بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط ۰۲}

بعثت کے معانی اور اس کی اقسام

کتاب: ولایت و حکومت، سید علی خامنه ای

تحریر: عون نقوی 

 

انسان کی خلقت ایک ہدف کے تحت ہوئی ہے۔ وہ ہدف تکامل یا لقاء الہی ہے۔ ظاہر ہے اس ہدف تک پہنچنا آسان کام نہیں۔ انسانوں کے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء مبعوث فرماۓ ہیں۔ انبیاء الہی اللہ تعالی کی جانب سے مامور ہیں کہ انسانوں کی ہدایت کریں اور ان کے لیے ہدایت کے راستوں پر چلنے کے موانع دور کریں۔ بعثت انبیاء کیا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ان سوالات کے جواب اس تحریر میں اختصار کے ساتھ بیان کیے جائیں گے۔

بعثت کے لغوی معنی

بعثت کا لفظ «ب- ع- ث» کے مادہ سے ہے۔ جس کے معانی بھیجنا، ارسال کرنا، برانگیختہ کرنا یا روانہ کر دینا ہے۔[1][2][3] «ب- ع- ث» کے اس مادہ کو مختلف معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان سب معانی میں ایک مشترک معنی پایا جاتا ہے۔ اور وہ ’’برانگیختہ کرنا ‘‘ہے۔[4]

بعثت کے اصطلاحی معنی

دینی اصطلاح میں بعثت سے مراد نبی یا رسول کا اللہ تعالی کی جانب سے لوگوں کی ہدایت پر مامور ہونا ہے۔ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے:

«وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ».

 ترجمہ:  اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔[5]

مصنف کے بقول ایک شخص، انسان یا پوری قوم کا خواب سے بیدار ہونا بعثت کہلاتاہے۔ اگر ایک شخص یا قوم حالت سکون سے متحرک ہو کر قیام کی حالت میں منقلب ہو جاۓاس کو بعثت کہیں گے۔ نبی کا کام معاشروں میں بیداری لانا ہے۔ بیدار کرنا ،برانگیختہ کرنا یا اس طرح سے ان کو اندر سے متحول کرنا کہ وہ قیام کے لیے آمادہ ہو جائیں۔

بعثت کی اقسام

بعثت دو قسم کی ہے۔

۱۔ درونی بعثت

۲۔ بیرونی بعثت

درونی بعثت وہ ہے جو نبی کی ذات میں ایجاد ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کا نبی کی ذات میں ایک تحول ایجاد کرنا، انقلاب یا آتشفشان روشن کرنا۔ پہلے خود نبی اندر سے متحول ہوتا ہےاور اس کی ذات منقلب ہوتی ہے۔ اس درونی انقلاب کے نتیجے میں بیرونی بعثت وجود میں آتی ہے جس سے پورا معاشرہ اجتماعی طور پر تبدیل ہوتا ہے۔ اگرچہ بعثت سے پہلے نبی اسی معاشرے میں موجود ہوتا ہے اور اس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کے راہ، اور اہداف جدا ہوتے ہیں۔ اسی معاشرے میں موجود رہتا ہے لیکن ناراضی ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ ۴۰ سال تک قبل از اعلان نبوت اس مشرک معاشرے میں موجود تھے۔ ان کا رہن سہن، اجتماعی تعلقات افراد کے ساتھ تھے لیکن اس معاشرے کے نظام کا حصہ نہ تھے۔ ۴۰ سال کی عمر مبارک میں اللہ تعالی نے ان کے وجود کے اندر ایک آتشفشاں روشن فرمایا۔ اس درونی بعثت کے نتیجے میں بیرونی بعثت وجود میں آئی جس سے وہ معاشرہ کچھ ہی سال بعد مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گیا۔ 

بعثت سے پہلے اور اس کے بعد

بعثت سے پہلے یہ معاشرہ کس حالت میں تھا۔ امیرالمومنینؑ نے قبل از بعثت کے معاشرے کی توصیف اس طرح سے فرمائی:

«وَ أَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَی شَرِّ دِینٍ وَ فِی شَرِّ دَارٍ مُنِیخُونَ بَیْنَ حِجَارَهٍ خُشْنٍ وَ حَیَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْکَدِرَ وَ تَأْکُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِکُونَ دِمَاءَکُمْ وَ تَقْطَعُونَ أَرْحَامَکُمْ الْأَصْنَامُ فِیکُمْ مَنْصُوبَهٌ وَ الْآثَامُ بِکُمْ مَعْصُوبَهٌ».

ترجمہ:اے گروہ عرب! اس وقت تم بدترین دین پر اور بدترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے۔ تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گھڑے ہوۓ تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوۓ تھے۔[6] لیکن بعثت کے بعد یہی لوگ پوری دنیا میں تمدن کا مرکز بنے۔ دنیا کا نقشہ انہیں لوگوں نے بدلا اور تاریخ کی سرنوشت کو بدل ڈالا۔ حجاز کے اس علاقے کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ حتی تمدن یافتہ معاشرے اس علاقے کو فتح کرنے اور اپنی مملکت میں اس کو ملانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ ایک تو سخت زمین تھی، کھیتی باڑی کا سامان تھا اور نا تجارت کے مواقع۔ صحرا اور پہاڑ جہاں انسان تو آباد تھے لیکن تمدن نامی چیز موجود نہ تھی۔ اسلام آنے کے بعد یہی حجاز کا علاقہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ آدھی دنیا کو فتح کیا۔ صرف چند قرن میں ہی مکہ و مدینہ کی یہ تہذیب پوری دنیا پر غالب آگئی۔ اور بشریت نے ان کے تمدن، علمی اکتشافات، تجربات، اور کتابخانوں سے استفادہ کیا۔ 

بعثت کے نتائج اور اس کی قیمت

صرف نصف صدی گزرنے کے بعد آدھی دنیا پر مسلمانوں کو تسلط حاصل ہو گیا۔ اس وقت کی سپر طاقتوں کو مسلمانوں نے بچھاڑ ڈالا۔ روم اور ایران کے بادشاہی سلسلے اسلام اور مسلمانوں کے آگے ڈھیر ہوۓ۔ لیکن یہ بعثت کسی بھی قوم کو مفت میں نہیں ملتی۔ جب آپ خود کو اندر سے تبدیل کرتے ہیں اور معاشرے کے اندر تحول ایجاد کرتے ہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے صدیوں سے حاکم طاغوتی نظام، ان کے اندر مرسوم جاہلی ثقافت ختم کرنے میں وقت بھی لگتا ہے اور قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔ اور یہ کام رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب نے انجام دیا۔ اپنے اہداف کے لیے ڈٹے رہے، اپنوں اور غیروں کی دشمنیاں مول لیں، مصیبتیں برداشت کیں، حتی اپنے عزیزوں کی شہادتیں قبول کیں لیکن استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ اور جب خدا کی راہ میں ڈٹ گئے تو اللہ تعالی کا بھی وعدہ ہے جو اللہ کی نصرت کرتا ہے اللہ تعالی اس کی نصرت کرتا ہے اور اس کو غلبہ عطا کرتا ہے۔

«اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ».

ترجمہ: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔[7]

رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب نے نصرت الہی کو جنم دیا خدا نے بھی ان کو فتح عطا فرمائی اور ان کے پیغام کو عالمی بنا دیا۔[8]

منابع:

 

↑1 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات، ص۵۲۔
↑2  فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، ج۲، ص۱۱۲۔
↑3  مصطفوی، حسن، التحقیق، ج۱، ص۲۹۵۔
↑4 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱، ص۲۹۵۔
↑5 نحل: ۳۶۔
↑6 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۶۔
↑7 محمد: ۷۔
↑8 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۱تا۲۴
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 12:49
عون نقوی

{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۱ }

رہبر معظم کی کتاب ولایت و حکومت کا تعارف

کتاب: ولایت و حکومت، سید علی خامنه ای

تحریر: عون نقوی 

 

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای دام ظلہ العالی عصرِ حاضر کی معروف ترین شخصیت ہیں ۔آپ رہبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم اسلامی مفکر بھی ہیں۔ آپ کی شخصیات کے مختلف پہلو ہیں۔ لیکن جس پہلو کی طرف بہت کم لوگ متوجہ ہیں وہ اسلامی مفکر ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف مسلمین توجہ نہ کریں تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہوگا۔

رہبر معظم کا ابتدائی تعارف

آپ کا نام سید علی حسینی خامنہ ای ہے۔ شیعہ مرجع تقلید اور اسلامی انقلاب ایران کے دوسرے رہبر ہیں۔ رہبر بننے سے پہلے ایران کے صدر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔

ولادت ۱۹ اپریل ۱۹۳۹ء بمطابق ۲ صفر ۱۳۵۸ ہجری مشہد مقدس میں ہوئی۔

والد کا نام سید جواد خامنہ ای ہے۔ جو اپنے زمانے کے بزرگ عالم دین تھے۔ والدہ بانو میر دامادی، ایک زاہدہ خاتون تھیں جو شرعی احکام کی سخت پابند تھیں۔ آپ کے اجداد کا سلسلہ نسب سادات افطسی سے ملتا ہے جو پانچویں پشت میں امام سجادؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب سید محمد دیباج بن امام جعفر صادقؑ تک پہنچتا ہے۔[1]

آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو

رہبر معظم کو ہم مختلف جہات سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جہت سے وہ مرجع شیعیان جہان ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مختلف ممالک میں ان کے مقلدین موجود ہیں۔ رہبر معظم کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کا رہبر اسلامی انقلاب ایران ہونا ہے۔ پوری دنیا ان کو ایرانی سپریم لیڈر کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو ۳۰ سال سے ایک ایسے ملک کی مدیریت کر رہے ہیں جو شدید ترین بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ جس ملک پر پوری دنیا کی جانب سے اقتصادی پابندیاں موجود ہیں۔ مغربی طاقتیں اس کی شدید دشمن ہیں، دوسری طرف سے صیہونی غاصب ریاست اور عرب ممالک جو اس انقلاب کے دشمن ہیں لیکن یہ رہبر فقید و دانا ان سب دشمنوں کے باوجود ملک کو چلا رہا ہے۔ ایک اور پہلو جو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان کا مجاہد ہونا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے صدام نے ایران پر جنگ مسلط کی۔ آٹھ سال تک ایران بغیر کسی ملک کی حمایت کے خالی ہاتھوں سے دفاع کرتا رہا ہے۔ اس دفاع کے ہیروؤں میں سے ایک بڑا نام سید علی خامنہ ای ہے۔ رہبریت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے جہاں آپ ایک طرف ایران کے صدر رہ چکے ہیں وہیں آپ جنگی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ بہت کم ایسے سیاستدان یا حکمران ہونگے جو بیک وقت سیاست و حکومت کا بھی تجربہ رکھتے ہوں اور ساتھ میں جنگی مہارت بھی رکھتے ہوں۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو مفکر ہونا ہے۔ آپ ناصرف ایک فقیہ، عالم، مرجع تقلید ہیں بلکہ مکتب تشیع کے جامع مفسر بھی ہیں جنہوں نے منظم انداز میں مکتب کے تفکر کو منطقی طور پر تجزیہ تحلیل کر کے پیش کیا ہے۔ بہت کم ایسے فقہاء گزرے ہیں جن کے اندر علمی طور پر اتنا کمال اور جامعیت پائی جاتی ہو جس طرح کی جامعیت رہبر معظم میں پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے ایک عالم، فقہ، اصول، ادبیات عرب، کلام وغیرہ میں ماہر ہو لیکن ان کے ساتھ ساتھ علوم انسانی میں بھی مہارت حاصل ہونا بہت کم لوگ اس علمی کمال تک پہنچے ہیں۔ رہبر معظم نا صرف ان علوم میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ لمبے عرصے کا تجربہ بھی ان کو حاصل ہے۔ 

آپ کا علمی اور عملی میدان میں تواضع

آج کے دور میں ایسے افراد بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جب ان کو منصب کی پیشکش کی جاۓ تو وہ آگے سے انکار کر دیں۔ رہبر معظم کو جب رہبر بنایا جا رہا تھا تو آپ مسلسل انکار کرتے رہے اور فرماتے کہ میں اس منصب کے قابل نہیں ہوں، اس منصب کے لیے مجھ سے بہتر کسی اور کا انتخاب کیا جاۓ۔ لیکن مجلس خبرگان کی اکثریت کا یہ ماننا تھا کہ آپ کے علاوہ اور کوئی بھی اس منصب کے لیے مناسب تر نہیں ہیں۔ مجلس خبرگان کا اصرار جب بڑھا اور انہوں نے کہا کہ اس وقت آپ کا رہبر بننا آپ کے لیے اختیاری نہیں بلکہ آپ کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے تو اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوۓ آپ نے رہبریت کو قبول فرمایا۔ آپ کی شخصیت میں اسی طرح کا تواضع علمی میدان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بہت سے افراد اپنا نام چمکانے، اور علمی میدان میں نام بنانے میں بہت چالاکی سے کام لیں، حتی یہاں تک بھی ممکن ہے کہ عالم نا ہوں لیکن خود کو عالم کے طور پر معاشرے میں پیش کریں، محقق نہ ہوں لیکن خود کو محقق کے طور پر پیش کریں۔ لیکن رہبر معظم جو کہ حقیقت میں مفکر، عالم دین، و محقق ہیں ایک عرصہ تک اپنے نام کے ساتھ کوئی کتاب نشر نہ کی۔ تہران یونیورسٹی کے طلاب نے ایک تحقیق میں رہبر معظم کے افکار کے ذیل میں کچھ مواد چھاپنا تھا، جب انہوں نے رہبر کے دفتر کی طرف رجوع کیا اور ان سے گزارش کی کہ ان کے افکار پر کوئی کتاب ہے تو ہمیں حوالے کے طور پر چاہیے۔ یہ جان کر ان کو حیرت ہوئی کہ رہبر کے افکار یا تقاریر کا کوئی کتابی مجموعہ موجود نہیں ہے۔ یہاں سے ایک ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے بعد رہبر کے افکار اور تقاریر کے مجموعے آنا شروع ہوۓ اور الحمدللہ ایک بہت بڑا موسوعہ رہبر کے آثار کے عنوان سے آج مارکیٹ میں موجود ہے۔ 

کتاب ولایت و حکومت

یہ کتاب در اصل رہبر معظم کی تقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ تقاریر انقلاب اسلامی کی کامیابی سے چند سال پہلے عوامی اجتماعات میں کی گئیں۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ ایران اپنے مکمل اقتدار کے ساتھ حاکمیت کر رہا تھا۔ ذرا سی حکومت مخالف بات کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑتیں۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، گھروں میں نظر بند کرنا، تبعید اور حتی قتل کر دینا اس کے لیے معمولی سی بات تھی۔ لیکن رہبر معظم ان افکار کو ایسے حالات میں بیان کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں تھا کہ حکومت نے ان کو کچھ نہیں کہا۔ کتاب میں رہبر خود اپنی زبانی تبعید ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ آپ کو سیستان بلوچستان کے علاقے کی طرف تبیعید کیا گیا اور ایک ایسے زندان میں رکھا گیا جہاں سانس لینا بھی دشوار تھا۔ اس کمرے میں تین افراد پہلے سے موجود تھے۔ رہبر فرماتے ہیں کہ اس زندان میں ہمارا ایک دن سال کے برابر معلوم ہوتا تھا۔یہ افکار ایسے حالات میں بیان نہیں ہوۓ جب انقلاب آ گیا ہو، اسلامی حکومت قائم ہو چکی ہو اور مومنین آسودہ ہوں، جی نہیں! ایک سوچ ہمارے معاشروں میں پائی جاتی ہے کہ جب سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ، حالات بالکل پرامن ہوں تب انقلابی افکار بیان کرنے چاہئیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وظیفہ تبلیغ اور اسلامی افکار کی تبیین وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتی۔ اگر وظیفہ تبلیغ بنتا ہے تو چاہے خوف ہو، ڈر ہو ہمارا کام افکار کو تبیین کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو آن پڑے اس پر صبر و استقامت دکھانی ہے۔

کتاب کی فصول

کتاب کی چھ فصلیں ہیں۔ ابتداء کتاب میں بیان ہوا ہے کہ قاری کے لیے بہتر ہے کہ اس کتاب کو بہتر سمجھنے کے لیے ان دو کتابوں کو مطالعہ ضرور کرے۔

۱۔ طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن

۲۔ حلقہ دوم انسان ۲۵۰ سالہ

کیونکہ اس کتاب کا آغاز نبوت اور امامت سے شروع ہو رہا ہے معلوم ہوا اس سے پہلے کی ابحاث بقیہ دو کتابوں میں مذکور ہیں جو قاری کو پہلے پڑھنا ہونگی۔[2]

پہلی فصل کا عنوان بعثت و نبوت ہے۔ اس فصل میں بعثت کے معنی، بعثت کی اقسام، بعثت انبیاء کے اہداف بیان ہوۓ ہیں۔دوسری فصل کا عنوان ولایت و امامت ہے۔ اس فصل میں ولایت کے معنی، ولایت کے مراتب، امامت کے معنی، امامت کی طرف لوگوں کی احتیاج، امام کا تعارف، اور امام کی ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں۔تیسری فصل کا عنوان ولایت طاغوت ہے۔ اس فصل میں طاغوت کے معانی، اس کے مصادیق، طاغوت کا انکار در قرآن، اور یہ بحث ہوئی ہے کہ آیا طاغوت کی ولایت میں رہنے والا مسلمان حقیقی مسلمان ہے یا نہیں؟چوتھی فصل حکومت الہی کے متعلق ہے۔ چوتھی فصل میں اسلامی نظام کی اساس، فلسفہ حکومت در اسلام، عناصر حاکمیت اسلامی اور عوامی حکومت کا معنی بیان ہوا ہے۔پانچویں فصل کا عنوان حاکم اسلامی ہے۔ حاکم اسلامی کی خصوصیات، اجتماعی اور معنوی منصب پر فائز ہونے والے افراد کے معیار، امیرالمومنینؑ کے اصول حاکمیت، حاکم اسلامی کے وظائف، حقوق متقابل حاکم اور عوام، اور آخر میں حاکم اسلامی کے متقی ہونے کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔کتاب کی آخری فصل کا عنوان زمانہ غیبت میں ولایت کا جریان ہے۔ اس فصل میں بیان ہونے والے مباحث بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت کی ضرورت، اگر اسلامی حکومت نہ ہو تو کیا ہوگا؟

۲۔ زمانہ غیبت میں حاکمیت اور سیاست سے مسلمانوں کو کیسے دور کر دیا گیا، اور ان مباحث کی طرف دوبارہ مسلمان کب لوٹے؟

۳۔ دین کی سیاست سے جدائی کا نعرہ اور اس کی تاریخ

۴۔ حاکم کو کیسے متعین کیا جاۓ؟ حاکم کو اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہونا چاہیے، یا عوام بھی حاکم کو انتخاب کر سکتے ہیں؟

۵۔ ولایت فقیہ 

۶۔ ولایت فقیہ کی تاریخ

۷۔ اسلامی نظام حکومت میں ولی فقیہ کا کردار

۸۔ ولی فقیہ کے اختیارات

۹۔ انقلاب اسلامی ایران

۱۰۔ امام خمینی کے دس بڑے کارنامے

۱۱۔ فقہ سیاسی کی تاریخ

۱۲۔ مسائل جدید کی متکفل فقہ[3]

 

 

منابع:

 
↑1 سائٹ ویکی شیعہ۔
↑2 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۹تا۱۸
↑3 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۳۷۹تا۳۸۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 12:47
عون نقوی

{دروس ولایت فقیه}

 

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۳۱)

مغربی نظام حاکمیت

اگر مغربی تفکر سے پوچھیں کہ اگر آپ کو پوری دنیا کا نظام دے دیا جاۓ تو آپ دنیا کے لیے کیا کریں گے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی مادی ضروریات پوری کریں گے۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے، رفاہ مضبوط بنائیں گے۔ ٹیکنالوجی کو پھیلا دیں گے اور لوگوں کو ہر قسم کی مشکلات سے نکال کر آزادی دیں گے۔ لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ ہے کہ اس ادعا میں مغربی تفکر سچا ہے یا جھوٹا؟ اور اگر سچا ہے بھی تو کیا اس نظام کو لانے سے انسانیت اپنے ہدف کو پہنچ جاۓ گی یا نہیں؟ اس سوال پر ہم اگلی قسط میں تبصرہ کریں گے ۔ اس تحریر میں ہمارا ہدف اسلامی نظام حکومت کی تبیین ہے۔

اسلامی نظام حاکمیت

ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی نظام حکومت دنیا پر لاگو ہو جاۓ تو کیا ہوگا؟ کیا مسلمان یا ایک مومن اس سوال پر سوچتا بھی ہے یا نہیں؟ یا اسے اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی امید نہیں؟ بطور مسلمان کسی کو امید ہو یا نہ ہو لیکن اللہ تعالی کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ بہرحال حق غالب آ کر رہے گااور پوری دنیا پر حق کی حاکمیت ہوگی۔ لیکن خدا کے وعدے کے سچ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟ اگر اسلامی نظام حاکمیت پوری دنیا پر نافذ ہو جاۓ اس کے اہداف کیا ہونگے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا اولین ہدف انسان کو کمال اور مقام عبودیت تک پہنچانا ہے۔ اسلامی نظام حاکمیت کا ہدف یہ ہے کہ وہ تمام موانع ختم کیے جائیں جو انسان کے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں اور اسے حقیقی عبد نہیں بننے دیتے۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ اگر مومنین کو حکومت دے دی جاۓ تو وہ کیا کریں گے؟

«الَّذِینَ إِن مَّکَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ».

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔[1]

مہدویت کا نظریہ

اسلامی نظام حاکمیت کا عنوان مہدویت ہے۔ مہدویت صرف مکتب تشیع کا نظریہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان فرقے امام  مہدیؑ کے قیام کے قائل ہیں۔کیونکہ  مہدویت کا نظریہ قرآنی نظریہ ہے ۔ جس کے مطابق حق کی حاکمیت اور باطل کے مٹنے کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے۔ حق کی حاکمیت آہستہ آہستہ آتی ہے ۔ آج ہمیں ہر طرف باطل کی حاکمیت نظر آتی ہے لیکن یہ باطل مٹ جانے والا ہےاور حق قائم ہونے والا ہے۔

مہدویت کیا ہے؟

مہدویت یعنی دین، حق اور عدل اور انصاف کا غلبہ۔ مہدویت کو ہمارے معاشروں میں مختلف عناوین سے دیکھا جاتا ہے۔ مثلا امام مہدیؑ سے توسل کرنا، امام مہدیؑ کے نام عریضہ لکھنا یا ان کی ذات سے خود کو متبرک کرنا وغیرہ۔ لیکن امام مہدیؑ سے ان سب عناوین کے تحت ارتباط برقرار کرنا کافی نہیں۔ اس ارتباط کے لیے حتی شیعہ ہونا بھی ضروری نہیں، ممکن ہے کوئی غیر شیعہ یا حتی غیر مسلم امام مہدیؑ سے توسل کرے اورامام اسے عطا کر یں۔ در اصل امام مہدیؑ سے ا س طرح کا ارتباط مہدوی ارتباط نہیں۔ مہدیؑ کو اگر ہم نجات دہندہ، معطی، طبیب اور حق کو غالب کرنے والے کی جہت سے دیکھیں یہ مہدویت کہلاۓ گی۔ مہدویت یعنی نظام امامت کا غلبہ۔ مہدویت یعنی اسلامی تفکر کا غلبہ۔

امامت کے مراتب

امامت کے چند مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ یہ ہے کہ امام کو ان کے منصب امامت کے عنوان سے قبول کر لیں۔ دوسرا مرحلہ ان کی مقبولیت کا ہے ۔ تیسرا مرحلہ امامت کے غلبہ کا ہے جب حق کی حکومت غالب ہو کر کمال کو پہنچ جاۓ۔ مہدویت ،امامت کے تیسرے مرتبے کا نام ہے جب حق کا امام اور اسلامی نظام حاکمیت پوری دنیا پر مقبول بھی ہوگی اور اس کا غلبہ بھی ہوگا۔

مہدویت از نظر قرآن و روایات

قرآن کریم اور روایات کی نظر میں مہدویت تین چیزوں کے غلبہ کا نام ہے۔

۱۔ غلبہ دین

جیسا کہ بیان ہوا اسلامی نظام حاکمیت یعنی  مہدویت کے آنے کی صورت میں دین کا غلبہ حاصل ہو جاۓ گا۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ اس نے دین حق کو پوری دنیا پر نافذ کرنا ہے۔اللہ تعالی نے دین اور انبیاء کرامؑ کا سلسلہ شروع ہی اس لیے کیا تھا کہ دین کا غلبہ ہو۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ».

ترجمہ: اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔[2]

دین کو اللہ تعالی نے اس لیے نہیں بھیجا کہ لوگ گھروں میں ایک کونے میں بیٹھ کر دین کا ورد کریں بلکہ دین اس لیے آیا ہے کہ پوری دنیا پر ہر شعبے میں دین کی حاکمیت ہو۔

۲۔ غلبہ حق

ہر وہ امر جو واقعیت کے مطابق نہیں ہے اسے باطل کہتے ہیں۔ باطل کے مقابلے میں لفظ حق استعمال ہوتا ہے۔ حق یعنی ہر وہ امر جو واقعیت کے مطابق ہو۔ قرآن کریم کے مطابق اگر اسلامی نظام حاکمیت یعنی مہدویت کا نظام آ جاۓ تو حق کا غلبہ ہوگا اور باطل مٹ جاۓ گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقًا».

ترجمہ: اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔[3]

۳۔ غلبہ عدل و انصاف

مہدویت کے غلبے کی صورت میں عدل اور انصاف قائم ہو جاۓ گا۔ حضرت امام مہدیؑ کےمتعلق روایات سنی شیعہ ہر دو منابع میں وارد ہوئی ہیں۔ بالخصوص مندرجہ ذیل مشہور حدیث کہ جو شیعہ اور سنی ہر دو محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے لیکن سب کا مضمون ایک مطلب پر دلالت کرتا ہے۔اس حدیث میں امام مہدیؑ کے قسط و عدل کے قائم کرنے کا بیان وارد ہوا ہے:

«هُوَ الْمَهْدِیُّ الَّذِی یَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً کَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً».

ترجمہ: وہ مہدی جو زمین کو عدل اور قسط سے اس طرح سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوگی۔[4][5][6][7][8][9][10][11][12][13][14][15][16][17][18][19]

ان تین ابواب سے امام مہدیؑ سے ربط قائم کریں تو مہدویت جنم لیتی ہے۔

مہدویت اور ہماری ذمہ داری

جب بھی انسان امام مہدیؑ سے مہدویت کے عنوان سے ربط قائم کرتا ہے ، یہ رابطہ حتما اسے وظیفہ اور ذمہ داری عطا کرتا ہے۔ در اصل شیعہ ہے ہی وہ جسے امامت  کی طرف سے کوئی وظیفہ اور ذمہ داری ملی ہے۔ اگر کوئی شخص خود کو  شیعہ کہتا ہے لیکن خود کو کسی وظیفہ اور ذمہ داری کا پابند نہیں سمجھتا وہ حقیقی  شیعہ نہیں۔ مہدویت ہمیشہ ذمہ دار اور وظیفہ شناس بناتی ہے۔

امام مہدیؑ کے منتظر اور مہدوی انسان کی پہلی ذمہ داری امام کی نصرت کرنا ہے۔ ہم امام مہدیؑ کی کیا نصرت کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم امام مہدیؑ کی اطاعت کر کے ان کے اہداف کو پورا کرنے میں نصرت کر سکتے ہیں۔ ان کے اہداف کے لیے مقدمات فراہم کر سکتے ہیں۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ کَمَا قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّینَ مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ».

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: کون ہے جو راہ خدا میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔[20]

اللہ تعالی کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ در اصل حجت الہی کی نصرت کرنا نصرت الہی ہے۔ اگر ہم نے اپنے وقت کی حجت کی نصرت کی گویا ہم نے اللہ تعالی کی نصرت کی۔

نصرت امام کیسے کریں؟

نصرت امام کیسے انجام دیں؟ جو اہداف ہمارےزمانے کی حجت کے اہداف ہیں، ان اہداف کو پورا کرنے کے مقدمات فراہم کریں،ہر وہ کام جو امام مہدیؑ نے انجام دینا ہے اس کی راہ ہموار کرنا شروع کر دیں،مثلا امامؑ نے حق کو غلبہ عطا کرنا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے تئیں حق کو غالب کرنے کی کوشش کریں۔ حتی اپنی ذات کی حد تک، اپنی ذات سے باطل کو ختم کر کے حق کو غالب کر دیں یہ بھی نصرت امام ہے۔ امیرالمومنین امام علیؑ کا ارشاد مبارک ہے:

«أَعِینُونِی بِوَرَعٍ وَ اِجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ».

ترجمہ:پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں  میرا ساتھ دو۔[21][22]

اگر ہم حرام کام سے بچتے ہیں امام کی نصرت کر رہے ہیں۔ معاشرے سے گناہ ختم کریں، معروف کو قائم کریں،دین کو غالب کریں ، معاشرے سے ظلم کو ختم کریں یہ سب نصرت امام ہے۔ کیونکہ امام مہدیؑ کا ایک ہدف ظلم کا خاتمہ ہے آج اگر کوئی شیعہ معاشرے سے ظلم کو ختم کرتا ہے اس نے مہدویت کی راہ ہموار کی۔ لیکن اگر ظلم کے مقابلے میں خاموش رہا یا غیر جانبدار رہا گویا اما  م مہدیؑ کے ظہور میں مانع بنا ہے۔ دین پورے جہان میں ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے ،شیعہ پورے جہان میں اسلامی حکومت چاہتا ہے۔ تشیع کی نگاہ بہت بلند ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں شیعہ کو بہت خطرناک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، پوری دنیا کی حکومتیں شیعہ سے ڈرتی ہیں کیونکہ شیعہ ان کے خلاف قیام کو واجب اور ان سے سازگاری شرعی طور پر درست نہیں سمجھتا۔ [23]

 

منابع:

 

↑1 حج:۴۱۔
↑2 توبہ:۳۳۔
↑3 اسراء:۸۱۔
↑4 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۸۔
↑5 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴،ص۱۷۷۔
↑6 صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱،ص۱۶۱۔
↑7 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۵۸۔
↑8 نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبة للنعمانی، ج۱،ص۱۸۹۔
↑9 طوسی، محمد بن حسن، الغیبة للطوسی، ج۱، ص۵۲۔
↑10 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، ج۱، ص۴۵۔
↑11 احمد بن حنبل، مسند احمد، ج۱۸،ص۲۰۵۔
↑12 ابوداود، سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابی داود، ج۶،ص۳۴۱۔
↑13 ترمذی، محمدبن عیسی، سنن ترمذی، ج۴، ص۵۰۵۔
↑14 ابن ابی شیبہ، ابوبکر، مصنف ابن ابی شیبہ، ج۷،ص۵۱۲۔
↑15 طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۱۳۶۔
↑16 ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویہ، ج۴، ص۹۵۔
↑17 البانی، ناصرالدین، صحیح الجامع الصغیرو زیادتہ، ج۲، ص۹۳۸۔
↑18 ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۴، ص۷۰۔
↑19 ذہبی شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۷۲۔
↑20 صف:۱۴۔
↑21 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۵۔
↑22 دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ج۲، ص۱۷۔
↑23 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 April 22 ، 14:30
عون نقوی

«دروس شرح الکافی»

تدریس: آیت الله رضا عابدینی

تدوین: عون نقوی(درس۸)

زمانہ غیبت میں امام کا دیدار

گزشتہ دروس میں ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ زمانہ غیبت تمام زمانوں سے افضل زمانہ ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پرہمیں لگتا ہے کہ ہم امام کو نہیں دیکھ سکتے اس لیے زمانہ محرومیت کا زمانہ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہم اپنے زمانے کے امام کو نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نا ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ جبکہ امام کا کسی زمانے میں ظاہر ہونا بہت بڑی سعادت ہے جس سے ہم لوگ محروم ہیں۔ یقینا کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ ہم سب امام کو دیکھنے کےمشتاق ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زیارت کریں۔ لیکن ان سب محرومیتوں کے باوجود کہا گیا ہے کہ زمانہ غیبت میں جہاں آپ کو محرومیت ہے وہیں نظام روحی کے ذریعے ابصار باطنی سے آپ امام سے ارتباط برقرار رکھ سکتے ہیں۔ غیبت کو اللہ تعالی نے اسی لیے قرار دیا کہ مومنین اپنی باطنی آنکھوں کو روشن کریں اور ان سے قلبی ارتباط برقرار کریں ،اس دیدار کی اہمیت اور فضیلت ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سے زیادہ ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ایک طرف سے محرومیت قرار دی ہے تو دوسری طرف سے اس تلافی کا مکمل طور پر ہمیں موقع فراہم کیاہے۔ اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر آج کے دور میں امام ہوتے تو میں زیادہ با استعداد ہوتا، بلکہ فرمایا گیا ہے کہ آج بھی راستہ کھلا ہے۔ اگر ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی محرومیت ہے تو وہیں قلبی ارتباط کا امکان ہے،اور یقینا یہ دیدار بالا تر درجے کی رُؤیت ہے۔

ہم محروم ہیں یا نہیں؟

لیکن یہاں پر کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آج کے دور کا منتظر جو امیرالمومنینؑ کے دور میں بھی نہیں تھا اور ممکن ہے زمانہ ظہور میں بھی زندہ نہ ہو، یہ محروم نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ جن لوگوں نے امیرالمومنینؑ کے دور کو پایا، ان کا ساتھ دیا اور بصیرت سے ان کے ساتھ حق پر ڈٹے رہے یقینا ان کا بہت مقام ہے ،آج کا انسان اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا،کیا یہ نعمت صرف اس دور کے لوگوں کے ساتھ خاص تھی اور ہم اس نعمت سے محروم ہیں؟ زمانے کے لحاظ سے تو نا ہم رسول اللہ ﷺ کی ہمراہی کر سکے ہیں اور نا کسی اور امام معصومؑ کی۔ بشر ہونے کی جہت سے تو ہم میں اور آئمہ معصومینؑ کے زمانے کے بشر میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں پر ہماری استعداد کا کیا بنے گا جو نکھر نہیں سکی؟ اس کے جواب میں مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم زمانے کو معیار قرار دیں تو ایسا ہی ہے کہ ہم محروم ہیں۔

لیکن اگر ہم بدن کو انسانی وجود کا ایک مرتبہ قرار دیں، ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ انسانی وجود کے تمام مراتب کے لیے تعین اور حجاب نہیں بلکہ انسان کے روحی نظام کے لیے نا تو کوئی زمانہ حائل بنتا ہے اور نا ہی مکان۔ اس صورت میں ہم محروم نہیں کہلائیں گے۔ کیونکہ ہماری روح اگرچہ بدن کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن خود بدن میں نہیں ہے۔ اگر بدن میں ہوتی تو بدن میں مقید ہوتی، ممکن ہے خود میں اپنی روح کو بدن میں مقید کر لوں اور یہ اعتقاد بنا لوں کہ میں یہی بدن ہوں اور روح وغیرہ کچھ نہیں، اس طرح تمام زمان اور مکان سے بالاتر روحی کمالات سے بھی محروم ہو جاؤں گا۔ لیکن خود انسان کی روح کی حقیقت اس سے جدا ہے۔ دین نے انسان کو بہت وسعت دی ہے اس کو درک کرنا ہوگا کیونکہ عدم ادراک باعث بنتا ہے کہ ہم حسرت کریں کہ امیرالمومنینؑ کے ہمراہ نہیں تھے، جبکہ یہ حسرت فعلیت میں بھی بدل سکتی ہے۔

انسان کی استعداد اور اس کی فعلیت

انسان کی تمام استعدادیں فعلیت کے مرحلے تک پہنچ سکتی ہیں، چاہے امام ظاہر ہو یا غائب،ایک تنہا مومن ہو یا چاہےمومنین کا ایک جمع۔ اس طرح سے نہیں کہ ہم کسی شے کو زمانی یا مکانی طور پر نہیں پا سکے تو اس کی حسرت کریں، اگرچہ حسرت ہے لیکن ایسی حسرت نہیں ہے جو حاصل نہ ہو سکے۔ کیونکہ خود حسرت بھی  ایک عمل ہے۔ حسرت انسان کے روحی نظام کو فعلیت عطا کرتی ہے۔ اگر یہ نگاہ انسان کے اندر پیدا ہو جاۓ تو وہ ہر دور کے انسان اور ہر جگہ پر رہنے والے انسان کے کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا امکان دیکھتا ہے۔ راستہ کھلا ہے جو بھی اس راہ کا راہی بننا چاہے آ سکتا ہے۔ رجعت کی بحث بھی اسی بحث کے ذیل میں آتی ہے۔ رجعت کو کامل اور تبیین یہی بحث کرتی ہے۔ اگرچہ رجعت میں کہا گیا ہے کہ وہاں محض ایمان اور محض کفر کی رجعت ہے لیکن اس بحث میں ہم اس امر کو ہر انسان میں سرایت دے رہے ہیں۔ ہم مادی طور پر بھی اس کا شاہد لا سکتے ہیں۔ مثلا جب کسی انسان کی ایک حس کام کرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی دیگر حسیں زیادہ قوی ہو جاتی ہیں اور اس طرح ایک مقدار تک جبران ہو جاتا ہے۔ لیکن  ہماری محرومیت کا جواب کیا ہے؟ اور ہم محروم کیسے نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب امامؑ دیتے ہیں۔

مستتر امام کے مراتب

ہم نے گزشتہ درس میں روایت کو ملاحظہ کیا تھا جس میں امام فرماتے ہیں:

«الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِیُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَحْیَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَیُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِی السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِی ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الظَّاهِرِ».

ترجمہ:عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [1]

واضح رہے کہ خود امام کے مستتر ہونے کے بھی مراتب ہیں۔ جس طرح ظالم حکومتوں کو ظلم کی مقدار کی جہت سے ہم مراتب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔مثلا  ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ظالم حکومت کا مکمل طور پر تسلط ہے اور مومنین شدید تقیہ کی حالت میں ہیں، لیکن بعض دفعہ ایسا ہے کہ ظالم حکومت موجود ہے لیکن اسے خود اپنی پڑی ہوئی ہے۔ مومنین اگر کوئی فعلیت انجام دیتے ہیں تو اگر حکومت کو ان کاموں سے کوئی خطرہ نہیں تو وہ بھی ان کاموں سے حساس نہیں ہوتی۔ اگرچہ خود مومنین اور حق کے امام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی جبت، اور طاغوت کی حکومت میں اپنے کام سے کام رکھیں کیونکہ اللہ کی زمین پر قانون گذاری اور حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ کسی بھی غیر الہی قانون کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ کہ تقیہ کی حالت ہو۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام کے مستتر ہونے کا دورصرف زمانہ غیبت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ بقیہ گیارہ آئمہ معصومینؑ کے ادوار کو بھی شامل ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ کا دور کہ اس دور میں بھی افراد ان کو امام ہونے کی حیثیت سے نہیں جانتے تھے۔ ان کو بقیہ خلفاء کی طرح ایک خلیفہ و حکمران سمجھتے تھے۔ خود امیرالمومنینؑ کی امامت مستتر تھی۔ بہت قلیل اور چند افراد ان کو اپنا امام مانتے تھے۔ یہ دور اسی طرح سے رہا یہاں تک کہ امام سجادؑ کے دور تک یہ استتار شدید تر ہوتا گیا۔ اسی طرح سے بقیہ آئمہ معصومینؑ کا دور مثلا امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کا دور، ان سب ادوار میں استتار کا مرتبہ شدید یا ضعیف ہوتا رہا۔ با الفاظ دیگر استتار ایک تشکیکی امر ہے۔ استتار کے تشکیکی ہونے  کے نتیجے میں ہمارے پاس جو احکام سامنے آتے ہیں وہ بھی تشکیکی ہونگے۔ ہر دور میں استتار کا جبران بھی تشکیکی ہوگا۔

سخت حالات میں عبادت کی افضلیت

راوی نے امام سے سوال کیا کہ باطل کی حکومت میں جب امام مستتر ہیں، اس دور میں چھپ کر کی جانے والی عبادت افضل ہے یا حق کے امام کی حکومت میں جب امام ظاہر ہیں علنى عبادت افضل ہے؟اگرچہ حق کے امام کی حکومت اور ظاہر ی امام کا اپنے اوج کو پہنچا ہوا مرتبہ ہمیں صرف زمانہ ظہور میں دیکھنے کو ملے گا۔تاہم  حق کی حکومت کا ایک مرتبہ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، ظاہری طور پر خفاء نہیں تھا مگر یہ کہ بعض مقامات پر خود امام صلاح نہیں سمجھتے تھے۔

بہرحال کونسی عبادت افضل ہے؟ اس افضلیت کی اساس اور  معیار کیا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں مومنین کی استعداد یں زیادہ نکھر کے سامنے آتی ہیں، اس زمانے کی عبادت زیادہ افضل ہوگی۔ اگر اس روایت کے ظاہر کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے امام کسی زمانے کی افضلیت کو بیان کرنے چاہ رہے ہیں لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بتانا چاہتے ہیں کہ حالات کا تنگ ہو جانا اور شدید ترین حکومتی دباؤ اور مسائل مومن کی راہ کو بند نہیں کر سکتے۔ وہ ان حالات سے بھی نکل سکتا ہے۔ اس لیے امام افضلیت کو سخت ترین دور میں قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پرسکون حالات میں استعداد فعلیت کو نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن واضح رہے جہاں مومن کے لیے حالات سخت ہو جائیں اس کے لیے موانع نہ صرف مانع نہیں بنتے بلکہ اس کے اندر کمال اور استعداد کے مواقع کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ اس نگاہ کو اگر مومن اپنے اندر پیدا کر لے تو دشمن مجبور اور لاچار ہو کر رہ جاۓگا۔ کیونکہ اس کے پاس اب کوئی مومن کو شکست دینے کا راہ حل نہیں ہے ۔ حتی مومن کو زیر زمین زندان میں بند کر دیں وہاں بھی وہ سوچے گا کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے یہی تکلیف معین فرمائی ہے۔

دینی نکتہ نظر سے ایک مومن چاہے وہ جس دور یا جس جگہ کا بھی ہو اس کے لیے اللہ تعالی کا قانون یکساں ہے۔ وہ شخص جو کال کوٹھڑی میں قید ہے اور وہ شخص جو منظر عام پر تمام افراد کی طرح معمولی زندگی بسر کر رہا ہے ہر دو کے لیے اس الہی قانون گذاری کے مطابق کمال تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہے۔ کوئی بھی امر اس کے لیے مانع نہیں بن سکتا۔ دشمن جتنا بھی آپ کو مقید کر لے زیادہ سے زیادہ آپ کے بدن کو قید کر سکتا ہے لیکن کیا آپ کی روح کو بھی قید کر سکتا ہے؟ روح کو قید کرنا دشمن کے بس سے باہر ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جب فرعون نے جادوگروں کو کہا کہ موسیؑ کے معجزے کا انکار کرو ورنہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دونگا تو انہوں نے کہا:

«قَالُوا لَا ضَیْرَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ».

ترجمہ: وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب کے حضور لوٹ جائیں گے۔[2]

انہوں نے کہا کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچا سکو۔ ان جادوگروں کا فہم و بصیرت کے اس درجہ تک پہنچ جانا کوئی معمولی مرتبہ نہیں۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تو کیا کر لے گا؟ ہمارے بدنوں کو شکنجہ کرے گا یا اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا، یہ بدن تو آج یا کل ویسے بھی مر جانے ہیں لیکن تو ہماری روح و روان کو ختم نہیں کر سکتا۔

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«وَ اللَّهِ عِبَادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إِمَامِکُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ». 

ترجمہ:خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔

امام فرماتے ہیں کہ باطل کی حکومت میں جو مومنین کو خوف لاحق ہوتا ہے وہ بھی عبادت ہے۔ اگر مومن حق کا مطیع ہے تو اس کا حق کی اطاعت میں رہنا، ظاہری عبادات انجام دینا یا حتی کسب معاش کرنا اور روابط بھی عبادت شمار ہونگے۔

حدیث معراجیہ میں وارد ہوا ہے کہ اگر عبادات کو دس حصوں میں تقسیم کریں تو اس کے نو حصے کسب حلال کو شامل ہیں۔[3] ایک عبادت کا تصور ہم لوگ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف نماز پڑھنا اور روزے رکھنایا  تلاوت کرنا عبادت ہے جبکہ دین نے عبادت کے ۱۰ حصوں میں سے ۹ حصے کسب حلال میں قرار دیے ہیں۔ کیونکہ عبادت کا مغز اطاعت الہی ہے۔ اگر اطاعت الہی میں رہتے ہوۓ باطل کی حکومت میں کسب حلال کرتے ہیں ،بہت سخت ہے لیکن یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔

نظام الہی میں موانع اور مواقع

اللہ تعالی نے اس عالم کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ کہ دشمن کی جانب سے پیش آنے والی محدودیت اور موانع، یا حتی طبیعی موانع بھی اس سیر کی حرکت کو روک نہیں سکتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بہتے ہوۓ پانی کے سامنے ڈیم آ جاۓ، ڈیم جب لبریز ہو جاۓ گا پانی پھر سے اپنے راہ کو پا لے گا۔ یہ قانون الہی ہم عالم طبیعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے ہی مانع وجود میں آیا دیر نہیں لگتی کہ اسے راہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی متعدد راستے نکال کر دے دیتا ہے۔

اس روایت میں لفظ «تَخَوُّفُکُمْ» وارد ہوا ہے۔ خود خوف مانع نہیں ہے بلکہ راہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ خوف اور دبدبہ ایجاد کر کے مانع ایجاد کرے لیکن خدا کہتا ہے کہ میں اسی مانع کو راہ بنا دونگا۔ بہت خوبصورت بیان ہے۔ حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کے سامنے دریا موجود تھا، پیچھے فرعون اور اس کا لشکر، خدا نے اسی مانع(دریا) کو راہ بنا دیا۔ وہ آگ جسے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو جلانے اور مارنے کے لیے بھڑکایا خدا نے اسی آگ کو ان کے لیے کامیابی اور فتح کا باعث بنا دیا۔ وہ جادوگر جو فرعون نے حضرت موسیؑ کا راستہ روکنے کے لیے مانع کے طور پر مدعو کیے تھے، اللہ تعالی نے انہیں جادوگروں کو ہدایت دی اور حضرت موسیؑ کی فتح کا ذریعہ بنا دیا۔

جو مانع ہے وہی راہ کا ذریعہ

اگر اس طرح کی دینی نگاہ ہمارے وجود میں پیدا ہو جاۓ کبھی سلوک الی اللہ میں مانع نہیں پائیں گے۔ ہر ظاہری رکاوٹ ہمیں راستے کی نشانی لگنے لگے گی۔ اگر یوسفؑ کو کنویں میں ڈالا گیا تو وہی کنواں ان کے عزیز مصر بننے کی راہ بنا۔ جن بھائیوں نے حضرت یوسفؑ کو نابود کرنا چاہا وہی باعث بنے کہ یوسفؑ مصر کی نجات کا باعث بن جائیں۔ جس طرف بھی آپ حوادث کی طرف غور کریں یہی سنت الہی آپ کو نظر آۓ گی۔ غیبت میں بھی یہی سنت حاکم ہے۔کلی طور پر  ہر حکم الہی میں یہی سنت حاکم ہے۔  اللہ تعالی کا ہر کلی یا جزئی حکم جو ہم پر نازل ہوا ہے اس کے لیے مانع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی ان موانع پر قاہر ہے اور یہ سب مقہور ہیں۔ نا صرف مقہور ہیں بلکہ اس کے آگے مسخر ہیں۔ آگ اور دریا جو دو نبیوں کے لیے مانع بن رہے تھے نا صرف مانع نہ بن سکے بلکہ مسخر ہو کر ان انبیاء کی فتح و کامرانی کا باعث بنے۔ وہی آگ تھی جس نے حضرت ابراہیمؑ کو نجات دی اور وہی دریا تھا جس نے حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کو راستہ دیا۔

انسان کی زندگی میں جتنے بھی حوادث اور واقعات پیش آتے ہیں ظاہری طور پر مانع نظر آتے ہیں۔ لیکن وہی موانع اللہ تعالی نے راہ قرار دیے ہیں۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا».

ترجمہ: البتہ مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔[4]

«فَإِنَّ بعدَ الْعُسْرِ یُسْرًا» وارد نہیں ہوا کہ کوئی کہے عُسر کے بعد یُسر ہوگی۔بلکہ عُسر ،یُسر کے ہمراہ ہے۔ دو زاویوں سے اس مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بدن کی جہت سے دیکھیں تو ممکن ہےعُسر ہو۔ لیکن روح کی جہت سے یُسر ہو۔ لہذا حضرت ایوبؑ کو جن تکلیفوں سے آزمایا گیا وہ تکالیف ان کے لیے گشائش کا سبب بنیں۔ یا حضرت موسیؑ کا قبطی کو قتل کے بعد فرار کرنا اور مشکلات میں پڑنا ہی باعث بنا کہ وہ حضرت شعیبؑ کے پاس جائیں اور وہاں رسالت جیسی عظیم  ماموریت کے لیے تیار ہو سکیں۔ وہی فرار ان کے لیے راہ بن گیا۔ اگر زندگی کے تمام واقعات کو اس الہی منظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جن ظاہری موانع کو ہم اپنی زندگی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں وہی ہمارے کمال کا باعث ہیں۔ تاہم جیسا کہ بیان ہوا دو متفاوت نگاہیں ہیں۔ ایک دفعہ انسان اور خدا کے درمیان رابطے کے ایجاد ہونے کی جہت سے دیکھتے ہیں، اور ایک دفعہ بدن کے اس جہان سے ارتباط کی جہت سے دیکھتے ہیں۔ اگر بدن کے اس جہان کے ارتباط کی جہت سے دیکھیں تو حتی خوشی اور سکون بھی مانع ہے۔ لیکن اگر پہلی نگاہ کو اختیار کریں تو جن کو ہم بدترین مانع قرار دے رہے ہیں وہ راہ ہیں اور مواقع ہیں۔ یہ نگاہ کنویں کی تاریک فضا میں بھی یوسفؑ کے لیے گشائش قرار پاتی ہے۔ بالالفاظ دیگر ایک منظر الہی ہے اور ایک منظر بدنی۔ بدنی نگاہ یا بشری تقاضوں کے مطابق دیکھیں تو ناامیدی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر حوادث کو منظر الہی سے  دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے اس کی ذات ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔

«إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَهْدِینِ».

ترجمہ: میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔[5]

یہ نگاہ انبیاء کو حاصل ہوتی ہے جب بھی وہ موانع کو دیکھتے ہیں اسی موانع میں راہ نجات بھی دیکھ لیتے ہیں۔جہاں ہمارے حساب کتاب اور ہوتے ہیں خدا کا منصوبہ کچھ اور ہوتا ہے۔الله تعالی اپنے اولیاء کے امور کو بعض اوقات صرف ایک رات جیسے معمولی زمان میں درست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ  حضرت موسیؑ کو ایک رات میں رسالت عطا ہوگئی۔ روایت میں واردہوا ہے:

«وَ إِنَّ اَللَّهَ لَیُصْلِحُ أَمْرَهُ فِی لَیْلَةٍ کَمَا أَصْلَحَ أَمْرَ کَلِیمِهِ مُوسَى عَلَیْهِ السَّلاَمُ».

ترجمہ: اور بے شک اللہ تعالی اپنے امر (ظہور کے مقدمات) کو ایک ہی رات میں درست کرے گا جس طرح اس نے موسیؑ کے امر کی ایک رات میں اصلاح کی۔[6]

جیسا کہ امام جعفر صادقؑ کا فرمان مبارک ہے:

«کُنْ لِمَا لَا تَرْجُو أَرْجَى مِنْکَ».

ترجمہ: جس چیز میں تمہیں کوئی امید نہ ہو  اس میں زیادہ پر امید رہو۔[7]

پس جہاں بھی ناامیدی شدید ہو جاۓ، زیادہ پر امید ہو جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں جب دوسرے عوامل اور اسباب کو کم دیکھ رہے ہیں اور موانع زیادہ، وہاں ہم رجاء کو بڑھا لیں، یہ نگاہ پیدا کرنا ضروری ہے۔

منابع:

 

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑2 شعراء:۵۰۔
↑3 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۳،ص۹۔
↑4 شرح:۵۔
↑5 شعراء:۶۲۔
↑6 راوندی، قطب الدین، الخرائج والجرائح،ج۳،ص۱۱۷۱۔
↑7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۸۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 April 22 ، 14:19
عون نقوی

کتاب: ولایت فقیه آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی (قسط ۳۰)

 

ہم نے گزشتہ قسط میں بیان کیا کہ اسلامی نکتہ نظر سے اکثریت یا اقلیت حاکمیت کے انتخاب میں معیار نہیں۔اور اسی سے اسلامی تفکر اور مغربی تفکر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اسلام کا شعار حق ہے جبکہ مغربی تفکر کا شعار اکثریت ہے۔ اسلام کے مطابق حق کو اگر اقلیت مانے اور اکثریت نہ مانے تب بھی حق، حق ہے۔ اور باطل کو چاہے اکثریت مان لے اور اقلیت نہ مانے تب  بھی  باطل، باطل ہی رہے گا۔ برخلاف مغربی تفکر کے کہ وہاں اکثریت جس امر کو مان لے اسی کو حق تصور کر لیا جاتا ہے۔

اکثریت کی ذمہ داری

اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسلمانوں کا معاشرہ پہلے آۓ اور شناختِ حق حاصل کرے۔ آپ نے اقلیت اور اکثریت کو نہیں دیکھنا کہ وہ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ حق کیا ہے؟اسلام میں حق ثابت ہے متغیر نہیں ہے۔ مغربی تفکر کے مطابق حق ثابت بھی نہیں ہے اور متغیر بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ممکن ہے آج کوئی چیز اچھی ہو لیکن بعد میں بری ہو جاۓ، یا ممکن ہے کوئی بات آج صحیح لگ رہی ہے کل بدل کر بری بن جاۓ۔ مثلا ایک دور تھا جب ہمجنس بازی مغرب میں درست شمار نہیں ہوتی تھی اور آج اسی کو قانونی شکل دی جارہی ہے۔ معلوم ہوا ان کے ہاں حق وہ ہے جس کو وہ مان لیں۔جبکہ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ جو چیز حق ہے وہ قیامت تک حق ہی رہے گی۔ جیسا کہ رہبر معظم کی کتاب ۲۵۰ سالہ انسان ہے۔ رہبر معظم نے آئمہ معصومینؑ کی ۲۵۰ سالہ زندگی کو ایک ایسے انسان کی زندگی سے تشبیہ دی ہے جس نے ۲۵۰ سال عمر کی ہے۔ ایک ہی انسان ہے لیکن کبھی امیرالمومنینؑ کی شکل میں جنگ کر رہا ہے اور کبھی امام حسنؑ کی شکل میں صلح، کبھی امام حسینؑ کی شکل میں قیام کر رہا ہے اور کبھی امام صادقؑ کی شکل میں درس و تدریس۔ اور یہی انسان امام مہدیؑ کی شکل میں غیبت میں چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر امام مہدیؑ ، امیرالمومنینؑ کے دور میں ہوتے تو وہی کام کرتے جو امیرالمومنینؑ نے کیا۔ اور اگر امیرالمومنینؑ ، امام مہدیؑ کے زمانے میں ہوتے تو غیبت اختیار کر تے۔ تمام آئمہ معصومینؑ کی شخصیت ثابت ہے متغیر نہیں، یعنی ایسا نہیں کہ کسی امام کا مزاج اور شخصیت صلح جو تھی تو اس نے صلح کی اور دوسرے امام کا مزاج انقلابی و جنگی تھا تو انہوں نے جنگ کی ہو،حق ثابت ہے متغیر نہیں۔اکثریت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئیں اس حق کو پہچانیں اور جب پہچان لیں اس پر عمل کریں۔

حق کا منجانب اللہ ہونا

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«الحَقُّ مِنْ رَبِّک».

ترجمہ: حق صرف وہی ہے جو آپ کے رب کی طرف سے ہو۔[1]

حق کو اقلیت اور اکثریت وجود میں نہیں لاتے بلکہ حق پہلے سے موجود ہے اکثریت نے جا کر صرف اس کو لینا ہے۔حق رب کی طرف سے ہے اور وہ وحی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ وحی کےعلاوہ اور کوئی امر حق نہیں ہو سکتا۔ ہم آئمہ معصومینؑ کی حقانیت پر سب سے پہلی دلیل جو لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سب معصوم ہیں اور صرف وحی کی بات کرتے ہیں۔ جو صرف وحی کی بات کرتا ہے صرف وہی رہبر ہو سکتا ہے۔جو وحی ہے وہی حق ہے چونکہ وحی رب کی طرف سے ہے اس لیے حق ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَریمٍ».

ترجمہ: کہ یقینا یہ (قرآن) معزز فرستادہ کا قول ہے۔[2]

« وَ ما هُوَ بِقَوْلِ شاعِرٍ».

ترجمہ:اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔[3]

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہوا:

« وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحى».

ترجمہ:وہ خواہش سے نہیں بولتا۔یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔[4]

رسول اللہ ﷺکی ہر بات الہی بات ہے۔ جو کچھ بھی رسول اللہﷺبیان فرماتے ہیں وہ ہواۓ نفس نہیں ہوتا بلکہ رب کی بات ہوتی ہے۔

ایک اور آیت کریمہ میں اس طرح سے وارد ہوا ہے:

« تَنْزِیلٌ مِنْ رَبِّ الْعالَمِینَ».

ترجمہ:یہ عالمین کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔[5][6]

حکومت اسلامی کا ایک نام حکومت وحی ہے۔ کیونکہ حکومت اسلامی خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کا آغاز وحی ہے۔ اس کا قانون وحی ہے۔ لوگوں کا وظیفہ اس وحی کی اتباع ہے۔

مغرب کا حق کو ایجاد کرنا

مغربی تفکر یہ ہے کہ حق پہلے سے موجود نہیں ہے اور یہ تفکر کسی وحی کو نہیں مانتا۔ اس لیے حق کوخود ایجاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس کو اکثریت مان لے وہی حق بن جاتا ہے۔ مثلا اگر ایک معاشرہ میں پہلے حجاب رائج تھا اور اب برہنہ ہونا چاہتا ہے تو کہیں گے کہ اگر اکثریت برہنہ ہونا چاہتی ہے تو یہی حق ہے۔ لذا اب حجاب کو غیر قانونی بنا رہے ہیں۔ اس سےملتا جلتا نظریہ اہل سنت کے ہاں بھی موجود ہے۔ اہل سنت اجماع کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر علماء اہل سنت کسی بات پر اجماع کر لیں تو وہ بات حق بن جاتی ہے۔ مثلا اہل سنت علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ سب صحابہ عادل ہیں۔ اس کے بر عکس اہل تشیع کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں سب کے سب علماء بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ علماء کا ایک بات پر اجماع کرلینا حجت نہیں ہے۔بلکہ ضروری ہے کہ وہ حق بات پر اجماع کریں اگر حق معیار نہیں ہے تو چاہے لاکھوں علماء بھی اجماع کرلیں وہ بات درست نہیں ہو سکتی۔

حکومت اسلامی کا قیام

اگر ایک معاشرے کی اکثریت حق کی شناخت حاصل کر لے او ر اس پر عمل کرے تو حکومت اسلامی تشکیل پاتی ہے۔ جب تک معاشرہ خود آ کر حق کی شناخت نہیں کرتا اور اپنے اختیار سے اس پر عمل نہیں کرتا حکومت اسلامی نہیں بن سکتی۔ یہ لوگ ہیں جو حکومت بناتے ہیں اور قانون پر عمل کرتے ہیں۔ جب تک لوگ خود الہی حاکم کو آ کر قبول نہیں کرتے وہ الہی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خود حاکم کے انتخاب میں لوگ عمل دخل نہیں رکھتے ، اس کا انتخاب خدا نے کرنا ہے لیکن وہ زبردستی عوام پر حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ حتی امیرالمومنینؑ نے بھی جبری حکومت قائم نہیں کی۔ عوام کی اکثریت نے ان کو بطور حاکم مانا اپنے اختیار سے، تب جا کر امام نے حکومت قبول فرمائی۔ الہی قانون کے نفاذ میں بھی یہی صورت ہے خود عوام اپنے اختیار سے الہی قانون کو مانے اور خود پر لاگو کرے، جب امیرالمومنینؑ نے الہی فرامین ان لوگوں پر جاری کیے تو انہوں نے ماننے سے انکا رکر دیا، اور یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فدک واپس کیوں نہ لیا۔اگر انہوں نے فدک تلوار کے زور پر لینا تھا تو اسی وقت لے لیتے جب غصب ہوا تھا ،لیکن زور زبردستی لینا مقصد نہیں تھا، یا اسی طرح سے جب امیرالمومنینؑ نے تراویح کی بدعت کو ختم کرنا چاہا تو کوفہ کی مسجد میں’’واعمراہ  واعمراہ‘‘ کی صدائیں بلند ہو گئیں۔ اگر چاہتے تو فوجی بھیج کر اس بدعت کا خاتمہ کر دیتے لیکن یہ امام کی روش نہیں، زور زبردستی تلوار کے زور پر قانون منوانا ڈکٹیٹروں کی سنت ہے امام کی نہیں۔

اکثریت پر دو نظریات

اکثریت کے بارے میں ایک نظر یہ ہے کہ اجراء عمل کے مقام پر اکثریت کے مؤقف کو محترم سمجھا جاۓ گا۔ شناختِ حق اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے بھی اکثریت کی نظر معتبر ہے۔ جب تک اکثریت خود حق کی شناخت نہیں کر لیتی اور اپنے اختیار سے اس پر عمل نہیں کرتی ان پر حق زبردستی مسلط نہیں کیا جاۓ گا۔لیکن حق کو ایجاد کرنے اورخود سے ایجاد شدہ حق معاشرے پر مسلط کرنے کا حق ، اکثریت کو حاصل نہیں۔ اس کے برعکس مغربی تفکر ہے جو اکثریت کو حق کے ایجاد کرنے کا حق دیتا ہے جس کی تفصیل گزشتہ اقساط میں گزری ہے۔ [7]

 

 


منابع:

 

↑1 بقرہ:۱۴۷۔
↑2 تکویر:۱۹۔
↑3 حاقہ:۴۱۔
↑4 نجم:۳تا۴۔
↑5 واقعہ:۸۰۔
↑6 حاقہ:۴۳۔
↑7 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 April 22 ، 17:35
عون نقوی