بصیرت اخبار

{دروس ولایت فقیه}

الحادی حکومت اور اسلامی حکومت

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۶)

 

 

دو زیر بنا

ہمارے پاس دو قسم کی حکومتیں ہیں۔

۱۔ الحادی حکومت

۲۔ حق کی حکومت

حکومت کی ایک قسم وہ ہے جو مادی سوچ رکھتی ہے اسے ہم الحادی حکومت کہتے ہیں۔ حکومت کی دوسری قسم وہ ہے جو حق کی بنا پر کھڑی ہے۔ ایک کی عمارت مادیات پر کھڑی ہے اور دوسری کی حق پر۔ یہاں پر چند سوال ہیں کیا ہمیں ایسی حکومت چاہیے جو ہمارے مادیات کا انتظام کرے یا ایسی حکومت چاہیے جو حق کو قائم کرے؟ واضح رہے کہ اسلامی حکومت سے مراد یہ نہیں کہ ہم حکومت کا نام اسلامی رکھ دیں تو وہ اسلامی حکومت بن جاۓ گی۔ یا حکومت مسلمان حکمران کی ہے تو وہ اسلامی حکومت ہے۔ جی نہیں! بلکہ ہم نے بیان کیا کہ حکومت کے تینوں عناصر بیک وقت اسلامی ہوں تو وہ حکومت اسلامی کہلاۓ گی۔ پہلا عنصر قانون ہے، حکومت اسلامی کا قانون اسلامی ہونا چاہیے۔ دوسرا عنصر حاکم ہے کہ حاکم کو اسلامی ہونا چاہیے یعنی اس کو شرعی مشروعیت حاصل ہو، اور تیسرا یہ کہ اسلامی قانون اور اسلامی حاکم کو عوام اپنے اختیار سے قبول کریں۔

قانون افضل یامعاشرہ

سوال یہ ہے کہ ہمیں معاشرے میں حق کا قیام کرنا چاہیے یا طعام کا؟ حق کی اساس پر حکومت بنانی چاہیے یا مادی مفادات کے حصول کی بنا پر حکومت بنانی چاہیے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ قانون افضل ہے یا معاشرہ؟ اگر معاشرہ کے مفاد اور قانون میں ٹکراؤ ہو جاۓ تو کس کو مقدم کیا جاۓ؟ مثلا معاشرہ کہتا ہے کہ ہمیں ہر قسم کے مشروبات پینے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن قانون کہے کہ شراب پینا جرم ہوگا۔ ہم معاشرے کی مانیں یا قانون کی؟ یا معاشرہ کہے کہ حجاب آزاد ہونا چاہیے لیکن قانون کہے کہ خاتون پر حجاب پہننا ضروری ہوگا۔ یہاں پر الحادی تفکر قانون پر معاشرے کو فوقیت دے کر یہ نظریہ اپناتا ہے کہ جو معاشرہ چاہتاہے اس کو فضیلت دی جاۓ گی۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ معاشرے پر قانون کو فوقیت حاصل ہے۔ یہاں پر دو زیر بنا ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تفکر کی بنا عوام اور ان کے مادی مفادات ہیں۔ اور دوسرے تفکر کی بنا حق اور قانون ہے۔ سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام نے یہ تفکر دیا کہ انسان اور معاشرے کی اساس مادیات پر ہے۔ مادیات کا حصول ہر قسم کے اخلاق اور قانون پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس تفکر کی زیر بنا الحادی ہے۔ آج کا مسلمان اگر اسی تفکر کو مانتا ہے اور دل سے حق کو اور قانون کو معاشرے اور اس کے مفاد پر مقدم نہیں سمجھتا دراصل وہ الحاد کو دل سے اقرار کر چکا ہے چاہے بظاہر مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔

حق کی زیر بنا کا غلبہ

معلوم ہونا چاہیے کہ اگر آج کے مسلمان الحادی تفکر کو قبول کر لیں تو ایسا نہیں کہ دین محو ہو جاۓ گا بلکہ اس سے خود ہمارا نقصان ہے۔ دین کو تو کچھ نہ ہوگا دین کے لیے خدا ہے اور وہ خدا کوئی اور قوم لے آۓ گا جو مادیات پر قانون اور حق کو مقدم سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے:

«أَنْ تَجْعَلَنِی مِمَّنْ تَنْتَصِرُ بِهِ لِدِینِکَ وَ لَا تَسْتَبْدِلْ بِی غَیْرِی».

ترجمہ: اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جن کے ذریعے تو اپنے دین کی مدد کرتا ہے اور میری جگہ اور کے ذریعے تبدیل مت کرنا۔[1]

اللہ تعالی کے لیے ممکن ہے وہ ہمیں بدل دے اور قوم لے آۓ۔ اگر کوئی شخص یا قوم دین الہی کو ترک کر دیے اللہ تعالی اور قوم لے آتا ہے۔

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْکافِرینَ یُجاهِدُونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ لا یَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتیهِ مَنْ یَشاءُ وَ اللهُ واسِعٌ عَلیمٌ».

ترجمہ: اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔[2]

یا قرآن کریم کلمہ الہی کے بلند ہونے کے متعلق وارد ہوا ہے:

«کَلِمَةُ اللهِ ‌ هِیَ الْعُلْیا».

ترجمہ: اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے۔[3]

حق کا غلبہ کیسے ممکن

آج اگرچہ ہمیں ہر طرف الحادی تفکر حاکم نظر آتا ہے۔ حتی اسلامی معاشروں میں بھی یہ تفکر بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں حق پر عمل کرنے والے افراد کیا کریں؟ کیا وہ نصرت الہی سے حق کی عالمی حکومت بنا سکتے ہیں؟ جی ہاں! جیسا کہ گزشتہ قسط میں بھی بیان ہوا کہ اگر یہ تین مراحل ہم پورے کریں تو حق کا غلبہ ممکن ہے۔ اور تین مراحل  شناخت حق، حق کی شناخت کے بعد اس پر عمل، اور عمل کے مرحلے میں اتحاد اور انسجام۔آج مسلمانوں کی کمزوری کی سب سے اہم ترین وجہ عدم اتحاد ہے۔ شیعہ کا بریلوی سے، دیوبندی کا وہابی سے ، حتی خود ایک فرقے لوگ آپس میں اختلافات کا شکار ہیں۔اور یہ بات واضحات میں سے ہے اختلافات کی اکثر طور پر وجوہات بھی مادی اور دنیوی ہیں۔ شخصی اختلاف کی بنا پر یا ذاتی مفاد کی بنا پر ہم اتحاد نہیں کرتے۔ اسلامی معاشرے کے اندر اتحاد کا نظر آنا اتنا اہم ہے کہ امام علیؑ نے حق خلافت چھن جانے کے بعد بھی خلفاء ثلاثہ کا ساتھ دیا، اگرچہ ان کے ساتھ شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن معاشرے کے اتحاد کو ٹوٹنے نہ دیا اور نہ گوشہ نشین ہوۓ۔اپنے حق کی خاطر تلوار بلند نہ کی کیوں کہ جانتے تھے کہ اگر میں نے تلوار اٹھائی اور اسلام کو اندر سے ہی اختلاف کا شکار ہونے دیا تو بیرونی طاقتیں آ کر اصلِ اسلام کو ہی جڑ سے کاٹ ڈالیں گی۔

اور جب حق کی شناخت، اس پراتحاد سے عمل کرتے ہوۓ چند افراد بھی جمع ہو جائیں اللہ تعالی غلبہ عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثیرَةً بِإِذْنِ اللهِ».

ترجمہ: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے۔[4]

جب نصرت الہی آ جاتی ہے تو یہ قلیل جماعت اکثریتی جماعت میں تبدیل ہو جاتی ہے:سورہ نصر میں وارد ہوا:

«إِذا جاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ  وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فی دینِ اللهِ أَفْواجاً».

