بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

آزادی کا ڈھونگ رچانے والے

اب تک ہم نے اسلام کے انسان کی اندرونی، بیرونی، انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بارے نظریات کو جانا۔ اب دیکھتے ہیں ان افراد کی تاریخ اور وہ سیاہ کارنامے کہ جو اب دعوے دار ہیں کہ اسلام، آزادی اور حقوقِ بشر کے متضاد نظریات رکھتا ہے، جبکہ ہم آزادی اور حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو آزادی کے متضاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ’’ماڈرن غلامی‘‘ کو اجراء کیا ہے۔ ماڈرن غلامی کیسے بھلا؟ یعنی ماضی کی طرح لوگوں کو غلام بنانا لیکن اور طریقے سے، جنگ عظیم دوم میں جب یورپ بھرپور ترقی کر چکا تھا اور غلامی کو لغو کرنے کا دعوے دار تھا، اسی یورپ نے کئی ملین افراد کو آوارہ کیا، لاکھوں لوگوں کو اسیر کیا، غلامی سے بدتر افراد کو برباد اور آوارہ کیا۔ نمونے کے طور پر ’’الجزائر‘‘ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کو فرانس نے بدترین شکل میں تباہ و برباد کیا اور اس ملک کو اپںا مستعمرہ قرار دیتے ہوۓ ظلم ڈھاۓ۔ کیا یہ غلامی نہیں؟ کیا لوگوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانا، اسارت میں لینا، ان کے اموال کو غارت کرنا اور ان کے غنائم کو چرا کر لے جانا آزادی ہے؟ یہ کسی کو غلام بنانا نہیں تو اور کیا ہے؟ جنگ عظیم میں بہت سے ملکوں کو لوٹا اور حقیقت میں ان کو اپںا غلام بنایا گیا۔ ممالک سے ان کا استقلال چھینا ان کی آزادی چھینی اور بری طرح سے استعمار کیا۔

ایران میں استعماریت

خود ایران میں جنگ عظیم ثانی کے بعد شاہِ ایران رضا خان کو انہوں نے ہٹا کر اس کے بیٹے کو بٹھایا، اور اس کے ذریعے بدترین طریقے سے ایرانی قوم کو لوٹا اور ان کے مال و متاع پر شب خون مارا۔ یہ شاہ ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے انگلیوں کے اشاروں پر ناچتا۔ یہ استعماری طاقتیں ایران میں دلسوزی کے عنوان سے آئیں، شمالِ ایران پر سوویت یونین قابض ہو گئی اور مغرب اور جنوب میں امریکی اور برطانوی۔ دوستی اور صلح کے عنوان سے ملک میں داخل ہوۓ اور کہا کہ شاہ کے جانے کے بعد ملک میں امنیت کو بحال کرنے کے لیے ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے آۓ ہیں لیکن بدترین طریقے سے ایران کو غارت کیا۔ ایرانی عوام کے اندر اسلامی فرہنگ، اسلامی آداب و رسوم، کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور معدنیات کو بھی بری طرح سے لوٹا۔ ایران کا شمال کہ جہاں پر سوویت یونین کے کمانڈوز مستقر تھے، کسی تہران کے باشندے کا اس علاقے میں جانا اتنا سخت کر دیا گیا کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں داخل ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ اس نالائق اور کٹھ پتلی شاہ کو ایک دن انہوں نے کہا کہ ایران کے سترہ شہروں کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس نالائق نے یہ سترہ شہر پلیٹ میں ڈال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ کیا یہ غلامی نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ آپ لوگ جو آزادی اور حقوق بشر کا شعار دے کر قوموں کو لوٹتے ہو کیا یہ بھی آزادی کا حصہ ہے یا غلامی ہے جس کا اسلام کو طعنہ دیا جاتا ہے؟

