بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

اسلام دینِ کامل اور خاتم

بیان ہوا کہ اسلامی مفکرین نے اسلام کی جامعیت کے بارے میں تین نظریات بیان کیے ہیں۔ پہلے نظریے کے مطابق اسلام انفرادی زندگی کی بہتری کے لیے ہے۔ عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا مجموعہ ہے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کے اندر فقط انفرادی زندگی کے پہلو بیان نہیں ہوۓ بلکہ اجتماعی پہلوؤں پر بھی اسلام نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے لیکن اس کی تشریحات وارد نہیں ہوئیں لہذا مسلمان جس اجتماعی شکل کو مناسب سمجھیں اس کو اختیار کر سکتے ہیں۔ تیسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی  ہردو پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے اور جزئیات سے اس کی شرح بھی بیان کی ہے۔مؤلف نے تیسرا نظریہ اختیار کیا ہے اور اس کی دلیل میں بیان کیا کہ دین اسلام ایک جامع ،کامل اور دین  ِخاتم ہے۔ اور جو دین خاتم ہو  اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے کچھ چیزیں تو بیان کی ہیں اور بعض کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر اسلام کو کامل اور خاتم مانتے ہیں تو اس کو عملی طور پر بھی کامل اور خاتم ماننا ضروری ہوگا صرف لسانی طور پر اس بات کا اقرار کر لینا کہ اسلام دین خاتم  ہے کافی نہیں۔

حق اور عدالت

دینِ اسلام نے دو چیز کو اصل قرار دیا ہے۔

۱۔ حق

۲۔ عدالت

اسلام معاشروں میں حق کو دیکھنا چاہتا ہے اور عدالت قائم کرنا چاہتا ہے۔ مکتب تشیع  معاشرے میں حق کے نفاذ اور عدالت کی برقراری کے لیے نظریہ امامت کا قائل ہے۔ نظریہ امامت کو صرف کلامی اور اعتقادی مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اسلام کا سیاسی تفکر امامت ہے۔ وہ شخص جو امامت کا قائل ہے وہ کیسے اجتماعی پہلوؤں پر اسلام کے عمل دخل کا انکار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص امامت کا قائل ہے وہ کیسے اسلام کی جامعیت کا انکار کر سکتا ہے؟ شیعہ سنی کا بنیادی اور اساسی ترین اختلاف ہی سیاسی اختلاف ہے۔ مکتب تشیع بعد از رسول اللہﷺ امام علیؑ کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ اور مکتب تسنن خلفاء کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ یہاں پر مراد ظاہری حاکمیت ہے کیونکہ امام علیؑ کی معنوی امامت کے تو سنی صوفیاء کرام بھی قائل ہیں۔ لہذا اسلامی مکاتب فکر جس مسئلے پر دو حصوں میں تقسیم ہو رہے ہیں وہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ امام حسینؑ ایک سیاسی مسئلے پر شہید ہوۓ۔ امام حسینؑ کا  مؤقف یہ تھا کہ امت پر بعد حق امامت اور حق حاکمیت مجھ امام معصوم کو حاصل ہے۔ کوئی فاسق فاجر انسان امت اسلامی کا حکمران نہیں ہو سکتا۔ امت اسلامی پر صرف الہی حاکم ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ بقیہ آئمہ معصومینؑ کی حیات مبارکہ کو بھی دیکھا جاۓ تو یہی مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ تشیع کی پوری تاریخ خون میں ڈوبی ہے ، شیعہ ہمیشہ شکنجوں میں رہا، پہلے بنو امیہ اور پھر بنو عباس اور بعد میں آنے والے ادوار میں تقیہ میں رہا۔ اس کے پیچھے وجہ صرف شیعہ کا سیاسی تفکر تھا۔ یعنی شیعہ اور تشیع کی بقاء اس کے نظریہ امامت پر ہے۔ ہر دور کی حکومت اس سے ڈرتی ہے ،کیوں؟ کیونکہ شیعہ غیر الہی نظام حکومت کو نا صرف قبول نہیں کرتا بلکہ حکومتِ عدل قائم کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔

عبادات کے اجتماعی پہلو

عموما سمجھا جاتا ہے کہ عبادات صرف انفرادی پہلو رکھتی ہیں اور انسان کی انفرادی زندگی سے مربوط ہیں۔ قرآن کریم  کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ عبادات ایک جہت سے انفرادی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے اجتماعی پہلو بھی موجود ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے :

أقیموا الصلوۃ.(۱کتب علیکم الصیام.(۲)، نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کیا گیا کہ نماز پڑھو بلکہ حکم ہوا ہے کہ نماز قائم کریں، اس سے جماعت  کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ اسلام ایک عبادت (نماز ) کے ذریعے مسلمانوں کو پانچ مرتبہ ایک جگہ پر جمع ہوتا دیکھناچاہتا ہے۔ نماز جماعت کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ مسجد کا ہمسایہ گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔(۳)  اسی طرح سے نماز جمعہ کا حکم ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ پوری آبادی کے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوں، عید فطر اور عید قربان کے اجتماعات بھی نماز کے اجتماعی پہلو کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ حج کی عبادت کو دیکھ لیں جس کے اجتماعی پہلو کو بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا سے مسلمان مختلف ممالک سے ایک جگہ پر، ایک لباس اور ایک طرف رخ کر کے ایک مرکز خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ اور بیت العتیق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ہر پلیدگی، غیر خدا اور مشرکین سے اعلام برأت کرتے ہیں یہ سب عبادات اسلام کے اجتماعی پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اخلاقیات کے اجتماعی پہلو

عبادات کے علاوہ اسلام میں چند اخلاقیات بھی وارد ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم میں وار دہوا ہے:

لا یسخر قوم من قوم.(۴)

ایک قوم کا دوسری قوم کو مسخرہ کرنا بہت قبیح عمل ہے۔ مومنین آپس میں بھائی ہیں۔اسلام نے عمومی طور پر مسلمانوں کو آپس میں الفت اور محبت کا درس دیا ہے۔ قبائل پرستی، قوم پرستی اور سرحدوں کی تقسیم سے بالاتر ہو کر مسلمان آپس میں اخوت اور برادری سے رہیں۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں  بھی  اس شے کو بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ پٹھا ن  ہے تو پنجابی کا مذاق اڑا رہا ہے اور کوئی سندھی ہے تو بلوچ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر وارد ہوا ہے:

لا یغتب بعضکم بعضا.(۵)

دین اسلام نے غیبت کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ وارد ہوا ہے کہ جو شخص غیبت کرتا ہے گویا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے۔ غیبت ایک فردی عمل نہیں ہے بلکہ معاشرے میں ایک شخص کو بےآبرو کرنا ہے جو قبیح عمل ہے اور بدترین بد اخلاقی ہے۔

اقتصادی اور حقوقی امور

دین اسلام نے مسلمین پر فرض قرار دیا ہے کہ معاشرے میں موجود مساکین اور فقراء کا خیال رکھیں، صدقہ، خیرات، زکات اور خمس کو ضروری قرار دیا۔ اموال کو جمع کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ معاشرے میں موجود وہ افراد جو اقتصادی طور پر مضبوط ہیں ، اپنے اموال کا ایک حصہ ان لوگوں پر خرچ کریں جو فقر میں مبتلا ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

ءاتوا الزکوۃ.(۶)

زکات کو اللہ تعالی نے واجب قرار دیاتاکہ معاشرے میں اموال گردش میں رہیں، اورفقر ختم ہو۔جرائم کے خاتمے کے لیے حدود اور تعزیرات مقرر فرماۓ۔ وارد ہوا ہے:

السارق و السارقة فاقطعوا ایدیهما.(۷)

زانی اور زانیہ کے بارے میں حکم دیا:

الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منها مأة جلدة.(۸)

اسلام نے باقاعدہ قانون گذاری کی ہے اور معاشرے سے جرائم کے خاتمہ کے لیے احکام جاری کیے ہیں۔

دفاعی احکام

اسلام  نے کفار کے مقابلے میں قوت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔وارد ہوا ہے:

و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة.(۹)

یعنی اگر ٹینک بنا سکتے ہو تو ٹینک بناؤ، میزائل بنا سکتے ہو تو وہ بناؤ، دشمن کے خلاف نرم گوشہ اختیار نہیں کرنا۔ اسلام ابتدا میں جنگ کا قائل نہیں بلکہ حکم دیتا ہے کہ پہلے مرحلے میں صلح اور امن برقرار رکھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر کافر بھی ہے تب بھی اس کی جان محترم ہے۔ لیکن اگر کافر جنگ پر تل جاۓ اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے اس صورت میں شدت دکھانے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

یا ایها الذین امنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدو فیکم غلظة.

اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں۔(۱۰)

یہ احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام اپنی حاکمیت چاہتا ہے اور پہلا اور دوسرا نظریہ درست نہیں جو کہتا ہے کہ اسلام نے کہا ہے تم آزاد ہو جو چاہو اجتماعی امور میں انجام دو، اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم میں یہ آیات کس لیے نازل ہوئی ہیں؟

معاشرے کی جمعی روح

معاشرہ اصالت رکھتا ہے یا فرد؟ یا ہر دو اصیل ہیں؟ اگر معاشرے کا مفاد فرد کے مفاد سے ٹکرا رہا ہو تو کس کو مقدم کیا جاۓ گا؟ یہ بحث عمرانیات کی پیچیدہ ترین ابحاث میں سے ہے۔ جس میں اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کا شدید اختلاف ہے، حتی خود اسلامی مفکرین نے بھی اس میں مختلف نظریات بیان کیے ہیں۔ معاشرہ جب بنتا ہے تو ایک جمعی روح بنتا ہے جس کے لیے دین اسلام نے خصوصی طور پر احکام بیان کیے ہیں۔ ایک انسان کا فردی روح ہے اور ایک پورے اجتماع یا معاشرے کا روح ہے جسے ہم جمعی روح کہہ سکتے ہیں۔ مؤلف فرماتے ہیں کہ اسلام  اس بات کا قائل ہے کہ اگر فرد کی مصلحت اور معاشرے کی مصلحت آپس میں ٹکرا جائیں تو معاشرے کی مصلحت کو مقدم کیا جاۓ گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان معاشرے پر جنگ مسلط ہو جاۓ ،جنگ میں اس معاشرے کو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ بچا سکے گی۔ کیونکہ اگر سب نے انفرادی طو رپر اپنا اپنا سوچااور کوئی بھی جنگ پر دفاع کے لیے قربانی دینے نہ گیا تو کوئی بھی نہ بچے گا لیکن اگر ان میں سے بعض نے اجتماعی  سوچااور قربانی دی تو یہ معاشرہ بچ جاۓ گا۔مسلمانوں کے دفاع کے لیے اگر کسی علاقے کے لوگوں کو وہاں سے زبردستی نکلوانا پڑے تو یہاں پر انفرادی نہیں سوچا جاۓ گا کہ اس بستی کے لوگوں کا کیا بنے گا یا وہاں سے کوئی ایک شخص کہے کہ میں تو اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤنگا۔ یہاں پر اس شخص کی بات نہیں سنی جاۓ گی بلکہ زبردستی اس کو  وہاں سے نکالا جاۓ گا اور پورے معاشرے کا سوچا جاۓ گا۔

خود رسول اللہ ﷺ نے  ایک جنگ میں کسی شخص کی زرعی زمین سے اسلامی لشکر گزارنا چاہا۔ لیکن مالک نے اجازت نہ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور اسے سمجھایا کہ اگر یہاں سے لشکر نہ گزرا تو بہت نقصان ہوگا، ہمیں اپنی زمین میں سے گزرنے دو لیکن وہ پھر بھی نہ مانا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ لشکر کو وہاں سے گزاردیں۔ یہا ں پر کسی کی انفرادی زندگی متاثر ہوتی ہے تو ہو جاۓ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ایک شخص کی وجہ سے پورا معاشرہ  نقصان میں جا رہا ہو تو وہاں پر اس ایک شخص کو نقصان میں ڈال کر معاشرے کو بچایا جاۓ گا۔ اس لیے بہت آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے ، اسلام نے باقاعدہ  اجتماعی احکام بیان کیے ہیں۔

انفرادی سوچ کی مذمت

ہمارے یہاں ایک بنیادی ترین مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اجتماعی سوچ نہیں رکھتے ، کوئی بھی معاشرے کا نہیں سوچتا، اجتماعی بھلے کا کوئی بھی خیال نہیں رکھتا۔ جو انفرادی طور پر اپنا کام نکال لے اس کو کامیاب سمجھا جاتا ہے چاہے اس کے اس منفی کام سے پورے معاشرے کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ مثا ل کے طور پر اگر کوئی شخص خالصتا دین کے احیاء کے لیے کام کرتا ہے اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے یا اسے کہا جاتا ہے کہ تم سے کام نکلوایا جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسے لے کر کام کرتا ہے اسے بہت کاردان سمجھتے ہیں۔ معاشروں میں جب تک انفرادی سوچ ختم نہیں ہو جاتی وہاں نیکیاں جنم نہیں لیتیں۔ اس لیے اسلام نے ایثار اور صبر کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر گھر میں کوئی بھی قربانی نہ دے اور دوسرے کی تند زبانی پر صبر نہ کرے یہ گھرانہ ٹوٹ جاۓ گا بالآخر کسی کو صبر اور ایثار سے کام لینا ہوگا، اگر اپنی ذات کا سوچا تو گھر ٹوٹ جاۓ گا۔ اگر گھر بچ جاۓ اور اس فرد کو طعنہ سننا پڑتا ہے تو یہ کامیابی ہے، اگر دین کے لیے خالصتا کام کرنے سے آپ کا ذاتی نقصان ہوتا ہے لیکن دین زندہ ہوتا ہے یہ کامیابی ہے۔

نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ایک کامل دین ہے جس میں انفرادی پہلو موجود ہیں۔ میاں بیوی کے مسائل، نکاح طلاق، عبادات، اخلاقیات، حتی بیت الخلاء جیسے انسان کے نفرادی ترین مسائل کے بارے میں اسلام میں احکام وارد ہوۓ۔  ناخن کاٹنا، زیر ناف بالوں کی صفائی یا ایسی بیماریاں جن کے متعلق انسان ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہوۓ شرم محسوس کرتا ہے ان کے بارے میں بھی اسلام نے حکم بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی اجتماعی زندگی کے پہلو ؤں کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دراصل یہ کہنا سراسر زیادتی ہوگی کہ اسلام نے انسان کی انفرادی ترین زندگی کے مسئلے (بیت الخلا ء میں جانے کے احکام)پر تو اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اجتماعی پہلوؤں پر کوئی نظر بیان نہیں کی۔ در اصل یہ بات کرنا اسلام کی درست طور پر شناخت نہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔(۱۱)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ بقرہ:۴۳۔

۲۔ بقرہ:۱۸۳۔

۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۸۰، ص۳۷۹۔

۴۔ حجرات:۱۱۔

۵۔ حجرات: ۱۲۔

۶۔ توبہ:۵۔

۷۔ مائدہ:۳۸۔

۸۔ نور: ۲۔

۹۔ انفال:۶۰۔

۱۰۔توبہ:۱۲۳۔

۱۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت،ص۶۶تا۶۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 February 22 ، 17:35
عون نقوی

حضرت آیت اللہ العظمی بہجتؒ

امریکہ اور برطانیہ روۓ زمین پر سب سے بڑی خباثت ہیں۔(۱)

 


 

حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ بہجت۔

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 February 22 ، 13:59
عون نقوی

دین اسلام مکمل ضابطہ حیات

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر دو پہلوؤں پر اسلام نے اپنی نظر بیان کی ہے۔ اجتماعی زندگی کے بہت سے شعبے ہیں۔ تعلیم، دفاع، حکومت اور عدالت یہ سب شعبہ جات انسان کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم جان چکے ہیں کہ انسان اجتماعی زندگی گزارتا ہے اس لیے ممکن نہیں کہ ان شعبہ جات سے انسان کی زندگی متاثر نہ ہو۔ اگر انسان کا وجود ہے تو یہ سب بھی ہیں، چاہے انسان ان سے تعلق رکھے یا نہ رکھے بہرحال ان سب پہلوؤں سے انسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھتا ہے یا نہیں؟یا ایسے مسائل اور شعبہ جات جو پہلے نہیں تھے اور آج اہمیت کے حامل ہیں ،ان سب امور میں اسلام کی کیا نظر ہے؟ اس کے بارے میں اسلامی مفکرین کے تین نظریات ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تین نظریات اسلامی مفکرین کے ہیں۔

پہلا نظریہ

علماء اسلام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ دین اسلام فقط عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا نام ہے۔ دین اسلام ایک انسان سے بس اتنا چاہتا ہے کہ نمازیں اور روزے رکھے، اخلاق کا خیال رکھے اور چند شرعی احکام پر عمل کرےیہ بہترین انسان اور مسلمان ہے۔ دین اسلام اجتماعی زندگی کے بارے میں کوئی نظر نہیں رکھتا بلکہ اجتماعی زندگی میں انسان کو آزاد رکھا ہے کہ وہ عدالتی نظام، سیاسی نظام، دفاعی نظام اور دیگر نظاموں میں جس طرح سے بھی اجتماعی زندگی گزارتا ہے ، آزاد ہے۔ با الفاظ دیگراسلام فردی دین ہے اجتماعی دین نہیں ہے۔اس نظریہ کے بارے میں اگر مختصر تبصرہ کرنا چاہیں تو اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظریہ مغربی مفکرین نے پھیلایا، مغرب میں دین مسیحیت  کی بگڑی ہوئی شکل کے بدترین استبداد کے بعد جب دین کو اجتماعی زندگی سے دور کر دیا گیا ، یہی سوچ مسلمان معاشروں میں بھی سرایت کر گئی ۔ اور آج کے دور میں ہمارے نادان دوستان بھی اسی نظرے کے قائل نظر آتے ہیں اور یہ کہتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ ہمیں کسی کے انفرادی عمل یا دین سے کیا تعلق؟ بے شک اگر کوئی حکمران فاسق اور فاجر ہو کہتے ہیں کہ وہ انفرادی طور پرجو عمل کرتا ہے وہ اس کا اپنا ایمان اور عمل ہے اس سے ہمیں کیا ؟ ہمیں تو صرف اس سے اپنا مفاد پورا کرنا ہے کسی کی ذاتی زندگی سے ہمارا کیا تعلق؟ 

دوسرا نظریہ

دوسرے نظریہ کے قائل علماء کے مطابق اسلام فقط انفرادی دین نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی زندگی کے امور بھی ذکر ہوۓ ہیں۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر اجمالی طور پر اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اس کی تفصیل بیان نہیں کی۔ اسلام سیاست کے بارے میں نظر رکھتا ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ نظام کونسا ہو؟اس لیے اگر سیاسی طور پر کوئی بھی نظام اپنا لیا جاۓ کوئی مشکل نہیں۔ جمہوریت ہو، بادشاہت ہو، حاکم انتصابی ہویا انتخابی، ووٹ سے حاکم کو چناجاۓیا کسی اور طریقےسے، یہ سب اسلام نے نہیں بتایا ۔ جب اسلام نے یہ سب تفصیلی طور پر نہیں بتایا تو ہم بھی آسانی سے کسی سیاسی ، یا اقتصادی نظام کو بدعت نہیں کہہ سکتے۔ آج کے دور میں اگر ایک حاکم انتخابات کے مراحل سے چنا جاتا ہے تو اس میں کوئی مشکل نہیں۔

تیسرا نظریہ

اس نظریہ کے مطابق اسلام نا صرف انسان کی اجتماعی زندگی کے متعلق نظریات رکھتا ہے بلکہ تفصیل سے یہ بھی بتاتا ہے کہ نظام کیسا ہو۔ اسلام صرف حکومت کا ہی نہیں بتاتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ حاکم کونسا ہو؟ حاکم کے بننے کے کیا طریقے ہیں؟ اسلام بتاۓ گا کہ ہم نے کس کو اپنا حاکم بنانا ہے؟ اور کس طرح سے ایک حکومت لانی ہے؟ تیسرا نظریہ ہی اسلام کی جامعیت کا آئینہ دار ہے۔ اگر ایک مسلمان دین اسلام کی جامعیت کا قائل ہے تو اسے ماننا ہوگا کہ یہ دین اس کی اجتماعی زندگی کے پہلوؤں پر کیا نظر رکھتا ہے؟ اگر اسلام سے اجتماعی زندگی کے پہلوؤں کو نکال دیں تو اس کی جامعیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اسلام کی جامعیت کا انکار در اصل اسلام کا انکا رہے۔امام خمینیؒ، رہبر معظم، اس کتاب کے مؤلف اس تیسرے نظریہ کے قائل ہیں۔

پہلے دو نظریات کا رد

ہم نے کہا کہ اسلام انسان کی سعادت چاہتا ہے۔ جہاں پر بھی انسان کی سعادت موجود ہو گی وہاں پر اسلام اپنا نکتہ نظر بیان کرے گا او ر اس سعادت تک پہنچانے کا راستہ دکھاۓ گا۔ دوسری طرف سے ہم جانتے ہیں کہ انسان کی انفرادی زندگی اس کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ انسان اجتماع سے متاثر نہ ہو یا اجتماع کو متاثر نہ کرے۔ باالفاظ دیگریہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان اجتماعی طور پر آزاد طریقے زندگی گزارے او ر اسلام اس کو اجتماعی زندگی کے کسی بھی میدان میں محدود نہ کرے اور وہ انفرادی طور پر ایک ایماندار انسان ہو۔ انسان کی انفرادی زندگی اس کی عبادات، اس کی گھریلو زندگی ، میاں بیوی کے مسائل، ہمسائیوں کے حقوق، یہ سب امور انسان کی اجتماعی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں۔ انسان کا اقتصاد، سیاست، امن و امان کے مسائل، اور صلح و صفائی کے مسائل انسان کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اگر ان تمام شعبوں میں انسان اسلامی نکتہ نظر اختیار نہ کرے تو اس کی انفردی اسلامی زندگی  کا بھی ضرر ہوگا۔ اجتماعی زندگی میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنا اس سے بہت زیادہ اہم ہے کہ ہم انفرادی طور پر اسلام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر اقتصاد اسلامی نہ ہوا تو آپ سود کھاؤگے، اگر سیاست اسلامی نہ ہوئی تو آپ غیر اسلامی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاؤ گے، اگر دفاعی نظام اور تعلیمی نظام اسلامی نہ ہوا تو آپ نام کے تو مسلمان ہونگے لیکن ایک ایسی قوم کا حصہ شمارہونگے جو دوسروں کی غلام ہے۔اسلام آپ کی اجتماعی زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر معاشرہ ٹھیک ہو گیا تو اس سے فرد بھی راہ راست پر آ جاۓ گا۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۶۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 13:40
عون نقوی

دین اسلام کامل دین

دین اسلام خاتم ہے ۔ اس لیے اس کا کامل ہونا ضروری ہے۔ دین اسلام کےبعد کسی دین نہیں آنا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس دین میں کوئی نقص ہو۔ تمام انبیاء کرامؑ نے ایک دین تبلیغ کیا ، دین شروع سے ایک ہی تھا شریعتیں بدلتی رہیں۔ یہی دین رسول اللہ ﷺ کے دور میں خاتم قرار پایا۔ دین مکمل طور پر تبلیغ کر دیا گیا ۔ لیکن کیا اس دین کو غلبہ بھی حاصل ہوا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس کو غلبہ امام مہدیؑ کے دو میں حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے دین کو بھیجا ہی اس لیے تھا کہ پوری دنیا پر اس دین کا غلبہ ہو۔ اس دین کواللہ تعالی غالب کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ یہ دین کامل ہے۔ ہر دین میں عبادات، احکام اور اخلاق ہیں۔ حتی اکثر ادیان میں معاد کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔مثلا بت پرستی، زرتشت ، مسیحیت اور یہودیت وغیرہ۔ یہ سب بہت پرانے دین ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں دین رہا ہے لیکن اس کو تکمیل کی ضرورت تھی۔ لیکن جب دین تکمیل ہوا تو کچھ قومیں اسی پرانے غیر تکمیل شدہ دین پر ہی رہ گئیں۔دین اسلام کامل و خاتم دین ہیں اور آج کے انسان کا وظیفہ ہے کہ دین اسلام کے مطاق زندگی گزارے۔

اسلام کمال ِمطلق

کمال نسبی یہ ہے کہ ایک شے کو خود کوئی کمال حاصل نہیں لیکن اگر اس شے کو کسی دوسری شے کے مقابلے میں دیکھا جاۓ تو یہ بہتر لگتی ہے۔ مثلا آنکھوں سے معذور اشخاص کو جمع کیا جاۓ اور دیکھا جاۓ کہ ان میں سب سے بہتر کون ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے وہ شخص جو کانا ہوگا وہ اندھوں سے بہتر ہوگا حالانکہ کانا ہونا خود ایک نقص ہے۔ لیکن اندھوں کی نسبت ایک کمال ہے کیونکہ بہرحال اندھوں سے بہتر ہے اور کچھ نا کچھ دیکھ سکتا ہے۔ کیا دین اسلام کو بھی اسی طرح سے کمال نسبی حاصل ہے یا اسلام خود کمال مطلق ہے؟ اسلام کو کمال نسبی حاصل نہیں ہے کیونکہ اگر کمال نسبی کے قائل ہو جائیں تو ماننا پڑے گا کہ اسلام کی طرح بقیہ ادیان بھی انسان کو سعادت تک پہنچا سکتے ہیں ، سب ادیان میں کچھ نقص اور کچھ اچھی باتیں۔ لیکن اسلام ان سے بہتر ہے۔ یہ بات درست نہیں بلکہ اسلام کمال مطلق ہے اور اس میں دوسرے ادیان یا مکاتب کی نسبت کسی قسم کا نقص اور عیب نہیں پایا جاتا۔ دین اسلام کی خاتمیت اور کمال کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ انسان کی تمام جہات سے سعادت چاہتا ہے ۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں اور کوئی بھی ایسا مکتب نہیں جو انسان کو ہر جہت سے کمال تک پہنچا سکے۔

پولیٹیکل سائنس کا سائنس ہونا

اسلام کے بالمقابل دیگر مکاتب انسان کو سعادت تک پہنچانے کے دعوے دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مشاہدہ اور تجربے سے انسانوں پر تجربہ کرتے ہیں اور نتائج حاصل کرتے ہیں اس لیے ہمارا دیا ہوا راہ حل بہتر ہے۔ پولیٹیکل سائنس کو سائنس اسی بنا پر کہا جاتا ہے۔ سائنس ہر اس علم کو کہتے ہیں جس میں مفروضہ، مشاہدہ ، تجربہ اور نتیجہ لیا جاتا ہے۔ ان مراحل سے جو علم گزرتے ہیں اس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ اگر پولیٹیکل سائنس کو سائنس قرار دیں تو جواب دینا پڑے گا کہ کیا آپ نے انسانوں پر تجربہ کیا ہے؟ وہ لیبارٹری کہاں ہے جہاں آپ نے ان مراحل سے اس علم کو گزارا ہے جس کے نتیجے میں اسے سائنس قرار دیا ہے؟ جواب میں کہا جاتا ہے کہ معاشرہ لیبارٹری ہے، مشاہدہ ہمارا تاریخ ہے۔ ہم ایک معاشرے پر تجربہ کرتے ہیں اور پچاس سال بعد جب معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے تو اس سے نتیجہ لیتے ہیں ک یہ ٹھیک ہوا یا غلط ہوا۔ اس لیے ہمارا انسانی نجات کا دیا ہوا فارمولا بہتر ہے ہم آپ کو کامل حل دیتے ہیں۔

اسلام کا کامل ہونا

یہاں پر سوال ابھر تاا ہے کہ اسلام کے پاس بشریت کی نجات اور اس کو سعادت تک پہنچانے کا کیا منصوبہ ہے؟ کیا اسلام نے بھی آزمائش کی ہے کسی معاشرے پر اور اس کو سعادتمند کیا ہے؟ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی حکومت کا دس سالہ دور امام علیؑ کے پانچ سال نمونے کے طور پر موجود ہیں ۔ کیا ان ادوار میں بشریت کے تمام مسائل حل ہو ۓ؟ کیا آپ کے پاس عملی دلیل یا تجربہ اور اس کا نتیجہ ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ نا صرف اس مادی عالم کو حاصل ہے بلکہ برزخ اور عالم قیامت کے حقائق تک کو شامل ہے کیونکہ یہ دین کامل ہے۔ دین اسلام صرف اس عالم کی مشکلات کو حل نہیں کرتا بلکہ قبر، قیامت تک کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ صرف وہی مکتب کالم ہونے کا دعوی کر سکتا ہے جس نے تمام عوالم کو دیکھا ہو اور ان کے نفع نقصان کو جانتا ہو۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو کامل ترین وجود عطا کیا اوررسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا کہ وہ مقام ’’لقاء اللہ ‘‘ سے ہمکنار ہوۓ۔ ’’دنا فتدلی‘‘ اور پھر ’’فکان قاب قوسین او ادنی‘‘(۱)  کے مقام تک پہنچے۔ لوح محفوط، ام الکتاب، اور کتاب مبین کا علم ان کو عطا ہوا۔رسول اللہ ﷺ کی وجود بلند ترین کمال تک پہنچا ہوا وجود ہے۔ ان کی اتباع کر کے ہی معاشرے کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم لوگ جو ذاتا کمال نہیں رکھتے اگر اس باکمال ذات سے متصل اور ان کے تابع ہو جائیں کمال حاصل کر سکتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کو اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل بنانا ہوگا۔ سب انسانوں کے پاس برابر فرصت موجود ہے سب ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اگر اسوہ قرار دے کر ان کی اتباع کی تو کمال حاصل ہوگا ورنہ نہیں۔ (۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ نجم:۹۔

۲۔جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت،فقاہت و عدالت، ص ۶۴تا۶۵

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 11:45
عون نقوی

ولایت فقیہ (تالیف آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ قسط۱۹)

ہر انسان ضرر اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور سعادت و کمال چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعادت کیسے حاصل ہو تی ہے؟  سعادت مند کو ن ہے؟ آخرت کا سعادت مند تو وہ ہے جس نےخدا کی بندگی اختیار کی اپنی قبر اور برزخ کا اہتمام کیا اور صالح اعمال انجام دے کر جنت میں پہنچ گیا۔ لیکن دنیا میں سعادت مند کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص کی ضروریات پوری ہوں  وہ شخص سعادت مند ہے۔  دین نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کو پورا ہی نہ کرے بلکہ اس شخص کو سعادت مند قرار دیا ہے جس شخص کی ضروریات زندگی پوری ہوں۔ ان ضروریات ِ زندگی کی صرف اس وقت نفی کی گئی ہے جب یہ آخرت کو نقصان دینے لگیں۔ یہی دنیا، مال اور اولاد اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں لیکن اگر دین کی راہ میں آ جائیں تو قرآن کریم نے انہیں کو انسان کا دشمن قرار دیا ہے۔ اگر ضروریات ِ زندگی انسان کے لیے آخرت کا کمال حاصل کرنے کے لیے وسیلہ بن رہے ہوں تو نعمت ہیں لیکن اگر یہی آخرت کے لیے آزمائش بن رہے ہوں تو ان کو ترک کرنا ضروری ہے۔

روایت میں وارد ہوا ہے :

قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ مِنْ سَعَادَةِ اَلْمَرْءِ اَلْمُسْلِمِ اَلزَّوْجَةُ اَلصَّالِحَةُ وَ اَلْمَسْکَنُ اَلْوَاسِعُ وَ اَلْمَرْکَبُ اَلْهَنِیءُ وَ اَلْوَلَدُ اَلصَّالِحُ.

رسول اللہ ﷺ نے فرمایاایک مسلمان مرد کی خوشبختی یہ ہے کہ اس کی ایک صالح زوجہ ہو،کھلا گھر، آرام دہ سواری اور صالح فرزند ہو۔(۱)

انسان چاہے دنیا میں سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے یا چاہے آخرت میں اسے عقل کے ساتھ ساتھ شریعت کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین کا یہ کہنا کہ ہمیں شریعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقل ہمارے لیے کافی ہے اس بات کو اسلام نے غلط قرار دیا ہے۔ آخرت کی سعادت کے لیے تو حتما شریعت چاہیے لیکن دنیا میں بھی سعادت مند ہونے کے لیے صرف عقل کافی نہیں پھر بھی شریعت چاہیے۔ یہاں پر عقل کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ انسان کے لیے عقل کا استعمال کرنا بہت ضروری ہے، قرآن کریم نے بھی تفکر اور تعقل کا حکم دیا ہے۔ لیکن تعقل اور تفکر اس وقت ہے جب شریعت کے ہمراہ ہو۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

رُسُلاً مُبَشِّرینَ وَ مُنْذِرینَ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کانَ اللَّهُ عَزیزاً حَکیماً.

(یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔(۲)

اس آیت سے انسانی عقل کا ناکافی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر انسانی عقل ہدایت کے لیے کافی ہوتی تو بشر پر حجت تمام ہوتی  اور  پیغمبروں کو بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ’’حجۃ بعد الرسل‘‘ یہ نہیں کہا کہ ’’حجۃبعد العقل‘‘۔

ایک اور آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:

وَلَوْ أَنَّا أَهْلَکْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ.

 اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟(۳)

اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کےلیے عقل اور فطرت اس کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ان پر حجت تمام ہوتی۔ لیکن اس آیت میں کفار کا یہ کہنا کہ ہمارے لیے پیغمبر نہیں بھیجے گئے تھے اس لیے وہ خدا کے ہاں احتجاج کر سکتے ہیں کہ بغیر پیغمبر بھیجے وہ کیسے ہمیں عذاب دے سکتا ہے؟

یہ آیات اور ان کے علاوہ دیگر آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی عقل کفایت نہیں کرتی۔ بیرونی حجتوں کو ہونا ضروری ہے۔ عقل درونی حجت ہےاور بلا شک و شبہ بہت ضروری ہے انسان کو فہم عطا کرتی ہے۔ اور فطرت قرآن کریم اور انبیاء کرام کی باتوں کو قبول کرتی ہے۔ عقل اور فطرت ہر دو ساتھ ہوں تو تب وحی کی بات انسان کو فائدہ دیتی ہے۔ تنہا عقل نہ تو اجتماعی پہلوؤں کو سمجھ سکتی ہے اور نا جنت و جہنم سے مربوط مطالب کو درک کر سکتی ہے۔ (۴)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۳،ص۱۵۵۔

۲۔ نساء:۱۶۵۔

۳۔ طہ: ۱۳۴۔

۴۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۶۱تا۶۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 11:42
عون نقوی