بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

دین اسلام و مذہب شیعہ اور اسى طرح سے دنیا بھر کے ادیان و مذاہب نے اسى طرح سے ترقى کى ہے کہ شروع میں تو لگتا تھا یہ تحریک یا حرکت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دیکھتے ہى دیکھتے رہبران و پیامبران کى مقاومت و صبر و استقامت کے نتیجے میں وہ تحریک معاشرے میں پھیل جاتى۔

حضرت موسى علیہ السلام بھیڑ بکریوں کو چراگاہ لے جایا کرتے تھے کئى سال تک یہ کام انجام دیتے رہے اور جس دن فرعون سے مبارزہ کرنے پر مامور ہوۓ تو ان کا ایک یاور و مددگار بھى نہ تھا۔ لیکن اپنى صلاحیتوں اور استقامت سے موسىؑ اپنے ایک عصا کے ذریعے سلطنت فرعون کى بساط الٹنے میں کامیاب ہوۓ۔

اگر ہمارا کوئى یاور و مددگار نہ ہو اور فقط ایک لکڑى کا عصا ہاتھ میں ہو تو کیا ہم ایسا اقدام کرسکتے ہیں؟ جى نہیں !! لیکن اگر موسىؑ والى ہمت و استقامت و تدبیر پر چلیں تو یہ کام ناممکن سے ممکن ہو سکتا ہے۔ اسى طرح سے پیغمبر گرامى (ص) جب مبعوث ہوۓ تو آٹھ سالہ ایک بچے (امیرالمومنین ع) اور ایک خاتون( حضرت خدیجہ س) کے علاوہ ان پر کوئى ایمان لانے والا موجود نہ تھا اور ہم سب یہ بخوبى جانتے ہیں کہ انہوں نے کتنى اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا لیکن مایوس نہ ہوۓ اور کبھى بھى یہ شکایت نہ کى کہ میرا تو کوئى ساتھى بھى نہیں ہے۔ انہوں نے مقاومت کى اور اپنى عظیم معنوى قدرت و طاقت کى بنیاد پر رسالت عظمى کو احسن انداز سے نبھایا اور آج ان کى زحمتوں کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں آج بھى کروڑوں کى تعداد میں مسلمان موجود ہیں(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى رح ، ص ۱۰۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:55
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

یقینا یہ عاقلانہ تقاضا نہیں ہوگا کہ ہم تبلیغات کریں اور ہمیں فورى طور پر نتیجے میں حکومت اسلامى کى تشکیل کا موقع میسر ہو جاۓ۔ حکومت اسلامى کى تشکیل کى توفیق حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کى مثبت و تسلسل سے کى جانے والى فعالیت کى ضرورت ہے۔

یہ وہ ہدف ہے کہ جسے حاصل کرنے کیلئے ایک طولانى مدت چاہئے۔ دنیا بھر میں ایسا ہى ہوتا ہے کہ عقلاء عالم ایک سنگ بنیاد رکھتے ہیں کہ اس سے  دو سو سال بعد آنے والى نسلیں فائدہ اٹھائیں گى۔ ایک بادشاہ نے ایک بزرگ کو اخروٹ کاشت کرتے ہوۓ دیکھا تو اس سے پوچھا: اے بوڑھے آدمى !! تم وہ پودا کاشت کررہے ہو کہ یقینا وہ تمہارى زندگى میں تو تمہیں پھل دینے سے رہا۔۔ اس بزرگ آدمى نے جواب دیا: دوسروں نے بوۓ تھے ہم نے کھاۓ اب میں بو رہا ہوں کہ بعد والے کھا سکیں۔

اگر ہمارى فعالیتیں نسل آیندہ کے لئے بھى سود آور ہوں تو حتما انجام دینى چاہیئں ، کیونکہ یہى خدمت اسلام ہے اور انسانیت کى سعادت ہے۔ اور یہ ہمارا انفرادى کام تو ہے نہیں کہ کوئى کہے کہ مجھے تو اس سے فائدہ ہى نہیں ہونا تو میں کس لئے مشکل میں پڑوں؟ 

سیدالشھداء سلام اللہ علیہ نے بھى تو اپنى تمام مادى جھات کو ملاحظہ کیا ہوگا اگر اس قسم کے کسى تفکر میں پڑ جاتے تو شروع میں ہى بیعت کر لیتے اور کسى نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن امام علیہ السلام اسلام و مسلمین کے مستقبل کے لئے پریشان تھے۔ ان کا قیام اس لئے تھا کہ مستقبل میں اسلام انکى فداکارى اور جہاد سے دنیا میں منتشر ہو(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینى رح ، ص ۱۰۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:50
عون نقوی

آیت اللہ مصباح یزدى رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

ہمارا یہ نظام یعنی نظام اسلامی (ولایتِ فقیہ) ہزاروں انسانوں کی قربانیوں اور فدا کاریوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا اسلامی ہونا اس کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس نظام اسلامى کے برپا ہونے کے کئی عوامل ہیں جن کا محور اور مرکز اسلام ہے۔

اس کا ایک نظام کے طور پر باقی رہنا اس وقت  ممکن ہے جب اس کى اس خصوصیتِ (اسلام) کو باقی رکھا جائے ۔
 اسلامی نظام کے دو اہم ترین شعبوں کا اسلام کے عین مطابق ہونا ضروری ہے:

(۱) قانون بنانا
(۲) قانون کا عملی کرنا

ایک نظام کے اندرخصوصیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کو قبول کرنے والوں کے اندر یہ خصوصیت (یعنى اسلام کو محور قرار دینا) پائی جاتی ہو ۔ اگر خدا نخوستہ معاشرہ عقائد و افکار کو فراموش کردے اور عقائدى و نظریاتى انحراف کی طرف چلا جائے اور اسلامى اقدار آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے تو نظام اسلامی کی بنیادیں کمزور ہونا شروع ہوجائیں گی اور اس کی بقاء  کی کوئی  ضمانت نہیں ہو گی۔ ایسى صورت میں ممکن ہے نام تو اسلامی حکومت کا رہے لیکن حقیقت نظام اسلامی موجود نہیں ہو گى۔ ابتداء اسلامى میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے (جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ بھى ہے) کہ رحلت رسول اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ کے کچھ عرصہ بعد نظام الہی اور اسلامی حکومت طاغوت میں تبدیل ہو گیا، بنو امیہ اور بنو عباس کى سلطنتیں تشکیل پا گئیں اور اسلام صرف نام کا رہ گیا۔ (اس کى بنیادى وجہ) اسلامى عقائد میں انحراف کو برپا کر دیا گیا اور اسلامى اقدار کو ترک کر دیا گیا۔ ہمیں آغاز اسلام میں برپا ہونے والے حوادث و واقعات سے  عبرت حاصل کرنى چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ ولایت فقیہ پر اجمالى نظر، آیت اللہ مصباح یزدى، ص ۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:38
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

’’سیاست، اگر اخلاقیات سے جدا نہ ہو، اگر اسے معنویت سے سیراب کیا جاۓ، تو کمال کا ذریعہ ہے اور اس سیاست سے جو کوئی بھی روبرو ہوگا اسے یہ سیاست جنت کی طرف ہدایت کرے گی۔ لیکن اگر سیاست کو اخلاقیات اور معنویت سے الگ کر دیا گیا تو یہ سیاست ہر قیمت پر قدرت کو حاصل کرنے کا ایک وسیلہ بن جاۓ گی، وسیلہ بن جاۓ گی مال و متاع جمع کرنے اور اپنے دنیوی امور کو بہتر کرنے کا۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کے خطرات میں سے ایک خطرہ جسے بعض لوگ ہمیشہ اسلامی دنیا میں فروغ دیتے رہے ہیں، یہی ہے کہ جب سیاست کو دین سے الگ کیا جائے گا تو وہ اخلاقیات اور معنویت بھی سے الگ ہوجائے گی۔‘‘(۱)

اور خدانخواستہ اگر سیاست سے اخلاقیات اور معنویت کو نکال دیا گیا تو وہی ہوگا جو علامہ اقبالؒ نے فرمایا:

 

جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

 

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 January 22 ، 16:05
عون نقوی

رہبر انقلاب اسلامی نے 1 جنوری 2022 کی صبح شہید الحاج قاسم سلیمانی کی برسی کے پروگراموں کا انعقاد کرنے والی کمیٹی کے اراکین اور شہید کے اہل خانہ سے ملاقات میں صدق و اخلاص کو مکتب سلیمانی کا خلاصہ، مظہر اور شناخت بتایا اور خطے کے جوانوں کی نظر میں شہید سلیمانی کے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کر جانے کا حوالہ ہوئے کہا: عزیز قاسم سلیمانی، ایران کی سب سے بڑی قومی اور مسلم امہ کی سب سے بڑی 'امّتی' شخصیت تھے اور ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

     

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصّلاۃ والسلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطاہرین سیّما بقیۃاللّہ فی الارضین.

رحمت و رضوان خدا ہو ہمارے عزیز شہید پر! اس محترم عزیز کی شہادت کا واقعہ ایک قومی واقعہ بلکہ ایک عالمی اسلامی واقعہ بن گیا، اس وقت ان کی دوسری برسی ہے۔ لوگ اس طرح کے کام کر رہے ہیں اور میں اس عوامی مسئلے کی طرف واپس لوٹوں گا۔ درحقیقت ہم عوام کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ ہماری نشست، گفتگو اور اسی طرح کی دوسری باتیں اصل میں عوام کی اس جدت طرازی کی پیروی ہے جو پورے ملک میں انجام پا رہی ہے۔

میں نے ایک جملہ عرض کیا تھا اور کہا تھا کہ 'مکتب سلیمانی'(2) شہید سلیمانی ایک مکتب بن گئے یا پہلے سے ہی ایک مکتب تھے اور بحمد اللہ میں نے دیکھا کہ اس مکتب کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ میں نے ان کتابوں کو نہیں دیکھا تھا۔ ہم جس چیز کو مکتب سلیمانی کہتے ہیں اگر اس کو اختصار سے ایک دو جملے میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ یہ مکتب صدق و اخلاص کا مکتب ہے۔ یہ دو الفاظ درحقیقت، مکتب سلیمانی کا مظہر اور اہم خصوصیات ہیں۔ 'صدق' وہی چیز ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: "مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ"(3)۔ میں اس سلسلے میں مختصر تشریح پیش کرتا ہوں۔ 'اخلاص' بھی یہی ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں ہوا ہے، جیسے "قُل اِنّی اُمِرتُ اَن اَعبُدَ اللہَ مُخلِصًا لَہُ الدّین"(4) یہ دو قرآنی عناوین، شہید سلیمانی کے کام کے بنیادی عناصر تھے۔

یہ بابرکت عمل، کہ اس مرد کی پوری زندگی بھی بابرکت ہو گئی اور اس کی شہادت بھی - ہم ائمہ علیہم السلام کی زیارت میں عرض کرتے ہیں: "وَ قَبَضَکَ اِلَیہِ بِاختیارِہ وَ اَلزَمَ اَعداءَکَ الحُجَّۃ"(5) آپ کی جان کو خدا نے لیا، روح قبض کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس روح کا قبض ہونا اس بات کا باعث بنا کہ آپ کے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں پر حجت تمام ہو جائے؛ یہاں بھی ایسا ہی ہے؛ جان اللہ کے ہاتھ میں ہے، سبھی کو دنیا سے جانا ہے اور سبھی کسی نہ کسی طریقے سے دنیا سے جاتے ہیں؛ شہید بھی دنیا سے گئے - تاہم ان کی شہادت کی کیفیت نے دشمنوں اور سبھی دیکھنے والوں پر حجت تمام کر دی۔

خیر تو"صَدَقوا ما عاھَدُوا اللہَ عَلَیہ" کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہدف کے ساتھ، عہد الہی کے ساتھ اور اہداف کے ساتھ ہمارا رویہ سچا اور صداقت والا ہونا چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے؛ بہت سارے معاملوں میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری روش میں اسلام اور انقلاب کے اہداف کی پابندی میں ہماری صداقت میں لغزش ہوتی ہے۔ اس مرد نے حقیقی معنی میں صادقانہ طریقے سے کام کیا اور اپنی زندگی میں ہمیشہ اسی طرح عمل کرتے رہے، جہاں تک ہم نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور پہچانا ہے؛ چاہے وہ مقدس دفاع کے دوران ہو، چاہے مقدس دفاع کے بعد کا دور ہو قدس فورس کی قیادت سنبھالنے سے پہلے تک یا قدس فورس کی سربراہی کا دور ہو۔ اہداف کی راہ میں مجاہدت کی تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا، یہ "صادقانہ" کا معنی ہے۔