ممالک کی خودمختاری 

ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی بازخواست کیوں کی جاتی ہے؟ اگر ایران کے ساتھ کوئی ملک قراداد باندھتا ہے تو اس کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ اس قرارداد کو ختم کیا جاۓ؟ کیا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرار داد باندھنے میں بھی آپ کا پابند ہے؟ اس کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی کہ جس سے تعلق رکھے اور جس سے تعلق نہ رکھے اس سب میں وہ آزاد ہو؟ کیا امریکا کے سب غلام ہیں کہ اس کی بات مانیں؟ کیا یہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف نہیں؟ بے شک اس کو آپ کوئی دوسرا نام دے دو اور اپنے کام کی جس طرح سے بھی دلیل لے آؤ بہرحال یہ کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال کے متضاد ہے۔ اسی بیسویں صدی میں جب مغرب حقوقِ بشر کا جھنڈا اٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو آزادی اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے مسلمانوں کی سرزمین فسلطین پر غاصب اور صیہونی ریاست اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور پوری دنیا اور آزادی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔ نا صرف فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے استحصال پر خاموش اور تماشائی بنے رہے بلکہ خود آزادی کے دعوے دار امریکا نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ایک ملت کو ان کے گھروں سے آوارہ کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بے گانوں کو مقیم کر دیا گیا۔ کیا یہ بھی آزادی ہے؟(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۷،۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 January 22 ، 16:45
عون نقوی

انسان کو اللہ تعالی نے دو بہت اہم ترین قوتیں عطا کی ہیں۔

۱۔ شہوت کی قوت

۲۔ غضب کی قوت

اگر یہ دو قوتیں انسان کے قبضے میں ہوں تو انسان اپنے روح کی بہترین تربیت کر سکتا ہے۔ ان دونوں کا عقل کے تحت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر انسان سے یہ دو قوتیں کنٹرول نہ ہو پائیں تو سب سے پہلا کام جو یہ کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ روح کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ نتیجتاََ ہواۓ نفس انسان پر حاکم ہو جاتی ہے اور عقلِ انسانی اس بے لگام حاکم کی اسیر۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

کَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِیرٍ تَحْتَ هَوَی أَمِیرٍ.

بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہواؤ ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔(۱)

ایک اور حکمت میں ارشاد فرماتے ہیں:

الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لاَ دَارُ مَقَرٍّ وَ النَّاسُ فِیهَا رَجُلاَنِ رَجُلٌ بَاعَ فِیهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَ رَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا.

’’دنیا‘‘ اصل منزلِ قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے۔ اس میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خرید کر آزاد کر دیا۔(۲)

وہ انسان جس نے خود پر رحم نہیں کیا اور جہاد اکبر کے میدان میں نفسانی خواہشات نے اس کو چِت کر دیا در حقیقت اس نے خود کو شہوت اور غضب کا اسیر بنوا لیا۔ جب ایک انسان شہوت اور غضب کا اسیر ہو جاۓ تو پھر اس کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ اس کی شہوت اور غضب کی خدمت کرے گا۔ اس کے پاس جتنا عقل ہوگا اس کا صرف غلط استعمال کرے گا۔ ظاہر میں صاحبِ علم ہے لیکن علم سے صرف شہوت اور غضب کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ عقل کا استعمال کرتا ہے لیکن صرف اپنی شہوتوں کو پورا کرنے کے لیے عقل سے استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسانی معاشرے کو تباہ کرنا چاہے گا تو اپنے علم کی خدمات لے گا، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، عقلانیت اس کی صرف اس بات پر خرچ ہوگی کہ کیسے ایک انسانی معاشرے کو بمب سے اڑایا جاۓ؟ اس شخص پر غضب حاکم ہو چکا ہے۔ یہ حاکم جو کہتا جاۓ گا یہ اپنے علم اور عقل سے استفادہ کرتے ہوۓ مطیع غلاموں کی طرح اس پر عمل کرتا جاۓ گا۔ شہوت اور غضب کی قوت اس کو غلام سے غلام تر بناتی جاۓ گی ایک موقع پر یہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاۓ گا کہ اس کے راستے میں جو کوئی بھی آۓ گا اس کو ہٹا دے گا۔ حتی اللہ تعالی، اس کا نبی یا اس کا وصی۔ اپنی ہوا و ہوس کے آگے اگر خدا کی نہی آ جاۓ اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ کتنے ہی ایسے افراد تاریخ میں گزرے ہیں کہ انہوں نے صرف نبیؑ یا نبی کے وصی سے مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کو قتل کیا اور یہاں تک اکتفاء نہیں کیا بلکہ انبیاء کرامؑ کے حقیقی دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ہزاروں انسانوں کی گمراہی کا باعث بنے۔ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے خود کو شہوت اور غضب کا غلام بنا لیا۔

خود ابلیس کو دیکھ لیجیے، ابلیس کوئی معمولی شخصیت کا مالک نہیں تھا بلکہ یہ وہ تھا کہ جس نے چھ ہزار سال اللہ تعالی کی عبادت کی۔ امیرالمومنینؑ کی فرمائش کے مطابق معلوم نہیں یہ چھ ہزار سال دنیوی تھے یا اخروی؟ کیونکہ اگر قائل ہو جائیں کہ اخروی سال تھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اخروی ایک دن، دنیوی پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ البتہ خود امیرالمومنینؑ کے لیے تو یہ مسئلہ روشن تھا کہ یہ سال اخروی تھے یا دنیوی، لوگوں کے لیے یہ مسئلہ روشن نہیں۔ یہ عابد ترین شخصیت کا مالک موجود کیسے ایک منفور ترین شخص ہو گیا؟ جواب یہ ہے کہ جب اپنی شہوت کا غلام ہوا۔ جب تکبر اور لجاجت کی۔ اس نے کہا کہ میں بڑا ہوں، میرا نفس اور میرا وجود حضرت آدمؑ سے وسیع تر ہے۔ یہ میں اور نفس کی آواز اسے لے ڈوبی اور اس کی ہزار سالوں کی عبادت بھی ضائع ہو گئی۔ اس نے پہلے خود کو نفس کا اسیر بنایا اور پھر سب انسانوں کا ’’عدو مبین‘‘ بن کر سب انسانوں کو نفس کا اسیر بنانے میں لگ گیا۔(۳)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۱۱۔

۲۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۳۳۔

۳۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۵،۴۶۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 12:02
عون نقوی

۱۔ انسان آزادی پسند ہے لیکن اس کے لیے آزادی کا مفہوم مبہم ہے

بلا تفریق ہر انسان کی خواہش ہے کہ اسے سعادت اور آزادی حاصل ہو۔ کوئی بھی عاقل انسان ایسا نہیں جو سعادت اور آزاد ہونا نہ چاہتا ہو۔ انسان چاہے غرب کا ہو یا شرق کا وہ آزادی خواہ ہے، وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر انسان آزادی پسند ہے۔ ظاہری طور پر تو ہم سب سعادت اور آزادی چاہتے ہیں لیکن ان دو مفہوموں کے دقیق اور روشن معنی نہیں جانتے۔ کیا آزادی سے مراد صرف بدن کی آزادی ہے، اگر کسی کا بدن پابند سلاسل نہ ہو لیکن اس کی سوچ اور عقیدہ غلام ہو تو کیا پھر بھی وہ آزاد کہلاۓ گا؟ کیا نفس کی خواہشات میں محبوس شخص جسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور جو اپنے نفس کا غلام ہے کیا وہ بھی آزادی رکھتا ہے؟ کیا آزادی صرف بدن کی ہے؟ یا انسان سوچ کا، معاشرے کا، نفس کا یا روحی طور پر بھی غیر آزاد ہو سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے ابھارنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمیں سعادت اور آزادی کی درست تفسیر معلوم نہیں، کسی شخص کے نزدیک آزادی اور سعادت کچھ اور ہے اور دوسرے فرد کی نظر میں یہی دو مفہوم کسی اور معنی میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقی سعادت یا خوشبختی کی حدود کیا ہیں، اسی طرح سے مفہوم ’’آزادی‘‘ بھی ہے۔ ہر شخص آزادی چاہتا ہے لیکن اسے دقیق علم نہیں کہ آزادی کی حدود اور حقیقی تفسیر کیا ہے؟  

