بصیرت اخبار

بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کے بہت سے نام ہیں۔ ان میں سے ایک معروف نام ’’بیت العتیق‘‘ ہے۔ چونکہ خانہ کعبہ آزادی کا سمبل ہے اس لیے اسے بیت عتیق یعنی آزادی کا گھر کہا گیا۔ امام باقرؑ سے روایت منقول ہے جس میں وارد ہوا ہے:

لانه بیت حر عتیق من الناس و لم یلملکه احد.(۱)

امامؑ فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کسی بھی دور میں قبضہ نہیں کیا جا سکا اور ہمیشہ آزاد رہا ہے، کوئی ستمگر خانہ کعبہ پر تسلط پیدا نہیں کر سکا اس لیے اسے بیت عتیق کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ خانہ کعبہ اسلام میں آزادی کا سمبل قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو ہر آن آزادی کی طرف متوجہ رکھنے کے لیے واجب قرار دیا گیا کہ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ یا مثلا بہت سے کام قبلہ رخ کر کے انجام دیے جائیں۔ قرآن کریم نے آزادی کے اس سمبل کی طرف خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو دور دراز زمینوں سے دعوت دی کہ وہ آئیں اور اس آزادی کے سمبل کے گرد طواف لگائیں اور اس کی تقدیس انجام دیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ.

 اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو۔(۲)

قبلہ کی طرف رخ کرنے کی حکمت

دین اسلام نے مسلمانوں کو بہت سے کاموں کو قبلہ رخ ہو کر انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ کام اس حکمت کی وجہ سے انجام دیا کہ ان اعمال کو بیت عتیق سے مربوط کیا جاۓ۔ مثلا نماز کے بارے میں حکم دیا کہ نماز بجالانے کے لیے سب مسلمان قبلہ رخ ہوں یعنی ایک جماعت ہو کر ایک وقت میں اس آزادی کے سمبل کی طرف کھڑے ہو جائیں اور عبادت خدا بجا لائیں۔ نماز یعنی عبادت، عبادت یعنی عبدِ خدا بننا۔ عبادت قبلہ رخ ہو کر کیوں انجام دیں بھلا؟ اس لیے کہ اگر آپ عبدِ خدا ہیں تو آزاد ہیں ورنہ نہیں! نماز کو آزادی کے سمبل کی طرف رخ کر کے قائم کریں۔ یا اسی طرح سے حکم دیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوۓ بھی قبلہ رخ ہو جائیں۔ تاہم بعض افعال کے بارے میں حکم آیا کہ ان کاموں کو انجام دیتے ہوۓ قبلہ رخ مت ہوں بلکہ حرام قرار دیا۔ یعنی انسان کی عبادات اور افعال کو خانہ کعبہ سے ربط دے دیا بعض کا کہا کہ اس کی طرف رخ کرو اور بعض افعال کے بارے میں کہا کہ قبلہ رخ مت ہونا، حتی فرمایا کہ اگر انسان اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہو تو اس کو قبلہ رخ لٹا دو، خانہ کعبہ کی طرف بار بار متوجہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ در اصل اس امر کے لیے ہے کہ شخصِ مسلمان ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہے کہ اپنی آزادانہ حیات کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالی نے اسے آزاد خلق کیا ہے اور اپنی آزادی کو کسی قیمت غلامی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ اور بالخصوص اپنی معنوی اور فکری آزادی کے بارے میں ہمیشہ متوجہ رہے کہ ناقص اور ناروا نظریات، و عقائد اسے فاسد کر کے اپنا اسیر نہ بنا لیں۔

آزادی ۔ انبیاء الہیؑ کا درس

سب سے پہلے جنہوں نے انسانوں کو آزاد کا درس دیا وہ انبیاء الہیؑ تھے۔ انبیاء الہیؑ خود آزادی خواہ تھے اور لوگوں کو بھی آزاد ہونے کی تلقین کرتے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبیؑ نے وقت کے زمانے کے ستمگروں سے مبارزہ کیا۔ اگر ستمگروں سے آشتی کرتے تو آزادی کے برخلاف تھا اور جو امر آزادی کے متضاد ہوتا اس کے برخلاف قیام کرتے۔ نا صرف خود اپنی ذات کو ستمگروں سے نجات دیتے بلکہ اپنی امتوں کو بھی نجات دینے کی کوشش کی۔ بالخصوص رسول اکرمﷺ کہ جنہوں نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا معنی بتایا اور حقیقی آزادی امتوں کو عطا بھی کی۔ صاحبِ تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں:
’’بعض افراد کا خیال ہے کہ آزادی، ڈیموکریسی اور حقیق بشر کو مغربیوں نے سب سے پہلے بیان کیا ہے، جبکہ اسلام نے بقیہ سب سے بہت پہلے ۱۴۰۰ سال سے ان معارف کو قوی مبانی اور بہترین طریقے سے بیان کیا ہے۔ لیکن مغربیوں نے غلط پروپیگنڈے سے یہ بات معاشروں اور قوموں کے ذہن میں ڈال دی کہ حقوق بشر کو سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا ہے۔‘‘(۳)
یہ اس دور کی بات ہے کہ جب اس طرح کی باتیں حوزہ جات علمیہ میں بہت مستور تھیں۔ بہت کم افراد ان مطالب کی طرف متوجہ تھے۔ لیکن علامہ طباطبائیؒ نے آج سے نصف صدی پہلے ان مطالب کو نا صرف بیان کیا بلکہ بصورت مشہود، برہانی، عقلی اور تحلیلی صورت میں پیش کیا اور طلاب دینی و مومنین پر ایک طرح سے احسان کیا۔ اور آج یہ بحثیں مغربی دنیا اور عالم اسلام میں بہت شدت سے ہو رہی ہیں۔ مغربی دنیا دعوی کرتی ہے کہ ہم نے دنیا کو آزادی کا درس پڑھایا ہے، البتہ وہ آزادی جس کی انسانی فطرت کو احتیاج ہے اس کو اسلام نے ۱۴۰۰ سال پہلے بیان کر دیا۔ وہ آزادہ کہ جو طبیعت انسانی کے سرکش ہونے کا ذریعہ بنتی ہے وہ تو درحقیقت آزادی نہیں بلکہ نفس کی غلامی ہے۔ اگر اس کو کوئی آزادی کا نام دیتا ہے تو دراصل خود بھی دھوکے میں ہے اور اگلے کو بھی دھوکہ دے رہا ہے۔
 
 

حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۹۹، ص۵۸۔

۲۔ سورہ بقرہ، آیت۱۴۴۔

۳۔ طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج۶، ص۵۰۶۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی