بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیه}

الحادی حکومت اور اسلامی حکومت

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۶)

 

 

دو زیر بنا

ہمارے پاس دو قسم کی حکومتیں ہیں۔

۱۔ الحادی حکومت

۲۔ حق کی حکومت

حکومت کی ایک قسم وہ ہے جو مادی سوچ رکھتی ہے اسے ہم الحادی حکومت کہتے ہیں۔ حکومت کی دوسری قسم وہ ہے جو حق کی بنا پر کھڑی ہے۔ ایک کی عمارت مادیات پر کھڑی ہے اور دوسری کی حق پر۔ یہاں پر چند سوال ہیں کیا ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو ہمارے مادیات کا انتظام کرے یا ایسی حکومت چاہیے جو حق کو قائم کرے؟ واضح رہے کہ اسلامی حکومت سے مراد یہ نہیں کہ ہم حکومت کا نام اسلامی رکھ دیں تو وہ اسلامی حکومت بن جاۓ گی۔ یا حکومت مسلمان حکمران کی ہے تو وہ اسلامی حکومت ہے۔ جی نہیں! بلکہ ہم نے بیان کیا کہ حکومت کے تینوں عناصر بیک وقت اسلامی ہوں تو وہ حکومت اسلامی کہلاۓ گی۔ پہلا عنصر قانون ہے، حکومت اسلامی کا قانون اسلامی ہونا چاہیے۔ دوسرا عنصر حاکم ہے کہ حاکم کو اسلامی ہونا چاہیے یعنی اس کو شرعی مشروعیت حاصل ہو، اور تیسرا یہ کہ اسلامی قانون اور اسلامی حاکم کو عوام اپنے اختیار سے قبول کریں۔

قانون افضل یامعاشرہ

سوال یہ ہے کہ ہمیں معاشرے میں حق کا قیام کرنا چاہیے یا طعام کا؟ حق کی اساس پر حکومت بنانی چاہیے یا مادی مفادات کے حصول کی بنا پر حکومت بنانی چاہیے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ قانون افضل ہے یا معاشرہ؟ اگر معاشرہ کے مفاد اور قانون میں ٹکراؤ ہو جاۓ تو کس کو مقدم کیا جاۓ؟ مثلا معاشرہ کہتا ہے کہ ہمیں ہر قسم کے مشروبات پینے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن قانون کہے کہ شراب پینا جرم ہوگا۔ ہم معاشرے کی مانیں یا قانون کی؟ یا معاشرہ کہے کہ حجاب آزاد ہونا چاہیے لیکن قانون کہے کہ خاتون پر حجاب پہننا ضروری ہوگا۔ یہاں پر الحادی تفکر قانون پر معاشرے کو فوقیت دے کر یہ نظریہ اپناتا ہے کہ جو معاشرہ چاہتاہے اس کو فضیلت دی جاۓ گی۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ معاشرے پر قانون کو فوقیت حاصل ہے۔ یہاں پر دو زیر بنا ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تفکر کی بنا عوام اور ان کے مادی مفادات ہیں۔ اور دوسرے تفکر کی بنا حق اور قانون ہے۔ سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام نے یہ تفکر دیا کہ انسان اور معاشرے کی اساس مادیات پر ہے۔ مادیات کا حصول ہر قسم کے اخلاق اور قانون پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس تفکر کی زیر بنا الحادی ہے۔ آج کا مسلمان اگر اسی تفکر کو مانتا ہے اور دل سے حق کو اور قانون کو معاشرے اور اس کے مفاد پر مقدم نہیں سمجھتا دراصل وہ الحاد کو دل سے اقرار کر چکا ہے چاہے بظاہر مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔

حق کی زیر بنا کا غلبہ

معلوم ہونا چاہیے کہ اگر آج کے مسلمان الحادی تفکر کو قبول کر لیں تو ایسا نہیں کہ دین محو ہو جاۓ گا بلکہ اس سے خود ہمارا نقصان ہے۔ دین کو تو کچھ نہ ہوگا دین کے لیے خدا ہے اور وہ خدا کوئی اور قوم لے آۓ گا جو مادیات پر قانون اور حق کو مقدم سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے:

«أَنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنْ تَنْتَصِرُ بِهِ لِدِینِکَ وَ لَا تَسْتَبْدِلْ بِی غَیْرِی».

ترجمہ: اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جن کے ذریعے تو اپنے دین کی مدد کرتا ہے اور میری جگہ اور کے ذریعے تبدیل مت کرنا۔[1]

اللہ تعالی کے لیے ممکن ہے وہ ہمیں بدل دے اور قوم لے آۓ۔ اگر کوئی شخص یا قوم دین الہی کو ترک کر دیے اللہ تعالی اور قوم لے آتا ہے۔

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْکافِرینَ یُجاهِدُونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ لا یَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتیهِ مَنْ یَشاءُ وَ اللهُ واسِعٌ عَلیمٌ».

ترجمہ: اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔[2]

یا قرآن کریم کلمہ الہی کے بلند ہونے کے متعلق وارد ہوا ہے:

«کَلِمَةُ اللهِ ‌ هِیَ الْعُلْیا».

ترجمہ: اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے۔[3]

حق کا غلبہ کیسے ممکن

آج اگرچہ ہمیں ہر طرف الحادی تفکر حاکم نظر آتا ہے۔ حتی اسلامی معاشروں میں بھی یہ تفکر بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں حق پر عمل کرنے والے افراد کیا کریں؟ کیا وہ نصرت الہی سے حق کی عالمی حکومت بنا سکتے ہیں؟ جی ہاں! جیسا کہ گزشتہ قسط میں بھی بیان ہوا کہ اگر یہ تین مراحل ہم پورے کریں تو حق کا غلبہ ممکن ہے۔ اور تین مراحل  شناخت حق، حق کی شناخت کے بعد اس پر عمل، اور عمل کے مرحلے میں اتحاد اور انسجام۔آج مسلمانوں کی کمزوری کی سب سے اہم ترین وجہ عدم اتحاد ہے۔ شیعہ کا بریلوی سے، دیوبندی کا وہابی سے ، حتی خود ایک فرقے لوگ آپس میں اختلافات کا شکار ہیں۔اور یہ بات واضحات میں سے ہے اختلافات کی اکثر طور پر وجوہات بھی مادی اور دنیوی ہیں۔ شخصی اختلاف کی بنا پر یا ذاتی مفاد کی بنا پر ہم اتحاد نہیں کرتے۔ اسلامی معاشرے کے اندر اتحاد کا نظر آنا اتنا اہم ہے کہ امام علیؑ نے حق خلافت چھن جانے کے بعد بھی خلفاء ثلاثہ کا ساتھ دیا، اگرچہ ان کے ساتھ شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن معاشرے کے اتحاد کو ٹوٹنے نہ دیا اور نہ گوشہ نشین ہوۓ۔اپنے حق کی خاطر تلوار بلند نہ کی کیوں کہ جانتے تھے کہ اگر میں نے تلوار اٹھائی اور اسلام کو اندر سے ہی اختلاف کا شکار ہونے دیا تو بیرونی طاقتیں آ کر اصلِ اسلام کو ہی جڑ سے کاٹ ڈالیں گی۔

اور جب حق کی شناخت، اس پراتحاد سے عمل کرتے ہوۓ چند افراد بھی جمع ہو جائیں اللہ تعالی غلبہ عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثیرَةً بِإِذْنِ اللهِ».

ترجمہ: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے۔[4]

جب نصرت الہی آ جاتی ہے تو یہ قلیل جماعت اکثریتی جماعت میں تبدیل ہو جاتی ہے:سورہ نصر میں وارد ہوا:

«إِذا جاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ  وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فی دینِ اللهِ أَفْواجاً».

ترجمہ: جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں۔[5]

عصر حاضر میں غلبہ حق

جب کہا جاتا ہے کہ حق کو اللہ تعالی نے غالب کر کے ہی چھوڑنا ہے تو خود ہم مسلمانوں کو بھی یقین نہیں آتا،اور اکثر کہتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں تو ہر طرف باطل کا ہی غلبہ نظر آر ہاہے، حتی اسلامی ممالک میں بھی الحادی تفکر اور مادی تفکر بڑھتا جا رہا ہے اور حق پر عمل نہیں ہورہا۔ لیکن اس کے جواب میں کہا جاۓ گا اسی ۲۰ ویں صدی کے اختتام پر ایک دینی بزرگ شخصیت نے غرب و شرق کے خلاف خالصتا اسلامی تفکر پیش کیا، اور اللہ تعالی کی نصرت سے اس کو کامیابی حاصل ہوئی۔

امام خمینیؒ نے اس وقت لاشرقیہ لا غربیہ کا نعرہ لگایا جب پوری دنیا دو بلاک امریکی اور سوویت یونین میں تقسیم ہو رہی تھی۔ اور فرمایا کہ ہم صرف اسلام کی حاکمیت چاہتے ہیں، ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام اپنے ملک سے ختم کر کے ۹۸ فیصد عوامی رفرونڈم کے ذریعے اسلامی حکومت بنانے میں کامیاب ہوۓ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت پہلے دن سے ہی ان کو حاصل تھی؟ جی نہیں! ایران میں بھی ایک اقلیت تھی جس نے پہلے حق کی شناخت حاصل کی اور اسلامی نظام حاکمیت کو سمجھا، اس کے بعد اس پر عمل کیا اور عمل بھی کیا تو منسجم اور متحد ہو کر کام کیا۔ ۱۵ سال کی جدو جہد کے بعد یہ اقلیت اکثریت میں بدل گئی۔ اسلامی حکومت کے قیام کے فورا بعد پوری دنیا کی استعماری طاقتوں نے صدام کے ذریعے اس حکومت پر بدترین شکل میں جنگ مسلط کر دی۔ اس جنگ میں صدام کو ہر طرف سے اور ہر قسم کی حمایت حاصل تھی، جبکہ ایران کے پاس اپنے بارڈر کی حفاظت کے لیے اس وقت خاردار تاریں بھی نہیں تھیں۔اسی طرح سے حزب اللہ کی قلیل سی فوج نے اسرائیل کو جس شرمناک شکست سے دوچار کیا پوری دنیا گواہ ہے۔ انصار اللہ یمن کی مثال آج کی تازہ ترین مثال ہے کہ ان کے پاس پیروں تلے جوتے نہیں، پہننے کے لیے فوجی وردی نہیں لیکن آج عربی ممالک اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ضروری ہے کہ ہم خود کو بدلیں اور تفکر میں تبدیلی لائیں۔اگر حق کا غلبہ چاہتے ہیں تو خود اس کا ارادہ کریں اور عملی اقدام انجام دیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہو اہے:

«إِنَّ اللهَ لا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ».

ترجمہ: اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔[6]

اور اسی طرح سے اللہ تعالی بغیر کسی وجہ کے حکومت اسلامی جیسی شائستہ ترین نعمت کسی قوم سے نہیں چھین لیتا، مگر یہ کہ وہ خود اس کی حفاظت اور حرمت میں کوتاہی کریں۔سورہ انفال میں ارشادہوا:

«ذلِکَ بِأَنَّ اللهَ‌ لَمْ یَکُ مُغَیِّراً نِعْمَةً أَنْعَمَها عَلى قَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ».

ترجمہ:  ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔[7]

در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ آ ج بھی ہر طرف باطل کا غلبہ ہے ۔ لیکن اللہ تعالی نے باطل کے نصیب میں شکست لکھ دی ہے۔ اور حق غالب آنے والا ہے۔ لیکن یہ حق کیسے غالب آۓ گا؟ اس کے لیے خود حق پرستوں کو سامنے آنا ہوگا، اگر یہ لوگ آگے نہ آۓ تو خدا کا تو بہرحال وعدہ ہے وہ ہمیں تبدیل کر کے کسی اور قوم کے ذریعے حق کو غالب فرما دے گا۔[8]

منابع:

 

↑1 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۱۶۲۔
↑2 مائدہ: ۵۴۔
↑3 توبہ: ۴۰۔
↑4 بقرہ: ۲۴۹۔
↑5 نصر: ۱،۲۔
↑6 رعد: ۱۱۔
↑7 انفال: ۵۳۔
↑8 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 March 22 ، 14:16
عون نقوی

{سیاسی افکار}

جہاد تبیین

تحریر: احمد علی رضائی اسد آبادی

ترجمه: عون نقوی

مقدمہ

«جہاد فی سبیل اللہ» عبادات میں سے ایک خاص عبادت ہے جس کی خدا تعالیٰ نے تاکید فرمائی اور یہ خالص محمدی اسلام کے مقدس دین کی تبلیغ و اشاعت کا واحد ذریعہ تھا اور ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ جہاد کا حکم دیتا ہے اور مجاہدین کی قدر بیان کرتا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسیلَةَ وَ جاهِدُوا فی سَبیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون».

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔[1]

دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَ اسْجُدُوا وَ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ وَ جاهِدُوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِهِ».

ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤ۔ اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔[2]

سوره نساء میں مجاہدین کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ فرمایا:

«لا یَسْتَوِی الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجاهِدُونَ فی سَبیلِ اللهِ‌ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللهُ‌ الْمُجاهِدینَ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقاعِدینَ دَرَجَةً وَ کُلاًّ وَعَدَ اللهُ‌ الْحُسْنى وَ فَضَّلَ اللهُ‌ الْمُجاهِدینَ عَلَى الْقاعِدینَ أَجْراً عَظیماً».

