بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

لِاَصْحَابِهٖ

اپنے اصحاب سے فرمایا

اَمَا اِنَّهٗ سَیَظْهَرُ عَلَیْکُمْ بَعْدِیْ رَجُلٌ رَّحْبُ الْبُلْعُوْمِ، مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ، یَاْکُلُ مَا یَجِدُ، وَ یَطْلُبُ مَا لَا یَجِدُ، فَاقْتُلُوْهُ، وَ لَنْ تَقْتُلُوْهُ! اَلَا وَ اِنَّهٗ سَیَاْمُرُکُمْ بِسَبِّیْ وَ الْبَرَآئَةِ مِنِّیْ، فَاَمَّا السَّبُّ فَسُبُّوْنِیْ، فَاِنَّهٗ لِیْ زَکَاةٌ، وَ لَکُمْ نَجَاةٌ، وَ اَمَّا الْبَرَآئَةُ فَلَا تَتَبَرَّاُوْا مِنِّیْ، فَاِنِّیْ وُلِدْتُّ عَلَی الْفِطْرَةِ، وَ سَبَقْتُ اِلَی الْاِیْمَانِ وَ الْهِجْرَةِ.

میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہو گا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہو گا، جو پائے گا اُسے نگل جائے گا اور جو نہ پائے گا اس کی اسے ڈھونڈ لگی رہے گی۔ (بہتر تو یہ ہے کہ) تم اسے قتل کر ڈالنا، لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہرگز قتل نہ کرو گے۔ وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے بُرا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔ جہاں تک بُرا کہنے کا تعلق ہے، مجھے بُرا کہہ لینا۔ اس لئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے (دشمنوں سے) نجات پانے کا باعث ہے۔ لیکن (دل سے ) بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ مَیں (دین) فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں سابق ہوں۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:51
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ بَطَنَ خَفِیَّاتِ الْاُمُوْرِ، وَ دَلَّتْ عَلَیْهِ اَعْلَامُ الظُّهُوْرِ، وَ امْتَنَعَ عَلٰی عَیْنِ الْبَصِیْرِ، فَلَا عَیْنُ مَنْ لَّمْ یَرَهُ تُنْکِرُهٗ، وَ لَا قَلْبُ مَنْ اَثْبَتَهٗ یُبْصِرُهٗ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو چھپی ہوئی چیزوں کی گہرائیوں میں اُترا ہوا ہے۔ اس کے ظاہر و ہویدا ہونے کی نشانیاں اس کے وجود کا پتہ دیتی ہیں۔ گو دیکھنے والے کی آنکھ سے وہ نظر نہیں آتا، پھر بھی نہ دیکھنے والی آنکھ اس کا انکار نہیں کر سکتی اور جس نے اس کا اقرار کیا اس کا دل اس کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔

سَبَقَ فِی الْعُلُوِّ فَلَا شَیْءَ اَعْلٰی مِنْهُ، وَ قَرُبَ فِی الدُّنُوِّ فَلَا شَیْءَ اَقْرَبُ مِنْهُ، فَلَا اسْتِعْلَآؤُهٗ بَاعَدَهٗ عَنْ شَیْءٍ مِّنْ خَلْقِهٖ، وَ لَا قُرْبُهٗ سَاوَاهُمْ فِی الْمَکَانِ بِهٖ، لَمْ یُطْلِعِ الْعُقُوْلَ عَلٰی تَحْدِیْدِ صِفَتِهٖ، وَلَمْ یَحْجُبْهَا عَنْ وَّاجِبِ مَعْرِفِتِهٖ، فَهُوَ الَّذِیْ تَشْهَدُ لَهٗۤ اَعْلَامُ الْوُجُوْدِ، عَلٰۤی اِقْرَارِ قَلْبِ ذِی الْجُحُوْدِ،تَعَالَی اللهُ عَمَّا یَقُوْلُ الْمُشَبِّهُوْنَ بِهٖ وَ الْجَاحِدُوْنَ لَهٗ عُلوًّا کَبِیْرًا!.

