بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

عربی متن

‏أَتَأمُرُونِّى‏ أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیمَنْ وُلِّیتُ عَلَیْهِ وَ اللَّهِ ‌‏لا‏ ‌‏أَطُورُ‏ ‌‏بِهِ‌‏ ‌‏ما‏ ‌‏سَمَرَ‏ ‌‏سَمِیرٌ‏، ‏وَ ‏ما ‌‏أَمّ‌‏ ‏نَجْمٌ‏ ‏فِى‏ ‏السَّماءِ ‏نَجْماً وَ لَوْ کانَ الْمالُ لِى لَسَّوَیْتُ بَیْنَهُمْ فَکَیْفَ وَ إِنَّمَا الْمالُ مالُ اللَّهِ، ثُمَّ قالَ عَلَیْهِ السَّلامُ: أَلا وَ إِنَّ إِعْطاءَ الْمالِ فِى غَیْرِ حَقِّهِ تَبْذِیرٌ وَ إِسْرافٌ، وَ هُوَ یَرْفَعُ صاحِبَهُ فِى الدُّنْیا، وَ یَضَعُهُ فِى الاخِرَةِ، وَ یُکْرِمُهُ فِى النّاسِ، وَ یُهِینُهُ عِندَ اللَّهِ، وَ لَمْ یَضَعِ امْرُؤٌ مالَهُ فِى غَیْرِ حَقِّهِ ‏وَ ‏عِنْدَ ‏غَیْرِ ‏أَهْلِهِ‏ إِلّا حَرَمَهُ اللَّهُ شُکْرَهُمْ، وَ کانَ لِغَیْرِهِ وُدُّهُمْ، فَإِنْ زَلَّتْ بِهِ النَّعْلُ یَوْماً فَاحْتاجَ إِلى مَعُونَتِهِمْ ‏فَشَرُّ ‌‏خَدِینٍ‌‏ ‏و ‏أَلْأَمُ‏ ‏خَلِیلٍ‏.

ترجمہ

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔
 اگر یہ سب خود میرا مال بھی ہوتا تب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے، دیکھو بغیر کسی حق کے دود و دہش کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے۔ اور یہ اپنے مرتکب کو دنیا میں بلند کر دیتی ہے لیکن آخرت میں پست کرتی ہے اور لوگوں کے اندر عزت میں اضافہ کرتی ہے مگر اللہ کے نزدیک ذلیل کرتی ہے جو شخص بھی مال کو بغیر استحقاق کے یا نا اہل افراد کو دے گا  ان کی دوستی و محبت بھی دوسروں ہی کے حصہ میں جائے گی اور اگر کسی دن اس کے پیر پھسل جائیں (یعنی فقرو تنگدستی اسے گھیر لے) اور ان کی امداد کا محتاج ہو جائے تو وہ اس کے لیے بہت ہی بُرے ساتھی اور کمینے دوست ثابت ہوں گے۔(۱)

تشریح

نظریہ میکاولینزم کے مطابق *ھدف وسیلہ کے جواز کا سبب ہے* یعنی اگر آپ کے سامنے ایک ھدف موجود ہے تو آپ کو اس ھدف تک پہنچنا ہے اور اس ھدف تک پہنچنے کیلئے آپ ہر قسم کا جائز و ناجائز وسیلہ اختیار کر سکتے ہیں، کیوں ؟؟ اس لئے کہ ھدف وسیلہ کے جواز کا سبب ہے۔ اگر آپ کا ھدف کرسی یعنی اقتدار تک پہنچنا ہے تو آپ اس ھدف تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی معروف یا غیر معروف ، انسانی ، غیر انسانی ، عادلانہ یا غیر عادلانہ وسیلہ اختیار کرسکتے ہیں اگر یہ وسیلہ اختیار نہیں کریں گے تو ھدف یعنی کرسی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر کرسی تک پہنچنے کیلئے افراد کو خریدنا پڑجاۓ تو خرید لیں ، مخالفین کو زدوکوب کرنا پڑے، یہاں تک کے انکو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کریں ، اگر خود اپنے وعدوں اور زبان سے بھی پھرنا پڑے تو یوٹرن لے لیں کیونکہ ڈھٹائی کا وسیلہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا ہے لہذا نظریہ میکاولینزم کے تحت آپ یہ وسیلہ اختیار کر سکتے ہیں۔

