بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

حالات حاضرہ

16 دسمبرکی مناسبت

حالات ومناسبات میں مختلف موضوعات ہیں جن میں پہلی مناسبت گزشتہ روز 16دسمبر ہے پاکستان اور پاکستانی قو م کے لیے بہت ہی تکلیف دہ مناسبت ہے ھر چند پاکستانی بھول گئے ہیں اور یہ زخم مندمل ہو گیا ہے اور اب اس کے اخباری تذکرے رہ گئے ہیں لیکن عملی طور پر  اس کو سب فراموش کر چکے ہیں اور وہ ھے 16 دسمبر یہ پاکستان کے ٹوٹنے کا دن ھےپاکستان مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان تھااود مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش بن گیاوقت کے حکمرانوں کی خیانت اور اقتدار پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا اور ساتھ ھی بھارت جیسے دشمن نے بھی اسمیں اہم کردار ادا کیا اور بھت خفت  کے ساتھ پاکستانی فوج کو شکست ھوئی اور بنگلہ دیش کے نام سے نیا ملک دنیا میں بن گیایہ واقعہ بہت تلخ ترین واقعہ ھے پاکستان کی پوری تاریخ میں اتنا درد ناک دن کوئی اور نہیں ہے۔ غلطیوں سے خیانتوں سے یہ ملک ٹوٹااور اس کے بعد بھی وہ غلطیاں اور خیانتیں ابھی تک جاری ہیں۔ ابھی موجودہ نسل نئی نسل شاید یہ بھی نھیں جانتی کہ بنگلہ دیش پاکستان تھا 40/45 سال پہلے تک یہ متفقہ پاکستان ,مشترکہ پاکستان٫ متحدہ پاکستان تھا جغرافیائی طور پر بیچ میں سمندر اور بھارت حائل ہو جاتے ہیں وہ بھارت کے اس طرف اور پاکستان بھارت کے اس طرف ھے فاصلہ درمیان میں آجاتا ھے لیکن حکمران صرف  اقتدار کی ہوس میں مست گونگے بہرے ہوچکے تھے انھوں نے غلطیاں کی حقائق چھپانے کی کوششیں کیں اور معروف نعرہ اس وقت کے حکمرانوں نے یہ لگایا کہ *ادھرتم ادھر ہم* پاکستان کے سب سے بڑے سیاستدان کا نعرہ تھا اخباروں میں سرخی لگا دی  کہ ادھر تم ادھر ہم  یعنی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی قیادت کا آپس میں اختلاف ہوا اور اختلاف کو حل کرنے کے بجائے دونوں کے اندر جو اقتدار کی شدید خواہش تھی اوریہ خواھش اتنی تھی  کےکسی قیمت پر بھی اقتدار میں آنا چاہتے تھے کہ بے شک ملک بک جائے اور ایسا ہی ہوا  اور ملک توڑ کراقتدار تک پہنچے دونوں طرف مشرقی پاکستان کے حکمران بھی اقتدار پر ملک توڑ کر پہنچے اور مغربی پاکستان کے اقتدار پرست بھی ملک توڑ کر اقتدار تک پہنچے اور بھٹو جو پیپلز پارٹی کے بانی ،رہنما اور پاکستان کے بہت بڑے ہیروھے یہ ان کاشعار تھا *ادھر تم ادھرہم* ادھر تم حکومت کرو ادھر ہم حکومت کرتے ہیں اور ملک دو لخت کر دیا گیا جس میں اس وقت کے فوجی جرنیل کی بڑی خیانت شامل تھی جو مرکزی کمانڈ تھی اور جو مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈ تھی اس کی بھی خیانت اس کے اندر شامل ہیں اور اس میں بنگالی عوام پر بہت ظلم ڈھایا گیاجو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں جو بنگلا بولنے والے لوگ تھے ان پر بہت ظلم ڈھایا گیاان سے بنیادی حقوق چھین لیے گئے جس کی وجہ سے ان کے اندر بغاوت پیدا ہوئیں اور وہی غلطی آج پھر دھرا رھے ھیں وھی اقتدار پرست حکمران آج بھی پاکستان پر مسلط ھیں اج بھی اقتدار کی ہوس میں اندھے لوگ اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے والے لوگ موجود ہیں اور وہ اپنے اقتدار کی قیمت پرملک ہی تباہ کرنا چاہتے ہےاور کر دیا ہے اس قدر شدید ہوس ھے کہ اپنے عوام کی مدد سے عوام پر ظلم کر کے  عوام کے حقوق سلب کرکے پھر عوام ہی کے ووٹ سے یہ ہوس پرست اقتدار تک پہنچ کر ملک کو بھی نقصان پہنچا دیتے ھیں یہ بہت دردناک واقعہ ھے ان دنوں اس کی تحقیق کروائی گئی اور تحقیق کرنے کے بعد رپورٹ بھی ترتیب دی گئی  تھی لیکن اس رپورٹ کو دبا دیا گیا کیونکہ اسمیں سارے مجرموں کے نام تھے کہ کس نے خیانت کی اور کسکی خیانت کے نتیجے میں ملک ٹوٹا اس کو دبا دیا گیا آج تک رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور جو جو شامل تھے وہ سب انکے علم میں ہیں لیکن انہیں سامنے نہیں لے کر آرہے ہیں اس واقعے کو عبرت کے طور پر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہیں دن پھر پاکستانیوں کو دیکھنے کو ملے۔

معیشییت کی تباہی

پاکستان کے موجودہ حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں معیشت کی تباہی ہےملک پر مسلط لوگ اقتدار کے نشے میں اندھے لوگ اقتدار کی ہوس میں مبتلا لوگ اقتدار میں آنے کے بعد بھی جن کی یہ ہوس ختم نہیں ہوتی جیسے ہوس شہوت رانی میں شھوت ران انسان کی شھوت کی   آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی بلکہ اور بڑھتی ہے اسی طرح  اقتدار میں آنے کے بعد بھی اقتدار پرستی کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی بلکہ مزید شعلہ ور ہو جاتی ہے اور اقتدار کی قیمت ملک کی تباہی، مملکت کی بربادی، ہے پنجاب کے گورنر نےانگلینڈ میں جا کر ایک انٹرویو دیا کہ 6 ارب ڈالر کے بدلے میں پاکستان پورا لکھ کر آئی ایم ایف کو دے دیا گیا ہے لیکن وہ کیا لکھ کےدیا ہے وہ منظر عام پر نھیں آیا میڈیا تک کوئی خبر نھیں پھنچی  جبکہ یھاں جمہوری نظام ھے اور پارلیمنٹ کو سینیٹ کو کسی چیز کی کوئی خبر نہیں ہے وہ اس طرح سے معاہدہ کر کے قرض لے لیا گیاہے۔

