بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: مکتوبات» ثبت شده است

کَانَ یَکْتُبُهَا لِمَنْ یَّسْتَعْمِلُهٗ عَلَى الصَّدَقَاتِ، وَ اِنَّمَا ذَکَرْنَا هُنٰا جُمَلًا مِّنْهَا لِیُعْلَمَ بِهَا اَنَّهٗ ؑ کَانَ یُقِیْمُ عِمَادَ الْحَقِّ، وَ یَشْرَعُ اَمْثِلَةَ الْعَدْلِ فِیْ صَغِیْرِ الْاُمُوْرِ وَ کَبِیْرِهَا، وَ دَقِیْقِهَا وَ جَلِیْلِهَا:

جن کارندوں کو زکوٰۃ و صدقات کے وصول کرنے پر مقرر کرتے تھے ان کیلئے یہ ہدایت نامہ تحریر فرماتے تھے اور ہم نے اس کے چند ٹکڑے یہاں پر اس لئے درج کئے ہیں کہ معلوم ہو جائے کہ آپؑ ہمیشہ حق کے ستون کھڑے کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے اور پوشیدہ و ظاہر امور میں عدل کے نمونے قائم فرماتے تھے:

اِنْطَلِقْ عَلٰی تَقْوَی اللهِ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، وَ لَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِمًا، وَ لَا تَجْتَازَنَّ عَلَیْهِ کَارِهًا، وَ لَا تَاْخُذَنَّ مِنْهُ اَکثَرَ مِنْ حَقِّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ. فَاِذَا قَدِمْتَ عَلَی الْحَیِّ فَانْزِلْ بِمَآئِهِمْ مِنْ غَیْرِ اَنْ تُخَالِطَ اَبْیَاتَهُمْ، ثُمَّ امْضِ اِلَیْهِمْ بِالسَّکِیْنَةِ وَ الْوَقَارِ، حَتّٰی تَقُوْمَ بَیْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَیْهِمْ، وَ لَا تُخْدِجْ بِالتَّحِیَّةِ لَهُمْ، ثُمَّ تَقُوْلَ:

اللہ وحدہٗ لا شریک کا خوف دل میں لئے ہوئے چل کھڑے ہو، اور دیکھو! کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنااور اس(کے املاک) پر اس طرح سے نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں اللہ کا حق نکلتا ہو اس سے زائد نہ لینا۔ جب کسی قبیلے کی طرف جانا تو لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی بجائے پہلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا، پھر سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا، یہاں تک کہ جب ان میں جا کر کھڑے ہو جاؤ تو ان پر سلام کرنا اور آداب و تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا۔ اس کے بعد ان سے کہنا کہ:

عِبَادَ اللهِ! اَرْسَلَنِیْۤ اِلَیْکُمْ وَلِیُّ اللهِ وَ خَلِیْفَتُهٗ،لِاٰخُذَ مِنْکُمْ حَقَّ اللهِ فِیْۤ اَمْوَالِکُمْ، فَهَلْ لِلّٰهِ فِیْۤ اَمْوَالِکُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوْهُ اِلٰی وَلِیِّهِ؟

اے اللہ کے بندو! مجھے اللہ کے ولی اور اس کے خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے، اگر تمہارے مال میں اللہ کا کوئی حق نکلتا ہے تو اسے وصول کروں، لہٰذا تمہارے مال میں اللہ کا کوئی واجب الاداء حق ہے کہ جسے اللہ کے ولی تک پہنچاؤ؟

فَاِنْ قَالَ قَآئِلٌ: لَا، فَلَا تُرَاجِعْهُ، وَ اِنْ اَنْعَمَ لَکَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَهٗ مِنْ غَیْرِ اَنْ تُخِیْفَهٗ اَوْ تُوْعِدَهٗ اَوْ تَعْسِفَهٗ اَوْ تُرْهِقَهٗ، فَخُذْ مَاۤ اَعْطَاکَ مِنْ ذَهَبٍ اَ وْ فِضَّةٍ.

اگر کوئی کہنے والا کہے کہ: نہیں، تو پھر اس سے دہرا کر نہ پوچھنا۔ اور اگر کوئی ہاں کہنے والا ہاں کہے تو اسے ڈرائے دھمکائے یا اس پر سختی و تشدد کئے بغیر اس کے ساتھ ہو لینا اور جو سونا یا چاندی (درہم و دینار) وہ دے لے لینا۔

فَاِنْ کَانَ لَهٗ مَاشِیَةٌ اَوْ اِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَاۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ، فَاِنَّ اَکْثَرَهَا لَهٗ، فَاِذاۤ اَتَیْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَیْهَا دُخُوْلَ مُتَسَلِّطٍ عَلَیْهِ وَ لَا عَنِیْفٍ بِهٖ، وَ لَا تُنَفِّرَنَّ بَهِیْمَةً وَّ لَا تُفْزِعَنَّهَا،وَ لَا تَسُوْٓءَنَّ صَاحِبَهَا فِیْهَا.

