانتا ہے۔ وہ چوری چھپی نظروں اور سینے کی مخفی نیتوں اور صلب میں ان کے ٹھکانوں اور شکم میں ان کے سونپے جانے کی جگہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ ان کی عمریں اپنی حد و انتہا کو پہنچ جائیں۔

هُوَ الَّذِی اشْتَدَّتْ نِقْمَتُهٗ عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ فِیْ سَعَةِ رَحْمَتِهٖ، وَ اتَّسَعَتْ رَحْمَتُهٗ لِاَوْلِیَآئِهٖ فِیْ شِدَّةِ نِقْمَتِهٖ، قَاهِرُ مَنْ عَازَّهٗ، وَ مُدَمِّرُ مَنْ شَاقَّهٗ، وَ مُذِلُّ مَنْ نَّاوَاهُ، وَ غَالِبُ مَنْ عَادَاهٗ. مَنْ تَوَکَّلَ عَلَیْهِ کَفَاهُ، وَ مَنْ سَئَلَهٗۤ اَعْطَاهُ، وَ مَنْ اَقْرَضَهٗ قَضَاهُ، وَ مَنْ شَکَرَهٗ جَزَاهُ.

وہ ایسی ذات ہے کہ رحمت کی وسعتوں کے باوجود اس کا عذاب دشمنوں پر سخت ہے اور عذاب کی سختیوں کے باوجود دوستوں کیلئے اس کی رحمت وسیع ہے۔ جو اسے دبانا چاہے اس پر قابو پالینے والا اور جو اس سے ٹکر لینا چاہے اسے تباہ و برباد کرنے والا اور جو اس کی مخالفت کرے اُسے رسوا و ذلیل کرنے والا اور جو اس سے دشمنی برتے اس پر غلبہ پانے والا ہے۔ جو اس پر بھروسا کرتا ہے وہ اس کیلئے کافی ہو جاتا ہے اور جو کوئی اس سے مانگتا ہے اُسے دے دیتا ہے اور جو اسے قرضہ دیتا ہے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے) وہ اسے ادا کرتا ہے۔ جو شکر کرتا ہے اُسے بدلہ دیتا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! زِنُوْۤا اَنْفُسَکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُوْزَنُوْا، وَ حَاسِبُوْهَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَ تَنَفَّسُوْا قَبْلَ ضِیْقِ الْخِنَاقِ، وَ انْقَادُوْا قَبْلَ عُنْفِ السِّیَاقِ، وَ اعْلَمُوْا اَنَّهٗ مَنْ لَّمْ یُعَنْ عَلٰی نَفْسِهٖ حَتّٰی یَکُوْنَ لَهٗ مِنْهَا وَاعِظٌ وَّ زَاجِرٌ، لَمْ یَکُنْ لَّهٗ مِنْ غَیْرِهَا زَاجِرٌ وَّ لَا وَاعِظٌ.

اللہ کے بندو! اپنے نفسوں کو تولے جانے سے پہلے تول لو اور محاسبہ کئے جانے سے قبل خود اپنا محاسبہ کر لو۔ گلے کا پھندا تنگ ہونے سے پہلے سانس لے لو اور سختی کے ساتھ ہنکائے جانے سے پہلے مطیع و فرمانبردار بن جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ جسے اپنے نفس کیلئے یہ توفیق نہ ہو کہ وہ خود اپنے کو وعظ و پند کر لے اور برائیوں پر متنبہ کر دے تو پھر کسی اور کی بھی پند و تو بیخ اس پر اثر نہیں کر سکتی۔


https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 January 23 ، 19:04
عون نقوی

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ طُوْلِ هَجْعَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ، وَ اعْتِزَامٍ مِّنَ الْفِتَنِ، وَ انْتِشَارٍ مِّنَ الْاُمُوْرِ، وَ تَلَظٍّ مِّنَ الْحُرُوْبِ، وَ الدُّنْیَا کَاسِفَةُ النُّوْرِ، ظَاهِرَةُ الْغُرُوْرِ، عَلٰی حِیْنِ اصْفِرَارٍ مِّنْ وَّرَقِهَا، وَ اِیَاسٍ مِّنْ ثَمَرِهَا، وَ اغْوِرَارٍ مِّنْ مَآئِهَا، قَدْ دَرَسَتْ مَنَارُ الْهُدٰی، وَ ظَهَرَتْ اَعْلَامُ الرَّدٰی، فَهِیَ مُتَجَهِّمَةٌ لِّاَهْلِهَا، عَابِسَةٌ فِیْ وَجْهِ طَالِبِهَا، ثَمَرُهَا الْفِتْنَةُ، وَ طَعَامُهَا الْجِیْفَةُ، وَ شِعَارُهَا الْخَوْفُ، وَ دِثَارُهَا السَّیْفُ.

اللہ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو اس وقت بھیجا جب کہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور ساری اُمتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں، فتنے سر اُٹھا رہے تھے، سب چیزوں کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا بے رونق و بے نور تھی اور اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس کے پتوں میں زردی دوڑی ہوئی تھی اور پھلوں سے ناامیدی تھی۔ پانی زمین میں تہ نشین ہو چکا تھا، ہدایت کے مینار مٹ گئے تھے، ہلاکت و گمراہی کے پرچم کھلے ہوئے تھے اور دنیا والوں کے سامنے کڑے تیوروں سے اور تیوری چڑھائے ہوئے نظر آ رہی تھی۔ اس کا پھل فتنہ تھا اور اس کی غذا مردار تھی، اندر کا لباس خوف اور باہر کا پہناوا تلوار تھا۔

فَاعْتَبِرُوْا عِبَادَ اللهِ، وَ اذْکُرُوْا تِیْکَ الَّتِیْ اٰبَاؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ بِهَا مُرْتَهَنُوْنَ، وَ عَلَیْهَا مُحَاسَبُوْنَ.

