بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

انسان کو اللہ تعالی نے آزادی عطا کی ہے۔ اس آزادی کو حدود میں رکھنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مغربی مفکرین اور اسلامی مفکرین کا اتفاق ہے کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹا سا ادارہ بھی اگر آپ بنانا چاہیں اس کے اندر اگر قوانین حاکم نہ ہوۓ تو یہ ادارہ نہیں چل سکے گا۔ حتی معاشرے کی ابتدائی ترین اکائی خانوادہ بھی قانون کے بغیر نہیں باقی رکھا جا سکتا۔ مثلا اگر بچوں کے دین کا اہتمام نہ کیا گیا اور ان کو دینی محافل میں آپ خود نہ لے کر گئے، ان کی مادی ضروریات پوری کیں اور معنویت کی طرف توجہ نہ دی تو گمراہ ہو جائیں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ جبری طور پر بچوں کو دین کی طرف راغب کیا جاۓ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک ایسی صورت اختیار کی جاۓ کہ بچے فطرتی امور سے قریب رہیں اور معنویات کو قبول کرنے میں ہم ان کی معاونت کریں۔ پس قانون کی شکل میں یا ہدایت کی صورت میں ہمیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔

گزشتہ تحریر میں ہم نے بیان کیا کہ انسان کی سرکش طبع کی وجہ سے قانون کی ضرورت پیدا ہوئی اگر سب انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارتے تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہمیں فطرت کو ابھارنے کی ضرورت ہے یہی کام رسول اللہ ﷺ نے کیا جب مدینہ میں حکومت تشکیل دی تو مسلمانوں میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی۔ ابتداۓ اسلام میں ہم ان فطری امور کو بہت دیکھتے ہیں مثلا جنگ میں جب ایک پیاسے زخمی مسلمان بھائی نے دوسرے پیاسے بھائی کو دیکھا تو پانی پلانے والے کو کہا کہ اسے پانی پلاؤ بعد میں مجھے پلانا، یا مسلمانوں کا مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کو پیش کرنا اور ان کی مہمان نوازی یہ ایثار اور قربانی کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی فطرت کو ابھارا اور ان مسلمانوں نے یہ عظیم مثالیں قائم کیں۔ لیکن اگر انسان کو اس کی طبع کے میلان پر چھوڑ دیں تو یہی انسان سرکش اور طاغوت بن جاتا ہے۔

قانون کون بناۓ؟

ہم نے جان لیا کہ انسان طبیعی میلان بھی رکھتا ہے اور فطرت بھی۔ اس مقدمے کے بعد ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کی طبع کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ لیکن اساسی ترین سوال یہ ہے کہ قانون بناۓ کون؟ قانون الہی ہو یا بشری؟ ایک ادارے میں قانون بنانے ہیں ان کو کون وضع کرے؟ کیا ادارے کا مدیر قانون بناۓ یا ادارے میں کام کرنے والا؟ ایک معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت ہے، یہ قانون عوام بنائیں؟ سیاستدان بنائیں؟ کون بناۓ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ انسان عبد ہے اور عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔

قانون الہی ہونا چاہیے

قانون بنانے والے میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اور خود قانون میں کونسی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ پہلے سوال کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ قانون بنانے والے میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:

۱۔ عالم ہو جاہل نہ ہو۔

۲۔ قانون بنانے میں انصاف سے کام لے، کسی پر ظلم نہ کرے۔

۳۔ اپنے علم پر اسے یقین ہو، شکوک و شبہات یا احتمالات کی بنا پر قانون نہ بناۓ۔

۴۔ صاحب حکمت ہو، کوئی ایسا قانون نہ بناۓ جو بعد میں باعث نقصان ثابت ہو۔

دوسرے سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قانون کیسا ہو؟ اس قانون میں کونسی خصوصیات ہوں؟

۱۔ قانون سعادت مندی کا راستہ بتاۓ۔ قانون ایسا نہ بنایا جاۓ جو انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔

۲۔ قانون انسان کی نشو و نما کا باعث بنے۔ اس کی صحت و سلامتی کا ضامن ہو۔ 

کائنات میں ہمیں انسانوں اور باقی مخلوقات کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ کیا انسان اس کائنات کے بارے یا اپنے بارے میں اس مقدار کی وسیع معلومات رکھتا ہے کہ ایسا جامع اور کامل قانون بنا سکے؟ یعنی کیا انسان یہ سب جانتا ہے کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے؟ کس چیز سے کیا سلوک کرنا ہے اور کیا سلوک نہیں کرنا؟ حشرات، چوپاۓ، اور جانوروں سے کیا سلوک رکھے؟ دریا، سمندر، نباتات اور جمادات سے کیا تعلق واسطہ رکھے؟ کونسی چیز اس کے لیے مضر ہے اور کونسی مفید؟ کیا انسان ان سب کے بارے میں ان سب خصوصیات کو رکھتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں کہ قانون بنانے والے میں یہ خصوصیات ہونی چاہیئں؟ کیونکہ اگر کوئی ذات یہ خصوصیات نہیں رکھتی، قانون کو علمی بنیادوں پر نہیں بنا سکتی، قانون کو شکوک و شبہات اور احتمالات کی بنیاد پر بناتی ہے تو اس ذات کو قانون بنانے کا کوئی حق نہیں۔ اگر اس نے قانون بنایا بھی تو وہ انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ گا۔ صرف ایک ذات ہے جو ان سب خصوصیات کی مالک ہے اور وہی ذات ایسا قانون بنا سکتی ہے جو سعادت مند بھی ہو اور انسان کے لیے نفع بخش۔ اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔

اس لیے قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ.(۱)

اس برہان کے تحت ہم کہتے ہیں کہ قانون صرف الہی ہونا چاہیے۔

بشری قانون کی ممانعت

انسان اور جہان تکوین کے مقام، اور اپنی ہستی کے وجود میں اللہ تعالی کے عبد ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان قانونگذاری میں بھی اللہ تعالی کا عبد ہے۔ انسان چار پہلو رکھتا ہے اور چاروں پہلوؤں میں اللہ تعالی کا محتاج ہے۔

۱۔ انسان کی ذات

۲۔ انسان کی صفات

۳۔ انسان کا فعل

۴۔ انسان کے فعل کا اثر

انسان اپنی ذات اور صفات میں خدا کا محتاج ہے اگر خدا نے اسے وجود نہ دیا ہوتا تو اس کی ذات نہ ہوتی، خدا نے اسے وجود دیا اور بعد میں اسے اعلی انسانی اوصاف سے نوازا۔ انسان فعل انجام دینے اور اس فعل کے مؤثر ہونے میں بھی خدا کا محتاج ہے۔ جب انسان ان سب چیزوں میں محتاج ہے تو وہ کیسے سعادت مند قانون بنا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک جتنے بھی بشر نے قانون بناۓ چند سالوں میں ہی ان کا مضر ہونا سب پر عیان ہو گیا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب جب بھی کوئی قانون بناتا ہے تو خود پچاس سال بعد اس کو خود باطل کر دیتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ یہ غلط ہوا۔ یعنی تین چار نسلیں تباہ کر کے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ ضروری ہے کہ ایسے قانون کو معاشرے میں حاکم کیا جاۓ جو کامل ہو اور جامعیت رکھتا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی معاشروں میں قانون اور نظام ان افراد کا بنایا ہوا ہے جو اصلا الہی قانون کے قائل نہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی نظام فرانس کا دیا ہوا، عدالتی نظام برطانیہ کا دیا ہوا، اور تعلیمی نظام بھی انہیں مغربیوں کا دیا ہوا۔ 

عالم تشیع میں قانون

اگر شیعہ دنیا میں دیکھا جاۓ تو شیعہ نے جزئیات اور انفرادی دنیا کے لیے تو الہی قانون کو تسلیم کیا۔ آج بھی پوری دنیا میں مجتہد کا فتوی شیعہ تسلیم کرتا ہے چاہے وہ مغرب زمین کا شیعہ ہو یا مشرق زمین کا۔ اگر معاملہ زندگی کے جزئی معاملات کا ہے، عبادات کا یا بالفرض طلاق اور نکاح کا تو یہاں پر ہم فتوی کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں پر واضح رہے کہ فتوی سے مراد فقیہ کی اپنی مرضی نہیں کہ اس نے یہ بات پسند کی ہے تو ہم بھی مان لیں۔ فتوی سے مراد ایک فقیہ کا قرآن و روایات سے ایک فقہی مسئلہ استخراج کرنا ہے نا کہ اس کی اپنی بات۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ فتاوی کا اثر انسان کی اجتماعی زندگی سے زیادہ انفرادی زندگی سے مربوط ہے۔ لیکن یہ وہ چیز نہیں جو یہاں ہمارے مدنظر ہے اور اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اجتماعی طور پر الہی قانون کو مانا جاۓ اور اس کے مطابق زندگی گزاری جاۓ۔ یعنی ہمارے سیاسی، عدالتی، تعلیمی، اقتصادی اور دفاعی نظام الہی قانون کے مطابق ہوں۔(۲)

آخر میں یہ سوال ابھار کر تحریر کو ختم کیا جا رہا ہے کہ کیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے؟ یعنی اگر الہی قانون موجود ہو لیکن اس قانون کو لاگو کرنے والا نہ ہو تو کیا صرف قانون کا ہونا کفایت کرے گا یا قانون کو نافذ کرنے والا بھی ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب آئندہ تحریروں میں پیش کیا جاۓ گا؟