پاکستان کے چیئرمین شبر زیدی کاخطاب:

گزشتہ روز پاکستان کے سابقہ ادارہ مالیات کے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے نشاندہی کی (انھوں نے اپنی زمہ داری کے دوران بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی اور سختیاں بھی ملک میں جو ہے اس میں ان کا بڑا دخل ہے ٹیکس بڑھانے میں، شدت میں، سختیاں کرنے میں ان کا بہت عمل دخل رہا ہے) انہوں نے یونیورسٹی میں تقریرکرتے ہوئے ایک بات کی ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں ایک طرح سے زلزلہ آیا ہے لیکن نماز آیات کسی نے نہیں پڑھی کیونکہ یہ نماز آیات حکمرانوں پر لازم ہوتی ہے لیکن انہوں نے نہیں پڑھی وہ بات  یہ کر دی ہے جو پنجاب کے گورنر نے اس سے پہلے انگلینڈ میں جو بات کی تھی اس کی دوسری قسط گزشتہ روز سابقہ چیئرمین نے جاری کی اور انہوں نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ اعداد و شمار میں اگر دیکھیں تو پاکستان کے مملکت مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکی ھے یعنی  کہ پاکستانی حکومت کے پاس مملکت کے پاس ملک چلانے کے لئے مکمل طور پر پر پیسہ ختم ہوچکا ہے ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی تک نہیں ہیں بعد میں کہیں سے آ جائے گا ،ذرائع آمدن بھی ختم ہو چکے ہیں،بلکہ پاکستان کے اوپرقرضے ھیں پاکستان کے اوپر ضرورت سے زیادہ قرضے ہیں اور پاکستان اپنے قرض ادا کرنے کے قابل بھی نھیں ھے پہلے بھی نہیں تھا سود ادا کر رہا تھا حکومت مہنگائی بڑھا کر پٹرول کی رقم بڑھا کر سود ادا کررھی تھی  اب سود اداکرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
دیوالیہ کا مطلب مثلا:
 آپ نے کسی شخص سےقرض لیا رشتے دار، پڑوسی سے، کسی سے پانچ لاکھ روپیہ اور پھر اس نے یہ کہا کہ میں ماہانہ تجھے دس ہزار روپے ادا کروں گا۔  اور اب پانچ ہزار بھی نہیں دے سکتا سود والی رقم بھی واپس نہیں دے سکتا قرضہ بھی واپس نہیں کر سکتا اب پاس گھر چلانے کا خرچہ بھی موجود نہیں ہے وہ شخص گھر کا سربراہ ھے، اور اس کی جو ملازمت تھی وہ ملازمت بھی اب ختم ہوگئی ہے پھر مزدوری کرتا تھا مزدوری ختم ہوگی جو گھر کے ضروریات ھیں وہ بھی پورے نہیں کر سکتا اپنی ضروریات بھی نہیں  پورے کرسکتا جو دوسروں کے دینے ہیں وہ بھی یہ واپس نہیں کر سکتا اس حال میں پہنچے ہوئے کو کہتے ہیں "دیوالیہ "جس کے پاس جومال پڑا ہوا ہے وہ اس نے بیچ دیا نیا مال خریدنے کی استطاعت نہیں ہے قسط ادا کرنے کے قابل نہیں ہے اور  بجلی کے بل دینے کے قابل نہیں اپنے گھر کا خرچہ بچوں کی فیس دینے کے قابل نہیں ہیں یہ دیوالیہ ہو گیا ہے ۔
 یہ عام لوگ یہ بات نہیں کر سکتے اور مخالفین نے یہ بات نہیں کی بلکہ حکومت کے سابقہ چیئرمین نے یہ بات کی ہے جو رگ حیات ادارہ مالیات کے سابقہ چیئرمین ھے انھوں نے یہ بات کی ہے اور اس کے علاوہ یہ بات  کوئی کر بھی نھیں سکتا تھا جو انہوں نے کر دی اب انکے بھی گلے پڑ گئی یے اور یہ بھی بات کر کے پھنس گئے انہوں نے بات تو کر دی پر پانچ گھنٹے کے اندر اندر اپنی بات واپس لے لی میڈیا کو کہا کہ میری بات کو غلط نوٹ کیا گیا ہے جبکہ  کے وہ ویڈیو موجود ہے۔ جسمیں صاف اس طرح کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم اکاؤنٹس کو دیکھ لیں اگر اعداد و شمار کو دیکھیں پاکستان کے تو پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔ ابھی کہہ رہے ہیں کہ میں کچھ اور کہنا چاہتا تھامیری بات کو غلط پیش کیا گیا ہے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے اب ایسا کہہ رہے ھیں جبکہ وہ حقیقت ہے۔ ہربندہ جو تھوڑا بہت آگاھی رکھتا ھے  معاشی نظام سے اس کو پتہ ہے کہ یہ ہو چکا ہے یہ ملک محض قرضوں سے چل رہا ہے اور قرضوں کے بدلے میں قرضوں کی قسط ادا کرنے کی بجائے قرضوں کا سود ادا کرنے کی بجائے ملکی اثاثے دیے جا رہے ہیں ملکی اثاثے دوسروں کے عالمی اداروں کے حوالے کیے جارھے ھیں ملک دیوالیاں ہو جائےاس سے کیا فرق پڑے گافرق پڑے گا  ابھی اس کا اعلان کرنا ہے اگر اس بات کا عالمی اداروں کے نزدیک تصدیق ہو جائے کہ مملکت دیوالیہ ھوچکی ہے وہ تمام اپنے قرضوں کے بدلے میں اور وہ قرضے اتنے ہیں پاکستان کے اوپر کے اگر پاکستان پورا پاکستان قوم سمیت کئی دفعہ فروخت کیا جائے پھر بھی وہ قرضے نہیں اترتے جو قرضےپاکستان کے اوپر چڑھے ہوئے ہیں جتنا قرضہ گزشتہ ستر  سالوں میں لیے گئے تھے اتنےقرضے اس حکومت نے بھی ملک چلانے کے لئےلیے ہیں بڑی بڑی صنعت بند ہو رہی ہیں کیونکہ جو چیز پاکستان میں بنائی جائے وہ بہت مھنگی پڑتی ھے۔
مثلاً یہ سردیوں کے  کپڑے اگر پاکستان میں کپڑا بنا کر کوٹ بنا کے بیچا جائے تو بہت مہنگا پڑتا ہے  اگر اس کی مکمل قیمت منافع سمیت پاکستانیوں سے لی جائے تو کوئی پاکستانی خرید نہیں سکتااور اگر سستی قیمت میں بیچا جائے تو نقصان ھوگا اسلیے سب چائنا سےلا کر بیچتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی صنعت بندھورہی ہے مہنگائی کی وجہ سے جو صنعت ڈوب رہی ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں گیس ختم ہوگئی ہے سردیوں میں ابھی گیس بند ھے پورے پاکستان میں سلنڈر والی گیس بھی بھت مھنگی مل رھی ھےملک کے اندر اپنی  سوئی گیس یہ شہروں میں نہیں مل رہی اور وزیر توانائی نے اعلان کیا ہے کہ 
" پاکستانیوں گیس ختم ہوگئی ھے پاکستانیوں نے دھمال نہیں ڈالی اور وزیر اعظم صاحب نے اپنے بیان میں کھا تھا کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اب انھوں نے تھوڑی سی چوٹ دی ھے اور کہا کہ ایشیا کا سب سے سستا ترین ملک ہے یہ خبر ٹھیک  نہیں ہے کہ  گیس ختم ہو گئی ہے یعنی زمین کے نیچے گیس ختم ہوگئی ہے اب نہیں آئے گی لیکن ایسے نہیں ہیں یہ کسی تحقیق کا نتیجہ نہیں ہے کسی ادارے کا اعلان نہیں ہے جو پاکستان کے معدنیات کا ادارہ ھے انکا اعلان نہیں ہے وزیر توانائی نے کھا ھےجب گیس نہیں پہنچا رہے ہیں تو اعلان کردیا کہ گیس ختم ہوگئی ھے پھلے کھا کہ ناشتے کے لیے دوپہر اور شام کو کھانے کے لیے گیس آئیگی لیکن وہ بھی نہیں آئی ھوٹل والوں نے بھی رقم بڑھا دی ہے اب انھوں نے جان چھڑانے کے لیے کھا کہ گیس ختم ہوگئی ہے یہ درحقیقت ناتوانی ہے لیکن اس کے باوجود اقتدار کی ہوس کم نہیں ہو رہی ہے اور بڑھ رہی ہےاگر نھیں چلا سکتے تو چھوڑ دو حکومت کسی اور کے حوالے کردو اگر  کوئی بھی نھیں ھے تو فوج کے حوالے کر دو فوجی اپنے انداز میں چلا لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طریقے ھوتے ھیں یہ آکر آئین ختم کر دیتےہیں ڈنڈے اٹھا لیتے ہیں اور یہ عوام ڈنڈے سے ٹھیک چلتی ہے ٹھیک کام کرتے ہیں اگر نہیں چلتی مملکت چھوڑ دینا چاہیے اس کو اب دیوالیہ سے  آگےایسی کونسی حالت ہے جہاں تک پہنچا کے حکومت نے دم لینا ھے عوام کا کیا بنے گا بھت خطرناک صورتحال ہے جو پاکستان کے لیے نشاندہی کی گئی ھے۔
اس کے علاوہ ملکی مسائل سے مربوط نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے ایک بہت اہم کام کیا ہے یا انھیں کرنا پڑا ہے لیکن اچھا کام کیا ہے
امریکہ میں گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس منعقد کی گئی ہے جمہوریت کے نام سے کہ دنیا میں جمہوریت خطرے میں ہے جمھوریت کا تحفظ کرنا ھے اگر آپ پوری دنیا میں سروے کرے تو نصف سے کم ممالک ہے دنیا میں جہاں نام نہاد جمہوریت نافذ ہے  امریکہ نے کانفرنس کا اہتمام کیا اور پاکستان کو دعوت بھی دی باقاعدہ کے اس اجلاس میں پاکستان شرکت کرے لیکن انہوں نے انکار کر دیا کہ ہم نہیں آئیں گے اس کے بعد کچھ عرصہ اس کے متعلق تبصرے ہوتے رھےلیکن یہ پاکستان کی طرف سے ایک بہت اہم قدم تھا کہ امریکہ کی بنائی ہوئی کانفرنس میں اور دعوت میں پاکستان نہیں گیا یہ کام کیوں ہوا؟؟ اگر یہ کام پاکستان کے وقار کو بڑھانے کے لیئے ہوتا بہت اعلی تھا کیونکہ امریکہ کا غلام بن کے رھنااور امریکہ کے کہنے پر پاکستان عمل کرے یہ پاکستان کی شان کے مطابق نہیں اگر ملکی اور قومی وقار کی خاطر یہ قدم اٹھایا جاتا تو یہ بے نظیر تھا لیکن ایسا نھیں ھوا اس کے بارے میں کیے گئے  دوسرے مفسرین کے تجزیات آپ کی خدمت میں ذکر کرتا ہوں۔
پھلا یہ کہ ہمارے وزیراعظم کو افغانستان کے سلسلے میں امریکہ نے اعتماد میں نھیں لیا جو بائیڈن نےصدر بننے کے بعد ابھی تک پاکستان سے رابطہ نہیں کیا بس پاکستان اور امریکہ کے تعلقات آپس میں بہت ٹھنڈے ہیں اور اس میں یہ کانفرنس ہوئی ہے تو پاکستان نے جانے سے انکار کردیا۔
 دوسرا یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے اسلیے جانے سے انکار کیا  چونکہ یہ کانفرنس چائنہ کے خلاف تھی امریکہ اور یورپ میں بوکھلاہٹ ہے چونکہ چائنا سپر طاقت بن گیا ہے اس لیے اس کی نیندیں حرام کر دی ہے کیوں حرام کردی؟ 
 ایک تو چائنا سپر طاقت بن چکا ہے لیکن ابھی اعلان نہیں کرتےلیکن یورپ نے تو پہلے ہی کہہ دیا کہ امریکہ سپر طاقت نہیں ہے چائنہ سپر طاقت ہے اور باقی ممالک بھی چائنا کے ساتھ روابط بڑھا رہے ہیں انہوں نے تسلیم کر لیا ہے عملی طور پر معاہدے کر کے یہ ثابت کردیی ہے کہ چائنا ہی دنیا کی سپرپاور ہے چائینہ نے اپنی ٹیکنالوجی کی طاقت بھی بڑھادی ہے اور فوجی طاقت بھی چائنہ نے بڑھا لی ہے اتنی بڑھا لی ھے کہ امریکہ کی طاقت سے چائنا کی فوجی طاقت کئی گناہ بڑھ گئی ہےاور چائنہ کے موجودہ صدر نے امریکہ کے اقتصادی نیو ورلڈ آرڈر کے مقابلے میں اپنا ایک نیا ون روڈ ون بیلٹ  میپ دیا ہے۔ 
اب امریکہ نے یورپ سے کھا ھے کہ آپ چائینہ کے متبادل کوئی معیشتی نظام بناکر دنیا کو پیش کریں لیکن یورپ کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ چائنا کا مقابلہ کر سکیں۔
تیسرا ہتھیار جوانہوں نے چائنا کے لیے استعمال کیا ہے وہ یہ کہ چائنا میں جمہوریت نہیں ہےسب سےبڑی پیچیدگی جواس وقت نظریاتی دنیا میں  موجودہ عالمی حالات میں اور اس سیاست میں جو پیدا ہوئی ہے۔ کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ترین ملک (کیونکہ چائنا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھی ہے لیکن اتنی آبادی ہونے کے باوجود چائنہ نے اپنے ملک سے مکمل طور پر غربت کو ختم کر دیا ہے ایسا کار نامہ اس ملک نے کیا ہے جس کے اندر جمہوریت نافذ نہیں ہے جس کے اندر کوئی صوبائی پارلیمنٹ کے الیکشن نہیں ہوتے انکی پارٹی ملک چلاتی ھےغیرجمہوری ملک نے ترقی میں سب سے اعلی مقام حاصل کر لیاہے غیر جمہوری ملک نے استحکام اپنے اندر پیدا کر لیا ھےغیر جمہوری ملک نے کرونا جیسی وباء پر مکمل کنٹرول پالیا ہے غیر جمہوری ملک نے پوری دنیا کی مارکیٹ اپنے قبضے میں لے لی ہے  غیر جمہوری ملک نے غربت کا خاتمہ کرلیا ہےیہ غیر معمولی اشارے ھیں اسوجہ سے یورپ اور امریکہ کا سرمایہ داری نظام ھل گیا ھے کہ تم جمھوریت کا ڈونگ رچا کر اپنے ملک کا حال دیکھو اور غیر جمھوری ملک کا حال دیکھو اب انھوں نے ایک پلاننگ یہ کی کہ سارے جمھوری ملک چائینہ کا بائیکاٹ کریں اور پاکستان کو پھلے ھی سگنل دیا تھا کہ اگر اب اس کانفرنس میں گئے تو آپ دشمن بن جائینگے۔
تیسرا تبصرہ یہ ہے کہ پاکستان اس کانفرنس میں بھارت کی وجہ سے نہیں گیاچونکہ امریکہ نے پاکستان کو نظر انداز کردیا ہے اور کوئی خیر خواھی کا ارادہ امریکہ کے اندر پاکستان کے لیے نظر نہیں آتا اور اسکے بجائے بھارت کو اہمیت دے رہا ہے اور تمام بنیادی معاہدے امریکہ کے بھارت کے ساتھ ہیں اور بھارت پاکستان کا دشمن ہے  اسوجہ سے کانفرنس میں شرکت نھیں کی۔
یہ تین چار تبصرے موجود ھیں اور سارے ھی جاندار ھیں لیکن پاکستان نے یہ ایک اہم قدم اٹھایاہے۔ 
بعضوں کایہ کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پہلے ہی خراب تھے پاکستان نے شرکت نہ کر کے امریکہ کو مزید بڑھکا دیا ہےاب وہ مزید انتقامی کاروائیاں کرینگے۔