خدا کے بندو! عبرت حاصل کرو اور ان (بد اعمالیوں) کو یاد کرو جن ( کے نتائج) میں تمہارے باپ، بھائی جکڑے ہوئے ہیں اور جن پر ان سے حساب ہونے والا ہے۔

وَ لَعَمْرِیْ! مَا تَقَادَمَتْ بِکُمْ وَ لَا بِهِمُ الْعُهُوْدُ، وَ لَا خَلَتْ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَهُمُ الْاَحْقَابُ وَ الْقُرُوْنُ، وَ مَاۤ اَنْتُمُ الْیَوْمَ مِنْ یَّوْمَ کُنْتُمْ فِیْۤ اَصْلَابِهِمْ بِبَعِیْدٍ.

مجھے اپنی زندگی کی قسم! تمہارا زمانہ ان کے زمانہ سے زیادہ پیچھے نہیں ہے اور نہ تمہارے اور ان کے درمیان صدیوں اور زمانوں کا فاصلہ ہے۔ ابھی تم اس دن سے زیادہ دور نہیں ہوئے کہ جب ان کی صلبوں میں تھے۔

وَاللهِ! مَاۤ اَسْمَعَھُمُ الرَّسُوْلُ ﷺ شَیْئًا اِلَّا وَ هَاۤ اَنَا ذَا الْیَوْمَ مُسْمِعُکُمُوْهُ، وَ مَاۤ اَسْمَاعُکُمُ الْیَوْمَ بِدُوْنِ اَسْمَاعِھِمْ بِالْاَمْسِ، وَ لَا شُقَّتْ لَهُمُ الْاَبْصَارُ، وَ لَا جُعِلَتْ لَهُمُ الْاَفْئِدَةُ فِیْ ذٰلِکَ الْاَوَانِ، اِلَّا وَ قَدْ اُعْطِیْتُمْ مِثْلَهَا فِیْ هٰذَا الزَّمَانِ.

خدا کی قسم! جو باتیں رسول ﷺ نے ان کے کانوں تک پہنچائیں، وہی باتیں میں تمہیں آج سنا رہا ہوں اور جتنا انہیں سنایا گیا تھا اس سے کچھ کم تمہیں نہیں سنایا جا رہا ہے اور جس طرح اس وقت ان کی آنکھیں کھولی گئی تھیں اور دل بنائے گئے تھے، ویسی ہی آنکھیں اور ویسے ہی دل اس وقت تمہیں دیئے گئے ہیں۔

وَ وَاللهِ! مَا بَصُرْتُمْ بَعْدَهُمْ شَیْئًا جَهِلُوْهُ، وَ لَاۤ اُصْفِیْتُمْ بِهٖ وَ حُرِمُوْهُ، وَ لَقَدْ نَزَلَتْ بِکُمُ الْبَلِیَّةُ جَآئِلًا خِطَامُهَا، رِخْوًا بِطَانُهَا، فَلَا یَغُرَّنَّکُمْ مَاۤ اَصْبَحَ فِیْهِ اَهْلُ الْغُرُوْرِ، فَاِنَّمَا هَوَ ظِلٌّ مَّمْدُوْدٌ، اِلٰۤی اَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ.

خدا کی قسم! ان کے بعد تمہیں کوئی ایسی نئی چیز نہیں بتائی گئی ہے جس سے وہ ناآشنا رہے ہوں اور کوئی خاص چیز نہیں دی گئی ہے جس سے وہ محروم تھے۔ ہاں ایک ایسی مصیبت تمہیں پیش آ گئی ہے (جو اس اونٹنی کے مانند ہے) جس کی نکیل جھول رہی اور تنگ ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ (جو کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائے گی)۔ دیکھو! ان فریب خوردہ لوگوں کے ٹھاٹھ باٹھ تمہیں ورغلا نہ دیں، اس لئے کہ یہ ایک پھیلا ہوا سایہ ہے جس کا وقت محدود ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 January 23 ، 19:02
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللهَ لَمْ یَقْصِمْ جَبَّارِیْ دَهْرٍ قَطُّ اِلَّا بَعْدَ تَمْهِیْلٍ وَّ رَخَآءٍ، وَ لَمْ یَجْبُرْ عَظْمَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَمِ اِلَّا بَعْدَ اَزْلٍ وَّ بَلَآءٍ، وَ فِیْ دُوْنِ مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ عَتْبٍ وَّ مَا اسْتَدْبَرْتُمْ مِنْ خَطْبٍ مُعْتَبَرٌ! وَ مَا کُلُّ ذِیْ قَلْبٍۭ بِلَبِیْبٍ، وَ لَا کُلُّ ذِیْ سَمْعٍۭ بِسَمِیْعٍ، وَ لَا کُلُّ نَاظِرٍۭ بِبَصِیْرٍ.

اللہ نے زمانے کے کسی سرکش کی گردن نہیں توڑی جب تک کہ اسے مہلت و فراغت نہیں عطا کر دی اور کسی اُمت کی ہڈی کو نہیں جوڑا جب تک اسے شدت و سختی اور ابتلا و آزمائش میں ڈال نہیں لیا۔ جو مصیبتیں تمہیں پیش آنے والی اور جن سختیوں سے تم گزر چکے ہو ان سے کم بھی عبرت اندوزی کیلئے کافی ہیں۔ ہر صاحبِ دل عاقل نہیں ہوتا اور نہ ہر کان رکھنے والا گوش شنوا اور نہ ہر آنکھ والا چشمِ بینا رکھتا ہے۔

فَیَا عَجَبًا! وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعْجَبُ مِنْ خَطَاِ هٰذِهِ الْفِرَقِ عَلَی اخْتِلَافِ حُجَجِهَا فِیْ دِیْنِهَا! لَا یَقْتَصُّوْنَ اَثَرَ نَبِیٍّ، وَ لَایَقْتَدُوْنَ بِعَمَلِ وَصِیٍّ، وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِغَیْبٍ، وَ لَا یَعِفُّوْنَ عَنْ عَیْبٍ، یَعْمَلُوْنَ فِی الشُّبُهَاتِ، وَ یَسِیْرُوْنَ فِی الشَّهَوَاتِ، الْمَعْرُوْفُ فِیْهِمْ مَا عَرَفُوْا، وَ الْمُنْکَرُ عِنْدَهُمْ مَاۤ اَنْکَرُوْا، مَفْزَعُهُمْ فِی الْمُعْضِلَاتِ اِلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ تَعْوِیْلُهُمْ فِی الْمُبْهَمَاتِ عَلٰی اٰرَآئِهِمْ، کَاَنَّ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اِمَامُ نَفْسِهٖ، قَدْ اَخَذَ مِنْهَا فِیْمَا یَرٰی بِعُرًی ثِقَاتٍ، و اَسْبَابٍ مُّحْکَمَاتٍ.

مجھے حیرت ہے اور کیوں نہ حیرت ہو، ان فرقوں کی خطاؤں پر جنہوں نے اپنے دین کی حجتوں میں اختلاف پیدا کر رکھے ہیں، جو نہ نبی کے نقش قدم پر چلتے ہیں، نہ وصی کے عمل کی پیروی کرتے ہیں، نہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نہ عیب سے دامن بچاتے ہیں، مشکوک و مشتبہ چیزوں پر ان کا عمل ہے اور اپنی خواہشوں کی راہ پر چلتے پھرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ اچھا سمجھیں ان کے نزدیک بس وہ اچھی ہے اور جس بات کو وہ برا جانیں ان کے نزدیک بس وہ بری ہے۔ مشکل گتھیوں کو سلجھانے کیلئے اپنے نفسوں پر اعتماد کر لیا ہے اور مشتبہ چیزوں میں اپنی رائے پر بھروسا کر لیتے ہیں۔ گویا ان میں سے ہر شخص خود ہی اپنا امام ہے اور اس نے جو اپنے مقام پر اپنی رائے سے طے کر لیا ہے اس کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ اسے قابل اطمینان وسیلوں اور مضبوط ذریعوں سے حاصل کیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 January 23 ، 19:00
عون نقوی

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ مِنْ اَحَبِّ عِبَادِ اللهِ اِلَیْهِ عَبْدًا اَعَانَهُ اللهُ عَلٰی نَفْسِهٖ، فَاسْتَشْعَرَ الْحُزْنَ، وَ تَجَلْبَبَ الْخَوْفَ، فَزَهَرَ مِصْبَاحُ الْهُدٰی فِیْ قَلْبِهٖ، وَ اَعَدَّ الْقِرٰی لِیَوْمِهِ النَّازِلِ بِهٖ، فَقَرَّبَ عَلٰی نَفْسِهِ الْبَعِیْدَ، وَ هَوَّنَ الشَّدِیْدَ، نَظَرَ فَاَبْصَرَ،وَ ذَکَرَ فَاسْتَکْثَرَ، وَ ارْتَوٰی مِنْ عَذْبٍ فُرَاتٍ سُهِّلَتْ لَهٗ مَوَارِدُهٗ، فَشَرِبَ نَهَلًا، وَ سَلَکَ سَبِیْلًا جَدَدًا.قَدْ خَلَعَ سَرَابِیْلَ الشَّهَوَاتِ، وَ تَخَلّٰی مِنَ الْهُمُوْمِ، اِلَّا هَمًّا وَّاحِدًا انْفَرَدَ بِهٖ، فَخَرَجَ مِنْ صِفَةِ الْعَمٰی، وَ مُشَارَکَةِ اَهْلِ الْهَوٰی، وَ صَارَ مِنْ مَّفَاتِیْحِ اَبْوَابِ الْهُدٰی، وَ مَغَالِیْقِ اَبْوَابِ الرَّدٰی.

اللہ کے بندو! اللہ کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ وہ بندہ محبوب ہے جسے اس نے نفس کی خلاف ورزی کی قوت دی ہے، جس کا اندرونی لباس حزن اور بیرونی جامہ خوف ہے (یعنی اندوہ و ملال اسے چمٹا رہتا ہے اور خوف اس پر چھایا رہتا ہے)۔ اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہے اور آنے والے دن کی مہمانی کا اس نے تہیہ کر رکھا ہے، (موت کو) جو دور ہے اسے وہ قریب سمجھتا ہے اور سختیوں کو اپنے لئے آسان سمجھ لیا ہے، دیکھتا ہے تو بصیرت و معرفت حاصل کرتا ہے، (اللہ کو) یاد کرتا ہے تو عمل کرنے پر تل جاتا ہے۔ (وہ اس سر چشمہ ہدایت کا) شیریں و خوشگوار پانی پی کر سیراب ہوا ہے جس کے گھاٹ تک (اللہ کی رہنمائی سے) وہ با آسانی پہنچ گیا ہے۔ اس نے پہلی ہی دفعہ چھک کر پی لیا ہے اور ہموار راستے پر چل پڑا ہے، شہوتوں کا لباس اتار پھینکا ہے، (دنیا کے) سارے اندیشوں سے بے فکر ہو کر صرف ایک ہی دھن میں لگا ہوا ہے۔ وہ گمراہی کی حالت اور ہوس پرستوں کی ہوس رانیوں میں حصہ لینے سے دور رہتا ہے۔ وہ ہدایت کے ابواب کھولنے اور ہلاکت و گمراہی کے دروازے بند کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

قَدْ اَبْصَرَ طَرِیْقَهٗ، وَ سَلَکَ سَبِیْلَهٗ، وَ عَرَفَ مَنَارَهٗ، وَ قَطَعَ غِمَارَهٗ، اسْتَمْسَکَ مِنَ الْعُرٰی بِاَوْثَقِهَا، وَ مِنَ الْحِبَالِ بِاَمْتَنِهَا، فَهُوَ مِنَ الْیَقِیْنِ عَلٰی مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ، قَدْ نَصَبَ نَفْسَهٗ لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ فِیْۤ اَرْفَعِ الْاُمُوْرِ، مِنْ اِصْدَارِ کُلِّ وَارِدٍ عَلَیْهِ، وَ تَصْیِیْرِ کُلِّ فَرْعٍ اِلٰۤی اَصْلِهٖ. مِصْبَاحُ ظُلُمَاتٍ، کَشَّافُ عَشَوَاتٍ، مِفْتَاحُ مُبْهَمَاتٍ، دَفَّاعُ مُعْضِلَاتٍ، دَلِیْلُ فَلَوَاتٍ، یَقُوْلُ فَیُفْهِمُ، وَ یَسْکُتُ فَیَسْلَمُ.

اس نے اپنا راستہ دیکھ لیا ہے اور اس پر گامزن ہے، (ہدایت کے) مینار کو پہچان لیا ہے اور دھاروں کو طے کر کے اس تک پہنچ گیا ہے، محکم وسیلوں اور مضبوط سہاروں کو تھام لیا ہے۔ وہ یقین کی وجہ سے ایسے اجالے میں ہے جو سورج کی چمک دمک کے مانند ہے۔ وہ صرف اللہ کی خاطر سب سے اونچے مقصد کو پورا کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ہر مشکل کو جو اس کے سامنے آئے، مناسب طور سے حل کر دے، ہر فرع کو اس کے اصل و مآخذ کی طرف راجع کرے۔ وہ تاریکیوں میں روشنی پھیلانے والا، مشتبہ باتوں کو حل کرنے والا، الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے والا، گنجلکوں کو دور کرنے والا اور لق و دق صحراؤں میں راہ دکھانے والا ہے۔ وہ بولتا ہے تو پوری طرح سمجھا دیتا ہے اور کبھی چپ ہو جاتا ہے اس وقت جب چپ رہنا ہی سلامتی کا ذریعہ ہے۔

قَدْ اَخْلَصَ لِلّٰهِ فَاسْتَخْلَصَهٗ، فَهُوَ مِنْ مَّعَادِنِ دِیْنِهٖ، وَ اَوْتَادِ اَرْضِهٖ. قَدْ اَلْزَمَ نَفْسَهُ الْعَدْلَ، فَکَانَ اَوَّلُ عَدْلِهٖ نَفْیَ الْهَوٰی عَنْ نَّفْسِهٖ، یَصِفُ الْحَقَّ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، لَا یَدَعُ لِلْخَیْرِ غَایَةً اِلَّاۤ اَمَّهَا، وَ لَا مَظِنَّةً اِلَّا قَصَدَهَا، قَدْ اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِنْ زِمَامِهٖ، فَهُوَ قَآئِدُهٗ وَ اِمَامُهٗ، یَحُلُّ حَیْثُ حَلَّ ثَقَلُهٗ، وَ یَنْزِلُ حَیْثُ کَانَ مَنْزِلُهٗ.

اس نے ہر کام اللہ کیلئے کیا تو اللہ نے بھی اسے اپنا بنا لیا ہے۔ وہ دین خدا کا معدن اور اس کی زمین میں گڑی ہوئی میخ کی طرح ہے۔ اس نے اپنے لئے عدل کو لازم کر لیا ہے چنانچہ اس کے عدل کا پہلا قدم خواہشوں کو اپنے نفس سے دور رکھنا ہے۔ حق کو بیان کرتا ہے تو اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کوئی نیکی کی حد ایسی نہیں جس کا اس نے ارادہ نہ کیا ہو اور کوئی جگہ ایسی نہیں ہے کہ جہاں نیکی کا امکان ہو اور اس نے قصد نہ کیا ہو۔ اس نے اپنی باگ ڈور قرآن کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ وہی اس کا رہبر اور وہی اس کا پیشوا ہے۔ جہاں اس کا بارِ گراں اترتا ہے وہیں اس کا سامان اترتا ہے اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں یہ بھی اپنا پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔

وَ اٰخَرُ قَدْ تَسَمّٰی عَالِمًا وَّ لَیْسَ بِهٖ، فَاقْتَبَسَ جَهَآئِلَ مِنْ جُهَّالٍ وَّ اَضَالِیْلَ مِنْ ضُلَّالٍ، وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکًا مِّنْ حَبَآئِلِ غُرُوْرٍ، وَ قَوْلِ زُوْرٍ، قَدْ حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰۤی اٰرَآئِهٖ، وَ عَطَفَ الْحَقَّ عَلٰۤی اَهْوَآئِهٖ، یُؤَمِّنُ النَّاسَ مِنَ الْعَظَآئِمِ، وَ یُهَوِّنُ کَبِیْرَ الْجَرَآئِمِ، یَقُوْلُ: اَقِفُ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ، وَ فِیْهَا وَقَعَ، وَ یَقُوْلُ: اَعْتَزِلُ الْبِدَعَ، وَ بَیْنَهَا اضْطَجَعَ، فَالصُّوْرَةُ صُوْرَةُ اِنْسَانٍ، وَ الْقَلْبُ قَلْبُ حَیَوَانٍ، لَا یَعْرِفُ بَابَ الْهُدٰی فَیَتَّبِعَهٗ، وَ لَا بَابَ الْعَمٰی فیَصُدَّ عَنْهُ، وَ ذٰلِکَ مَیِّتُ الْاَحْیَآءَ!.

(اس کے علاوہ) ایک دوسرا شخص ہوتا ہے جس نے (زبردستی) اپنا نام عالم رکھ لیا ہے، حالانکہ وہ عالم نہیں۔ اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہیوں کو بٹور لیا ہے اور لوگوں کیلئے مکرو فریب کے پھندے اور غلط سلط باتوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ قرآن کو اپنی رائے پر اور حق کو اپنی خواہشوں پر ڈھالتا ہے۔ بڑے سے بڑے جرموں کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکال دیتا ہے اور کبیرہ گناہوں کی اہمیت کو کم کرتا ہے۔ کہتا تو یہ ہے کہ: میں شبہات میں توقف کرتا ہوں حالانکہ انہی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کا قول یہ ہے کہ: میں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں، حالانکہ انہی میں اس کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ صورت تو اس کی انسانوں کی سی ہے اور دل حیوانوں کا سا۔ نہ اسے ہدایت کا دروازہ معلوم ہے کہ وہاں تک آ سکے اور نہ گمراہی کا دروازہ پہچانتا ہے کہ اس سے اپنا رخ موڑ سکے۔ یہ تو زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی) لاش ہے۔

﴿فَاَیْنَ تَذْهَبُوْنَ﴾ وَ ﴿اَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ﴾! وَ الْاَعْلَامُ قَآئِمَةٌ،وَ الْاٰیَاتُ وَاضِحَةٌ، وَ الْمَنَارُ مَنْصُوْبَةٌ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِکُمْ؟ بَلْ کَیْفَ تَعْمَهُوْنَ وَ بَیْنَکُمْ عِتْرَةُ نَبِیِّکُمْ؟ وَ هُمْ اَزِمَّةُ الْحَقِّ، وَ اَعْلَامُ الدِّیْنِ، وَ اَلْسِنَةُ الصِّدْقِ! فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ، وَ رِدُوْهُمْ وُرُوْدَ الْهِیْمِ الْعِطَاشِ.

اب تم کہاں جا رہے ہو؟ اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبی ﷺ کی عترتؑ تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سر چشمہ ہدایت پر اترو۔

اَیُّهَا النَّاسُ! خُذُوْهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ ﷺ: «اِنَّهٗ یَمُوْتُ مَنْ مَّاتَ مِنَّا وَ لَیْسَ بِمَیِّتٍ، وَ یَبْلٰی مَنْۢ بَلِیَ مِنَّا وَ لَیْسَ بِبَالٍ».

اے لوگو! خاتم النبیین ﷺ کے اس ارشاد [۱] کو سنو کہ (انہوں نے فرمایا:) «ہم میں سے جو مر جاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے اور ہم میں سے (جو بظاہر مر کر) بوسیدہ ہو جاتا ہے وہ حقیقت میں کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا»۔

فَلَا تَقُوْلُوْا بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ، فَاِنَّ اَکْثَرَ الْحَقِّ فِیْمَا تُنْکِرُوْنَ، وَ اعْذِرُوْا مَنْ لَّا حُجَّةَ لَکُمْ عَلَیْهِ ـ وَ اَنَا هُوَ ـ.

جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو۔ اس لئے کہ حق کا بیشتر حصہ انہی چیزوں میں ہوتا ہے کہ جن سے تم بیگانہ و ناآشنا ہو۔ (جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو) اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو اسے معذور سمجھو اور وہ میں ہوں۔

اَ لَمْ اَعْمَلْ فِیْکُمْ بِالثَّقَلِ الْاَکْبَرِ؟! وَ اَتْرُکْ فِیْکُمُ الثَّقَلَ الْاَصْغَرَ؟! وَ رَکَزْتُ فِیکُمْ رَایَةَ الْاِیْمَانِ، وَ وَقَفْتُکُمْ عَلٰی حُدُوْدِ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ، وَ اَلْبَسْتُکُمُ الْعَافِیَةَ مِنْ عَدْلِیْ، وَ فَرَشْتُکُمُ الْمَعْرُوْفَ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِیْ، وَ اَرَیْتُکُمْ کَرَآئِمَ الْاَخْلَاقِ مِنْ نَّفْسِیْ، فَلَا تَسْتَعْمِلُوا الرَّاْیَ فِیْمَا لَا یُدْرِکُ قَعْرَهُ الْبَصَرُ، وَ لَا تَتَغَلْغَلُ اِلَیْهِ الْفِکَرُ.

کیا میں نے تمہارے سامنے ثقلِ اکبر (قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقلِ اصغر (اہلبیت علیہم السلام) کو تم میں نہیں رکھا [۲] ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا، حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے اور اپنے قول و عمل سے حسنِ سلوک کا فرش تمہارے لئے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔ جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں اس میں اپنی رائے کو کار فرما نہ کرو۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز و بنی امیہ کے متعلق ہے]

حَتّٰی یَظُنَّ الظَّانُّ اَنَّ الدُّنْیَا مَعْقُوْلَةٌ عَلٰی بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، تَمْنَحُهُمْ دَرَّهَا، وَ تُوْرِدُهُمْ صَفْوَهَا، وَ لَا یُرْفَعُ عَنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ سَوْطُهَا وَ لَا سَیْفُهَا، وَ کَذَبَ الظَّانُّ لِذٰلِکَ. بَلْ هِیَ مَجَّةٌ مِّنْ لَّذِیْذِ الْعَیْشِ یَتَطَعَّمُوْنَهَا بُرْهَةً، ثُمَّ یَلْفِظُوْنَهَا جُمْلَةً!.

یہاں تک کہ گمان کرنے والے یہ گمان کرنے لگیں گے کہ بس اب دنیا بنی امیہ ہی کے دامن سے بندھی رہے گی اور انہیں ہی اپنے سارے فائدے بخشتی رہے گی اور انہیں ہی اپنے صاف چشمہ پر سیراب ہونے کیلئے اتارتی رہے گی اور اس اُمت کی (گردن پر) ان کی تلوار اور (پشت پر) ان کا تازیانہ ہمیشہ رہے گا۔ جو یہ خیال کرے گا، غلط خیال کرے گا، بلکہ یہ تو زندگی کے مزوں میں سے چند شہد کے قطرے ہیں، جنہیں کچھ دیر تک وہ چوسیں گے اور پھر سارے کا سارا تھوک دیں گے۔