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ انعام: ۵۷۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۳تا۵۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 22 ، 21:37
عون نقوی

تشکیل حکومت و قانون سازی

اسلام نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھایا ہے۔ اس آزادی کو حاصل کر لینے کے بعد انسان غیر خدا سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور یہی تحفہ ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیا اور تمام انبیاء الہی کا پیغام بھی تھا۔ آج مغربی مفکرین اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح ایک شخص نے ایک دور افتادہ منطقہ بنامِ عرب جہاں منتشر قبیلوں میں زندگی گزارنے والے افراد مقیم تھے، ان کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا قائل کر لیا گیا؟ اور ان پر حکومت قائم کی گئی۔ ایک امت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو حقیقی آزادی میسر کی۔ وہ لوگ جو آپس میں لڑتے جھگڑتے اور خواہشات نفسانی کے اسیر تھے ان کو ایمان کی قوت سے سرشار کیا۔ اس قوت سے معنوی آزادی دی تب جا کر امت بنے۔ رسول اللہ ﷺ نے امت بنا کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ پھر بھی طبع انسانی کو مدنظر رکھتے ہوۓ قانون بنایا۔ نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے حکومت قائم کی۔

اس مختصر مقدمے کے بعد جب ہم نے مان لیا کہ انسان کو آزادی حاصل ہے اس کے بعد عقل حکم کرتی ہے کہ بہرحال معاشرے کو قانون کی بھی ضرورت ہے۔ معاشرے کو کسی ایسے امر کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کا نظم و ضبط قائم رہے۔ انسان کو ہر صورت میں قانون کی ضرورت ہے چاہے یہ قانون اس کی آزادی کو ایک حد تک محدود بھی کیوں نہ کردے پھر بھی اس کو قانون کی ضرورت سے مستثنی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

قانون کی ضرورت

مغربی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے افراد کنٹرول میں رہتے ہیں اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہوتا ہے۔ خود قانون کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قانون آزادی اور نظم کے لیے ضروری ہے۔ یعنی اگر قانون کے بغیر یہ سب ممکن ہو جاۓ تو ویاں پر اصلا قانون کی ضرورت نہیں۔ در اصل ان کے بقول اگر نفسِ انسان سرکشی کرتا ہے یا انفرادی طور پر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے ہمیں کیا؟ سرکشی صرف اس وقت قبیح ہے جب کسی دوسرے انسان کی حریم میں داخل ہوا جاۓ۔ اسلامی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے اس کی سرکش طبع کی وجہ سے،  اگر سارے انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا اس کی طبع کی طرف رججان زیادہ ہے جو اسے سرکشی کی طرف راغب کرتی ہے جس کی وجہ سے قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ معاشرے کو قانون کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ انسان کی طبع ’’استخدام گر‘‘ ہے۔(۱) استخدام گر سے مراد یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی خدمت کریں، دوسرے اس کا مفاد پورا کریں۔ لوگوں سے اپنی ضروریات پورا کروانا چاہتا ہے ہر قیمت پر۔ مانتے ہیں کہ انسان فطری طور پر موحد ہے اور عبودیت کو قبول کرتا ہے لیکن اس کی طبع استخدام گر ہے۔ انسان کو اگر ’’طین‘‘ کی جہت سے دیکھیں تو طبیعی صبغہ رکھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ.

میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔(۲)

لیکن اگر انسان کو اس کی روح کی جہت سے دیکھا جاۓ تو فطری صبغہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ.

اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں۔(۳)

انسان اپنی فطرت کی اساس پر ایک ایسا عالم، عارف ہے جو قسط و عدالت کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اپنی طبیعت کی اساس پر استخدام گر اور مفاد پرست ہے۔ انسان کا عالمِ طبیعت سے رابطہ محسوس اور نزدیک ہے لیکن عالمِ فطرت سے انس تقریبا دور کا ہے۔ اگر اسے طبیعت کی اساس پر چھوڑ دیا جاۓ تو دوسروں کو اپنا غلام بناتا جاۓ گا۔ جتنی زیادہ ضروریات پورا کرتا جاۓ گا پھر بھی محسوس کرے گا کہ ابھی بھی کم ہے۔ ہر شخص پر ہاتھ ڈالے گا، ہر زمین کو اپنی مالکیت میں لانا چاہے گا اور ہر لذت کا مزہ چکھنا چاہے گا مگر یہ کہ کوئی چیز اس کی توان سے باہر ہو۔ انسان کی طبیعت کبھی بھی راضی نہیں ہوتی حتی کرہ ارض اس کے اختیار میں دے دیں تمام چرند پرند پر حاکم کر دیں۔

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی انسان کی مذمت وارد ہوئی ہے وہاں پر دراصل انسان کی اسی سرکش طبع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر اس انسان کا دوسروں پر اختیار ہو تو فرعون بن جاتا ہے اور ’’انا ربکم الاعلی‘‘(۴) کا دعوی کرتا ہے۔ اس مقدمے کو جاننے کے بعد اگر کوئی انسان کہے کہ ہمیں کسی قانون اور نظم و ضبط کی ضرورت نہیں تو یقینا اس کی بات کو رد کیا جاۓ گا۔ بہرحال آپ کو قانون بنانے اور اس کے مطابق سب کو زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہوگا ورنہ طبیعت انسان معاشرے کے امن کو نابود کر دے گی۔ انسان کو ہم اس وقت انسان کہیں گے جب اس کی زندگی بقیہ مخلوقات مثلا پیڑ پودے یا چوپاؤں سے جدا ہو۔ انسان اس وقت انسان ہے جب اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ ارتباط اور ہماہنگی ہو۔

پس یہاں پر واضح ہو گیا کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ قانون اس لیے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے حقوق کو پائمال نہ کرے۔ قانون اس لیے کہ کوئی اپنی بات دوسرے پر نہ ٹھونس دے۔ اگر یہ قانون معاشرے میں حاکم ہو گیا تو نظم پیدا ہوگا جس سے انسان کی اجتماعی حیثیت ظہور کرے گی۔ اجتماعی زندگی شروع ہوگی اور حیوانی اور نباتی زندگی سے ممتاز ہو جاۓ گا۔

قانون کی خصوصیات

اب جبکہ ہم نے مان لیا معاشرے کو قانون کی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوگا کہ قانون کیسا ہو اور قانون بنانے والا کون ہے؟ جامع اور کامل قانون وہ قانون ہے جس میں انسان کی ہستی کی تمام جہات کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اس قانون میں انسان کی استعدادوں کو شکوفا ہونے کے لیے مکمل طور پر اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر قانون میں انسان کی ایک جہت (طبع) کو ملاحظہ رکھا گیا لیکن دوسری جہت (فطرت) کو ملاحظہ نہیں رکھا گیا تو یہ قانون جامع نہ ہوگا۔ اگر انسان کی اخلاقی اور اعتقادی ابعاد کو قانون میں ملحوظ نہ رکھا گیا یہ قانون انسان کی سعادت کے لیے ناکافی ہے۔ آج جس مصیبت کا شکار ہمارے معاشرے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ معاشروں پر ایسے قوانین حاکم ہیں جو جامع نہیں۔ اگر قانون میں اخلاق اور عقائد شامل نہ ہوں جو انسان کی سرکش طبیعت کو تعادل میں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں، تو یہ معاشرہ ممکن نہیں ہرج و مرج سے امان میں ہوں۔ اس معاشرے میں پھر انسانوں کی شکل میں حیوان گھومیں گے جو سرکشی اور تجاوز کرنا جانتے ہیں اور بس۔ قرآن کریم میں انہیں کے بارے میں فرمایا ہے:

 اِنۡ همۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ همۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا.

یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔(۵)

یہاں پر جن انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا گیا ہے یہ وہ ہیں جو سرکش اور متجاوز ہیں۔ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، عین اس جانور کی طرح جس کو علم نہیں کہ یہ گھاس اس کا ہے یا کسی اور کا؟ البتہ اس انسان کو علم ہوتا ہے کہ کونسی چیز اس کی اپنی ہے اور کونسی چیز دوسرے کا مال ہے لیکن پھر بھی اس کی طرف بڑھتا ہے اور تجاوز کرتا ہے۔(۶)

 


حوالہ جات:

۱۔ طباطبائیؒ، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۱، ص۱۵۵۔

۲۔ ص:۷۱۔

۳۔ ص: ۷۲۔

۴۔ نازعات: ۲۴

۵۔ فرقان: ۴۴۔

۶۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۰تا۵۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 22 ، 19:26
عون نقوی

یہ سنہ 2011 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے  جب  مغربی ایشیا میں   بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل  پر واقع  ایک ملک، شام کے کچھ شہروں میں جنگ کے شعلے آہستہ آہستہ بھڑکنے لگے۔

ان دنوں ایک دہشت گرد گروہ کو یہاں  منڈلانے کا موقع ہاتھ آگیا اور اس نے بے گناہ لوگوں پر وحشیانہ حملے کرنا شروع کر دئے۔ داعش، ’’ عراق اور شام کی اسلامی حکومت کا مدعی  گروہ، ایک ملعون شیطانی شجرہ ‘‘ہے جس نے اسلامی دنیا میں آگ لگانے کی غرض سے، شام اور عراق کو شدید بحرانوں میں ڈال دیا وہ  ان پر حاوی ہونے کے بعد خطے میں دوسرے مذموم مقاصد بھی  حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔  لیکن خلافت کا یہ خواب بہت جلد  ادھورے خواب میں تبدیل ہو گیا۔