وہ اتنا بلند و برتر ہے کہ کوئی چیز اس سے بلند تر نہیں ہو سکتی اور اتنا قریب سے قریب تر ہے کہ کوئی شے اس سے قریب تر نہیں ہے۔ اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کر دیا ہے اور نہ اس کے قرب نے اسے دوسروں کی سطح پر لا کر ان کے برابر کر دیا ہے۔ اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت پر مطلع نہیں کیا اور ضروری مقدار میں معرفت حاصل کرنے کیلئے ان کے آگے پردے بھی حائل نہیں کئے۔ وہ ذات ایسی ہے کہ جس کے وجود کے نشانات اس طرح اس کی شہادت دیتے ہیں کہ (زبان سے) انکار کرنے والے کا دل بھی اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اللہ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند و برتر ہے جو مخلوقات سے اس کی تشبیہ دیتے ہیں اور اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:44
عون نقوی

عِنْدَ الْمَسِیْرِ اِلَی الشَّامِ

جب شام روانہ ہوئے تو فرمایا

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کُلَّمَا وَقَبَ لَیْلٌ وَ غَسَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وَّ خَفَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ غَیْرَ مَفْقُوْدِ الْاِنْعَامِ، وَ لَا مُکَافَاِ الْاِفْضَالِ.

اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے جب بھی رات آئے اور اندھیرا پھیلے اور اللہ کیلئے تعریف و توصیف ہے جب بھی ستارہ نکلے اور ڈوبے اور اس اللہ کیلئے مدح و ستائش ہے کہ جس کے انعامات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جس کے احسانات کا بدلہ اتارا نہیں جا سکتا۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِیْ، وَ اَمَرْتُهُمْ بِلُزُوْمِ هٰذَا الْمِلْطَاطِ، حَتّٰی یَاْتِیَهُمْ اَمْرِیْ، وَ قَدْ اَرَدْتُّ اَنْ اَقْطَعَ هٰذِهِ الْنُّطْفَةَ اِلٰی شِرْذِمَةٍ مِّنْکُمْ، مُوْطِنِیْنَ اَکْنَافَ دَجْلَةَ، فَاُنْهِضَهُمْ مَّعَکُمْ اِلٰی عَدُوِّکُمْ، وَ اَجْعَلَهُمْ مِنْ اَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَکُمْ.

(آگاہ رہو کہ) میں نے فوج کا ہر اول دستہ آگے بھیج دیا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ میرا فرمان پہنچنے تک اس دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے رہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پانی کو عبور کر کے اس چھوٹے سے گروہ کے پاس پہنچ جاؤں جو اطراف دجلہ (مدائن) میں آباد ہے اور اسے بھی تمہارے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا کروں اور انہیں تمہاری کمک کیلئے ذخیرہ بناؤں۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:43
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ الْکُوْفَةِ

(کوفہ پر وارد ہونے والے مصائب کے متعلق فرمایا)

کَاَنِّیْ بِکِ یَاکُوْفَةُ! تُمَدِّیْنَ مَدَّ الْاَدِیْمِ الْعُکَاظِیِّ، تُعْرَکِیْنَ بِالنَّوَازِلِ، وَتُرْکَبِیْنَ بِالزَّلَازِلِ، وَ اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَنَّهٗ مَا اَرَادَ بِکِ جَبَّارٌ سُوْٓءًا اِلَّا ابْتَلَاهُ اللهُ بِشَاغِلٍ، وَ رَمَاهُ بِقَاتِلٍ!

