بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: مکتوبات» ثبت شده است

معاویہ کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الدُّنْیَا مَشْغَلَةٌ عَنْ غَیْرِهَا، وَ لَمْ یُصِبْ صَاحِبُهَا مِنْهَا شَیْئًا، اِلَّا فَتَحَتْ لَهٗ حِرْصًا عَلَیْهَا وَ لَهَجًۢا بِهَا، وَ لَنْ یَّسْتَغْنِیَ صَاحِبُهَا بِمَا نَالَ فِیْهَا عَمَّا لَمْ یَبْلُغْهُ مِنْهَا، وَ مِنْ وَّرَآءِ ذٰلِکَ فِرَاقُ مَا جَمَعَ، وَ نَقْضُ مَاۤ اَبْرَمَ، وَ لَوِ اعْتَبَرْتَ بِمَا مَضٰى حَفِظْتَ مَا بَقِیَ، وَ السَّلَامُ.

دنیا آخرت سے روگرداں کر دینے والی ہے، اور جب دنیا دار اس سے کچھ تھوڑا بہت پا لیتا ہے تو وہ اس کیلئے اپنی حرص و شیفتگی کے دروازے کھول دیتی ہے، اور یہ نہیں ہوتا کہ اب جتنی دولت مل گئی اس پر اکتفا کرے، اور جو ہاتھ نہیں آیا اس سے بے نیاز رہے۔ حالانکہ نتیجہ میں جو کچھ جمع کیا ہے اس سے جدائی اور جو کچھ بندو بست کیا ہے اس کی شکست لازمی ہے۔ اور اگر تم گزشتہ حالات سے عبرت حاصل کرو تو باقی عمر کی حفاظت کر سکو گے۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:07
عون نقوی

اِلٰۤى اُمَرَآئِهٖ عَلَى الْجُیُوْشِ

سرداران لشکر کے نام

مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلٰۤى اَصْحَابِ الْمَسَالِحِ.

خدا کے بندے علی امیر المومنین ؑ کا خط چھاؤنیوں کے سالاروں کی طرف:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ حَقًّا عَلَى الْوَالِیْۤ اَنْ لَّا یُغَیِّرَهٗ عَلٰى رَعِیَّتِهٖ فَضْلٌ نَّالَهٗ، وَ لَا طَوْلٌ خُصَّ بِهٖ، وَ اَنْ یَزِیْدَهٗ مَا قَسَمَ اللّٰهُ لَهٗ مِنْ نِعَمِهٖ، دُنُوًّا مِّنْ عِبَادِهٖ، وَ عَطْفًا عَلٰۤى اِخْوَانِهٖ.

حاکم پر فرض ہے کہ جس برتری کو اس نے پایا ہے اور جس فارغ البالی کی منزل پر پہنچا ہے، وہ اس کے رویہ میں جو رعایا کے ساتھ ہے تبدیلی پیدا نہ کرے، بلکہ اﷲنے جو نعمت اس کے نصیب میں کی ہے وہ اسے بندگانِ خدا سے نزدیکی اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی میں اضافہ ہی کا باعث ہو۔

اَلَا وَ اِنَّ لَکُمْ عِنْدِیْۤ اَنْ لَّاۤ اَحْتَجِزَ دُوْنَکُمْ سِرًّا اِلَّا فِیْ حَرْبٍ، وَ لَاۤ اَطْوِیَ دُوْنَکُمْ اَمْرًا اِلَّا فِیْ حُکْمٍ، وَ لَاۤ اُؤَخِّرَ لَکُمْ حَقًّا عَنْ مَّحَلِّهٖ، وَ لَاۤ اَقِفَ بِهٖ دُوْنَ مَقْطَعِهٖ، وَ اَنْ تَکُوْنُوْا عِنْدِیْ فِی الْحَقِّ سَوَآءً.

ہاں! مجھ پر تمہارا یہ بھی حق ہے کہ جنگ کی حالت کے علاوہ کوئی راز تم سے پردہ میں نہ رکھوں، اور حکم شرعی کے سوا دوسرے امور میں تمہاری رائے مشورہ سے پہلو تہی نہ کروں، اور تمہارے کسی حق کو پورا کرنے میں کوتاہی نہ کروں، اور اسے انجام تک پہنچائے بغیر دم نہ لوں، اور یہ کہ حق میں تم میرے نزدیک سب برابر سمجھے جاؤ۔

فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ، وَجَبَتْ لِلّٰهِ عَلَیْکُمُ النِّعْمَةُ وَ لِیْ عَلَیْکُمُ الطَّاعَةُ، وَ اَنْ لَّا تَنْکُصُوْا عَنْ دَعْوَةٍ، وَ لَا تُفَرِّطُوْا فِیْ صَلَاحٍ،‏ وَ اَنْ تَخُوْضُوا الْغَمَرَاتِ اِلَى الْحَقِّ.

جب میرا برتاؤ یہ ہو تو تم پر اﷲکے احسان کا شکر لازم ہے اور میری اطاعت بھی، اور یہ کہ کسی پکار پر قدم پیچھے نہ ہٹاؤ، اور نیک کاموں میں کوتاہی نہ کرو، اور حق تک پہنچنے کیلئے سختیوں کا مقابلہ کرو۔

فَاِنْ اَنْتُمْ لَمْ تَسْتَقِیْمُوْا لِیْ عَلٰى ذٰلِکَ، لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ اَهْوَنَ عَلَیَّ مِمَّنِ اعْوَجَّ مِنْکُمْ، ثُمَّ اُعْظِمُ لَهُ الْعُقُوْبَةَ، وَ لَا یَجِدُ فِیْهَا عِنْدِیْ رُخْصَةً، فَخُذُوْا هٰذَا مِنْ اُمَرَآئِکُمْ، وَ اَعْطُوْهُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ مَا یُصْلِحُ اللّٰهُ بِهٖۤ اَمْرَکُمْ، وَالسَّلَامُ.

اور اگر تم اس رویہ پر برقرار نہ رہو تو پھر تم میں سے بے راہ ہو جانے والوں سے زیادہ کوئی میری نظر میں ذلیل نہ ہو گا۔ پھر اسے سزا بھی دوں گا اور وہ اس بارے میں مجھ سے کوئی رعایت نہ پائے گا۔ تم اپنے (ما تحت) سرداروں سے یہی عہد و پیمان لو اور اپنی طرف سے بھی ایسے حقوق کی پیشکش کرو کہ جس سے اللہ تمہارے معاملات کو سلجھا دے۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:05
عون نقوی

اِلٰى عُمَّالِهٖ عَلَى الْخَرَاجِ

خراج کے تحصیلداروں کے نام

مِنْ عَبْدِ اللّٰهِ عَلِیٍّ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلٰۤى اَصْحَابِ الْخَرَاجِ.

خدا کے بندے علی امیر المومنینؑ کا خط خراج وصول کرنے والوں کی طرف:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ مَنْ لَّمْ یَحْذَرْ مَا هُوَ صَآئِرٌ اِلَیْهِ، لَمْ یُقَدِّمْ لِنَفْسِهٖ مَا یُحْرِزُهَا.

جو شخص اپنے انجامِ کار سے خائف نہیں ہوتا وہ اپنے نفس کے بچاؤ کیلئے کوئی سر و سامان فراہم نہیں کر سکتا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مَا کُلِّفْتُمْ یَسِیْرٌ، وَ اَنَّ ثَوَابَهٗ کَثِیْرٌ، وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ فِیْمَا نَهَى اللّٰهُ عَنْهُ مِنَ الْبَغْیِ وَ الْعُدْوَانِ عِقَابٌ یُّخَافُ، لَکَانَ فِیْ ثَوَابِ اجْتِنَابِهٖ مَا لَا عُذْرَ فِیْ تَرْکِ طَلَبِهٖ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو فرائض تم پرعائد کئے گئے ہیں، وہ کم ہیں اور ان کا ثواب زیادہ ہے۔ خدا نے ظلم و سرکشی سے جو روکا ہے اس پر سزا کا خوف نہ بھی ہوتا جب بھی اس سے بچنے کا ثواب ایسا ہے کہ اس کی طلب سے بے نیاز ہونے میں کوئی عذر نہیں کیا جا سکتا۔

فَاَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ اَنْفُسِکُمْ وَ اصْبِرُوْا لِحَوَآئِجِهِمْ، فَاِنَّکُمْ خُزَّانُ الرَّعِیَّةِ، وَ وُکَلَآءُ الْاُمَّةِ، وَ سُفَرَآءُ الْاَئِمَّةِ، وَ لَا تَحْسِمُوْۤا اَحَدًا عَنْ حَاجَتِهٖ، وَ لَا تَحْبِسُوْهُ عَنْ طَلِبَتِهٖ.

لوگوں سے عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرو اور ان کی خواہشوں پر صبر و تحمل سے کام لو۔ اس لئے کہ تم رعیت کے خزینہ دار، اُمت کے نمائندے اور اقتدار اعلیٰ کے فرستادہ ہو۔ کسی سے اس کی ضروریات کو قطع نہ کر و، اور اس کے مقصد میں روڑے نہ اٹکاؤ۔

وَ لَا تَبِیْعُنَّ لِلنَّاسِ فِی الْخَرَاجِ کِسْوَةَ شِتَآءٍ وَّ لَا صَیْفٍ، وَ لَا دَابَّةً یَّعْتَمِلُوْنَ عَلَیْهَا وَ لَا عَبْدًا، وَ لَا تَضْرِبُنَّ اَحَدًا سَوْطًا لِّمَکَانِ دِرْهَمٍ، وَ لَا تَمَسُّنَّ مَالَ اَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ، مُصَلٍّ وَّ لَا مُعَاهَدٍ، اِلَّا اَنْ تَجِدُوْا فَرَسًا، اَوْ سِلَاحًا یُّعْدٰى بِهٖ عَلٰۤى اَهْلِ الْاِسْلَامِ، فَاِنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْ لِلْمُسْلِمِ اَنْ یَّدَعَ ذٰلِکَ فِیْۤ اَیْدِیْ اَعْدَآءِ الْاِسْلَامِ فَیَکُوْنَ شَوْکَةً عَلَیْهِ.

اور لوگوں سے خراج وصول کرنے کیلئے ان کے جاڑے یا گرمی کے کپڑوں اور مویشیوں کو جن سے وہ کام لیتے ہوں اور ان کے غلاموں کو فروخت نہ کرو، اور کسی کو پیسہ کی خاطر کوڑے نہ لگاؤ، اور کسی مسلمان یا ذِمّی کے مال کو ہاتھ نہ لگاؤ مگر یہ کہ اس کے پاس گھوڑا یا ہتھیار ہو کہ جو اہل اسلام کے خلاف استعمال ہونے والا ہو۔ اس لئے کہ یہ ایسی چیز ہے کہ کسی مسلمان کیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس کو دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں میں رہنے دے کہ جو مسلمانوں پر غلبہ کا سبب بن جائے۔

وَ لَا تَدَّخِرُوْۤا اَنْفُسَکُمْ نَصِیْحَةً، وَ لَا الْجُنْدَ حُسْنَ سِیْرَةٍ، وَ لَا الرَّعِیَّةَ مَعُوْنَةً، وَ لَا دِیْنَ اللّٰهِ قُوَّةً، وَ اَبْلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَا اسْتَوْجَبَ عَلَیْکُمْ، فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ قَدِ اصْطَنَعَ عِنْدَنَا وَ عِنْدَکُمْ اَنْ نَشْکُرَهٗ بِجُهْدِنَا، وَ اَنْ نَّنْصُرَهٗ بِمَا بَلَغَتْ قُوَّتُنَا، وَ ﴿لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ﴾.

اور اپنوں کی خیر خواہی، فوج سے نیک برتاؤ، رعیت کی امداد اور دین خدا کو مضبوط کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھو۔ اللہ کی راہ میں جو تمہارا فرض ہے اسے سر انجام دو، کیونکہ اللہ سبحانہ نے اپنے احسانات کے بدلہ میں ہم سے اور تم سے یہ چاہا ہے کہ ہم مقدور بھر اس کا شکر اور طاقت بھر اس کی نصرت کریں، اور ہماری قوت و طاقت بھی تو خدا ہی کی طرف سے ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:01
عون نقوی

اِلٰۤى اُمَرَآءِ الْبِلَادِ فِیْ مَعْنَى الصَّلٰوةِ

نماز کے بارے میں مختلف شہروں کے حکمرانوں کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَصَلُّوْا بِالنَّاسِ الظُّهْرَ حَتّٰى تَفِیْٓ‏ءَ الشَّمْسُ مِثْلَ مَرْبَضِ الْعَنْزِ.

ظہر کی نماز پڑھاؤ اس وقت تک کہ سورج اتنا جھک جائے کہ بکریوں کے باڑے کی دیوار کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔

وَ صَلُّوْا بِهِمُ الْعَصْرَ، وَ الشَّمْسُ بَیْضَآءُ حَیَّةٌ فِیْ عُضْوٍ مِّنَ النَّهَارِ حِیْنَ یُسَارُ فِیْهَا فَرْسَخَانِ.

اور عصر کی نماز اس وقت تک پڑھا دینا چاہیے کہ سورج ابھی روشن اور زندہ ہو اور دن ابھی اتنا باقی ہو کہ چھ میل کی مسافت طے کی جا سکے۔

وَ صَلُّوْا بِهِمُ الْمَغْرِبَ حِیْنَ یُفْطِرُ الصَّآئِمُ ،وَ یَدْفَعُ الْحَاجُّ.

اور مغرب کی نماز اس وقت پڑھاؤ جب روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے اور حاجی عرفات سے واپس جاتے ہیں۔

وَ صَلُّوْا بِهِمُ الْعِشَآءَ حِیْنَ یَتَوَارَى الشَّفَقُ اِلٰى ثُلُثِ اللَّیْلِ.

اور عشاء کی نماز مغرب کی سرخی غائب ہو نے سے رات کے ایک تہائی حصہ تک پڑھا دو۔

وَ صَلُّوْا بِهِمُ الْغَدَاةَ وَ الرَّجُلُ یَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهٖ.

اور صبح کی نماز اس وقت پڑھاؤ جب آدمی اپنے ہمراہی کا چہرہ پہچان لے۔

وَ صَلُّوْا بِهِمْ صَلٰوةَ اَضْعَفِهِمْ، وَ لَا تَکُوْنُوْا فَتَّانِیْنَ.

اور نماز اتنی مختصر پڑھاؤ جو ان میں سب سے کمزور آدمی پر بھی بار نہ ہو اور لوگوں کیلئے صبر آزما نہ بن جاؤ۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 14:59
عون نقوی

اِلٰى طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرِ، مَعَ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ الْخُزَاعِىِّ، ذَکَرَهٗۤ اَبُوْ جَعْفَرٍ الْاِسْکَافِىُّ فِیْ کِتَابِ الْمَقَامَاتِ فِیْ مَنَاقِبِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ

جو عمران ابن حصین خزاعی کے ہاتھ طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا۔ اس خط کو ابو جعفر اسکافی نے اپنی کتاب ’’مقامات‘‘ میں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں ہے ذکر کیا ہے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ عَلِمْتُمَا وَ اِنْ کَتَمْتُمَا، اَنِّیْ لَمْ اُرِدِ النَّاسَ حَتّٰۤى اَرَادُوْنِیْ، وَ لَمْ اُبَایِعْهُمْ حَتّٰى بَایَعُوْنِیْ، وَ اِنَّکُمَا مِمَّنْ اَرَادَنِیْ وَ بَایَعَنِیْ، وَ اِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَایِعْنِیْ لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ، وَ لَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ، فَاِنْ کُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ طَآئِعَیْنِ، فَارْجِعَا وَ تُوْبَا اِلَى اللّٰهِ مِنْ قَرِیْبٍ، وَ اِنْ کُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ کَارِهَیْنِ، فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِیْ عَلَیْکُمَا السَّبِیْلَ بِاِظْهَارِکُمَا الطَّاعَةَ، وَ اِسْرَارِکُمَا الْمَعْصِیَةَ.

چاہے تم کتنا ہی چھپاؤ مگر تم دونوں واقف ہو کہ میں لوگوں کی طرف نہیں بڑھا، بلکہ وہ بڑھ کر میری طرف آئے۔ میں نے اپنا ہاتھ بیعت لینے کیلئے نہیں بڑھایا، بلکہ انہوں نے خود میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور تم دونوں بھی انہی لوگوں میں سے ہو کہ جو میری طرف بڑھ کر آئے تھے اور بیعت کی تھی، اور عوام نے میرے ہاتھ پر نہ تسلط و اقتدار (کے خوف) سے بیعت کی تھی اور نہ مال و دولت کے لالچ میں۔ اب اگر تم دونوں نے اپنی رضا مندی سے بیعت کی تھی تو اس (عہد شکنی) سے پلٹو اور جلد اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، اور اگر ناگواری کے ساتھ بیعت کی تھی تو اطاعت کو ظاہر کر کے اور نافرمانی کو چھپا کر تم نے اپنے خلاف میرے لئے حجت قائم کر دی ہے۔

وَ لَعَمْرِیْ! مَا کُنْتُمَا بِاَحَقِّ الْمُهَاجِرِیْنَ بِالتَّقِیَّةِ وَ الْکِتْمَانِ، وَ اِنَّ دَفْعَکُمَا هٰذَا الْاَمْرَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَدْخُلَا فِیْهِ، کَانَ اَوْسَعَ عَلَیْکُمَا مِنْ خُرُوْجِکُمَا مِنْهُ بَعْدَ اِقْرَارِکُمَا بِهٖ، وَ قَدْ زَعَمْتُمَا اَنِّیْ قَتَلْتُ عُثْمَانَ، فَبَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّیْ وَ عَنْکُمَا مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ، ثُمَّ یُلْزَمُ کُلُّ امْرِئٍۭ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ.

اور مجھے اپنی زندگی کی قسم! کہ تم قلبی کیفیت پر پردہ ڈالنے اور اسے چھپانے میں دوسرے مہاجرین سے زیادہ سزا وار نہ تھے ،اور بیعت کرنے سے پہلے اسے ردّ کرنے کی تمہارے لئے اس سے زیادہ گنجائش تھی کہ اب اقرار کے بعد اس سے نکلنے کی کو شش کرو، اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ کہ جو تم سے بھی اور ہم سے بھی کنارہ کش ہیں گواہی دینے کو موجود ہیں۔ اس کے بعد جس نے جتنا حصہ لیا ہو اتنے کا اسے ذمہ دار سمجھا جائے گا۔

فَارْجِعَاۤ اَیُّهَا الشَّیْخَانِ عَنْ رَّاْیِکُمَا، فَاِنَّ الْاٰنَ اَعْظَمُ اَمْرِکُمَا الْعَارُ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّجْتَمِـعَ الْعَارُ وَ النَّارُ، وَ السَّلَامُ.

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آؤ، کیونکہ ابھی تو تم دونوں کے سامنے ننگ و عار ہی کا بڑا مرحلہ ہے، مگر اس کے بعد تو اس ننگ و عار کے ساتھ (دوزخ کی) آگ بھی جمع ہو جائے گی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 17:03
عون نقوی