بصیرت اخبار

۶۸ مطلب با موضوع «مفکرین اسلام» ثبت شده است

گزشتہ تحریروں میں ہم نے آزادی انسان، عبودیت اور قانون کے بارے میں مختصر طور پر جانا۔ یہاں پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان سب ابحاث کا ولایت فقیہ سے کیا تعلق ہے؟ آپ ولایت فقیہ کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں لیکن اس بیچ آزادی، انسان کا عبد ہونا، اور قانون کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ولایت فقیہ کے حقیقی مقدمے یہی ابحاث ہیں۔ یعنی اگر کسی شخص کے لیے یہ امر واضح نہیں کہ وہ آزاد ہے یا نہیں؟ آزادی سے مراد کیا ہے ؟ عبد ہے یا نہیں اور اگر عبد ہے تو عبودیت کے تقاضے کیا ہیں؟ قانون کیا ہے ؟ قانون کی کیا خصوصیات ہیں؟ اور قانون کون بناۓ؟ قانون بشری ہونا چاہیے یا الہی؟ اگر ان سوالوں کے جوابات ہم جان لیں تو تب ولایت فقیہ کی بحث کی نوبت آتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم قائل ہو گئے کہ ہم عبد ہیں اور عبد صرف الہی قانون کی پیروی کرتا ہے تو تب جا کر ولایت فقیہ کا دروازہ کھلے گا۔ یعنی سوال پیدا ہوگا کہ الہی قانون کواللہ تعالی سے کس نے لانا ہے اور کس نے نافذ کرنا ہے؟ آیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے یا اس کو نافذ کرنے والا بھی موجود ہو؟اس لیے ان مقدمات کا حل ہونا ضروری ہے۔

قانون بنانے کا حق

ہم نے عقلی دلیل سے ثابت کیا کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔اس سے پہلے ہم نے یہ موضوع بھی زیر بحث لایا کہ قانون بنانے والے کے اندر کیا خصوصیات ہوں؟اور خود قانون کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اس میں ہم نے بیان کیا کہ جو ذات قانون بنا رہی ہو اس کو انسان کی ضروریات کا بہت دقیق علم ہو؟ انسان کی حاجات  کو جانتا ہو، با الفاظ دیگر انسان شناسی اور جہان شناسی رکھے۔ دوسری خصوصیت اس میں یہ ہو کہ انسان کے نفع اور خسارے کے بارے میں جانتا ہو۔ اگر اس کو یہ علم نہ ہو تو بہت نقصان ہوگا جیسا کہ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے جنگی فیصلے یا بادشاہوں کے فیصلے جو ناسمجھی کی وجہ سے ہوۓ ان کا کتنا نقصان ہوا۔  قانون بنانے والے کو خصوصی طور پر علم ہو کہ انسان کا کائنات سے کیا رابطہ ہے اور کیسا رابطہ ہونا چاہیے؟ اس کو علم ہو کہ انسان اس کائنات میں کونسی چیز کھاۓ تو وہ اس کے لیے مفید ہے اور کونسی چیز کھاۓ تو اس کے لیے مضر ہے۔ اس کو علم ہو کہ انسان نے جہان سے کیا اور کیسا ربط رکھنا ہے؟ آیا انسان ایٹم بم بناۓ یا نہ بناۓ؟ انسان  وائرس بناۓ یا نہ بناۓ؟ علم اور ٹیکنالوجی کا کس طرح کا استعمال کرے؟ کونسی عادات اور اطوار رکھے ؟ ایسا نہ ہو کہ سب کچھ احتمال کی بنا پر انجام دے اور انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔ مثلا خود مغربیوں نے پہلے ایٹم بم بنایا اس سے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا اور پھر بعد میں کہا کہ ایٹم بم تو نہیں بنانا چاہیے یہ غلط کام ہو گیا۔ خود بنا بھی لیا اور استعمال بھی کر لیا اور دوسروں پر پابندیاں لگا دیں کہ آپ ایٹمی توانائی نہیں حاصل کر سکتے۔قانون بنانے والے کو انسان کی طبیعت کا دقیق علم ہو، انسان کے اندرون اور بیرون کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہو۔ کیونکہ اگر قانون بناتے ہوۓ انسان کے اندرون کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو فائدہ نہیں۔ تزکیہ نفس کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔ تزکیہ نفس انسان کو اندر سے تبدیل کرتا ہے اور اگر انسان اندر سے اصلاح ہو جاۓ تب جا کر قانون کی پیروی کرتا ہے۔ جب ان خصوصیات کو ہم دیکھتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب خصوصیات کسی انسان میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے جو ان سب خصوصیات کا مجموعہ ہے۔  اگرچہ مغربی اس کے دعوے دار ہیں کہ ہم خود قانون بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف دعوی ہے ، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خود مغرب نے آج سے چندسال پہلے فیصلے کیے اور معاشروں میں قانون بناۓ آج ان پر پشیمان ہے۔ پہلے خود فیملی سسٹم کو نابود کیا، محرم نامحرم کی قید کو ختم کیا جنسی شہوات کو ابھار او رآج ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب  اس فیصلے پر پشیمان ہے ، کیونکہ مغرب میں اس حد تک افسردگی اور ڈپریشن پھیل گئی ہے کہ نوجوانی کی عمر میں افراد خودکشی کرنے لگے ہیں اور اب چاہتے ہیں کہ فیملی سسٹم کو دوبارہ احیاء کیا جاۓ۔