اے کوفہ! یہ منظر گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تجھے اس طرح سے کھینچا جا رہا ہے جیسے بازار عکاظ کے دباغت کئے ہوئے چمڑے کو اور مصائب اور آلام کی تاخت و تاراج سے تجھے کچلا جا رہا ہے اور شدائد و حوادث کا تو مرکب بنا ہوا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جو ظالم و سرکش تجھ سے برائی کا ارادہ کرے گا اللہ اُسے کسی مصیبت میں جکڑ دے گا اور کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔


زمانہ جاہلیت میں ہر سال مکہ کے قریب ایک بازار لگتا تھا جس کا نام ’’عکاظ‘‘ تھا جہاں زیادہ تر کھالوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی جس کی وجہ سے چمڑے کو اس کی طرف نسبت دی جاتی تھی۔ خرید و فروخت کے علاوہ شعر و سخن کی محفلیں بھی جمتی تھیں اور عرب اپنے کارنامے سنا کر دادِ تحسین حاصل کرتے تھے، مگر اسلام کے بعد اس کا نعم البدل حج کے اجتماع کی صورت میں حاصل ہو جانے کے وجہ سے وہ بازار سرد پڑ گیا۔

امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ جن لوگوں نے کوفہ میں اپنی قہرمانی قوتوں کے بل بوتے پر ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا انجام کتنا عبرتناک ہوا اور ان کی ہلاکت آفرینیوں نے ان کیلئے ہلاکت کے کیا کیا سر و سامان کئے۔ چنانچہ زیاد ابن ابیہ کا حشر یہ ہوا کہ جب اس نے امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف ناسزا کلمات کہلوانے کیلئے خطبہ دینا چاہا تو اچانک اس پر فالج گرا اور پھر وہ بستر سے نہ اٹھ سکا۔ عبید اللہ ابن زیاد کی سفاکیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوڑھ میں مبتلا ہو گیا اور آخر خون آشام تلواروں نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حجاج بن یوسف کی خونخواریوں نے اسے یہ روزِ بد دکھایا کہ اس کے پیٹ میں سانپ پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر اس نے جان دی۔ عمر ابن ہبیرہ مبروص ہو کر مرا۔ خالد قسری نے قید و بند کی سختیاں جھیلیں اور بری طرح مارا گیا۔ مصعب ابن زبیر اور یزید ابن مہلب بھی تیغوں کی نذر ہوئے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:40
عون نقوی

عِنْدَ عَزْمِهٖ عَلَى الْمَسِیْرِ اِلَى الشَّامِ

جب شام کی طرف روانہ ہونے کا قصد کیا تو یہ کلمات فرمائے

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَّعْثَآءِ السَّفَرِ، وَ کَاٰبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَ سُوْٓءِ الْمَنْظَرِ فِی الْاَهْلِ وَ الْمَالِ. اَللّٰهُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ، وَ اَنْتَ الْخلِیْفَةُ فِی الْاَهْلِ، وَ لَا یَجْمَعُهُمَا غَیْرُکَ، لِاَنَّ الْمُسْتَخْلَفَ لَا یَکُوْنُ مُسْتَصْحَبًا، وَ الْمُسْتَصْحَبُ لَا یَکُوْنُ مُسْتَخْلَفًا.

اے اللہ! مَیں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ اور اہل و مال کی بدحالی کے منظر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! تو ہی سفر میں رفیق اور بال بچوں کا محافظ ہے۔ سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا، کیونکہ جسے پیچھے چھوڑا جائے وہ ساتھی نہیں ہو سکتا اور جسے ساتھ لیا جائے اسے پیچھے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

اَقُوْلُ: وَ ابْتِدَاءُ هٰذَا الْکَلَامِ مَرْوِیٌّ عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ قَدْ قَفَّاهُ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن ؑ بِاَبْلَغِ کَلَامٍ وَّ تَمَّمَهٗ بِاَحْسَنِ تَمَامٍ مِنْ قَوْلِهٖ: «وَ لَا یَجْمَعُهُمَا غَیْرُکَ» اِلٰی اٰخِرِ الْفَصْلِ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس کلام کا ابتدائی حصہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے آخر میں بلیغ ترین جملوں کا اضافہ فرما کر اسے نہایت احسن طریق سے مکمل کر دیا ہے اور وہ اضافہ ’’سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا‘‘ سے لے کر آخر کلام تک ہے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:38
عون نقوی