بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «حق و باطل» ثبت شده است

امیرالمومنین امام علی علیہ السلام

متن

انَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ أَحْکَامٌ تُبْتَدَعُ یُخَالَفُ فِیهَا کِتَابُ اللَّهِ وَ یَتَوَلَّى عَلَیْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَیْرِ دِینِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ یَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِینَ وَ لَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِینَ وَ لَکِنْ یُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَوْلِی الشَّیْطَانُ عَلَى أَوْلِیَائِهِ وَ یَنْجُو الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْحُسْنى.

ترجمہ

فتنوں کے وقوع کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ نئے ایجاد کردہ احکام کہ جن میں قرآن کی مخالفت کی جاتی ہے اور جنہیں فروغ دینے کے لئے کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف باہم ایک دوسرے کے مدد گار ہو جاتے ہیں تو اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا، تو وہ ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کے شائبہ سے پاک و صاف سامنے آتا، تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جائیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے اس موقعہ پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کے لئے توفیق الٰہی اور عنایت خداوندی پہلے سے موجود ہو۔(۱)

شرح حدیث

اسلام دین خالص ہے اور خداوند متعال کو فقط و فقط دین خالص مطلوب ہے نہ کہ وہ دین جس میں باطل کی ملاوٹ موجود ہو:
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ.
آگاہ رہو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے۔(۲)

ایک اور جگہ پر خداوندِ متعال کا ارشاد ہوتا ہے:

فَاعۡبُدِ اللّٰہَ مُخۡلِصًا لَّه الدِّیۡنَ.
آپ دین کو اسی کے لیے خالص کر کے صرف اللہ کی عبادت کریں۔(۳)

ہر دور میں ایسا طبقہ موجود رہا ہے جو دین کے اندر فتنے کھڑے کرتا ہے اور اپنی خواہشات کے عین مطابق ذاتی نظریات کو اسلامی (islamise) کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے حتی کہ ان نظریات میں قرآن کریم کی صریح مخالفت کی گئی ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ایسے روشن فکر حضرات موجود ہیں جو ہر غربی فکر و نظریہ کو اسلامی رنگ چڑھاتے ہیں انکے گمان کے مطابق وہ اسلام پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام کا دفاع کر رہے ہوں جبکہ حقیقت میں اسلام کے اندر التقاط یا ملاوٹ کر رہے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے تجزیہ کے مطابق یہ کام بہت چالاکی سے کیا جاتا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ خالص باطل کو اٹھا کر اسلامی کردو ، بلکہ تھوڑا سا باطل سے لیا جاتا ہے اور تھوڑا سا حق سے ، اور پھر ایک نئی شکل سامنے آتی ہے جو مسلمانوں کیلئے بھی قابل قبول ہو اور غیر مسلمین کیلئے بھی۔ یہ التقاط یا ملاوٹ بعض اوقات باطل کی ملاوٹ (mixing) سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات حق میں سے کسی چیز کو کم کر کے مثلا سودی نظام کو اسلامی کرنا ہے تو اسکا نام مثلا اسلامی بینکاری رکھ دو، مغربی تعلیم و تربیت و ثقافت کو سکولوں میں رائج کرنا ہے تو سکول میں حفظ قرآن کا ایک شعبہ کھول دو وغیرہ۔

اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں التقاطی تفکر پیدا ہو جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ سب حق پر ہیں ، اہل حق بھی درست ہیں اور اہل باطل بھی غلط نہیں ہیں  اور آئندہ آنے والی نسلیں یہی سمجھتی ہیں کہ یہی التقاط شدہ دین ہی اسلام ہے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ شیطان کی کامیابی ہے اور ایسے ماحول میں کامیاب وہی ہے جس کی توفیق الہی سے نگاہ بصیرت کھلی ہوئی ہے اور وہ حق کو باطل سے الگ واضح دیکھ رہا ہے۔

 

 


 

حوالہ جات:

۱۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۵۰۔

۲۔ زمر: ۳۔

۳۔ زمر: ۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 22 ، 19:13
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