الہی قانون کا حصول

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ قانون صرف الہی ہو۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالی سے قانون کیسے لیں؟ کیا بلاواسطہ طور پر ہم اللہ تعالی سے قانون لے سکتے ہیں یا کسی واسطے کی ضرورت ہے؟ظاہر ہے ہم بلاواسطہ طور پر اللہ تعالی سے ارتباط برقرار نہیں کر سکتے حتما درمیان میں واسطہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا وجود بہت ضعیف ہے اور اللہ تعالی کا وجود لامحدود اور وسیع۔ اگر مثال سے ہم اس کو ہم سمجھانا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ایک ۱۰۰ واٹ والے بلب کو روشن کرنے کے لیے اسے بلاواسطہ طور پر ہم ٹرانسفارمر سے نہیں جوڑ سکتے، کیونکہ اس میں ہزاروں واٹ بجلی موجود ہے اور اگر ایک لحظے کے لیے بھی اس کو جوڑا تو یہ پھٹ جاۓ گا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہمارے اندر اتنی  وسعت نہیں کہ بلاواسطہ اس ذات سے ارتباط برقرار کریں۔ اس لیے نبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔وہ واسطہ جو اللہ تعالی اور بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اس کو نبوت کہتے ہیں۔نبوت کیوں ضروری ہے اور اس پر ہمارے پاس کیا دلیل ہے اس کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں بیان کیا جاۓ گا۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی ، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 22 ، 11:13
عون نقوی

انسان کو اللہ تعالی نے آزادی عطا کی ہے۔ اس آزادی کو حدود میں رکھنے کے لیے انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مغربی مفکرین اور اسلامی مفکرین کا اتفاق ہے کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹا سا ادارہ بھی اگر آپ بنانا چاہیں اس کے اندر اگر قوانین حاکم نہ ہوۓ تو یہ ادارہ نہیں چل سکے گا۔ حتی معاشرے کی ابتدائی ترین اکائی خانوادہ بھی قانون کے بغیر نہیں باقی رکھا جا سکتا۔ مثلا اگر بچوں کے دین کا اہتمام نہ کیا گیا اور ان کو دینی محافل میں آپ خود نہ لے کر گئے، ان کی مادی ضروریات پوری کیں اور معنویت کی طرف توجہ نہ دی تو گمراہ ہو جائیں گے۔ ایسا بھی نہیں کہ جبری طور پر بچوں کو دین کی طرف راغب کیا جاۓ لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک ایسی صورت اختیار کی جاۓ کہ بچے فطرتی امور سے قریب رہیں اور معنویات کو قبول کرنے میں ہم ان کی معاونت کریں۔ پس قانون کی شکل میں یا ہدایت کی صورت میں ہمیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔

گزشتہ تحریر میں ہم نے بیان کیا کہ انسان کی سرکش طبع کی وجہ سے قانون کی ضرورت پیدا ہوئی اگر سب انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارتے تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ ہمیں فطرت کو ابھارنے کی ضرورت ہے یہی کام رسول اللہ ﷺ نے کیا جب مدینہ میں حکومت تشکیل دی تو مسلمانوں میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی۔ ابتداۓ اسلام میں ہم ان فطری امور کو بہت دیکھتے ہیں مثلا جنگ میں جب ایک پیاسے زخمی مسلمان بھائی نے دوسرے پیاسے بھائی کو دیکھا تو پانی پلانے والے کو کہا کہ اسے پانی پلاؤ بعد میں مجھے پلانا، یا مسلمانوں کا مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کو پیش کرنا اور ان کی مہمان نوازی یہ ایثار اور قربانی کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی فطرت کو ابھارا اور ان مسلمانوں نے یہ عظیم مثالیں قائم کیں۔ لیکن اگر انسان کو اس کی طبع کے میلان پر چھوڑ دیں تو یہی انسان سرکش اور طاغوت بن جاتا ہے۔

قانون کون بناۓ؟

ہم نے جان لیا کہ انسان طبیعی میلان بھی رکھتا ہے اور فطرت بھی۔ اس مقدمے کے بعد ہم پر واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کی طبع کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ لیکن اساسی ترین سوال یہ ہے کہ قانون بناۓ کون؟ قانون الہی ہو یا بشری؟ ایک ادارے میں قانون بنانے ہیں ان کو کون وضع کرے؟ کیا ادارے کا مدیر قانون بناۓ یا ادارے میں کام کرنے والا؟ ایک معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں قانون کی ضرورت ہے، یہ قانون عوام بنائیں؟ سیاستدان بنائیں؟ کون بناۓ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ قانون بنانے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ انسان عبد ہے اور عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔

قانون الہی ہونا چاہیے

قانون بنانے والے میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں؟ اور خود قانون میں کونسی خصوصیات ہونی چاہئیں؟ پہلے سوال کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ قانون بنانے والے میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:

۱۔ عالم ہو جاہل نہ ہو۔

۲۔ قانون بنانے میں انصاف سے کام لے، کسی پر ظلم نہ کرے۔

۳۔ اپنے علم پر اسے یقین ہو، شکوک و شبہات یا احتمالات کی بنا پر قانون نہ بناۓ۔

۴۔ صاحب حکمت ہو، کوئی ایسا قانون نہ بناۓ جو بعد میں باعث نقصان ثابت ہو۔

دوسرے سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قانون کیسا ہو؟ اس قانون میں کونسی خصوصیات ہوں؟

۱۔ قانون سعادت مندی کا راستہ بتاۓ۔ قانون ایسا نہ بنایا جاۓ جو انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ۔

۲۔ قانون انسان کی نشو و نما کا باعث بنے۔ اس کی صحت و سلامتی کا ضامن ہو۔ 

کائنات میں ہمیں انسانوں اور باقی مخلوقات کا مجموعہ نظر آتا ہے۔ کیا انسان اس کائنات کے بارے یا اپنے بارے میں اس مقدار کی وسیع معلومات رکھتا ہے کہ ایسا جامع اور کامل قانون بنا سکے؟ یعنی کیا انسان یہ سب جانتا ہے کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے؟ کس چیز سے کیا سلوک کرنا ہے اور کیا سلوک نہیں کرنا؟ حشرات، چوپاۓ، اور جانوروں سے کیا سلوک رکھے؟ دریا، سمندر، نباتات اور جمادات سے کیا تعلق واسطہ رکھے؟ کونسی چیز اس کے لیے مضر ہے اور کونسی مفید؟ کیا انسان ان سب کے بارے میں ان سب خصوصیات کو رکھتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں کہ قانون بنانے والے میں یہ خصوصیات ہونی چاہیئں؟ کیونکہ اگر کوئی ذات یہ خصوصیات نہیں رکھتی، قانون کو علمی بنیادوں پر نہیں بنا سکتی، قانون کو شکوک و شبہات اور احتمالات کی بنیاد پر بناتی ہے تو اس ذات کو قانون بنانے کا کوئی حق نہیں۔ اگر اس نے قانون بنایا بھی تو وہ انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ گا۔ صرف ایک ذات ہے جو ان سب خصوصیات کی مالک ہے اور وہی ذات ایسا قانون بنا سکتی ہے جو سعادت مند بھی ہو اور انسان کے لیے نفع بخش۔ اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔

اس لیے قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ.(۱)

