بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

{دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۵}

مختلف دور کی حکومتیں اور تشیع

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

پچھلی قسط میں ہم نے جانا کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق حق حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ حق حاکمیت اپنی تبع میں رسول اللہﷺ اور ان کے بارہ معصوم اوصیاء کو عطا کیا ہے۔ حاکم کا معصوم ہونا ضروری ہے اگر کوئی حاکم معصوم نہ ہو تو وہ الہی حاکم نہیں ہو سکتا۔ مادی طور پر دیکھا جاۓ تو حاکم طبقہ سب چیزوں پر حاوی ہوتا ہے، یہ شخص اگر معصوم ہو تو سب چیزیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اگر معصوم نہ ہو تو معاشرے میں ہرج مرج لازم آتا ہے۔ حاکم طبقہ افراد پر مسلط ہو جاتا ہے اور ان کا حق سمیٹ لیتا ہے اور ہر شے کو اپنے لیے قرار دیتا ہے۔ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے اللہ تعالی نے ضروری قرار دیا ہے کہ معاشروں پر صرف وہی شخص حاکم بنے جو معصوم ہو۔

حاکم کو کیسے کنٹرول کیا جاۓ؟

ماضی سے لے کر آج تک پولیٹیکل سائنس کا اہم ترین موضوع جو سب سے زیادہ زیر بحث رہا ہے ’’موازنہ قوا ‘‘ہے۔ موازنہ قوا یعنی طاقت اور قوت کا توازن کیسے برقرار رکھا جاۓ؟ایک حاکم جب تمام قدرت کے ساتھ ایک معاشرے پر مسلط ہو جاتا ہے اس کو کنٹرول کیسے کیا جاۓ؟ زمانہ ماضی میں بادشاہ ہوا کرتے تھے وہ عام لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا رویہ رکھتے، ان سے سارا دن کام لیتے اور سرکاری خزانہ بھرتے، جنگوں میں بھی انہیں عام لوگوں کو دھکیلا جاتا اور حاکم طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا۔ آج بھی پوری دنیا میں یہی مسئلہ ہے مثلا مغربی دنیا ہے، امریکہ جو خود کو سپر پاور سمجھتا ہے اور ملکوں پر چڑھائی اور ان کے اموال اور خزانے لوٹنا اپنا حق سمجھتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ موازنہ قوا یعنی ایک قدرت کو کیسے کنٹرول کریں؟ مقتدر بادشاہ، طاقتور ادارے یا کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک پر چڑھائی سے کیسے روکیں؟ یہ وہ بحث ہے جس پر بہت سے نظریات موجود ہیں، مسلمان مفکرین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن ان سب میں ہمارا موضوع اس سلسلے میں آئمہ معصومینؑ کا مؤقف ہے۔

مکتب تشیع بطور سیاسی تفکر

شیعہ وہ گروہ ہے جو ایک سیاسی مسئلے پر دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کی بنا پر اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ اور وہ سیاسی مسئلہ یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت کا حکمران کون ہوگا؟ کیا مسلمانوں نے خود اپنا حکمران بنانا ہے یا اس مسئلے کو رسول اللہﷺ خود حل کر کے گئے ہیں؟ یہ وہ سیاسی مسئلہ تھا جو بعد میں اور حتی آج تک عقائدی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ تشیع کی اساس ہی اسی سیاسی مسئلے کی بنا پر تھی۔ تشیع شروع سے ہی ایک سیاسی تفکر رکھتا تھا اور وہ تفکر یہ تھا کہ امت کا حکمران صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حاکم انتخابی نہیں ہو سکتا بلکہ انتصابی ہوگا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل تھا کہ دین میں کوئی بھی چیز انتخابی نہیں، اور امت پر حکمرانی کا مسئلہ جو کہ اساسی ترین مسئلہ تھا کہ جس کی دلیل یہ ہے کہ آج تک امت مسلمہ اس مسئلے پر دو گروہوں میں بٹ گئی، یہ وہ مسئلہ تھا جس میں تشیع نے اپنا راستہ تمام اسلامی فرقہ جات سے جدا رکھا اور یہی وہ تفکر تھا جس کی بنا پر تشیع کی تاریخ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک سرخ ہے۔

تشیع کی سیاسی فکر اور حکمران

جیسا کہ بیان ہوا کہ جیسے ہی ثقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کا انتخاب ہوا وہیں سے امت مسلمہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے آرام سے جا کر خلیفہ اول کے انتخاب کو قبول کر لیا اور بیعت کر لی۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس نے کہا کہ خلافت انتخابی نہیں، یہ وہ مسئلہ ہے ہی نہیں جسے امت کے انتخاب پر چھوڑ دیا جاۓ بلکہ یہ مسئلہ تو انتصابی ہے اور امیرالمومنینؑ پہلے سے ہی امت پر نصب شدہ ہیں۔ اس سیاسی تفکر کا اٹھنا تھا کہ حکومت نے بلا تفریق سب سیاسی مخالفین کو سرکوب کرنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلی قربانی بنت رسول حضرت فاطمہ زہراؑ نے پیش کی۔ اور خلیفہ کے دربار میں حقیقی دین اور اس کا نظام متعارف کیا، لیکن امت نے ساتھ نہ دیا۔ [1][2][3][4][5][6]بی بی کی غم انگیز شہادت کے بعد یہ سیاسی اختلاف ختم نہ ہوا بلکہ اور بڑھ گیا، اہلبیتؑ کا معاشرے نے بائیکاٹ شروع کیا، یہاں تک کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت آئی۔ فتنوں کا شکار امیرالمومنینؑ کی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل سکی، پہلے امام کو شہید کر دیا گیا، دوسرے امام جب تک حالات ان کے اختیار میں تھے جنگ کرتے رہے لیکن ان کو بھی صلح پر مجبور کر کے بعد میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہوا کہ امت کے حقیقی امام نے امت کو ظالم حاکم کے خلاف جنگ کرنے پر بلایا لیکن امت کربلا نہ آئی اور امام حسینؑ بھی بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ کربلا کے بعد تشیع کے اس سیاسی تفکر اور شیعہ کو بہت شدت کے ساتھ کچلا گیا اور آج تک کچلا جا رہا ہے۔ یہ کہانی کسی ایک سال یا دو سال کی نہیں بلکہ صدیوں سے تشیع اس سیاسی تفکر پر کچلا جا رہا ہے۔

حکومت مخالف تحریک کا مطلب

ان حالات پر اگر دقت کی جاۓ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک ریاست میں حکمران کے خلاف تحریک چلتی ہے تو ہوتا کیا ہے؟ حکومتی عسکری طاقتیں اکشن میں آجاتی ہیں، سیاسی تحریک کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلا تحریک کے بڑے بڑے افراد کو قتل کروا دیا جاتا ہے، اگر قتل کرونے میں حکومت کامیاب نہ ہو سکے تو یا تو تحریک کے لیڈران کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے یا جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، چھوٹے کارکنوں کو بھی جیلوں میں یا فتنہ انگیزی کے جرم میں قتل کروا دیا جاتا ہے۔ یہ حال تشیع کے ساتھ رہا ہے۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ شہید ہوۓ ہیں، ایسا نہیں کہ وہ کچھ کر ہی نہیں رہے تھے اور حکومتوں نے بغیر کسی وجہ کے ان کو شہید کروا دیا، اگر آئمہ معصومینؑ غیر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ نہ چاہتے ہوتے اور حق کے قیام کی بات نہ کرتے، اپنی انفرادی زندگی گزارتے تو ایک امام بھی شہید نہ ہوتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سب آئمہ معصومینؑ کو یا تو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی، جب وہ نہ ہو سکا تو اپنی زیرنگرانی رکھا گیا۔ جب حالات کنٹرول میں نہ کر سکے تو شہید کروا دیا۔

مکتب تشیع ایک سیاسی مکتب

ایک اعتراض جو تشیع پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگوں نے آج کے دور میں ان سیاسی نظریات کو خود سے گھڑا ہے، یا کہتے ہیں کہ اسلام نے سیاست اور حکومت کی تو بات ہی نہیں کی یہ تم لوگوں نے آج کے دور میں سب کچھ ایجاد کیا ہے؟ اگر تشیع کے ان نظریات کے مبانی بھی آج گھڑے جاتے تو یہ بات درست تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تشیع کے ہاں سیاسی تفکر اور اس کے مبانی صدر اسلام سے ہی پاۓ جاتے ہیں۔ یا خود ولایت فقیہ کے نظریے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو امام خمینیؒ کا ایجاد کردہ نظریہ ہے اس سے پہلے تو کسی نے بھی فقیہ کی ولایت کی بات تک نہیں کی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کم علمی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ ورنہ اگر تشیع کی تاریخ اور اس کے آئمہ کی تاریخ کو بغور مطالعہ کیا جاۓ تو تشیع کا سیاسی تفکر صراحت کے ساتھ ہمیں صدر اسلام سے میں ہی موجود نظر آتا ہے۔

نظریہ امامت بحیثیت سیاسی نظریہ

امامت، خلافت کے برعکس تشیع کا ایک سیاسی نظریہ تھا۔ شیعہ حکومتی میدان میں آئمہ معصومینؑ کو اپنا حقیقی امام (امام بمعنی حاکم) مانتے تھے۔ معنوی طور پر تو آئمہ معصومینؑ کو ولایت حاصل ہے ہی، لیکن یہاں پر بات ان کی ظاہری حکومت کی ہو رہی ہے۔ اہلسنت خلفاء کو اپنے اوپر حکمران سمجھتے تھے لیکن اس کے برعکس شیعہ اپنے نظریہ امامت کی بنا پر آئمہ معصومینؑ کو اپنا امام اور دنیوی طور پر اپنے اوپر حکمران مانتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ امامت کے نظریے کو بعد میں عقائدی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کو مناظرانہ حیثیت سے دیکھا جانے لگا جبکہ یہ ایک سیاسی نظریہ تھا اور سیاسی نظریہ ہمیشہ عملی صورت میں لاگو ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تشیع پر شدید ظلم و ستم تھا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد سب شیعہ ایک طرح سے روپوش ہوگئے۔ مثلا بی بی زینبؑ، عبداللہ بن جعفر، ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کی دیگر شخصیات مکمل طور پر ایک سائڈ پر کر دی گئیں۔ کربلا کے بعد معاشرے میں ان افراد کو اصلا ابھرنے ہی نہیں دیا گیا۔

امام زین العابدینؑ کی تشیع کو بچانے کی تدبیر

کربلا کے بعد تشیع کو شدت کے ساتھ کچل دیا گیا، دشمن کی خواہش تھی کہ آئمہ معصومینؑ کے پیروکاروں کو نیست و نابود کر دیا جاۓ۔ یہاں پر امام زین العابدینؑ نے تشیع کو بچانے کی تدبیر کی۔ اب یہاں پر علماء تشیع کے مفکرین دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک علماء کرام کا گروہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ اگر کوفہ کے شیعوں کے قیام وجود میں نہ آتے تو اسی دور میں حکومت اسلامی قائم ہو جاتی اور امام زین العابدینؑ امت کے ظاہری خلیفہ بن جاتے۔ اس کے لیے ان کی تدبیر یہ تھی کہ بنو امیہ اور آل زبیر کا آپس میں ٹکراؤ ہو، ان کے ٹکراؤ سے فائدہ تشیع کو ہوگا، بالاخر جو لشکر بھی ان میں سے کامیاب ہوتا تازہ جنگ سے فارغ ہوتا، اور ایک اور جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوتا، منصوبہ یہ تھا کہ ان دو کا ٹکراؤ ہو اور بعد میں جیتے ہوۓ لشکر سے امامت کے پیروکار امامؑ کے رکاب میں جنگ کر کے ان کو شکست دیں  اور اس طرح امامت کا نظام نافذ ہوتا۔ لیکن اس منصوبے کو کوفہ کے بعض شیعہ رہنماؤں نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ کوفہ میں اس وقت دو سیاسی شیعہ پارٹیاں موجود تھیں۔ ایک سیاسی پارٹی مختار ثقفی کی تھی اور دوسری سلیمان ابن صرد خزاعی کی۔ ان مفکرین کے بقول مختار ثقفی کے قیام نے امامؑ کے منصوبے کو نقصان پہنچایا کیونکہ مختار نے مصعب کے خلاف جنگ کر کے آل زبیر کی تو کمر توڑ دی لیکن جو اصل فائدہ ہوا وہ بنو امیہ کو ہوا۔اصلی دشمن اور حریف جو ظاہری طور پر قدرت میں بھی تھا وہ بنو امیہ تھے ۔ لیکن مختار کے قیام کے نتیجہ میں بنو امیہ کے لیے دونوں حریف (آل زبیر اور شیعہ) ہر دو کمزور ہو چکے تھے۔ اس بنا پر اسلامی حکومت قائم نہ ہو سکی۔[7] تاہم علماء کرام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مختار ثقفی کا قیام درست تھا اور اس کو امامؑ کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس پر وہ دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ امامؑ نے مختار کے لیے دعا کی کیونکہ اس نے انتقام خون امام حسینؑ لیا۔[8]

تشیع امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے دور میں

یہ وہ دور تھا جس کے لیے گزشتہ آئمہ معصومینؑ نے خصوصی طور پر آمادگی کی ہوئی تھی کہ حکومت اسلامی و نظام امامت نافذ ہو جاۓ، اس دور میں شیعوں کی آبادی بڑھ چکی تھی، امام باقرؑ و امام صادقؑ کے افکار و ان کے شاگردوں کی کتابیں عالم اسلام میں پھیل چکی تھیں۔ دوسری طرف امام کاظمؑ کا پھیلایا ہوا وکالت کا نظام جو بہت کامیاب تھا۔ اس دور میں بھی نظام امامت نافذ ہوجانا تھا لیکن اس دور کے شیعہ راز کی نگہداری نہ کر سکے۔[9] جذباتی شیعوں نے امر امامت کا راز افشاء کر دیا جس کی وجہ سے حکومتوں کی جانب سے شدید پکڑ دھکڑ ہوئی، اصحابِ آئمہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، عام شیعوں کا جینا حرام کر دیا گیا اور خود رہبر تشیع امام کاظمؑ کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ یہ دور تشیع پر سخت ترین دور تھا، ایک طرف سے اسلامی تعلیمات کو مسخ کیا جا رہا تھا، شہبات کی بھرمار اور فرہنگی و ثفافتی طور پر فحاشی بڑھ گئی۔[10] ہر دوسری جگہ پر قیام ہو رہے تھے سیاسی احزاب وجود میں آ چکی تھیں، علویوں، زیدیوں اور خوارج کے قیام سے ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اسی اثناء میں شیعہ اثناء عشری گروہ ہے جو مطیع محض امامت ہے۔ اگرچہ بہت ہی قلیل تھا لیکن موجود تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود سے کوئی حرکت نہیں کرتے تھے اگر امام کہتے کہ گھروں میں بیٹھے رہو تو بیٹھ جاتے اور اگر کہتے کہ قیام کے لیے آ جاؤ تو تیار رہتے۔ یہ نا تو عباسیوں کے نعرے میں بہکے جنہوں نے امویوں کے خلاف انتقام امام حسینؑ کا نعرہ لگایا تھا اور نا کسی دوسرے پرچم کے تلے گئے۔ ان سختیوں کا زمانہ چلتا رہا یہاں تک کہ غیبت کا دور آیا۔

مکتب تشیع غیبت کے زمانے کے بعد

ہمارے آخری اماموں کا زمانہ تشیع کے لیے سخت ترین دور ہے۔ اس دور میں آئمہ معصومینؑ ایک طرح سے سرکاری نظر بندی میں محبوس تھے اور ان کا اپنے شیعوں سے رابطہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا۔ یعنی اگر کوئی امام سے ملنے آتا تو اسے یا تو قتل کر دیا جاتا یا زندانوں میں ڈال دیا جاتا، شدید تقیہ کے دور تھا اس لیے اس دور کے اصحاب بہت سختی سے اماموں سے مل پاتے، کبھی غلام کی صورت میں خرید لیے جاتے اور کچھ عرصہ امام کی خدمت کرتے، کبھی کسی فروشندے کی شکل میں چیزیں فروخت کرنے کے بہانے امام سے ملاقات کرتے۔ یعنی اگر آئمہ معصومینؑ کی تدبیر نہ ہوتی اور خدا نے اس نور کی حفاظت نہ کی ہوتی تو اگر کوئی اور گروہ یا جماعت ہوتی تو یقینا نابود ہو جاتی۔ یہی تقیہ کا دور غیبت تک رہا، غیبت کے ابتدائی دور میں تشیع کی اساس کو بچایا گیا جس کو ختم کرنے کے لیے عباسی حکمران ایڑی چوٹی کا زور لگاۓ ہوۓ تھے۔ اس دور میں کتابیں لکھی گئیں فقاہت اور نظام مرجعیت کی اساس اسی دور میں رکھی گئی۔ 

شیخ طوسیؒ سے علامہ مجلسیؒ تک کا دور

شیخ طوسیؒ مکتب تشیع کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں جنہوں نے بہت خدمات انجام دیں۔ آپ نے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصول فقہ، رجال اور متعدد دیگر علوم میں کتابیں لکھ کر تشیع کی تراث کو محفوظ کیا۔[11] اس کے بعد آنے والے دیگر فقہاء و علماء تشیع نے اس مکتب کی حفاظت کی یہاں تک علامہ مجلسی کا دور آتا ہے۔ ان کے دور تک تشیع کے لیے کافی حد تک فضا کھل چکی تھی۔ شیعہ کی پہلی حکومت علامہ مجلسی کے دور میں بنی۔ صفوی بادشاہ مذہبی طور پر شیعہ تھے اگرچہ بادشاہی نظام کے تحت ہی انہوں نے امور مملکت کو چلایا اس لیے ہم اس حکومت کو مکتب تشیع کی حکومت یا نظام امامت قرار نہیں دے سکتے لیکن بلا شک و شبہ ایک شیعی حکومت تھی جس میں شیعہ کے لیے حالات کھل گئے۔ اسی دور میں سید علماء کے لیے کالے عمامے کا رواج پڑا، علماء کا لباس، عزاداری کے طور طریقے اور بہت سی رسومات اسی دور کی ایجاد ہیں۔ اسی دور میں دوبارہ شیعہ سیاسی تفکر بھی ابھرنے لگا، علماء تشیع نے سیاسی نظریات پر قلم اٹھانا شروع کیا، اگرچہ قلیل تھے لیکن موجود تھے ایسے علماء جو سیاسی تفکرات رکھتے تھے۔ 

علامہ مجلسیؒ سے امام خمینیؒ تک کا دور

سیاسی تفکر پر بحث مباحثہ اور تصنیفات اگرچہ علامہ مجلسی کے دور سے دوبارہ شروع ہو گئی تھیں لیکن علماء تشیع کا سیاسی میدان میں باقاعدہ طور پر ورود اس وقت شروع ہوا جب اسلامی ممالک میں انگریز استعمار کے لیے داخل ہوا۔ [12]علماء کرام نے اسلامی تفکرات اور ثقافت کو بچانے کے لیے انگریزوں کے خلاف بھرپور مقاومت کی، سیاسی تفکرات کو ابھارا گیا اور سیاسی اقدامات شروع ہوۓ۔ اس دور تک اگرچہ علماء شیعہ کی جانب سے مختلف سیاسی اقدامات کیے جا رہے تھے لیکن باقاعدہ طور پر کوئی سیاسی نظریہ موجود نہ تھا۔ یعنی کوئی سیاسی آئیڈیالوجی موجود نہ تھی جس کی بنا پر شیعہ کو اکٹھا کر کے مکتب اور اسلامی مبانی کے تحت ایک دینی حکومت قائم ہو۔ امام خمینیؒ وہ اولین شخصیت ہیں جنہوں نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت سے بحث کیا۔ وہ سیاسی تفکر جو صدر اسلام میں تشیع کی اساس بنا دوبارہ مناظروں کی بحث سے نکل کر اپنی اصلی شکل یعنی سیاسی و حکومتی نظریے کے طور پر دیکھا گیا۔ امام خمینیؒ نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت دی اور اس کو مہدویت سے ربط دیا کیونکہ خود مہدویت بھی قرآنی اور سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر اس پورے کرہ عالم پر حق کا غلبہ ہونا ہے اور باطل مٹ جانا ہے۔ 

امام خمینیؒ اور نظریہ امامت

امام خمینیؒ سے پہلے اگرچہ ولایت فقیہ کی بحث موجود تھی اور ہمارے قدیم فقہاء نے فقیہ کی ولایت اور اس کے اختیار پر بحثیں کی ہیں،[13][14]لیکن امام خمینیؒ نے اس بحث کو  فقہ سے نکال کر کلام میں داخل کیا اور عقیدہ امامت کے ذیل میں ولایت فقیہ کو پیش کیا۔ امام خمینیؒ نے بیان کیا کہ دین اور اس کے احکام رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے بعد لغو نہیں ہو گئے بلکہ آج بھی ان کو نفاذ کی ضرورت ہے، جو ذمہ داری رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ہے وہی ذمہ داری نیابت میں علماء کی بھی ہے۔[15] اس لیے جس طرح انبیاء الہی اور آئمہ کا وظیفہ ہے کہ وہ الہی حکومت قائم کریں فقیہ کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ اس حکومت کے قیام کے لیے اقدام کرے[16]۔ پس اگر کوئی کہتا ہے کہ نظریہ امامت یا نظریہ ولایت فقیہ امام خمینیؒ کی ایجاد ہے، ایسی بات کرنا غلط ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اس نظریے پر مواد اور نظریات بہت قدیمی ہیں، سیاسی نظریات صدر اسلام سے ہی موجود تھے، لیکن ان نظریات پر مطالعات اور اس پر عمل بہت دیر سے شروع ہوا، اگر ہمارے نظریات کا مواد اور مبانی جدید ہوتے تو تب آپ کا اعتراض درست تھا۔ اس لیے تشیع کے سیاسی نظریات پر اعتراض نہیں بنتا۔

موازنہ قوا کا مسئلہ اور تشیع کا نظریہ

ہمارا سوال یہ تھا کہ تشیع نے قوت کو موازن رکھنے کے لیے کیا راہ حل پیش کیا ہے؟ اسی کے ذیل میں ہم نے مندرجہ بالا تشیع کے سیاسی تفکرات اور ان کے احوال کو بھی بیان کیا۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مکتب امامت نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ حاکم کو معصوم ہونا چاہیے۔ صرف وہی شخص لوگوں پر حاکم اور ان کا امام ہو سکتا ہے جو معصوم ہو۔ اس لیے سب سے پہلا اعتراض جو خلفاء پر شیعہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خلفاء معصوم نہیں تھے اور آئمہ معصومینؑ معصوم ہیں اس لیے حقیقی حاکم و معاشرے کے رہبر یہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنی، رسول اللہﷺ اور اولی الامر کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ».

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔[17]

پچھلی قسط میں ہم نے ثابت کیا کہ اولی الامر کی جب مطلق طور پر اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد صرف امام معصوم ہو سکتا ہے ہر حاکم اولی الامر نہیں ہو سکتا۔[18] اور جہاں تک مسئلہ ہے زمانہ غیبت کا کہ جب امام ظاہری طور پر موجود نہیں ہیں اس دور میں صرف وہ شخص حاکم بن سکتا ہے جو کم از کم عادل ہو اور فقیہ ہو۔ جیسا کہ ولی فقیہ معصوم نہیں ہوتا اس کو آپ اسلامی حاکم کیسے مان سکتے ہیں اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ ولی فقیہ اگرچہ معصوم نہیں ہے لیکن اس کا عادل اور فقیہ ہونا شرط ہے۔ اگر ولی فقیہ ایک حکم بھی اپنی خواہش نفسانی کی بنا پر دے یا خدانخواستہ کسی فسق کا مرتکب ہو اس کی دینی حیثیت ختم ہو جاۓ گی۔ جب تک وہ عدالت کی حدود میں عین دین کے احکامات جاری کرتا ہے اس کی اطاعت کی جاۓ گی کیونکہ یہ اطاعت در اصل خود اس کی اطاعت نہیں بلکہ دین کی اور شریعت کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی غیر دینی حکم ولی فقیہ کی جانب سے جاری ہوتا ہے اس کی ولایت ساقط ہو جاۓ گی اس لیے ولی فقیہ کا فقیہ ہونا ضروری ہے یعنی ایسا شخص ہو جو احکام شرعیہ کو ان کی دلیل سمیت جانتا ہے۔ لیکن غیر معصوم کی اس جہت سے اطاعت کرنا کہ وہ معصوم کے بتاۓ ہوۓ فرمان ہی ہمیں بتاۓ گا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے؟ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سیرت رسول اللہﷺ اور سیرت امیرالمومنینؑ موجود ہے۔ ان ہر دو بزرگوار شخصیات نے غیر معصوم ہستیوں کو اپنی نیابت میں علاقوں کا والی بنایا۔ مثلا امیرالمومنینؑ نے حضرت مالک اشترؓ کو مصر کا والی بنایا۔ اب مصر والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کسی غیر معصوم کی حکومت کو نہیں مانتے۔ امام نے جو دستاویز مالک کے لیے تیار کی ہے اس میں خود مصر والوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرو کیونکہ جب تک یہ میرے احکامات پر چلتا ہے سمجھو یہ میں امام کی اطاعت ہے۔ [19]پس غیر معصوم بھی حاکم ہو سکتا ہے جب تک امام کی اطاعت میں ہو اگر ہواۓ نفس اس پر غالب آ جاۓ تب وہ نہ تو امام کا والی رہتا ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت واجب ہے۔[20]

 

منابع:

 

↑1 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔
↑2 طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔
↑3 نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمہ الاطهار، ج۳، ص۳۴۔
↑4 امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔
↑5 طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔
↑6 فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔
↑7 سائٹ فارس نیوز۔
↑8 سائٹ شیعہ نیوز۔
↑9 سائٹ علوم انسانی۔
↑10 آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مکارم شیرازی۔
↑11 سائٹ ویکی فقہ۔
↑12 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
↑13 سائٹ علوم انسانی۔
↑14 آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مصباح یزدی۔
↑15 آفیشل ویب سائٹ امام خمینی۔
↑16 سائٹ ویکی فقہ فارسی۔
↑17 نساء:۵۹۔
↑18 سائٹ البر۔
↑19 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۳۴۔
↑20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:25
عون نقوی

{  دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۴ }

حاکم اسلامی اور ضرورتِ عصمت

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہمارے پاس نقلی اور عقلی براہین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حق ولایت و حاکمیت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ انسانوں کی سرپرستی اور مدیریت کا حقیقی حقدار وہی ہے جس نے انسان اور جہان کو خلق کیا ہے۔ جو خالق ہے وہی حاکم بھی ہے۔ جو رب ہے اسی کو قانون گذاری کا بھی حق ہے۔ انسانوں میں سے صرف وہی اللہ تعالی کا جانشین ہو سکتا ہے جو مقام علم اور عمل میں عصمت کے درجے پر فائز ہو۔ اس کے علاوہ حکومت میں کوئی بھی انسان اللہ تعالی کا جانشین نہیں ہو سکتا۔

حق حاکمیت در قرآن

قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:

«فَاللهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ: پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1]

اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ اصالتا و بالذات حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ البتہ دیگر آیات میں خود اللہ تعالی نے ہی اپنی ولایت کے جانشین متعارف کرواۓ ہیں۔ تاہم ساتھ ان کی عصمت کی طرف اشارہ بھی کیا اور بیان کیا کہ چونکہ وہ معصوم ہیں اس لیے ان کی حاکمیت اتباع میں اللہ تعالی کی حاکمیت ہے۔ یہ جانشین جو سمجھتے ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب در اصل میں اللہ کا کام ہے۔انہیں آیات میں سے سورہ نساء کی آیت کریمہ ہے جس میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ جو افراد بھی امور مسلمین کے والی قرار دیے گئے ہیں ان کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ».

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔[2]

اس آیت کریمہ کے تین حصے ہیں۔پہلے حصے میں فرمایا:

«یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللهَ‌ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ».

اس میں تین ذوات کا ذکر ہوا ہے جن کی اطاعت کی جانی ہے۔ اللہ تعالی ، رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر۔

آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمایا:

«تَنازَعْتُمْ فی شَیْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَ الرَّسُولِ».

اس حصے میں دو مرجع کی مرجعیت کا ذکر ہوا ہے یعنی اگر نزاع ہو جاۓ جن کی طرف رجوع کرنا ہے وہ دو مرجع ہیں ایک اللہ تعالی اور دوسرے رسول اللہ ﷺہیں۔

آیت کریمہ کے تیسرے حصےمیں فرمایا:

«إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ».

اس حصے میں صرف اللہ تعالی اور یوم آخر پر ایمان لانے کےبارے میں ذکر ہوا ہے۔ آیت کریمہ کا مکمل طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ آیت کے پہلے حصے میں جس تثلیث (تین ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ، اور اولی الامر)کا ذکر ہوا ، اور دوسرے حصے میں تثنیہ (دو ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ)کا ذکر ہوا در حقیقت اس سب کا تعلق توحید در عبادت اور اطاعت سے ہے۔ یعنی ہر اطاعت جو رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی ہوگی در اصل اس کی بازگشت اللہ تعالی کی اطاعت کی طرف ہے۔ صرف رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی عصمت ہی اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے ان دو کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے برابر میں قرار دے۔

اولی الامر کی اطاعت

اس آیت میں جو چیز اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں مطلق طور پر بغیر کسی شرط و قید کے اولی الامر کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ولی امر امت معصوم نہ ہو یا اس کے فعل اور قول میں اشتباہ کا احتمال بھی دیا جا سکتا ہو تب بھی اللہ تعالی اس کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم نہیں دے سکتا،  جس شخص کے علمی یا عملی میدان میں اشتباہ کا احتمال دیا جا سکتا ہو اس کی اطاعت بھی مقید اور مشروط ہو جاتی ہے ، مثلا کہا جاۓ گا کہ ہر صورت میں تو اس کی اطاعت نہ کرو بلکہ اس وقت اطاعت کرو جب اس کی بات فرمان الہی اور خواستہ الہی کے مطابق ہو۔ کیونکہ عقل بھی یہی حکم کرتی ہے اور مشہور حدیث بھی  اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معصیت کے امر میں کسی کی اطاعت نہیں کر سکتے۔

روایت میں واردہوا ہے:

«لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق».

ترجمہ: جس امر میں خالق کی معصیت ہو اس امر میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔[3][4][5]یہ روایت اہلسنت منابع میں رسول اللہ ﷺ سے اور اہل تشیع میں امیرالمومنینؑ سے وارد ہوئی ہے۔

 ان سب کلمات کو ایک ساتھ ملائیں، یعنی ایک طرف کلام الہی سامنے رکھیں جس میں اللہ تعالی مطلق طور پر اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے، اور دوسری طرف حدیث کہ جس میں کہا جا رہا ہے کہ  مخلوق خدا کا وہ فرمان جو معصیت پر اکساۓ قابل عمل نہیں، ناگزیر ماننا پڑتا ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت میں مطلق طور پر مطاع (جس کی اطاعت کی جاۓ)واقع نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں غلط فرمان جاری کرنے کا احتمال بھی دیا جا سکے۔ عدل الہی تقاضا کرتی ہے کہ ایسے فرد کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم دے جس کے اندر خطا کا احتمال نہ ہو اور وہ شخصیت صرف معصوم کی ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی عصمت اور ان کی اطاعت کی ایک دلیل یہی ہے۔[6]

منابع:

 

↑1 شوری:۹۔
↑2 نساء: ۵۹۔
↑3 ری شہری، محمد،میزان الحکمہ، ج۱، ص۱۲۷۔
↑4 متقی ہندی، علی بن حسام، کنزل العمال، ج۵، ص۷۹۲۔
↑5 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت ۱۶۵۔
↑6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:22
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ:قسط ۳۳}

حاکم اسلامی کون ہے؟

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

قرآن کریم میں انبیاء الہی و رسول اللہ ﷺ کا ایک اہم ترین وظیفہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء لوگوں پر حاکمیت کریں۔ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ انبیاءالہی آمروں کی طرح  اپنی مرضی کی حکومت نہیں کرتے بلکہ جو ان کو سکھایا جاتا ہے فقط اس تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوۓ حکومت کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر اسلامی حاکم اپنی مرضی سے حکومت نہیں چلاتا بلکہ قوانین الہی کے آگے خود وہ بھی سرتسلیم خم ہوتا ہے۔اس لیے حکومت اسلامی کو قانون کی حکومت کہہ سکتے ہیں۔ حاکمیت اسلامی یا ولایت فقیہ یعنی قانون کی حکومت۔

اسلامی حکومت یعنی وحی کی حکومت

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«إِنَّا أَنْزَلْنا إِلَیْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِما أَراکَ اللهُ‌».

ترجمہ: (اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں۔[1] 

رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں پر حکومت کریں لیکن اپنے میل اور ارادے کی بنا پر نہیں بلکہ جو آپ پر وحی ہوتی ہے اس کے مطابق حکومت کریں۔کیونکہ اس جہان کا خالق اور مالک اللہ ہے۔تنہا خدا اور رب وہی خدا ہے جو ولی اور حاکم ہے۔ جس نے وحی کے ذریعے تمام انسانوں کی تدبیر اور تربیت کی ہے۔لیکن یہاں پر ایک سوال ہے یہ کتاب حق جو آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے وہ وحی کی صورت میں کیسے رسول اللہ ﷺ تک پہنچے گی؟ وحی کیا ہے اور کیا رسول اللہ ﷺ کی ہر بات حق ہے ؟ ان سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔

وحی کے تین مرحلے

اللہ تعالی نے انسانی معاشروں کی حاکمیت در اصل اپنے دست قدرت میں قرار دی۔ یہ حکومت کیسے قائم ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وحی کے ذریعے۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالی اپنا حکم رسول  تک پہنچاۓ گا اور رسول من و عن اس وحی کو آگے پہنچا دیں گے۔ وحی تین مراحل میں نازل ہوتی ہے۔ ان تینوں  مراحل میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم اور مصون قرار دیاگیا ہے۔وحی کے تین مرحلے درج ذیل ہیں۔

۱۔ مرحلہ دریافت وحی

۲۔ مرحلہ ضبط و نگہداری وحی

۳۔ مرحلہ ابلاغ و انشاء وحی

نبی اکرمﷺ وحی کو دریافت کرتے ہیں، اس کو یاد کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں، اوراس وحی کو امانت کے ساتھ درست طریقے سے امت تک پہنچاتے ہیں، ان تینوں مرحلوں میں نبی اکرمﷺ معصوم ہیں غلطی نہیں کر سکتے۔

وحی کا پہلا مرحلہ

پہلے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا:

«نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ».

ترجمہ: جسے روح الامین نے اتارا۔[2]

بیان ہوا کہ وحی کا فرشتہ اس وحی کو آپ ؐکے قلب مبارک پر نازل کرتا ہے اور وہ اس کام میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ وحی میں کمی یا زیادتی نہیں کرتاامانت اور بغیر کسی تبدیلی کے آپ ؐتک پہنچادیتا ہے۔ اور آپ ؐبھی اس وحی میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے امت تک پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:

«وَ إِنَّکَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ عَلِیمٍ».

ترجمہ: اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔[3]

علم لدنی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس کا منبع اور سرچشمہ خدا ہو۔

وحی کا دوسرا مرحلہ

دوسرے مرحلے میں رسول اللہ ﷺ وحی کو جس طرح سے نازل ہوتی ہے اسی طرح سے یاد کر لیتے ہیں اور اس کو محفوظ کر تے ہیں۔اس مرحلے میں بھی اللہ تعالی نے قرآ ن کریم میں رسول اللہ ﷺ کو معصوم قرار دیا ۔ اور بیان ہوا کہ رسول اللہ ﷺ جو کچھ بھی خدا کی طرف سے دریافت کرتے ہیں اپنے قلب کے حرم میں اس کو محفوظ کر لیتے ہیں  اس میں کمی و زیادتی نہیں کرتے۔

«سَنُقْرِئُکَ فَلا تَنْسى».

ترجمہ: (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔[4]

وحی کا تیسرا مرحلہ

اس مرحلے میں رسول اللہ ﷺ کتبی یا شفہی صورت میں وحی ابلاغ کرتے ہیں۔ آپؐ کلام الہی بولتے جاتے ہیں اور دوسرے اس کو سنتے ہیں یا لکھ لیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ذکر ہوتا ہے:

«وَ النَّجْمِ إِذا هَوى. ما ضَلَّ صاحِبُکُمْ وَ ما غَوى. وَ ما یَنْطِقُ عَنِ الْهَوى. إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحى».

ترجمہ: قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب کرے۔ تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔[5]

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

«وَ ما هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنینٍ».

ترجمہ: اور وہ غیب (کی باتیں پہنچانے) میں بخیل نہیں ہے۔[6]

رسول اللہ ﷺ وحی کو پہنچانے میں کتمان نہیں کرتے یعنی جو نازل ہوتا ہے بیان کر دیتے ہیں کچھ بھی چھپاتے نہیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا کلام بھی معصوم اور مصون ہے۔

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ راوی نے پوچھا جب ہم آپ کی محضر میں ہوتے ہیں تو جو کچھ بھی دیکھنے یا سننے کو ملے لکھ لیں؟ فرمایا: ہاں! عرض کیا کہ کبھی آپ خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی غضبناک ۔ تو کیا ان حالات میں بھی جو کچھ ہم سنیں یا دیکھیں وہ لکھ لیں؟ فرمایا لکھ لو۔ روایت کے الفاظ ہیں کہ راوی کہتا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:

«یا رسول الله أکتب کلما أسمع منک؟ قال : نعم. قلت : فی الرضا والغضب؟ قال : نعم فإنی لاأقول فی ذلک کله إلا الحق».

ترجمہ: یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں جو کچھ بھی آپ کی طرف سے سنتا ہوں وہ لکھ لیا کروں؟ فرمایا: ہاں! میں نے عرض کی رضایت اور غضب  ہر دو حالتوں میں؟ فرمایا: ہاں ! میں جو کچھ بھی  ان حالات میں کہتا ہوں سواۓ حق کے کچھ نہیں ہوتا۔[7]

پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں پر وحی کی حکومت ہو اور انسانی معاشرہ الہی تعلیمات کے مطابق چلے تو لازم ہے کہ ایک ایسا انسان کامل اس کے لیے قرار دیا جاۓ جس کے لیے وحی ممثل ہو۔ وحی اس کے سامنےحاضر ہو۔ وہ انسان کامل جس کا قلب کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتا ، ہرگز گناہ کا خیال تک نہیں کرتا اور یہ انسان سواۓ معصوم کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

حکومت وحی میں سب برابر

حکومت وحی میں ایسا نہیں ہے کہ جس کے پاس معاشرے کی بڑی ذمہ داری ہے تو وہ آزاد ہوگا، جی نہیں! بلکہ اس پر وظائف دیگر افراد سے زیادہ لاگو ہیں۔ اگر عام لوگوں پر اللہ تعالی نے دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنا واجب قرار دیا ہے تو وہیں رسول اللہ ﷺ کے لیے چھ نمازیں قرار دی گئیں۔ جیسا کہ وارد ہوا:

«أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّیْلِ».

ترجمہ:زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو ۔[8]

رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ نماز شب بھی وجوبا ادا کریں۔اگلی آیت میں حکم ہوا:

«وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَکَ عَسى أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقاماً مَحْمُوداً».

ترجمہ: اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گزارو، یہ ایک زائد (عمل) صرف آپ کے لیے ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔[9]

اسی طرح سے سیاسی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ اگر عام لوگوں پر جہاد اور طاغوت سے مبارزہ واجب قرار دیا وہیں رسول اللہ ﷺ پر بدرجہ اولی واجب قرا ردیا کہ وہ جہاد کریں۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ اگر کوئی بھی آپ کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہو تو تنہا قیام کے وظیفے کو پورا کریں۔

«فَقاتِلْ فی سَبیلِ اللهِ‌ لا‌تُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنینَ».

ترجمہ:(اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں۔[10]

مومنین کو جنگ اور نبرد کے لیے تشویق کا حکم دیا ، اگر مومنین آمادہ نہیں ہوتے تو تنہا اس امر کو انجام دیں۔ رسول اللہ ﷺ کا وظیفہ جہاد اکبر میں بھی عام لوگوں سے زیادہ قرار دیا گیا اور جہاد اصغر میں بھی۔[11]

منابع:

 

↑1 نساء: ۱۰۵۔
↑2 شعراء: ۱۹۳۔
↑3 نمل: ۶۔
↑4 اعلی: ۶۔
↑5 نجم: ۱تا۴۔
↑6 تکویر: ۲۴۔
↑7 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲، ص۱۴۷۔
↑8 اسراء: ۷۸۔
↑9 اسراء: ۷۹۔
↑10 نساء: ۸۴۔
↑11 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۴تا۹۷۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:19
عون نقوی

{دروس ولایت فقیہ: قسط ۳۲}

تبدیلی لانے کا اسلامی اور غیر اسلامی طریقہ

کتاب: ولایت فقیه، آیت الله جوادى آملى

تدریس: سید محمد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی 

 

ہم نے گزشتہ اقساط میں بیان کیا کہ مغربی جمہوری نظام میں اکثریت  حاکم چنتی ہے۔ اس حاکم کا معیار کیا ہے؟حاکم کیسا ہو اور کیسا نہ ہویہ اہم نہیں ہوتا بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کس شخص کو زیادہ ووٹ دیے گئے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ پڑیں گے وہی حاکم ہوگا۔ لیکن الہی نظام میں یہ معیار قابل قبول نہیں ہے۔ اکثریت حاکم ہونے کا معیار نہیں ہو سکتی۔ ہاں! ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلامی حاکم کو عوام قبول نہ کرے اور وہ پھر بھی حاکم ہو، بلکہ اسلام جبری حکومت کے خلاف ہے۔ ایک الہی حاکم بھی جبری طور پر اپنی حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی معاشروں کی تدبیر اور تعمیر چاہتا ہے،دراصل معاشرے کی تربیت کرنا مقصود ہے۔ تربیت و تعمیر جبر سے نہیں بلکہ اختیار اور خود عوام کے ارادے سے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ وگرنہ ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی ایسا حاکم آسمان سے اترتا جو زبردستی سب کو ہی مسلمان،مومن بناتا اور ان کو غیر شرعی کام کرنے ہی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ خلقت کے ہدف کے ہی خلاف ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے معاشروں کو آزاد بھی نہیں چھوڑا بلکہ اس کی تربیت کے لیے نظام مقرر فرمایا ہے۔ اس نظام میں حاکم کیسا ہوگا؟اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ اسلام میں حاکمیت اور حکومت کا تصور کیا ہے؟

وحی کی حکومت

جب ہم اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کسی شخص یا بشر کی حکومت مراد نہیں ہوتی۔ اسلامی حکومت سے مراد وحی کی حکومت ہے۔ اسلام وحی کی حکومت چاہتا ہے۔ وحی کی حکومت سے مراد اللہ تعالی کی حکومت ہے،جو بشر کے توسط سے قائم ہوگی لیکن ہوگی در اصل اللہ تعالی کی حکومت۔ اسلامی حکومت میں حاکم وحی کے تایع ہے۔ اسلامی حاکم  متبوع نہیں بلکہ خود بھی تابع ہوتا ہے۔ کس کے تابع؟وحی کے تابع محض۔ در اصل اس کی مرضی اور حکومت نہیں چلنی بلکہ وحی کی حکومت کارفرما ہے۔ ہمیں یہاں پر وحی پر متمرکز ہونا ہوگا،کیونکہ اسلامی حکومت کو وحی کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ خود وحی صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص ہے،اس لیے وحی کو سمجھنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات اہم ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور حاکمیت اسلامی

رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں ۔ ان کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ وحی کی حکومت کو جاننے کے لیے اس شخصیت کا جاننا ضروری ہے جس پر وحی نازل ہوئی اور جس نے وحی کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ رسول اللہ ﷺ نے قبل از بعثت جو زندگی گزاری سب کو اپنے کردار اور گفتار سے متاثر کیا۔ اعلان نبوت کے بعد مکی زندگی کے تیرا سال بہت مشقت سے گزارے۔مشرکین مکہ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے۔[1]مکہ میں  ان کی توہین [2]اور شخصیت کشی کی جاتی،مذاق اڑایا جاتا[3][4]، بچوں کو آپ کو تنگ کرنے کے لیے پیچھے لگایا جاتا، طعنےتشنیع[5]، دیوانہ ،مجنون [6]،جادوگر [7]اور شاعر[8]کہہ کر معاشرے میں آپؐ کی تحقیر اور تکذیب کرنے کی کوشش کی جاتی۔[9][10]جاسوسی، سازشیں [11]،جھوٹے پروپیگنڈے[12]اور قتل کی دھمکیاں[13][14][15][16]دی جاتی تھیں۔ قرآن کریم میں بہت سے موارد میں وارد ہوا ہے جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی اور فرمایا کہ یہ نبی مجنون اور شاعر وغیرہ نہیں ہیں بلکہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں وہ کلام میں اللہ کا کلام ہے۔[17]

شعب ابی طالب کی سختیاں

جب مشرکین مکہ آپ کی دلیلیں سن کر عاجز اور آپ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرانے میں عاجز ہو گئے تو سب قبائل نے متفقہ طور پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب بھیج دیا۔ سارے معاشرے نے ایک طرح سے بائیکاٹ کر دیا اور سب کو کہہ دیا گیا کہ ان کے ساتھ کوئی بھی معاشرت اور آنا جانا نہیں رکھے گا۔ یہ وہ جگہ تھی جہأں سر چھپانے کو جگہ اور کھانے پینے کے لیے کچھ میسر نہ تھا، اس بیابان میں تین سال گزارے۔جب یہ تین سالہ دور گزرا اور واپس ہوۓ تو ہجرت کا حکم آ گیا۔

رسول اللہ ﷺ ہجرت کے بعد

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک نبی جسے معاشرے نے رد کر دیا، اس کے ساتھیوں کو قتل اور قید کیاگیا ہو، جب اپنے ہی وطن سے اس کو ساتھیوں سمیت نکال دیا گیا تو اس نے ہجرت کے بعد کیا کیا ہوگا؟ اگر آج کی سوچ رکھنے والے ہم جیسے افراد وہاں ہوتے تو کیا کرتے؟مثلا ہم فرض کرتے ہیں، ہم نے اپنے ہی علاقے میں ایک اصلاحی تحریک شروع کی ہے، اکثریت نے ہمیں رد کر دیا، ساتھیوں کو زد و کوب کیا خود ہمارا پہلے بائیکاٹ کیا اور بعد میں ہجرت پر مجبور کر دیا، ان حالات میں ہم بنا کسی تیاری کے اپنے ساتھیوں کو کسی اور جگہ بھیج دیتے ہیں اور خود بھی بغیر کوئی زیادہ اہتمام کیے ہجرت  کر جاتے ہیں، اگر ہم ہوں تو اپنا اور اپنے لٹے پٹے ساتھیوں کے لیے سب سے پہلے ہم کیا کریں گے؟سب سے پہلے مثلا اپنے ساتھیوں کے رفاہی مسائل حل کریں گے،کوئی لنگر خانہ کھولیں گے یا ان میں سے کوئی بیمار ہے تو ان کے لیے ہسپتال بنوائیں گے، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی ادارہ بنائیں گے، یا جن کی شادیاں نہیں ہوئیں ان کی شادیاں کروائیں گے۔ آج جب کوئی تحریک یا اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہ باتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا؟سب سے پہلے ریاست تشکیل دی۔انہوں نے حکومت تشکیل دی اور دوسرا کام جو فوری طور پر انجام دیا وہ مسجد بنائی۔

حکومت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں

جب تک حکومت آپ کے پاس نہیں ہے، آپ اجتماعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔معاشرے کی اصلاح کی یہ روشیں ہمیں سیرت رسول اللہ ﷺ سے سیکھنی چاہئیں۔ آج اگر کوئی معاشرے میں واقعی تبدیلی یا مخلوق خدا کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہسپتال بنوا دیں، روڈیں بنوا دیں؟تعلیمی ادارے بنوادیں؟ یا اپنے بندے بڑی بڑی پوسٹوں پر لگوادیں؟کیا کریں کہ ہم بھی مضبوط ہو جائیں اور معاشرے کو بھی تبدیل کر سکیں؟ یہ سب کام جو ہم نے بیان کیے ہیں ان سب سے آپ ایک حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن معاشرہ اس سے نہیں بدل سکتا۔ لیکن اگر آپ حکومت بناتے ہیں تو سب کچھ آ جاۓ گا،رفاہ بھی آ جاۓ گا، ادارے بھی بن جائیں گے اور باقی سب بھی درست سمت میں حرکت کرے گا۔یہی مدینہ کی سرزمین پر بھی ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اس سرزمین پر اللہ تعالی نے اپنی برکات کا نزول فرمایا۔ ان کی بھوک کو ختم کیا اور رزق نازل کیا۔

تبلیغی جماعت اور تشیع میں فرق

ایک اصلاحی تفکر وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اس تفکر کے مطابق اگر آپ معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو عوام میں رفاہ لے آئیں، ہسپتال، روڈیں، یونیورسٹیاں، اور فیکٹریاں لگا دیں۔ جب عوام کا رفاہ ٹھیک ہو جاۓ گا سب مسائل درست ہو جائیں گے۔ دوسرا تفکر تبلیغی جماعت والوں کا ہے۔ صوفیاء بھی اسی منہج کے قائل ہیں ان کے بقول افراد میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں، جامع اسلام نہیں بلکہ محدود اسلام جس میں صرف عبادات اور اخلاقیات ہیں اور بس۔ تبلیغی جماعت کے مطابق ہمیں گھر گھر اور ہر مسجد میں جا کر مسلمانوں کو نماز پڑھوانے پر آمادہ کرنا چاہیے،ظاہری طور پر ان کو داڑھی رکھوادینے پر تیار کرنا چاہیے۔سب لوگ اسی طرح سے مومن بن جائیں گے۔اور معاشرہ سدھر جاۓ گا۔  تشیع ان محدود تفکرات سے مبراء ہے۔ مکتب تشیع رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ بغیر اسلامی حکومت کی تشکیل کے آپ معاشرے میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ خود امام زمانؑ اگر آج تشریف لے آئیں تو کیا کریں گے؟ وہ بھی حکومت تشکیل دیں گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حکومت تشکیل دی۔[18]

منابع:

↑1 بقرہ: ۲۰۴۔
↑2 توبہ:۶۱۔
↑3 انبیاء:۳۶۔
↑4 توبہ:۶۴۔
↑5 توبہ:۵۸۔
↑6 حجر:۶۔
↑7 زخرف:۳۰۔
↑8 صافات: ۳۶۔
↑9 مومنون:۸۔
↑10 مجادلہ:۸۔
↑11 نساء:۸۱۔
↑12 مائدہ:۴۱۔
↑13 توبہ:۴۸۔
↑14 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۰۔
↑15 توبہ:۷۴۔
↑16 طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۹۔
↑17 نجم:۴۔
↑18 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۲۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 13:15
عون نقوی

{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی: قسط۰۳}

بعثت ِانبیاء کے اہداف

کتاب: ولایت و حکومت، سید علی خامنه ای

تحریر: عون نقوی 

 

گزشتہ درس میں بیان ہوا کہ ایک بعثت درونی ہے جو نبی کی ذات میں ایجاد ہوتی ہے۔ اور دوسری بعثت بیرونی نتیجہ ہے اس پہلی بعثت کا جو معاشرے میں وجود میں آتی ہے۔ نبی کی ذات جب اندر سے منقلب ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں انقلاب وجود میں آتا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ہدف کیا ہے؟ بعثت کی ضرورت کیا ہے؟ کیا انسانی معاشرے نبی کے بعثت کے بغیر کمال کی طرف نہیں بڑھ سکتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا اس تحریر میں جواب دیا جاۓ گا۔

بعثت کا عالی ترین ہدف

بعثت کا عالی ہدف انسانوں کو پستی اور پلیدگی سے نکال کر انسانیت کے عالی ترین مدارج تک پہنچانا ہے۔ وہ انسان جو اللہ کی عبودیت سے نکل کر تمام غیر معبودوں کے عبد بنے ہوۓ ہیں، اور طاغوتوں کے چنگل میں ہیں۔ انسانوں کو اللہ کی عبودیت کی طرف لانے اور طاغوت سے نجات دینے کے لیے انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ».

ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔[1]

۱۔ فطرت کی بیداری

اللہ تعالی نے انسان کو فطرت عطا کی ہے۔ جس میں تمام الہی تعلیمات رکھ دی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر طبیعت بھی رکھ دی ہے جو اسے سرکشی اور طغیانی پر ابھارتی ہے۔ اگر سب انسان فطرت کے عین مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو انسان کامل بن سکتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت طبیعی میلان کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔ طبیعت کی سرکشی کو روکنے کے لیے اور فطرت کو بیدار کرنے کے لیے نبی مبعوث ہوۓ ہیں۔

امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:

«وَ یُثِیرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ».

ترجمہ: وہ عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔[2]

انسان کے پاس فطرت نامی بہت قیمتی اور فضیلت سے سرشار سرمایہ موجود ہے۔ لیکن اس کو درست راستے میں تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر تربیت کے ذریعے فطرت کو ابھار دیا جاۓ تو انسان تکامل حاصل کر لیتا ہے۔

 ۲۔ تعلیم و تربیت

عقل و فطرت کے دفائن کو ابھارنے کے لیے نبی امت کو تعلیم و تربیت دیتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے ذریعے فطرت کیسے بیدار ہو؟کیا مدرسہ بنا دیں تو تعلیم و تربیت دے سکتے ہیں؟ یا سکول اور یونیورسٹیز بنا دیں تو تعلیم و تربیت کا ہدف پورا ہو جاۓ گا؟ کیا انبیاء بھی اسی طرح سے تعلیم وتربیت کرتے ہیں جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت کے سسٹم بناتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے مدرسہ یا سکول نہیں بنایا۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سکول کالج وغیرہ نہ بنائیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ تعلیم و تربیت کا طریقہ سیکھیں۔ جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت دیتے ہیں اس طرح سے فطرت بیدار ہو جاۓ گی؟ جی نہیں! مصنف فرماتے ہیں کہ انبیاء الہی کا تعلیم و تربیت کا ایک خاص انداز ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک ایسا سالم اور متناسب ماحول بناتے ہیں جس میں انسان نشو و نما پا سکے۔ ایک الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ جب الہی و توحیدی معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے تو انسان تیزی سے فطری مراحل کو طے کرتا ہے اور قرب الہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ سورہ حدید میں الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کے قیام کو انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ وارد ہوا ہے:

«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ».

ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔[3] اصل میں بعثت انبیاء اس لیے ہوئی کہ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو اور لوگوں میں عدالت کا نظام قائم کیا جا سکے۔ جب تک یہ عدالت اجتماعی قائم نہیں ہو جاتی اور انسان کے لیے سالم و متناسب ماحول ایجاد نہیں ہو جاتا تعلیم و تربیت ممکن نہیں۔ آپ کوشش کریں گے تعلیم و تربیت کی لیکن اس کا اثر نہ ہوگا کیونکہ اجتماعی طور پر جس معاشرے میں انسان رہ رہے ہیں وہ فاسد ہے۔ وہ ظلم کی اساس پر ہے۔ اگر اجتماعی طور پر ظلم کے نظام میں انسان رہیں اور انفرادی طور پر ان کو تعلیم و تربیت دی جاتی رہے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں۔

انبیاء الہی کا ظالمین سے ٹکراؤ

جب بھی نبی نے لوگوں کے اندر تعلیم و تربیت کو عام کیا ان کا معاشرے کے ظالم افراد حاکم طبقے سے ٹکراؤ ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ اس ظالم و حاکم طبقے کے اسی ظالمانہ نظام کے ساتھ مفادات ہیں۔ اگر لوگ تعلیم و تربیت پا جائیں تو اس کے نتیجے میں ان افراد کے ظلم کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن یہ ظالم طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ نظام ایسا ہی چلتا رہے اور ان کی بے شعوری سے حتی الامکان فائدہ اٹھایا جاۓ۔ جب نبی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے تو ظالم و حکمران طبقہ ان کا دشمن ہو جاتا ہے۔ انبیاء الہی تاریخ بشریت کے دشمن دار ترین انسان گزرے ہیں۔ اگر آپ ایسے افراد کی لسٹ بنائیں جن کے سب سے زیادہ دشمن رہے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء ہونگے۔ ممکن ہے دشمن خود ان کے گھر سے کھڑا ہو جاۓ۔ اپنا بھائی، چچا یا ماموں، حتی آپ کی بیوی اور بچے دشمن بن جائیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے جو تعلیم اور نظام آپ تشکیل دینا چاہ رہے ہیں اس میں ان افراد کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بعثت کے اہداف کے مطابق حرکت شروع کی ہو اور کسی نے ان کے ساتھ دشمنی نہ کی ہو۔ قرآن کریم اور روایات اہل بیتؑ میں کثرت سے ان موارد کی طرف اشارہ موجود ہے۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داوودؑ، اور حضرت سلیمانؑ۔ اسی طرح سے بقیہ انبیاء الہی کہ ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی اولاد پر ظلم ڈھاۓ گئے اور معاشرے نے سخت دشمنی کی۔ طعنے دیتے، نعوذباللہ پاگل مجنون کہتے۔ خود رسول اللہﷺ اور ان کے اوصیاء بارہ اماموں کے ساتھ کیا ہوا؟ تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔ جب بھی رسول یا امام نے بعثت کے اہداف کو پورا کرنے کی کوشش کی، تعلیم و تربیت کو عام کیا اور عدالت اجتماعی کو قائم کیا تو معاشرہ بدترین دشمنی پر اتر آیا۔ 

توحید در حاکمیت کی تعلیم

انبیاء الہی کا امت کو پڑھایا گیا پہلا درس توحید ہے۔ سب انبیاء نے توحید کا پرچار کیا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ لیکن توحید سے مراد کیا ہے؟ کیا توحید صرف ایک ذہنی تصور ہے؟ کیا ایک تصور ہے کہ ہم نے ذہن میں صرف ایک ذات کو قرار دینا ہے جو ہماری خدا ہے اور بس! جی نہیں۔ بلکہ توحید سے مراد یہ ہے کہ ہر مورد میں خدا کی وحدانیت کو مدنظر رکھنا ہے۔ عبادت بھی ایک خدا کی کرنی ہے، خالق بھی ایک خدا کو ماننا ہے، رازق بھی ایک خدا کو ماننا ہے اور حاکم بھی ایک خدا کو ماننا ہے۔ توحید یعنی اس کائنات پر صرف ایک خدا کی حکمرانی ہے۔ اور کوئی ذات حاکم نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سے عبادت اور رازقیت و خالقیت میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح سے حکومت میں بھی اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں ہے۔ عالم تکوین اور عالم تشریع میں اللہ تعالی کی حاکمیت ہے۔ عالم تکوین میں توحید سے مراد یہ ہے کہ کائنات کے امور میں تصرف کرنے کا بالذات اور مستقل حق صرف خدا کو ہے۔ اور عالم تشریع میں توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر، انسانوں پر قانون گذاری کرنے کا حق، ان کے امور کی مدیریت، اور سیاسی حکمرانی کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ عالم تکوین میں تو آپ اللہ تعالی کی حاکمیت و توحید کو مان لیں اور دنیوی امور میں کسی ایسے حاکم کو مان لیں جو خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہے۔اگر خدا کی طرف سے مقرر حاکم آپ لوگوں پر حکمران ہے تو عالم تشریع میں بھی آپ توحید کے قائل ہیں۔ لیکن اگر ایک ایسا حاکم دنیوی امور میں ہم پر حکمران ہو گیا جو اللہ تعالی کی طرف سے نہیں وہ طاغوت ہوگا اور اس کا انکار ہم پر لازم ہے ۔ 

عدالت اجتماعی کی اہمیت

بعثت کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے انسانوں کی اصلاح ہو۔ انسان کمال کی طرف بڑھیں اور الہی راستوں پر چل کر قرب الہی کو حاصل کریں۔ اور بعثت کا دوسرا پہلو عدالت اجتماعی کا قیام ہے۔ اگر کسی معاشرے میں عدالت اجتماعی قائم نہ ہو اور ظلم کا نظام حاکم ہو تو وہ زندگی جہنمی زندگی ہے۔ ایسے معاشرے میں انسان کمال حاصل نہیں کر سکتے۔ مادی کمال حاصل کر سکتے ہیں اور نا ہی معنوی کمالات۔ اس کی مثال ہمارے ممالک ہیں۔ جہاں پر ظلم کا نظام حاکم ہے، انسانوں کی مادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں اور معنوی کمالات بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔ اجتماعی طور پر معاشرے ظلم کا شکار ہیں۔ نبی کا کام یہ ہے کہ اگر وہ لوگوں کی انفرادی اصلاح چاہتا ہے اور ان کو قرب الہی کی منازل تک پہنچانا چاہتا ہے تو عدالت اجتماعی کا نظام قائم کرے۔ در اصل عدالت اجتماعی مقدمہ ہے اور انفرادی اصلاح ذوالمقدمہ یا نتیجہ ہے۔ مثلا وضو مقدمہ ہے نماز کے لیے۔ اگر وضو نہ کریں تو نماز نہ ہوگی۔ اسی طرح سے اگر عدالت اجتماعی قائم نہیں ہوتی تو تعلیم و تربیت و لقاء الہی بھی معاشرے کو نصیب نہ ہوگا۔ 

الٹ سوچ اور الٹا دین

ہم نے جو دین پڑھا اور سیکھا ہے وہ الٹ ہے۔ ہم نے اب تک یہ سوچا ہوا تھا کہ افراد کی اصلاح کریں اور ان کی تبلیغ کرتے رہیں ایک دن سب لوگ ٹھیک ہو جائیں گے اور معاشرہ اصلاح پا جاۓ گا۔ جبکہ اصل دین یہ نہیں ہے، انبیاء کی روش یہ ہے کہ اگر لوگوں کی اصلاح چاہتے ہیں تو وہ فقط تعلیم و تربیت اور صرف تبلیغ کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ آپ کو عدالت اجتماعی قائم کرنا ہوگی۔ با الفاظ دیگر آپ کو معاشرے کا نظام بدلنا ہے، انقلاب لانا ہے۔ اگر ظلم کا نظام بدل جاۓ اور عدل کا نظام آ جاۓ تو اس سالم و متناسب ماحول میں انسان اجتماعی طور پر تکامل حاصل کر پائیں گے۔ لیکن اگر ظلم کا نظام باقی رہے اور عدالت اجتماعی قائم نہ ہو، آپ ہزار سال تبلیغ کرتے رہیں اور انفرادی طور پر لوگوں کی اصلاح کرتے رہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ ممکن ہے محلے کے چند افراد مومن ہو جائیں اور داڑھی رکھ لیں، نماز قائم کرنے لگیں لیکن اجتماعی طور پر پورا معاشرہ اصلاح نہیں پا سکے گا۔ انبیاء الہی کی روش درست روش ہے اور ہمیں اس روش کو اختیار کرنا چاہیے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کریں اور ساتھ میں ظلم کے نظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ الہی نظام توحیدی معاشرے کے قیام کی کوشش کریں۔[4]

منابع:

↑1 نحل: ۳۶۔
↑2 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۔
↑3 حدید: ۲۵۔
↑4 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۵تا۲۸۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 August 22 ، 12:54
عون نقوی