بصیرت اخبار

ہم نے جانا کہ انسان ایک محدود ذات ہے اور اس کی سب اوصاف بھی محدود ہیں۔ اس قاعدہ فلسفی سے ہم نے یہ نتیجہ لیا کہ انسان کی آزادی بھی نامحدود نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو محدود آزادی دی جا سکتی ہے۔ اس بات کو عقل و شرع بھی قبول کرتی ہے اور مغربی مکاتب فکر بھی اس کو قبول کرتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوگا کہ جب ہم نے مان لیا کہ انسان مطلق طور پر آزادی نہیں رکھتا اور اسے مقید کیا جانا چاہیے تو کون ہے وہ جو انسان کو مقید کرے اور اس کی آزادی کی حدود کو تعیین کرے؟ انسانی آزادی کو معین کرنے والا کون ہے؟ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں مثلا اعتقادی، حقوقی، معاشرتی اور دیگر اعتبار سے کون انسان کی حدود کو معین کرے؟ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ فقط خالق انسان ہی انسان کی حدود و قیود کو مشخص کر سکتا ہے۔

مغربی تفکر کے مطابق آزادی کی حدود

مغربی تفکر کے مطابق ہم خود انسان ہیں جو اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں اور اپنی آزادی کی حدود کو مشخص کر سکتے ہیں۔ کسی دوسری ذات کو ہماری آزادی کی حدود کو مشخص کرنے کا کوئی حق نہیں، کسی دین، اخلاقیات یا نبی ولی کو ہماری زندگی کے بارے میں کوئی اختیار نہیں۔ لیکن اسلامی تفکر کے مطابق انسانی آزادی کی حدود کو خود انسان معین نہیں کر سکتا بلکہ وہ خالقِ انسان ہے کہ جس نے اسے حیات دی اور اس کی حد و ذات کو اول سے آخر تک جانتا ہے فقط وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرے۔ خداوند متعال کا قرآن کریم میں ارشاد فرمانا ہے:

انا کل شی خلقناہ بقدر.(۱)

’’ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔‘‘

وہ خدا جس نے انسان کو خلق کیا اور اس کے وجود، اور اس کی حدود کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے اس کی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔ 

مغربی تفکرِ آزادی پر اشکال

انسان کی آزادی کی حدود کو معین کرنے کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کرنا کہ خود انسان ہی اپنے لیے آزادی کی حدود کو معین کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی ذات کو انسانی آزادی کے بارے میں نظر دینے کی ضرورت نہیں۔ اس تفکر سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا آپ انسانی وجود کی حقیقت کو سمجھ گئے ہیں جس کی حدود کو آپ محدود کرنے کا خود کو حق دے رہے ہیں؟ انسان کی ذات کیا ہے اس کی شروعات کیسے ہوئی اور اس کا اختتام کیا ہے؟ روحِ انسانی کیا ہے؟ حواس کیا ہیں اور کیسے کام کر رہے ہیں؟ انسان کی ضروریات کیا ہیں اور کن چیزوں سے اس کو اجتناب کی ضرورت ہے؟ عقل کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے۔ حتی انسان کا ظاہر بھی ابھی تک ہم درست طور پر درک نہیں کر سکے کجا یہ کہ اس کی حقیقت تک ہم پہنچ سکیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ ۳۰ یا ۴۰ سال کا پروگرام بنا کر انسان کو دے سکتے ہیں کل کیا ہوگا کیا آپ کو علم ہے؟ جب یہ سب آپ نہیں جانتے تو کیسے انسان کے بارے میں حکم لگا رہے ہیں؟ کہاں ہے آپ کی آیندہ نگری؟ اور کہاں کا آپ کا منصوبہ؟ یہ تو انسان کے ساتھ خیانت ہوئی نہ کہ اس کی خدمت۔

معلوم ہوا انسان ہرگز یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اپنے لیے کوئی ایسی چیز قرار دے جس کا اسے علم نہیں۔ انسان کو کتنی آزادی چاہیے اور کتنی قید و بند، یہ صرف اس ذات کو علم ہے جو انسان کا خالق ہے۔ وہی آزادی کی حدود کو معین کر سکتا ہے۔

انسان اپنی آزادی کا مالک نہیں

اگر آزادی کا درست تصور ہمیں حاصل ہو جاۓ تو معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ خود اپنی آزادی کا مالک ہی نہیں۔ وہ تو صرف امانتدار ہے اس امانت کا۔ درست ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے منصوبے کے مطابق چلیں یا خود اپنے لیے منصوبہ بنائیں لیکن ساتھ میں ہدایت بھی دی ہے، فطرت بھی عطا کی ہے انبیاء کرام مبعوث کیے ہیں جن کا کام ہمیں بار بار یہ یاد دلانا ہے کہ اگر اپنی مرضی کی اور خدا کی راہ کے مقابل آ گئے تو اس کا نقصان خود تمہی کو ہے۔ بہرحال خدا نے ہدایت اور گمراہی کے راستے واضح کر دیے ہوۓ ہیں اب اگر کسی کا خود کی جی چاہتا ہے گمراہ ہو تو زبردستی سے تو کسی کو راہ ہدایت پر نہیں لایا جا سکتا۔ 

اللہ تعالی نے انسان کو آزادی عطا کی ہے لیکن اس آزادی کا مالک نہیں بنایا کہ جو مرضی کرے اس آزادی کے بل بوتے پر انجام دے دو۔ بلکہ آزادی انسان کے پاس امانت ہے۔ اس امانت میں ہرگز خیانت نہیں کر سکتا۔ یعنی ایسا نہیں کر سکتا کہ اپنے ہی ذہن و گمان کے مطابق آزادی کی تبیین کرے اور آزادی کا معنی ہی بدل دے۔ مثال کے طور پر کسی بھی انسان کو اللہ تعالی نے یہ حق عطا نہیں کیا کہ خود کو بیچ ڈالے یا کسی کا غلام بن جاۓ۔ اپنی آزادی کو غلامی میں نہیں بدل سکتا، خود حیات بھی امانت ہے آپ کے پاس۔ اس امانت میں کوئی شخص خیانت نہیں کر سکتا یعنی اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ اللہ تعالی نے جس طرح سے حیات امانت دی ہے آزادی بھی امانت کے طور پر عطا کی ہے خود کو کسی کا بھی اسیر نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ)


حوالہ:

۱۔ سورہ قمر: ۴۹۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/12/15

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی