بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۴)

 

بیان ہوا کہ دین اسلام صرف افکار اور نظریات کا مجموعہ نہیں ۔ جہاں معارف و اعتقادات ،امور اخلاقی اور تہذیب نفس کا درس دیا گیا ہے وہیں اسلام نے زندگی کے لیے ایک دستور عمل بھی دیا ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کے وظائف و ذمہ داریاں ذکر ہوئی ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف، نہی از منکر اور جہاد و دفاع کے مسائل بیان کیے ہیں۔ حدود و مقررات اور اجتماعی قوانین بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف اخلاق، عرفان اور انفرادی وظائف کی تبیین نہیں کرتا بلکہ انسان کو راہ دکھاتا ہے کہ کیسے اجتماعی زندگی گزارے؟ کس طرح دیگر باطل مکاتب کا نفوذروکےاور طواغیت ِزمان سے نجات حاصل کرے۔ اور ظاہر ہے یہ کام بغیر حکومت اور سیاست سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

طاغوت کسے کہتے ہیں؟

رہبر معظم فرماتے ہیں:

طاغوت سے مراد ظالم اور خیبیث حکمران ہیں ۔جیسا کہ آج کا امریکی صدر اور اس جیسے دیگر افراد آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ طواغیت ہیں۔[1]

دین چاہتا ہے کہ انسان طاغوت سے ہجرت کر کے ولایت کی طرف آۓاورظلم و ستم کا انکار کرے۔ طاغوتی حکومت سے نکل کر اسلامی حکومت کی طرف حرکت کرے۔ یہاں پر خود اسلامی حکومت کی  تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کسی ملک میں کچھ قوانین اسلامی آ جائیں اس سے اس ملک کی حکومت اسلامی نہیں ہو جاتی۔

اسلامی حکومت کسے کہتے ہیں؟

 اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم، قانون دونوں اسلامی ہوں، اس کے ساتھ ایک تیسری شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم اور قانون کو عوام اپنی مرضی سے قبول کرے۔ بہت سے افراد ایران میں آتے ہیں اور ایک ذہنیت بنا کر آتے ہیں کہ مثلا جب ائیر پورٹ پر اتریں گے تو ہر طرف سے نعرہ تکبیر بلند ہو رہا ہوگا، رہبر اور امام خمینی کی تصاویر ہونگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ایران داخل ہوتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں شاید کسی اور ملک میں غلطی سے داخل ہو گئے ہیں ۔ ایران میں اسلامی حکومت ہے اور اس وقت ایران حالت جنگ میں ہے۔ لیکن وہ جنگ نہیں جو سخت ابزار سے لڑی جاتی ہے۔ بلکہ یہ وہ جنگ ہے جو نرم ابزار سے لڑی جاتی ہے جسے اصطلاح میں جنگ نرم (soft war) کہا جاتا ہے۔ ایران پوری دنیا میں پابندیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارت نہیں کر سکتا۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ لیکن پھر بھی اس اسلامی ڈھانچے کو بچاۓ ہوۓ ہے۔

انقلاب اسلامی کے پانچ مراحل

ان مراحل کو بیان کرنے سے پہلے ایک نکتہ جو بہت اہمیت کا حامل ہے اسے بیان کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ رہبر معظم کی شخصیت کے ساتھ ایک ناانصافی جو کی جاتی ہے کہ ان کو اسلامی مفکر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اور یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ان کو ایک عالم ،فقیہ، مدبر اور سیاستدان کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کے مفکر ہونےکے پہلو کو بہت نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ شاید بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے خود کو اس طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ تقریبا چالیس سال تک ان کے نام سے کوئی ایک کتاب بھی نشر نہیں ہوئی۔ ابھی انہیں دنوں میں ان کے افکار پر کام شروع ہوا ہے ۔ تہران  یونیورسٹی کے چند طلاب کو رہبر معظم کے افکار پر کوئی تھیسز لکھنا تھاجب انہوں نے رہبر معظم کے دفتر کی طرف رجوع کیا کہ کیا ہمیں رہبر کی کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رہبر کی کوئی کتاب نہیں۔ تب ان طلاب نے تقاضا کیا کہ ہمیں رہبر کی تمام تقاریر چاہیں۔ بعد میں انہیں تقاریر کو کتب کی شکل میں چھاپ دیا گیا ۔ رہبر معظم آج کے دور کے بہت بڑے اسلامی مفکر ہیں۔ بہت سی اسلامی اصطلاحات جو آج کے دور میں سنی جاتی ہیں وہ رہبر کی ایجاد ہیں۔ مثلا تمدن اسلامی، جہاد تبیین، گفتمان وغیرہ۔

بہرحال رہبر معظم نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول کے پانچ مراحل ذکر کیے ہیں:

۱۔ انقلابِ اسلامی

 یہ مرحلہ بہت قربانیوں کے بعد پورا ہوا۔ ایک بوڑھے عارف او ر فقیہ لیکن جامع دینی شخصیت نے ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام ختم کیا۔ اس کے پاس نہ تو کوئی سیاسی قوت اور مال تھا، سپاہ تھی اور نہ کوئی پبلسٹی کرنے والا، جب اسے جلاوطن کیا گیا تو بہت سے ملکوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا،جب اس کی تحریک کو بہت شدت سے کچلا جا رہا تھا اور ایران کی گلی گلی میں شاہ ایران خون بہا رہا تھا اسے کہا گیا کہ اب ہم کیا کریں؟ کیا رک جائیں؟ خود بندوق اٹھا لیں؟ کیا کریں؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کیسے رک جاؤں؟ یہ وہ دور تھا جب امام خمینی کا نام لینے والے کو مار دیا جاتا تھا، لیکن اس نے ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا شعار بلند کیا۔ مستضعفین کی مدد اس کا شعار تھا اور یہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ شاہ ایران کے فرار کے بعد جب امام۱۵ سال کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہے تھے بہت سوں نے کہا کہ یہ جہاز ہی لینڈ نہیں کرے گا اور یہ انقلاب ختم ہو جاۓ گا، بعد میں کہا کہ ۳ ماہ  میں اس انقلاب کی بساط لپیٹ دی دجاۓ گی۔ لیکن یہی کہتے کہتے ۴۳ سال گزر گئے اور آج تک یہ انقلاب ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے مضبوط ہو کر تن آور درخت بن چکا ہے۔

۲۔ حکومت اسلامی

کسی بھی معاشرے میں انقلاب لانا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر انقلاب آ بھی جاۓ حکومت تشکیل نہیں دے پاتے۔ جیسا کہ ہم بہت سے انقلابوں میں دیکھتے ہیں کہ کئی سال کی زحمت کے بعد ایک تحریک کامیاب ہوئی انقلاب لانے میں لیکن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔لیکن انقلاب اسلامی نے اس مرحلے کو بھی طے کیا۔ حکومت اسلامی تشکیل دی اور ۹۵ سے زائد افراد نے رفرنڈوم میں حصہ لے کر حکومت اسلامی اور امام خمینی کو بطور ولی فقیہ قبول کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ حکومت اسلامی سے مراد تین عناصر ہیں۔ ان تینوں کا ایک وقت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ حکومت اسلامی نہیں کہلاتی۔ پہلا عنصر قانون ہے۔ دوسرا حاکم اور تیسرا عنصر عوام ہیں۔ حکومت اسلامی میں ضروری ہے کہ قانون اسلامی ہو، ایران میں قانون اسلامی ہے، دوسرا عنصر حاکم اسلامی ہو، ایران میں اصل حکومت ولی فقیہ کے پاس ہے جو نیابت امام زمانؑ میں حاکم  ہے۔ اور تیسرا عنصر عوام ہیں، عوام کی اکثریت اس نظام اور قانون کو قبول کرتی ہے۔ لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ایران میں اسلامی قانون نافذ ہوتےہوۓ تو دکھائی نہیں دیتا؟ اس  قانون کا کس حد تک نفاذ ہے؟ اس کا جواب اس آگے آ رہا ہے۔

۳۔ دولت اسلامی

پہلے دو مراحل گزرنے کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اسلامی  حاکم آ جاۓ، قانون بھی اسلامی آ جاۓ یہ قانون ملک کے اداروں میں نافذ ہوتا دکھائی دے۔ ملک کے ہر ادارے میں نظر آۓ کہ ہاں واقعا اس ملک میں اسلامی قانون موجود ہے۔ اس لیے نہ تو امام خمینیؒ اور نہ ہی رہبر معظم نے کبھی یہ دعوی کیا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے ادارے اسلامی قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ بلکہ ہم اس مرحلے کو طے کر رہے ہیں۔ اس کی طرف بڑھنا ضروری ہے اگر یہ مرحلہ مکمل ہو جاۓ تو تب ایران کو دولت اسلامی کہا جا سکتا ہے۔

۴۔ معاشرہ اسلامی

بہت سے افراد جب ایران میں داخل ہوتے ہیں اگر ٹیکسی ڈرائیور ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کر دے، یا کوئی بد اخلاقی دیکھ لیں تو فورا کہتے ہیں کہ یہ کونسی اسلامی حکومت ہے؟ خصوصا جب حجاب کی بات آتی ہے تو ایک بدترین حملہ ہے استعمار کا جو ایران پہ ہو رہا ہے۔ عموما جو آپ بے پردگی دیکھتے ہیں یہ بہائیت اور یہودیت کی جانب سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کی سب یہ خواتین بہائی یا یہودی ہوں لیکن ایک ثقافت ہے جو مسلمان خواتین میں پھیلائی جار ہی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رضا شاہ اول نے اسی شیعہ ملک یعنی ایران میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی۔ اور بدترین فحاشی معاشرے میں پھیلا دی ،ایران کے شہروں میں خواتین کمترین لباس کے ساتھ باہر نکلتی تھیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد یہ حجاب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے کم از کم عورت کو مکمل لباس پہننے پر آمادہ کر لیا ہے۔ البتہ اداروں میں خاتون کا کاملا حجاب میں ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والے لوگ اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ ان کی ثقافت اور فرہنگ اسلامی ہو وہ کسی دوسری فرہنگ سے متاثر نہ ہوں بلکہ اسلامی ثقافت کو اپنے اختیار اور مرضی سے اختیار کریں۔ اس معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی برائیاں بہت کم ہوں، سود، رشوت، کرپشن، نا انصافی اور نفرت اس معاشرے میں نہ ہو۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تشکیل دیا، اس معاشرے میں مہاجر اور انصار اخوت کے ساتھ رہتے تھے، قبیلوں کی جنگیں ختم ہو گئی تھیں۔ مومنین آپس میں ایثار اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو آسانی سے طے ہونے والا نہیں۔ بلکہ  اس معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت وقت درکار ہے۔

۵۔ تمدن اسلامی

جب چوتھا مرحلہ طے ہو جاۓ اورمعاشرہ اسلامی ہو جاۓ تب پانچویں مرحلے کو ہم پہنچتے ہیں جسے تمدن اسلامی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی تمدن اپنے اوج پر ہے۔ یہ معاشرہ تعلیمی، اقتصادی، سیاسی طور پر پوری دنیا کے لیے نمونہ بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی ہے لیکن اس بنا پر نہیں کہ ترقی حاصل کر کے پوری دنیا کا انسان ہی خطرے میں ڈال دیں۔ اسی ٹیکنالوجی سے وائرس بنائیں اور پوری دنیا میں کرونا پھیلا دیں۔ یہ ٹیکنالوجی اس معاشرے میں موجود ہے لیکن انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ یہ آخری مرحلہ ہے جس میں انسان نہیں بلکہ پورا معاشرہ الہی معاشرہ اور تمدن اسلامی ہوگا۔  [2]

 

 


منابع:

↑1 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۵تا۷۶۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 April 22 ، 15:02
عون نقوی

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۵)

عناصر حاکمیت

ہم نے جانا کہ حاکمیت اسلامی کے تین عناصر  ہیں۔

۱۔ حاکم

۲۔ قانون

۳۔ عوام

قانون اور حاکم کی ضرورت کو عقلی اور نقلی ادلہ سے  ہم نے ثابت کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت اسلامی کی تشکیل میں عوام کا کیا کردار ہے؟ کیا حکومت اسلامی میں عوام اساس اور بنیا د ہے؟ اگر ہے تو اس کی تبیین کی جاۓ اور اگر نہیں ہے تو اس حکومت کا آمریت سے کیا فرق ہے؟ اس کے جواب میں مفکرین اسلام وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حکومت اسلامی میں عوام کا کردار موجوج ہے لیکن پہلے اور اساسی رکن کے طور پر نہیں ۔اسلامی حکومت میں لوگوں کا کردار جمہوری نظام کی طرح اساسی نہیں ہے ۔ جمہوریت میں عوا م کی راۓ کو حکومت کی اساس قرار دیا جاتا ہے۔

حکومتوں میں عوام کی حیثیت

اس سے پہلے کہ ہم عوام کے اسلامی حکومت میں کردار کے بارے میں جانیں ایک حدیث قدسی کا بیان ضروری ہے۔ اس حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے:

«قَالَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى لَأُعَذِّبَنَّ کُلَّ رَعِیَّةٍ فِی الْإِسْلَامِ أَطَاعَتْ إِمَاماً جَائِراً لَیْسَ مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ کَانَتِ الرَّعِیَّةُ فِی أَعْمَالِهَا بَرَّةً تَقِیَّةً وَ لَأَعْفُوَنَّ عَنْ کُلِّ رَعِیَّةٍ فِی الْإِسْلَامِ أَطَاعَتْ إِمَاماً هَادِیاً مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ کَانَتِ الرَّعِیَّةُ فِی أَعْمَالِهَا ظَالِمَةً مُسِیئَةً».

ترجمہ: میں مسلمانوں کے اس گروہ کوحتمی طور پر عذاب میں مبتلا کروں گا جس نے ایسے جائر امام کی اطاعت کی جو اللہ تعالی کی طرف سے نہیں۔خواہ وہ اپنے عمل میں نیک اور پرہیزگار ہی کیوں نہ ہو۔اور میں مسلمانوں کے اس گروہ کو حتمی طور پر معاف کروں گا جس نے ایسے امام کی اطاعت کی جو اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ خواہ وہ اپنے عمل میں ظالم اور گنہ کار ہی کیوں نہ ہوں۔ [1]

اس حدیث سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دین معاشرے کو انفرادی طور پر نہیں دیکھتا، دین یہ نہیں دیکھتا کہ کون عابد زیادہ ہے اور کون عالم زیادہ ہے؟ اجتماعی طور پر وہ معاشرہ کیسا ہے؟یہ وہ امر ہےجو  دین کو مطلوب ہے۔ اس لیے ہمارے جتنے بھی انبیاء کرام گزرے ہیں انہوں نے انفرادی طو رپر اپنی عبادات میں وقت نہیں گزارا بلکہ اجتماع کو بدلنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی عابد و صالح اور عالم انسان کسی جائر ظالم کی حکومت میں رہتا ہے اور اس کی مخالفت نہیں کرتا خداوند متعال کا کہنا ہے کہ اس کو حتمی طور پر سزا ملے گی۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنی انفرادی زندگی میں گنہ کار ہے لیکن عادل امام کی حکومت میں اس کی مدد کرتا ہے خدا اسے معاف فرماۓ گا۔اس روایت کے تمام رواۃ ہی جلیل القدر ہیں لذا اس کی سند میں تو اشکال نہیں کیا جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ عوام کا کردار حکومتوں میں بہت واضح ہے۔ کوئی بھی انسان خود کو حکومت سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا۔چاہے وہ حق کی حکومت ہے یا باطل کی۔ اگر حق کی حکومت ہے تو اسے مدد کرنی چاہیے اور اگر باطل کی حکومت ہے تو اسے باطل حکومت کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔

ارکان حکومت اسلامی

حکومت اسلامی کی اساس اور اہم ترین رکن توحید ہے۔ دوسرا رکن عدل ہے اور تیسرا تکریم انسان۔

دین اسلام میں حکومت کا حق صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔اس لیے حکومت اسلامی کی اساس اور اہم ترین رکن اللہ تعالی کی ذات ہے۔ دوسرا اہم ترین رکن عدل ہے۔ عدل حکومت اسلامی میں اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ امیرالمومنینؑ نے  حکومت کو تو متزلزل ہونے دیا لیکن عدل کو ترک نہ کیا۔ جب امیرالمومنینؑ کو مشورہ دیا گیا کہ شام اور بصرہ کے حاکم کو فعل حال معزول مت کریں جب آپ کی حکومت کچھ مستحکم ہو جاۓ تو بعد میں مناسب وقت پر ان دونوں کو معزول کر دیجیے گا، ابھی سیاسی مصلحت یہ نہیں کہ حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی اپنے سیاسی دشمن بنا لیں۔ لیکن امیرالمومنینؑ نے فرمایاکہ جو ان اشخاص کے جرائم ہیں ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی برقرار رکھنا جرم ہے عدل کے برخلاف ہے۔ ہماری حکومت کی اساس عدل ہے اگر وہ نہ  رہی تو اس حکومت کا کوئی فائدہ نہیں۔

تیسرا رکن عوام ہیں۔ یا جسے ہم نے تکریم انسان کا عنوان دیا ہے۔ اسلام جبر کا قائل نہیں۔ اور نا ہی اسلام میں آمریت کی حکومت کا کوئی تصور ہے۔ اسلام جبری حکومت کا قائل نہیں ہے کہ اسلحہ اٹھائیں یا ان کو زبردستی دین دار بنا کر اسلام کی حکومت قائم  کردیں چاہے وہ مانیں یا نہ مانیں۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ تو اللہ تعالی کے لیے بہت ہی آسان تھا۔ سب کوہی زبردستی مسلمان کرکے نبی کو ان پر مسلط کر دیتا اور جو نافرمانی کرتا اس کی گردن اڑا دیتی ۔ لیکن یہ اللہ تعالی کو مطلوب نہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے اور چاہتا ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اسلامی حکومت کو چاہیں اور اپنے ارادے سے اس کے لیے قیام کریں اور اسے نافذ کریں۔

آج کل یہ تیسرا رکن پاکستان کی علمی محافل میں بہت زیادہ بحث کیا جاتا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کی اساس عوام ہیں جس طرح مغربی جمہوریت میں جس کو عوام ووٹ دے دیں اس کو حاکم مان لیا جاتا ہے اسی طرح دین نے بھی حکم دیا ہے کہ عوام اپنا حاکم انتخاب کریں۔ حتی بعض طلاب اور علماء کرام سے سننے کو ملتا ہے کہ خود رہبر معظم بھی تو اسلامی حکومت میں عوام کے کردار پر زور دیتے ہیں لذا وہ بھی جمہوریت کے قائل ہیں اور ہم بھی اسی جمہوریت کا پاکستان میں بھی نفاذ چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ جب رہبرمعظم یا دیگر اسلامی مفکرین اسلامی حکومت میں عوام کے کردار پر بات کرتے ہیں تو اس سے مراد مغربی جمہوریت مراد نہیں بلکہ رہبر معظم نے اسے اپنی اصطلاح میں «مردم سالاری دینی» کانام دیا ہے۔ رہبر معظم فرماتے ہیں:

جب ہم کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت ایک عوامی حکومت ہے ۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ حکومت اسلامی اللہ تعالی کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ سب ادیان نے ہی الہی حکومت کی طرف دعوت دی ہے۔ سب انبیاء اور ان کے جانشینوں نے الہی نظام کی طرف دعوت دی ہے ایسا نظام جس میں حاکمیت صرف خدا کی اور قانون بھی خدا کا ہے۔ اسلام میں الہی حکومت اور عوامی حکومت میں تنافی موجود نہیں ہے۔ جب ہم عوامی حکومت کہتے ہیں تو اس سے مراد وہ عوامی حکومت نہیں ہے جو مغربی جمہوریت کے معنی میں مراد ہوتی ہے۔ [2]

جبری حکومت اور اسلام

جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام جبری حکومت کاقائل نہیں ہے اور عوامی حکومت چاہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں عوامی حکومت ہو جمہوری حکومت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ عوامی حکومت بمعنی جمہوری حکومت مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسی اسلامی حکومت مراد ہے جس کا حاکم اسلامی، قانون اسلامی اور ان دونوں کا نفاذ عوام کی مقبولیت سے حاصل ہو۔ اگر حاکم اسلامی نہیں ہے اور قانون بھی اسلامی نہیں ہے اس حکومت کو چاہے سو فیصد عوامی حمایت حاصل ہو یہ حکومت اسلامی نہیں ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اللہ کی حکومت ہو لیکن یہی اللہ کی حکومت عوامی حکومت ہو، یعنی عوام اس کو قبول کرے اور اس کے لیے میدان میں حاضر ہو۔خالی عوامی حکومت یا جبری حکومت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے حتی جب امام زمانؑ بھی عالمی حکومت قائم فرمائیں گے ایسا نہیں ہے کہ وہ جبر کے ذریعے یا داعش کی مانند تلوار کے زور پر حکومت قائم کریں گے۔ وہ بھی عوام کے اندر شوق پیدا کر کے ان کے ارادے اور اختیار سے ان پر حکومت فرمائیں گے۔

امام علیؑ کی حکومت

اس کی سب سے بہترین مثال امام علیؑ کی حکومت ہے۔ اگر امام علیؑ چاہتے تو معجزہ کر کے یا تلوار کی زور پر حکومت قائم کر لیتے ۔ شرعی جواز تو ان کے پاس موجود تھا ہی،اگر کچھ اصحاب کو ساتھ ملا کر جبری حکومت بنالیتے تو ممکن ہے کامیاب ہو جاتے لیکن امام نے اس وقت تک حکومت قبول نہ فرمائی جب تک ان پر حجت تمام نہ ہو گئی۔ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے کہ بیعت کے لیے امام کے گھر لوگوں کا اتنا ہجوم ہوا کہ امام کے کاندھوں سے عبا گر گئی۔ اور حسنینؑ کے پھسلنے کا ڈر لاحق ہوا۔ یہ حکومت عوام کی مقبولیت کے بعد وجود میں آئی۔ لیکن جیسا کہ بیان ہوا کہ عوام کی مرضی اور ان کی اکثریت کی وجہ سے امام خلیفہ نہیں بنے، ان کو امامت اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہوئی اور وہ کوئی بھی ان سے نہیں چھین سکتا چاہے عوام میں سے ایک فرد بھی ان کوا پنا امام نہ مانتا۔ لیکن یہی امامت تب تک لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتی جب تک لوگ خود نہ چاہیں۔

عوام کا میدان میں حضور

پاکستان میں میدان میں حاضر ہونے کا الگ ہی معنی کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں میدان میں حاضر ہونے کا مطلب ریلی نکالنا، مظاہرہ کرنا، احتجاج کرنا اور سیاستدانوں سے اپنے مطالبات منوانا ہے۔ لیکن میدان میں حاضر ہونے سے کیا مرادہے؟ دین جب عوام سے چاہتا ہے کہ وہ میدان میں موجود رہیں اس سے کیا مراد ہوتا ہے؟ دین بھی چاہتا ہے کہ عوام حاضر رہے، میدان میں موجود ہواگر عوام میدان میں موجود نہ ہو دین وجود میں نہیں آتا، دینی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں رہتا جب تک عوام میدان میں نہ آ جاۓ، امام علیؑ جیسا مدبر اور کائنات کا عادل ترین انسان بھی جنگ ہا ر جاتا ہے اگر لوگ میدان میں نہ آئیں۔ اسلامی حکومت میں عوام کی اہمیت ہے اور ان کا بہت کردار ہے، اگر عوام میدان میں نہ آۓ، امام علیؑ کو مالک کو جیتی ہوئی جنگ سے واپس بلانا پڑتا ہے۔ امام کا ساتھ چھوڑ دیا عوام میں سے کچھ افراد خوارج بن گئے ۔امام پکارتے رہ گئے  لیکن انہوں نے ساتھ نہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ امام فرماتے تھے:

«وَ لَقَدْ أَصْبَحَتِ الْأُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا وَ أَصْبَحْتُ أَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِی».

ترجمہ: تمام دنیا کی قومیں اپنے حکام کے ظلم سے خوفزدہ ہیں اور میں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں۔ [3]

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

«إِنِّی أُرِیدُکُمْ لِلَّهِ وَ أَنْتُمْ تُرِیدُونَنِی لِأَنْفُسِکُمْ».

ترجمہ: میں تمہیں اللہ تعالی کے لیے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنی ذوات کے لیے چاہتے ہو۔ [4]

خود آج بھی ہم اپنا جائزہ لے سکتے ہیں ، اگر آج امام موجود ہوتے تو ہم ان کو دین اور خدا کی خاطر چاہتے اور ان کی اطاعت کرتے یا ذاتی مفادات کے لیے چاہتے؟ ہم آج مجالس کیوں کراتے ہیں؟ زیارات پر کیوں آتے ہیں؟ اگر اولاد کے لیے ، ان کے روزگار کے لیے ، منتیں پوری کرنے کے لیے آتے ہیں تو معلوم ہوا خود امام کے لیے نہیں بلکہ اپنی منت پوری کرنے یا کوئی دعا پوری کروانے کے لیے آۓ ہیں۔ ہمارے امام شہید ہوۓ، کس لیے؟ امام حسینؑ کو کیسے ان کے کنبے سمیت شہید کردیا گیا؟ جواب ایک ہے اور وہ یہ کہ لوگوں نے ساتھ نہیں دیا۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ حکومت اسلامی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ جب بھی کوشش کی یا شہید کر دیے گئے یا زندان میں ڈال دیے گئے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے عوام کا کردار اسلامی حکومت میں کیا ہے؟ امامت کا نظام بغیر امت کے کامل ہی نہیں۔ وہ امام ہی کیا جس کی کوئی بات ہی سننے والا نہ ہو۔ امت اور امام باہم ہیں۔ اگر امام ہے اور امت نہیں تو یہ امام گوشہ نشین ہو جاۓ گا یا شہید کر دیا جاۓ گا۔ امت کا میدان میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ امت کے بغیر کوئی بھی دینی مرحلہ طے نہیں ہوتا۔ امت کے میدان میں موجود ہونے سے کیا مراد ہے؟

امت پر تین کام ضروری

جب کہا جاتا ہے کہ عوام کا اسلامی حکومت میں بہت اہم کردار ہے اس سے مراد یہ ہے کہ عوام یہ تین کام کریں۔ اگر یہ تین کام کرتے ہیں تو وہ میدان میں امام کے ہمراہ ہیں۔

۱۔ شناخت حق

سب سے پہلی ذمہ داری جو عوام پر عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حق کی شناخت حاصل کرے۔ حق کی شناخت پہلا اور سخت مرحلہ ہے۔ اگر ایک گروہ حق کی شناخت حاصل نہیں کرتا کبھی بھی حق کا ساتھ نہیں  دے سکتا اور نا ہی حق پر عمل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ حق موجود ہے عوام نے خود حق ایجاد نہیں کرنا، اور نا ہی کسی سے سن کر کسی شے کو حق قرار دے دینا ہے، حق کا معیار عوام نہیں ، اکثریت حق کا معیار نہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«الحق من ربک»۔

ترجمہ: حق آپ کے رب کی جانب سے ہے۔ [5]

۲۔ حق پر عمل

حق کی شناخت حاصل کر لینے کے بعد انسان پر فرض ہے کہ اس کےمطابق عمل کرے۔ صرف حق کی شناخت حاصل کرلینا کافی نہیں جب تک اس پر عملی مرحلے میں نافذ نہ کر دیا جاۓ۔ دراصل دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے سخت تر ہے۔ حق کی شناخت ہو جاتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا بعض اوقات قربانی مانگتا ہے۔

۳۔ اتحاد

عوام پر حق کی شناخت حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ لیکن یہ عمل کرنا اتحاد اور انسجام کے ساتھ ہو۔ اگر تحاد نہ ہو فتح حاصل نہیں ہوتی۔ اتحاد ہمیشہ حق کے محور پر ہوتا ہے۔ اکثر کہا جاتا  ہے کہ فلاں بات مت کریں عوام کا اتحاد ٹوٹ جاۓ گا، اگر یہ اتحاد باطل پر بنا ہوا ہے تو یہ مطلوب نہیں ہے بلکہ اس اتحاد کو توڑنا ضروری ہے۔ اتحاد ہمیشہ حق پر ہو۔ اگر حق پر اتحاد کے ساتھ افراد حرکت کرتے ہیں تو فتح حتمی ہے۔حتی یہی افراد قلیل بھی کیوں نہ ہوں جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«کَم مِن فِئَةٍ قَلیلَةٍ غَلَبَت فِئَةً کَثیرَةً بِإِذنِ اللَّهِ».

ترجمہ: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے۔ [6]

خود رسول اللہ ﷺ کی ابتداۓ اسلام کی جنگیں بھی اس مطلب پر بہترین شاہد ہیں۔ اسلامی لشکر نے کم ترین امکانات کے ساتھ کفار کو شکست دی ۔ اور آج انقلاب اسلامی ایران کو بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا، یقینا افراد میدان میں موجود ہیں تو ممکن ہوا ورنہ اگر کوئی بھی رہبر آ جاۓ حتی امیرالمومنینؑ بھی ہوں نظام اسلامی ساقط ہو جاۓ گا۔

سورہ نور میں لوگوں کے میدان میں حاضر رہنے کے متعلق وارد ہوا ہے:

«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ إِذا کانُوا مَعَهُ عَلی‏ أَمْرٍ جامِعٍ لَمْ یَذْهَبُوا حَتَّی یَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذینَ یَسْتَأْذِنُونَکَ أُولئِکَ الَّذینَ یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحیمٌ».

مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتے، جو لوگ آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دے دیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ [7]

حکومت اسلامی کا محور حق

اگر اسلامی حکومت قائم ہو جاۓ، اسلامی حاکم عوام میں بہت محبوب ہو، پاک پاکیزہ انسان ہو۔ لیکن اس کی حکومت میں عوام اختلافات کا شکار ہوں، اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے حاکم کیا کرے؟ اگر مادی سوچ رکھنے والے انسان سے پوچھا جاۓ تو وہ کہے گا کہ عوام میں رفاہ لایا جاۓ، ان میں پیسے بانٹے جائیں، اور ان کے مسائل ختم کیے جائیں تو اختلاف ختم ہو جاۓ گا۔ کیا یہ راہ حل ہو سکتا ہے؟ جی نہیں! جب تک ایک معاشرے میں حق کو محور نہ بنا دیں اس معاشرے سے اختلاف ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عوام میں باہمی پیار محبت بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایک معاشرہ آپس میں انسجام اور وحدت کے ساتھ نہیں رہتا وہ معاشرہ اور حکومت ترقی نہیں کر سکتی۔ دین نے یہ راہ حل پیش کیا ہے کہ آپ ان میں حق کو اجاگر کریں اور اس کو محور قرار دیں۔اس کے بغیر چاہے آپ ڈھیروں اموال بھی عوام میں بانٹیں وہ معاشرہ منسجم نہیں ہو سکتا۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ أَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِی الْأَرْضِ جَمیعاً ما أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لکِنَّ اللهَ‌ أَلَّفَ بَیْنَهُمْ إِنَّهُ عَزیزٌ حَکیمٌ».

ترجمہ: اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ [8]

رسول اللہ ﷺ کو بھی مکہ کے بت پرستوں نے دو آپشن دیے اوریہ کہا کہ آپ کی گفتار اورقرآن ہمارے معاشرے کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے معانی بدل دو یا کوئی اور قرآن لے آؤ۔ قرآن کریم نے ان کے مطالبے کو اس طرح سے بیان کیا ہے:

«وَ إِذا تُتْلى عَلَیْهِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ قالَ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ هذا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ ما یَکُونُ لی أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقاءِ نَفْسی إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ ما یُوحى إِلَیَّ إِنِّی أَخافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذابَ یَوْمٍ عَظیمٍ».

ترجمہ: اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہدیجئے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ [9]

معلوم ہوا امت کے مسائل حق کو بدل دینے یا اس کو بیان نہ کرنے سے حل نہیں ہوتے۔ دین نے سخت منع کیا ہے کہ حق کو مت بدلو، بلکہ معاشرے میں حق کو جاگزین کرو۔ امت کے مسائل رفاہ لانے سے حل نہیں ہوتے بلکہ حق کے نفاذ سے حل ہوتے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران میں رہبر معظم اسی بات پر زور دیتے ہیں۔ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ امریکیوں اور یورپیوں کے مطالبات مان لیں اور دینی اقدار کی بجاۓ عوام کو رفاہ میں لاتے ہیں۔ رہبر معظم یہی جواب دیتے ہیں کہ امت کے مسائل نہ تو دشمن کے آگے جھکنے سے حل ہوتے ہیں اور نا ہی امت میں رفاہ لانے سے۔ خود امت میں رفاہ اور ان کے مسائل بھی حق کو محور قرار دینے سے حل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
«وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرىٰ آمَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَیهِم بَرَکاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلٰکِن کَذَّبوا فَأَخَذناهُم بِما کانوا یَکسِبونَ».

ترجمہ: اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔ [10]

یہ خدا کا وعدہ ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک معاشرہ حق پر ڈٹ جاۓ اور ایمان کے محکم اصولوں پر استقامت دکھاۓ اور ان پر رحمت و برکت کانزول نہ ہو۔ [11]

منابع:

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۷۶۔
↑2 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ۱۶۷۔
↑3 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۹۷۔
↑4 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۶۔
↑5 ہود: ۱۷۔
↑6 بقرہ: ۲۴۹۔
↑7 نور: ۶۲۔
↑8 انفال: ۶۳۔
↑9 یونس: ۱۵۔
↑10 اعراف: ۹۶۔
↑11 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۰تا۸۴۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 April 22 ، 15:01
عون نقوی

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۸)

 

قانون کی معاشرے اور فرد پر قوقیت

گزشتہ قسط میں ہم نے جانا کہ الحادی معاشرے میں ہمارے پاس قانون کے اجراء کی کوئی اخلاقی ضمانت موجود نہیں۔ الحادی معاشرہ خود کو قانون پر فوقیت دیتا ہے اس لیے جب بھی معاشرے اور قانون میں ٹکراؤ پید ہو وہ قانون کو پائمال کر کے فورا معاشرتی مفاد پورا کرتے ہیں۔ لیکن الہی معاشرے میں قانون فرد اور معاشرے پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر معاشرے کا مفاد کسی امر میں موجود ہے لیکن قانون اس کی اجازت نہیں دیتا یہاں پر قانون کو معاشرے پر مقدم سمجھا جاۓ گا۔ 

الہی معاشرے کی اساس

الہی معاشرہ، الحادی معاشرے کے برعکس الہی جہان بینی کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ الہی جہان بینی کے مطابق وہ خود کو اس مادی عالم میں مقید نہیں سمجھتا اور نا ہی خود کو فانی سمجھتا ہے۔ وہ حیات جاویدانی کا قائل ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ اس کو حاصل ہوگی۔ اس لیے وہ اپنی رفتار، اخلاق اور عقائد کو دنیا میں اہمیت  دیتاہے۔ جبکہ الحادی معاشرے میں تربیت ہونے والا انسان خود کو اسی مادی جہان میں محدود سمجھتا ہے اور اسے کسی دوسرے عالم کی فکر نہیں اس لیے وہ کسی اخلاق، رفتار یا عقیدے کا خود کو پابند نہیں سمجھتا۔ الہی معاشرے کا انسان اس مادی سوچ کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اور اسی کی طرف اس نے جانا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَیْهِ راجِعُونَ».

ترجمہ:  ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔[1]

انسان قانون کا محتاج

الحادی معاشرے میں قانون کو ایجاد کیا جاتا ہے۔ قانون دانشور افراد تولید کرتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں باہمی اختلافات سے بچنے کے لیے وہ یہ کام انجام دیتے ہیں، اس لیے خود قانون ان کے لیے ہدف نہیں ہوتا بلکہ قانون سے جو مفاد حاصل ہوتا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوۓ قانون ایجاد کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن الہی معاشرے میں انسان کسی بھی صورت میں قانون سے بے نیاز نہیں۔ الہی جہان بینی کے مطابق حتی اگر انسان  اکیلا بھی زندگی گزارنا چاہے اسے قانون کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بالآخر انسان نے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر انسانیت کے کمال کے راستے کو طے کرنا ہے اسی اساس پر کائنات کے اولین انسان حضرت آدمؑ کو اللہ تعالی نے قانون کے ہمراہ اور نبوت کا منصب دے کر بھیجا۔ تاکہ کسی بھی دور میں کوئی بھی انسان بغیر قانون کے سعادت سے محروم نہ ہو ۔

قانون اور حجت کا ہر دور میں موجود ہونا

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے:

«لَوْ کَانَ اَلنَّاسُ رَجُلَیْنِ لَکَانَ أَحَدُهُمَا اَلْإِمَامَ وَ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَنْ یَمُوتُ اَلْإِمَامُ لِئَلاَّ یَحْتَجَّ أَحَدُهُمْ عَلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ تَرْکَهُ بِغَیْرِ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَلَیْهِ».

ترجمہ: اگر لوگوں میں صرف دو افراد باقی رہ جائیں تو ان میں سے ایک حتما امام ہوگا۔ اور امام نے فرمایا: ان دو میں سے جو آخر میں مرے گا وہ امام ہوگا تاکہ کوئی شخص خدا کے خلاف احتجاج نہ کرے کہ اسے بغیر حجت کے چھوڑ دیا گیا۔[2]

معلوم ہوتا ہے الہی نظام میں انسان نا توقانون کے بغیر ہو سکتا ہے اور نا ہی قانون گذار کے بغیر۔ کیونکہ انسان ایک ہدفمند مخلوق ہے۔ قانون اسے ہر صورت میں چاہیے ۔ اگر قانون اور اس کا مجری نہ ہو تو وہ اپنے راستے سے ہٹ سکتا ہے اور اس صورت میں وہ اللہ تعالی سے شکایت کر سکتا ہے۔دین کی نگاہ میں انسان مسافر الی اللہ ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

«یا أَیُّهَا الْإِنْسانُ إِنَّکَ کادِحٌ إِلى رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلاقیهِ».

ترجمہ:اے انسان! تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔[3]

کوئی چاہے یا نا چاہے بہرحال وہ اللہ تعالی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب انسان اس الہی جہان بینی کے تحت جا کر معاشرہ تشکیل دیتا ہے اس کا ہدف «إِنْ هِیَ إِلّا حَیاتُنَا الدُّنْیا نَمُوتُ وَ نَحْیا».[4] نہیں ہے کہ اس دنیا سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہے اٹھا لے بلکہ اس کی زندگی اس بنا پر «الْمالُ وَ الْبَنُونَ زینَةُ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ الْباقِیاتُ الصَّالِحاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَواباً وَ خَیْرٌ أَمَلاً».[5]قائم ہے۔ وہ صرف دنیوی مفادات کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ اخروی سعادت کا بھی طلبگار ہے۔ اس کا ہدف مادی رفاہ و ضروریات پورا کرنا نہیں بلکہ وہ لقاء اللہ کا بھی طلبگار ہے۔ اس کی حرکت کے اصول اور مبانی وہی ہیں جو انبیاء الہی نے از طرف اللہ تعالی مقرر فرماۓ ہیں۔ 

قانون کا مجری معصوم

دینی معاشرے میں الہی نظام کو چلانے والا اور قانون گذار صرف معصوم ہے جو ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے۔ وہ منفعت طلب اور سودجو نہیں۔ وہ کوئی ایسا قانون نہیں بناتا جو صرف اس کے مفاد میں ہو اور بقیہ لوگوں کے لیے ضرر رساں ہو۔ غیر الہی نظاموں میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ حاکم کی طغیانی سے کیسے بچا جاۓ؟ موازنہ قوا ہمیشہ سے ہی پولیٹیکل سائنس (political Science)کا پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ ہر دور میں جب بھی کسی انسان کو قوت او ر اقتدار ملا اس نے اس کا ناجائز استعمال کیا۔ افلاطون نے اس کا ایک حل یہ پیش کیا کہ حاکم کو کسی شے کا مالک ہی نہ بننے دیا جاۓ۔ وہ کسی شے کا مالک نہیں، حتی اسے شادی نہیں کرنی چاہیے تاکہ نہ اس کے بچے ہوں او رنا ہی بیوی تاکہ ان کے لیے مال بنانے کانہ سوچے۔ لیکن دین اسلام نے اس مسئلے کا سب سے بہترین حل دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ حاکم یا قانون کا رکھوالا معصوم ہو۔ معصوم کے لیے اپنے رشتہ دار یا قوم کے افراد اہمیت نہیں رکھتے، اس کے نزدیک قانون کے اجراء میں سب ہی برابر ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ ترین مثال امیرالمومنینؑ کی حاکمیت کا دور ہے۔الہی جہان بینی کے مطابق کسی قوم کو نژادی برتری حاصل نہیں۔ جیسا کہ  رسول الله ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

«وَ لَیْسَ لِعَرَبىٍّ عَلى عَجَمِىٍّ فَضْلٌ».

ترجمہ: اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔[6]

کسی سفید فام کو سیاہ فام پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«اُرسِلتُ إلَى الأبیَضِ و الأسوَدِ و الأحمَرِ».

ترجمہ: میں سفید ،سیاہ اور سرخ کی طرف بھیجا گیا ہوں۔[7]

اس کے نزدیک سب انسان یکسان اور مساوی ہیں۔امام صادقؑ سے منقول ہے:

«اَلنَّاسُ سَوَاءٌ کَأَسْنَانِ اَلْمُشْطِ».

ترجمہ: لوگ کنگھے کے دانتوں کی مانند برابر ہیں۔[8]

زمانہ غیبت میں قانون کا اجراء

جب تک امام معصوم موجود ہو وہی قانون گذار اور اس کو اجراء کرنے والا ہے۔ لیکن زمانہ غیبت میں بھی صرف وہی افراد حکومت دینی میں کارگزار ہو سکتے ہیں جن کے اندر قانون کی حفاظت اور اس پر عمل کرنے کا انگیزہ موجود ہو، اور یہ انگیزہ اسی اعتقاد، اخلاق اور عبادت سے حاصل ہوتا ہے۔ الہی معاشرے میں اگر کوئی شخص غفلت یا دنیا طلبی کی بنا پر اپنی آخرت کا دنیا سے معاملہ کرتا ہے، دین کی نظر میں اس کے خلاف متعہد مومنین کا قیام ضروری ہے۔ مومنین کو چاہیے کہ فورا اسے مقام سے معزول کریں۔ 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وظیفہ

اسلام نے نظام الہی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ کرنے کے لیے لوگوں پر بطور ناظر ضروری قرار دیا ہے کہ وہ بھی آئیں اور قانون کے اجراء میں حکومت دینی کا ساتھ دیں۔ الہی معاشرے میں اس طرح سے نہیں کہ لوگ صرف قانون پر عمل کرتے ہیں، بلکہ ان پر ضروری ہے کہ اجراء قانون میں بھی ساتھ دیں۔ اسلام الہی قانون کے اجرءا کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب قرار دیتا ہے۔ یہ صرف حکومتوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ معاشرے میں معروف کو ایجاد کریں اور منکر کو ختم کریں بلکہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں۔ اور اگر کہیں قانون ٹوٹ رہا ہے ان پر واجب ہے کہ اس اقدام کو روکیں۔ حتی بعض فقہاء امامیہ نے اسے واجب عینی قرار دیا ہے۔ مثلا مرحوم محقق حلی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب عینی قرار دیا ہے۔[9]

 

منابع:

 

↑1 بقرہ: ۱۵۶۔
↑2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۸۰۔
↑3 انشقاق:۶۔
↑4 مومنون:۳۷۔
↑5 کہف:۴۶۔
↑6 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۷۳، ص۳۵۰۔
↑7 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۳۲۴۔
↑8 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۷۵، ص۲۵۱۔
↑9 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۶تا۸۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 April 22 ، 14:56
عون نقوی

 

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۲۹)

 

اکثریت کی اہمیت

اسلامی نظام میں اکثریت کی اہمیت ہے یا نہیں؟اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے اکثریت کا کاملا ََانکار نہیں کیا۔ اکثریت  جہاں پر معیار بن سکتی ہے اسے حتما معیار بننا چاہیے لیکن جس جگہ دین کی نظر میں اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں وہاں اس کو معیار نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم کلی طور پر دیکھیں تو اکثریت پوری دنیا میں سب کو ہی متاثر کرتی ہے۔ اکثریت کا معاشرے میں کردار ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اکثریت کو دیکھ کر ہی سب ایمان لے آتے ہیں۔ حتی دینی دنیا میں  دنیوی معیاروں کو مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے اور اکثریت کو ایک معیار سمجھا جاتا ہے۔

اکثریت قرآن کریم کی نظر میں

زیادہ تر موارد میں قرآن کریم نے اکثریت کے نظریے کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ اکثریت کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم نے اکثریت کو کاملا ََرد کیا ہو۔ یا ایسا کہا جاۓکہ اکثریت حق کو قبول نہ کرے ۔ لیکن یہ ضرور کہا کہ اکثریت جاہل ہے، عاقل نہیں ہے، تدبر نہیں کرتی وغیرہ۔ ایک ثابت ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم نے اکثریت کو معیار قرار نہیں دیا ۔ اس کے برعکس آج ہمارے اسلامی معاشروں میں اکثریت کو معیار قرار دیا جاتا ہے چونکہ قرآنی معیارات معاشرے میں تبلیغ نہیں ہوۓ غیر قرآنی معیار معاشروں میں پھیل گئے۔ اکثر اس مقرر اور خطیب کو درست سمجھا جاتا ہے جس کو اکثریت سننے آۓ یا اسے داد زیادہ ملے۔ جس عالم کے گرد افراد کی جمعیت موجود ہو اسے بڑا عالم سمجھتے ہیں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت آج بھی علم کی طرف نہیں جاتی اسے سیر و تفریح اچھی لگتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت سختی میں پڑنے سے گریز کرتی ہےانہیں آسان اورمختصر راستے اچھے لگتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے اکثریت کی طرف شہوانی اور منفی چیزوں کی نسبت دی ہے۔اکثریت کے بارے میں اس طرح کے جملات«اکثرالناس لا یعلمون»[1]، «اکثر الناس لا یشکرون»[2]، «اکثر الناس لا یومنون»[3][4]، «اکثر الناس الا کفورا»،[5] قرآن میں موجود ہیں۔البتہ دوبارہ واضح کر دیا جاۓ کہ ان سب مذکورات کا یہ مطلب نہیں کہ اکثریت ہمیشہ ہی باطل ہوگی۔قرآن کریم میں سورہ نصر میں  وارد ہوا ہے۔

«إِذا جاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فی دینِ اللهِ أَفْواجاً».

ترجمہ: جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں۔[6]

اگر نصرت الہی آ جاۓ تو دین کو اکثریت قبول کر لیتی ہے۔ اگرچہ غلبہ دین کی صورت میں بھی تعقل کرنے والے اور عمل کرنے والے بہت کم ہونگے۔

اکثریت گزشتہ ادوار میں اور آج

قصص قرآنی اور تاریخ انبیاءشاہد ہے کہ اکثریت نے انبیاء کرامؑ کا ساتھ نہ دیا اور ان کی سیرت کو ترک کیا۔ اگر کچھ لوگوں نے انبیاء کرامؑ کا اقرار کیا بھی تو عمل کے مرحلے میں ان کی نصرت نہیں کی۔ بہت قلیل افراد ایمان لاتے اور نصرت کرتے۔ خود آج بھی ہم کروڑوں کی تعداد میں مسلمان پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن عملی طور پر اپنے اپنے علاقوں کی ثقافت پر عمل پیر ا ہیں۔ حق کو عمل کا معیار قرار نہیں دیتے۔مثال کے طور پر آئمہ معصومینؑ کے ولادت کے ایام میں آ ج بھی ہم لوگ کیک کاٹتے ہیں۔ برتھ ڈے کے موقع پر کیک کاٹنا مغربی ثقافت ہے ، پہلے ایران اور عراق میں پھیلی اور پھر بعد میں ہند و پاکستان میں بھی آج آئمہ معصومینؑ کی ولادت کے ایام میں کیک کٹتے ہیں۔ کیک کاٹنا اسلامی ثقافت نہیں ہے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا اسلام نےایسی کوئی رہنمائی نہیں کی کہ آئمہ معصومینؑ کے ولادت کے ایام میں کیا کریں؟ اور یہ دن کیسے منائیں؟ کیا امام کی شخصیت ہمارے عام بچوں کی طرح ہے کہ ان کی ولادت کے موقع پر مومنین آئیں اور کیک کھائیں چلتے بنیں؟جی نہیں! آئمہ معصومینؑ کی ولادت کے ایام، ایام اللہ ہیں۔ ان ایام میں دینی اور اسلامی آداب و ثقافت نظر آنی چاہیے در اصل یہی ایام ہیں جب ہم اسلامی ثقافت اور دینی آداب کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں اور اس خوبصورت کلچر کو پیش کرسکتے ہیں جو آئمہ معصومینؑ نے پیش کیا۔واضح رہے کہ کیک کاٹنا فقہی طور پر کوئی ممانعت نہیں رکھتا اور کسی بھی مجتہد نے اس کے حرام یا مکروہ ہونے کا فتوی نہیں دیا، یہاں پر بات کیک کاٹنے کے فقہی جواز یا عدم جواز کی نہیں ہو رہی ۔ بلکہ مدنظر یہ ہے کہ ہم مسلمان اکثریتی طور پر مغربی ثقافت سے بہت بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں اور ہور ہے ہیں۔

اقلیت کی حیثیت

اب تک ہم نے جو مذکورات بیان کیے ہیں ، معلوم ہوتا ہے اکثریت غلط ہے اور اقلیت درست۔ لیکن یہ بات بھی غلط ہے۔ حق کا معیار اکثریت ہے اور نا اقلیت۔ اگر کہیں اکثریت غلط ہو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حتما اقلیت ہی حق پر ہوگی۔ ممکن ہے اکثریت بھی غلط ہو اور اقلیت بھی غلط۔ مثلا حاکمیت کے انتخاب میں یا قانون بنانے میں اکثریت اور اقلیت دونوں معیار نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی نالائق حاکم کو اکثریت حاکم ما ن لے اور اقلیت نہ مانے اس سے اس حاکم کو مشروعیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ اور نا ہی یہ نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک حاکم کو اکثریت نہیں مانتی اور اقلیت مانتی ہے تو یقینا وہ حاکم حق پر ہے۔ اکثریت اور اقلیت صرف ان جگہوں پر معیار بن سکتے ہیں جہاں ان کے معیار بننے کامورد ہے۔ حاکم کے انتخاب اور قانون گذاری میں اکثریت اور اقلیت معیار نہیں۔ اگر کسی قانون کو اکثریت مان لے ہم اس کو دین کی نظر میں قانون نہیں بنا سکتے ۔لیکن دیگر موادر میں جہاں دین نے اکثریت اور اقلیت کو معیار بننے سے منع نہیں کیا ہم وہاں اسے معیار بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس چار عالم دین ہیں، سب کے سب سیداور سفید ریش، ایک برابر پڑھے لکھے، سب ہی عادل اور درست کار ہیں۔ ہم ان چار میں سے کس ایک کو اپنے ادارے کا مدیر بنائیں؟ ظاہری طور پر ہمارے پاس کوئی ایسا معیار بھی سامنے نہیں آرہا جس کی بنا پر ہم کسی ایک کو فوقیت دے کر اسے مدیر بنا دیں۔ یہاں پر ہم اکثریت کو معیار بنا سکتے ہیں اور کہیں گے کہ جس کو اکثریت کہےگی اس کو مدیر بنایا جاۓ گا۔ یا مثلا مومنین کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔ کھانے میں کیا بنائیں؟ اقلیت کہتی ہے کہ مثلا دال ساگ بناتے ہیں،اور اکثریت کہتی ہے کہ اچھا کھانا بناتے ہیں یہاں پر بھی اکثریت کی بات مانی جاۓ گی ذاتی رجحان کی بنا پر سب مومنین پر اپنی پسند نہیں ٹھونس سکتے۔ معلوم ہوا اقلیت اور اکثریت کاملا رد نہیں کی جاسکتی اور بعض موارد میں معیار بن سکتی ہے۔

جمہور کا خلیفہ چننا

دین اسلام اور مکتب تشیع حاکمیت اور قانون کے انتخاب میں اکثریت کو معیار قرار نہیں دیتا، اہل سنت کے ہاں جمہور کا نظریہ موجود ہے۔ اہل سنت جمہور کے نظریے پر شدت سے پاپند ہیں۔ان کے مطابق جس شخص کو جمہور یعنی عوام خلیفہ بنا دے وہ خلیفہ الہی بن جاتا ہے۔ با الفاظ دیگر اہل سنت انتخاب کے قائل ہیں جبکہ اہل تشیع انتصاب کے۔ اہل تشیع کے ہاں وہ شخص خلیفہ ہوگا جو منصوب ہو اور منصوص من اللہ ہو۔ صرف وہی شخص خلیفہ بن سکتاہے جسے رسول اللہ منصوب فرمائیں اور اللہ تعالی کی طرف سے معین کیا جاۓ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے حکم سے امام علیؑ کی امامت و ولایت کا غدیر خم میں اعلان فرمایا۔

«مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ».[7][8][9]بعض اہلسنت حضرات کہتے ہیں کہ یہاں پر امام علیؑ کی تکوینی ولایت کا اعلان ہوا نہ کہ تشریعی۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ امام علیؑ کی تشریعی ولایت کا حکم ہوا۔ اس لیے جمہور صحابہ کا حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنانایا مان لینا درست نہیں۔

نتیجہ

ہم کہہ سکتے ہیں حاکم کا انتخاب انتصاب کی صورت میں ضروری ہے۔ اکثریت کسی حاکم کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سے ایک قانون بھی الہی ہونا ضروری ہے۔ اگر اکثریت کسی قانون کو بنا لیں یا مان لیں اس سے وہ قانون شرعی نہیں ہو جاتا،مگر یہ کہ اسلام کی کلیات سے نہ ٹکراۓ اور عقل سلیم اسے قبول کرے۔[10]

 

 

 


منابع:

↑1    روم:۶۔
↑2 یوسف:۳۸۔
↑3 ہود:۱۷۔
↑4 غافر:۵۹۔
↑5 اسراء:۸۹۔
↑6 نصر:۱،۲۔
↑7 ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج۵، ص۶۳۳۔
↑8 ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۴۵۔
↑9 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۲۷۔
↑10 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۰تا۹۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 April 22 ، 14:49
عون نقوی

سیاسی افکار

سیاست

تحریر: عون نقوی

 

لغوی معنی

سیاست عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اصلی مادہ «سَاسَ یَسُوسُ» ہے۔ اس کے معنی کسی شے کی تدبیر کرنا، اصلاح کرنا یا تربیت کرنا ہے۔ «سَاسَةُ الفَرَس» یعنی اس نے گھوڑے کی پرورش کی اس کو سدھارا یا اس کی تدبیر کی۔ [1][2][3]

عموما تربیت کرنا اور پرورش کرنا تدبیر، امر و نہی اور سرپرستی کے ہمراہ ہوتا ہے اس لیے ان سب امور میں لفظ سیاست کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ سیاست اردو اور فارسی میں بھی تربیت اور تدبیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ [4][5]

اصطلاحی معنی

سیاست کی اصطلاحی تعریف انسان کی جہان شناسی اور انسان شناسی پر موقوف ہے۔ اس لیے سیاست کی اصطلاحی تعریف میں اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کا شدید اختلاف ہے۔

بہرحال ہمارے پاس سیاست کی کلی طور پر دو قسم کی تعریفیں ہیں۔

۱۔ قدرت محور

۲۔ تربیت محور

بعض علماء سیاست نے قدرت کے حصول اور لوگوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی جہت سے سیاست کی تعریف کی ہے۔ ان تعریفوں کو ہم قدرت محور قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے بالمقابل دیگر علماء سیاست نے حیات انسانی کی مادی اور معنوی جہت سے تدبیر کرنے کو سیاست قرار دیا ہے۔

قدرت محور تعریفیں

مغربی سیاسی مفکرین کے نزدیک سیاست کی اہم ترین تعریف یہ ہے:

’’افراد یا سیاسی پارٹیاں حکومت اور اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے جو سیاسی پیکار یا مبارزہ کرتی ہیں اسے سیاست کہتے ہیں‘‘۔ با الفاظ دیگر سیاست یعنی اقتدار کے حصول کے لیے مبارزہ کرنا۔[6] اس تعریف کے مطابق سیاست کا ہدف صرف قدرت کا حصول ہے۔

اوکودیبا نولی

سیاست کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’وہ تمام فعالیت جو مستقیم یا غیر مستقیم طور پر قدرت اور حکومت کے حصول کے لیے انجام دی جاتی ہے اسے سیاست کہتے ہیں‘‘۔[7]

مورس ڈورگر

فرانسیسی دانشور سیاست کی اس طرح سے تعریف کرتے ہیں:

’’سیاست قدرت کے حصول کا نام ہے‘‘۔[8]

نیکولا ماکیاولی 

پندرہویں صدی عیسوی کے مشہور  و معروف اتالوی مورخ و فلاسفر سیاست کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’حکومت کرنے کا فن، یااقتدار کو تسخیر کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں‘‘۔ ماکیاولی کے نزدیک اقتدار حاصل کرنا خود ہدف ہے۔ اور اس ہدف کے حصول کے لیے ہر قسم  کی روش کو مشروع قرار دیا جا سکتا ہے۔[9]

تربیت محور تعریفیں

اسلامی مفکرین سیاست کی تعریف معاشرے کی مدیریت اور تدبیر کے معنی میں کرتے ہیں۔ دینی منابع میں سیاست کا ہدف قدرت اور حکومت قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ سیاست  اس لیے ضروری قرار دی گئی ہے کہ اس کو وسیلہ قرار دیتے ہوۓ تقوی اور ہدایت کی اساس پر معاشرے کا اجتماعی نظم و ضبط برقرار رکھا جاۓ اور ان کی تربیت و تدبیر کی جا سکے۔

ابو نصر فارابی 

معلم ثانی فارابی معتقد ہیں کہ معاشرے کے سعادت تک پہنچنے کا ایک راستہ سیاست ہے۔ سیاست کی تعریف میں لکھتے ہیں:

انسان کے وجود میں فضیلت ایجاد کرنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل دی جاۓ جس کے توسط سے شہروں اور  لوگوں میں افعال اور سنت فاضلہ رائج اور شائع کی جائیں۔ حکومت کے توسط سے جو فضیلت لوگوں میں ایجاد ہوگی اس خدمت کے حصول کا نام سیاست ہے۔ [10]

خواجہ نصیر الدین طوسی 

خواجہ نے سیاست کو تدبیر کے مترادف قرار دیا ہے۔ اور اس کو تدبیر منازل، تدبیر خدم و عبید، تدبیر اولاد، اور تدبیر مدن میں تقسیم کیا ہے۔ اور ان سب کو حکمت عملی کا جزء قرار دیا ہے۔[11]

امام غزالی 

غزالی معتقد ہیں کہ سیاست ان ابزار میں سے ہے جو انسان کو خدا تک پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے سیاست کو بمعنی ’’استصلاح‘‘ قرار دیا ہے۔ یعنی لوگوں کو نیک بنانا، درست راہ کی طرف نشان دہی کرنا کہ جس سے وہ دنیا اور آخر ت میں نجات حاصل کر لیں،اس کام کو  سیاست کہتے ہیں۔[12]

ابو الحسن ماوردی 

ماوردی اہل سنت کے بزرگ فقیہ ہیں۔ سیاست کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ لوگوں کو درست راستے پر چلانا اور ان کی ہدایت کرنا سیاست کہلاتا ہے۔[13]

امام خمینیؒ 

امام کی نظر میں معاشرے کی مدیریت، اور لوگوں کی دنیوی اور اخروی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ رہبری اور ہدایت کرنا سیاست کہلاتا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’سیاست کا معنی یہ ہے کہ معاشرے کی تمام مصلحتوں اور انسان کی تمام ابعاد کو سامنے رکھتے ہوۓ ان کی اس سمت میں ہدایت کرنا جس میں ان کی صلاح ہے۔ یہ کام صرف انبیاء اور ان کی اتباع میں اسلام کے بیدار علماء کے ساتھ مختص ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔[14]

علامہ محمد تقی جعفری 

سیاست یہ ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی میں اس طرح سے مدیریت، توجیہ و تنظیم کرنا کہ وہ حیات معقول کی طرف بڑھ سکیں۔ [15] علامہ کی نظر میں سیاست ایک مقدس امر ہے اور اسلام نے اسے واجب کفائی قرار دیا ہے۔ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے سیاست سے کوئی غرض نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حیات معقول نہیں چاہتا۔[16] حیات معقول سے مراد انبیاء الہی و امامان معصومین ؑ کی زندگی وحیانی ہے۔

منابع اسلامی میں لفظ سیاست

دینِ اسلام سیاست سے جدا نہیں ہے۔ جو شخص دین کو سیاست سے الگ سمجھتا ہے یا تو اسے علم نہیں ہے کہ سیاست اور دین کیا ہے اور نادان ہے۔ یا دین کا دشمن ہے اور اسے سیاست سے الگ کر کے معاشرے کو بے دینوں کے حوالے کر دینا چاہتا ہے۔

سیاست کا لفظ قر آن کریم میں وارد نہیں ہوا۔ لیکن روایات اور دینی منابع میں سیاست  کا لفظ کثرت سے وارد ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر تربیت اور تدبیر کے معنی میں وارد ہوا ہے۔ ذیل میں چند روایات کی طرف شارہ کیا جا رہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت منسوب ہے جس میں فرماتے ہیں:

«کَانَ بَنُو إِسْرَائِیلَ تَسُوسُهُمْ أَنْبِیَاؤُهُمْ».

ترجمہ: بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے۔[17]

امیرالمومنینؑ کے کلام میں ہمیں لفظ سیاست کثرت سے ملتا ہے۔ بری سیاست کا معیار بتاتے ہوۓ امام فرماتے ہیں:

«بِئسَ السِّیاسَةُ الجَورُ».

ترجمہ: ظلم کرنا بری سیاست ہے۔[18]

امیرالمومنینؑ سیاست کی زیبائی بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

«جَمالُ السِّیاسَةِ العَدلُ فی الإمرَةِ ، و العَفوُ مَعَ القُدرَةِ».

ترجمہ: سیاست کی زیبائی اس میں ہے کہ امر حکومت میں عدل سے کام لیا جاۓ۔ اور اس حال میں کہ قدرت موجود ہو بخش دیا جاۓ۔[19]

ایک اور روایت میں آیا ہے:

«حُسنُ السِّیاسَةِ قِوامُ الرَّعِیَّةِ».

ترجمہ: سیاست کی خوبی ہی قوم کے استحکام کی بنیاد ہے۔[20]

مزید فرماتے ہیں:

«حُسنُ السِّیاسَةِ یَستَدِیمُ الرِّیاسةَ».

ترجمہ: سیاست کا اچھا ہونا ریاست کی پایندگی کا باعث ہے۔[21]

ایک جگہ پر امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس شخص کی سیاست اچھی ہو اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے: وارد ہوا ہے:

«مَن حَسُنَت سِیاسَتُهُ وَجَبَت اِطَاعَتُه».

ترجمہ: جس کی سیاست اچھی ہو اس کی اطاعت واجب ہے۔ [22]

امیرالمومنینؑ کے نزدیک اچھی سیاست کس کی ہے؟ یا سیاست کا معیار کیا ہے؟ امام فرماتے ہیں:

«مِلاکُ السِّیاسَةِ العَدلُ».

ترجمہ: سیاست کا معیار (اساس) عدالت ہے۔ [23]

ایک اور ارشاد میں امام فرماتے ہیں کہ صرف اس شخص کی سیاست کو قبول کرو جس نے خود کی تربیت کی ہو۔

«مَن ساسَ نَفسَهُ أدرَکَ السِّیاسَةَ».

ترجمہ: جس نے اپنے نفس کی سیاست (تربیت) کی اس کو لوگوں پر سیاست کرنے کا ادراک حاصل ہو گیا۔[24]

امیرالمومنینؑ حکمرانوں کا ضعف بیان کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں:

«آفةُ الزُّعَماءِ ضَعْفُ السّیاسةِ».

ترجمہ: زعماء (حکمرانوں) کا سیاست (تدبیر) میں ضعیف ہونا آفت ہے۔[25]

امامؑ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو مدبر اور تربیت کرنا نہیں جانتا:

«مَن قَصُرَ عنِ السِّیاسَةِ صَغُرَ عنِ الرِّیاسةِ».

جو سیاست (تدبیر اور تربیت) نہیں کر سکتا وہ صدارت کے لائق نہیں۔[26]

نہج البلاغہ میں امیرالمومنینؑ امیر شام کے نامہ کے جواب میں فرماتے ہیں:

«وَ زَعَمتَ أَنّ أَفضَلَ النّاسِ فِی الإِسلَامِ فُلَانٌ وَ فُلَانٌ فَذَکَرتَ أَمراً إِن تَمّ اعتَزَلَکَ کُلُّهُ وَ إِنْ نَقَصَ لَمْ یَلْحَقْکَ ثَلْمُهُ وَ مَا أَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُولَ وَ السَّائِسَ وَ الْمَسُوسَ!».

ترجمہ: تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلان اور فلان ہیں۔ یہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کون افضل ہے اور کون غیر افضل ہے؟ کون حاکم ہے اور کون رعایا!۔[27] 

ایک اور مکتوب میں امام نے امیر شام کو لکھا کہ تمہارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، فرماتے ہیں:

«وَمَتَی کُنْتُمْ یَا مُعَاوِیَهُ سَاسَهَ الرَّعِیَّهِ وَ وُلاَهَ أَمْرِ الْأُمَّهِ؟».

ترجمہ: اے معاویہ! بھلا تم لوگ کب رعیت پر  حکمرانی کی صلاحیت رکھتے تھے اور کب امت کے امور کے والی و سرپرست تھے؟ [28]

جیسا کہ گزشتہ روایات میں گزرا امیرالمومنینؑ عدل کو سیاست کا معیار قرار دیتے ہیں۔ اس جگہ بھی امام فرماتے ہیں کہ حکمرانی اور زمامداری کے لیے ہر شخص لائق نہیں بلکہ وہ شخص اس کی اہلیت رکھتا ہے جو سیاست جانتا ہو۔ اور سیاست کا معیار عدالت ہے جبکہ امیر شام نہ تو کوئی اچھا ماضی رکھتے تھے، شرافت اور نا کوئی بلند مقام۔ حضرت ان افراد پر شدید تنقید کرتے ہیں جو سیاست کو مکر حیلہ اور لوگوں کو فریب دینے کے معنی میں اس کی تشریح کرتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی نظر میں حقیقی سیاستدان وہ ہیں جو مملکت کی تدبیر الہی فرمان کے مطابق کرتے ہیں۔ میکاولی کی سیاست کے مطابق ذاتی مفادات کے حصول کے لیے جھوٹ، مکر و گناہ کی روش کو نہیں اپناتے۔ امام نے اپنے ایک خطبے میں امیر شام کو اس سیاست کا مصداق قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

«وَ اللَّهِ مَا مُعَاوِیَهُ بِأَدْهَی مِنِّی وَ لَکِنَّهُ یَغْدِرُ وَ یَفْجُرُ وَ لَوْ لاَ کَرَاهِیَهُ الْغَدْرِ لَکُنْتُ مِنْ أَدْهَی النَّاسِ وَ لَکِنْ کُلُّ غُدَرَهٍ فُجَرَهٌ وَ کُلُّ فُجَرَهٍ کُفَرَهٌ».

ترجمہ: خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بدکرداریوں سے باز نہیں آتا۔ اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا۔ لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الہی کی نافرمانی ہے۔[29]

امام حسنؑ سے منقول ہے:

«إنّ اللَّه تعالى نَدَبَنا لِسِیاسَةِ الامَّةِ».

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں امت کی سیاست کا ادب سکھایا۔[30]

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے:

«إنّ اللّهَ عزّ و جلّ أدّبَ نبیَّه فأحسنَ أدبَهُ، فلَمّا أکمَلَ لَهُ الأدبَ قالَ: «و إنّکَ لَعلَى خُلُقٍ عظیمٍ» ثمّ فَوّضَ إلیهِ أمرَ الدِّینِ و الاُمّة لِیَسُوسَ عِبادَهُ».

ترجمہ: الله تعالی نے اپنے نبی کی تربیت کی اور بہت احسن انداز سے تربیت کی۔ اور جب تربیت کمال کے مرحلے تک پہنچ گئی تو فرمایا: «و إنّکَ لَعلَى خُلُقٍ عظیمٍ» اور پھر دین ار امت کا امر ان کے سپرد کر دیا تاکہ اس کے بندوں کی تدبیر (سیاست) کر سکیں۔[31]

ایک روایت میں امام رضاؑ صفات امام بیان کرتے ہوۓ ارشاد فرماتے ہیں:

«مُضْطَلِعٌ بالإمامةِ، عالِمٌ بالسِّیاسَةِ».

ترجمہ: وہ جو امامت کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور سیاست کا علم رکھنے والا ہوتا ہے۔[32]

زیارت جامعہ کبیرہ میں امام ہادی نقیؑ نے اہلبیت علیہم السلام کا تعارف کرواتے ہوۓ فرمایا:

«وَ قَادَةَ الْأُمَمِ وَ أَوْلِیَاءَ النِّعَمِ وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ وَ دَعَائِمَ الْأَخْیَارِ وَ سَاسَةَ الْعِبَادِ وَ أَرْکَانَ الْبِلَادِ».

ترجمہ: اور (سلام ہو)  آپ قوموں کے پیشوا ،نعمتوں کے بانٹنے والے، سرمایۂ نیکو کاران، پارساؤں کے ستون، بندوں کے لیے تدبیر کار، آبادیوں کے سردار ہیں۔[33]

سیاست کا منفی معنی میں استعمال

ہمارے معاشروں میں سیاست کو  عام طور پر برا تصور کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ شریف آدمی کا سیاست سے کیا کام؟ سیاست تو خدانخواستہ ایسے افراد کا کام ہے جو دین سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ قدرت اور زور زبردستی سے عوام پر ظلم کرنے والے افراد سیاست کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاست کو برا کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سوچ کیسے پیدا ہوئی کہ سیاست برا عمل ہے؟ جبکہ ہم نے روایات میں دیکھا کہ سیاست تو عین عبادت ہے۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ حقیقی سیاست دان ہیں۔ یقینا اگر یہ روایات موجود نہ ہوتیں تو کبھی بھی یقین نہ کرتے کہ واقعا سیاست بھی کوئی اچھی چیز ہے۔ علامہ تقی جعفریؒ اس کی وجہ بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

’’بشری تعاملات نے بہت سے الفاظ اور کلمات کی قداست اور عظمت کو چھین لیا۔ ان میں سے چند الفاظ آزادی، استعمار، اور سیاست ہیں۔خود لفظ آزادی تو برا معنی نہیں ہے لیکن آج کے دور میں جب آزادی بولا جاتا ہے تو اس سے مراد فحاشی، اقدار انسانی کے برخلاف کام ذہن میں آتے ہیں، یا کلمہ استعمار خود کوئی برا معنی نہیں رکھتا، کیونکہ استعمار کے لغوی معنی تو آبادکاری اور عمران کے ہیں۔ لیکن آج جب استعمار کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اسے مراد کسی ملک کو تباہ کرنا، اس کو غارت کرنا ہوتا ہے۔ کلمہ سیاست بھی اسی وجہ سے بدنام ہوا کہ اس کے توسط سے لوگوں نے فرصت طلبی، حیلہ گری، مکاری، زورگوئی اور منفی افعال انجام دیے۔[34]

معلوم ہوا خود سیاست، آزادی اور استعمار برا نہیں ہے بلکہ ان کلمات سے جو غلط استفادہ ہوا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کلمات کو ہی منفی معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں حتی بعض خواص بھی سیاست کو برا سمجھتے ہیں اور خود کو اس سے ہمیشہ دور کرتے ہیں۔

اہل طاغوت کی سیاست

اب تک ہمارے پاس سیاست کی دو اشکال سامنے آئی ہیں۔ ایک وہ سیاست ہے جو مثبت معنی میں ہے۔ ایک سیاست منفی معنی میں بھی موجود ہے جس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔

محمد عبدہ کی سیاست سے کنارہ کشی 

شیخ جمال الدین افغانی کے شاگر محمد عبدہ مصر کی مشہور و معروف مصلح شخصیت ہیں۔ آپ سلاطین کی ظالمانہ سیاست سے بیزار ہو کر آخر عمر میں سیاست سے کنارہ کش ہو گئے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

«اعوذ بالله من السیاسة و من لفظ السیاسة و من معنی السیاسة».

میں سیاست سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں سیاست کے لفظ سے اور سیاست کے معنی سے۔[35]

سید جعفر کاشف الغطا کی سیاست 

جب آپ پوچھا گیا کہ آپ سیاست میں دخالت کیوں کرتے ہیں جب کہ سیاست تو آپ جیسے افراد کا کام نہیں۔ آپ نے جواب دیا:

’’اگر سیاست کا معنی لوگوں کی خدمت، اور حاکم طبقے کو فساد اور ظلم سے روکنا ہے تو میں سر تا پیر سیاست میں غرق ہوں لیکن اگر سیاست کا معنی فتنہ ایجاد کرنا، اغتشاش، برادر کشی کرنا تاکہ حکومت تک پہنچا جا سکے اس سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ [36]

آیت اللہ کاشانی کا واقعہ 

امام خمینیؒ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن آیت اللہ ابو القاسم کاشانی سے زندان کے رئیس نے یہ سوال کیا کہ آپ سیاست میں دخالت کیوں کرتے ہیں؟ یہ کام آپ کی شان کے برخلاف ہے۔ اس رئیس نے ان سے کہہ کہا کہ سیاست دروغ گوئی ہے، دھوکہ اور فریب ہے۔ سیاست در اصل حرام زدگی ہے یہ کام آپ کے لیے نہیں۔ اسے ہم جیسے لوگوں کے لیے رہنے دیں۔ امام فرماتے ہیں کہ آیت اللہ کاشانی نے اسے کہا کہ یہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے یہ تم لوگوں کی سیاست ہے۔ لیکن اس سیاست کا اسلامی سیاست سے کسی قسم کا واسطہ نہیں۔ یہ شیطانی سیاست ہے۔ [37]

دین اور سیاست کا ربط

جیسا کہ بیان ہوا کہ سیاست ایک دینی فریضہ ہے۔ جو شخص دین پر عمل کرتا ہے یعنی وہ سیاستدان ہے۔ اور جو سیاستدان ہے وہ دیندار ہے۔ جس وقت ہم سیاسی عمل انجام دیتے ہیں عین دینی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جب ہم کوئی دینی عمل انجام دیتے ہیں گویا سیاسی عمل انجام دے رہے ہیں۔ امام خمینیؒ سیاست کو عین دین سمجھتے تھے، امام سے نقل ہے:

’’دین اسلام ایک سیاسی دین ہے۔ جس کا ہر حکم سیاسی ہے۔ حتی  اسلام نے جو عبادات مقرر فرمائی ہیں وہ بھی سیاسی ہیں۔اسلام بقیہ ادیان سے زیادہ اس معنی پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے ہر حکم میں سیاست مخلوط ہے۔ نماز میں سیاست مخلوط ہے، حج میں سیاست، زکات میں سیاست اور مملکت کی مدیریت میں بھی سیاست مخلوط ہے۔ [38]

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی سیاست اور دین کے ربط کے متعلق بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ اگر دین کو سیاست سے جدا کر دیا جاۓ تو دین کے مقررات کی کوئی اجرائی ضمانت ہمارے پاس موجود نہ رہے گی۔ فرماتے ہیں:

’’چالیس ہجری معاویہ عراق آیا تو اس نے خطبے میں لوگوں سے کہا: «میں تم سے نماز روزہ کے کسی مسئلہ میں جنگ نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہوں تم پر صرف حکومت کروں»۔ معاویہ نے یہ بات کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دین اور سیاست جدا ہیں۔ اور میں دینی مقررات کے اجراء کے لیے کوئی ضمانت نہیں دونگا صرف حکومت کی بقاء کی کوشش کرونگا۔[39]

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی سیاست اور دین کے ربط کے متعلق فرماتے ہیں:

’’کچھ لوگ نادانستہ طور پر دین اور سیاست کی علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ یعنی وہ دین کو ویران گوشوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دیندار افراد صرف نصیحت و وعظ اور درس پر اکتفا کریں! نصیحت یہاں قدرت کے آگے کچھ نہیں کر سکتی۔ جو چیز سپر طاقتوں کو روک سکتی ہے، دھمکا سکتی ہے اور ظلم و فساد کا مقابلہ کر سکتی ہے، اسے اکھاڑ پھینک سکتی ہے یا ہلا سکتی ہے وہ الٰہی اور اسلامی طاقت ہے۔ یہ ایک سیاسی طاقت ہے جو اسلامی حکام کے اختیار میں ہے۔ امام زمان ارواحنا لہ الفداء، اقتدار اور قوت کے ساتھ، اپنے ایمان پر بھروسہ کرتے ہوۓ اور ان کے پیروکاروں اور دوستوں کے ایمان سے جو قدرت حاصل ہوگی اس کے ساتھ دنیا کے ستمکاروں کا گریبان پکڑیں گے اور ان کے محلوں کو ویران کریں گے‘‘۔[40]

نتیجہ

سیاست ایک مثبت امر ہے جس کا مطلب معاشرے کی بہتر مدیریت و تربیت کرنا ہے جسے دین نے ضروری قرار دیا ہے۔ سیاست کے بغیر معاشرہ اجتماعی طور پر کمال کو حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان ایک معاشرتی موجود ہے چار ناچار اسے اجتماعی شکل میں رہنا پڑتا ہے۔ اجتماعی شکل کے تحفظ کے لیے اسے سیاست کی ضرورت ہے۔ مغربی مفکرین معاشرے میں اقتدار حاصل کرنے کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ اسلامی مفکرین اور روایات میں سیاست کو اس لیے ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کی درست سمت میں ہدایت ممکن بنائی جا سکے۔

 

 

 

منابع:

↑1 ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۶، ص۱۰۸۔
↑2 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج۷،ص۳۳۶۔
↑3 معجم الوسیط، ج۱، ص۴۶۳۔
↑4 اردو لغت۔
↑5 فارسی لغت۔
↑6 بنیاد ہای علم سیاست،ص۳۱۔
↑7 بنیاد ہای علم سیاست،ص۳۱تا۳۲۔
↑8 موریس ڈورگر، اصول علم سیاست، ترجمہ ابوالفضل قاضی، ص۳۔
↑9 جہاندی، علیرضا، سیاست بہ مثابہ اعمال قدرت، روزنامہ مردم سالاری، تہران، شماره ۱۳۷۱ دوم اردیبہشت ماه ۱۳۸۲۔
↑10 فارابی، ابو نصر، احصاء العلوم، ص۵۔
↑11 خواجہ طوسی، محمد بن محمد نصیر الدین، اخلاق ناصری، ص۱۲۔
↑12 مبانی علم سیاست، ص۲۷۔
↑13 مبانی علم سیاست، ص۲۷تا۲۸۔
↑14 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۸۔
↑15 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۸۔
↑16 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۸تا ۴۹۔
↑17 طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۷۸۔
↑18 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۱۰۔
↑19 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴۱۔
↑20 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴۴۔
↑21 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۳۴تا۳۴۵۔
↑22 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۹۲۔
↑23 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۷۰۲۔
↑24 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۹۱۔
↑25 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۲۷۹۔
↑26 تمیمی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۶۲۱۔
↑27 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔
↑28 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔
↑29 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۰۰۔
↑30 قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، ج۲، ص۱۹۸۔
↑31 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۶۔
↑32 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۰۲۔
↑33 زیارت جامعہ کبیرہ۔
↑34 جعفری، محمد تقی، حکمت اصول سیاسی اسلام، ص۴۷تا۴۸۔
↑35 محمد عبدہ، رشید رضا، المنار، ج۸، ص۸۹۴۔
↑36 سائٹ علوم انسانی۔
↑37 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۶۔
↑38 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۹، ص۱۳۸۔
↑39 طباطبائی، محمد حسین، شیعہ در اسلام، ص۴۷۔
↑40  آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 April 22 ، 18:19
عون نقوی