بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

آزادی کا ڈھونگ رچانے والے

اب تک ہم نے اسلام کے انسان کی اندرونی، بیرونی، انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بارے نظریات کو جانا۔ اب دیکھتے ہیں ان افراد کی تاریخ اور وہ سیاہ کارنامے کہ جو اب دعوے دار ہیں کہ اسلام، آزادی اور حقوقِ بشر کے متضاد نظریات رکھتا ہے، جبکہ ہم آزادی اور حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو آزادی کے متضاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ’’ماڈرن غلامی‘‘ کو اجراء کیا ہے۔ ماڈرن غلامی کیسے بھلا؟ یعنی ماضی کی طرح لوگوں کو غلام بنانا لیکن اور طریقے سے، جنگ عظیم دوم میں جب یورپ بھرپور ترقی کر چکا تھا اور غلامی کو لغو کرنے کا دعوے دار تھا، اسی یورپ نے کئی ملین افراد کو آوارہ کیا، لاکھوں لوگوں کو اسیر کیا، غلامی سے بدتر افراد کو برباد اور آوارہ کیا۔ نمونے کے طور پر ’’الجزائر‘‘ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کو فرانس نے بدترین شکل میں تباہ و برباد کیا اور اس ملک کو اپںا مستعمرہ قرار دیتے ہوۓ ظلم ڈھاۓ۔ کیا یہ غلامی نہیں؟ کیا لوگوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانا، اسارت میں لینا، ان کے اموال کو غارت کرنا اور ان کے غنائم کو چرا کر لے جانا آزادی ہے؟ یہ کسی کو غلام بنانا نہیں تو اور کیا ہے؟ جنگ عظیم میں بہت سے ملکوں کو لوٹا اور حقیقت میں ان کو اپںا غلام بنایا گیا۔ ممالک سے ان کا استقلال چھینا ان کی آزادی چھینی اور بری طرح سے استعمار کیا۔

ایران میں استعماریت

خود ایران میں جنگ عظیم ثانی کے بعد شاہِ ایران رضا خان کو انہوں نے ہٹا کر اس کے بیٹے کو بٹھایا، اور اس کے ذریعے بدترین طریقے سے ایرانی قوم کو لوٹا اور ان کے مال و متاع پر شب خون مارا۔ یہ شاہ ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے انگلیوں کے اشاروں پر ناچتا۔ یہ استعماری طاقتیں ایران میں دلسوزی کے عنوان سے آئیں، شمالِ ایران پر سوویت یونین قابض ہو گئی اور مغرب اور جنوب میں امریکی اور برطانوی۔ دوستی اور صلح کے عنوان سے ملک میں داخل ہوۓ اور کہا کہ شاہ کے جانے کے بعد ملک میں امنیت کو بحال کرنے کے لیے ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے آۓ ہیں لیکن بدترین طریقے سے ایران کو غارت کیا۔ ایرانی عوام کے اندر اسلامی فرہنگ، اسلامی آداب و رسوم، کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور معدنیات کو بھی بری طرح سے لوٹا۔ ایران کا شمال کہ جہاں پر سوویت یونین کے کمانڈوز مستقر تھے، کسی تہران کے باشندے کا اس علاقے میں جانا اتنا سخت کر دیا گیا کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں داخل ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ اس نالائق اور کٹھ پتلی شاہ کو ایک دن انہوں نے کہا کہ ایران کے سترہ شہروں کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس نالائق نے یہ سترہ شہر پلیٹ میں ڈال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ کیا یہ غلامی نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ آپ لوگ جو آزادی اور حقوق بشر کا شعار دے کر قوموں کو لوٹتے ہو کیا یہ بھی آزادی کا حصہ ہے یا غلامی ہے جس کا اسلام کو طعنہ دیا جاتا ہے؟

ممالک کی خودمختاری 

ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی بازخواست کیوں کی جاتی ہے؟ اگر ایران کے ساتھ کوئی ملک قراداد باندھتا ہے تو اس کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ اس قرارداد کو ختم کیا جاۓ؟ کیا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرار داد باندھنے میں بھی آپ کا پابند ہے؟ اس کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی کہ جس سے تعلق رکھے اور جس سے تعلق نہ رکھے اس سب میں وہ آزاد ہو؟ کیا امریکا کے سب غلام ہیں کہ اس کی بات مانیں؟ کیا یہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف نہیں؟ بے شک اس کو آپ کوئی دوسرا نام دے دو اور اپنے کام کی جس طرح سے بھی دلیل لے آؤ بہرحال یہ کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال کے متضاد ہے۔ اسی بیسویں صدی میں جب مغرب حقوقِ بشر کا جھنڈا اٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو آزادی اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے مسلمانوں کی سرزمین فسلطین پر غاصب اور صیہونی ریاست اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور پوری دنیا اور آزادی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔ نا صرف فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے استحصال پر خاموش اور تماشائی بنے رہے بلکہ خود آزادی کے دعوے دار امریکا نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ایک ملت کو ان کے گھروں سے آوارہ کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بے گانوں کو مقیم کر دیا گیا۔ کیا یہ بھی آزادی ہے؟(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۷،۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 January 22 ، 16:45
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:

سیاست کا مطلب عوام فریبی، (حریف سیاستدان کے خلاف) الزام تراشی، دھوکہ بازی اور جھوٹے وعدے دینا نہیں۔ یہ کام اسلام میں ناپسندیدہ ہیں۔ سیاست کا مطلب ہے معاشرے کی درست روش پر مدیریت کرنا۔ یہ کام دین کا حصہ ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 December 21 ، 16:54
عون نقوی

یہ ملاقات آج سے تقریبا تیس سال پہلے ۱۶ دی ۱۳۷۰ بمطابق ۶ جنوری، ۱۹۹۲ کو ہوئی۔ پاکستان سے آۓ ہوۓ شیعہ مومنین سے رہبر معظم نے ملاقات کے دوران فرمایا:

’’خوش آمدید! ہم آپ مومنین کی زیارت سے بہت خوش ہیں۔ پاکستان کے مسائل، عموم مسلمین کے مسائل ہیں اور مسلمانوں کے جہاں کہیں مسائل ہیں ان سے ہم جدا نہیں ہو سکتے۔ ایران کے عوام اور پاکستانی عوام کے درمیان ہمیشہ سے ایک خاص تعلق رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ رشتہ روز بروز مضبوط ہوتا جائے گا۔ درحقیقت پاکستانی عوام اور پاکستان کے مخلص مسلمان خصوصاً شیعہ اسلامی انقلاب کے معاملات میں ہماری قوم کے لیے ہمیشہ معاون رہے ہیں۔ انقلابِ اسلامی کے آغاز سے اب تک ایسا ہی ہے، اب بھی ہے اور ان شاء اللہ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان کے مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ اسلام دشمن عناصر کا اثر و رسوخ ہے۔ انگریزوں کے دور سے ہی یہ اثر و رسوخ بہت حد تک موجود تھا بعد میں امریکیوں اور باقی مستکبر انتہا پسندوں تک یہ اثر و رسوخ پہنچ گیا۔ لہٰذا، اب جبکہ پاکستان میں اسلامی تحریک پھل پھول رہی ہے، اسے پیچیدہ مسائل کا بھی سامنا ہے۔ کہ جسے آپ اپنے تمام وجود کے ساتھ اس کو محسوس کر رہے ہیں اور ہم دور سے دیکھ رہے ہیں۔

۲ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 22:21
عون نقوی

انسان کو اللہ تعالی نے دو بہت اہم ترین قوتیں عطا کی ہیں۔

۱۔ شہوت کی قوت

۲۔ غضب کی قوت

اگر یہ دو قوتیں انسان کے قبضے میں ہوں تو انسان اپنے روح کی بہترین تربیت کر سکتا ہے۔ ان دونوں کا عقل کے تحت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر انسان سے یہ دو قوتیں کنٹرول نہ ہو پائیں تو سب سے پہلا کام جو یہ کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ روح کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ نتیجتاََ ہواۓ نفس انسان پر حاکم ہو جاتی ہے اور عقلِ انسانی اس بے لگام حاکم کی اسیر۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

کَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِیرٍ تَحْتَ هَوَی أَمِیرٍ.

بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہواؤ ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔(۱)

ایک اور حکمت میں ارشاد فرماتے ہیں:

الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لاَ دَارُ مَقَرٍّ وَ النَّاسُ فِیهَا رَجُلاَنِ رَجُلٌ بَاعَ فِیهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَ رَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا.

’’دنیا‘‘ اصل منزلِ قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے۔ اس میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خرید کر آزاد کر دیا۔(۲)

وہ انسان جس نے خود پر رحم نہیں کیا اور جہاد اکبر کے میدان میں نفسانی خواہشات نے اس کو چِت کر دیا در حقیقت اس نے خود کو شہوت اور غضب کا اسیر بنوا لیا۔ جب ایک انسان شہوت اور غضب کا اسیر ہو جاۓ تو پھر اس کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ اس کی شہوت اور غضب کی خدمت کرے گا۔ اس کے پاس جتنا عقل ہوگا اس کا صرف غلط استعمال کرے گا۔ ظاہر میں صاحبِ علم ہے لیکن علم سے صرف شہوت اور غضب کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ عقل کا استعمال کرتا ہے لیکن صرف اپنی شہوتوں کو پورا کرنے کے لیے عقل سے استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسانی معاشرے کو تباہ کرنا چاہے گا تو اپنے علم کی خدمات لے گا، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، عقلانیت اس کی صرف اس بات پر خرچ ہوگی کہ کیسے ایک انسانی معاشرے کو بمب سے اڑایا جاۓ؟ اس شخص پر غضب حاکم ہو چکا ہے۔ یہ حاکم جو کہتا جاۓ گا یہ اپنے علم اور عقل سے استفادہ کرتے ہوۓ مطیع غلاموں کی طرح اس پر عمل کرتا جاۓ گا۔ شہوت اور غضب کی قوت اس کو غلام سے غلام تر بناتی جاۓ گی ایک موقع پر یہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاۓ گا کہ اس کے راستے میں جو کوئی بھی آۓ گا اس کو ہٹا دے گا۔ حتی اللہ تعالی، اس کا نبی یا اس کا وصی۔ اپنی ہوا و ہوس کے آگے اگر خدا کی نہی آ جاۓ اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ کتنے ہی ایسے افراد تاریخ میں گزرے ہیں کہ انہوں نے صرف نبیؑ یا نبی کے وصی سے مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کو قتل کیا اور یہاں تک اکتفاء نہیں کیا بلکہ انبیاء کرامؑ کے حقیقی دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ہزاروں انسانوں کی گمراہی کا باعث بنے۔ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے خود کو شہوت اور غضب کا غلام بنا لیا۔

خود ابلیس کو دیکھ لیجیے، ابلیس کوئی معمولی شخصیت کا مالک نہیں تھا بلکہ یہ وہ تھا کہ جس نے چھ ہزار سال اللہ تعالی کی عبادت کی۔ امیرالمومنینؑ کی فرمائش کے مطابق معلوم نہیں یہ چھ ہزار سال دنیوی تھے یا اخروی؟ کیونکہ اگر قائل ہو جائیں کہ اخروی سال تھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اخروی ایک دن، دنیوی پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ البتہ خود امیرالمومنینؑ کے لیے تو یہ مسئلہ روشن تھا کہ یہ سال اخروی تھے یا دنیوی، لوگوں کے لیے یہ مسئلہ روشن نہیں۔ یہ عابد ترین شخصیت کا مالک موجود کیسے ایک منفور ترین شخص ہو گیا؟ جواب یہ ہے کہ جب اپنی شہوت کا غلام ہوا۔ جب تکبر اور لجاجت کی۔ اس نے کہا کہ میں بڑا ہوں، میرا نفس اور میرا وجود حضرت آدمؑ سے وسیع تر ہے۔ یہ میں اور نفس کی آواز اسے لے ڈوبی اور اس کی ہزار سالوں کی عبادت بھی ضائع ہو گئی۔ اس نے پہلے خود کو نفس کا اسیر بنایا اور پھر سب انسانوں کا ’’عدو مبین‘‘ بن کر سب انسانوں کو نفس کا اسیر بنانے میں لگ گیا۔(۳)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۱۱۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۳۳۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۵،۴۶۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 12:02
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

ہمارے یہاں بعض لوگ دین کو ایک ذاتی(personal) حد تک اور ایک ایسے رابطے کے طور پر مانتے ہیں جو صرف دل کی گہرائیوں میں انسان اور خدا کا آپس میں ارتباط ہے۔ دین کی سیاست میں دخالت، دین کی حکومت، اور لوگوں کی مدیریت کے لیے دین کو موزوں نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول ہم دین کے قائل ہیں لیکن یہ کونسا دین ہے اس کا نہیں علم! جس دین کی رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ کی اور اپنی تبلیغ کی ابتدائی ترین فعالیتوں میں، بعثت کے دوران جن شعاروں کو بلند کیا ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑ گئی، اور مدینہ جا کر نظام اسلامی ایجاد کیا۔ ورنہ جو رسول اللہ ﷺ نے شعار بلند کیے انکا  کوئی اور مطلب نہیں بنتا۔ سب سے پہلا شعار توحید کا شعار تھا وہ توحید کہ جس کی رسول اللہ ﷺ نے ترویج کی، یہ وہ توحید تھی جس نے معاشرے میں تبعیضی نظام کی نفی کی۔ یہ وہ توحید تھی کہ جس نے غلاموں کو اپنے آقاؤں کے خلاف کھڑا کر دیا، یہ وہ توحید تھی کہ جس سے باایمان اور پُر احساس نوجوان اپنے ہی باپ داداؤں کی غلط رسومات ، برے کاموں، اور انحرافی نظریات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ۔ یہ وہ توحید نہیں تھی جو دل کی گہرائیوں میں فردی اور قلبی عقیدہ ہے (کہ جس کے آج کل ہم مسلمان قائل ہیں۔) بلکہ یہ وہ توحید تھی کہ جس کا پرچم بلند کر کے اس کے نظام کے اندر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یعنی وہی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا دور۔ اس توحید نے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور وہاں جا کر توحید کے ذیل میں مسلمانوں نے اسلامی نظام تشکیل دیا۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے حکومت تشکیل دی، اب جو شخص کہتا ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ﷺ کے دین کو قبول کرتا ہوں، لیکن ان کی ہجرت، ان کی حکومت، ان کی ولایت، اور ان کے اقتدار کو قبول نہیں کرتا، نہیں معلوم اس نے اپنے دین کی کیسے توجیہ کی ہوئی ہے؟(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 December 21 ، 20:15
عون نقوی