امام علىؑ کو  جو غم و دکھ اپنى قوم کى جانب سے ملے ان مىں سے انتہائى تکلىف دہ غم ان راستوں کوآپس مىں مخلوط کرنا تھا جن کواللہ تعالىٰ نے جدا اور الگ الگ رکھا تھا ۔

دلوں مىں پڑے ہوۓ حجالوں کى وجہ سے ہم ان کى تلخى اور سختى سے نا آشنا ہىں ورنہ ان کى سنگىنى اس قدر شدىد ہے کہ زخموں کى تاب لاتے ہوۓ موت سے گلے لگانا آسان ہے جبکہ ان جدا راستوں کو ىکجا دىکھنا امر دشوار اور کٹھن مرحلہ ہے ۔ امىر المومنىنؑ کو جب ابن ملجم ملعون نے شمشىر کا گہرا گھاؤ لگاىا تو آپؑ نے ان جملات کو ادا کىا:

فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ. (خصائص الائمہ،شریف  رضىؒ ۴۰۶ھ،ص۶۳)

مىں کامىاب  ہوگىا  ربِّ کعبہ کى قسم۔

لىکن جب معاملہ ’’خلافت ’’ شورىٰ پر جا پہنچا اور آپؑ کو اصحابِ شورىٰ کے ساتھ کھڑا کىا گىا اور ان کے ساتھ موازنہ کىا گىا تو امىر المومنىن ؑ کے سىنے سے بے اختىار فرىاد ان جملات کى صورت مىں بلند ہوئى :

زَعَمَ‏ أَنِّی‏ مِنْهُمْ‏ فَیَا لَلَّهِ لَهُمْ وَ لِلشُّورَى‏.(علل الشرائع،،شىخ صدوقؒ،ص۱۵۱،باب:۱۲۲، حدىث:۱۲ )

انہوں نے ىہ گمان کىا ہے کہ مىں بھى ان مىں سے ہوں ، ىا الٰہى ، کہاں مىں اور کہاں ىہ شورىٰ۔(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:30
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی حفظہ اللہ تعالی

قرآن کرىم کى واضح تعلىمات ہىں کہ انسان کو حق و باطل مىں فرق کرکے حق کا اعلانىہ طور پر ساتھ دىنا چاہئے ۔ ہمىں اىسے وسوسوں ، مشوروں اور آوازوں پر کان نہىں دھرنے چاہئے جو اچھائى اور برائى مىں فرق کو ختم کرنے کا درس دىتے ہوں ۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسى کو برا نہ کہو ، صرف اپنى قبر کى فکر کرو ، کسى دوسرے سے کىا لىنا دىنا صرف اپنے آپ کو دىکھو ، انسان صرف اپنے عمل کا جوابدہ ہے اس لئے کسى کو کچھ مت کہو۔۔۔۔ وغىرہ ۔

اس طرح کا طرزِتفکر و خىالات و اعتقادات معاشروں کے قاتل شمار ہوتے ہىں اور انسانوں کو ہداىت کى زندگى سے نکال کر گمراہى کى وادىوں مىں بھٹکا دىتے ہىں ۔ ىہ طرزِ عمل سبب بنتا ہے کہ معاشروں مىں ’’ اچھے اور برے‘‘ کے معىار کو قدموں تلے روندے دىا جاتا ہے جس کى وجہ سے معاشرے فرعوں نما حکمرانوں کے پنجوں کى گرفت مىں جکڑے جاتے ہىں اور لوگ قتل و غارت ، فتنہ و فساد اور نا انصافىوں مىں ذلت کى زندگى بسر کرنے لگ جاتے ہىں ۔ معاشرتى و سىاسى نظاموں کے بارے بھى اسى طرح کى باتىں کى جاتى ہىں ، مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاںکو ووٹ دو کم از کم اپنے قوم و قبىلے کا بندہ ہے ۔۔۔جب معاشرے اىسے آفت زدہ اور زہرىلے افکار و نظرىات سے آلودہ ہوتو کىسے توقع رکھى جاسکتى ہے کہ اىسے معاشرے مىں فواحش ، فساد،قتل و غارت، نا انصافىوں اور انسانى اقدار کى پامالى نہ ہو؟(۱)

 

 


حوالہ:

(استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ)

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 21:21
عون نقوی