’’حقیر کو اس میدان میں حضرت عالی کی طرف سے  ایک سپاہی کے طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ  داعش کے آخری گڑھ ’’بوکمال ‘‘ کی آزادی کی کارروائی کی تکمیل  کرکے ،اس امریکی - صیہونی گروہ کا جھنڈا  گراکر شامی باشندوں کا پرچم بلند کرکے اس ملعون شیطانی شجرے  کے تسلط کے خاتمے کا اعلان کر دوں۔‘‘

سات سال کے بعد، 21 نومبر 2017 کو، جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم انقلاب کو خطاب کرتے ہوئے ایک خط لکھا، جس میں رسمی طور پر داعش کی حکمرانی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ جنرل ہےجس کی سات سالہ جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں تھی یہاں تک کہ  دشمنوں نے بارہا ان کی تعریف کی تھی۔ دنیا کو اپنا وطن سمجھنے والا سرفروش، جس کے ذہن میں  عظیم اہداف تھے  اور  پوری دنیا  سے  ظلم کا خاتمہ کردینا چاہتا تھا۔۔

اس نے بچپن سختیوں میں گزارا، والد ایک مزدور تھے جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ لہذا زندگی کے ابتدائی برسوں سے ہی غربت اور فقر کا مزہ چکھ لیا تھا۔ وہ پانچ سال کی عمر میں  ہی چرواہے بن گئے، پوشاک میں سال میں دو جوڑے پرانے کپڑے اور دو جوڑے ربڑ کے جوتے تھے۔ اسی طرح وہ بھیڑ بکریاں چراتے رہے اور خود ان کے بقول کسی چیز  سے  نہیں ڈرتے تھے۔ اپنی ڈائری میں وہ ان دنوں کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں سردیوں کے موسم میں ان بھیڑیوں کے خوف سے بے پروا  جو بھیڑ بکریوں کی کمین میں چھپے بیٹھے رہا کرتے تھے ، پہاڑی بادام کے جنگلوں میں چلا جایا کرتا تھا۔‘‘ لیکن کبھی کبھی اسی آنے جانے کے درمیان پھٹے جوتوں سے پیروں کی انگیاں  باہر نظر آنے لگتی تھیں جو پتھر سے ٹکرانے کی وجہ سے خون لہولہان ہو جایا کرتی تھیں۔

پندرہ سال کی عمر میں اپنے والد کے قرض کی ادائگی کیلئے شہر پہنچے۔ پہلی بار اپنی آنکھوں سے موٹرگاڑیاں دیکھیں اور تمام شہری کششوں اور خوبصورتیوں کے درمیان،  وہ خود کو اجنبی اور تنہا محسوس کرتے تھے۔ لیکن ہار نہیں ماننا تھی۔ بہر صورت اپنے لئے کوئی نوکری تلاش کرنی تھی۔ چھوٹے قد اور دبلے پتلے جسم  کی بنا پر مالکان کام دینے سے منع کر دیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں: "میں نے ہر دوکان،  کیفے، رستورینٹ  اور ورکشاپ پر دستک دی اور پوچھا، ’’کیا یہاں کوئی کام مل سکتا ہے؟‘‘ سب میرے چھوٹے قد اور نحیف جسم کی طرف نگاہ کرتے اور منع کر دیتے تھے۔‘‘

لیکن اُس نوجوان کے لئے کوئی راستہ بند نہیں تھا۔ اصرار اور التماس نے اپنا کام کر دکھایا۔ بالآخر  ایک زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے  راجگیر کی  نگاہ توجہ ہو گئی اور اس نے  اینٹیں ڈھونے کے لئے رکھ لیا۔ وہ ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام تھا اور اگرچہ کام کرتے ہوئے اکثر  اُن کے ہاتھ زخمی ہو جایا کرتے تھے لیکن ہفتہ  کے آخر میں جب اجرت ملتی تو بدن کی ساری تھکاوٹ دور ہو جایا کرتی تھی۔ کہتے ہیں: "میں نے ایک چھوٹا 'مینو بسکٹ کا پیکٹ' دو ریال میں خریدا اور پانچ ریال دیکر چار عدد کیلے  لئے۔ بہت مزہ آیا۔ ساری تھکن میرے جسم کی نکل گئی۔ پہلی بار میں نے کیلا کھایا تھا۔‘‘ چھ مہینوں کے بعد، آخرکار اُس نوجوان نے اپنی ضرورت کی رقم اپنے گھر والوں کو گاؤں بھیج دی اور پھر دوسری نوکریاں بھی کیں۔