اور اگر اس کے پاس گائے، بکری یا اونٹ ہوں تو ان کے غول میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہونا، کیونکہ ان میں زیادہ حصہ تو اسی کا ہے۔ اور جب (اجازت کے بعد)ان تک جانا تو یہ انداز اختیار نہ کرنا کہ جیسے تمہیں اس پر پورا قابو ہے اور تمہیں اس پر تشدد کرنے کا حق حاصل ہے۔ دیکھو! نہ کسی جانور کو بھڑکانا، نہ ڈرانا اور نہ اس کے بارے میں اپنے غلط رویہ سے مالک کو رنجیدہ کرنا۔

وَ اصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَیْنِ ثُمَّ خَیِّرْهُ، فَاِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعَرَّضَنَّ لِمَا اخْتَارَهٗ، ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِیَ صَدْعَیْنِ ثُمَّ خَیِّرْهُ، فَاِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعَرَّضَنَّ لِمَا اخْتَارَہٗ. فَلَا تَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یَبْقٰی مَا فِیْهِ وَفَآءٌ لِّحَقِّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ، فَاقْبِضْ حَقَّ اللهِ مِنْهُ. فَاِنِ اسْتَقَالَکَ فَاَقِلْهُ، ثُمَّ اخْلِطْهُمَا، ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِیْ صَنَعْتَ اَوَّلًا حَتّٰی تَاْخُذَ حَقَّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ.

جتنا مال ہو اس کے دو حصے کر دینا اور مالک کو یہ اختیار دینا(کہ وہ جونسا حصہ چاہے) پسند کر لے۔ اور جب وہ کوئی سا حصہ منتخب کر لے تو اس کے انتخاب سے تعرض نہ کرنا۔ پھر بقیہ حصے کے دو حصے کر دینا اور مالک کو اختیار دینا (کہ وہ جو حصہ چاہے لے لے) اور جب وہ ایک حصہ منتخب کر لے تو اس کے انتخاب پر معترض نہ ہونا۔ یونہی ایسا ہی کرتے رہنا، یہاں تک کہ بس اتنا رہ جائے جتنے سے اس مال میں جو اللہ کا حق ہے وہ پورا ہو جائے تو اسے بس تم اپنے قبضہ میں کرلینا اور (اس پر بھی) اگر وہ پہلے انتخاب کو مسترد کر کے دوبارہ انتخاب کرنا چاہے تو اسے اس کا موقع دو اور دونوں حصوں کو ملا کر پھر نئے سرے سے وہی کرو جس طرح پہلے کیا تھا، یہاں تک کہ اس کے مال سے اللہ کا حق لے لو۔

وَ لَا تَاْخُذَنَّ عَوْدًا، وَ لَا هَرِمَةً، وَ لَا مَکْسُوْرَةً، وَ لَا مَهْلُوْسَةً، وَ لَا ذَاتَ عَوَارٍ.

ہاں دیکھو! کوئی بوڑھا، بالکل پھونس اونٹ اور جس کی کمر شکستہ یا پیر ٹوٹا ہوا ہو، یا بیماری کا مارا ہوا یا عیب دار ہو، نہ لینا۔

وَ لَا تَاْمَنَنَّ عَلَیْهَاۤ اِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِیْنِهٖ، رَافِقًۢا بِمَالِ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی یُوَصِّلَهٗ اِلٰی وَلِیِّهِمْ فَیَقْسِمَهٗ بَیْنَهُمْ، وَ لَا تُوَکِّلْ بِهَاۤ اِلَّا نَاصِحًا شَفِیْقًا وَّ اَمِیْنًا حَفِیْظًا، غَیْرَ مُعْنِفٍ وَّ لَا مُجْحِفٍ، وَ لَا مُلْغِبٍ وَّ لَا مُتْعِبٍ. ثُمَّ احْدُرْ اِلَیْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَکَ، نُصَیِّرْهُ حَیْثُ اَمَرَ اللهُ بِهٖ.

اور انہیں کسی ایسے شخص کی امانت میں سونپنا جس کی دینداری پر تم کو اعتماد ہو کہ جو مسلمانوں کے مال کی نگہداشت کر تا ہوا ان کے امیر تک پہنچا دے، تاکہ وہ اس مال کو مسلمانوں میں بانٹ دے۔ کسی ایسے ہی شخص کے سپرد کرنا جو خیر خواہ، خدا ترس، امانتدار اور نگران ہو کہ نہ تو ان پر سختی کرے اور نہ دوڑا دوڑا کر انہیں لاغر و خستہ کرے، نہ انہیں تھکا مارے اور نہ تعب و مشقت میں ڈالے۔ پھر جو کچھ تمہارے پاس جمع ہو اسے جلد سے جلد ہماری طرف بھیجتے رہنا، تاکہ ہم جہاں جہاں اللہ کا حکم ہے اسے کام میں لائیں۔

فَاِذَاۤ اَخذَهَاۤ اَمِیْنُکَ فَاَوْعِزْ اِلَیْهِ اَنْ لَّا یَحُوْلَ بَیْنَ نَاقَةٍ وَّ بَیْنَ فَصِیْلِهَا، وَ لَا یَمْصُرَ لَبَنَهَا فَیَضُرَّ ذٰلِکَ بِوَلَدِهَا، وَ لَا یَجْهَدَنَّهَا رُکُوْبًا، وَ لْیَعْدِلْ بَیْنَ صَوَاحِبَاتِهَا فِیْ ذٰلِکَ وَ بَیْنَهَا، وَ لْیُرَفِّهْ عَلَی الَّلاغِبِ، وَ لْیَسْتَاْنِ بِالنَّقِبِ وَ الظَّالِعِ، وَ لْیُوْرِدْهَا مَا تَمُرُّ بِهٖ مِنَ الْغُدُرِ، وَ لَا یَعْدِلْ بِهَا عَنْ نَّبْتِ الْاَرْضِ اِلٰی جَوَادِّ الطَّرِیْقِ، وَ لْیُرَوِّحْهَا فِی السَّاعَاتِ، وَلْیُمْهِلْهَا عِنْدَ النِّطَافِ وَ الْاَعْشَابِ، حَتّٰی تَاْتِیَنَا بِاِذْنِ اللهِ بُدُنًا مُّنْقِیَاتٍ، غَیْرَ مُتْعَبَاتٍ وَّ لَا مَجْهُوْدَاتٍ، لِنَقْسِمَهَا عَلٰی کِتَابِ اللهِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهٖ ﷺ فَاِنَّ ذٰلِکَ اَعْظَمُ لِاَجْرِکَ، وَ اَقْرَبُ لِرُشْدِکَ، اِنْ شَآءَ اللهُ.