اس نظریہ کی عملی تطبیق کو ہم اپنی مملکت عزیز میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ نظریہ ضرورت کے تحت جو کہ حقیقی طور پر نظریہ میکاولینزم ہی ہے ، کے تحت ہمارے سیاستدان جو کچھ کرنا چاہیں کر گزرتے ہیں لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اگر کوئی سوال یا اعتراض اٹھایا بھی جاۓ تو کہا جاتا ہے یہ اقدام نظریہ ضرورت کے تحت اٹھایا گیا۔ نظریہ ضرورت یا وہی نظریہ میکاولینزم کی امت اسلامی میں جس نے پہلی بار بنیاد رکھی وہ امیر شام معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔ یعنی آج کل کی رائج سیاست کا بانی بھی امیر شام شمار ہوتا ہے یعنی اگر آپ کو اگر اقتدار تک پہنچنا ہے تو مملکت اسلامی میں فتنہ کھڑا کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں، امت اسلامی میں جنگیں شروع کرنا کوئی مشکل نہیں ، وقت کے امام کے خلاف کھڑا ہو جانا ، قرآن کریم کو اقتدار کا وسیلہ قرار دینا کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ نظریہ ضرورت کہتا ہے کہ یہ سب کام ضرورت پڑنے پر انجام دئیے جا رہے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو سب جائز ہے ، نظریہ میکاولینزم کہتا ہے کہ یہ سب ناجائز وسیلہ اختیار کرنا درست ہیں کیونکہ ھدف وسیلہ کو جواز فراہم کرتا ہے۔ سید شریف رضی صریح کرتے ہیں کہ امیرالمومنین ع کے پاس چند افراد آۓ اور آپ کو عرض کی کہ امیر شام افراد کو پیسے دے کر خرید لیتا ہے تو ہمیں بھی چاہئیے کہ معاشرے کے چیدہ چیدہ اہم افراد کو بیت المال سے خریدا جاۓ تاکہ مملکت اسلامی کی بنیاد کی مضبوطی کا سبب بنیں۔ امام ع نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ہم ایسے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر کسی دوسرے کا حق مار کر ان پر ظلم نہیں کر سکتے اور مال کو عدالت کیساتھ تقسیم کیا جاۓ گا اور پھر فرمایا کہ ایسے افراد دوست تو بن جاتے ہیں لیکن بعد میں جب انکو ہماری ضرورت نہیں رہتی بدترین دوست ثابت ہوتے ہیں۔

 

 


حوالہ:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۲۴۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:32
عون نقوی

استاد شہید مرتضی مطہری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

قرآن مجید کے مطابق ایک معاشرہ چار عوامل کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے:

١)۔ ظلم و بی عدالتی
٢)۔ فساد اخلاقی
٣)۔ تفرقہ 
۴)۔ ترک امر بالمعروف و نھی از منکر۔

 


حوالہ:

۱۔ مطہری، مرتضی، پانزدہ گفتار، ص٣١١۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:25
عون نقوی

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں

عربی متن

أَما وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، لَوْلاَ حُضُورُ الْحاضِرِ، وَقِیامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِالنَّاصِرِ، وَما أَخَذَاللّه ُ عَلَى الْعُلَماءِ أَلاَّ یُقارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُومٍ، لَأَلْقَیْتُ حَبْلَها عَلَى غارِبِها، وَلَسَقَیْتُ آخِرَها بِکَأْسِ أَوَّلِها.

ترجمہ

اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عھد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اس پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول سیراب کیا تھا۔(۱)

تشریح

اسلام ایک جامع مذھب ہے جس میں انسان کی انفرادی ترین ضروریات سے لے کر معاشرتی و اجتماعی ضرورتوں کو بیان کیا گیا ، انسان کی اجتماعی ضروریات میں سے ایک اہم ترین ضرورت حکومت ہے۔ سیکولرزم کے نظریہ کے مطابق دین انسان کی انفرادی ضرورت ہے اگر کوئی انفرادی طور پر اسکی ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ دین پر عمل کرے لیکن دین کا اجتماعی طور انسانی زندگی میں کسی قسم کا دخل نہیں اور نہ ہی دینی قوانین کو اجتماعی طور پر لاگو کیا جاۓ۔ دین اسلام اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا بلکہ دین شناسوں پر فرض ہے کہ وہ سیاست و حکومت میں حصہ لیں جیسا کہ امیرالمومنین ع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے علماء اسلام سے عھد لیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم پر خاموش نہ رہیں اور مظلوم کی مظلومیت پر اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن ظالم کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اور مظلوم کی مدد کیلئے کیا کیا جاۓ اور کونسا وسیلہ اختیار کیا جاۓ ؟؟ اس کیلئے بھترین وسیلہ حکومت کا حصول ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام حکومت جیسی اہم ترین معاشرے کی ضرورت کا ھدف بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ حکومت ایک ذریعہ و وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم مظلوم کو اس کا حق دلا سکتے ہیں اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے سکتے ہیں۔ خود بذات خود حکومت کا حصول کوئی معنی نہیں رکھتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک خطبہ میں حصول حکومت کو اپنی پھٹی پرانی جوتی سے بھی بد تر قرار دیتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں کہ مگر یہ کہ حکومت کو وسیلہ بنا کر عدالت برپا کی جاۓ۔

نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام سیاست و حکومت کی نفی نہیں کرتا لیکن حکومت و سیاست اس معنی میں کہ جو خود کلام معصوم میں بیان ہوئی ہے نہ وہ سیاست جو آج معاشروں میں رائج ہے۔

 

 


حوالہ:

سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:19
عون نقوی

Lindsey Graham امریکی سینیٹر:

اگر ہماری (امریکہ) حمایت حاصل نہ ہو تو سعودی ایک ہفتہ میں فر فر فارسی بولنے لگ جائیں گے۔ سعودی عرب کی فوج میں جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود نہیں ، در اصل انکو ہماری ضرورت زیادہ ہے بجاۓ ہمیں ان کی۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ سائٹ ایسنا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 21:13
عون نقوی

گزشتہ تحریروں میں ہم نے آزادی انسان، عبودیت اور قانون کے بارے میں مختصر طور پر جانا۔ یہاں پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان سب ابحاث کا ولایت فقیہ سے کیا تعلق ہے؟ آپ ولایت فقیہ کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں لیکن اس بیچ آزادی، انسان کا عبد ہونا، اور قانون کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے حقیقی مقدمے یہی ابحاث ہیں۔ یعنی اگر کسی شخص کے لیے یہ امر واضح نہیں کہ وہ آزاد ہے یا نہیں؟ آزادی سے مراد کیا ہے ؟ عبد ہے یا نہیں اور اگر عبد ہے تو عبودیت کے تقاضے کیا ہیں؟ قانون کیا ہے ؟ قانون کی کیا خصوصیات ہیں؟ اور قانون کون بناۓ؟ قانون بشری ہونا چاہیے یا الہی؟ اگر ان سوالوں کے جوابات ہم جان لیں تو تب ولایت فقیہ کی بحث کی نوبت آتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم قائل ہو گئے کہ ہم عبد ہیں اور عبد صرف الہی قانون کی پیروی کرتا ہے تو تب جا کر ولایت فقیہ کا دروازہ کھلے گا۔ یعنی سوال پیدا ہوگا کہ الہی قانون کواللہ تعالی سے کس نے لانا ہے اور کس نے نافذ کرنا ہے؟ آیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے یا اس کو نافذ کرنے والا بھی موجود ہو؟اس لیے ان مقدمات کا حل ہونا ضروری ہے۔

قانون بنانے کا حق

ہم نے عقلی دلیل سے ثابت کیا کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔اس سے پہلے ہم نے یہ موضوع بھی زیر بحث لایا کہ قانون بنانے والے کے اندر کیا خصوصیات ہوں؟اور خود قانون کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اس میں ہم نے بیان کیا کہ جو ذات قانون بنا رہی ہو اس کو انسان کی ضروریات کا بہت دقیق علم ہو؟ انسان کی حاجات  کو جانتا ہو، با الفاظ دیگر انسان شناسی اور جہان شناسی رکھے۔ دوسری خصوصیت اس میں یہ ہو کہ انسان کے نفع اور خسارے کے بارے میں جانتا ہو۔ اگر اس کو یہ علم نہ ہو تو بہت نقصان ہوگا جیسا کہ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے جنگی فیصلے یا بادشاہوں کے فیصلے جو ناسمجھی کی وجہ سے ہوۓ ان کا کتنا نقصان ہوا۔  قانون بنانے والے کو خصوصی طور پر علم ہو کہ انسان کا کائنات سے کیا رابطہ ہے اور کیسا رابطہ ہونا چاہیے؟ اس کو علم ہو کہ انسان اس کائنات میں کونسی چیز کھاۓ تو وہ اس کے لیے مفید ہے اور کونسی چیز کھاۓ تو اس کے لیے مضر ہے۔ اس کو علم ہو کہ انسان نے جہان سے کیا اور کیسا ربط رکھنا ہے؟ آیا انسان ایٹم بم بناۓ یا نہ بناۓ؟ انسان  وائرس بناۓ یا نہ بناۓ؟ علم اور ٹیکنالوجی کا کس طرح کا استعمال کرے؟ کونسی عادات اور اطوار رکھے ؟ ایسا نہ ہو کہ سب کچھ احتمال کی بنا پر انجام دے اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔ مثلا خود مغربیوں نے پہلے ایٹم بم بنایا اس سے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور پھر بعد میں کہا کہ ایٹم بم تو نہیں بنانا چاہیے یہ غلط کام ہو گیا۔ خود بنا بھی لیا اور استعمال بھی کر لیا اور دوسروں پر پابندیاں لگا دیں کہ آپ ایٹمی توانائی نہیں حاصل کر سکتے۔قانون بنانے والے کو انسان کی طبیعت کا دقیق علم ہو، انسان کے اندرون اور بیرون کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہو۔ کیونکہ اگر قانون بناتے ہوۓ انسان کے اندرون کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ تزکیہ نفس انسان کو اندر سے تبدیل کرتا ہے اور اگر انسان اندر سے اصلاح ہو جاۓ تب جا کر قانون کی پیروی کرتا ہے۔ جب ان خصوصیات کو ہم دیکھتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب خصوصیات کسی انسان میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو ان سب خصوصیات کا مجموعہ ہے۔  اگرچہ مغربی اس کے دعوے دار ہیں کہ ہم خود قانون بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف دعوی ہے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب نے آج سے چندسال پہلے فیصلے کیے اور معاشروں میں قانون بناۓ آج ان پر پشیمان ہے۔ پہلے خود فیملی سسٹم کو نابود کیا، محرم نامحرم کی قید کو ختم کیا جنسی شہوات کو ابھار او رآج ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب  اس فیصلے پر پشیمان ہے ، کیونکہ مغرب میں اس حد تک افسردگی اور ڈپریشن پھیل گئی ہے کہ نوجوانی کی عمر میں افراد خودکشی کرنے لگے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ فیملی سسٹم کو دوبارہ احیاء کیا جاۓ۔

الہی قانون کا حصول

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ قانون صرف الہی ہو۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالی سے قانون کیسے لیں؟ کیا بلاواسطہ طور پر ہم اللہ تعالی سے قانون لے سکتے ہیں یا کسی واسطے کی ضرورت ہے؟ظاہر ہے ہم بلاواسطہ طور پر اللہ تعالی سے ارتباط برقرار نہیں کر سکتے حتما درمیان میں واسطہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا وجود بہت ضعیف ہے اور اللہ تعالی کا وجود لامحدود اور وسیع۔ اگر مثال سے ہم اس کو ہم سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ایک ۱۰۰ واٹ والے بلب کو روشن کرنے کے لیے اسے بلاواسطہ طور پر ہم ٹرانسفارمر سے نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ اس میں ہزاروں واٹ بجلی موجود ہے اور اگر ایک لحظے کے لیے بھی اس کو جوڑا تو یہ پھٹ جاۓ گا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہمارے اندر اتنی  وسعت نہیں کہ بلاواسطہ اس ذات سے ارتباط برقرار کریں۔ اس لیے نبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔وہ واسطہ جو اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اس کو نبوت کہتے ہیں۔نبوت کیوں ضروری ہے اور اس پر ہمارے پاس کیا دلیل ہے اس کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں بیان کیا جاۓ گا۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی ، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 11:13
عون نقوی