پیغمبر اکرم ﷺ کا یہ ارشاد اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی فرد کی زندگی ختم نہیں ہوتی اور ظاہری موت سے ان کے مرگ و حیات میں شعورِ زندگی کے لحاظ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اگرچہ اس زندگی کے احوال و واردات کے سمجھنے سے انسانی شعور عاجز ہے، مگر ماورائے محسوسات کتنی ہی حقیقتیں ایسی ہیں جن تک انسان کا شعور و ادراک نہیں پہنچ سکتا۔ کون بتا سکتا ہے کہ قبر کے تنگ گوشے میں کہ جہاں سانس بھی نہیں لی جا سکتی کیونکر منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیا جا سکے گا۔ یونہی شہدائے راهِ خدا کہ جو نہ حس و حرکت رکھتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں ان کی زندگی کا مفہوم کیا ہے۔ گو ہمیں وہ بظاہر مُردہ نظر آتے ہیں، مگر قرآن ان کی زندگی کی شہادت دیتا ہے:
﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِىْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‏﴾
جو لوگ خدا کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ کہنا، بلکہ وہ جیتے جاگتے ہیں، مگر تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔(۱)
دوسرے مقام پر ان کی زندگی کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ‌ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ‏ ﴾
جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرنا، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے روزی پاتے ہیں۔(۲)
جب عام شہدائے راهِ خدا کے بارے میں قلب و زبان پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے کہ نہ انہیں مردہ کہا جائے اور نہ انہیں مردہ سمجھا جائے تو وہ معصوم ہستیاں کہ جن کی گردنیں تلوار کیلئے اور کام و دہن زہر کیلئے وقف ہو کر رہ گئے تھے کیونکر زندۂ جاوید نہ ہوں گے۔
پھر ان جسموں کے متعلق فرمایا ہے کہ امتدادِ زمانہ سے ان میں کہنگی و بوسیدگی کے آثار پیدا نہیں ہوتے، بلکہ وہ اسی حالت میں رہتے ہیں جس حالت میں شہید ہوتے ہیں۔ اور اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے، کیونکہ مادی ذرائع سے ہزارہا برس کی محفوظ کی ہوئی میتیں اس وقت تک موجود ہیں تو جب مادی اسباب سے یہ ممکن ہے تو کیا قادرِ مطلق کے احاطۂ قدرت سے یہ باہر ہے کہ جن کی موت میں زندگی کے احساسات ودیعت کر دیئے ہوں ان کے جسموں کو تغیر و تبدل سے محفوظ رکھے؟ چنانچہ شہدائے بدر کے متعلق پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
زَمِّلُوْهُمْ بِکُلُوْمِهِمْ - وَدِمَآئِهِمْ فَاِنَّهُمْ یُحْشَرُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ اَوْدَاجُهُمْ تَشْخَبُ دَمًا.
انہیں انہی زخموں اور خون کی روانیوں کے ساتھ لپیٹ دو، کیونکہ جب یہ قیامت میں محشور ہوں گے تو ان کے رگہائے گلو سے خون اُبلتا ہو گا۔(۳)
۲’’ثقلِ اکبر‘‘ سے مراد قرآن اور ’’ثقلِ اصغر‘‘ سے اہل بیت علیہم السلام مراد ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر ﷺ نے اپنے ارشاد «اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ» میں لفظ ’’ثقلین‘‘ سے قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اس لفظ سے تعبیر کرنے کے چند وجوہ ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تعلیماتِ قرآن و سیرتِ اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونا عموماً طبائع پر ثقیل و گراں گزرتا ہے، اس لئے انہیں ’’ثقلین‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’ثقل‘‘ کے معنی سامانِ مسافر کے ہوتے ہیں، جس کے محل احتیاج ہونے کی وجہ سے اس کی ہر وقت حفاظت کی جاتی ہے اور چونکہ قدرت نے انہیں قیامت تک باقی و برقرار رکھ کر ان کی حفاظت کا سروسامان کیا ہے، اس لئے انہیں’’ثقلین‘‘ کہا گیا ہے۔ یا یہ کہ پیغمبر ﷺ نے راہ پیمائے جادۂ آخرت ہونے کے وقت انہیں اپنا متاعِ بے بہا قرار دے کر اُمت سے ان کی حفاظت چاہی ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کی نفاست و گرانقدری کے پیشِ نظر انہیں ’’ثقلین‘‘ سے یاد کیا گیا ہے، کیونکہ ’’ثقل‘‘ کے معنی نفیس اور پاکیزہ شے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابنِ حجر مکی نے تحریر کیا ہے:
سَمّٰى رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْقُرْاٰنَ وَ عِتْرَتَهٗ ثَقَلَیْنِ، لِاَنَّ الثِّقْلَ کُلُّ نَفِیْسٍ خَطِیْرٍ مَصُوْنٍ، وَ هٰذَانِ کَذٰلِکَ، اِذْ کُلٌّ مِّنْهُمَا مَعْدِنٌ لِّلْعُلُوْمِ اللَّدُنِّیَّةِ وَ الْاَسْرَارِ وَ الْحِکَمِ الْعُلْیَةِ وَ الْاَحْکَامِ الشَّرْعِیَّةِ، وَ لِذَا حَثَّ ﷺ عَلَى الْاِقْتِدَآءِ وَ التَّمَسُّکِ بِهِمْ وَ التَّعَلُّمِ مِنْهُمْ، ثُمَّ اَحَقُّ مَنْ یُّتَمَسَّکُ بِهٖ مِنْهُمْ اِمَامُهُمْ وَ عَالِمُهُمْ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ کَرَّمَ اللهُ وَجْهَهٗ لِمَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ مَّزِیْدِ عِلْمِهٖ وَ دَقَآئِقِ مُسْتَنْۢبِطَاتِهٖ.
پیغمبر ﷺ نے قرآن اور اپنی عترت کا نام ’’ثقلین‘‘ رکھا ہے، کیونکہ ’’ثقل‘‘ ہر نفیس، عمدہ اور محفوظ چیز کو کہتے ہیں اور یہ دونوں ایسے ہی تھے۔ ان میں سے ہر ایک علم لدنی کا گنجینہ اور بلند پایہ اسرار و حکم اور احکام شرعیہ کا مخزن ہے۔ اسی لئے پیغمبرﷺ نے ان کی اقتدا اور ان کے دامن سے وابستگی اور ان سے تحصیل علوم کیلئے اُمت کو آمادہ کیا اور ان میں سے تمسک کئے جانے کے زیادہ حقدار امام و عالمِ آلِ محمد علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں، آپؑ کی اس علمی فراوانی اور استنباط میں دقت پسندی کی بنا پر کہ جس کا ہم پہلے تذکرہ کر چکے ہیں۔ (صواعق محرقہ، ص۹۰)
پیغمبر اکرم ﷺ نے چونکہ مقامِ تعبیر میں ’’کتاب‘‘ کی نسبت ’’اللہ‘‘ کی جانب دی ہے اور ’’عترت‘‘ کی نسبت اپنی طرف، اس لئے حفظِ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے اُسے ’’اکبر‘‘ اور اسے ’’اصغر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ورنہ مقامِ تمسک میں اہمیت کے لحاظ سے دونوں یکساں اور تعمیر اخلاق میں افادیت کے لحاظ سے ناطق کا درجہ صامت پر مقدم ہونے میں گنجائش انکار نہیں ہے۔
 