افغانستان کا مسئلہ

جس طرح امریکہ نے ایک شیطنت کی اور پورے افغانستان کا انخلاء کیاافغانستان کی حکومت ختم کردی بنی ہوئی فوج ختم کر دی پولیس ختم کر دی ایک ہفتے کے اندر اندر ملک کا انخلاء کر کے مملکت طالبان کے حوالے کرکے طالبان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور انھیں تسلیم نہیں کیا پاکستان جو کہ طالبان کا سب سے بڑا حامی ہے انہوں نے بھی طالبان کی حکومت کو رسمی طور پر قبول نہیں۔ کیوں کہ امریکہ نے قانون پاس کیا ہوا ہے کہ طالبان اور طالبان کے حامی جو بھی ہوں گے انہیں سزا دی جائے گی یہ بھی امریکی انخلاء کے بعدامریکی سینٹ کے اندر یہ قانون پاس ھوا ھے اور طالبان کے حامی وہ صرف پاکستان کو ہی سمجھتے ہیں ادھر پاکستان میں مسلسل روزانہ ھمارے تین بڑے بزرگ صدر ،وزیراعظم،آرمی چیف روزانہ بیان دیتے ھیں کہ دنیاافغانستان میں طالبان کی حکومت کو قبول کرے افغانستان کی مدد کریں افغانستان میں بحران پیدا ہونے والا ہے بہت بڑا المیہ جنم لینے والا ھے تواتر کے ساتھ یہ بیان دے رھے ھیں 
واقعی ایسا ھے افغانستان بھت بری حالت میں ھے کسی ملک کے ساتھ تجارت نہیں ہو رہی ہیں کچھ بھی نہیں ہے تنخواھیں نہیں ہیں صرف اقتدار ہے اور طالبان ہیں پیسے کسی کے پاس نہیں ہے مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے مدد کوئی نہیں دے رہا کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔انکو اپنے حال پر چھوڑ دیا ھے ظاھر ھے ایسے میں لوگوں کا کیا بنے گا طالبان کو تو مدد ملتی رہے گی لیکن عوام کیا کریگی بھت بڑا بحران پیدا ہوچکا ھے دنیا کہہ رہی ھے کہ طالبان دنیا کی شرائط مانے۔ طالبان کے وزیر خارجہ نے امریکہ سے کھا ھے کہ تم بھت عظیم ملت ھو اب اپنی بزرگی کی خاطر ھماری مدد کرو اس طرح دیگر ممالک میں وفد بھی جارھے ھیں لیکن کوئی مدد نھیں کررھا سب نے پاکستان پر ڈالا ہے کہ طالبان پاکستان لے کر آیا ہیں  لہذا پاکستان ھی سنبھالے پاکستان جو خود دیوالیہ ہوگیا ہے وہ کیا سنبھالے گا یہ بھی ایک پاکستان کے مصائب میں سے ایک مصیبت ھے جب اپنی مملکت کا یہ حال ہے تو وہ بوجھ کیسے اٹھائیں گے؟

