نظام شوری کا گھاؤ تلوار سے سخت تر۔علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی
آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی
امام علىؑ کو جو غم و دکھ اپنى قوم کى جانب سے ملے ان مىں سے انتہائى تکلىف دہ غم ان راستوں کوآپس مىں مخلوط کرنا تھا جن کواللہ تعالىٰ نے جدا اور الگ الگ رکھا تھا ۔
دلوں مىں پڑے ہوۓ حجالوں کى وجہ سے ہم ان کى تلخى اور سختى سے نا آشنا ہىں ورنہ ان کى سنگىنى اس قدر شدىد ہے کہ زخموں کى تاب لاتے ہوۓ موت سے گلے لگانا آسان ہے جبکہ ان جدا راستوں کو ىکجا دىکھنا امر دشوار اور کٹھن مرحلہ ہے ۔ امىر المومنىنؑ کو جب ابن ملجم ملعون نے شمشىر کا گہرا گھاؤ لگاىا تو آپؑ نے ان جملات کو ادا کىا:
فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ. (خصائص الائمہ،شریف رضىؒ ۴۰۶ھ،ص۶۳)
مىں کامىاب ہوگىا ربِّ کعبہ کى قسم۔
لىکن جب معاملہ ’’خلافت ’’ شورىٰ پر جا پہنچا اور آپؑ کو اصحابِ شورىٰ کے ساتھ کھڑا کىا گىا اور ان کے ساتھ موازنہ کىا گىا تو امىر المومنىن ؑ کے سىنے سے بے اختىار فرىاد ان جملات کى صورت مىں بلند ہوئى :
زَعَمَ أَنِّی مِنْهُمْ فَیَا لَلَّهِ لَهُمْ وَ لِلشُّورَى.(علل الشرائع،،شىخ صدوقؒ،ص۱۵۱،باب:۱۲۲، حدىث:۱۲ )
انہوں نے ىہ گمان کىا ہے کہ مىں بھى ان مىں سے ہوں ، ىا الٰہى ، کہاں مىں اور کہاں ىہ شورىٰ۔(۱)
حوالہ:
(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)