[۱]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۵۴۔
[۲]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۶۹۔
[۳]۔ منہاج البراعۃ، ج ۶، ص ۲۱۲، تیسر التحریر، ج ۴، ص ۳۹۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 January 23 ، 18:58
عون نقوی

قَدْ عَلِمَ السَّرَآئِرَ، وَ خَبَرَ الضَّمَآئِرَ، لَهُ الْاِحَاطَةُ بِکُلِّ شَیْءٍ، وَ الْغَلَبَةُ لِکُلِّ شَیْءٍ، وَ الْقُوَّةُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ. فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُ مِنْکُمْ فِیْۤ اَیَّامِ مَهَلِهٖ، قَبْلَ اِرْهَاقِ اَجَلِهٖ، وَ فِیْ فَرَاغِهٖ قَبْلَ اَوَانِ شُغُلِهٖ، وَ فِیْ مُتَنَفَّسِهٖ قَبْلَ اَنْ یُّؤْخَذَ بِکَظَمِهٖ، وَ لْیُمَهِّدْ لِنَفْسِهٖ وَ قَدَمِهٖ، وَ لْیَتَزَوَّدْ مِنْ دَارِ ظَعْنِهٖ لِدَارِ اِقَامَتِهٖ.

وہ دل کی نیتوں اور اندر کے بھیدوں کو جانتا پہچانتا ہے، وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر شے پر چھایا ہوا ہے اور ہر چیز پر اس کا زور چلتا ہے۔ تم میں سے جسے کچھ کرنا ہو اسے موت کے حائل ہونے سے پہلے مہلت کے دنوں میں اور مصروفیت سے قبل فرصت کے لمحوں میں اور گلا گھٹنے سے پہلے سانس چلنے کے زمانہ میں کر لینا چاہیے۔ وہ اپنے لئے اور اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے سامان کا تہیہ کر لے اور اس گزرگاہ سے منزل اقامت کیلئے زاد فراہم کرتا جائے۔

فَاللهَ اللهَ اَیُّهَا النَّاسُ! فِیْمَا اسْتَحْفَظَکُمْ مِنْ کِتَابِهٖ، وَ اسْتَوْدَعَکُمْ مِّنْ حُقُوْقِهٖ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَخْلُقْکُمْ عَبَثًا، وَ لَمْ یَتْرُکْکُمْ سُدًی، وَ لَمْ یَدَعْکُمْ فِیْ جَهَالَةٍ وَّ لَا عَمًی، قَدْ سَمّٰی اٰثَارَکُمْ، وَ عَلِمَ اَعْمَالَکُمْ، وَ کَتَبَ اٰجَالَکُمْ، وَ اَنْزَلَ عَلَیْکُمُ ﴿الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ﴾ ، وَ عَمَّرَ فِیْکُمْ نَبِیَّهٗ اَزْمَانًا، حَتّٰۤی اَکْمَلَ لَهٗ وَ لَکُمْ ـ فِیْمَاۤ اَنْزَلَ مِنْ کِتَابِهٖ ـ دِیْنَهُ الَّذِیْ رَضِیَ لِنَفْسِهٖ، وَ اَنْهٰۤی اِلَیْکُمْ ـ عَلٰی لِسَانِهٖ ـ مَحَابَّهٗ مِنَ الْاَعْمَالِ وَ مَکَارِهَهٗ، وَ نَوَاهِیَهُ وَ اَوَامِرَهٗ، فَاَلْقٰۤی اِلَیْکُمُ الْمَعْذِرَةَ، وَ اتَّخَذَ عَلَیْکُمُ الْحُجَّةَ، وَ قَدَّمَ اِلَیْکُمْ بِالْوَعِیْدِ، وَ اَنْذَرَکُمْ ﴿بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ.

اے لوگو! اللہ نے اپنی کتاب میں جن چیزوں کی حفاظت تم سے چاہی ہے اور جو حقوق تمہارے ذمے کئے ہیں، ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اس لئے کہ اللہ سبحانہ نے تمہیں بے کار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند جہالت و گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اس نے تمہارے کرنے اور نہ کرنے کے اچھے بُرے کام تجویز کر دیئے اور (پیغمبر ﷺ کے ذریعے) سکھا دیئے ہیں۔ اس نے تمہاری عمریں لکھ دی ہیں اور تمہاری طرف ’’ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں ہر چیز کا کھلا کھلا بیان ہے‘‘اور اپنے نبیؐ کو زندگی دے کر مدتوں تم میں رکھا، یہاں تک کہ اس نے اپنی اتاری ہوئی کتاب میں اپنے نبیؐ کیلئے اور تمہارے لئے اس دین کو جو اسے پسند ہے کامل کر دیا اور ان کی زبان سے اپنے پسندیدہ اور ناپسندیدہ افعال (کی تفصیل) اور اپنے اوامر و نواہی تم تک پہنچائے۔ اس نے اپنے دلائل تمہارے سامنے رکھ دیئے اور تم پر اپنی حجت قائم کر دی اور پہلے سے ڈرا دھمکا دیا اور (آنے والے) سخت عذاب سے خبردار کر دیا۔

فَاسْتَدْرِکُوْا بَقِیَّةَ اَیَّامِکُمْ، وَ اصْبِرُوْا لَهَا اَنْفُسَکُمْ، فَاِنَّهَا قَلِیْلٌ فِیْ کَثِیْرِ الْاَیَّامِ الَّتِیْ تَکُوْنُ مِنْکُمْ فِیْهَا الْغَفْلَةُ وَ التَّشَاغُلُ عَنِ الْمَوْعِظَةِ، وَ لَا تُرَخِّصُوْا لِاَنْفُسِکُمْ، فَتَذْهَبَ بِکُمُ الرُّخَصُ مَذَاهِبَ الْظَّلَمَةِ، وَ لَا تُدَاهِنُوْا فَیَهْجُمَ بِکُمُ الْاِدْهَانُ عَلَی الْمَعْصِیَةِ.

تو اب تم اپنی زندگی کے بقیہ دنوں میں (پہلی کوتاہیوں کی) تلافی کرو اور اپنے نفسوں کو ان دنوں (کی کلفتوں) کا متحمل بناؤ۔ اس لئے کہ یہ دن تو ان دنوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو تمہاری غفلتوں میں بیت گئے اور وعظ و پند سے بے رخی میں کٹ گئے۔ اپنے نفسوں کیلئے جائز چیزوں میں بھی ڈھیل نہ دو، ورنہ یہ ڈھیل تمہیں ظالموں کی راہ پر ڈال دے گی اور (مکروہات میں بھی) سہل انگاری سے کام نہ لو، ورنہ یہ نرم روی اور بے پرواہی تمہیں معصیت کی طرف دھکیل کر لے جائے گی۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ اَنْصَحَ النَّاسِ لِنَفْسِهٖۤ اَطْوَعُهُمْ لِرَبِّهٖ، وَ اِنَّ اَغَشَّهُمْ لِنَفْسِهٖۤ اَعْصَاهُمْ لِرَبِّهٖ، وَ الْمَغْبُوْنُ مَنْ غَبَنَ نَفْسَهٗ، وَ الْمَغْبُوْطُ مَنْ سَلِمَ لَهٗ دِیْنُهٗ، وَ السَّعِیْدُ مَنْ وُّعِظَ بِغَیْرِهٖ، وَ الشَّقِیُّ مَنِ انْخَدَعَ لِهَوَاهُ (وَ غُرُوْرِہٖ).

اللہ کے بندو! لوگوں میں وہی سب سے زیادہ اپنے نفس کا خیر خواہ ہے جو اپنے اللہ کا سب سے زیادہ مطیع و فرمانبردار ہے اور وہی سب سے زیادہ اپنے نفس کو فریب دینے والا ہے جو اپنے اللہ کا سب سے زیادہ گنہگار ہے۔ اصلی فریب خوردہ وہ ہے جس نے اپنے نفس کو فریب دے کر نقصان پہنچایا اور قابلِ رشک و غبطہ وہ ہے جس کا دین محفوظ رہا اور نیک بخت وہ ہے جس نے دوسروں سے پند و نصیحت کو حاصل کر لیا اور بدبخت وہ ہے جو ہوا و ہوس کے چکر میں پڑ گیا۔

وَ اعْلَمُوْا اَنَّ یَسِیْرَ الرِّیَآءِ شِرْکٌ، وَ مُجَالَسَةَ اَهْلِ الْهَوٰی مَنْسَاةٌ لِّلْاِیْمَانِ، وَ مَحْضَرَةٌ لِّلشَّیْطٰنِ. جَانِبُوا الْکَذِبَ فَاِنَّهٗ مُجَانِبٌ لِّلْاِیْمَانِ، الصَّادِقُ عَلٰی شَرَفِ مَنْجَاةٍ وَّ کَرَامَةٍ، وَ الْکَاذِبُ عَلٰی شَفَا مَهْوَاةٍ وَّ مَهَانَةٍ.

اور یاد رکھو! کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے اور ہوس پرستوں کی مصاحبت ایمان فراموشی کی منزل اور شیطان کی آمد کا مقام ہے۔ جھوٹ سے بچو، اس لئے کہ وہ ایمان سے الگ چیز ہے۔ راست گفتار نجات اور بزرگی کی بلندیوں پر ہے اور دروغ گو پستی و ذلت کے کنارے پر ہے۔

وَ لَا تَحَاسَدُوْا، فَاِنَّ الْحَسَدَ یَاْکُلُ الْاِیْمَانَ کَمَا تَاْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ، وَ لَا تَبَاغَضُوْا، فَاِنَّهَا الْحَالِقَةُ.

باہم حسد نہ کرو، اس لئے کہ حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ اور کینہ و بغض نہ رکھو، اس لئے کہ یہ (نیکیوں کو) چھیل ڈالتا ہے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ الْاَمَلَ یُسْهِی الْعَقْلَ، وَ یُنْسِی الذِّکْرَ، فَاَکْذِبُوا الْاَمَلَ فَاِنَّهٗ غُرُوْرٌ، وَ صَاحِبُهٗ مَغْرُوْرٌ.

اور سمجھ لو کہ آرزوئیں عقلوں پر سہو کا اور یاد الٰہی پر نسیان کا پردہ ڈال دیتی ہیں۔ امیدوں کو جھٹلاؤ، اس لئے کہ یہ دھوکا ہیں اور امیدیں باندھنے والا فریب خوردہ ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 January 23 ، 18:49
عون نقوی