بھارت میں مسلمانوں پر اعصابی دباؤ

بھارت میں کچھ مسلمان دشمنی میں اضافی ھواھے جو مسجد گرائی اسی طرح ایک اور مسجد گرانے کا ارادہ ھے بعض علاقوں میں نماز جمعہ پڑھنے پر پابندی لگادی ھے ایک اور کام جو ھوا ھے کہ بعض نام نہاد مسلمان جو کسی طرح سے مسلمان نھیں ھے لیکن مسلمان کے گھر میں پیدا ھوئے ھیں عملا کوئی مذھب نھیں ھے یہ بے دین لوگ اپنا دین بدل رھے ھیں ان معروف لوگوں کا روزانہ چرچا ھوتا ھے یہ مسلمانوں کو اعصابی دباؤ میں رکھنے کے لیے ھے تاکہ یہ شک کریں کہ ھمارا مذھب درست نھیں ھے یہ بے دین لوگ ھیں یہ فقط ایک اعصابی جنگ ھے مثلا شیعوں کو اعصابی مشکل میں ڈالنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ اتنےشیعہ وہابی ہو گئے جبکہ شیعہ کچھ بھی ہو سکتا ہے وہابی نہیں ہو سکتا یہ صرف حوصلہ شکنی کے لیے کیا جارھا ھے مسلمان جوان خصوصا توجہ کریں ان حربوں میں نہ آئیں۔

اسرائیل کی ایران کو جنگ کی دھمکی

اسرائیل نے ایران کو جنگ کی دھمکی دی ہے باقاعدہ طور پر اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنی فوج کو جنگ کے لئے آمادگی کا حکم دیا ہے یہ گیدڑ کی طرح ھے جس طرح گیدڑبول کر شیر سے بھاگ جاتا ہے اگر اسرائیل کے اندر ہمت ہوتی تو حزب اللہ کو دھمکی دیتا یہ گستاخی اسکی زبان میں عربوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے امریکہ نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ پھلے یھودیوں کے حوالے کی پھر اسکا تحفظ کیا اور مسلمانوں کو ذلیل کروایا اسرائیلیوں کے ذریعے چھ جنگیں عربوں نے ملکر لڑی اور ساری جاری اور اپنی سرزمین بھی دے دی۔اب  امریکہ نے یہ کیا کہ پھلے عربوں کو خطرہ قرار دیا اسرائیل کے لیے اب انھیں ہی اسرائیل کے تحفظ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔عربوں نے پھلے اسرائیل کو تسلیم کیا ابھی  تمام تجارتی معاملے اسرائیل کے حوالے کردیے ھیں اب اسرائیل کا سارا خرچہ عرب پورا کرینگے اسوجہ سے اسرائیل بھت گستاخ ھوگیا ھے اب ایران کے اندر عربوں کی مدد سے کافی تباھی مچا چکا ھے کیونکہ عربوں کے ذھن میں یہ بات ڈال دی گئی ھے کہ ایران خطرہ ھے اب ایران نے ایٹمی معاہدہ کیا تھا بعد میں ٹرمپ نے اسے توڑ دیا اور ایران کے لیے ایک کام بھی نھیں کیا ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے مذاکرات کئے اور اپنی قوم کو یہ بتایا کہ معاہدہ ھوگیا ھے جسدن اعلان ھوگا ساری پابندیاں اٹھ جائیںگی لیکن انھوں نے پابندیاں نھیں اٹھائی انھوں نے احتجاج کیا تو انھوں نے دستاویز رکھدی کہ کھاں لکھا ھے پابندیاں اٹھیں گئیں، وھاں یہ لکھا تھا کہ پابندیاں مشروط ھے پچیس سال تک اوریہ وزیر خارجہ امریکہ کا پڑھا ھے اب اس نے اقرار کیا کہ معاھدےمیں پابندیاں مشروط تھی پر مجھے سمجھ نھیں ائی یہ کام ھوا ایران کو اپنے وزیر خارجہ نے زیادہ تباہ کیا ھے اتنا امریکہ اور یورپ نے خراب نھیں کیا یہ پوری لابی تھی یہ انھوں نے ملکر کیا یہ اکیلے وزیر خارجہ نے نھیں کیا حق تو یہ بنتا ھے کہ موجودہ حکومت انھیں سزا دیں امریکہ نے معاھدہ کیا اب صدر رئیسی دوبارہ زندہ کررھے ھیں اور اب ایران اس بات پہ ڈٹا ھے کہ پابندیاں اٹھائیں تب ایٹمی پلانٹ بند ھوگا اور امریکہ پھلے سے زیادہ خطرناک معاھدہ لایا ھے اور ایران نھیں مان رھا ایسےمیں ایران کو ڈرانے کے لیے اعلان جنگ کیا ھے تاکہ وہ امریکہ کی بات مان لیں اور سب خاموش ھے البتہ چین و روس مدد کا اعلان کرتے ھیں پر اپنے مفادات کے لیے امریکہ چین روس اور ایران کو دباؤ میں رکھے ھوا ھے اس سے یہ تینوں بھت قریب ھوگئے ھیں یہ فضا اب قائم ھورھی ھے اور اسرائیل اوباش کی طرح دھمکیاں دے رھا ھے اور وزیر بے غیرتی کی حدتک خاموشی ھے کوئی بیان بھی نھیں دے رھا امام خمینی پہلے فرماتے تھے کہ حکمران اقتدار کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں یہ بے ضمیر لوگ ہیں انھیں اپنا اقتدار عزیز ھے لیکن عوام نے اپنا ضمیر نھیں بیچا ھوتا وہ اٹھتے ھیں حق کی خاطر قیام کرتے ھیں ان سے بیزاری کا اظھارکرنا سبکا فریضہ ھے بعض اھل سنت علماء نے تجویز دی ھے کہ ھم احتجاج کرینگے لاھور میں بھی احتجاج ھوگا باقی لوگ بھی اپنے با ضمیر ھونے کا ثبوت دیں آج کشمیر و فلسطین پر خاموشی اختیار کی تو یہ حال ہوا اور یہ طے ھے کہ اگر یہ ایران پر حملہ کرے تو یہ رکے گا نھیں کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ھے اور یہ انھیں کھٹکتی ھے اگر ایران تک نہ روکا گیا تو آگے بھی جائیگا یہ دفاع ساری اسلامی سرزمینوں کا دفاع ھے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 December 21 ، 17:35
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ نادانستہ طور پر دین اور سیاست کی علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ یعنی وہ دین کو ویران گوشوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دیندار افراد صرف نصیحت و وعظ اور درس پر اکتفا کریں! نصیحت یہاں قدرت کے آگے کچھ نہیں کر سکتی۔ جو چیز سپر طاقتوں کو روک سکتی ہے، دھمکا سکتی ہے اور ظلم و فساد کا مقابلہ کر سکتی ہے، اسے اکھاڑ پھینک سکتی ہے یا ہلا سکتی ہے وہ الٰہی اور اسلامی طاقت ہے۔ یہ ایک سیاسی طاقت ہے جو اسلامی حکام کے اختیار میں ہے۔ امام زمان ارواحنا لہ الفداء، اقتدار اور قوت کے ساتھ، اپنے ایمان پر بھروسہ کرتے ہوۓ اور ان کے پیروکاروں اور دوستوں کے ایمان سے جو قدرت حاصل ہوگی اس کے ساتھ دنیا کے ستمکاروں کا گریبان پکڑیں گے اور ان کے محلوں کو ویران کریں گے۔(۱)

 

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 December 21 ، 21:28
عون نقوی

ہم نے جانا کہ انسان ایک محدود ذات ہے اور اس کی سب اوصاف بھی محدود ہیں۔ اس قاعدہ فلسفی سے ہم نے یہ نتیجہ لیا کہ انسان کی آزادی بھی نامحدود نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو محدود آزادی دی جا سکتی ہے۔ اس بات کو عقل و شرع بھی قبول کرتی ہے اور مغربی مکاتب فکر بھی اس کو قبول کرتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوگا کہ جب ہم نے مان لیا کہ انسان مطلق طور پر آزادی نہیں رکھتا اور اسے مقید کیا جانا چاہیے تو کون ہے وہ جو انسان کو مقید کرے اور اس کی آزادی کی حدود کو تعیین کرے؟ انسانی آزادی کو معین کرنے والا کون ہے؟ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں مثلا اعتقادی، حقوقی، معاشرتی اور دیگر اعتبار سے کون انسان کی حدود کو معین کرے؟ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ فقط خالق انسان ہی انسان کی حدود و قیود کو مشخص کر سکتا ہے۔

مغربی تفکر کے مطابق آزادی کی حدود

مغربی تفکر کے مطابق ہم خود انسان ہیں جو اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں اور اپنی آزادی کی حدود کو مشخص کر سکتے ہیں۔ کسی دوسری ذات کو ہماری آزادی کی حدود کو مشخص کرنے کا کوئی حق نہیں، کسی دین، اخلاقیات یا نبی ولی کو ہماری زندگی کے بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ لیکن اسلامی تفکر کے مطابق انسانی آزادی کی حدود کو خود انسان معین نہیں کر سکتا بلکہ وہ خالقِ انسان ہے کہ جس نے اسے حیات دی اور اس کی حد و ذات کو اول سے آخر تک جانتا ہے فقط وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرے۔ خداوند متعال کا قرآن کریم میں ارشاد فرمانا ہے:

انا کل شی خلقناہ بقدر.(۱)

’’ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔‘‘

وہ خدا جس نے انسان کو خلق کیا اور اس کے وجود، اور اس کی حدود کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے اس کی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔ 

مغربی تفکرِ آزادی پر اشکال

انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرنے کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کرنا کہ خود انسان ہی اپنے لیے آزادی کی حدود کو معین کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی ذات کو انسانی آزادی کے بارے میں نظر دینے کی ضرورت نہیں۔ اس تفکر سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا آپ انسانی وجود کی حقیقت کو سمجھ گئے ہیں جس کی حدود کو آپ محدود کرنے کا خود کو حق دے رہے ہیں؟ انسان کی ذات کیا ہے اس کی شروعات کیسے ہوئی اور اس کا اختتام کیا ہے؟ روحِ انسانی کیا ہے؟ حواس کیا ہیں اور کیسے کام کر رہے ہیں؟ انسان کی ضروریات کیا ہیں اور کن چیزوں سے اس کو اجتناب کی ضرورت ہے؟ عقل کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے۔ حتی انسان کا ظاہر بھی ابھی تک ہم درست طور پر درک نہیں کر سکے کجا یہ کہ اس کی حقیقت تک ہم پہنچ سکیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ ۳۰ یا ۴۰ سال کا پروگرام بنا کر انسان کو دے سکتے ہیں کل کیا ہوگا کیا آپ کو علم ہے؟ جب یہ سب آپ نہیں جانتے تو کیسے انسان کے بارے میں حکم لگا رہے ہیں؟ کہاں ہے آپ کی آیندہ نگری؟ اور کہاں کا آپ کا منصوبہ؟ یہ تو انسان کے ساتھ خیانت ہوئی نہ کہ اس کی خدمت۔

معلوم ہوا انسان ہرگز یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے لیے کوئی ایسی چیز قرار دے جس کا اسے علم نہیں۔ انسان کو کتنی آزادی چاہیے اور کتنی قید و بند، یہ صرف اس ذات کو علم ہے جو انسان کا خالق ہے۔ وہی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔

انسان اپنی آزادی کا مالک نہیں

اگر آزادی کا درست تصور ہمیں حاصل ہو جاۓ تو معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ خود اپنی آزادی کا مالک ہی نہیں۔ وہ تو صرف امانتدار ہے اس امانت کا۔ درست ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے منصوبے کے مطابق چلیں یا خود اپنے لیے منصوبہ بنائیں لیکن ساتھ میں ہدایت بھی دی ہے، فطرت بھی عطا کی ہے انبیاء کرام مبعوث کیے ہیں جن کا کام ہمیں بار بار یہ یاد دلانا ہے کہ اگر اپنی مرضی کی اور خدا کی راہ کے مقابل آ گئے تو اس کا نقصان خود تمہی کو ہے۔ بہرحال خدا نے ہدایت اور گمراہی کے راستے واضح کر دیے ہوۓ ہیں اب اگر کسی کا خود کی جی چاہتا ہے گمراہ ہو تو زبردستی سے تو کسی کو راہ ہدایت پر نہیں لایا جا سکتا۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو آزادی عطا کی ہے لیکن اس آزادی کا مالک نہیں بنایا کہ جو مرضی کرے اس آزادی کے بل بوتے پر انجام دے دو۔ بلکہ آزادی انسان کے پاس امانت ہے۔ اس امانت میں ہرگز خیانت نہیں کر سکتا۔ یعنی ایسا نہیں کر سکتا کہ اپنے ہی ذہن و گمان کے مطابق آزادی کی تبیین کرے اور آزادی کا معنی ہی بدل دے۔ مثال کے طور پر کسی بھی انسان کو اللہ تعالی نے یہ حق عطا نہیں کیا کہ خود کو بیچ ڈالے یا کسی کا غلام بن جاۓ۔ اپنی آزادی کو غلامی میں نہیں بدل سکتا، خود حیات بھی امانت ہے آپ کے پاس۔ اس امانت میں کوئی شخص خیانت نہیں کر سکتا یعنی اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ اللہ تعالی نے جس طرح سے حیات امانت دی ہے آزادی بھی امانت کے طور پر عطا کی ہے خود کو کسی کا بھی اسیر نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ)


حوالہ:

۱۔ سورہ قمر: ۴۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 December 21 ، 18:56
عون نقوی

تاریخ بشریت واضح طور پر بتاتی ہے اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبع طغیان گر ہے اور ہمیشہ اس چیز کی طرف مائل ہے کہ دوسروں کے اموال اور نفوس پر تجاوز کرے۔ حضرت آدمؑ کا زمانہ دیکھ دلیں قابیل نبی خداؑ کا بیٹا ہے اور جانتا ہے کہ خدا نے اس کے بھائی کی قربانی قبول کر لی ہے اور اس کی قبول نہیں ہوئی واضح آیات دیکھ کر بھی اپنے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ اسے اپنی شکست قبول نہیں اور برتری چاہتا ہے۔ اس کے اندر ’’ ھل من مزید‘‘ کا شعلہ بھڑکا ہوا ہے وہ کسی بھی مقام پر پہنچ جاۓ راضی نہیں ہوتا۔ اور قناعت پسند نہیں۔

انسان کی فطرت توحیدی ہے

یہاں تک ہم نے طبع انسان کو ملاحظہ کیا۔ طبیعت انسات، انسان کی ذات کی ایک جہت ہے۔ اسی انسان کے اندر فطرت بھی اللہ تعالی نے رکھ دی ہوئی ہے۔ 

انسان فطری طور پر توحید پرست اور دین خواہ و حق عدل کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے آپ چاہے کوئی ملحد ترین معاشرے کا انسان بھی لے آئیں وہ بھی سچ کو پسند کرے گا اور جھوٹ سے متنفر ہوگا، حقیقی اور درست باتوں کو ماننا پسند کرے گا اور بے بنیاد غلط باتوں کو ماننے سے انکار کرے گا۔ ظلم سے نفرت کرتا ہوگا اور عدل و انصاف کو پسند کرتا ہوگا۔ اگر اس کی فطرت ابھی باقی ہے اور آلودہ نہیں ہوئی تو یقینا حق قبول کرے گا۔ مگر یہ کہ فسق و فجور اور طبیعت انسانی کا اس پر اتنا تسلط ہو گیا ہے کہ فطرت مری پڑی ہے اور اسے آسانی سے نہیں بیدار کیا جا سکتا۔ فطرت پر ہمارے پاس نہ صرف عقلی برہان موجود ہے بلکہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

فأقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ.(۱)

’’پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے۔‘‘

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں پر فطرت انسانی کا ذکر ہوا ہے وہیں طبیعت انسان کا بھی ذکر ہوا ہے اور پچاس مرتبہ یا اس سے بھی زائد جگہ پر انسانی طبع کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ یعنی جہاں پر بھی انسان کی بری صفات ہلوع(کم حوصلہ)، جزوع(گھبرانے والا)، منوع(بخیل)، قتور(تنگ دل)، ظلوم(ظالم)، جہول(نادان)، عجول(جلد باز) وغیرہ کی طرف اشارہ ہوا ہے یہ سب طبع انسانی ہے جس کی مذمت وارد ہوئی ہے نا کہ فطرتِ انسان۔ فطرت انسان کا ذکر کیا تو وہاں پر اللہ تعالی نے تعریف کی اور فرمایا:

لقد کرمنا بنی آدم.(۲)

 ’’اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا۔‘‘

یہاں پر جب انسان کے اکرام اور تعظیم کی بات ہوئی تو اس کی توحیدی فطرت کی تعریف کی ہے۔ اس سے ہم نے جانا کہ انسان کی طبیعت میں جو صفات ہیں وہ طغیان گر ہیں اور انسان کو طاغوت بنا دیتی ہیں۔ اگر انسان ان طاغوتی صفات کو رام کر لے تو انسانیت کے مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ فطری اوصاف کا جگانا ضروری ہے ورنہ انسان کی طبیعت اسے طغیانگر بنا دیتی ہے۔

انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ کا فرمانا ہے کہ تمام انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ وہ آئیں اور عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔ انسانوں کے اندر فطرت کا خزینہ دفن ہے، یہ دفائن انسان کو الہی انسان بنا سکتے ہیں علمی اور عملی طور پر دین کی طرف بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ چھپے ہوۓ ہیں اور دفن ہیں ان کو نکالنا اور عملی کرنا انبیاء کرامؑ کا کام ہے۔ انبیاء آ کر انسان کی فطرت کو ابھارتے ہیں۔ انبیاء کرام آ کر کوئی نئی چیز نہیں سکھاتے بلکہ جو چیز انسان کے اندر پہلے سے موجود ہے اس کی طرف متوجہ کراتے ہیں اگر کوئی اس کی طرف متوجہ ہو جاۓ تو وہ الہی انسان بن جاتا ہے لیکن اگر فطرت کے اوپر گناہوں کی تہیں بچھ گئی ہیں تو وہاں پھر نبی چاہے معجزے بھی دکھائیں آگے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

