بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کے بہت سے نام ہیں۔ ان میں سے ایک معروف نام ’’بیت العتیق‘‘ ہے۔ چونکہ خانہ کعبہ آزادی کا سمبل ہے اس لیے اسے بیت عتیق یعنی آزادی کا گھر کہا گیا۔ امام باقرؑ سے روایت منقول ہے جس میں وارد ہوا ہے:

لانه بیت حر عتیق من الناس و لم یلملکه احد.(۱)

امامؑ فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کسی بھی دور میں قبضہ نہیں کیا جا سکا اور ہمیشہ آزاد رہا ہے، کوئی ستمگر خانہ کعبہ پر تسلط پیدا نہیں کر سکا اس لیے اسے بیت عتیق کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ اسلام میں آزادی کا سمبل قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو ہر آن آزادی کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے واجب قرار دیا گیا کہ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ یا مثلا بہت سے کام قبلہ رخ کر کے انجام دیے جائیں۔ قرآن کریم نے آزادی کے اس سمبل کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو دور دراز زمینوں سے دعوت دی کہ وہ آئیں اور اس آزادی کے سمبل کے گرد طواف لگائیں اور اس کی تقدیس انجام دیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ.

 اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو۔(۲)

قبلہ کی طرف رخ کرنے کی حکمت

دین اسلام نے مسلمانوں کو بہت سے کاموں کو قبلہ رخ ہو کر انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ کام اس حکمت کی وجہ سے انجام دیا کہ ان اعمال کو بیت عتیق سے مربوط کیا جاۓ۔ مثلا نماز کے بارے میں حکم دیا کہ نماز بجالانے کے لیے سب مسلمان قبلہ رخ ہوں یعنی ایک جماعت ہو کر ایک وقت میں اس آزادی کے سمبل کی طرف کھڑے ہو جائیں اور عبادت خدا بجا لائیں۔ نماز یعنی عبادت، عبادت یعنی عبدِ خدا بننا۔ عبادت قبلہ رخ ہو کر کیوں انجام دیں بھلا؟ اس لیے کہ اگر آپ عبدِ خدا ہیں تو آزاد ہیں ورنہ نہیں! نماز کو آزادی کے سمبل کی طرف رخ کر کے قائم کریں۔ یا اسی طرح سے حکم دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوۓ بھی قبلہ رخ ہو جائیں۔ تاہم بعض افعال کے بارے میں حکم آیا کہ ان کاموں کو انجام دیتے ہوۓ قبلہ رخ مت ہوں بلکہ حرام قرار دیا۔ یعنی انسان کی عبادات اور افعال کو خانہ کعبہ سے ربط دے دیا بعض کا کہا کہ اس کی طرف رخ کرو اور بعض افعال کے بارے میں کہا کہ قبلہ رخ مت ہونا، حتی فرمایا کہ اگر انسان اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہو تو اس کو قبلہ رخ لٹا دو، خانہ کعبہ کی طرف بار بار متوجہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ در اصل اس امر کے لیے ہے کہ شخصِ مسلمان ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہے کہ اپنی آزادانہ حیات کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالی نے اسے آزاد خلق کیا ہے اور اپنی آزادی کو کسی قیمت غلامی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ اور بالخصوص اپنی معنوی اور فکری آزادی کے بارے میں ہمیشہ متوجہ رہے کہ ناقص اور ناروا نظریات، و عقائد اسے فاسد کر کے اپنا اسیر نہ بنا لیں۔

آزادی ۔ انبیاء الہیؑ کا درس

سب سے پہلے جنہوں نے انسانوں کو آزاد کا درس دیا وہ انبیاء الہیؑ تھے۔ انبیاء الہیؑ خود آزادی خواہ تھے اور لوگوں کو بھی آزاد ہونے کی تلقین کرتے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبیؑ نے وقت کے زمانے کے ستمگروں سے مبارزہ کیا۔ اگر ستمگروں سے آشتی کرتے تو آزادی کے برخلاف تھا اور جو امر آزادی کے متضاد ہوتا اس کے برخلاف قیام کرتے۔ نا صرف خود اپنی ذات کو ستمگروں سے نجات دیتے بلکہ اپنی امتوں کو بھی نجات دینے کی کوشش کی۔ بالخصوص رسول اکرمﷺ کہ جنہوں نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا معنی بتایا اور حقیقی آزادی امتوں کو عطا بھی کی۔ صاحبِ تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:
’’بعض افراد کا خیال ہے کہ آزادی، ڈیموکریسی اور حقیق بشر کو مغربیوں نے سب سے پہلے بیان کیا ہے، جبکہ اسلام نے بقیہ سب سے بہت پہلے ۱۴۰۰ سال سے ان معارف کو قوی مبانی اور بہترین طریقے سے بیان کیا ہے۔ لیکن مغربیوں نے غلط پروپیگنڈے سے یہ بات معاشروں اور قوموں کے ذہن میں ڈال دی کہ حقوق بشر کو سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا ہے۔‘‘(۳)
یہ اس دور کی بات ہے کہ جب اس طرح کی باتیں حوزہ جات علمیہ میں بہت مستور تھیں۔ بہت کم افراد ان مطالب کی طرف متوجہ تھے۔ لیکن علامہ طباطبائیؒ نے آج سے نصف صدی پہلے ان مطالب کو نا صرف بیان کیا بلکہ بصورت مشہود، برہانی، عقلی اور تحلیلی صورت میں پیش کیا اور طلاب دینی و مومنین پر ایک طرح سے احسان کیا۔ اور آج یہ بحثیں مغربی دنیا اور عالم اسلام میں بہت شدت سے ہو رہی ہیں۔ مغربی دنیا دعوی کرتی ہے کہ ہم نے دنیا کو آزادی کا درس پڑھایا ہے، البتہ وہ آزادی جس کی انسانی فطرت کو احتیاج ہے اس کو اسلام نے ۱۴۰۰ سال پہلے بیان کر دیا۔ وہ آزادہ کہ جو طبیعت انسانی کے سرکش ہونے کا ذریعہ بنتی ہے وہ تو درحقیقت آزادی نہیں بلکہ نفس کی غلامی ہے۔ اگر اس کو کوئی آزادی کا نام دیتا ہے تو دراصل خود بھی دھوکے میں ہے اور اگلے کو بھی دھوکہ دے رہا ہے۔
 
 

حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۹۹، ص۵۸۔

۲۔ سورہ بقرہ، آیت۱۴۴۔

۳۔ طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج۶، ص۵۰۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 December 21 ، 13:23
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالی سے عرض کریں گے:

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا.

اور رسول کہیں گے: اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔(۱)

آپ کے خیال میں قرآن کا ترک کیا جانا کس معنی میں ہے؟ یقینا اس معنی میں تو نہیں کہ انہوں نے قرآن اور قرآن کے نام کو بطور کلی خود سے دور کر لیا۔ یہ اتخاذ نہیں ہے۔ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس قرآن تو ہے لیکن قرآن مع ہجران۔ قرآن تو ہے لیکن مہجور۔ یعنی قرآن ان کے معاشروں میں تلاوت تو ہوتا ہے، ظاہری طور پر قرآن کا اکرام اور تعظیم بھی بہت کرتے ہیں لیکن اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور دین کی سیاست سے جدائی کے بہانے سے حکومت کو قرآن سے جدا کیا ہوا ہے۔ اگر ہدف یہ تھا کہ معاشروں میں قرآن اور اسلام کی حکومت نہیں ہوگی پھر رسول اللہ ﷺ کے مبارزات کا کیا فائدہ اور نتیجہ؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی بھی یہی سوچ تھی کہ حکومتی امور، لوگوں کی اجتماعی زندگی، اور معاشرے کی سیاسی قدرت کے حوالے سے اسلام اور قرآن کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا، اور یہی کہ لوگوں کے عقائد کو اسلامی کردوں اور ان کو کچھ اعمال سکھا دوں جو وہ گھروں کے کونوں میں انجام دیں تو کیا رسول اللہ ﷺ کے خلاف اتنی جنگیں ہوتیں؟ اصل میں اسلام اور اس وقت کی گمراہ طاقتوں کا مسئلہ اور جھگڑا کیا تھا؟ در اصل رسول اللہ ﷺ کا ان سے جھگڑا سیاسی قدرت کا حصول اور اس قدرت پر قرآن کے ذریعے قبضہ کرنے کا جھگڑا تھا۔ ہجر قرآن کا معنی یہاں پر واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا نام تو باقی ہے لیکن معاشرے پر حاکمیت غیر قرآنی ہے۔ عالم اسلام میں ہر جگہ جہاں دراصل قرآن کی حاکمیت نہیں وہاں پر رسول اللہ ﷺ کا یہ خطاب ’’ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا‘‘ صادق آتا ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 December 21 ، 21:06
عون نقوی

فکری غلامی

انسان کے لیے بدترین قید یہ نہیں کہ اسے زندان میں بند کر دیا جاۓ اور اس کے بدن کو کھلی فضاؤں میں آنے سے روک دیا جاۓ۔ اگرچہ یہ بھی اسیر ہونا ہے لیکن سب سے بڑی قید اور اسارت یہ ہے کہ انسان جہالت اور نادانی کی زنجیروں میں قید ہو۔ انسان کی سوچ اور تفکر غلام بنا دیا جاۓ یہ اس قید سے بہت بدتر ہے کہ جس میں انسان کا جسم تو سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے لیکن سوچ آزاد۔ جب انسان کی سوچ غلام ہو جاۓ تو وہ حقائق کو پہچاننے سے قاصر ہو جاتا ہے اور بالفرض اگر کسی حقیقت کو سمجھ بھی لے اس کے مطابق اپنی نظر پیش نہیں کر سکتا کیونکہ بہرحال اس کی سوچ غلام ہے اور عمل اس وقت صادر ہوتا ہے جب کم از کم آپ ارادہ کریں۔ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی سب سے بڑی نعمت یہ ذکر کی ہے کہ انہوں نے لوگوں کی سوچ اور تفکر کو آزاد کرایا۔ وہ افراد جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم بھی آزادانہ اور منظم زندگی گزار سکیں گے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

وَیَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْهِمْ.

اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔(۱)

آزاد تفکر کی دعوت

قرآن کریم نے انسانوں کو تفکر، تعقل، اور تدبر پر ابھارا، تین سو سے زائد آیات میں انسانوں کو دعوت تعقل دی۔ یہاں تک کہ انہیں آیات میں سے ایک آیت میں بیان ہوا ہے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے کا ایک ہدف تعقل اور تدبر ہے۔

إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ.

ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ شاید تم تعقل کرو۔(۲)

ایک اور آیت میں ذکر ہوا ہے:

کِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِهِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ.

 یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔(۳)

سورہ محمد میں تدبر نہ کرنے والوں کی مذمت وارد ہوئی ہے، ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا.

 کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟(۴)

اس آیت کریمہ میں تدبر اور تعقل نہ کرنے والوں کی مذمت تو وارد ہوئی ہے ساتھ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تدبر نہ کرنے میں مانع کونسی چیز ہے؟ ہم لوگ تفکر اور تدبر کیوں نہیں کر پاتے؟ گناہ، مانع بنتا ہے انسان تدبر نہ کرے۔ دلوں کے اندر سیاہی کیسے پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم آیات پر تدبر نہ کر پائیں؟ گناہ سے سیاہی پیدا ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ.

ہرگز نہیں! بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔(۵)

پہلے انسان کا دل زنگ آلود ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ زنگ پھیل کر پورے دل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے جہاں انسان ’’طبع علی قلوبهم‘‘ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور جب دلوں پر مہر لگ جاۓ تو کوئی بات اندر جا کر اثر نہیں کرتی۔ پس اگر کوئی انسان محسوس کرتا ہے کہ اسے معارف الہی سمجھ نہیں آ رہے یا قرآن کے مطالب اس پر اثر نہیں کر رہے تو جان لے کہ اس کی بصارت قلبی جا چکی ہے جو تدبر اور تفکر کے لیے ضروری ہے۔

قرآن کریم کا تفکر پر ابھارنا

اس تفکر اور تدبر کی دعوت کے علاوہ قرآن کریم میں بہت سی آیات اس موضوع پر ہیں کہ ملحدوں اور انبیاء کرامؑ کے مخالفین کے استدلال کیا تھے؟ ان کے مناظرے اور پیغمبروں کا جواب بھی قرآن نے متعدد جگہ پر نقل کیا ہے۔ یہ سب ہمیں تفکر اور سوچ کی آزادی پر ابھارتا ہے۔ شیطان کی اللہ تعالی سے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیے جانے کے موضوع پر گفتگو، اس کا استدلال اور اللہ تعالی کا جواب، ہابیل اور قابیل کا مکالمہ، حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کا مناظرہ، حضرت موسیؑ اور فرعون کا مناظرہ اور اس طرح کے فراوان واقعات جو پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آۓ، یہ سب قرآن کریم کے مخاطب اور تلاوت کرنے والے کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ تفکر اور جہان کی خلقت پر غور کرے اور ان سب کے خالق تک پہنچے۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ملحدین معاد کے بارے میں شبہہ ایجاد کرتے اور ایک دوسرے کو کہتے: کیا تم نے ایک خبر سنی ہے مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور کہتا ہے کہ جب تمہارا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاۓ یا خاک میں خاک ہو جاۓ تب بھی دوبارہ زندہ کیے جاؤگے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان کے قول کو نقل کیا ہے:

وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا هَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَى رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ.

 اور کفار کہتے ہیں: کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے؟(۶)

یقینا معاد کی خبر بہت بڑی خبر ہے۔ خود قرآن کریم نے بھی اسے ’’نبأ عظیم‘‘ سے یاد کیا گیا ہے۔

معاد کی خبر حجاز کی سرزمین پر بہت تیزی سے پھیلی، قرآن کریم نے اس اہم مسئلے کو تکرارا ذکر کرتا ہے اور منکرین معاد کے شبہات کو بھی بیان کرتا ہے۔ مخاطب کو ہر دو تفکر کی راۓ بتاتا ہے اور آزادانہ تفکر کی دعوت دیتا ہے۔

یورپ میں تفکر پر پابندی اور اس کے نتائج

قابل ذکر ہے کہ جو کچھ یورپ میں پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہوا اور ارباب کلیسا نے عقائد کی تفتیش سے جو تحریک چلائی، انسانی تاریخ کا بہت بڑا حادثہ تھا۔ ارباب کلیسا نے اعلان کیا کہ ہر وہ بات جو انجیل کے ظواہر سے ٹکراتی ہو اس کا بیان جرم ہے۔ نیز کہا کہ انجیل کو صرف ہم ہی سمجھ سکتے ہیں عوام اس کی باتوں میں غور و فکر کرنے کی زحمت نہ کریں جو کچھ ہے ہم خود آپ کو بتائیں گے۔ یہ افراطی سوچ سبب بنی کہ وہاں کی عوام ایسی دین سے متنفر ہوئی کہ بعد میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ اصل میں دین اور تفکر ایک دوسرے کے تضاد میں ہیں۔ یعنی دیندار فرد وہ ہے جو بالکل مت سوچے، اور جو سوال اٹھاۓ اور تفکر کرے وہ غیر دیندار ہے۔ یہ سوچ قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے بالکل بر خلاف ہے۔ قرآن اور اسلام نے انسان کو ہر موقع پر تفکر اور تدبر کی دعوت دی۔ ارباب کلیسا کی طرح یہ نہیں کہا کہ تم لوگ صرف مانو اور ہم تمہیں سوچ کر بتائیں گے۔ نا! بلکہ سب اہل ایمان کو تفکر کی دعوت دی۔

ارتباط برقرار رکھنے کا قرآنی نسخہ

قرآن کریم نے سورہ آل عمران کے اختتام پر باطور خاص مومنین کو صبر و پائیداری اور مرابطے کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ.

اے ایمان والو!صبر سے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط برقرار رکھو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔(۷)

ظاہر ہے کہ انسان سے ارتباط برقرار رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ تفکر کی آزادی ہے۔ کیونکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو تفکر کر سکتا ہے اور اگر کوئی ایسا موجود جو تفکر کر سکتا ہے اپنے ہمنوع سے ارتباط برقرار رکھںا چاہتا ہے، رابطہ برقرار رکھنا چاہتا ہے تو سب سے بڑا ذریعہ فکری رابطہ ہے۔ اور لازمی ہے کہ اس کے لیے تفاہم ضروری ہے کیونکہ انسان جب ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے اور درک کریں گے تو ایک دوسرے کے عقائد اور مکاتب کو سمجھ پائیں گے۔ انسان کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے لیے فقط زبان سیکھ لینا تو کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ اس کا طرز تفکر، مکتب اور عقیدہ بھی سمجھا جاۓ۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سورہ اعراف، آیت۱۵۷۔

۲۔ سورہ یوسف، آیت۲۔

۳۔ سورہ ص، آیت۲۹۔

۴۔ سورہ محمد، آیت۲۴۔

۵۔ سورہ مطففین، آیت۱۴۔

۶۔ سورہ سبأ، آیت۷۔

۷۔ سورہ آل عمران، آیت۲۰۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 December 21 ، 21:53
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک ملت بے شک اسلامی احکام پر عمل نہ کرتی ہو لیکن پھر بھی مسلمان ہو۔ دین کا سیاست سے جدائی کا مطلب در اصل یہی بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہیں مسلمان، لیکن اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتے، یعنی آپ کے ملک کا بینکنگ سسٹم، معیشت کا نظام، تعلیمی نظام، حکومت کی شکل و صورت اور آپ کے فرد و معاشرہ کے تعلقات اسلام کے خلاف ہیں اور غیر اسلامی ہیں لیکن آپ پھر بھی مسلمان ہی ہیں، حتیٰ اسلام مخالف قوانین بھی ملک میں نافذ ہیں۔ البتہ یہ ان ممالک کی بات ہے جن کے ہاں قانون موجود ہے چاہے وہ ایک ناقص اور قاصر ایک آمر انسان کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ آج بعض اسلامی ممالک میں حتی قانون بھی نہیں ہے۔ کوئی غیر اسلامی قانون بھی نہیں ہے وہاں صرف بعض افراد کی مرضی کے مطابق قانون چلتا ہے مثلا اقتدار پر ایک شخص بیٹھا ہے اور حکم دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ایسا ہونے دو، ویسا نہ ہونے دو وغیرہ۔ ہمارے لیے یہ گمان کرنا ممکن نہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہیں، لیکن اسلام سے انہوں نے فقط نماز، روزہ، طہارت اور نجاست کے مسائل لیے ہیں بس۔ جس معاشرے میں مسلمان ہوں وہاں پر اسلام کو حاکم ہونا چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 December 21 ، 20:56
عون نقوی

دین چند مخصوص اعتقادات کا مجموعہ ہے جن کو زبردستی کسی سے نہیں منوایا جا سکتا۔ با الفاظ دیگر ہم اپنا عقیدہ کسی پر ٹھونس دیں تو نا صرف وہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ زور زبردستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اعتقاد اصلا قبول بھی نہیں۔ پس اگر کسی شخص کے لیے دین کے مبانی واضح نہیں دین اس کو عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچاۓ گا۔ دین کو بغیر کسی جبر اور زبردستی کے قبول کرنا ضروری ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی معروف آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

لا اکراہ فی الدین.

 دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔(۱)

دین کو کسی پر جبرا تحمیل نہیں کیا جا سکتا۔ دین کے اختیار کرنے میں سب کو اختیار ہے، البتہ یہاں پر اختیار بمعنی تکوینی اختیار ہے نا تشریعی، کہ اس مطلب کی پچھلی قسط میں وضاحت گزری ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی خلقت ہی کچھ اس طرح کے انداز میں کی ہے کہ اسے سواۓ برہان (عقلی دلیل) کے کوئی بھی چیز قائل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اول سے آخر تک سارا دین برہان پر قائم ہے اگر کوئی امر عقل کے برخلاف ہو تو دین اسے قبول نہیں کرتا۔ حتی فطرت انسان اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ان الظن لا یغنی من الحق شیئا.

ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔(۲)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ظن و گمان والی باتیں نہیں کرنی چاہیئں۔ بلکہ وہ بات کریں جو قطعی اور یقینی ہو کیونکہ اگر ایسی بات کہیں جس کا خود ہمیں یقین نہ ہو اس کا کسی دوسرے پر بھی اثر نہ ہوگا۔ عقیدہ قطع اور یقین سے بنتا ہے وہم و گمان کے مرحلے پر عقیدہ نہیں بنتا۔ لیکن اگر کسی کے دل میں آپ نے ایک مطلب کے مبادی اور مقدمات فراہم کر دیے ہیں تو اس پر عقیدہ بننا چاہیے کیونکہ بہرحال عقیدہ علم حاصل ہونے پر بنتا ہے۔ اگر انسان کے افکار برہان اور دلیل کی بنا پر نہ بنے ہوں تو نا تو خود حالت اطمینان میں ہوتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اس بات کا قائل کر سکتا ہے۔ 

کسی عقیدے کو ایک انسان سے سلب کر لینا یا ایک عقیدہ اسے عطا کرنا ہمارے بس میں نہیں مگر یہ کہ اس انسان کے فطری تقاضے کو پورا کیا جاۓ اور اسے برہان سے قانع کیا جاۓ۔ اگر ایک مطلب کے علمی مقدمات فراہم کر دیے تو عقیدہ جنم لے گا ورنہ نہیں۔ اگر یقین حاصل کیے بغیر عقیدے کو مان بھی لیا تو ایسا عقیدہ عملی زندگی میں کوئی بھی فائدہ نہیں دے گا۔ عقیدہ کا لفظ ’’عقد‘‘ یعین گرہ لگانا سے ہے۔ اگر ایک مطلب علم اور یقین سے گرہ کھا جاۓ تو عقیدہ بنتا ہے۔ منطقی زبان میں اعتقاد کے حصول کے لیے دو گرہ لگانا لازم ہے۔ ایک یہ کہ موضوع اور محمول کے درمیان گرہ ہو گہرا ربط، کہ یہی وجہ ہے کہ قضیہ کو عقد بھی کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ قضیہ کے محصول اور نفس انسان میں گرہ لگائی جاۓ جسے اعتقاد کہا جاتا ہے۔

ان مقدمات کے نتیجے میں ہم پر واضح ہو گیا کہ عقیدے کے حصول میں انسان تکوینا آزاد ہے۔ کسی سے جبرا عقیدہ نہیں منوایا جا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ وہ یہ بات مان لے کہ اللہ تعالی وجود نہیں رکھتا، تو اگر وہ بالفرض اسلحے کے زور پر یہ بات مان بھی لے تو کیا دل سے اس کے ایمان کو سلب کیا جا سکتا ہے؟ یعنی جس طرح سے آپ نے اسلحہ کے زور پر اس کی زبان سے یہ مطلب نکلوایا ہے کیا اس کے دل سے بھی خدا کو نکال دیا ہے؟ جی نہیں! عقیدے کو اسلحہ کے زور پر نہیں منوایا جا سکتا، یا اگر کسی کو اسلحہ کے زور پر یہ کہا جاۓ کہ آپ یہ عقیدہ بنا لیں کہ دو خدا وجود رکھتے ہیں، اگر آپ من گھڑت دلیلوں یا جبر سے اس سے منوا بھی لیں تب بھی دل کے اندر اثر نہیں کر سکتے مگر یہ کہ برہان اور عقلی دلیل سے اس کو قانع کریں۔ انسان فطری طور پر برہان اور دلیل کو قبول کر لیتا ہے جہاں پر دنیا جہان کی کوئی چیز اسے قانع نہیں کر سکتی اسے ایک دلیل قانع کر لیتی ہے۔