ترجمہ: جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں۔[5]

عصر حاضر میں غلبہ حق

جب کہا جاتا ہے کہ حق کو اللہ تعالی نے غالب کر کے ہی چھوڑنا ہے تو خود ہم مسلمانوں کو بھی یقین نہیں آتا،اور اکثر کہتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں تو ہر طرف باطل کا ہی غلبہ نظر آر ہاہے، حتی اسلامی ممالک میں بھی الحادی تفکر اور مادی تفکر بڑھتا جا رہا ہے اور حق پر عمل نہیں ہورہا۔ لیکن اس کے جواب میں کہا جاۓ گا اسی ۲۰ ویں صدی کے اختتام پر ایک دینی بزرگ شخصیت نے غرب و شرق کے خلاف خالصتا اسلامی تفکر پیش کیا، اور اللہ تعالی کی نصرت سے اس کو کامیابی حاصل ہوئی۔

امام خمینیؒ نے اس وقت لاشرقیہ لا غربیہ کا نعرہ لگایا جب پوری دنیا دو بلاک امریکی اور سوویت یونین میں تقسیم ہو رہی تھی۔ اور فرمایا کہ ہم صرف اسلام کی حاکمیت چاہتے ہیں، ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام اپنے ملک سے ختم کر کے ۹۸ فیصد عوامی رفرونڈم کے ذریعے اسلامی حکومت بنانے میں کامیاب ہوۓ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اکثریت پہلے دن سے ہی ان کو حاصل تھی؟ جی نہیں! ایران میں بھی ایک اقلیت تھی جس نے پہلے حق کی شناخت حاصل کی اور اسلامی نظام حاکمیت کو سمجھا، اس کے بعد اس پر عمل کیا اور عمل بھی کیا تو منسجم اور متحد ہو کر کام کیا۔ ۱۵ سال کی جدو جہد کے بعد یہ اقلیت اکثریت میں بدل گئی۔ اسلامی حکومت کے قیام کے فورا بعد پوری دنیا کی استعماری طاقتوں نے صدام کے ذریعے اس حکومت پر بدترین شکل میں جنگ مسلط کر دی۔ اس جنگ میں صدام کو ہر طرف سے اور ہر قسم کی حمایت حاصل تھی، جبکہ ایران کے پاس اپنے بارڈر کی حفاظت کے لیے اس وقت خاردار تاریں بھی نہیں تھیں۔اسی طرح سے حزب اللہ کی قلیل سی فوج نے اسرائیل کو جس شرمناک شکست سے دوچار کیا پوری دنیا گواہ ہے۔ انصار اللہ یمن کی مثال آج کی تازہ ترین مثال ہے کہ ان کے پاس پیروں تلے جوتے نہیں، پہننے کے لیے فوجی وردی نہیں لیکن آج عربی ممالک اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ضروری ہے کہ ہم خود کو بدلیں اور تفکر میں تبدیلی لائیں۔اگر حق کا غلبہ چاہتے ہیں تو خود اس کا ارادہ کریں اور عملی اقدام انجام دیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں وارد ہو اہے:

«إِنَّ اللهَ لا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ».

ترجمہ: اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔[6]

اور اسی طرح سے اللہ تعالی بغیر کسی وجہ کے حکومت اسلامی جیسی شائستہ ترین نعمت کسی قوم سے نہیں چھین لیتا، مگر یہ کہ وہ خود اس کی حفاظت اور حرمت میں کوتاہی کریں۔سورہ انفال میں ارشادہوا:

«ذلِکَ بِأَنَّ اللهَ‌ لَمْ یَکُ مُغَیِّراً نِعْمَةً أَنْعَمَها عَلى قَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ».

ترجمہ:  ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔[7]

در نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ آ ج بھی ہر طرف باطل کا غلبہ ہے ۔ لیکن اللہ تعالی نے باطل کے نصیب میں شکست لکھ دی ہے۔ اور حق غالب آنے والا ہے۔ لیکن یہ حق کیسے غالب آۓ گا؟ اس کے لیے خود حق پرستوں کو سامنے آنا ہوگا، اگر یہ لوگ آگے نہ آۓ تو خدا کا تو بہرحال وعدہ ہے وہ ہمیں تبدیل کر کے کسی اور قوم کے ذریعے حق کو غالب فرما دے گا۔[8]

منابع:

 

↑1 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۱۶۲۔
↑2 مائدہ: ۵۴۔
↑3 توبہ: ۴۰۔
↑4 بقرہ: ۲۴۹۔
↑5 نصر: ۱،۲۔
↑6 رعد: ۱۱۔
↑7 انفال: ۵۳۔
↑8 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۴۔
موافقین ۰ مخالفین ۰ 22/03/29
عون نقوی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی