بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

اللہ تعالىٰ نے جس نظام کو برپا کىا ہے اس کے دو بنىادى رکن ہىں :

۱۔امام۔                                               ۲۔اُمت۔

اس نظام کے آدھے حصے کا نام ’’ امامت ‘‘ ہے اور آدھے کو ’’ اُمت‘‘ سے تعبىر کىا جاتا ہے ۔ اُمت کے بغىر ’’ امامت ‘‘ کا نظام برپا نہىں ہوسکتا اور ’’امام ‘‘ کے بغىر بھى اُمت نظام خدا کا قىام وجود ِ عمل مىں نہىں لا سکتى ۔ سىرت ِ اہل بىتؑ اس حقىقت پر بہترىن شاہد ہے کہ جب امام کو امت نے تنہا چھوڑ دىا تو ’’ امام ‘‘ نے جس تدبىر کا انتخاب کىا وہ دوبارہ ’’اُمت‘‘ کى تشکىل اور افراد کى تربىت تھى تاکہ ’’اُمت‘‘ کے ذرىعے سے حکومت الٰہىہ کا قىام عمل مىں لاىا جاسکے ۔ قرآن کرىم نے بھى رسولوں کى اہم ترىن ذمہ دار ى پىغام خدا پہنچانا بىان کى ہے ۔ اس کے بعد کا مرحلہ کے افراد ِ قوم ان تعلىمات کو قبول کرتے ہىں ىانہىں ؟ تو ىہ امر لوگوں کے اختىار پر چھوڑ دىا ہے ۔ جو قوم انبىاء و رُسُل و آئمہ علىہم السلام کى تعلىمات و افکار کا شعور حاصل کرکے بابصىرت ہو جاتى ہے اور اطاعت کے فرائض کو نبھانے کو عہد و پىمان باندھ لىتى ہے اسے اسلامى تعلىمات  مىں ’’ اُمت ‘‘ سے تعبىر کىا ہے ۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔  استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 09:31
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

رسول اللہ ﷺ کو ىہ خطرہ نہىں تھا کہ اگر مىں نے ’’نظام ولاىت ‘‘ کا اعلان کىا تو کوئى جان سے مار ڈالے گا ، لوگ نفرت کا اظہار شروع کر دىں گے ۔۔۔ بلکہ اندىشہ اور خطرہ ىہ تھا کہ کہىں لوگ بىعت کرنے کى بجاۓ ’’بَخٍ بَخٍ‘‘نہ شروع کردىں اور اصل اعلان کو فراموش نہ کہ بىٹھىں ۔ آپ ﷺ کا اندىشہ صحىح ثابت ہوا اور لوگوں نے امام علىؑ کى واہ واہ شروع کردى اور تعظىم کرتے ہوۓ کہنے لگے کہ واہ واہ کىا کہنے ىا علىؑ۔آپ کے ۔ نظام ولاىت کو ’’ واہ واہ ‘‘ نہىں چاہئے بلکہ اطاعت ، پىروى اور قبولىت چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اعلان ولاىت کرکےاپنا وظیفہ انتہائى احسن طرىقے سےپورا کردىا لىکن اب ’’ امت‘‘ کو اپنى ذمہ دارى نبھانا ہوگى اور قبولىت کے بعد اطاعت کے فرائض کو بخوبى پورا کرنا ہوگا۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔  استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 09:23
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

معجونى اور پروپىگنڈہ دىن مىں بىنا و نا بىنا ، اعمىٰ و بصىر ، با فہم و نا فہم ، بابصىرت و بے بصىرت، بانور و بے نور اور باشعور و بے شعور ىکساں دکھائى دىتے ہىں ۔ لىکن قرآن کرىم خالص اور ملاوٹ سے پاک تعلىمات دونوں راہوں مىں فرق اور جدائى کو عقىدہ اور دىن بنا کر پىش کرتا ہے ۔ اس لئے ان راستوں مىں جدائى کرنا صرف اىک سادہ عمل نہىں بلکہ الٰہى دىن و مکتب کا تقاضا اور اىسا اٹل و مضبوط عقىدہ ہے جس کى بناء پر انسان کے نفس مىں طاغوت سے ٹکرا جانے کا حوصلہ پىدا ہوجاتا ہے ۔(۱)

 

 


حوالہ:

استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 09:17
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

امام علىؑ کو  جو غم و دکھ اپنى قوم کى جانب سے ملے ان مىں سے انتہائى تکلىف دہ غم ان راستوں کوآپس مىں مخلوط کرنا تھا جن کواللہ تعالىٰ نے جدا اور الگ الگ رکھا تھا ۔

دلوں مىں پڑے ہوۓ حجالوں کى وجہ سے ہم ان کى تلخى اور سختى سے نا آشنا ہىں ورنہ ان کى سنگىنى اس قدر شدىد ہے کہ زخموں کى تاب لاتے ہوۓ موت سے گلے لگانا آسان ہے جبکہ ان جدا راستوں کو ىکجا دىکھنا امر دشوار اور کٹھن مرحلہ ہے ۔ امىر المومنىنؑ کو جب ابن ملجم ملعون نے شمشىر کا گہرا گھاؤ لگاىا تو آپؑ نے ان جملات کو ادا کىا:

فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ. (خصائص الائمہ،شریف  رضىؒ ۴۰۶ھ،ص۶۳)

مىں کامىاب  ہوگىا  ربِّ کعبہ کى قسم۔

لىکن جب معاملہ ’’خلافت ’’ شورىٰ پر جا پہنچا اور آپؑ کو اصحابِ شورىٰ کے ساتھ کھڑا کىا گىا اور ان کے ساتھ موازنہ کىا گىا تو امىر المومنىن ؑ کے سىنے سے بے اختىار فرىاد ان جملات کى صورت مىں بلند ہوئى :

زَعَمَ‏ أَنِّی‏ مِنْهُمْ‏ فَیَا لَلَّهِ لَهُمْ وَ لِلشُّورَى‏.(علل الشرائع،،شىخ صدوقؒ،ص۱۵۱،باب:۱۲۲، حدىث:۱۲ )

انہوں نے ىہ گمان کىا ہے کہ مىں بھى ان مىں سے ہوں ، ىا الٰہى ، کہاں مىں اور کہاں ىہ شورىٰ۔(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:30
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

قرآن کرىم کى واضح تعلىمات ہىں کہ انسان کو حق و باطل مىں فرق کرکے حق کا اعلانىہ طور پر ساتھ دىنا چاہئے ۔ ہمىں اىسے وسوسوں ، مشوروں اور آوازوں پر کان نہىں دھرنے چاہئے جو اچھائى اور برائى مىں فرق کو ختم کرنے کا درس دىتے ہوں ۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسى کو برا نہ کہو ، صرف اپنى قبر کى فکر کرو ، کسى دوسرے سے کىا لىنا دىنا صرف اپنے آپ کو دىکھو ، انسان صرف اپنے عمل کا جوابدہ ہے اس لئے کسى کو کچھ مت کہو۔۔۔۔ وغىرہ ۔

اس طرح کا طرزِتفکر و خىالات و اعتقادات معاشروں کے قاتل شمار ہوتے ہىں اور انسانوں کو ہداىت کى زندگى سے نکال کر گمراہى کى وادىوں مىں بھٹکا دىتے ہىں ۔ ىہ طرزِ عمل سبب بنتا ہے کہ معاشروں مىں ’’ اچھے اور برے‘‘ کے معىار کو قدموں تلے روندے دىا جاتا ہے جس کى وجہ سے معاشرے فرعوں نما حکمرانوں کے پنجوں کى گرفت مىں جکڑے جاتے ہىں اور لوگ قتل و غارت ، فتنہ و فساد اور نا انصافىوں مىں ذلت کى زندگى بسر کرنے لگ جاتے ہىں ۔ معاشرتى و سىاسى نظاموں کے بارے بھى اسى طرح کى باتىں کى جاتى ہىں ، مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاںکو ووٹ دو کم از کم اپنے قوم و قبىلے کا بندہ ہے ۔۔۔جب معاشرے اىسے آفت زدہ اور زہرىلے افکار و نظرىات سے آلودہ ہوتو کىسے توقع رکھى جاسکتى ہے کہ اىسے معاشرے مىں فواحش ، فساد،قتل و غارت، نا انصافىوں اور انسانى اقدار کى پامالى نہ ہو؟(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:21
عون نقوی