سب سے اہم سرگرمیوں میں سے جو انھوں نے اپنی نوجوانی  سے پوری  سنجیدگی سے جاری رکھی  مارشل آرٹ اور اکھاڑے کی کسرت کی مشق تھی، اس طرح کے کھیل  کود نے میرے مذہبی رجحان پر بہت گہرا اثر ڈالا اور ایک سب سے اہم عنصر جس نے مجھے جوان ہونے کے باوجود اخلاقی بدعنوانیوں سے دور رکھا تھا۔ یہی وہ  کھیل تھے، خاص طور پر قدیمی کھیل جو اخلاقی اور مذہبی بنیا دیں رکھتے تھے‘‘۔ ان تمام کوششوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے وہ 21 سال کی عمر میں ایک پیشہ ور کھلاڑی اور بہت تندرست بن گئے۔

جوانی  کا دور  ایران میں شہنشاہی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر جاری جدوجہد کے ساتھ  گزرا، اور ان ہی  دنوں اُنھوں نے میں جو دوست بنائے  ان کی بدولت امام خمینی ؒ سے آشنا ہوئے اور  اس آشنائی نے ان کے ذہن کو امام خمینیؒ کی شخصیت سے  زیادہ  متاثر  اور شیدا ہونے کا موقع فراہم کیا اور اسی حوصلے ک ساتھ میدان انقلاب میں انھوں نے بہادری سے حصہ لیا۔  اگرچہ بعض اوقات شاہی انٹیلیجنس کے ایجنٹوں کے چنگل میں بھی پھنسے اور پٹائی بھی کھائی، لیکن جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : "میں درد کی شدت  سے تین دن تک ہل بھی نہیں سکتا تھا؛ لیکن  خود میں  نئی توانائی محسوس کرتا تھا۔ پٹائی   اور تشدد کا خوف ختم ہو گیا اور سوچتا تھا کہ جو کچھ بھی  ہونا ہے ہونے دو!‘‘

فروری 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، وہ کرمان  میں سپاہ پاسداران انقلاب (انقلابی  گارڈز) کے اعزازی رکن بن گئے اور  دو سال بعد ایران کی سرزمین پر عراق  کی  مسلط کردہ  جنگ کے آغاز  میں ، انھوں نے  فوجیوں کی جنگی تربیت شروع کر دی۔ اس کے بعد وہ کرمان ڈویژن کے کمانڈر مقرر ہوئے اور کئی  آپریشنوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک کمانڈر تھے، لیکن ماتحت فوجیوں کے ساتھ ان کے تعلقات افسر اور ماتحت جیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان سے ایک دوست کی طرح  محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے ایک جنگ کے ساتھی نے ان کی یوں توصیف بیان کی ہے: "حاجی قاسم ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جو پہلے خود  آگے بڑھ جاتے تاکہ ان کے زیر کمان فوجیوں کو یہ محسوس ہو کہ وہ ان کے لئے ڈھال اور حفاظتی سپر ہیں۔ یہ چیز افواج میں خود اعتمادی، ہمت اور بہادری پیدا کر دیتی تھی ، وہ کسی بھی بند کو توڑ سکتے ہیں۔ ’’جب کمانڈر وہی لباس پہنتا ہے جو  سب کے سب پہنتے ہیں، وہی کھانا کھاتا ہے جو سب کے سب کھاتے ہیں، تو وہ  ہر دلعزیز ہو جاتا ہے اور آیت  «اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ ‏رُحَماءُ بَینَهُم»  کی واضح مثال بن جاتا ہے کہ وہ  میدان جنگ میں  دشمن کے خلاف سخت  اور  اپنے ساتھیوں کے  نہایت ہی  ہمدرد و رفیق ہیں۔۔۔

انھوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک رکھا تھا۔  بے شمار مصروفیات نے انھیں اپنے خاندان کی ضروریات سے غافل کیا، نہ ہی ان سے محبت میں کمی کا سبب بن سکیں۔ ان کے بھائی ان کے بارے میں کہتے ہیں: "میرے بھائی اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور  اہل بیتؑ کے حقیقی عقیدتمندوں کی طرح ان کی پرورش کی  ہے، حالات حاضرہ  اور اس کے مسائل  کے سلسلے میں بہت حساس تھے، یہاں تک کہ  تعلیم کے دوران ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی  کے اعلی درجات تک، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم سال میں دو بار بچوں کے اسکول خود جائیں اور اُن  کے تعلیمی حالات سے باخبر رہیں، اسی طرح ہمیشہ اپنے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش میں رہتے تھے کیونکہ وہ  خدا کی خوشنودی  اور رضا ، ان کی خوشنودی اور رضا میں ہی سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنے والدین کا احترام کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔"

عراق  کی جانب سے  مسلط کردہ  جنگ کے خاتمے اور لبنان سے صیہونی افواج کے انخلاء نے خطے کی  استقامت  میں نئی ​​جان ڈال دی تھی۔ لبنان میں سید حسن نصراللہ کی قیادت  اور عماد مغنیہ کی  سپہ سالاری میں حزب اللہ  کو استحکام  حاصل ہوگیا تھا اور طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا،  لیکن جولائی 2006 میں اسرائیل نے اچانک ہی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بڑے ہی وسیع پیمانے پر حملے  کا فیصلہ کیا کہ اس تحریک کو ختم کر دے۔ یہی وہ وقت تھا جب سخت محاصرے اور خطروں کے باوجود وہ لبنان پہنچ گئے اور میدان میں  اُتر کر  وہاں موجود کمانڈروں اور مجاہدوں کو ضروری معلومات  و مہمات پہنچائیں۔

سید حسن نصراللہ  ۳۳؍ روزہ جنگ کے سلسلے میں کہتے ہیں: ’’جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی حاج قاسم کی لبنان میں موجودگی، بہت ہی حیات آفریں  اور اہم تھی۔ وہ چاہتے تو لبنان نہ آتے تہران میں رہ کر ہی  جنگ کی حالات کو فالو کرتے رہت یا یہ کہ دمشق جاکر جنگ کے حالات کا ہم سے  زیادہ قریب سے جائزہ لے سکتے تھے، اُس زمانے میں  دمشق  کو صیہونی حکومت کی طرف سے کسی حملے اور جارحیت کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا،  لیکن حاج قاسم نے لبنان آنے پر اصرار کیا تھا‘‘۔

پانچ سال بھی جب شام میں داعش کا منحوس وجود سامنے آیا تو اُن کی عسکری فراست  اور ذہانت، جس کے تحت ایران کی قدس فورس کی کمانڈ انھیں تفویض کی  گئی تھی کام آئی اور انھوں نے، دہشت گردوں کو مزید  آگے بڑھنے سے روک دیا اور  جب وہ ایک کمانڈر کے چالیسویں کی مجلس میں  تین مہینے کے اندر  داعش کے ٹھکانوں کو  نابود کر دینے  کا وعدہ کر رہے تھے تو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ 59 دن بعد ہی  وہ  اور ان کی زیرکمان فوجیں، بوکمال  آپریشن میں  دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے پر فتح حاصل کرلیں گے اور وہ ہمیشہ کے لئے عراق اور شام پر مسلط داعش کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے۔  وہ تسلط جو امریکہ جیسے ممالک کی مالی امداد اور سہولت کاری کے تحت حاصل ہوا تھا اور جس کو باقی رکھنے کے لئے امریکیوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود ، خدا کے لطف  اور استقامتی  قوتوں کی مزاحمت  کے تحت اس گروہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

آخر کار،  3 جنوری 2020 جمعہ کی صبح کو  بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب، جب وہ عراق کی عوامی فوج کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس  اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایک مشاورتی مشن کی انجام دہی کے لئے عراق پہنچے ہوئے تھے، بر سر اقتدار امریکی صدر  ٹرمپ کے حکم پر، دہشت گردانہ حملے میں انھیں نشانہ بنایا گیا اور اسلام کا عظیم اور قابل فخر سپاہی  شہید ہو گیا۔ دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے خلاف میدان جنگ میں برسوں کی مخلصانہ اور دلیرانہ جدوجہد اور  خدا  کی راہ میں میں شہادت کے لئے برسہا برس کی تڑپ نے آخر کار اُنھیں اُس بلند مقام پر فائز کر دیا اور ان کا پاکیزہ خون شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہایا گیا۔  ایک ایسا شخص جو  ہر  وقت اور  ہر جگہ  اپنی ذمہ داری ادا کرنے  کی کوشش میں  لگا رہا،  خواہ میدان جنگ  کا اگلا محاذ  ہو یا قدرتی آفات کے دوران، سیلاب  سے متاثر افراد کی امداد کا مرحلہ ہو،  یا پہاڑوں اور صحراؤں میں بھیڑ بکریوں کو چرانے کا کام ہو۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 January 22 ، 19:39
عون نقوی

اسلامی نظام حکومت میں دو امر اہمیت کے حامل ہیں:

۱۔ حاکم کا سادہ زندگی گزارنا
۲۔ عوام کی حاکم تک رسائی

خلیفہ دوم نے اپنے دور خلافت میں ایک بار شام کا سفر کیا اس دوران شام کی حاکمیت معاویہ کے ہاتھوں میں تھی۔ جب خلیفہ دوم نے امیر شام کی وضعیت کو ملاحظہ کیا اور دیکھا کہ اتنے نوکر چاکر ، قصر کی تزئین و آرائش، اور یہ سب تکلفات ، تو معاویہ سے پوچھا۔ یہ سب کیا ہے ؟ تو معاویہ نے جواب دیا:
ہم ایسی سرزمین پر رہ رہے ہیں کہ جہاں دشمن کے جاسوس ہمارے درمیان موجود رہتے ہیں اس لئے ہمیں ضرورت پڑتی ہے کہ اپنی سلطنت کی عظمت و شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں تاکہ ہمارے دشمن ہم سے ہراساں و خوفزدہ رہیں۔ کہتے ہیں کہ امیر شام کی اس توجیہ سے خلیفہ دوم بہت متاثر ہوۓ اور اس دن سے اسلامی ریاست میں اشرافی گری نے زور پکڑا۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج١، ص۲۵۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 13:12
عون نقوی

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ

جو ولایت دین و قوانین و شریعت کے جارى کرنے میں رسول اکرم (ص) یا امام على (ع) کو حاصل ہے وہى ولایت ایک ’’فقیہ’’ کو بھى حاصل ہے ہمارى اس سے مراد فقط اجراء و حدود ہے نہ کہ اس سے مراد مقام و منزلت ہے۔ یعنى جس طرح سے ’’حدود جاری کرنے میں" جو ولایت رسول اکرم (ص) کو حاصل ہے وہى ایک فقیہ کو بھى حاصل ہے یعنى ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ایک زانى پر حد جارى کرنى ہے تو فقیہ پچاس کوڑے مارے گا ، امام على (ع) سو کوڑے اور اگر خود رسول اکرم (ص) ہیں تو وہ ایک سو پچاس کوڑے ماریں۔ کوئى یہ نہیں کہہ سکتا چونکہ رسول خدا (ص) سب سے عظیم رتبہ والے ہیں اور ان کى ولایت سب سے بڑھ کر ہے تو وہ زانى کو ایک سو پچاس کوڑے ماریں گے اور امام على (ع) کا رتبہ اور مقام و منزلت ان سے کم درجے پر ہے تو وہ ایک سو کوڑے لگائیں گے اور فقیہ کا مرتبہ چونکہ ان سے کم ہے تو وہ پچاس کوڑے۔

یقینا ایسا نہیں کیونکہ خود امام على علیہ السلام نے بھى اپنے دور حکومت میں اپنى طرف سے والیوں کو مقرر کیا تو ان کو حدود کے اجراء میں اس طرح کى کوئى ہدایات نہیں دیں کہ آپ لوگ اپنے علاقے کے مجرمین پر حدود جارى کرتے ہوۓ کم کوڑے لگایا کریں اور میں چونکہ امام ہوں میں زیادہ کوڑے لگاؤنگا۔

پس چاہے کوئى کوفہ میں ایک قبیح عمل انجام دیتا ہے یا بصرہ میں یا چاہے حجاز میں !! ان سب پر حد جارى کرنے میں امام (ع) ،اور نمائندہ امام برابر ہیں۔ یعنى جتنے امام (ع) کى جانب سے حد جارى کرتے ہوۓ کوڑے لگائے جائیں گے اتنے ہى نمائندہ امام کى جانب سے حد جارى کرتے ہوۓ کوڑے لگاۓ جائیں گے۔

اسى طرح سے خمس ، زکات ، جزیہ اور خراج لینے میں بھى رسول خدا (ص) اور ایک فقیہ کى ولایت برابر ہے !! لیکن اگر کوئى یہ کہے کہ چونکہ رسول اکرم (ص) کا رتبہ و شان و منزلت سب سے بڑھ کر ہے تو انکو پورى دس بورى گندم بطور زکات ادا کى جاۓ گى ۔ اور چونکہ فقیہ کا رتبہ ان سے بہت کم ہے تو ان کو ہم ایک بورى گندم ادا کریں گے۔ کوئى یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیونکہ میں کوفہ میں امام على (ع) کى حکومت و ولایت میں ہوں تو مجھے زیادہ جزیہ دینا ہوگا اور دوسرا بندہ چونکہ مصر میں محمد بن ابى بکر کى ولایت میں رہتا ہے پس وہ کم جزیہ دے گا کیونکہ امام (ع) کا رتبہ بڑھ کر ہے اور نمائندہ کا رتبہ کم۔

پس یہاں پر معلوم ہوا کہ جو ولایت رسول خدا (ص) اور آئمہ اطہار (ع) کو حاصل ہے وہى ایک فقیہ عادل کو بھى حاصل ہے لیکن یہ ولایت دین و قوانین و شریعت کے اجراء کرنے کى ذمہ دارى میں ہے ، نہ کہ مقام و منزلت کى ولایت۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ حکومت اسلامی و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینی رح ، ص٢٢٨۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 13:03
عون نقوی