بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

وَ اتَّقُوا اللهَ عِبَادَ اللهِ، وَ بَادِرُوْا اٰجَالَکُمْ بِاَعْمَالِکُمْ، وَ ابْتَاعُوْا مَا یَبْقٰی لَکُمْ بِمَا یَزُوْلُ عَنْکُمْ، وَ تَرَحَّلُوْا فَقَدْ جُدَّ بِکُمْ، وَ اسْتَعِدُّوْا لِلْمَوْتِ فَقَدْ اَظَلَّکُمْ، وَ کُوْنُوْا قَوْمًا صِیْحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوْا، وَ عَلِمُوْا اَنَّ الدُّنْیَا لَیْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوْا، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَخْلُقْکُمْ عَبَثًا، وَ لَمْ یَتْرُکْکُّمْ سُدًی، وَ مَا بَیْنَ اَحَدِکُمْ وَ بَیْنَ الْجَنَّةِ اَوِ النَّارِ اِلَّا الْمَوْتُ اَنْ یَّنْزِلَ بِهٖ.

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور موت سے پہلے اپنے اعمال کا ذخیرہ فراہم کر لو، اور دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔ چلنے کا سامان کرو کیونکہ تمہیں تیزی سے لے جایا جا رہا ہے اور موت کیلئے آمادہ ہو جاؤ کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ تمہیں ایسے لوگ ہونا چاہیے جنہیں پکارا گیا تو وہ جاگ اٹھے اور یہ جان لینے پر کہ دنیا ان کا گھر نہیں ہے، اسے (آخرت سے) بدل لیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ نے تمہیں بیکار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند چھوڑ دیا ہے۔ موت تمہاری راہ میں حائل ہے۔ اس کے آتے ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ ہے۔

وَ اِنَّ غَایَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ، وَ تَهْدِمُهَا السَّاعَةُ، لَجَدِیْرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ، وَ اِنَّ غَآئِبًا یَّحْدُوْهُ الْجَدِیْدَانِ: اللَّیْلُ وَ النَّهَارُ، لَحَرِیٌّۢ بِسُرْعَةِ الْاَوْبَةِ، وَ اِنَّ قَادِمًا یَّقْدَمُ بِالفَوْزِ اَوِ الشِّقْوَةِ لَمُسْتَحِقٌّ لِّاَفْضَلِ الْعُدَّةِ، فَتَزَوَّدُوْا فِی الدُّنْیَا مِنَ الدُّنْیَا، مَا تُحْرِزُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَکُمْ غَدًا. فَاتَّقٰی عَبْدٌ رَبَّهٗ، وَ نَصَحَ نَفْسَهٗ، وَ قَدَّمَ تَوْبَتَهٗ، وَ غَلَبَ شَهْوَتَهٗ، فَاِنَّ اَجَلَهٗ مَسْتُوْرٌ عَنْهُ، وَ اَمَلَهٗ خَادِعٌ لَّهٗ، وَ الشَّیْطٰنُ مُوَکَّلٌۢ بِهٖ، یُزَیِّنُ لَهُ الْمَعْصِیَةَ لِیَرْکَبَهَا، وَ یُمَنِّیْهِ التَّوْبَةَ لِیُسَوِّفَهَا، حَتّٰی تَهْجُمَ مَنِیَّتُهٗ عَلَیْهِ اَغْفَلَ مَا یَکُوْنُ عَنْهَا.

وہ مدتِ حیات جسے ہر گزرنے والا لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو ڈھا رہی ہو، کم ہی سمجھی جانے کے لائق ہے اور وہ مسافر جسے ہر نیا دن اور ہر نئی رات (لگاتار) کھینچے لئے جا رہے ہوں، اس کا منزل تک پہنچنا جلد ہی سمجھنا چاہیے اور وہ عازمِ سفر جس کے سامنے ہمیشہ کی کامرانی یا ناکامی کا سوال ہے، اس کو اچھے سے اچھا زاد مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا توشۂ آخرت لے لو جس کے ذریعہ کل اپنے نفسوں کو بچا سکو جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے اللہ سے ڈرے۔ اپنے نفس کے ساتھ خیرخواہی کرے، (مرنے سے پہلے) توبہ کرے اپنی خواہشوں پر قابو رکھے، چونکہ موت اس کی نگاہ سے اوجھل ہے اور امیدیں فریب دینے والی ہیں اور شیطان اس پر چھایا ہوا ہے، جو گناہوں کو سجا کر اس کے سامنے لاتا ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہو اور توبہ کی ڈھارس بندھاتا رہتا ہے کہ وہ اسے تعویق میں ڈالتا رہے۔ یہاں تک کہ موت غفلت و بیخبری کی حالت میں اس پر اچانک ٹوٹ پڑتی ہے۔