جب تمہارا امین اس مال کو اپنی تحویل میں لے لے تو اسے فہمائش کرنا کہ وہ اونٹنی اور اس کے دودھ پیتے بچے کو الگ الگ نہ رکھے اور نہ اس کا سارے کا سارا دودھ دوہ لیا کرے کہ بچے کیلئے ضرر رسانی کا باعث بن جائے اور اس پر سواری کر کے اسے ہلکان نہ کر ڈالے۔ اس میں اور اس کے ساتھ کی دوسری اونٹنیوں میں (سواری کرنے اور دوہنے میں) انصاف و مساوات سے کام لے، تھکے ماندے اونٹ کو سستانے کا موقع دے اور جس کے کھر گھس گئے ہوں یا پیر لنگ کرنے لگے ہوں اسے آہستگی اور نرمی سے لے چلے اور ان کی گزر گاہوں میں جو تالاب پڑیں وہاں انہیں پانی پینے کیلئے اتارے، اور زمین کی ہریالی سے ان کا رخ موڑ کر (بے آب و گیاہ) راستوں پر نہ لے چلے، اور وقتاً فوقتاً انہیں راحت پہنچاتا رہے، اور جہاں تھوڑا بہت پانی یا گھاس سبزہ ہو انہیں کچھ دیر کیلئے مہلت دے تاکہ جب وہ ہمارے پاس پہنچیں تو وہ بحکم خدا موٹے تازے ہوں اور ان کی ہڈیوں کا گودا بڑھ چکا ہو، وہ تھکے ماندے اور خستہ حال نہ ہوں، تاکہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق انہیں تقسیم کریں۔ بیشک یہ تمہارے لئے بڑے ثواب کا باعث اور منزل ہدایت تک پہنچنے کا ذریعہ ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

 https://balagha.org

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 19:03
عون نقوی

اِلٰى مَصْقَلَةَ بْنِ هُبَیْرَةَ الشَّیْبَانِیِّ

مصقلہ ابن ہبیرہ شیبانی کے نام

وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰۤى اَرْدَشِیْرَخُرَّةَ:

جو آپؑ کی طرف سے اردشیر خرہ کا حاکم تھا:

بَلَغَنِیْ عَنْکَ اَمْرٌ اِنْ کُنْتَ فَعَلْتَهٗ فَقَدْ اَسْخَطْتَّ اِلٰهَکَ وَ اَغْضَبْتَ اِمَامَکَ، اَنَّکَ تَقْسِمُ فَیْ‏ءَ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْ حَازَتْهُ رِمَاحُهُمْ وَ خُیُوْلُهُمْ، وَ اُرِیْقَتْ عَلَیْهِ دِمَآؤُهُمْ، فِیْمَنِ اعْتَامَکَ مِنْ اَعْرَابِ قَوْمِکَ.

مجھے تمہارے متعلق ایک ایسے امر کی خبر ملی ہے جو اگر تم نے کیا ہے تو اپنے خدا کو ناراض کیا اور اپنے امامؑ کو بھی غضبناک کیا۔ وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس مال غنیمت کو کہ جسے ان کے نیزوں (کی انیوں) اور گھوڑوں (کی ٹاپوں) نے جمع کیا تھا اور جس پر ان کے خون بہائے گئے تھے، تم اپنی قوم کے ان بدؤں میں بانٹ رہے ہو جو تمہارے ہوا خواہ ہیں۔

فَوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ حَقًّا لَّتَجِدَنَّ بِکَ عَلَیَّ هَوَانًا، وَ لَـتَخِفَّنَّ عِنْدِیْ مِیْزَانًا، فَلَا تَسْتَهِنْ بِحَقِّ رَبِّکَ، وَ لَا تُصْلِحْ دُنْیَاکَ بِمَحْقِ دِیْنِکَ، فَتَکُونَ مِنَ الْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا.

اس ذات کی قسم جس نے دانے کو چیرا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا ہے! اگر یہ صحیح ثابت ہوا تو تم میری نظروں میں ذلیل ہو جاؤ گے اور تمہارا پلہ ہلکا ہو جائے گا۔ اپنے پروردگار کے حق کو سبک نہ سمجھو اور دین کو بگاڑ کر دنیا کو نہ سنوارو، ورنہ عمل کے اعتبار سے خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔

اَلَا وَ اِنَّ حَقَّ مَنْ قِبَلَکَ وَ قِبَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ قِسْمَةِ هٰذَا الْفَیْ‏ءِ سَوَآءٌ، یَرِدُوْنَ عِنْدِیْ عَلَیْهِ، وَ یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ.

دیکھو! وہ مسلمان جو میرے اور تمہارے پاس ہیں، اس مال کی تقسیم کے برابر کے حصہ دار ہیں۔ اسی اصول پر وہ اس مال کو میرے پاس لینے کیلئے آتے ہیں اور لے کر چلے جاتے ہیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:25
عون نقوی

اِلٰى عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ الْاَنْصَارِیِّ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلَى الْبَصْرَةِ، وَ قَدْ بَلَغَهٗ اَنَّهُ دُعِىَ اِلٰى وَلِیْمَةِ قَوْمٍ مِّنْ اَهْلِهَا، فَمَضٰى اِلَیْهَا

جب حضرتؑ کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا:

اَمَّا بَعْدُ! یَا ابْنَ حُنَیْفٍ! فَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّ رَجُلًا مِّنْ فِتْیَةِ اَهْلِ الْبَصْرَةِ دَعَاکَ اِلٰى مَاْدَبَةٍ، فَاَسْرَعْتَ اِلَیْهَا، تُسْتَطَابُ لَکَ الْاَلْوَانُ، وَ تُنْقَلُ اِلَیْکَ الْجِفَانُ، وَ مَا ظَنَنْتُ اَنَّکَ تُجِیْبُ اِلٰى طَعَامِ قَوْمٍ عَآئِلُهُمْ مَّجْفُوٌّ، وَ غَنِیُّهُمْ مَدْعُوٌّ، فَانْظُرْ اِلٰى مَا تَقْضَمُهٗ مِنْ هٰذَا الْمَقْضَمِ، فَمَا اشْتَبَهَ عَلَیْکَ عِلْمُهٗ فَالْفِظْهُ، وَ مَاۤ اَیْقَنْتَ بِطِیْبِ وُجُوْهِهٖ فَنَلْ مِنْهُ.

اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لئے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کر و، اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو، اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔

اَلَا وَ اِنَّ لِکُلِّ مَاْمُوْمٍ اِمَامًا یَّقْتَدِیْ بِهٖ، وَ یَسْتَضِیْٓ‏ءُ بِنُوْرِ عِلْمِهٖ، اَلَا وَ اِنَّ اِمَامَکُمْ قَدِ اکْتَفٰى مِنْ دُنْیَاهُ بِطِمْرَیْهِ، وَ مِنْ طُعْمِهٖ بِقُرْصَیْهِ، اَلَا وَ اِنَّکُمْ لَا تَقْدِرُوْنَ عَلٰى ذٰلِکَ، وَ لٰکِنْ اَعِیْنُوْنِیْ بِوَرَعٍ وَّ اجْتِهَادٍ ، وَ عِفَّةٍ وَّ سَدَادٍ. فَوَاللّٰهِ! مَا کَنَزْتُ مِنْ دُنْیَاکُمْ تِبْرًا، وَ لَا ادَّخَرْتُ مِنْ غَنَآئِمِهَا وَفْرًا، وَ لَاۤ اَعْدَدْتُّ لِبَالِیْ ثَوْبَیَّ طِمْرًا.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیا کرتا ہے۔ دیکھو! تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم! میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا، اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیاہے۔

بَلٰى کَانَتْ فِیْۤ اَیْدِیْنَا فَدَکٌ مِنْ کُلِّ مَاۤ اَظَلَّتْهُ السَّمَآءُ، فَشَحَّتْ عَلَیْهَا نُفُوْسُ قَوْمٍ، وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوْسُ اٰخَرِیْنَ، وَ نِعْمَ الْحَکَمُ اللّٰهُ. وَ مَاۤ اَصْنَعُ بِفَدَکٍ وَّ غَیْرِ فَدَکٍ، وَ النَّفْسُ مَظَانُّهَا فِیْ غَدٍ جَدَثٌ، تَنْقَطِعُ فِیْ ظُلْمَتِهٖ اٰثَارُهَا، وَ تَغِیْبُ اَخْبَارُهَا، وَ حُفْرَةٌ لَّوْ زِیْدَ فِیْ فُسْحَتِهَا وَ اَوْسَعَتْ یَدَا حَافِرِهَا، لَاَضْغَطَهَا الْحَجَرُ وَ الْمَدَرُ، وَ سَدَّ فُرَجَهَا التُّرَابُ الْمُتَرَاکِمُ.

بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروا نہ کی اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے۔ بھلا میں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں ہی گا کیا؟ جبکہ نفس کی منزل کل قبر قرار پانے والی ہے کہ جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی۔ وہ تو ایک ایسا گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گور کن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں، جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی۔

وَ اِنَّمَا هِیَ نَفْسِیْۤ اَرُوْضُهَا بِالتَّقْوٰى، لِتَاْتِیَ اٰمِنَةً یَّوْمَ الْخَوْفِ الْاَکْبَرِ، وَ تَثْبُتَ عَلٰى جَوَانِبِ الْمَزْلَقِ. وَ لَوْ شِئْتُ لَاهْتَدَیْتُ الطَّرِیْقَ اِلٰى مُصَفّٰى هٰذَا الْعَسَلِ، وَ لُبَابِ هٰذَا الْقَمْحِ، وَ نَسَاۗئِجِ هٰذَا الْقَزِّ ،وَ لٰکِنْ هَیْهَاتَ اَنْ‏ یَّغْلِبَنِیْ هَوَایَ، وَ یَقُوْدَنِیْ جَشَعِیْۤ اِلٰى تَخَیُّرِ الْاَطْعِمَةِ، وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ اَوِ الْیَمَامَةِ مَنْ لَّا طَمَعَ لَهٗ فِی الْقُرْصِ، وَ لَا عَهْدَ لَهٗ بِالشِّبَعِ، اَوْ اَبِیْتَ مِبْطَانًا وَّ حَوْلِیْ بُطُوْنٌ غَرْثٰى، وَ اَکْبَادٌ حَرّٰى، اَوْ اَکُوْنَ کَمَا قَالَ الْقَآئِلُ:‏

میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں، تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے۔ اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کیلئے ذرائع مہیا کر سکتا تھا۔ لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے، جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں، درآنحالانکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں؟ یا میں ویسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ:

وَ حَسْبُکَ دَآءً اَنْ تَبِیْتَ بِبِطْنَةٍ

’’تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو

وَ حَوْلَکَ اَکْبَادٌ تَحِنُّ اِلَى الْقِدِّ

اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں‘‘؟

اَ اَقْنَعُ مِنْ نَّفْسِیْ بِاَنْ یُّقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لَاۤ اُشَارِکَهُمْ فِیْ مَکَارِهِ الدَّهْرِ؟ اَوْ اَکُوْنَ اُسْوَةً لَّهُمْ فِیْ جُشُوْبَةِ الْعَیْشِ؟ فَمَا خُلِقْتُ لِیَشْغَلَنِیْۤ اَکْلُ الطَّیِّبٰتِ کَالْبَهِیْمَةِ الْمَرْبُوْطَةِ هَمُّهَا عَلَفُهَا، اَوِ الْمُرْسَلَةِ شُغْلُهَا تَقَمُّمُهَا، تَکْتَرِشُ مِنْ اَعْلَافِهَا، وَ تَلْهُوْ عَمَّا یُرَادُ بِهَا، اَوْ اُتْرَکَ سُدًى، اَوْ اُهْمَلَ عَابِثًا، اَوْ اَجُرَّ حَبْلَ الضَّلَالَةِ، اَوْ اَعْتَسِفَ طَرِیْقَ الْمَتَاهَةِ.

کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنینؑ کہاجاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بدمزگیوں میں ان کیلئے نمونہ نہ بنوں؟ میں اس لئے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں، اس بندھے ہوئے چوپایہ کی طرح جسے صرف اپنے چارے ہی کی فکر رہتی ہے، یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے۔ وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے۔ کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ گمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکنے کی جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟۔

وَ کَاَنِّیْ بِقَآئِلِکُمْ یَقُوْلُ: اِذَا کَانَ هٰذَا قُوْتَ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ، فَقَدْ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ عَنْ قِتَالِ الْاَقْرَانِ، وَ مُنَازَلَةِ الشُّجْعَانِ. اَلَا وَ اِنَّ الشَّجَرَةَ الْبَرِّیَّةَ اَصْلَبُ عُوْدًا، وَ الرَّوَآئِعَ الْخَضِرَةَ اَرَقُّ جُلُوْدًا، وَ النَّبَاتَاتِ الْبَدَوِیَّةَ اَقْوٰى وُقُوْدًا، وَ اَبْطَاُ خُمُوْدًا.

میں سمجھتا ہوں تم میں سے کوئی کہے گا کہ: جب ابن ابی طالبؑ کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانائی نے اسے حریفوں سے بھڑنے اور دلیروں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا۔ مگر یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تر و تازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے، اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے۔

وَ اَنَا مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ کَالصِّنْوِ مِنَ الصِّنْوِ، وَ الذِّرَاعِ مِنَ الْعَضُدِ، وَ اللّٰهِ! لَوْ تَظَاهَرَتِ الْعَرَبُ عَلٰى قِتَالِیْ لَمَا وَلَّیْتُ عَنْهَا، وَ لَوْ اَمْکَنَتِ الْفُرَصُ مِنْ رِّقَابِهَا لَسَارَعْتُ اِلَیْهَا، وَ سَاَجْهَدُ فِیْۤ اَنْ اُطَهِّرَ الْاَرْضَ مِنْ هٰذَا الشَّخْصِ الْمَعْکُوْسِ، وَ الْجِسْمِ الْمَرْکُوْسِ، حَتّٰى تَخْرُجَ الْمَدَرَةُ مِنْۢ بَیْنِ حَبِّ الْحَصِیْدِ.

مجھے رسول ﷺ سے وہی نسبت ہے جو ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی دو شاخوں کو ایک دوسرے سے اور کلائی کو بازو سے ہوتی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تمام عرب ایکا کر کے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھاؤں گا، اور موقع پاتے ہی ان کی گردنیں دبوچ لینے کیلئے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹی کھوپڑی والے بے ہنگم ڈھانچے (معاویہ) سے زمین کو پاک کر دوں، تاکہ کھلیان کے دانوں سے کنکر نکل جائے۔

اِلَیْکِ عَنِّیْ یَا دُنْیَا! فَحَبْلُکِ عَلٰى غَارِبِکِ، قَدِ انْسَلَلْتُ مِنْ مَّخَالِبِکِ، وَ اَفْلَتُّ مِنْ حَبَآئِلِکِ، وَ اجْتَنَبْتُ الذَّهَابَ فِیْ مَدَاحِضِکِ، اَیْنَ الْقُرُوْنُ الَّذِیْنَ غَرَرْتِهِمْ بِمَدَاعِبِکِ؟ اَیْنَ الْاُمَمُ الَّذِیْنَ فَتَنْتِهِمْ بِزَخَارِفِکِ، هٰهُمْ‏ رَهَآئِنُ الْقُبُوْرِ، وَ مَضَامِیْنُ اللُّحُوْدِ.