یہاں پر ایک مطلب کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان عقل اور برہان کی بجاۓ اپنے خیالی تصورات کے تحت زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔ بغیر دلیل اور برہان کے ایک چیز کو اختیار کر لیتا ہے، مثلا انسان بچپن میں غالب طور پر خیالی زندگی بسر کرتا ہے۔ البتہ بچہ حکمت الہی کے تقاضے اور اپنی کمسنی کے تحت ایسا کرتا ہے لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض افراد بڑے ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک امر رواج (fashion) ہے۔ رواج پر چلنے والے لوگوں کے پاس کوئی عقلی دلیل یا برہان نہیں ہوتا کہ اس نے یہ امر فلان دلیل کی وجہ سے اختیار کیا ہے۔ چونکہ اس نے مثلا ایک مشہور شخصیت (celebrity) کو پھٹی ہوئی شلوار پہنے دیکھا ہے اس نے بھی پھٹا ہوا لباس پہننا شروع کر دیا۔ اب اگر اس سے پوچھیں کہ یہ چیز آپ کی شأن انسانیت کے برخلاف ہے اور آپ ایسا مت کریں تو آگے سے کہتے ہیں کہ آج کل یہ فیشن ہے۔ ایسے لوگ خیالی زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی قوت عقل سے استفادہ کرنے کی بجاۓ قوت خیال پر اکتفاء کیے ہوۓ ہیں۔ علمی اصطلاح میں ایسے افراد کو ’’متخیل بالفعل‘‘ اور ’’عاقل بالقوہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

انسان کا کمال اس امر میں ہے کہ جو چیز اختیار کرے اسے عقل و دلیل سے قبول کرے۔ اکراہ اور اجبار انسان سے اختیار کی قوت کو سلب کر لیتے ہیں اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنے اختیار اور کاملا معرفت کے ساتھ ایک راستے کا انتخاب کرے۔ اس لیے دینی تفکرات، عقائد کے حصول میں اکراہ اور جبر کو جائز قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ انبیاء کرام کا بھی وظیفہ قرار دیا کہ وہ فقط دین کو بہتر انداز میں ابلاغ کر دیں کسی سے زبردستی دین قبول نہیں کروانا۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

و ما علینا الا البلاغ المبین.

اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔(۳)

رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا:

لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین ان نشأ ننزل علیهم  من السماء أیة فظلت أعناقهم لها خاضعین.

شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں۔(۴)

رسول اللہﷺ جب تبلیغ دین کرتے اور اس راہ میں سخت کوشش کرتے جب دیکھتے کہ لوگ تمام حجتوں کے سامنے پھر بھی اپنے طبیعی میلان کی طرف راغب ہیں اور خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں تو بہت غمگین ہو جایا کرتے تھے اور چاہتے کہ یہ خود کو نجات دیں۔ لوگ راہ راست پر کیوں نہیں آ جاتے اس چیز کا آپ بہت غم اٹھاتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آیت نازل کی اور فرمایا کہ آپ اس غم میں اپنی جان نہ کھو بیٹھیں، اگر کوئی خود اپنی مرضی اور اختیار سے ہلاکت کا انتخاب کرتا ہے تو آپ اس کا غم مت اٹھائیں بعض لوگ ہیں جو تمام دلیلوں کے آ جانے کے بعد بھی حق کو قبول نہیں کرتے۔ اگر سب کو ہی حق قبول کروانا ہے تو یہ کام تو ہمارے لیے بہت آسان تھا۔ آسمان سے کوئی ایسی نشان لاتے یا عذاب کی دھمکی دیتے اور ان سب کی گردنیں جھک جاتیں اور حق قبول کر لیتے۔ اللہ تعالی کو ایسا ایمان نہیں چاہیے جو اجباری طور پر کسی پر تحمیل کیا جاۓ، اس طرح سے انسان سعادت کو حاصل نہیں کر سکتا مگر یہ کہ اپنے اختیار سے ایک عقیدے کو حاصل کرے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سورہ بقرہ، آیت۲۵۶۔

۲۔ سورہ یونس، آیت۳۶۔

۳۔ سورہ یس، آیت۱۷۔

۴۔ سورہ شعراء، آیت۴،۳۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 December 21 ، 12:19
عون نقوی