فَیَا لَهَا حَسْرَةً عَلٰی ذِیْ غَفْلَةٍ اَنْ یَّکُوْنَ عُمُرُهٗ عَلَیْهِ حُجَّةً، وَ اَنْ تُؤَدِّیَهٗ اَیَّامُهٗ اِلَی الشِّقْوَةِ! نَسْئَلُ اللهَ سُبْحَانَهٗ اَنْ یَّجْعَلَنَا وَ اِیَّاکُمْ مِمَّنْ لَّا تُبْطِرُهٗ نِعْمَةٌ، وَ لَا تُقَصِّرُ بِهٖ عَنْ طَاعَةِ رَبِّهٖ غَایَةٌ، وَ لَا تَحُلُّ بِهٖ بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ وَّ لَا کَاٰبَةٌ.

وا حسرتا! کہ اس غافل و بے خبر کی مدت حیات ہی اس کے خلاف ایک حجت بن جائے اور اس کی زندگی کا انجام بد بختی کی صورت میں ہو۔ ہم اللہ سُبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسا کر دے کہ (دنیا کی) نعمتیں سرکش و متمرد نہ بنا سکیں اور کسی منزل پر اطاعت ِپروردگار سے درماندہ و عاجز نہ ہوں اور مرنے کے بعد نہ شرمساری اٹھانا پڑے اور نہ رنج و غم سہنا پڑے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:11
عون نقوی

اَلَا وَ اِنَّ الدُّنْیَا دَارٌ لَّا یُسْلَمُ مِنْهَا اِلَّا فِیْهَا، وَ لَا یُنْجٰى بِشَیْ‏ءٍ کَانَ لَهَا. ابْتُلِیَ النَّاسُ بِهَا فِتْنَةً، فَمَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لَهَا اُخْرِجُوْا مِنْهُ وَ حُوسِبُوْا عَلَیْهِ، وَ مَاۤ اَخَذُوْهُ مِنْهَا لِغَیْرِهَا قَدِمُوْا عَلَیْهِ وَ اَقَامُوْا فِیْهِ، فَاِنَّهَا عِنْدَ ذَوِی الْعُقُوْلِ کَفَیْ‏ءِ الظِّلِّ،بَیْنَا تَرَاهُ سَابِغًا حَتّٰى قَلَصَ، وَ زَآئِدًا حَتّٰى نَقَصَ‏.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا ایسا گھر ہے کہ اس (کے عواقب) سے بچاؤ کا ساز و سامان اسی میں رہ کر کیا جا سکتا ہے اور کسی ایسے کام سے جو صرف اسی دنیا کی خاطر کیا جائے نجات نہیں مل سکتی۔ لوگ اس دنیا میں آزمائش میں ڈالے گئے ہیں۔ لوگوں نے اس دنیا سے جو دنیا کیلئے حاصل کیا ہو گا اس سے الگ کر دئیے جائیں گے اور اس پر ان سے حساب لیا جائے گا اور جو اس دنیا سے آخرت کیلئے کمایا ہو گا اسے آگے پہنچ کر پا لیں گے اور اسی میں رہیں سہیں گے۔ دنیا عقلمندوں کے نزدیک ایک بڑھتا ہوا سایہ ہے، جسے ابھی بڑھا ہوا اور پھیلا ہوا دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھٹ کر اور سمٹ کر رہ گیا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:07
عون نقوی

لَمَّا خُوِّفَ مِنَ الْغِیْلَةِ

جب آپؑ کو اچانک قتل کئے جانے سے خوف دلایا گیا تو آپؑ نے فرمایا

وَ اِنَّ عَلَیَّ مِنَ اللّٰهِ جُنَّةً حَصِیْنَةً فَاِذَا جَآءَ یَوْمِی انْفَرَجَتْ عَنِّیْ وَ اَسْلَمَتْنِیْ، فَحِیْنَئِذٍ لَّا یَطِیْشُ السَّهْمُ وَ لَا یَبْرَاُ الْکَلْمُ‏.

مجھ پر اللہ کی ایک محکم سپر ہے۔ جب موت کا دن آئے گا تو وہ مجھے موت کے حوالے کر کے مجھ سے الگ ہو جائے گی۔ اس وقت نہ تیر خطا کرے گا اور نہ زخم بھر سکے گا۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 January 23 ، 15:05
عون نقوی

لَمَّا عَزَمَ عَلٰى حَرْبِ الْخَوَارِجِ وَ قِیْلَ لَهٗ: اِنَّهُمْ قَدْ عَبَرُوْا جِسْرَ النَّهْرَوَانِ:

جب آپؑ نے خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؑ سے کہا گیا کہ: وہ نہر وان کا پل عبور کر کے ادھر جا چکے ہیں، تو آپؑ نے فرمایا:

مَصَارِعُهُمْ دُوْنَ النُّطْفَةِ، وَاللهِ! لَا یُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ، وَ لَا یَهْلِکُ مِنْکُمْ عَشَرَةٌ.

ان کے گرنے کی جگہ تو پانی کے اسی طرف ہے۔ خدا کی قسم! ان میں سے دس بھی بچ کر نہ جا سکیں گے اور تم میں سے دس بھی ہلاک نہ ہوں گے۔

یَعْنِیْ بِالنُّطْفَةِ مَآءَ النَّهْرِ، وَ هِیَ اَفْصَحُ کِنَایَةٍ عَنِ الْمَآءِ وَ اِنْ کَانَ کَثِیْرًا جَمًّا۔

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس خطبہ میں ’’نطفہ‘‘ سے مراد نہر (فرات) کا پانی ہے اور پانی کیلئے یہ بہترین کنایہ ہے، چاہے پانی زیادہ بھی ہو۔

و لَمَّا قُتِلَ الْخَوَارِجُ فَقِیْلَ لَهٗ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! هَلَکَ الْقَوْمُ بِاَجْمَعِهِمْ، فَقَالَ ؑ:

جب خوارج مارے گئے تو آپؑ سے کہا گیا کہ: وہ لوگ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ آپؑ نے فرمایا:

کَلَّا وَاللّٰهِ! اِنَّهُمْ نُطَفٌ فِیْۤ اَصْلَابِ الرِّجَالِ وَ قَرَارَاتِ النِّسَآءِ، کُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتّٰى یَکُوْنَ اٰخِرُهُمْ لُصُوْصًا سَلَّابِیْنَ.

ہرگز نہیں! ابھی تو وہ مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں موجود ہیں جب بھی ان میں کوئی سردار ظاہر ہو گا تو اسے کاٹ کر رکھ دیا جائے گا، یہاں تک کہ ان کی آخری فردیں چور اور ڈاکو ہو کر رہ جائیں گی۔

وَ قَالَ ؑ فِیْھِمْ:‏

انہی خوارج کے متعلق فرمایا:

لَا تَقْتُلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِیْ، فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاَخْطَاَهُ کَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَدْرَکَهٗ‏.

میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا! اس لئے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پا سکے وہ ویسا نہیں ہے کہ جو باطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اُسے پا بھی لے۔

یَعْنِیْ مُعَاوِیَةَ وَ اَصْحَابَهٗ‏.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس سے مراد معاویہ اور اس کے ساتھی ہیں۔


اس پیشین گوئی کو فراست و ثاقب نظری کا نتیجہ نہیں قرار دیا جا سکتا، کیونکہ دور رس نظریں فتح و شکست کا اندازہ تو لگا سکتی ہیں اور جنگ کے نتائج کو بھانپ لے جا سکتی ہیں، لیکن دونوں فریق کے مقتولین کی صحیح صحیح تعداد سے آگاہ کر دینا ان کی حدودِ پرواز سے باہر ہے۔ یہ اسی کی باطن بین نگاہیں حکم لگا سکتی ہیں کہ جو غیب کے پردے الٹ کر آنے والے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور علمِ امامت کی چھوٹ مستقبل کے صفحہ پر ابھرنے والے نقوش اس کو دکھا رہی ہو۔ چنانچہ اس وارث علم نبوت نے جو فرمایا تھا وہی ہوا اور خوارج میں سے نو آدمیوں کے علاوہ سب کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن میں سے دو عمان کی طرف، دو سجستان کی طرف، دو کرمان کی طرف اور دو جزیرہ کی طرف بھاگ گئے اور ایک یمن میں تل مورون چلا آیا۔ اور آپؑ کی جماعت میں سے صرف آٹھ آدمی شہید ہوئے جن کے نام یہ ہیں: روبہ ابن وبر بجلی، سعید ابن خالد سبیعی، عبد اللہ ابن حماد اجنی، فیاض ابن خلیل ازدی، کیسوم ابن سلمہ جہنی، عبید ابن عبید خولانی، جمیع ابن جعثم کندی، حبیب ابن عاصم اسدی۔
امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی بھی حرف بحرف پوری ہوئی اور خوارج میں جو سردار بھی اٹھا تلواروں پر دھر لیا گیا۔ چنانچہ ان کے چند سرداروں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جو بری طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے:
نافع ابن ازرق:
خوارج کا سب سے بڑا گروہ ’’ازارقہ‘‘ اسی کی طرف منسوب ہے۔ یہ مسلم ابن عبیس کے لشکر کے مقابلہ میں سلامہ باہلی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
نجدہ ابن عامر:
خوارج کا فرقہ ’’نجدات‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ ابو فدیک خارجی نے اسے قتل کروا دیا۔
عبداللہ ابنِ اباض:
فرقہ ’’اباضیہ‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ یہ عبد اللہ ابن محمد ابن عطیہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
ابو بہیس ہیصم ابن جابر:
فرقہ ’’بیہسیہ‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ عثمان ابنِ جبان والی مدینہ نے پہلے اس کے ہاتھ پیر کٹوائے اور پھر اسے قتل کر دیا۔
عروہ ابن اُوّیہ:
معاویہ کے عہد حکومت میں زیاد نے اسے قتل کیا۔
قطری ابن فجاءة:
طبرستان کے علاقہ میں جب سفیان ابن ابرو کی فوج کا اس کے لشکر سے ٹکراؤ ہوا تو سورہ ابن ابجر دارمی نے اسے قتل کیا۔
شوذب خارجی:
سعید ابن عمرو حرشی کے مقابلہ میں مارا گیا۔
حوثرہ ابن وداع اسدی:
بنی طے کے ایک شخص کے ہاتھ سے قتل ہوا۔
مستورد ابن عرفہ:
معاویہ کے عہد میں مغفل ابنِ قیس کے ہاتھ سے مارا گیا۔
شبیب ابن یزید خارجی:
دریا میں ڈوب کر مرا۔
عمران ابن حرب سراسبی:
جنگ دولاب میں مارا گیا۔
زحاف ابن طائی:
بنو طاحیہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
زبیر ابنِ علی سلیطی:
عتاب ابنِ ورقاء کے مقابلہ میں مارا گیا۔
علی ابن بشیر:
اسے حجاج نے قتل کروایا۔
عبیداللہ ابنِ بشیر:
مہلب ابن ابی صفرہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
عبداللہ ابن الماحوز:
جنگ دولاب میں مارا گیا۔
عبید اللہ ابن الماحوز:
عتاب ابن ورقاء کے مقابلہ میں مارا گیا۔
ابو الوازع:
مقبرہ بنی یشکر میں ایک شخص نے اس پر دیوار گرا کر اسے ختم کر دیا۔
عبید اللہ ابن یحییٰ کندی:
مروان ابن محمد کے عہد میں ابن عطیہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔
قتل خوارج سے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آپؑ کے بعد تسلط و اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا جو جہاد کے موقعہ و محل سے بے خبر ہوں گے اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے تلوار چلائیں گے اور یہ وہی لوگ تھے کہ جو امیر المومنین علیہ السلام کو برا سمجھنے اور بُرا کہنے میں خوارج سے بھی بڑھے چڑھے ہوئے تھے، لہٰذا جو خود گم کردہ راہ ہوں انہیں دوسرے گمراہوں سے جنگ و قتال کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ جان بوجھ کر گمراہیوں میں پڑے رہنے والے اس کے مجاز ہو سکتے ہیں کہ بھولے سے بے راہ ہو جانے والوں کے خلاف صف آرائی کریں۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد واضح طور سے اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ خوارج کی گمراہی جان بوجھ کر نہ تھی، بلکہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر باطل کو حق سمجھنے لگے اور اسی پر اَڑ گئے اور معاویہ اور اس کی جماعت کی گمراہی کی یہ صورت تھی کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر ٹھکرایا اور باطل کو باطل سمجھ کر اپنا شعار بنائے رکھا اور دین کے معاملہ میں ان کی بیباکیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ نہ انہیں غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ان پر خطائے اجتہادی کا پردہ ڈالا جا سکتا ہے۔ جب کہ وہ علانیہ دین کے حدود کو توڑ دیتے تھے اور اپنی رائے کے سامنے پیغمبر ﷺ کے ارشاد کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ:
پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو الدرداء نے معاویہ کے ہاں سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال دیکھا تو فرمایا کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: «اِنَّ الشَّارِبَ فِیْهِمَا لَیُجَرْجِرُ فِیْ جَوْفِهٖ نَارُ جَهَنَّمَ» : ’’چاندی اور سونے کے برتنوں میں پینے والے کے پیٹ میں دوزخ کی آگ کے لپکے اٹھیں گے‘‘۔ تو معاویہ نے کہا کہ: «اَمَّا اَنَا فَلَآ اَدْرِیْ بِذٰلِکَ بَاْسًا» : لیکن میری رائے میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
اور اسی طرح زیاد ابن ابیہ کو اپنے سے ملا لینے کیلئے قولِ پیغمبر ﷺ کو ٹھکرا کر اپنے اجتہاد کو کارفرما کرنا، منبر رسولؐ پر اہل بیت رسول علیہم السلام کو برا کہنا، حدودِ شرعیہ کو پامال کرنا، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا اور ایک فاسق کو مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر کے زندقہ و الحاد کی راہیں کھول دینا، ایسے واقعات ہیں کہ انہیں کسی غلط فہمی پر محمول کرنا حقائق سے عمداً چشم پوشی کرنا ہے۔