اے دنیا! میرا پیچھا چھوڑ دے، تیری باگ ڈور تیرے کاندھے پر ہے۔میں تیرے پنجوں سے نکل چکا ہوں، تیرے پھندوں سے باہر ہو چکا ہوں اور تیری پھسلنے کی جگہوں میں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے کھیل تفریح کی باتوں سے چکمے دیئے؟ کدھر ہیں وہ جماعتیں جنہیں تو نے اپنی آرائشوں سے ورغلائے رکھا؟ وہ تو قبروں میں جکڑے ہوئے اور خاکِ لحد میں دُبکے پڑے ہیں۔

وَ اللّٰهِ! لَوْ کُنْتِ شَخْصًا مَرْئِیًّا وَّ قَالَبًا حِسِّیًّا، لَاَقَمْتُ عَلَیْکِ حُدُوْدَ اللّٰهِ فِیْ عِبَادٍ غَرَرْتِهِمْ بِالْاَمَانِیِّ، وَ اُمَمٍ اَلْقَیْتِهِمْ فِی الْمَهَاوِیْ، وَ مُلُوْکٍ اَسْلَمْتِهِمْ اِلَى التَّلَفِ، وَ اَوْرَدْتِّهِمْ مَوَارِدَ الْبَلَآءِ، اِذْ لَا وِرْدَ وَ لَا صَدَرَ.

اگر تو دکھائی دینے والا مجسمہ اور سامنے آنے والا ڈھانچہ ہوتی تو بخدا! میں تجھ پر اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں جاری کرتا کہ تو نے بندوں کو امیدیں دلا دلا کر بہکایا، قوموں کی قوموں کو (ہلاکت کے) گڑھوں میں لا پھینکا اور تاجداروں کو تباہیوں کے حوالے کر دیا اور سختیوں کے گھاٹ پر لا اتارا، جن پر اس کے بعد نہ سیراب ہونے کیلئے اترا جائے گا اور نہ سیراب ہو کر پلٹا جائے گا۔

هَیْهَاتَ مَنْ وَّطِئَ دَحْضَکِ زَلِقَ، وَ مَنْ رَّکِبَ لُجَجَکِ غَرِقَ، وَ مَنِ ازْوَرَّ عَنْ حَبَآئِلِکِ وُفِّقَ، وَ السَّالِمُ مِنْکِ لَا یُبَالِیْ اِنْ ضَاقَ بِهٖ مُنَاخُهٗ، وَ الدُّنْیَا عِنْدَهٗ کَیَوْمٍ حَانَ انْسِلَاخُهٗ.

پناہ بخدا! جو تیری پھسلن پر قدم رکھے گا وہ ضرور پھسلے گا، جو تیری موجوں پرسوار ہو گا وہ ضرور ڈوبے گا اور جو تیرے پھندوں سے بچ کر رہے گا وہ توفیق سے ہمکنار ہو گا۔ تجھ سے دامن چھڑا لینے والا پروا نہیں کرتا، اگرچہ دنیا کی وسعتیں اس کیلئے تنگ ہوجائیں۔ اس کے نزدیک تو دنیا ایک دن کے برابر ہے کہ جو ختم ہوا چاہتا ہے۔

اُعْزُبِیْ عَنِّیْ، فَوَاللّٰهِ! لَاۤ اَذِلُّ لَکِ فَتَسْتَذِلِّیْنِیْ، وَ لَاۤ اَسْلَسُ لَکِ فَتَقُوْدِیْنِیْ، وَ ایْمُ اللّٰهِ! ــ یَمِیْنًا اَسْتَثْنِیْ فِیْهَا بِمَشِیْٓئَةِ اللّٰهِ ــ لَاَرُوْضَنَّ نَفْسِیْ رِیَاضَةً تَهَشُّ مَعَهَا اِلَى الْقُرْصِ، اِذَا قَدَرَتْ عَلَیْهِ مَطْعُوْمًا، وَ تَقْنَعُ بِالْمِلْحِ مَاْدُوْمًا، وَ لَاَدَعَنَّ مُقْلَتِیْ کَعَیْنِ مَآءٍ نَّضَبَ مَعِیْنُهَا، مُسْتَفْرَغَةً دُمُوْعُهَا.

مجھ سے دور ہو! (خدا کی قسم) میں تیرے قابو میں آنے والا نہیں کہ تو مجھے ذلتوں میں جھونک دے اور نہ میں تیرے سامنے اپنی باگ ڈھیلی چھوڑنے والا ہوں کہ تو مجھے ہنکا لے جائے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں، ایسی قسم جس میں اللہ کی مشیت کے علاوہ کسی چیز کا استثناء نہیں کرتا کہ میں اپنے نفس کو ایسا سدھاؤں گا کہ وہ کھانے میں ایک روٹی کے ملنے پر خوش ہو جائے، اور اس کے ساتھ صرف نمک پر قناعت کرلے، اور اپنی آنکھوں کا سوتا اس طرح خالی کر دوں گا جس طرح وہ چشمہ آب جس کا پانی تہ نشین ہو چکا ہو۔

اَ تَمْتَلِئُ السَّآئِمَةُ مِنْ رَّعْیِهَا فَتَبْرُکَ، وَ تَشْبَعُ الرَّبِیْضَةُ مِنْ عُشْبِهَا فَتَرْبِضَ، وَ یَاْکُلُ عَلِیٌّ مِّنْ زَادِهٖ‏ فَیَهْجَعَ؟ قَرَّتْ اِذًا عَیْنُهٗ اِذَا اقْتَدٰى بَعْدَ السِّنِیْنَ الْمُتَطَاوِلَةِ، بِالْبَهِیْمَةِ الْهَامِلَةِ، وَ السَّآئِمَةِ الْمَرْعِیَّةِ.

کیا جس طرح بکریاں پیٹ بھر لینے کے بعد سینہ کے بل بیٹھ جاتی ہیں اور سیر ہو کر اپنے باڑے میں گھس جاتی ہیں اسی طرح علیؑ بھی اپنے پاس کا کھانا کھا لے اور بس سو جائے؟ اس کی آنکھیں بے نور ہو جائیں اگر وہ زندگی کے طویل سال گزارنے کے بعد کھلے ہوئے چوپاؤں اور چرنے والے جانوروں کی پیروی کرنے لگے۔

طُوْبٰى لِنَفْسٍ اَدَّتْ اِلٰى رَبِّهَا فَرْضَهَا، وَ عَرَکَتْ بِجَنْۢبِهَا بُؤْسَهَا، وَ هَجَرَتْ فِی اللَّیْلِ غُمْضَهَا، حَتّٰى اِذَا غَلَبَ الْکَرٰى عَلَیْهَا افْتَرَشَتْ اَرْضَهَا، وَ تَوَسَّدَتْ کَفَّهَا، فِیْ مَعْشَرٍ اَسْهَرَ عُیُوْنَهُمْ خَوْفُ مَعَادِهِمْ، وَ تَجَافَتْ عَنْ مَّضَاجِعِهِمْ جُنُوْبُهُمْ، وَ هَمْهَمَتْ بِذِکْرِ رَبِّهِمْ شِفَاهُهُمْ، وَ تَقَشَّعَتْ بِطُوْلِ اسْتِغْفَارِهِمْ ذُنُوْبُهُمْ، ﴿اُولٰٓىِٕکَ حِزْبُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠۝﴾.

خو شا نصیب! اس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا، سختی اور مصیبت میں صبر کئے پڑا رہا، راتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدار رکھا، اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر ان لوگوں کے ساتھ فرشِ خاک پر پڑا رہا، کہ جن کی آنکھیں خوفِ حشر سے بیدار، پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یادِ خدا میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرتِ استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں۔ ’’یہی اللہ کا گروہ ہے اور بیشک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے‘‘۔

فَاتَّقِ اللّٰهَ یَا ابْنَ حُنَیْفٍ! وَ لْتَکْفِکَ اَقْرَاصُکَ لِیَکُوْنَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُکَ.

اے ابن حنیف! اللہ سے ڈرو اور اپنی ہی روٹیوں پر قناعت کرو، تاکہ جہنم کی آگ سے چھٹکارا پا سکو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:21
عون نقوی

لِلْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ عَلَیْھِمَا السَّلَامُ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَّعَنَهُ اللّٰهُ:

جب آپ علیہ السلام کو ابن ملجم لعنہ اللہ ضربت لگا چکا تو آپؑ نے حسن اور حسین علیہما السلام سے فرمایا:

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَى اللّٰهِ، وَ اَنْ لَّا تَبْغِیَا الدُّنْیَا وَ اِنْ بَغَتْکُمَا، وَ لَا تَاْسَفَا عَلٰى شَیْ‏ءٍ مِّنْهَا زُوِیَ عَنْکُمَا، وَ قُوْلَا بِالْحَقِّ، وَ اعْمَلَا لِلْاَجْرِ، وَ کُوْنَا لِلظَّالِمِ خَصْمًا وَّ لِلْمَظْلُوْمِ عَوْنًا.

میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، دنیا کے خواہشمند نہ ہونا اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے، اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے۔ جو کہنا حق کیلئے کہنا اور جو کرنا ثواب کیلئے کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔

اُوْصِیْکُمَا وَ جَمِیْعَ وَلَدِیْ وَ اَهْلِیْ وَ مَنْۢ بَلَغَهٗ کِتَابِیْ، بِتَقْوَى اللّٰهِ وَ نَظْمِ اَمْرِکُمْ، وَ صَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَا ﷺ یَقُوْلُ: «صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلٰوةِ وَ الصِّیَامِ».

میں تم کو، اپنی تمام اولاد کو، اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا یہ نوشتہ پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا،کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: «آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے»۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الْاَیْتَامِ، فَلَا تُغِبُّوْۤا اَفْوَاهَهُمْ، وَ لَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ.

(دیکھو!) یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ان کے کام و دہن کیلئے فاقہ کی نوبت نہ آئے، اور تمہاری موجودگی میں وہ تباہ و برباد نہ ہو جائیں۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّهُمْ وَصِیَّةُ نَبِیِّکُمْ، مَا زَالَ یُوْصِیْ بِهِمْ حَتّٰى ظَنَنَّاۤ اَنَّهٗ سَیُوَرِّثُهُمْ.

اپنے ہمسایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر ﷺ نے برابر ہدایت کی ہے اور آپؐ اس حد تک ان کیلئے سفارش فرماتے رہے کہ ہم لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ آپؐ انہیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِهٖ غَیْرُکُمْ.

قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الصَّلٰوةِ، فَاِنَّهَا عَمُوْدُ دِیْنِکُمْ.

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا، کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِیْ بَیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْهُ مَا بَقِیْتُمْ، فَاِنَّهٗۤ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُنَاظَرُوْا.

اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔ اسے جیتے جی خالی نہ چھوڑنا، کیونکہ اگر یہ خالی چھوڑ دیا گیا تو پھر( عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

وَ اللّٰهَ اللّٰهَ فِی الْجِهَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ اَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ.

جان، مال اور زبان سے راہ خدا میں جہاد کرنے کے بارے میں اللہ کو نہ بھولنا۔

وَ عَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَ التَّبَاذُلِ وَ اِیَّاکُمْ وَ التَّدَابُرَ وَ التَّقَاطُعَ.

اور تم کو لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا۔ اور خبردار! ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا۔

لَا تَتْرُکُوا الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلّٰى عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ.

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا، ورنہ بدکردار تم پر مسلط ہو جائیں گے۔ پھر دُعا مانگو گے تو قبول نہیں ہو گی۔

یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَاۤ اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ خَوْضًا، تَقُوْلُوْنَ قُتِلَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ، اَلَا لَا تَقْتُلُنَّ بِیْۤ اِلَّا قَاتِلِیْ، اُنْظُرُوْا اِذَاۤ اَنَا مُتُّ مِنْ ضَرْبَتِهٖ هٰذِهٖ، فَاضْرِبُوْهُ ضَرْبَةًۢ بِضَرْبَةٍ، وَ لَا یُمَثَّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﷺ یَقُولُ:‏ «اِیَّاکُمْ وَ الْمُثْلَةَ وَ لَوْ بِالْکَلْبِ الْعَقُورِ».

(پھر ارشاد فرمایا:) اے عبد المطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہونے پائے کہ تم امیر المومنین علیہ السلام قتل ہو گئے، امیر المومنین علیہ السلام قتل ہو گئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو۔ دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیا جائے۔ اور دیکھو! جب میں اس ضرب سے مر جاؤں تو اس ایک ضرب کے بدلے میں ایک ہی ضرب لگانا اور اس شخص کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: «خبردار! کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو، اگرچہ وہ کاٹنے والا کتا ہی ہو»۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:14
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ ابن ابی سفیان کے نام

وَ اِنَّ الْبَغْیَ وَ الزُّوْرَ یُذِیْعَانِ بِالْمَرْءِ فِیْ دِیْنِهٖ وَ دُنْیَاهُ، وَ یُبْدِیَانِ خَلَلَهٗ عِنْدَ مَنْ یَّعِیْبُهٗ، وَ قَدْ عَلِمْتَ اَنَّکَ غَیْرُ مُدْرِکٍ مَّا قُضِیَ فَوَاتُهٗ، وَ قَدْ رَامَ اَقْوَامٌ اَمْرًۢا بِغَیْرِ الْحَقِّ، فَتَاَوَّلُوْا عَلَى اللّٰهِ فَاَکْذَبَهُمْ، فَاحْذَرْ یَوْمًا یَّغْتَبِطُ فِیْهِ مَنْ اَحْمَدَ عَاقِبَةَ عَمَلِهٖ، وَ یَنْدَمُ مَنْ اَمْکَنَ الشَّیْطٰنَ مِنْ قِیَادِهٖ فَلَمْ یُجَاذِبْهٗ.

یاد رکھو! سرکشی اور دروغ گوئی انسان کو دین و دنیا میں رسوا کر دیتی ہے اور نکتہ چینی کرنے والے کے سامنے اس کی خامیاں کھول دیتی ہے۔ تم جانتے ہو کہ جس چیز کا ہاتھ سے جانا ہی طے ہے، اسے تم پا نہیں سکتے۔ بہت سے لوگوں نے بغیر کسی حق کے کسی مقصد کو چاہا اور منشاء الٰہی کے خلاف تاویلیں کرنے لگے تو اللہ نے انہیں جھٹلا دیا۔ لہٰذا تم بھی اس دن سے ڈرو جس میں وہی شخص خوش ہو گا جس نے اپنے اعمال کے نتیجہ کو بہتر بنا لیا ہو، اور وہ شخص نادم و شرمسار ہو گا جس نے اپنی باگ ڈور شیطان کو تھما دی، اور اس کے ہاتھ سے اسے نہ چھیننا چاہا۔

وَ قَدْ دَعَوْتَنَا اِلٰى حُکْمِ الْقُرْاٰنِ وَ لَسْتَ مِنْ اَهْلِهٖ وَ لَسْنَاۤ اِیَّاکَ اَجَبْنَا، وَ لٰکِنَّاۤ اَجَبْنَا الْقُرْاٰنَ فِیْ حُکْمِهٖ، وَ السَّلَامُ.

اور تم نے ہمیں قرآن کے فیصلہ کی طرف دعوت دی حالانکہ تم قرآن کے اہل نہیں تھے، تو ہم نے تمہاری آواز پر لبیک نہیں کہی، بلکہ قرآن کے حکم پر لبیک کہی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:09
عون نقوی