۲۔ آزادی کی مختلف تعریفیں

آزادی انسانی صفت ہے، اسلام بھی چاہتا ہے کہ انسان آزاد ہو اور غرب بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ ہمارا مکتب انسان کو آزادی فراہم کرتا ہے؟ جس آزادی کو اسلام آزادی کہتا ہے وہ غربیوں کے ہاں پابندی ہے اور جو مغربیوں کے ہاں آزادی کا نظریہ پایا جاتا ہے وہ آزادی اسلامی فکر کے مطابق درست نیہں۔ بقول استاد جوادی آملی آزادی کی تعریف انسان شناسی اور جہان بینی کی تعریف پر منحصر ہے۔ جس طرح سے آپ کی انسان شناسی ہے اسی طرح آپ آزادی کی تعریف کریں گے، یا جس طرح سے آپ جہان بینی کا نظریہ رکھتے ہیں ویسی ہی آپ آزادی کی تعریف کریں گے۔ بالفرض اگر ایک شخص کی جہان بینی یہ ہے کہ یہی جان اور جہان ہے ساٹھ ستر سال کی زندگی ہے، عیش و عشرت سے زندگی گزارو، اس شخص کی آزادی کی تعریف اور اس شخص کی آزادی کی تعریف جس کے نزدیک جہان اور یہ دنیا آخرت کے لیے کشت زار ہے فرق کرے گی۔ پس یہیں سے آزادی کی تعریف جو اسلام نے کی ہے وہ زمین تا آسمان اس تعریف سے جدا ہے جو مغربی مکاتب فکر نے کی۔ پس یہاں سے معلوم ہوا دونوں نے ایک ہی شے ایک ہی مفہوم ’’آزادی‘‘ کی تعریف الگ الگ کیوں کی؟ جواب یہ ہے کہ دونوں کی نظر میں جہان اور انسان کی تعریف اور اس کی حدود مختلف ہیں۔ مغربی تفکر نےجہان اور انسان کو ایک جدا جہت سے ملاحظہ کیا لیکن اسلام نے انسان اور جہان کے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا۔ 

۳۔ اسلام کا آزادی کے بارے میں نظریہ

مغربی تفکر نے آزادی کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کیا کہ انسان کو جتنی آزادی میسر ہو بہتر ہے؟ انسان کو کوئی بھی چیز اس کو آزاد رہنے سے نہیں روک سکتی۔ چاہے وہ خالقِ مخلوقات ہو، کوئی دین ہو یا اخلاقیات، اگر انسان کی آزادی کا راستہ روکتے ہیں تو یہ درست نہیں، اگر کوئی شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو ماننے سے اس کی آزادی سلب ہوتی ہے یا دوسروں کی آزادی کو ضرر پہنچتا ہے تو خدا کے حکم کو ترک کیا جاۓ گا اور انسان کی آزادی کو اولویت دینا ہوگی۔ اسی طرح سے دین کے احکام یا اخلاقیات ہیں جب تک کہ آپ کی آزادی سے نہیں ٹکراتے ٹھیک ہیں، لیکن اگر انسان کو کسی چیز کا مقید کرتے ہیں تو ان کو ترک کیا جاۓ۔ انسان کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہے۔ لیکن اسلام اس بات کا قائل ہے کہ انسان کے لیے آزادی کسی بھی صورت میں مطلق اور نامحدود نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے کہ آپ انسان کو کاملا آزادی دینے کا نظریہ اختیار کریں اس سے پہلے انسان کی طبیعت اور اس کی ذات کو درست درک کریں۔ یہ بات ہم بھی کرتے ہیں اور مغربی تفکر بھی اس بات کو قبول کرتا ہے کہ انسان ایک محدود ذات ہے۔ ہر ذات کی صفات اپنے وجود میں اس ذات کی تابع ہوتی ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ موصوف محدود ہو اور اس کی صفات نامحدود قرار پائیں۔ مثلا انسان ایک محدود ذات ہے لذا اس کی صفات بھی محدود ہونگی۔ انسان ایک محدود ذات ہے اس کی آزادی بھی محدود ہونی چاہیے، انسان کو نا محدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔ اس کے برعکس جو وجود نامحدود ہو اس کی صفات بھی نامحدود ہیں جیسا کہ ذات باری تعالی ہے۔ اس کی سب صفات مطلق اور نامحدود ہیں۔

۴۔ انسان تکوینی طور پر بہت محدود ہے

کامل طور پر انسان کو آزاد چھوڑ دینا انسان کی طبیعت اور ذات کے بھی بر خلاف ہے، اگر آپ انسان کی ذات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو تکوینی طور پر بہت کم اختیارات عطا ہوۓ ہیں، مثلا انسان بنا سانس لیے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، کھانا کھاے بغیر صرف کچھ دن تک زندہ رہ سکتا ہے، بنا سوۓ کوئی کام تمرکز سے نہیں کرسکتا، انسان دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتا، ہوا میں نہیں اڑ سکتا، دور سے آتی ہوئی چیز کو نہیں دیکھ سکتا، یہ وہ تکوینی امور ہیں جہاں انسان کو ہم مجبور دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہت محدود ذات عطا کی ہے لذا اس کی آزادی اور اختیار بھی لا محالہ محدود ہے۔ اس کے علاوہ قانونی، حقوقی اور اجتماعی قید و بند بھی انسان کی آزادی کو محصور کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اگر انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اور زیادہ محدود تر ہو جاتا ہے اگر خود کو محدود نہیں کرے گا تو خود اس کی ذات کے لیے ضرر ہے۔

۵۔ آزادی کے بارے میں درست نظریہ

انسان کے بارے میں درست نظریہ یہ ہے کہ وہ نا صرف تشریعی طور پر محدود اور مطلق آزادی نہیں رکھتا بلکہ تھوڑا سا غور کرنے سے علم ہو جاتا ہے کہ انسان تکوینی طور پر بھی بہت محدود ہے اور کاملاََ آزادی نہیں رکھتا۔ پس کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک انسان جو معاشرے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کو کاملا اور مطلق آزادی دے دی جاۓ اور معاشرہ ہرج و مرج کا شکار نہ ہو، کیا یہ معاشرہ سعادت اور کمال حاصل کر سکتا ہے؟

 

 


اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، آیت اللہ العظمی جوادی آملی حفظہ اللہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 December 21 ، 18:33
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

خبىث اور طىب کا تعلق ہمارى زندگى کے ہر شعبے سے ہے ۔ تمام شعبہ جات دو حصوں مىں تقسىم ہىں:

۱۔     پاک

۲۔    نا پاک

ہمىں ظاہرى زرق برق ، تعداد و کثرت ، سجاوٹ و آرائش اور مختلف طبقاتى رسم و رواج کى لپىٹ مىں نہىں آنا چاہئے کىونکہ بعض اوقات خبىث رزق کو بہت سجا دمکا کر سامنے لاىا جاتا ہے جىسے مىکڈونلڈز(Mcdonald's)جو مسلماً اسرائىل کى مدد کرتى ہے اور اس کے مقاصد کى تکمىل مىں حصہ دار ہے ہمارے معاشرے مىں رفت و آمد کى جگہ بنى ہوئى ہے اور لوگ اس کےزرق برق کو دىکھتے ہوۓ عقل و شعور کو کم کر کے اس کى طرف کھچے چلے جاتے ہىں ۔ لہٰذہ ہمىں متوجہ اور آگاہ رہنا چاہئے اور عقل و فکر سے کام لىنا چاہئے۔

 

 


حوالہ:

استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 October 21 ، 20:19
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

کچھ کام اىسے ہىں جو اللہ تعالى نے رسول کے ذمے کئے ہىں اور کچھ امور اىسے ہىں جن کو ہمارے اوپر عائد کىا ہے ۔ اللہ سبحانہ نے جو رسول مبعوث کئے ہىں ان کى ذمہ دارى ’’تعلىمات الٰہى ‘‘ پہنچانا ہے ۔ جبکہ ’’ منوانا‘‘ رسول کى ذمہ دارى نہىں ہے بلکہ ان تعلىمات کو قبول کرنا اوراطاعت کے فرائض انجام دىنا ہمارى ذمہ دارى ہے ۔

گوىااىک ذمہ دارى رسول کى ہے اور اىک اس کى امت کى ۔ اگر ہم معاشرت اور اپنے حالات کا بغور جائزہ لىں تو معلوم ہوگاکہ ہم نے سب کام رسول اور امام  پر چھوڑے ہوۓ ہىں ۔ ہم اىسا نظام چاہتے ہىں جس مىں سب کچھ’’ امام‘‘ نے انجام دىنا ہے اور ہم نے صرف امام کى بدولت چىزىں حاصل کرتے رہنا ہے ۔ جبکہ حقىقت اس سے ىکسر طور پر مختلف ہے ۔

 

 


حوالہ:

استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 October 21 ، 19:45
عون نقوی