ترجمہ: بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مؤمنین اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔[3]

تاہم سلفی جہادیوں کے برعکس، بقیہ تمام اسلامی فرقے جہاد کو صرف «فوجی جہاد» تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ «جہاد با نفس»، «جہاد با شیطان»، «علمی ثقافتی و تبلیغی جہاد» اور «امور خانوادہ کی رسیدگی کا جہاد» جیسے امور کو بھی جہاد میں شامل کرتے ہیں۔

لفظ «جہادِ تبیین» کی اصطلاح عالم اسلام کے مفکر فقیہ اور رہبر اعلیٰ «حضرت امام خامنہ ای دام ظلہ العالی» کی اختراعات میں سے ایک ہے، اس اصطلاح کی بنیادیں ہمیں کتاب و روایت میں میں بھی ملتی ہیں۔ «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کے وجوب کو ثابت کرنے والی آیات اور احادیث «جہادِ تبیین» کی عمومی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔، امر اور نہی کے اطلاق سے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت بہت آسانی سے ثابت ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت، ان کی احادیث، آئمہ معصومینؑ کی سیرت اور روایات «جہادِ تبیین» کے جواز کی خاص دلیل ہیں۔ [4]

لفظ «جہادِ تبیین» دو الفاظ «جہاد» اور «تبیین» سے مل کر بنا ہے۔

«جہاد» کا مادہ ’’جَہَدَ‘‘ ہے جس کے لغوی معنی سخت زمین کے ہیں۔ [5] اصطلاح میں «جہاد» سے مراد دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی آخری کوشش کرنا ہے۔ [6]

«جہاد» کی مختلف اقسام ہیں:

۱۔ اپنی جان کے ساتھ جہاد کرناد؛ یعنی فوجی جہاد۔

۲۔ اپنے مال کے ساتھ جہاد کرنا؛ یعنی: خمس یا زکوٰۃ یا مستحب صدقات دے کر اسلامی معاشرے کے ناقص امور کی دیکھ بھال کرنا اور مجاہدین کی مدد کرکے اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا۔

۳۔ خواہشات نفسانی کو کنٹرول کرنا یا شیطان سے جہاد۔

۴۔ زبان کے ساتھ جہاد؛ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا اور جہاد کی وضاحت کرنا۔

جبکہ لفظ «تبیین» باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ جو «بَیَّنَ یُبَیِّنُ» کے مادہ سے ہے۔ تبیین کے لغوی معنی وضاحت کرنے کے ہیں۔ [7] جبکہ اصطلاح میں تبیین سے مراد طرفِ مقابل کو اپنا مورد نظر معنی سمجھانا ہے۔ [8]

جہاد تبیین کے مبانی

اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ، آئمہ معصومینؑ اور ان کی نیابت میں علماء کرام و تمام مومنین و مومنات کا یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ معاشرے کے ایک ایک فرد کو انذار، تبشیر[9]، امر بالمعروف، نہی عن المنکر[10][11]کریں، اور نعمات الہی کی یاد آوری[12]، سختیوں میں صبر اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے[13]پر آمادہ کریں۔ اس بنا پر ہم جہاد تبیین کی مشروعیت کو ان آیات کے اطلاق سے ثابت کر سکتے ہیں۔ خصوصا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مربوط عمومات اور احادیث صحیحہ فریقین کی نصوص سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

جہادِ تبیین کے قرآنی مبانی

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دین نے «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ جسمانی طور پر جا کر کسی امر کو قائم کریں یا کسی منکر اور برائی کو ختم کر دیں۔

۲۔ زبانی طور پر کسی معروف کا امر دیں یا کسی کو برائی کرنے سے منع کر دیں۔

۳۔ اگر جسمانی اور زبانی طور پر کسی کام کا حکم نہیں دے سکتے یا برے کام سے روک نہیں سکتے تو قلبی طور پر اسے برا سمجھیں۔

«جہاد» بھی تین قسموں میں تقسیم ہوتا ہے۔

۱۔ اپنی جان کے ساتھ «جہاد» کرنا

۲۔ مال کے ساتھ «جہاد» کرنا

۳۔ زبان کے ساتھ «جہاد» کرنا[14]

«جہادِ تبیین» یہی تیسری قسم کا جہاد یعنی زبان کے ساتھ جہاد کرنا ہے یا «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کی دوسری قسم ہے۔

«جہادِ تبیین» کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لیے ہم «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کی آیات کو استناد کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ لْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَى الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ أُولئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ».

ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔[15]

اسی سورہ کی آیت ۱۱۰ میں ارشاد ہوتا ہے:

«لِلنّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ».

ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔[16]

سورہ حج میں ارشاد ہوا:
«الَّذینَ إِنْ مَکَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّکاةَ وَ أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ للهِ عاقِبَةُ الْأُمُور».

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔[17]

جہادِ تبیین کے حدیثی مبانی

ہمارے پاس جہاد تبیین کی مشروعیت کے اثبات کے لیے صحیح السند حدیث موجود ہے۔ شیعہ امامیہ اور اہل سنت محدثین نے اپنے مبانی کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے صحیح السند حدیث نقل کی ہے جس میں آپﷺ کا فرمانا ہے:

«جَاهِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ».

ترجمہ: مشرکین کے ساتھ اپنے اموال، اپنی جانوں اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔[18][19][20][21][22][23][24]   

اس روایت کو لفظ «جَاهِدُوا الکُفَار» سے بھی نقل کیا گیا ہے۔[25][26]

فقہ الحدیث

اولا: یہ حدیث شریف شیعہ سنی مبانی رجالی کے مطابق صحیح السند ہے۔ محمد البانی سلفی، شعیب ارنؤوط حدیث شناس وہابی،اس حدیث کی صحت کی شہادت دیتے ہیں۔[27][28] ثانیا: اس حدیث شریف سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ «جہادِ تبیین» بھی جہاد کی اقسام میں سے ہے اور رسول اللہ ﷺ و امیرالمومنینؑ کی بھی اس پر تائید و تاکید موجود ہے۔ کیونکہ فعل امر کے صیغے «جَاهِدُوا» سے انہوں نے امر فرمایا ہے جس سے جہاد تبیین کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے، جس طرح سے جنگی جہاد اور مالی جہاد واجب ہے اسی طرح سے جہاد تبیین بھی واجب ہے۔ امیرالمومنین امام علیؑ نے امام حسنؑ و امام حسینؑ اور اپنے قیامت تک آنے والے پیروان کو وصیت نامے میں حکم دیا ہے:

«اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِی‏ الْجِهَادِ بِأَمْوَالِکُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ وَ أَلْسِنَتِکُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ، لَا تَتْرُکُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَیُوَلَّى عَلَیْکُمْ أَشْرَارُکُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُم».

ترجمہ: جان، مال اور زبان سے راہ خدا میں جہاد کرنے کے بارے میں اللہ کو نہ بھولنا، اور تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا، اور خبردار! ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ تم پر بدکردار مسلط ہو جائیں گے پھر دعا مانگو تو قبول نہ ہوگی۔ [29]

فقہ الحدیث

یہ وصیت امیرالمومنینؑ  صرف حسنینؑ کے لیے مختص نہیں۔ بلکہ امیرالمومنینؑ کے قیامت تک آنے والے افراد کو یہ حکم شامل ہے اور ان پر واجب ہے کہ اس وصیت پر عمل کریں۔[30] امیرالمومنینؑ «جہاد فی سبیل اللہ» کو صرف «جنگی جہاد» میں منحصر نہیں سمجھتے بلکہ فرماتے ہیں، «جہاد با اموال»، یعنی معاشرے کے فقراء کی رسیدگی، «جہاد با زبان»،یعنی «جہاد تبیین» بھی «جہاد فی سبیل اللہ» کے مصادیق میں سے ہے۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ اگر «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» یعنی «جہاد تبیین» کو تم لوگوں نے ترک کر دیا تو ایسے شرور افراد میں گرفتار ہو کر رہ جاؤگے کہ اس کے نتیجے میں ان شرور سے نجات کی دعا بھی مستجاب نہ ہوگی۔ لہٰذا رسول اللہ (ص) کی صحیح حدیث ،امیر المومنین (ص) کی صحیح حدیث اور ان کی وصیت کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہےکہ جہاد تبیین بھی «جہاد فی سبیل اللہ» میں سے ایک ہے اور اس کا بھی اسی طرح سے حکم دیا گیا ہے جس طرح سے کہ «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کا حکم دیا گیا ہے۔

جہاد تبیین کی خصوصیات

۱۔ «جہاد تبیین» عالمانہ انداز میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ لاتَقْفُ ما لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ».

ترجمہ: اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے[31]

۲۔ «جہاد تبیین» صبر کے ہمراہ ہو۔ اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

«فَاصْبِرْ عَلى ما یَقُولُونَ».

ترجمہ: لہذا یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کریں۔ [32]

۳۔ «جہاد تبیین» بشارت دینے والا اور انذار کنندہ ہونا چاہیے، اگر صرف بشارت دہندہ ہو تو غرور آور ہے اور اگر صرف انذار کنندہ ہو تو نامید کرنے والا ہوگا اس لیے ہر دو خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو بھی بشیر اور نذیر متعارف کروایا ہے:

«یا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْناکَ شاهِداً وَ مُبَشِّراً وَ نَذیراً».

ترجمہ:  اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ [33]

۴۔ «جہاد تبیین» کے ذریعے بہترین اور معتبر اسوہ کو متعارف کروایا جاۓ۔ بہترین اسوہ حسنہ رسول اللہﷺ اور صدر اسلام کے مومنین ہیں۔ جنہوں نے شعب ابی طالب میں اقتصادی اور جنگی محاصرے کے باوجود رسو ل اللہ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔قرآن کریم نے ان افراد کے بارے میں فرمایا:

«لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ».

ترجمہ: بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔ [34]

۵۔ «جہاد تبیین» حکیمانہ طرز اور برہانی و استدلالی ہو۔ ارشاد ہوتا ہے:

«ادْعُ إِلى سَبیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتی هِیَ أَحْسَنُ».

ترجمہ: (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔ [35]

۶۔ «جہاد تبیین» کو ثبات قدم کے ہمراہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ جہاد تبیین اور جنگی جہاد تقریبا ایک جیسے ہیں۔ ہر دو میدان میں مجاہد کا دشمنوں کی صف آرائی کے مقابلے میں ثابت قدم اور استوار ہونا ضروری ہے۔

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا لَقیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا».

ترجمہ: اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔ [36]

سورہ احزاب میں بیان ہوا:

«وَ لَمَّا رَأَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزابَ قالُوا هذا ما وَعَدَنَا اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَ ما زادَهُمْ إِلاَّ إیماناً وَ تَسْلیماً».

ترجمہ: اور جب مومنوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے: یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ [37]

۷۔ «جہاد تبیین» کو مجاہدانہ ہونا چاہیے اس سے صرف دین خدا کی نصرت مقصود ہونی چاہیے۔ سورہ محمد مین ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقْدامَکُمْ».

ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ [38]

جس طرح جنگی جہاد میں شخصیات کے قتل ہونے کا خوف ہوتا ہے، «جہاد تبیین» کے میدان میں بھی دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ افراد کی شخصیت کشی کریں اور ان کو «جہاد تبیین» کے میدان سے نکال باہر کریں۔

۸۔ «جہاد تبیین» روشن گر اور ہدایت کنندہ ہونا چاہیے۔ اگر جہاد تبیین سے مطالب روشن اور واضح نہ ہوں، امت کو ہدایت حاصل نہ ہویہ جہاد تبیین نہیں ہے۔ لیکن اگر جہاد تبیین روشن گر اور ہدایت کنندہ ہو تو اسلامی معاشرہ بحرانی مواقع میں صحیح انتخاب کرنے کی توانائی حاصل کر سکے گا۔

سورہ انسان میں وارد ہوا ہے:

«إِنَّا هَدَیْناهُ السَّبیلَ إِمَّا شاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً».

ترجمہ: ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا۔[39]

جہادِ تبیین کے اہداف

۱۔ اسلامی معاشرے کے لوگوں کی دنیاوی اور اخروی سعادت کی طرف رہنمائی کرنا۔

۲۔ معاشرے کی کمزوریوں اور خوبیوں کا بیان، اور تقویتی نقاط کو مضبوط کرنے اور کمزوریوں سے نجات کے لیے حل فراہم کرنا۔

۳۔ ملکی حکام کی پوزیشن کو اسلام اور عوام کے تئیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی وضاحت کرکے مضبوط کرنا۔

۴۔ معاشرے کے لوگوں کو اسلامی حکومت کے لیے ذمہ دار بنانا، اس کے فروغ میں ان کے مقام اور کردار کی وضاحت کرنا۔

۵۔ دشمنوں کی کمزوریوں اور تقویتی نقاط کی وضاحت کرنا اور ان سے ہوشیاری سے نمٹنے کے لیے مناسب حل فراہم کرنا۔

۶۔ شکوک و شبہات کا جواب دینا اور معاشرے کے دینی اور دنیوی مفاد کا دفاع۔

۷۔ معاشرے کے اراکین کو موجودہ مسائل کے سامنے صبر کرنے کی دعوت دینا اور انہیں روشن مستقبل کی امید دینا۔

۸۔ حکام اور لوگوں کو اسراف اور اشرافی گری سے پرہیز پر آمادہ کرنا۔

۹۔ معاشرے کے افراد کےاعتقادات کو خداشناسی اور معاد شناسی کی بنا پر تقویت بخشنا۔

نتیجہ

«جہاد تبیین» کا «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ «جہاد تبیین» کی مشروعیت کو «امر بالمعروف اور نہی عن المنکر» کے متعلق نازل ہونے والی آیات، اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث معتبرہ و امیرالمومنینؑ کی وصیت سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ «جہاد تبیین» کی خصوصیات اور اہداف بھی واضح ہیں: مثلا «جہاد تبیین» کا عالمانہ ہونا، صبورانہ، تبشیر و انذار کے ہمراہ ہونا، حکیمانہ و استدلالی ہونا، و ہمراہ با اسوہ حسنہ۔ «جہاد تبیین» کے اہم ترین اہداف معاشرے کے افراد کے سوالات اور شبہات کا جواب، ان کی ہدایت کرنا، حکام مملکت کو مسؤول بنانا، معاشرے میں امید پیدا کرنا، اور خدا شناسی و معاد شناسی کے عقیدے کو سب نظریات کی زیر بنا قرار دینا ہے۔

منابع:

 

↑1 مائدہ: ۳۵۔
↑2 حج: ۷۷تا۷۸۔
↑3 نساء: ۹۵۔
↑4 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑5 جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغة و صحاح العربیة، ج‌۲، ص۴۶۱۔
↑6 راغب اصفہانی، حسین بن محمد المفردات فی غریب القرآن، ص۲۰۸۔
↑7 جوہری، ابو نصر، الصحاح-تاج اللغة و صحاح العربیة، ج‌۵، ص۲۰۸۳۔
↑8 الزبیدی، مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۱۸، ص۸۲۔
↑9, ↑33 احزاب: ۴۵۔
10, ↑15 آل عمران: ۱۰۴۔
11, ↑17 حج: ۴۱۔
↑12 مائدہ: ۱۱۔
↑13 عصر: ۱تا۳۔
↑14 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۱۰۰، ص۴۹۔
↑16 آل عمران: ۱۱۰۔
↑18 پایندہ، ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، ج۱، ص۴۲۹۔
↑19 سجستانی، ابو داؤود، سنن ابی داؤود، ج۴، ص۱۵۹۔
↑20 حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص۹۱۔
↑21 نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، ج۴، ص۲۶۹۔
↑22 بیہقی، ابوبکر، السنن الصغیر، ج۳، ص۳۵۹۔
↑23, ↑28 احمد بن حنبل، مسند احمد مخرجا، ج۱۹، ص۲۷۲۔
↑24, ↑27 البانی، محمد ناصرالدین، صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ، ج۱، ص۵۹۳۔
↑25 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۳۷۰۔
↑26 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۲۰۸۔
↑29 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۷۔
↑30 بقرہ: ۱۸۱۔
↑31 اسراء: ۳۶۔
↑32 طہ: ۱۳۰۔
↑34 احزاب: ۴۵۔
↑35 نحل: ۱۲۵۔
↑36 انفال: ۴۵۔
↑37 احزاب: ۲۲۔
↑38 محمد: ۷۔
↑39 انسان: ۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 March 22 ، 12:54
عون نقوی

اقتدار ِاسلام کے لیے حکومت ضروری

بیان ہوا کہ دین اسلام صرف افکار اور نظریات کا مجموعہ نہیں ۔ جہاں معارف و اعتقادات ،امور اخلاقی اور تہذیب نفس کا درس دیا گیا ہے وہیں اسلام نے زندگی کے لیے ایک دستور عمل بھی دیا ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کے وظائف و ذمہ داریاں ذکر ہوئی ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف، نہی از منکر اور جہاد و دفاع کے مسائل بیان کیے ہیں۔ حدود و مقررات اور اجتماعی قوانین بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف اخلاق، عرفان اور انفرادی وظائف کی تبیین نہیں کرتا بلکہ انسان کو راہ دکھاتا ہے کہ کیسے اجتماعی زندگی گزارے؟ کس طرح دیگر باطل مکاتب کا نفوذروکےاور طواغیت ِزمان سے نجات حاصل کرے۔ اور ظاہر ہے یہ کام بغیر حکومت اور سیاست سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

طاغوت کسے کہتے ہیں؟

رہبر معظم فرماتے ہیں:

طاغوت سے مراد ظالم اور خیبیث حکمران ہیں ۔جیسا کہ آج کا امریکی صدر اور اس جیسے دیگر افراد آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ طواغیت ہیں۔(۱)

دین چاہتا ہے کہ انسان طاغوت سے ہجرت کر کے ولایت کی طرف آۓاورظلم و ستم کا انکار کرے۔ طاغوتی حکومت سے نکل کر اسلامی حکومت کی طرف حرکت کرے۔ یہاں پر خود اسلامی حکومت کی  تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کسی ملک میں کچھ قوانین اسلامی آ جائیں اس سے اس ملک کی حکومت اسلامی نہیں ہو جاتی۔

اسلامی حکومت کسے کہتے ہیں؟

 اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم، قانون دونوں اسلامی ہوں، اس کے ساتھ ایک تیسری شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم اور قانون کو عوام اپنی مرضی سے قبول کرے۔ بہت سے افراد ایران میں آتے ہیں اور ایک ذہنیت بنا کر آتے ہیں کہ مثلا جب ائیر پورٹ پر اتریں گے تو ہر طرف سے نعرہ تکبیر بلند ہو رہا ہوگا، رہبر اور امام خمینی کی تصاویر ہونگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ایران داخل ہوتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں شاید کسی اور ملک میں غلطی سے داخل ہو گئے ہیں ۔ ایران میں اسلامی حکومت ہے اور اس وقت ایران حالت جنگ میں ہے۔ لیکن وہ جنگ نہیں جو سخت ابزار سے لڑی جاتی ہے۔ بلکہ یہ وہ جنگ ہے جو نرم ابزار سے لڑی جاتی ہے جسے اصطلاح میں جنگ نرم (soft war) کہا جاتا ہے۔ ایران پوری دنیا میں پابندیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارت نہیں کر سکتا۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ لیکن پھر بھی اس اسلامی ڈھانچے کو بچاۓ ہوۓ ہے۔

انقلاب اسلامی کے پانچ مراحل

ان مراحل کو بیان کرنے سے پہلے ایک نکتہ جو بہت اہمیت کا حامل ہے اسے بیان کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ رہبر معظم کی شخصیت کے ساتھ ایک ناانصافی جو کی جاتی ہے کہ ان کو اسلامی مفکر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اور یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ان کو ایک عالم ،فقیہ، مدبر اور سیاستدان کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کے مفکر ہونےکے پہلو کو بہت نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ شاید بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے خود کو اس طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ تقریبا چالیس سال تک ان کے نام سے کوئی ایک کتاب بھی نشر نہیں ہوئی۔ ابھی انہیں دنوں میں ان کے افکار پر کام شروع ہوا ہے ۔ تہران  یونیورسٹی کے چند طلاب کو رہبر معظم کے افکار پر کوئی تھیسز لکھنا تھاجب انہوں نے رہبر معظم کے دفتر کی طرف رجوع کیا کہ کیا ہمیں رہبر کی کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رہبر کی کوئی کتاب نہیں۔ تب ان طلاب نے تقاضا کیا کہ ہمیں رہبر کی تمام تقاریر چاہیں۔ بعد میں انہیں تقاریر کو کتب کی شکل میں چھاپ دیا گیا ۔ رہبر معظم آج کے دور کے بہت بڑے اسلامی مفکر ہیں۔ بہت سی اسلامی اصطلاحات جو آج کے دور میں سنی جاتی ہیں وہ رہبر کی ایجاد ہیں۔ مثلا تمدن اسلامی، جہاد تبیین، گفتمان وغیرہ۔

بہرحال رہبر معظم نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول کے پانچ مراحل ذکر کیے ہیں:

۱۔ انقلابِ اسلامی:

 یہ مرحلہ بہت قربانیوں کے بعد پورا ہوا۔ ایک بوڑھے عارف او ر فقیہ لیکن جامع دینی شخصیت نے ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام ختم کیا۔ اس کے پاس نہ تو کوئی سیاسی قوت اور مال تھا، سپاہ تھی اور نہ کوئی پبلسٹی کرنے والا، جب اسے جلاوطن کیا گیا تو بہت سے ملکوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا،جب اس کی تحریک کو بہت شدت سے کچلا جا رہا تھا اور ایران کی گلی گلی میں شاہ ایران خون بہا رہا تھا اسے کہا گیا کہ اب ہم کیا کریں؟ کیا رک جائیں؟ خود بندوق اٹھا لیں؟ کیا کریں؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کیسے رک جاؤں؟ یہ وہ دور تھا جب امام خمینی کا نام لینے والے کو مار دیا جاتا تھا، لیکن اس نے ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا شعار بلند کیا۔ مستضعفین کی مدد اس کا شعار تھا اور یہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ شاہ ایران کے فرار کے بعد جب امام۱۵ سال کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہے تھے بہت سوں نے کہا کہ یہ جہاز ہی لینڈ نہیں کرے گا اور یہ انقلاب ختم ہو جاۓ گا، بعد میں کہا کہ ۳ ماہ  میں اس انقلاب کی بساط لپیٹ دی دجاۓ گی۔ لیکن یہی کہتے کہتے ۴۳ سال گزر گئے اور آج تک یہ انقلاب ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے مضبوط ہو کر تن آور درخت بن چکا ہے۔

۲۔حکومت اسلامی:

        کسی بھی معاشرے میں انقلاب لانا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر انقلاب آ بھی جاۓ حکومت تشکیل نہیں دے پاتے۔ جیسا کہ ہم بہت سے انقلابوں میں دیکھتے ہیں کہ کئی سال کی زحمت کے بعد ایک تحریک کامیاب ہوئی انقلاب لانے میں لیکن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔لیکن انقلاب اسلامی نے اس مرحلے کو بھی طے کیا۔ حکومت اسلامی تشکیل دی اور ۹۵ سے زائد افراد نے رفرنڈوم میں حصہ لے کر حکومت اسلامی اور امام خمینی کو بطور ولی فقیہ قبول کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ حکومت اسلامی سے مراد تین عناصر ہیں۔ ان تینوں کا ایک وقت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ حکومت اسلامی نہیں کہلاتی۔ پہلا عنصر قانون ہے۔ دوسرا حاکم اور تیسرا عنصر عوام ہیں۔ حکومت اسلامی میں ضروری ہے کہ قانون اسلامی ہو، ایران میں قانون اسلامی ہے، دوسرا عنصر حاکم اسلامی ہو، ایران میں اصل حکومت ولی فقیہ کے پاس ہے جو نیابت امام زمانؑ میں حاکم  ہے۔ اور تیسرا عنصر عوام ہیں، عوام کی اکثریت اس نظام اور قانون کو قبول کرتی ہے۔ لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ایران میں اسلامی قانون نافذ ہوتےہوۓ تو دکھائی نہیں دیتا؟ اس  قانون کا کس حد تک نفاذ ہے؟ اس کا جواب اس آگے آ رہا ہے۔

۳۔ دولت اسلامی:

پہلے دو مراحل گزرنے کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اسلامی  حاکم آ جاۓ، قانون بھی اسلامی آ جاۓ یہ قانون ملک کے اداروں میں نافذ ہوتا دکھائی دے۔ ملک کے ہر ادارے میں نظر آۓ کہ ہاں واقعا اس ملک میں اسلامی قانون موجود ہے۔ اس لیے نہ تو امام خمینیؒ اور نہ ہی رہبر معظم نے کبھی یہ دعوی کیا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے ادارے اسلامی قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ بلکہ ہم اس مرحلے کو طے کر رہے ہیں۔ اس کی طرف بڑھنا ضروری ہے اگر یہ مرحلہ مکمل ہو جاۓ تو تب ایران کو دولت اسلامی کہا جا سکتا ہے۔

۴۔  معاشرہ اسلامی:

        بہت سے افراد جب ایران میں داخل ہوتے ہیں اگر ٹیکسی ڈرائیور ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کر دے، یا کوئی بد اخلاقی دیکھ لیں تو فورا کہتے ہیں کہ یہ کونسی اسلامی حکومت ہے؟ خصوصا جب حجاب کی بات آتی ہے تو ایک بدترین حملہ ہے استعمار کا جو ایران پہ ہو رہا ہے۔ عموما جو آپ بے پردگی دیکھتے ہیں یہ بہائیت اور یہودیت کی جانب سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کی سب یہ خواتین بہائی یا یہودی ہوں لیکن ایک ثقافت ہے جو مسلمان خواتین میں پھیلائی جار ہی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رضا شاہ اول نے اسی شیعہ ملک یعنی ایران میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی۔ اور بدترین فحاشی معاشرے میں پھیلا دی ،ایران کے شہروں میں خواتین کمترین لباس کے ساتھ باہر نکلتی تھیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد یہ حجاب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے کم از کم عورت کو مکمل لباس پہننے پر آمادہ کر لیا ہے۔ البتہ اداروں میں خاتون کا کاملا حجاب میں ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والے لوگ اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ ان کی ثقافت اور فرہنگ اسلامی ہو وہ کسی دوسری فرہنگ سے متاثر نہ ہوں بلکہ اسلامی ثقافت کو اپنے اختیار اور مرضی سے اختیار کریں۔ اس معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی برائیاں بہت کم ہوں، سود، رشوت، کرپشن، نا انصافی اور نفرت اس معاشرے میں نہ ہو۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تشکیل دیا، اس معاشرے میں مہاجر اور انصار اخوت کے ساتھ رہتے تھے، قبیلوں کی جنگیں ختم ہو گئی تھیں۔ مومنین آپس میں ایثار اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو آسانی سے طے ہونے والا نہیں۔ بلکہ  اس معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت وقت درکار ہے۔

۵۔ تمدن اسلامی:

جب چوتھا مرحلہ طے ہو جاۓ اورمعاشرہ اسلامی ہو جاۓ تب پانچویں مرحلے کو ہم پہنچتے ہیں جسے تمدن اسلامی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی تمدن اپنے اوج پر ہے۔ یہ معاشرہ تعلیمی، اقتصادی، سیاسی طور پر پوری دنیا کے لیے نمونہ بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی ہے لیکن اس بنا پر نہیں کہ ترقی حاصل کر کے پوری دنیا کا انسان ہی خطرے میں ڈال دیں۔ اسی ٹیکنالوجی سے وائرس بنائیں اور پوری دنیا میں کرونا پھیلا دیں۔ یہ ٹیکنالوجی اس معاشرے میں موجود ہے لیکن انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ یہ آخری مرحلہ ہے جس میں انسان نہیں بلکہ پورا معاشرہ الہی معاشرہ اور تمدن اسلامی ہوگا۔  (۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۵تا۷۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 March 22 ، 12:04
عون نقوی

جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست بھی اچھی بری ہوتی ہے یا نہیں؟ سیاست الہی بھی ہوتی ہے یا صرف شیطانی؟ تو عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست کا الوہیت، دین و مذھب سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ سیاست تو صرف (Machiavellianism) یعنی مفاد کا حصول ہے اور نتیجتا شیطانی سیاست ہی ہوتی ہے الہی سیاست کا وجود نہیں ہے۔ لیکن دین نے سیاست کو الہی سیاست اور شیطانی سیاست میں تقسیم کیا ہے اگر ایک حاکم حکومت کو فقط ذاتی مفادات اور منافع شخصی پر حاصل کرتا ہے اور کسی قسم کے معیار اور اقدار کا قائل نہیں اس حاکم کی سیاست کی بنیاد شیطانی سیاست پر ہے اور اگر کوئی حاکم فقط حکومت کے حصول کو ھدف نہیں سمجھتا بلکہ اسکے سامنے معیار ہیں، حکومت کو ذریعہ سمجھتا ہے اقدار کی بقا کا، تو اس حاکم کی سیاست کی بنیاد الہی سیاست پر ہے۔

پس اس تقسیم کے تحت حاکم طبقہ دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، پہلے طبقے کے مطابق، اقدار و اخلاق اور خود کو معیارات کا مقید سمجھنا میدان سیاست کیساتھ میل نہیں کھاتا، الٹا اس طبقہ کے بقول جو یہ سمجھتا ہے کہ حاکم خود کو اقدار و معیارات کا پابند کرے تو اس طبقہ کے مطابق اس کے اندر سیاسی کھوپڑی نہیں پائی جاتی وہ کامیاب سیاستدان نہیں بن سکتا اور اگر یہ شخص حکومت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو اسکی حکومت دوام نہیں پکڑے گی۔ اس طبقہ کے مطابق ھدف وسیلہ کو جواز فراھم کرتا ہے اگر حکومت کے حصول میں کوئی اخلاقی قدر کو پاؤں تلے روندنا پڑے تو کوئی مذائقہ نہیں کیونکہ ھدف وسیلہ کو جواز فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرے طبقے کے پیشوا کا فرمانا ہے کہ:

بُعِثتُ لِاُتَمّمَ مَکارِمَ الاخلاق.

مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا (١)

یا اسی طرح سے امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

وَ مَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا یُقَارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظَالِمٍ وَ لَا سَغَبِ مظلوم.

اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا>(٢)

سیدالشھداء امام حسینؑ فرماتے ہیں:

إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى.
میں خود خواھی شر پھیلانے اور ظلم و فساد کی خاطر خروج نہیں کررہا بلکہ میرا خروج کا ھدف اپنے جد کی امت
 کی اصلاح کرنا ہے۔

ان اقوال کو مدنظر رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ گروہ دوم نظام عدل کی برپائی و اقدار و اخلاق کی محافظت کو اپنا ھدف قرار دیتے ہیں محض حکومت کا حصول انکا ھدف نہیں جبکہ گروہ اول حکومت کے حصول کیلئے تمام اقدار، اخلاقیات کو قربان کرنے کا قائل ہے،  اس کا کوئی یہ مطلب بھی نہ سمجھے کہ گروہ دوم کو سیاست کرنا نہیں آتی،

 امیرالمومنین ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

میں اچھی طرح سے سیاست کے تمام اچھے برے طریقوں سے باخبر ہوں اور کس طرح سے دشمن پر غالب آنا ہے یہ بھی دقیقا جانتا ہوں اور کیسے انکو مغلوب کرنا ہے مجھے علم ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ سیاست میں ایسی چارہ جوئی کی جاۓ کہ جسکا سرچشمہ شیطانی اصولوں پر قائم ہے میں نے الہی اوامر و نواھی کے آگے سر تسلیم خم کیا ہوا ہے جہاں پر یہ اوامر و نواھی اجازت دیں گے پیشرفت کرونگا اور جہاں پر اجازت نہیں دیں گے رک جاؤنگا۔

 ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

وَاللهِ ما معاویة بأدهَی مِنِّی، وَلکِنَّهُ یَغدرُ وَ یَفجرُ. وَ لَولا کرَاهیّة الغَدر لَکُنتُ مِن أدهَی النّاس.

خدا کی قسم !معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں۔مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بد کرداریوں سے باز نہیں آتا۔اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہو تی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا۔ ایک بار تو امیرالمومنین ع کی خدمت میں چند افراد حاضر ہوۓ اور عرض کی کہ آپ بھی معاویہ کی طرح اپنی سیاست و حکومت کے استحکام کیلئے افراد کو اپنے ساتھ ملائیں انکو پیسے دے کر خریدیں یا ڈرائیں دھمکائیں آپ نے ارشاد فرمایا:

أَتَأمُرُونِّى‏ أَنْ أَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیمَنْ وُلِّیتُ عَلَیْهِ وَ اللَّهِ ‌‏لا‏ ‌‏أَطُورُ‏ ‌‏بِهِ‌‏ ‌‏ما‏ ‌‏سَمَرَ‏ ‌‏سَمِیرٌ‏، ‏وَ ‏ما ‌‏أَمّ‌‏ ‏نَجْمٌ‏ ‏فِى‏ ‏السَّماءِ ‏نَجْماً.

کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی ) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا۔ اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے ہیں اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں
گا۔ ہم نے ان دو گروہوں کے مابین اختلاف کو دیکھا جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ایک طرف تو اقدار و اخلاقیات معیار ہیں حکومتداری اور سیاست کے، جب کے دوسری طرف صرف اقتدار کی ہوس اور اس تک رسائی کی شہوت، چاہے اس ھدف تک رسائی جائز طریقے سے ہو یا چاہے ناجائز طریقے سے۔

نتیجہ

بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور انکی سیاست کا جائزہ لینا چاہئیے کہ انکی سیاست کا معیار اقدار ہیں یا فقط اقتدار، سیاست جیسی معاشرے کی بنیادی ترین اکائی کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے اگر ہم انفرادی طور پر جتنے بڑے مومن و متقی بن جائیں اجتماعی طور پر ہم ایک امت شمار کئے جاتے ہیں اور اگر ایک امت پر الہی سیاست کی بجاۓ شیطانی سیاست حاکم ہو تو اس امت کی نجات ممکن نہیں۔

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۶۸، ص۳۸۲۔
٢- نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ۔ 
٣- بحارالانوار، ج ۴۴، ص ٣٢٩، ج ٢، ص ٣٢٣۔
٤- نہج البلاغہ، خطبہ ٢٠٠۔
٥- نہج البلاغہ، خطبہ ١٢٦۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 March 22 ، 19:36
عون نقوی

پہلی فصل میں ہم نے جانا کہ انسان  کو اللہ تعالی نے محدود آزادی عطا کی ہے۔ آزادی کی حد بندی کے لیے اللہ تعالی نے اس کے لیے شریعت  قانون کی شکل میں نازل کی ہے۔ شریعت اور قانون کے نفاذ کے لیےانسان کو حکومت کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی نے قانون کا انتظام فرمایا ہے حکومت کی ضرورت کو بھی اللہ تعالی نے پورا فرمایا ہے۔ پہلی فصل در اصل دوسری فصل کا مقدمہ ہے۔  دین ایک جامع نظام ہے جس میں حکومت اور  سیاست کے مسائل موجود ہیں۔ دین وعظ و نصیحت اور محض انفرادی مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ سیاسی اور اجتماعی احکام بھی بیان کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو مبعوث کرنے کا ہدف اس طرح سے بیان کیا ہے:

کانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فیمَا اخْتَلَفُوا فیهِ.

 لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے۔(۱)

اس آیت کریمہ کے مطابق انبیاء کرام  اس لیے مبعوث ہوۓ کہ وہ معاشرے میں اختلاف کو ختم کریں۔ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ ایک انسان کب فیصلہ یا حکم کرتا ہے؟ ظاہر ہے انسان صرف وعظ و نصیحت سے فیصلہ نہیں کر سکتا بلکہ جب اس کے پاس طاقت اور اقتدار ہو تو تب فیصلہ کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی اس آیت میں یہ نہیں فرماتا کہ رسول تبشیر اور انذار سے اختلاف کو دور کریں بلکہ فرمایا بوسیلہ ’’حکم‘‘ اختلافات کو ختم کریں۔ کیونکہ اختلافات کو بغیر حکم او ر حکومت کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انسانوں کا آپس میں اختلاف کرنا طبیعی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اختلاف کرنا ہمیشہ مذموم ہو بلکہ صرف وہ اختلاف مذموم قرار دیا گیا ہے جو علم آ جانے کے بعد ہو۔ پس انسانوں میں اختلاف ہونا ہی ہے لیکن اس  اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کیا کریں؟ اس کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر صاحب شریعت نبی کا کام یہی ہے ۔ تعلیم و تبشیر کرے، لوگوں کو انذار کرے اور ان کے اختلاف کو ختم کرے۔ صرف قانون لانا کافی نہیں مثلا اگر کوئی نبی شریعت لے آتا ہے اور اس کو نافذ نہیں کرتا اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس  قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو صرف کاغذوں میں لکھ دیا جاۓ اور اس کا نفاذ نہ ہو۔ یہ بات واضحات میں سے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضحات میں سے ہے کہ قانون اور شریعت کے ساتھ ساتھ حکومت اور قوت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت نہ ہوئی تو قانون اور شریعت کا اجراء نا ممکن ہو کر رہ جاۓ گا۔

حکومت سے مراد

حکومت سے مراد عموما تین شعبے ہوتے ہیں۔

۱۔ قوہ مقننہ( جو قانون بناتی ہے)

۲۔ قوہ قضائیہ(جو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دیتی ہے)

۳۔ قوہ مجریہ(جو قانون کا اجراء کرتی ہے)

بعض اوقات صرف قوہ مجریہ کو حکومت کہہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر قوت سے قانون کو نافذ کر کے اختلاف کو ختم نہ کیا جاۓ تو معاشرے میں فساد بڑھتا جاتا ہے۔ قانون کا صرف ہونا کافی نہیں ، کسی کاغذ پر قانون کا لکھ دیا جانا،قرآن یا روایت میں قانون کا آجانا کافی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حقیقی حاکم ہے اس نے احکام جاری کر دیے ہیں لیکن اب سوال پیدا ہوگا کہ ان کا اجراء کس نے کرنا ہے؟ حکومت کس کے پاس ہو؟

حکومت کی ضرورت

دین کے مطابق قانون بنانے کا حق، قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کی سزا کی تعیین، اللہ تعالی کا  حق ہے۔ لیکن قانون کا اجراء  کون کرے؟ ظاہر ہے اس کےلیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالی کے قوانین کو جاری کرے اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا دے۔  خوارج کا نظریہ یہ تھا کہ حاکم صرف اللہ ہے اور امیر بھی صرف اللہ تعالی ہےیعنی وہ کہتے تھے کہ جب حکومت صرف اللہ کی ہے تو اسی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ آۓ اور زمین پر اپنی مخلوقات پر اپنے قوانین کو نافذ کرے۔اس کے علاوہ اور کسی کو حکومت کرنے کا حق نہیں ، کوئی بھی قوانین الہی کو نافذ نہیں کر سکتا، نا تو امیرالمومنینؑ اور نا ہی معاویہ۔ امیرالمومنینؑ نے ان کا شعار سن کر فرمایا :

کَلِمَهُ حَقٍّ یُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ نَعَمْ إِنَّهُ لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ لَکِنَّ هَؤُلاَءِ یَقُولُونَ لاَ إِمْرَهَ إِلاَّ لِلَّهِ وَ إِنَّهُ لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں ، وہ غلط ہے۔ ہاں بیشک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کے لیے حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہوا یا برا۔(۲)

ہمارے پاس صرف دو انتخاب ہیں۔ عادل حاکم یا فاجر حاکم۔ تیسرا انتخاب سب سے بدترین ہے۔ یعنی ہم کہیں عادل حاکم ہو نا فاسق حاکم۔ جو انتخاب خوارج نے کیا وہ سب سے بد تر ین ہے۔ حاکم کے بغیر ایک معاشرے کا ہونااس سے بھی بدترین ہے کہ حاکم فاس ہو۔ فاسق حاکم کم از کم خود فساد میں مبتلا ہوتا ہے لیکن معاشرے کا نظم و نسق پھر بھی چلاتا ہے۔ لیکن اگر یہی فاسق حاکم بھی نہ ہو ہر گلی کوچے میں جرم و جنایت ہوگی۔ اس کی مثال آپ ہر اس معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ہم مقتدر حکومت نہیں دیکھتے۔ یا ایک حکومت جب گرتی ہے دوسری حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک معاشرہ سخت ترین حالات سے گزرتا ہے۔ مثلا عراق میں جس دور میں صدام کی حکومت گری، اور امریکیوں نے جب تک مکمل طور پر چارج نہ سنبھالا تھا بد ترین جرائم عراق میں وقوع پذیر ہوۓ۔ اتنے نقصان خود جنگ اور صدام کی غارتگریوں سے نہ ہوۓ جتنے ان ایام میں ہوۓ۔در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ حکومت کا ہونا ضروری ہے اب سوال پیدا ہوگا کہ حکومت کونسی ہو؟ حکومت اسلامی ہویا غیر اسلامی؟ اس سوال کا جواب اگلی قسط میں بیان ہوگا۔(۳)

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۴۰۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۳تا۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 March 22 ، 19:29
عون نقوی