بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

وَ قَدْ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ، فَقَالَ: نَهَیْتَنَا عَنِ الْحُکُوْمَةِ ثُمَّ اَمَرْتَنَا بِهَا، فَمَا نَدْرِیْۤ اَیُّ الْاَمْرَیْنِ اَرْشَدُ؟ فَصَفَّقَ ؑ اِحْدٰی یَدَیْهِ عَلَى الْاُخْرٰى، ثُمَّ قَالَ:‏

حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص اٹھ کر آپؑ کے سامنے آیا اور کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پہلے تو آپؑ نے ہمیں تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا، نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح ہے۔ (یہ سن کر) حضرتؑ نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

هٰذَا جَزَآءُ مَنْ تَرَکَ الْعُقْدَةَ! اَمَا وَاللهِ! لَوْ اَنِّیْ حِیْنَ اَمَرْتُکُمْ بِمَاۤ اَمَرْتُکُم بِهٖ حَمَلْتُکُمْ عَلَی الْمَکْرُوْهِ الَّذِیْ یَجْعَلُ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا، فَاِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَیْتُکُمْ، وَ اِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُکُمْ، وَ اِنْ اَبَیْتُمْ تَدَارَکْتُکُمْ، لَکَانَتِ الْوُثْقٰی، وَ لٰکِنْۢ بِمَنْ وَّ اِلٰی مَنْ؟ اُرِیْدُ اَنْ اُدَاوِیَ بِکُمْ وَاَنْتُمْ دَآئِیْ، کَنَاقِشِ الشَّوْکَةِ بِالشَّوْکَةِ، وَ هُوَ یَعْلَمُ اَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا. اَللّٰهُمَّ قَدْ مَلَّتْ اَطِبَّآءُ هٰذَا الدَّآءِ الدَّوِیِّ، وَ کَلَّتِ النَّزَعَةُ بِاَشْطَانِ الرَّکِیِّ!.

جس نے عہدِ وفا کو توڑ دیا ہو اس کی یہی پاداش ہوا کرتی ہے۔ خدا کی قسم! جب میں نے تمہیں تحکیم کے مان لینے کا حکم دیا تھا اگر اسی امر ناگوار (جنگ) پر تمہیں ٹھہرائے رکھتا کہ جس میں اللہ تمہارے لئے بہتری ہی کرتا، چنانچہ تم اس پر جمے رہتے تو مَیں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلتا اور اگر ٹیڑھے ہوتے تو تمہیں سیدھا کر دیتا اور اگر انکار کرتے تو تمہارا تدارک کرتا، تو بلاشبہ یہ ایک مضبوط طریق کار ہوتا، لیکن کس کی مدد سے اور کس کے بھروسے پر؟ میں تم سے اپنا چارہ چاہتا تھا اور تم ہی میرا مرض نکلے۔ جیسے کانٹے کو کانٹے سے نکالنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا! اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آ گئے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔

اَیْنَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ دُعُوْۤا اِلَی الْاِسْلَامِ فَقَبِلُوْهُ؟ وَ قَرَاُوا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ؟ وَ هِیْجُوْۤا اِلَی الْجِهَادِ، فَوَلِهُوْا وَلَهَ اللِّقَاحِ اِلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ سَلَبُوا السُّیُوْفَ اَغْمَادَهَا، وَ اَخَذُوْا بِاَطْرَافِ الْاَرْضِ زَحْفًا زَحْفًا وَّ صَفًّا صَفًّا، بَعْضٌ هَلَکَ، وَ بَعْضٌ نَّجَا. لَایُبَشَّرُوْنَ بِالْاَحْیَآءِ، وَ لَا یُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتٰی، مُرْهُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ، خُمْصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ، ذُبُلُ الشِّفَاهِ مِنَ الدُّعَآءِ، صُفْرُ الْاَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ، عَلٰی وَجُوْهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنَ.

وہ لوگ کہاں ہیں کہ جنہیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور قرآن کو پڑھا تو اس پر عمل بھی کیا، جہاد کیلئے انہیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ انہوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پا لیا۔ (ان میں سے) کچھ مر گئے کچھ بچ گئے۔ نہ زندہ رہنے والوں کے مژدہ سے وہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مرنے والوں کی تعزیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ رونے سے ان کی آنکھیں سفید، روزوں سے ان کے پیٹ لاغر، دُعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہو گئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرح ان کے چہرے خاک آلود رہتے تھے۔

اُولٰٓئِکَ اِخْوَانِیَ الذَّاهِبُوْنَ، فَحَقَّ لَـنَا اَنْ نَّظْمَاَ اِلَیْهِمْ وَ نَعَضَّ الْاَیْدِیَ عَلٰی فِرَاقِهِمْ! اِنَّ الشَّیْطٰنَ یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ، وَ یُرِیْدُ اَنْ یَّحُلَّ دِیْنَکُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً، وَ یُعْطِیَکُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ، فَاصْدِفُوْا عَنْ نَّزَغَاتِهٖ وَ نَفَثَاتِهٖ، وَ اقْبَلُوا النَّصِیْحَةَ مِمَّنْ اَهْدَاهَاۤ اِلَیْکُمْ، وَ اعْقِلُوْهَا عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ.

یہ میرے وہ بھائی تھے جو (دنیا سے) گزر گئے۔ اب ہم حق بجانب ہیں اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں اور ان کے فراق میں اپنی بوٹیاں کاٹیں۔ بے شک تمہارے لئے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے۔ تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیشکش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔


امیر المومنین علیہ السلام کے پرچم کے نیچے جنگ کرنے والے گو آپؑ ہی کی جماعت میں شمار ہوتے تھے مگر جن کی آنکھوں میں آنسو، چہروں پر زردی، زبانوں پر قرآنی نغمہ، دلوں میں ایمانی ولولہ، پیروں میں ثبات و قرار، روح میں عزم و ہمت اور نفس میں صبر و استقامت کا جوہر ہوتا تھا انہی کو صحیح معنوں میں شیعانِ علیؑ کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ لوگ تھے جن کی جدائی میں امیر المومنین علیہ السلام کے دل کی بے تابیاں آہ بن کر زبان سے نکل رہی ہیں اور آتش فراق کے لوکے قلب و جگر کو پھونکے دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دیوانہ وار موت کی طرف لپکتے تھے اور بچ رہنے پر انہیں مسرت و شادمانی نہ ہوتی تھی، بلکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی تھی کہ:
شرمندہ ماندہ ایم کہ چرا زندہ ماندہ ایم
جس انسان میں ان صفات کی تھوڑی بہت جھلک ہوگی وہی متبع آلِ محمد علیہم السلام اور شیعہ علی علیہ السلام کہلا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسا لفظ ہو گا جو اپنے معنی کو کھو چکا ہو اور بے محل استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی عظمت کو گنوا چکا ہو۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک جماعت کو اپنے دروازہ پر دیکھا تو قنبر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ قنبر نے کہا کہ: یا امیر المومنین علیہ السلام یہ آپؑ کے شیعہ ہیں۔ یہ سن کر حضرتؑ کی پیشانی پر بَل آیا اور فرمایا: مَا لِیْ لَاۤ اَرٰى فِیهِمْ سِیْمَآءَ الشِّیْعَةِ؟: ’’کیا وجہ ہے کہ یہ شیعہ کہلاتے ہیں اور ان میں شیعوں کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آتی‘‘؟ اس پر قنبر نے دریافت کیا کہ شیعوں کی علامت کیا ہوتی ہے؟ تو حضرتؑ نے جواب میں فرمایا:
خُمُصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الطَّوٰى، یُبْسُ الشِّفَاةِ مِنَ الظَّمَإِ، عُمْشُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ.
بھوک سے ان کے پیٹ لاغر، پیاس سے ان کے ہونٹ خشک اور رونے سے ان کی آنکھیں بے رونق ہو گئی ہوتی ہیں۔(۱)

[۱]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۲، ص ۱۲۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:36
عون نقوی

تَاللهِ! لَقَدْ عَلِمْتُ تَبْلِیْـغَ الرِّسَالَاتِ، وَ اِتْمَامَ الْعِدَاتِ، وَ تَمَامَ الْکَلِمَاتَ. وَ عِنْدَنَا ـ اَهْلَ الْبَیْتِ ـ اَبْوَابُ الْحِکَمِ وَ ضِیَآءُ الْاَمْرِ.

خدا کی قسم! مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیتؑ (نبوت) کے پاس علم و معرفت کے دروازے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں۔

اَلَا وَ اِنَّ شَرَآئِعَ الدِّیْنِ وَاحِدَةٌ، وَ سُبُلَهٗ قَاصِدَةٌ، مَنْ اَخَذَ بِهَا لَحِقَ وَ غَنِمَ، وَ مَنْ وَّقَفَ عَنْهَا ضَلَّ وَ نَدِمَ.

آگاہ رہو کہ دین کے تمام قوانین کی روح ایک اور اس کی راہیں سیدھی ہیں۔ جو ان پر ہو لیا وہ منزل تک پہنچ گیا اور بہرہ یاب ہوا اور جو ٹھہرا رہا وہ گمراہ ہوا اور (آخر کار) نادم و پشیمان ہوا۔

اِعْمَلُوْا لِیَوْمٍ تُذْخَرُ لَهُ الذَّخَآئِرُ، وَ تُبْلٰی فِیْهِ السَّرَآئِرُ، وَ مَنْ لَّا یَنْفَعُهٗ حَاضِرُ لُبِّهٖ فَعَازِبُهٗ عَنْهُ اَعْجَزُ، وَ غَآئِبُهٗ اَعْوَزُ.

اس دن کیلئے عمل کرو کہ جس کیلئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس میں نیتوں کو جانچا جائے گا۔ جسے اپنی ہی عقل فائدہ نہ پہنچائے کہ جو اس کے پاس موجود ہے تو (دوسروں کی) عقلیں کہ جو اس سے دور اور اوجھل ہیں فائدہ رسانی سے بہت عاجز و قاصر ہوں گی۔

وَ اتَّقُوْا نَارًا حَرُّهَا شَدِیْدٌ، وَ قَعْرُهَا بَعِیْدٌ، وَ حِلْیَتُهَا حَدِیْدٌ، وَ شَرَابُهَا صَدِیْدٌ. اَلَا وَ اِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ، خَیْرٌ لَّهٗ مِنَ الْمَالِ یُوْرِثُهٗ مَنْ لَّا یَحْمَدُهٗ.

(دوزخ کی) آگ سے ڈرو کہ جس کی تپش تیز اور گہرائی بہت زیادہ ہے اور (جہاں پہننے کو) لوہے کے زیور اور (پینے کو) پیپ بھرا لہو ہے۔ ہاں! جس شخص کا ذکرِ خیر لوگوں میں خدا برقرار رکھے وہ اس کیلئے اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا ایسوں کو وارث بنا یا جاتا ہے جو اس کو سراہتے تک نہیں۔


اگر انسان جیتے جاگتے اپنے اختیار سے کسی کو کچھ دے جائے تو لینے والا اس کا احسان مند ہوتا ہے، لیکن جو مال مجبوری سے چھن جائے تو چھین لینے والا اپنے کو اس کا زیر بارِ احسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے سراہتا ہے۔ یہی حالت مرنے والے کی ہوتی ہے کہ اس کے ورثا یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ چھوڑ گیا ہے وہ ہمارا حق تھا کہ جو ہمیں ملنا چاہیے تھا، اس میں اس کا احسان ہی کیا کہ اسے سراہا جائے، لیکن اسی مال سے اگر وہ کوئی اچھا کام کر جاتا تو دنیا میں اس کا نام بھی رہتا اور دنیا والے اس کی تحسین و آفرین بھی کرتے۔

خنک تنی که پس از وی حدیث خیر کنند

    که جز حدیث نمی‌ ماند از بنی ‌آدم


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:31
عون نقوی

وَ قَدْ جَمَعَ النَّاسَ وَ حَضَّهُمْ عَلَى الْجِهَادِ، فَسَکَتُوْا مَلِیًّا، فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:

امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنا چاہا تو وہ لوگ دیر تک چپ رہے، تو آپؑ نے فرمایا:

مَا بَالُکُمْ اَ مُخْرَسُوْنَ اَنْتُمْ؟

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم گونگے ہو گئے ہو؟

فَقَال قَوْمٌ مِّنْهُمْ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اِنْ سِرْتَ سِرْنَا مَعَکَ. فَقَالَ ؑ:

تو ایک گروہ نے کہا کہ اے امیر المومنین علیہ السلام اگر آپؑ چلیں، تو ہم بھی آپؑ کے ہمراہ چلیں گے۔ جس پر حضرتؑ نے فرمایا:

مَا بَالُکُمْ! لَا سُدِّدْتُّمْ لِرُشْدٍ! وَ لَا هُدِیْتُمْ لِقَصْدٍ! اَ فِیْ مِثْلِ هٰذَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَخْرُجَ؟ اِنَّمَا یَخْرُجُ فِیْ مِثْلِ هٰذَا رَجُلٌ مِّمَّنْ اَرْضَاهُ مِنْ شُجْعَانِکُمْ وَ ذَوِیْ بَاْسِکُمْ، وَ لَا یَنْۢبَغِیْ لِیْۤ اَنْ اَدَعَ الْجُنْدَ، وَ الْمِصْرَ، وَ بَیْتَ الْمَالِ، وَ جِبَایَةَ الْاَرْضِ، وَ الْقَضَآءَ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ النَّظَرَ فِیْ حُقُوْقِ الْمُطَالِبِیْنَ، ثُمَّ اَخْرُجَ فِیْ کَتِیْبَةٍ اَتْبَعُ اُخْرٰی، اَ تَقَلْقَلُ تَقَلْقُلَ الْقِدْحِ فِی الْجَفِیْرِ الْفَارِغِ، وَ اِنَّمَا اَنَا قُطْبُ الرَّحَا، تَدُوْرُ عَلَیَّ وَ اَنَا بِمَکَانِیْ، فَاِذَا فَارَقْتُهُ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا، وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا.

تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہیں ہدایت کی توفیق نہ ہو اور نہ سیدھی راہ دیکھنا نصیب ہو! کیا ایسے حالات میں میں ہی نکلوں۔ اس وقت تو تمہارے جواں مردوں اور طاقتوروں میں سے جس شخص کو میں پسند کروں اسے جانا چاہیے، میرے لئے مناسب نہیں کہ میں لشکر، شہر، بیت المال، زمین کے خراج کی فراہمی، مسلمانوں کے مقدمات کا تصفیہ اور مطالبہ کرنے والوں کے حقوق کی دیکھ بھال چھوڑ دوں اور لشکر لئے ہوئے دوسرے لشکر کے پیچھے نکل کھڑا ہوں اور جس طرح خالی ترکش میں بے پیکاں کا تیر ہلتا جلتا ہے جنبش کھاتا رہوں۔ میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں کہ جس پر وہ گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا اور اس کا نیچے والا پتھر بھی بے ٹھکانے ہو جائے گا۔

هٰذَا لَعَمْرُ اللهِ! الرَّاْیُ السُّوْٓءُ. وَاللهِ! لَوْلَا رَجَآئِی الشَّهَادَةَ عِنْدَ لِقَآئِی الْعَدُوَّ ـ لَوْ قَدْ حُمَّ لِیْ لِقَاؤُهٗ ـ لَقَرَّبْتُ رِکَابِیْ ثُمَّ شَخَصْتُ عَنْکُمْ، فَلَاۤ اَطْلُبُکُمْ مَا اخْتَلَفَ جَنُوبٌ وَّ شَمَالٌ.

خدا کی قسم! یہ بہت بُرا مشورہ ہے۔ قسم بخدا! اگر دشمن کا مقابلہ کرنے سے مجھے شہادت کی امید نہ ہو جب کہ وہ مقابلہ میرے لئے مقدر ہو چکا ہو تو میں اپنی سواریوں کو(سوار ہونے کیلئے) قریب کر لیتا اور تمہیں چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتا اور جب تک جنوبی و شمالی ہوائیں چلتی رہتیں تمہیں کبھی طلب نہ کرتا۔

اِنَّهٗ لَا غَنَآءَ فِیْ کَثْرَةِ عَدَدِکُمْ مَعَ قِلَّةِ اجْتِمَاعِ قُلُوْبِکُمْ. لَقَدْ حَمَلْتُکُمْ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ الَّتِیْ لَا یَهْلِکُ عَلَیْهَا اِلَّا هَالِکٌ، مَنِ اسْتَقَامَ فَاِلَی الْجَنَّةِ، وَ مَنْ زَلَّ فَاِلَی النَّارِ!.

تمہارے شمار میں زیادہ ہونے سے کیا فائدہ جبکہ تم یک دل نہیں ہو پاتے۔ میں نے تمہیں صحیح راستے پر لگایا ہے کہ جس میں ایسا ہی شخص تباہ و برباد ہو گا جو خود اپنے لئے ہلاکت کا سامان کئے بیٹھا ہو اور جو اس راہ پر جما رہے گا وہ جنت کی طرف اور جو پھسل جائے گا وہ دوزخ کی جانب بڑھے گا۔


جنگ صفین کے بعد جب معاویہ کی فوجوں نے آپؑ کے مختلف علاقوں پر حملے شروع کر دیئے تو ان کی روک تھام کیلئے آپؑ نے عراقیوں سے کہا لیکن انہوں نے ٹالنے کیلئے یہ عذر تراشا کہ اگر آپؑ فوج کے ہمراہ چلیں تو ہم بھی چلنے کو تیار ہیں جس پر حضرتؑ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنی مجبوریوں کو واضح کیا کہ اگر میں چلوں تو مملکت کا نظم و ضبط برقرار نہیں رہ سکتا اور اس عالم میں کہ دشمن کے حملے چاروں طرف سے شروع ہو چکے ہیں مرکز کو خالی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ مگر ان لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی تھی جنہوں نے صفین کی فتح کو شکست سے بدل کر ان حملوں کا دروازہ کھول دیا ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:28
عون نقوی

اَنْتُمُ الْاَنْصَارُ عَلَی الْحَقِّ، وَ الْاِخْوَانُ فِی الدِّیْنِ، وَ الْجُنَنُ یَوْمَ الْبَاْسِ، وَ الْبِطَانَةُ دُوْنَ النَّاسِ، بِکُمْ اَضْرِبُ الْمُدْبِرَ، وَ اَرْجُوْ طَاعَةَ الْمُقْبِلِ، فَاَعِیْنُوْنِیْ بِمُنَاصَحَةٍ خَلِیَّةٍ مِّنَ الْغِشِّ، سَلِیْمَةٍ مِّنَ الرَّیْبِ، فَوَاللهِ! اِنِّیْ لَاَوْلَی النَّاسِ بِالنَّاسِ.

تم حق کے قائم کرنے میں (میرے ) ناصرو مدد گار ہو، اور دین میں (ایک دوسرے کے) بھائی بھائی ہو اور سختیوں میں (میری) سپر ہو، اور تمام لوگوں کو چھوڑ کر تم ہی میرے رازدار ہو، تمہاری مدد سے روگردانی کرنے والے پر میں تلوار چلاتا ہوں اور پیش قدمی کرنے والے کی اطاعت کی توقع رکھتا ہوں۔ ایسی خیر خواہی کے ساتھ میری مدد کرو۔ کہ جس میں دھوکا فریب ذرا نہ ہو، اور شک و بدگمانی کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس لیے کہ میں ہی لوگوں (کی امامت) کیلئے سب سے زیادہ اولیٰ و مقدم ہوں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:18
عون نقوی

فَلَاۤ اَمْوَالَ بَذَلْتُمُوْهَا لِلَّذِیْ رَزَقَهَا، وَ لَاۤ اَنْفُسَ خَاطَرْتُمْ بِهَا لِلَّذِیْ خَلَقَهَا، تَکْرُمُوْنَ بِاللهِ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لَا تُکْرِمُوْنَ اللهَ فِیْ عِبَادِهِ، فَاعْتَبِرُوْا بِنُزُوْلِکُمْ مَنَازِلَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، وَ انْقِطَاعِکُمْ عَنْ اَوْصَلِ اِخْوَانِکُمْ.

جس نے تم کو مال و متاع بخشا ہے اس کی راہ میں تم اسے صرف نہیں کرتے اور نہ اپنی جانوں کو اس کیلئے خطرہ میں ڈالتے ہو جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ تم نے اللہ کی وجہ سے بندوں میں عزت و آبرو پائی، لیکن اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کر کے اس کا احترام و اکرام نہیں کرتے۔ جن مکانات میں اگلے لوگ آباد تھے ان میں اب تم مقیم ہوتے ہو اور قریب سے قریب تر بھائی گزر جاتے اور تم رہ جاتے ہو، اس سے عبرت حاصل کرو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:17
عون نقوی