اسلام اور انقلاب کا وفادار رہنا؛ وہ اپنے پورے وجود سے اسلام اور انقلاب کے وفادار رہے، جو عہد انھوں نے خدا اور امام خمینی سے کیا تھا، اس کے وفادار رہے؛ ایرانی قوم اور امت اسلامی کے سلسلے میں ان کی جو ذمہ داری تھی، اس پر پوری درستگی سے عمل کیا اور اپنے پورے وجود سے اس کے وفادار رہے؛ ایرانی قوم کے سلسلے میں بھی جو ذمہ داری تھی اس کے بھی اور امت اسلامی کے سلسلے میں جو ذمہ داری تھی اس کے بھی وفادار رہے۔

کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ملت اور امت کو دو متضاد چیزوں کے طور پر پیش کریں، اس کام کی بنیاد، دشمن نے رکھی ہے اور وہ یہ کام کر رہا ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور ملک کے اندر بھی ہم کبھی کبھی دیکھتے ہیں کہ وہ غفلت میں اسی نہج پر سوچتے ہیں کہ کوئی شخص امت اسلامی کے لیے کام کرہا ہے تو لازمی طور پر وہ ایرانی قوم کے بارے میں نہیں سوچتا یا اس کے برخلاف۔ ہمارے عزیز شہید، شہید سلیمانی نے ثابت کر دکھایا کہ کوئی ملک کا سب سے قومی چہرہ بھی ہو سکتا اور ساتھ ہی ملک کا سب سے امّتی چہرہ بھی ہو سکتا ہے؛ وہ ایک ہی وقت میں سب سے بڑا قومی چہرہ بھی تھے اور سب سے بڑا امتی چہرہ بھی تھے۔

سب سے بڑا قومی چہرہ تھے؛ کیسے معلوم ہوا؟ ان کے جلوس جنازہ سے! انقلاب کے زمانے کے ان برسوں میں، جو بڑے بڑے اجتماعات کا زمانہ ہے، کروڑوں افراد کی شرکت سے شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ جیسا اجتماع کب ہوا ہے؟ یہ کون لوگ تھے؟ قوم، یہ قوم ہی تو ہے۔ قوم کی تصویر کشی تصورات میں نہیں کی جا سکتی، قوم ایک زندہ حقیقت ہے۔ کروڑوں لوگون نے شہادت کے بعد اس مرد کے جلوس جنازہ میں شرکت کی تو یہ سب سے بڑا قومی چہرہ ہے۔ سب سے بڑا امتی چہرہ بھی ہے، اس لیے کہ دو سال کے اس عرصے میں عالم اسلام میں ان کے نام اور ان کی یاد کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عالم اسلام میں لگاتار شہید سلیمانی کا نام اور شہید سلیمانی کی یاد دوہرائی جا رہی ہے، اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ اس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ حقیقت میں صدق کا مظہر تھے: صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔

جیسا کہ ہم نے قریب سے ان کے کاموں کو دیکھا ہے، وہ واقعی کوشش اور جدوجہد کا مظہر تھے؛ انتھک محنت، انتھک کام۔ کبھی وہ مثال کے طور کسی ملک میں جاتے اور واپس آ کر ہمارے لیے رپورٹ بھیجتے تھے، میں جب اس رپورٹ کو پڑھتا تھا تو حیرت میں پڑ جاتا تھا کہ اتنے زیادہ کام صرف کچھ ہی دن میں انجام پائے ہیں! میں نے ان رپورٹوں میں سے کچھ کے نسخے اپنے پاس رکھنے کے لیے، لے لیے ہیں؛ ان پر لکھ بھی دیا ہے کہ اسے میں اپنے پاس رکھوں گا تاکہ مستقبل میں اسے دیکھا جا سکے، یہ پتہ چل سکے کہ اس مرد نے کتنے کام کیے ہیں۔ اس وقت ان کی ایسی دو تین رپورٹوں کے کچھ نسخے میرے پاس ہیں۔ انتھک کام۔