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۵، ص ۱۳۰۔
balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 19:01
عون نقوی

کَلَّمَ بِهِ الْخَوَارِجَ

آپؑ کا کلام خوارج کو مخاطب فرماتے ہوئے

اَصَابَکُمْ حَاصِبٌ، وَ لَا بَقِیَ مِنْکُمْ اٰبِرٌ، اَ بَعْدَ اِیْمَانِیْ بِاللهِ وَ جِهَادِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ اَشْهَدُ عَلٰی نَفْسِیْ بِالْکُفْرِ! لَـ﴿قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ۝﴾! فَاُوْبُوْا شَرَّ مَاٰبٍ، وَ ارْجِعُوْا عَلٰۤی اَثَرِ الْاَعْقَابِ، اَمَا اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ ذُلًّا شَامِلًا، وَ سَیْفًا قَاطِعًا، وَ اَثَرَةً یَّتَّخِذُهَا الظَّالِمُوْنَ فِیْکُمْ سُنَّةً.

تم پر سخت آندھیاں آئیں اور تم میں کوئی اصلاح کرنے والا باقی نہ رہے! کیا میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کرنے کے بعد اپنے اوپر کفر کی گواہی دے سکتا ہوں؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا۔ تم اپنے (پرانے) بدترین ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی ایڑیوں کے نشانوں پر پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ۔ یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلّت اور کاٹنے والی تلوار سے دو چار ہونا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں۔


تاریخ شاہد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد خوارج کو ہر طرح کی ذلتوں اور خواریوں سے دو چار ہونا پڑا اور جب بھی انہوں نے فتنہ انگیزی کیلئے سر اٹھایا تو تلواروں اور نیزوں پر دھر لئے گئے۔ چنانچہ زیاد ابن ابیہ، عبید اللہ ابن زیاد، مصعب ابنِ زبیر، حجاج ابنِ یوسف اور مہلب ابن ابی صفرہ نے انہیں صفحہ ہستی سے نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خصوصاً مہلب نے انیس برس تک ان کا مقابلہ کر کے ان کے سارے دم خم نکال دیئے اور ان کی تباہی و بربادی کو تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیا۔

طبری نے لکھا ہے کہ مقامِ ’’سلی سلبری‘‘ میں جب دس ہزار خوارج جنگ و قتال کیلئے سمٹ کر جمع ہو گئے تو مہلب نے اس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ سات ہزار خارجیوں کو تهِ تیغ کر دیا اور بقیہ تین ہزار کرمان کی طرف بھاگ کر جان بچا سکے، لیکن والی فارس عبید اللہ ابنِ عمر نے جب ان کی شورش انگیزیاں دیکھیں تو مقامِ سابور میں انہیں گھیر لیا اور ان میں کافی تعداد وہیں پر ختم کر دی اور جو بچے کھچے رہ گئے، وہ پھر اصفہان و کرمان کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے وہاں سے پھر جتھا بنا کر بصرہ کی راہ سے کوفہ کی طرف بڑھے تو حارث ابن ابی ربیعہ اور عبد الرحمٰن ابن مخنف چھ ہزار جنگ آزماؤں کو لے کر ان کا راستہ روکنے کیلئے کھڑے ہو گئے اور عراق کی سرحد سے انہیں نکال باہر کیا۔ یوں ہی تابڑ توڑ حملوں نے ان کی عسکری قوتوں کو پامال کر کے رکھ دیا اور آبادیوں سے نکال کر صحراؤں اور جنگلوں میں خاک چھاننے پر مجبور کر دیا اور بعد میں بھی جب کبھی جتھا بنا کر اٹھے تو کچل کر رکھ دیئے گئے۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 18:55
عون نقوی