اگر انسان پر طبیعت حاکم ہو جاۓ 

ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر انسان فطرت کی بجاۓ اپنے طبعی میلان کی طرف بڑھتے ہیں، انسان پر فطرت کی بجاۓ طبیعت حاکم ہے اور طبیعت کی کوئی حد اور باؤنڈری نہیں جو انسان کو محدود کر سکے اس کی طبیعت کو اصلا راضی نہیں کیا جا سکتا وہ جتنا زیادہ حاصل کر لے پھر بھی اسے مزید چاہیے۔ اور اگر انسان کی طبیعت کاملا اس پر حاکم ہو جاۓ تو دنیا کا کوئی بھی قانون یا شرع اسے محدود نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی طبعِ طغیان گر کو دیکھتے ہوۓ دنیا کے ہر معاشرے میں انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی جاتی ہیں اور اسے مقید کیا جاتا ہے کہ آپ نے اس حد میں رہنا ہے اگر اس حد سے باہر نکلے تو آپ کو مقرر قانون کے مطابق جوابدہ ہونا پڑے گا۔ چاہے مشرقی معاشرہ ہو یا مغربی، ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں یا جہانِ سوم کے ممالک، حتی الحادی ترین معاشرے میں بھی انسان کو قانون کا تابع ہونا پڑتا ہے۔

انسان آزاد نہیں مقید ہے

خداوند متعال نے انسان کو آزادِ مطلق قرار نہیں دیا اور اسے حق نہیں دیا کہ جو اس کا دل کرے کر گزرے۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل طور پر اسے رہا کر دیا جاۓ، ایسی آزادی کو نہ تو عقل مانتا ہے، فطرت مانتی ہے، دین مانتا ہے اور نہ انسانی معاشرے۔ انسان آزاد ہوتے ہوۓ بھی اخلاقی طور پر، حقوقی، اقتصادی، سیاسی، اور عسکری قید و قیود کا پابند ہوتا ہے۔ اگر انسان اخلاقی تقاضے پورے نا کرے یا کسی بھی معاشرے میں سیاسی حقوق یا دوسروں کے اقتصادی حقوق کا خیال نہ کرے اسے مجازات کیا جاتا ہے۔ اور اگر اسے سزا نہ دی جاۓ ایسا معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاتا ہے۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ)


حوالہ جات:

۱۔ سورہ روم:۳۰۔

۲۔ سورہ اسراء: ۷۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 December 21 ، 22:13
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام سیاسی ہونے چاہیے اس سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عالم دین کے پاس سیاسی تجزیہ تحلیل کرنے کی طاقت ہو۔ میں ہمیشہ طلباء اور اسٹوڈنٹس سے کہتا ہوں، آپ کو بھی یہی عرض کرونگا، اس کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے ہمیں سیاسی ہونا چاہیے۔ لیکن واضح رہے کہ سیاسی ہونے کا مطلب سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں میں شامل ہونا نہیں ہے۔ اس پارٹی یا اس سیاسی جماعت یا گروہ یا پیشہ ور سیاست دانوں کے ساتھ مل جانا سیاسی کھیل تماشہ مراد نہیں۔ یہ ہرگز مقصود نہیں ہے۔ بلکہ عالم دین یا طالب علم کے سیاسی ہونے سے مراد سیاسی بیداری، سیاسی تجزیے کی طاقت ہے، جس کے پاس ایک مضبوط سیاسی قطب نما ہے جو صحیح سمت دکھاسکتا ہے۔ بعض اوقات ہم طالب علم غلطیاں کرتے ہیں۔ ہمارا قطب نما ٹھیک سے کام نہیں کرتا اور صحیح سیاسی جہت کا راستہ نہیں بتاتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ سیاسی بصیرت کا حصول ایسی چیز نہیں ہے جو راتوں رات حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو اس کام میں مشغول ہونا ہوگا۔ آپ کو سیاسی مسائل سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی، ملک کے سیاسی واقعات اور دنیا کے سیاسی واقعات کو جاننا ہوگا۔ طلباء کو آج ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ کسی کونے میں سر جھکاۓ بیٹھے رہنا اور ملک و معاشرے کے کاموں سے کوئی سروکار نہ ہونا اور کسی واقعہ، یا حادثہ کا علم نہ ہونا، انسان کو معاشرتی جریانوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری طرف رجوع کرتے ہیں خدانخواستہ اگر لوگوں کو ہم نے ہی کوئی غلط ایڈریس دے دیا یا کوئی ایسی سطحی سیاسی نظر دے دی جو دشمن کو مطلوب ہو تو خود اندازہ لگائیں اس کا کتنا نقصان ہوگا۔ اس لیے آج ہمارے سامنے سب سے اہم کام سیاست سے رابطہ قائم کرنا ہے۔ سیاست سے دستبردار ہونا درست نہیں اور یہ شیعہ علماء کا کام نہیں ہے۔

اصلی متن

اینکه ما میگوییم روحانیون سیاسی باشند، یعنی چه؟ این، آن نکته‌ی اساسی است؛ یعنی قدرت تحلیل سیاسی داشته باشد. من همیشه به دانشجوها و طلبه‌ها میگویم، به شما هم عرض میکنم، و این به همه‌ی روحانیت مربوط میشود: باید سیاسی باشید؛ منتها نه به معنای ورود در باندها و جناحهای سیاسی؛ نه به معنای ملعبه و آلت دست شدن این یا آن حزب یا گروه سیاسی، یا سیاست‌بازان حرفه‌ای؛ این مطلقاً مورد نظر نیست؛ بلکه به معنای آگاهی سیاسی، قدرت تحلیل سیاسی، داشتن قطب‌نمای سالم سیاسی که جهت را درست نشان بدهد. گاهی ما طلبه‌ها اشتباه میکنیم؛ قطب‌نمای ما درست کار نمیکند و جهت‌یابی سیاسی را درست نشان نمیدهد. این، چیزی نیست که به خودی خود و یک شبه به وجود بیاید؛ نه، این مُزاولت در کار سیاست لازم دارد؛ باید با مسائل سیاسی آشنا شوید، حوادث سیاسی کشور را بدانید و حوادث سیاسی دنیا را بدانید. طلبه‌ها امروز به اینها نیاز دارند. یک گوشه‌ای نشستن، سرخود را پایین انداختن، به هیچ کار کشور و جامعه کاری نداشتن و از هیچ حادثه‌ای، پیش‌آمدی، اتفاق خوب یا بدی خبر نداشتن، انسان را از جریان دور میکند. ما مرجع مردم هم هستیم؛ یعنی مورد مراجعه‌ی مردمیم و اگر خدای نکرده یک علامت غلط نشان بدهیم، یا یک چیزی که مطلوب دشمن است بر زبان ما جاری بشود، ببینید چقدر خسارت وارد میکند. بنابراین، یک وظیفه‌ی مهمی که امروز ماها داریم، ارتباط با سیاست است. کناره‌گیری از سیاست درست نیست و کار روحانی شیعه نیست.(۱)

 

صوبہ سمنان کے طلاب سے خطاب


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 December 21 ، 21:09
عون نقوی