اس برہان کے تحت ہم کہتے ہیں کہ قانون صرف الہی ہونا چاہیے۔

بشری قانون کی ممانعت

انسان اور جہان تکوین کے مقام، اور اپنی ہستی کے وجود میں اللہ تعالی کے عبد ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان قانونگذاری میں بھی اللہ تعالی کا عبد ہے۔ انسان چار پہلو رکھتا ہے اور چاروں پہلوؤں میں اللہ تعالی کا محتاج ہے۔

۱۔ انسان کی ذات

۲۔ انسان کی صفات

۳۔ انسان کا فعل

۴۔ انسان کے فعل کا اثر

انسان اپنی ذات اور صفات میں خدا کا محتاج ہے اگر خدا نے اسے وجود نہ دیا ہوتا تو اس کی ذات نہ ہوتی، خدا نے اسے وجود دیا اور بعد میں اسے اعلی انسانی اوصاف سے نوازا۔ انسان فعل انجام دینے اور اس فعل کے مؤثر ہونے میں بھی خدا کا محتاج ہے۔ جب انسان ان سب چیزوں میں محتاج ہے تو وہ کیسے سعادت مند قانون بنا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک جتنے بھی بشر نے قانون بناۓ چند سالوں میں ہی ان کا مضر ہونا سب پر عیان ہو گیا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب جب بھی کوئی قانون بناتا ہے تو خود پچاس سال بعد اس کو خود باطل کر دیتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ یہ غلط ہوا۔ یعنی تین چار نسلیں تباہ کر کے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو غلط ہو گیا۔ ضروری ہے کہ ایسے قانون کو معاشرے میں حاکم کیا جاۓ جو کامل ہو اور جامعیت رکھتا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ آج اسلامی معاشروں میں قانون اور نظام ان افراد کا بنایا ہوا ہے جو اصلا الہی قانون کے قائل نہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی نظام فرانس کا دیا ہوا، عدالتی نظام برطانیہ کا دیا ہوا، اور تعلیمی نظام بھی انہیں مغربیوں کا دیا ہوا۔ 

عالم تشیع میں قانون

اگر شیعہ دنیا میں دیکھا جاۓ تو شیعہ نے جزئیات اور انفرادی دنیا کے لیے تو الہی قانون کو تسلیم کیا۔ آج بھی پوری دنیا میں مجتہد کا فتوی شیعہ تسلیم کرتا ہے چاہے وہ مغرب زمین کا شیعہ ہو یا مشرق زمین کا۔ اگر معاملہ زندگی کے جزئی معاملات کا ہے، عبادات کا یا بالفرض طلاق اور نکاح کا تو یہاں پر ہم فتوی کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں پر واضح رہے کہ فتوی سے مراد فقیہ کی اپنی مرضی نہیں کہ اس نے یہ بات پسند کی ہے تو ہم بھی مان لیں۔ فتوی سے مراد ایک فقیہ کا قرآن و روایات سے ایک فقہی مسئلہ استخراج کرنا ہے نا کہ اس کی اپنی بات۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ فتاوی کا اثر انسان کی اجتماعی زندگی سے زیادہ انفرادی زندگی سے مربوط ہے۔ لیکن یہ وہ چیز نہیں جو یہاں ہمارے مدنظر ہے اور اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اجتماعی طور پر الہی قانون کو مانا جاۓ اور اس کے مطابق زندگی گزاری جاۓ۔ یعنی ہمارے سیاسی، عدالتی، تعلیمی، اقتصادی اور دفاعی نظام الہی قانون کے مطابق ہوں۔(۲)

آخر میں یہ سوال ابھار کر تحریر کو ختم کیا جا رہا ہے کہ کیا الہی قانون کا ہونا کافی ہے؟ یعنی اگر الہی قانون موجود ہو لیکن اس قانون کو لاگو کرنے والا نہ ہو تو کیا صرف قانون کا ہونا کفایت کرے گا یا قانون کو نافذ کرنے والا بھی ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب آئندہ تحریروں میں پیش کیا جاۓ گا؟

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ انعام: ۵۷۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۳تا۵۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 22 ، 21:37
عون نقوی

تشکیل حکومت و قانون سازی

اسلام نے انسانوں کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھایا ہے۔ اس آزادی کو حاصل کر لینے کے بعد انسان غیر خدا سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور یہی تحفہ ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دیا اور تمام انبیاء الہی کا پیغام بھی تھا۔ آج مغربی مفکرین اس بات پر حیران ہیں کہ کس طرح ایک شخص نے ایک دور افتادہ منطقہ بنامِ عرب جہاں منتشر قبیلوں میں زندگی گزارنے والے افراد مقیم تھے، ان کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا قائل کر لیا گیا؟ اور ان پر حکومت قائم کی گئی۔ ایک امت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوا جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو حقیقی آزادی میسر کی۔ وہ لوگ جو آپس میں لڑتے جھگڑتے اور خواہشات نفسانی کے اسیر تھے ان کو ایمان کی قوت سے سرشار کیا۔ اس قوت سے معنوی آزادی دی تب جا کر امت بنے۔ رسول اللہ ﷺ نے امت بنا کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ پھر بھی طبع انسانی کو مدنظر رکھتے ہوۓ قانون بنایا۔ نظم و ضبط کو قائم رکھنے کے لیے حکومت قائم کی۔

اس مختصر مقدمے کے بعد جب ہم نے مان لیا کہ انسان کو آزادی حاصل ہے اس کے بعد عقل حکم کرتی ہے کہ بہرحال معاشرے کو قانون کی بھی ضرورت ہے۔ معاشرے کو کسی ایسے امر کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کا نظم و ضبط قائم رہے۔ انسان کو ہر صورت میں قانون کی ضرورت ہے چاہے یہ قانون اس کی آزادی کو ایک حد تک محدود بھی کیوں نہ کردے پھر بھی اس کو قانون کی ضرورت سے مستثنی نہیں قرار دیا جا سکتا۔

قانون کی ضرورت

مغربی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے افراد کنٹرول میں رہتے ہیں اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہوتا ہے۔ خود قانون کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قانون آزادی اور نظم کے لیے ضروری ہے۔ یعنی اگر قانون کے بغیر یہ سب ممکن ہو جاۓ تو ویاں پر اصلا قانون کی ضرورت نہیں۔ در اصل ان کے بقول اگر نفسِ انسان سرکشی کرتا ہے یا انفرادی طور پر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے ہمیں کیا؟ سرکشی صرف اس وقت قبیح ہے جب کسی دوسرے انسان کی حریم میں داخل ہوا جاۓ۔ اسلامی مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے اس کی سرکش طبع کی وجہ سے،  اگر سارے انسان فطرت کے مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو قانون کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا اس کی طبع کی طرف رججان زیادہ ہے جو اسے سرکشی کی طرف راغب کرتی ہے جس کی وجہ سے قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔

علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ معاشرے کو قانون کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ انسان کی طبع ’’استخدام گر‘‘ ہے۔(۱) استخدام گر سے مراد یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کی خدمت کریں، دوسرے اس کا مفاد پورا کریں۔ لوگوں سے اپنی ضروریات پورا کروانا چاہتا ہے ہر قیمت پر۔ مانتے ہیں کہ انسان فطری طور پر موحد ہے اور عبودیت کو قبول کرتا ہے لیکن اس کی طبع استخدام گر ہے۔ انسان کو اگر ’’طین‘‘ کی جہت سے دیکھیں تو طبیعی صبغہ رکھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ.

میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔(۲)

لیکن اگر انسان کو اس کی روح کی جہت سے دیکھا جاۓ تو فطری صبغہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ.

اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں۔(۳)

انسان اپنی فطرت کی اساس پر ایک ایسا عالم، عارف ہے جو قسط و عدالت کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اپنی طبیعت کی اساس پر استخدام گر اور مفاد پرست ہے۔ انسان کا عالمِ طبیعت سے رابطہ محسوس اور نزدیک ہے لیکن عالمِ فطرت سے انس تقریبا دور کا ہے۔ اگر اسے طبیعت کی اساس پر چھوڑ دیا جاۓ تو دوسروں کو اپنا غلام بناتا جاۓ گا۔ جتنی زیادہ ضروریات پورا کرتا جاۓ گا پھر بھی محسوس کرے گا کہ ابھی بھی کم ہے۔ ہر شخص پر ہاتھ ڈالے گا، ہر زمین کو اپنی مالکیت میں لانا چاہے گا اور ہر لذت کا مزہ چکھنا چاہے گا مگر یہ کہ کوئی چیز اس کی توان سے باہر ہو۔ انسان کی طبیعت کبھی بھی راضی نہیں ہوتی حتی کرہ ارض اس کے اختیار میں دے دیں تمام چرند پرند پر حاکم کر دیں۔

انسانی طبع کی مذمت

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی انسان کی مذمت وارد ہوئی ہے وہاں پر دراصل انسان کی اسی سرکش طبع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر اس انسان کا دوسروں پر اختیار ہو تو فرعون بن جاتا ہے اور ’’انا ربکم الاعلی‘‘(۴) کا دعوی کرتا ہے۔ اس مقدمے کو جاننے کے بعد اگر کوئی انسان کہے کہ ہمیں کسی قانون اور نظم و ضبط کی ضرورت نہیں تو یقینا اس کی بات کو رد کیا جاۓ گا۔ بہرحال آپ کو قانون بنانے اور اس کے مطابق سب کو زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہوگا ورنہ طبیعت انسان معاشرے کے امن کو نابود کر دے گی۔ انسان کو ہم اس وقت انسان کہیں گے جب اس کی زندگی بقیہ مخلوقات مثلا پیڑ پودے یا چوپاؤں سے جدا ہو۔ انسان اس وقت انسان ہے جب اس کا دوسرے انسانوں کے ساتھ ارتباط اور ہماہنگی ہو۔

پس یہاں پر واضح ہو گیا کہ انسان کو قانون کی ضرورت ہے۔ قانون اس لیے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے حقوق کو پائمال نہ کرے۔ قانون اس لیے کہ کوئی اپنی بات دوسرے پر نہ ٹھونس دے۔ اگر یہ قانون معاشرے میں حاکم ہو گیا تو نظم پیدا ہوگا جس سے انسان کی اجتماعی حیثیت ظہور کرے گی۔ اجتماعی زندگی شروع ہوگی اور حیوانی اور نباتی زندگی سے ممتاز ہو جاۓ گا۔

قانون کی خصوصیات

اب جبکہ ہم نے مان لیا معاشرے کو قانون کی ضرورت ہے۔ سوال پیدا ہوگا کہ قانون کیسا ہو اور قانون بنانے والا کون ہے؟ جامع اور کامل قانون وہ قانون ہے جس میں انسان کی ہستی کی تمام جہات کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اس قانون میں انسان کی استعدادوں کو شکوفا ہونے کے لیے مکمل طور پر اہتمام کیا گیا ہو۔ اگر قانون میں انسان کی ایک جہت (طبع) کو ملاحظہ رکھا گیا لیکن دوسری جہت (فطرت) کو ملاحظہ نہیں رکھا گیا تو یہ قانون جامع نہ ہوگا۔ اگر انسان کی اخلاقی اور اعتقادی ابعاد کو قانون میں ملحوظ نہ رکھا گیا یہ قانون انسان کی سعادت کے لیے ناکافی ہے۔ آج جس مصیبت کا شکار ہمارے معاشرے ہیں اس کی یہی وجہ ہے کہ معاشروں پر ایسے قوانین حاکم ہیں جو جامع نہیں۔ اگر قانون میں اخلاق اور عقائد شامل نہ ہوں جو انسان کی سرکش طبیعت کو تعادل میں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں، تو یہ معاشرہ ممکن نہیں ہرج و مرج سے امان میں ہوں۔ اس معاشرے میں پھر انسانوں کی شکل میں حیوان گھومیں گے جو سرکشی اور تجاوز کرنا جانتے ہیں اور بس۔ قرآن کریم میں انہیں کے بارے میں فرمایا ہے:

 اِنۡ همۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ همۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا.

یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔(۵)

یہاں پر جن انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا گیا ہے یہ وہ ہیں جو سرکش اور متجاوز ہیں۔ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، عین اس جانور کی طرح جس کو علم نہیں کہ یہ گھاس اس کا ہے یا کسی اور کا؟ البتہ اس انسان کو علم ہوتا ہے کہ کونسی چیز اس کی اپنی ہے اور کونسی چیز دوسرے کا مال ہے لیکن پھر بھی اس کی طرف بڑھتا ہے اور تجاوز کرتا ہے۔(۶)

 


حوالہ جات:

۱۔ طباطبائیؒ، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۱، ص۱۵۵۔

۲۔ ص:۷۱۔

۳۔ ص: ۷۲۔

۴۔ نازعات: ۲۴

۵۔ فرقان: ۴۴۔

۶۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۵۰تا۵۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 22 ، 19:26
عون نقوی

آیت اللہ مصباح یزدی رحمۃ اللہ علیہ

مغربى تمدن میں دین کو ہمہ گیرى حاصل نہیں ہے اور دین کى  اس طرح سے تعریف کى گئى ہے کہ دین کا تعلق اجتماعى و سیاسى  مسائل سے نہیں ، دین صرف انسان اور خدا کے درمیان رابطہ تک محدود ہے اور ایک فرد کا ذاتى رابطہ خدا سے کیا ہے صرف اس چیز کو دین کے دائرے میں مجسم کیا گیا ہے، لہذا سیاسى ، اجتماعى اور بین الاقوامى مسائل حکومت اور عوام کے درمیان اور اسى طرح حکومتوں کے ایک دوسرے سے روابط، انسان اور خدا کے رابطہ کے دائرے سے باہر تصور کئے جاتے ہیں لہذا نتیجہ میں ان کا دین سے کوئى رابطہ نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے دین ایک وسیع اور جامع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں انسان کے تمام فردى اور اجتماعى مسائل شامل ہیں اور اس کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ اور دیگر سیاسى و اجتماعى اور بین الاقوامى روابط سبھى آتے ہیں ، یعنى یہ سارى باتیں دین ہیں ، چونکہ اسلام کے اعتبار سے خداوند عالم پورى دنیا اور تمام انسانوں پر حاکم ہے لہذا سیاست ، اقتصاد ، تعلیم و تربیت، انتظام و انصرام اور وہ تمام مسائل جو انسانى زندگى سے متعلق ہیں وہ سب دینى احکام اور مذہبى اقدار میں شامل ہیں۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ اسلام اور سیاست ، مجموعہ از تقاریر آیت اللہ مصباح یزدی دام ظلہ العالی۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:45
عون نقوی

آیت اللہ مصباح یزدى رحمۃ اللہ فرماتے ہیں

ہمارا یہ نظام یعنی نظام اسلامی (ولایتِ فقیہ) ہزاروں انسانوں کی قربانیوں اور فدا کاریوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا اسلامی ہونا اس کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس نظام اسلامى کے برپا ہونے کے کئی عوامل ہیں جن کا محور اور مرکز اسلام ہے۔

اس کا ایک نظام کے طور پر باقی رہنا اس وقت  ممکن ہے جب اس کى اس خصوصیتِ (اسلام) کو باقی رکھا جائے ۔
 اسلامی نظام کے دو اہم ترین شعبوں کا اسلام کے عین مطابق ہونا ضروری ہے:

(۱) قانون بنانا
(۲) قانون کا عملی کرنا

ایک نظام کے اندرخصوصیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کو قبول کرنے والوں کے اندر یہ خصوصیت (یعنى اسلام کو محور قرار دینا) پائی جاتی ہو ۔ اگر خدا نخوستہ معاشرہ عقائد و افکار کو فراموش کردے اور عقائدى و نظریاتى انحراف کی طرف چلا جائے اور اسلامى اقدار آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے تو نظام اسلامی کی بنیادیں کمزور ہونا شروع ہوجائیں گی اور اس کی بقاء  کی کوئی  ضمانت نہیں ہو گی۔ ایسى صورت میں ممکن ہے نام تو اسلامی حکومت کا رہے لیکن حقیقت نظام اسلامی موجود نہیں ہو گى۔ ابتداء اسلامى میں اس کا تجربہ ہو چکا ہے (جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ بھى ہے) کہ رحلت رسول اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ کے کچھ عرصہ بعد نظام الہی اور اسلامی حکومت طاغوت میں تبدیل ہو گیا، بنو امیہ اور بنو عباس کى سلطنتیں تشکیل پا گئیں اور اسلام صرف نام کا رہ گیا۔ (اس کى بنیادى وجہ) اسلامى عقائد میں انحراف کو برپا کر دیا گیا اور اسلامى اقدار کو ترک کر دیا گیا۔ ہمیں آغاز اسلام میں برپا ہونے والے حوادث و واقعات سے  عبرت حاصل کرنى چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ ولایت فقیہ پر اجمالى نظر، آیت اللہ مصباح یزدى، ص ۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 January 22 ، 12:38
عون نقوی