شجاعت کے ساتھ؛ یعنی جو کام معمولی نہیں ہے اور اس میں شجاعت کی ضرورت ہے، بہادری کی ضرورت ہے اور جو عقلمندی پر منحصر ہے؛ شجاعت بھی اور عقلمندی بھی، دونوں ہی تحسین کی حد تک؛ تدبیر کے ساتھ۔ وہ دشمن کو بھی صحیح طریقے سے پہچانتے تھے اور دشمن کے وسائل کو بھی جانتے تھے؛ یعنی ایسا نہیں تھا کہ شہید سلیمانی کو دشمن کے ان وسائل کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا تھا جنھیں وہ استعمال کر سکتا تھا اور نقصان پہنچا سکتا تھا؛ وہ دشمن کے وسائل و ذرائع کو پوری طرح جانتے اور پہچانتے تھے لیکن اس کے باوجود پوری طاقت اور شجاعت کے ساتھ میدان میں آ جاتے تھے۔ انھیں دشمن سے خوف نہیں تھا مگر بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ راستے کا انتخاب کرتے تھے۔

میں نے ملک کے  بعض اعلی حکام کی موجودگی میں، جہاں خود شہید بھی موجود تھے، ان کی موجودگی میں بھی اور عدم موجودگی میں بھی، کئی بار یہ بات کہی کہ وہ تدبیر کے ساتھ کام انجام دیتے تھے۔ ان کی شجاعت کچھ الگ ہی تھی اور ان کے شجاعانہ کاموں کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کی زبانوں پر ہیں؛ وہ کام جو شہید سلیمانی تدبیر کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے، ان کے ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے! صدق یہ ہے؛ صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ کا مطلب یہی چیزیں ہیں۔

جہاں تک ان کے اخلاص کی بات ہے تو، (ہم نے کہا کہ) صدق و اخلاص، اگر اخلاص نہ ہو تو کام میں برکت نہیں ہوتی؛ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ کام میں برکت آ جاتی ہے، یہ اخلاص کی وجہ سے ہے۔ ان کے اخلاص کو کہاں سے سمجھا جا سکتا ہے؟ ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ نام و نمود کے بالکل بھی خواہاں نہیں تھے، ذرہ برابر بھی نام و نمود نہیں چاہتے تھے۔ وہ دیکھے جانے سے دور بھاگتے تھے اور اب ایسا ہو گیا ہے کہ پوری دنیا انھیں دیکھ رہی ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہ خدا کے لیے کام کرتے تھے، دکھاوا نہیں تھا، بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے تھے، ایسی باتیں کرنے سے دور رہتے تھے۔ ان کا پہلا دنیوی انعام جو خداوند عالم نے انھیں اس اخلاص کی وجہ سے دیا، ان کے جلوس جنازہ میں دسیوں لاکھ افراد کی شرکت تھی۔ یہ جلوس جنازہ دنیا میں ان کے اخلاص کا پہلا بدلہ تھا، آخرت کا اجر تو اپنی جگہ محفوظ ہے ہی۔ شہید سلیمانی کے نام کا، ان کی شخصیت کا،  ان کی یاد کا اور ان کے نام کا دنیا میں پھیل جانا، ان کی دنیوی جزا تھی۔ ان دو برسوں میں لاکھوں بار شہید سلیمانی کا نام لوگوں کی زبان پر، لوگوں کی تحریروں میں آیا ہے۔ اس سال بھی لوگ خود ہی ان کی برسی کے پروگرام  تیار کر رہے ہیں - میں نے کہا تھا کہ اس نکتے کی طرف لوٹوں گا - یہ اس عزیز کے اخلاص کی وجہ سے ہے۔

شہید سلیمانی آئیڈیل بن گئے؛ ایک بڑی نمایاں حقیقت یہ ہے کہ شہید سلیمانی ایک آئیڈیل میں تبدیل ہو گئے۔ آج عالم اسلام، خاص طور پر اس علاقے میں بہت سے جوان، میرے پاس جو اطلاع ہے وہ اس علاقے کی ہے، شہید سلیمانی جیسے ہیروز کی موجودگی کے خواہاں ہیں، آج وہ اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ سلیمانی کا نام اور ان کا ذکر جتنا زیادہ پھیل رہا ہے، اتنا ہی زیادہ ان جوانوں کی دلبستگی اور اپنے ملک میں اس طرح کے ہیروز کی موجودگی کے سلسلے میں ان کی تشنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج شہید سلیمانی ہمارے علاقے میں امید اور خود اعتمادی کا مظہر ہیں، شجاعت کا مظہر ہیں، استقامت و فتح کا استعارہ ہیں۔ یہ کام خدا کر رہا ہے؛ یہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں؛ ہم لوگ کسی بھی تدبیر سے اس طرح کا کام کرنا جانتے ہی نہیں ہیں۔ یہ خدا کے کام ہیں۔

کسی نے کہا تھا شہید سلیمانی اپنے دشمنوں کے لیے سردار سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں؛ وہ صحیح سمجھا تھا، واقعی ایسا ہی ہے۔ جن لوگوں نے دو سال پہلے شہید سلیمانی اور عزیز ابو مہدی کو اور ان کے دیگر ساتھیوں کو شہید کیا، وہ سوچ رہے تھے کہ کام ختم ہو گیا، سوچ رہے تھے کہ ہم نے انھیں مار دیا اور بات ختم، کام تمام ہو گیا۔ آج آپ ان کی حالت دیکھیے کہ وہ کس حالت میں ہیں؟ امریکا کی حالت دیکھیے! افغانستان سے اس طرح فرار ہوا ہے، عراق میں نکلنے کا دکھاوا کرنے پر مجبور ہے - البتہ ہمارے عراقی بھائیوں کو ہوشیاری سے اس معاملے پر نظر رکھنی چاہیے- امریکا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ میں اس کے بعد فوجی مشیر کا کردار ادا کروں گا؛ یعنی یہ ماننے پر مجبور ہوا ہے کہ وہاں وہ اپنی فوجی موجودگی نہیں رکھنا چاہتا اور نہیں رکھ سکتا۔ یمن کے مسئلے کو دیکھیے، لبنان کے معاملے کو دیکھیے۔

خطے میں سامراج مخالف مزاحمتی محاذ، آج دو سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ امید کے ساتھ، زیادہ نشاط کے ساتھ اور زیادہ رونق کے ساتھ کام کر رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ شام میں بھی یہ لوگ شکست کھا چکے ہیں، شام میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے؛ یہ اس عزیز خون اور مظلوم خون کی برکتیں ہیں۔

شہید کے حوالے سے کہا گیا کہ انھوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ جو شہیدوں کی زندگی گزارتا ہے، وہی شہید ہوتا ہے اور انھوں نے ویسی ہی زندگی گزاری؛ حقیقت میں شہید کی طرح رہے، شہیدوں والی زندگی گزاری۔ شہید کی بعض اخلاقی خصوصیات بھی قابل توجہ ہیں۔ میں اس وقت ایک کتاب پڑھ رہا ہوں، شہید کے اخلاقیات اور ان کی زندگی کے بارے میں، ان کے ایک پرانے دوست نے لکھی ہے، "وہ سلیمانی جنھیں میں جانتا ہوں"(6) میرے خیال سے ایسا ہی کوئی عنوان ہے۔ اس میں کافی دلچسپ باتیں ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے ایک شہید دوست کے نواسے کی سرجری ہونے والی تھی،(7) شہید اسپتال میں گئے اور جب تک آپریشن پورا نہیں ہو گیا، ٹھہرے رہے۔ اس بچے کی ماں نے کہا کہ جناب آپریشن پورا ہو گیا، آپ تشریف لے جائیے، اب آپ جا کر اپنے امور انجام دیجیے۔ انھوں نے کہا، نہیں! تمھارے والد، یعنی اس بچے کے نانا میری جگہ جا کر شہید ہوئے ہیں، اب میں ان کی جگہ یہاں کھڑا رہوں گا۔ وہ تب تک وہاں رکے رہے جب تک بچہ ہوش میں نہیں آ گیا، جب انھیں اطمینان ہو گیا تب وہاں سے گئے۔ شہداء کے اہل خانہ سے ان کا رویہ اِس طرح کا ہے، شر پسندوں اور تخریب کاروں سے ان کا رویہ الگ طرح کا ہے، ملک کے باہر ایک طرح کا، ملک کے اندر ایک طرح کا، کرمان کے جنوب میں اور جیرفت کے علاقے میں انھوں نے ان برسوں میں جو کام کیے وہ دوسری طرح کے،(8) جس طاقت کا انھوں نے مظاہرہ کیا اور جتنے ٹھوس اور بڑے کام وہ انجام دیتے تھے وہ ایسے تھے کہ جب وہ کہیں پہنچ جاتے تھے اور (دشمن) سمجھ جاتے تھے کہ وہ آ گئے ہیں تو ان کی آمد ہی فریق مقابل اور دشمن کے حوصلے کو پست کر دیتی تھی، زائل کر دیتی تھی۔

آج بھی دنیا کے سامراجی ان کے نام سے خوف کھاتے ہیں، ان کے تذکرے سے تھراتے ہیں؛ سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں دیکھیے - آپ کو تو مجھ سے زیادہ اطلاع ہوگی - شہید کے نام کے ساتھ ان کا کس طرح کا رویہ ہے؟ یہ بھی ایک انتباہ ہے، ہمارے اور ملک کے سائبر اسپیس کے شعبے کے عہدیداران کے لیے ایک اور انتباہ ہے کہ یہ سمجھیں کہ انھیں کیا کرنا ہے کہ دشمن اپنی مرضی مسلط نہ کر سکے، تو شہید کا نام پھیلنے اور ان جیسے مزید افراد کے سامنے آنے سے سامراجی خوفزدہ ہیں؛ آئیڈیل کا مطلب یہ ہے؛ وہ ڈرتے ہیں کہ ان جیسے اور نہ بن جائیں۔

بہرحال شہید سلیمانی لازوال ہیں، زندۂ جاوید ہیں؛ جن لوگوں نے انھیں شہید کیا - ٹرمپ اور اس جیسے افراد - ان کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہے اور وہ کوڑے دان میں تاریخ کے فراموش شدہ لوگوں میں ہوں گے لیکن شہید ابد تک زندہ رہیں گے؛ شہید ایسا ہی ہوتا ہے اور ان کے دشمن تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے، البتہ ان شاء اللہ اپنے دنیوی جرم کی قیمت چکانے کے بعد وہ ناپید ہو جائیں گے۔

آپ لوگ بھی، ان کے محترم اہل خانہ بھی، ان کے دوست اور ساتھ میں لڑ چکے افراد بھی اور جنرل قاآنی(9) بھی، جو بحمد اللہ بہت اچھی طرح سے کام کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، ان شاء اللہ آپ سبھی اس سمت میں آگے بڑھتے رہیے۔ خداوند عالم نے ہم سے فتح کا وعدہ کیا ہے: اِنَّ اللہَ یُدافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا(10) اس نے دفاع کا وعدہ کیا ہے۔ ہم خدا کے ارادے اور اس کے اہداف کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور قوم، اسلام کے لیے کام کر رہی ہے؛ یہ دفاع ہے، اس کے بعد نصرت اور مدد ہے: لَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہ(11) اِن تَنصُرُوا اللہَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم(12)

دعاگو ہوں کہ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب رہیں اور آپ کو توفیق حاصل ہوتی رہے۔ جن کاموں کا ذکر ان محترمہ (زینب سلیمانی) نے کیا، وہ اچھے کام ہیں؛ ان شاء اللہ یہ سب بہترین طریقے سے جاری رہیں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں شہید سلیمانی کی بیٹی محترمہ زینب سلیمانی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ، 17/1/2020

(3) سورۂ احزاب، آیت 23، مومنین کے درمیان ایسے مرد بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے گئے عہد کو سچائی سے پورا کر دکھایا،

(4) سورۂ زمر، آیت 11، (اے پیغمبر!) ان سے کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی بندگی کروں۔

(5) مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد 2، صفحہ 738

(6) 'حاج قاسمی کہ می‌شناسم' (وہ الحاج قاسم، جنھیں میں جانتا ہوں) حجۃ الاسلام علی شیرازی کی یادوں پر مشتمل کتاب۔

(7) رہبر انقلاب کا گریہ

(8) شہید سلیمانی، مقدس دفاع کے بعد کرمان، سیستان و بلوچستان اور ہرمزگان صوبوں کے فوجیوں پر مشتمل اکتالیسویں ثاراللہ بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے، ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں سیکورٹی قائم کرنے اور ان علاقوں کے شر پسند عناصر اور منشیات کے اسمگلروں سے لڑنے کے مشن کے ذمہ دار تھے اور وہ ان علاقوں میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

(9) آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر، بریگیڈیر جنرل اسماعیل قاآنی

(10) سورۂ حج، آیت 38، یقینا خدا، ایمان لانے والوں کا دفاع کرے گا۔

(11) سورۂ حج، آیت 40، اور یقینا خدا (اپنے دین کی) مدد کرنے والے کی مدد کرتا ہے۔

(12) سورۂ محمد، آیت 7، اگر تم خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدموں کو مضبوطی سے جما دے گا۔

 

 


آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 January 22 ، 21:07
عون نقوی