بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «امام خامنہ ای» ثبت شده است

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ہماری نظر میں ہفتہ وحدت کی بہت اہمیت ہے اور مسلمانوں کا آپس میں اتحاد امت اسلامی کے بہت سے دردوں کی دوا ہے۔ یہ جو کجھ یمن میں ہو رہا ہے جو فاجعہ بار جنگ چھیڑی گئی ہے پانچ سال ہو گئے اور یہ مظلوم ملت کوچہ و بازار، گھروں، ہسپتالوں، سکولوں اور عوامی جگہوں پر بموں سے قتل عام ہو رہی ہے کوئی چھوٹا حادثہ نہیں۔ یہ بہت بڑا حادثہ ہے کہ اس معاملے میں ان سعودیوں نے واقعی طور پر بہت سقاوت قلبی سے کام لیا۔ اسی طرح سے مسئلہ فلسطین ہے کہ جس طرح سے چند ضعیف اور ذلیل ممالک نے منہ پھیر لیا، دنیاء اسلام سے رخ پھیر لیا اور امت اسلامی سے خود کو کاٹ کر جدا کر لیا اور فلسطین کے مسئلے سے خود کو جدا کر لیا، حتی غاصب و قاتل صیہونیوں سے روابط قائم کر لیے۔ بے شک یہ سب مسائل امت اسلامی کی وحدت سے حل ہونے والے ہیں۔ اسلامی ممالک اور مسلمان قومیں بہت سی مصیبتوں میں گرفتار ہیں کشمیر سے لے کر لیبیا اسی طرح سے آپ دیکھتے جائیں ہر جگہ پر مسائل ہیں۔ یہ سب مسائل مسلمانوں کے آپسی اتحاد سے حل ہو جائیں گے۔

متن اصلی

به نظر ما هفته‌ی وحدت خیلی مهم است و اتّحاد مسلمانان درمان بسیاری از دردهای امّت اسلامی است. الان این جنگ فاجعه‌بار یمن که پنج سال است این ملّت مظلوم دارند در کوچه و بازار و خانه و بیمارستان و مدرسه و مجامع مردمی‌شان بمباران میشوند، حادثه‌ی کوچکی نیست، حادثه‌ی بسیار بزرگی است که واقعاً سعودی‌ها قساوت عجیبی را در این قضیّه دارند از خودشان نشان میدهند. یا در مسئله‌ی فلسطین؛ این دهن‌کجی چند دولت ضعیف ذلیل که به دنیای اسلام دهن‌کجی کردند، به امّت اسلامی دهن‌کجی کردند و مسئله‌ی فلسطین را به خیال خودشان نادیده گرفتند و با غاصب، با قاتل ارتباط برقرار کردند؛ بدون تردید همه‌ی اینها با وحدت امّت اسلامی علاج پیدا خواهد کرد و مشکلات دولتهای اسلامی و ملّتهای اسلامی -گرفتاری زیاد است دیگر، از کشمیر تا لیبی، همین طور که نگاه کنید، همه جا گرفتاری هست- این گرفتاری‌ها به برکت اتّحاد مسلمانها برطرف خواهد شد.(۱)


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:45
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

فرعون حضرت موسیؑ کے مقابلے میں ظاہری طور پر زیادہ قدرت رکھتا تھا، اس کے پاس اسبابِ زینت، اموال، استعداد، اسلحہ، پیسہ، اور بہت سے وسائل تھے جبکہ حضرت موسیؑ کے پاس ظاہرا ان میں سے کچھ بھی نہ تھا، لیکن حضرت موسیؑ نے خدا سے درخواست کی استغاثہ بلند کیا تو خداوند متعال نے جواب دیا: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛ تم دو نفر کی دعا قبول ہوئی لیکن ایک شرط پر، اور وہ شرط یہ ہے: فَاستَقیما وَ لَا تَتَّبِعانِ سَبیلَ الّذین لا یعلمون؛ استقامت دکھاؤ۔
استقامت جنگ کے میدان میں اور طریقہ سے ہے، سیاسی میدان میں استقامت کا محور کچھ اور ہے، اور ارادوں کے میدان میں استقامت کسی اور معنی میں ہے ان سب امور میں استقامت کی ضرورت ہے۔ اگر قومیں، ان کے سربراہان اور ان قوموں کے قابل افراد استقامت کو ترک نہ کریں ان ضعیف کر دی گئی قوموں کو بھی فتح و کامرانی نصیب ہو سکتی ہے۔ جی ہاں! آج امت اسلامی کے آگے دشمن نے جنگی صف بندی آمادہ  کر لی ہوئی ہے، امریکا، عالمی استکبار، اور ان کے پیروکار، صیہونیت اور ان کا نظام، مرتجعین، عالمی سرمایہ دار طبقہ، اور شہوت ران طبقوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے راستے کے برخلاف صف بندی کر لی ہے اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاہُ زِینَةً وَ اَموَالاً فِی الحَیوة الدُنیَا؛ آج کے فرعون یہی ہیں، آج کا فرعون امریکا ہے، آج کا فرعون صیہونیت ہے، آج کا فرعون ان کے پیروکار ہیں جنہوں نے اسلامی مناطق میں جنگ ایجاد کر رکھی ہے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیں۔
آج امریکا کا منصوبہ یہ ہے، اس کی طرف سب کو متوجہ رہنا ہوگا اور جاننا ہوگا، خود امریکی سیاستدان اس بات کا چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اپنے اعترافات کی اظہار کر چکے ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ مغربی ایشیاء میں جنگ ایجاد کرنی چاہئے، ان علاقوں میں اختلاف اور دشمنی ایجاد کر کے ان کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنانا ہوگا، تاکہ یہ ایک دوسرے کو مارتے رہیں اور صیہونی ریاست امن میں رہے۔ ان کو پسماندہ رکھا جائے کبھی ترقی حاصل نہ کر سکیں اور اس قدر ایک دوسرے کو ماریں کہ بے حال ہو کر رہ جائیں، ضعیف ہو جائیں قدرت و استقامت نہ دکھا سکیں۔

متن اصلی

فرعون در مقابل حضرت موسیٰ یک قدرت فائقه‌ای(۷) بود؛ زینت، اموال، استعداد، سلاح، پول، همه چیز در اختیار او بود؛ موسیٰ دست‌تنها بود؛ از خدای متعال درخواست کرد، استغاثه کرد؛ خداوند متعال در جواب فرمود: قالَ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما؛(۸) دعای شما دو نفر را -موسیٰ و هارون را- ما قبول کردیم، مستجاب کردیم، امّا شرط دارد: فَاستَقیما وَ لا تَتَّبِعآنِّ سَبیلَ الَّذینَ لا یَعلَمون؛(۹) بِایستید، استقامت کنید. استقامت در میدان جنگ نظامی یک‌جور است، در میدان جنگ سیاسی یک‌جور است، در میدان جنگ اراده‌ها یک‌جور است؛ در همه‌ی اینها استقامت لازم است. اگر ملّتها و زبدگان و نخبگان استقامت را فراموش نکنند، قطعاً پیروزی نصیب خواهد شد. بله، امروز در مقابل امّت اسلامی صف کشیده‌اند؛ آمریکا، استکبار جهانی و دنباله‌هایشان، صهیونیسم، رژیم صهیونیستی، مرتجعین، پول‌پرستان عالم، شهوت‌رانانِ میان مسلمانان که وابسته‌ی به آن قدرتها هستند، اینها همه در مقابل اسلام، در مقابل راه پیغمبر صف کشیده‌اند؛ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَهُ زینَةً وَ اَموالًا فِی الحَیوٰةِ الدُّنیا؛ بله، امروز فرعون اینها هستند؛ فرعون، امروز آمریکا است؛ فرعون، امروز رژیم صهیونیست است؛ فرعون، همین دنباله‌روهای اینها هستند در منطقه که بتدریج میخواهند مسلمانها را به جان هم بیندازند و در منطقه جنگ ایجاد کنند که امروز این نقشه‌ی آمریکا است؛ این را همه توجّه داشته باشند، همه بدانند. خود سیاستمداران آمریکایی در تحلیل‌هایشان، در حرفهایشان، خواسته یا ناخواسته اعتراف کردند که باید در منطقه‌ی غرب آسیا جنگ ایجاد کنیم، اختلاف ایجاد کنیم، اینها را به جان هم بیندازیم؛ برای اینکه رژیم صهیونیستی در حاشیه‌ی امن قرار بگیرد، راحت باشد؛ برای اینکه اینها نتوانند پیشرفت کنند؛ برای اینکه از جسم امّت اسلامی آن‌قدر خون برود که بی‌حال بشود، ضعیف بشود، قدرت ایستادگی نداشته باشد.(۱)

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:23
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ہفتہ وحدت کے متعلق میری راۓ یہ ہے کہ امام راحل کے اس عظیم ابتکار کی اہمیت اب پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ جن ایام میں ہمارے بزرگوار امام نے ہفتہ وحدت کا اعلان فرمایا تھا اور وحدت مذاہب اسلامی و فِرق اسلامی کو مختلف جہات عمومی و سیاسی اور اسی طرح سے اجتماعی کی بنا پر ضروری قرار دیا، ان دنوں بہت سے مخاطبین نے اس پیغام کی اہمیت کو درک نہ کیا۔ بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے مسؤولین و سربراہان نے اس کو اصلا نہیں سمجھا تھا کہ یہ پیغام کس مقدار اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سے نہیں سمجھ سکے اور بعض ضد پر اتر آۓ، البتہ انہوں نے ذاتی اغراض کی بنا پر اس پیغام کی اہمیت کا انکار کیا۔ آج ہم اس پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ آج جو حوادث پیش آ رہے ہیں اور اسلامی ممالک میں جو اختلافات سامنے آ رہے ہیں، اور اسی طرح سے جو شام، عراق، لبیبا، یمن اور افغانستان میں ہو رہا ہے ان سب ممالک کے حوادث سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی ممالک میں وحدت کی کتنی ضرورت ہے۔ اس امت اسلامی کی یکپارچگی عنصر ذی قیمت ہے کہ جس کو امام نے لازمی قرار دیا اور تمام ممالک کے مسلمانوں سے درخواست کی، اور اگر اس درخواست پر عملی طور پر اقدامات ہوتے تو بہت سے ناگوار واقعات پیش نہ آتے۔

متن اصلی

راجع به هفته‌ی وحدت. بنده گمان میکنم امروز بیش از همیشه اهمّیّت این ابتکار بزرگ امام راحل آشکار شده است. آن روزی که امام بزرگوار هفته‌ی وحدت را اعلام کردند و وحدت مذاهب اسلامی و فِرَق اسلامی را در جهت‌گیری‌ها و در گرایشهای عمومی، سیاسی و اجتماعیِ خودشان اعلام کردند، آن روز خیلی از مخاطبین واقعی این پیام نتوانستند اهمّیّت این پیام را درک کنند؛ از جمله مسئولین خیلی از کشورهای اسلامی که اصلاً نفهمیدند چقدر این پیام حائز اهمّیّت است. خیلی‌ها هم نفهمیدند، خیلی‌ها هم لج کردند؛ یعنی به دنبال اغراض گوناگونی که داشتند، این پیام را ندیده گرفتند. امروز ما میفهمیم که این پیام چقدر مهم بوده. حوادثی که امروز اتّفاق افتاده، این اختلافات گوناگونی که میان کشورهای اسلامی اتّفاق افتاده، این حوادث هولناکی که در بعضی از کشورهای منطقه، در سوریه، در عراق، در یک برهه‌ای در لیبی، در یمن، و در افغانستان، از این اتّفاقاتی که در اینجاها افتاد انسان میفهمد که چقدر اتّحاد دنیای اسلام مهم بود و چقدر یکپارچگی امّت اسلامی عنصر ذی‌قیمتی بود که امام آن را اعلام کردند، آن را درخواست کردند، آن را مطرح کردند که اگر بود، بسیاری از این قضایا اتّفاق نمی‌افتاد.(۱)

 

 


حوالہ:

آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 October 21 ، 19:51
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای:

آج آپ سوشل میڈیا پر درست اور صحیح افکار منتشر کر سکتے ہیں اور اپکو ان مسائل کا جواب دینا چاہیے اس طرح سے آپ واقعی طور پر جہاد کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ اس میں اصل قطعی یہ ہے کہ اخلاقی شیوہ کو اختیار کیا جاۓ، آج ہم سب کو اس میدان میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 September 21 ، 20:57
عون نقوی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مورخہ پانچ اسفند ۱۳۹۷ ہجری شمسی مطابق ۲۴ فروری ۲۰۱۹ کو فقہ کے درس خارج میں فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کی تشریح کی۔ یہ حدیث کاموں اور سرگرمیوں میں جوش و خروش اور امور میں عاقبت اندیشی کے بارے میں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس حدیث کی روشنی میں عہدیداران کو سفارش کی کہ مایوسی اور تساہلی کو اپنے سے دور کریں اور یاد رکھیں کہ اسلامی انقلاب آگے بڑھے گا۔

KHAMENEI.IR  نے اس درس کے کچھ حصوں کا ویڈیو اور متن نشر کیا ہے۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة اللَّه علی اعدائهم اجمعین.

عَن اَبی قَتادَةَ، قالَ اَبو عَبدِ اللَّهِ عَلَیهِ السَّلامُ: لَیسَ‌ لِحاقِنٍ رَأیٌ، وَ لا لِمَلولٍ صَدیقٌ، وَ لا لِحَسودٍ غِنًى، وَ لَیسَ بِحازِمٍ مَن لَم یَنظُر فِی العَواقِبِ، وَ النَّظَرُ فِی العَواقِبِ تَفتَحُ القُلوبِ.(۱)

لَیسَ‌ لِحاقِنٍ‌ رَأی

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ‌«حاقِن» یعنی وہ شخص جو پیشاب وغیرہ کی شدت سے سخت دباؤ میں ہے، اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ اسی لئے نماز میں مکروہ ہے کہ انسان اس طرح کے دباؤ میں ہو اور نماز پڑھے، اس لئے کہ انسان کے حواس ایسی صورت میں اپنی جگہ نہیں ہوتے۔ یہ حدیث کا آغاز ہے۔

اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں: وَ لَا لِمَلولٍ صَدیق

تساہلی پسند شخص دوست اور رفیق سے محروم رہتا ہے۔ جو ہمیشہ تھکے ہوئے اور افسردہ ہیں، کسی چیز کا حوصلہ جن میں نہیں ہے وہ دوست اور ساتھی نہیں بنا پاتے۔ اگر آپ کوئی اجتماعی کام کرنا چاہتے ہیں، جماعت کی شکل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مقابلے میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ اپنے اندر جوش و خروش پیدا کریں۔ ہم جو نشاط اور جوش و جذبے کی بات ہمیشہ کرتے ہیں، اپنی گفتگو اور تقاریر میں بار بار اس کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگ نشاط کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ناچ گانا، میوزک کا کوئی پروگرام یا اس طرح کی کوئی اور طربیہ نشست جمائی جائے، ٹھیئیٹر میں یا ٹی وی پر اس طرح کا کوئی پروگرام لگائیں تو لوگوں کو نشاط حاصل ہوگی! نشاط اور جوش و خروش کا یہ مطلب نہیں ہے۔ نشاط کا مطلب ہے کام کرنے کا حوصلہ، کام کا جذبہ، متحرک ہونا، آگے بڑھنے، کام کرنے اور سرگرمیاں انجام دینے کے لئے انسان کے دل کا آمادہ ہونا۔ تھکا ہوا، ملول اور افسردہ نہ ہو۔ نشاط کا یہ مطلب ہے۔ اگر انسان ایسا ہو تو اسے رفقائے کار ملیں گے، دوسرے افراد آکر اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور آپ اپنا کام آگے لے جا سکیں گے۔ خاص طور پر آپ نوجوانوں کو اس کی بہت ضرورت ہے۔

اس کے بعد فرمایا: وَ لا لِحَسودٍ غِنًى

جو انسان حسد کرتا ہے وہ کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ حاسد شخص کا مزاج ہی یہی ہے۔ چونکہ دوسروں کو حاصل نعمتوں پر اسے حسد ہے اور اللہ نے فطری طور پر حسد میں ایک اثر قرار دیا ہے، اس لئے وہ شخص ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے۔

وَ لَیسَ بِحازِمٍ مَن لَم یَنظُر فِی العَواقِب

حازم یعنی عقلمند انسان، ذی فہم انسان، وہ شخص جو پختگی کے ساتھ کام انجام دیتا ہے۔ 'حزم' لفظ میں یہ سارے معانی موجود ہیں۔ اس کا مطلب مضبوطی سے کام کرنا ہے، اس رسی کو حزام کہتے ہیں جس سے مضبوطی سے کچھ باندھا جاتا ہے، اونٹ کی پشت کے اوپر سے لاکر اس کے پیٹ کے نیچے باندھی جانے والی رسی اور جوتوں کے فیتے کو بھی حزام کہتے ہیں۔ یہ عقلمندی، خرد اور خردمندی کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، یہ سارے مفاہیم لفظ حزم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے؛ جو شخص اپنے کام کے انجام کے بارے میں پہلے ہی نہیں غور کر لیتا وہ حازم یعنی پختگی اور مضبوطی سے کام کرنے والا نہیں ہے۔ آپ دیکھئے کہ اس میں ایک سبق ہے ہم سب کے لئے، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو ہم میں یا آپ میں کسی عہدے پر فائز ہیں۔ کسی جگہ فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہیں یا خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کوئی کام ہے جو کسی انسان کو پسند ہے، وہ انجام دینا چاہتا ہے، اس میں فائدہ بھی ہے، لیکن اس نے اس کے انجام پر غور نہیں کیا ہے، انجام کے بارے میں سوچے بغیر اس نے کام شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر گرمی کے موسم میں انسان اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتا ہے، اب تو صحن بہت کم ہوتے ہیں، جب گھروں میں صحن ہوا کرتے تھے تب ہم یہ مثال دیتے تھے اور سب کو بات سمجھ میں آ جاتی تھی، صحن کے بیچ میں صاف پانی کا حوض ہوتا تھا۔ بہت گرمی لگ رہی ہے، پسینہ بھی ہوا ہے، انسان فورا پیراہن اتارتا ہے اور پانی میں داخل ہو جاتا ہے، یہ کوئی برا کام ہے؟ نہیں، لیکن آپ پانی میں اترے اور اس سے لہر پیدا ہوئی جو حوض کی دیوار پر رکھے ہوئے شیشے کے گلاس سے ٹکرائی اور گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔ اگر آپ نے پہلے ہی اس پہلو پر غور کر لیا ہوتا تو پانی میں کسی اور انداز سے اترتے۔ انجام پر غور نہیں کیا، اپنے عمل کے نتیجے پر غور نہیں کیا اور پانی میں کود پڑے تو نتیجہ یہ نکلا۔ جو شخص اپنے عمل کے انجام کے بارے میں نہ سوچے وہ حازم نہیں ہے۔

مثال کے طور پر جب آپ کسی مقابلے میں شامل ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ فریق مقابل آپ کے کس داؤ کے جواب میں کیا چال چلے گا؟ اس پر پہلے ہی غور کر لیجئے۔ آپ کے جواب میں فریق مقابل جو چال چلے گا آپ پہلے سے اس کے لئے خود کو آمادہ کر لیجئے اس کے بعد اپنا داؤ شروع کیجئے۔ یہ ہے عاقبت اندیشی۔ یہ سب سبق ہے۔ یہ صرف شخصی معاملات کا سبق نہیں ہے، ملکی مسائل کے سلسلے میں بھی یہ بہت اہم سبق ہے۔ ملکی انتظامات کے لئے بھی سبق ہے، اعلی انتظامی امور کے لئے بھی سبق ہے۔ البتہ خاندان اور ذاتی امور میں بھی یہ روش بہت مفید ہے۔ اخلاقی تعلیمات ایسی ہی ہوتی ہیں۔

وَ النَّظَرُ فِی العَواقِبِ تَفتَحُ القُلوب

یعنی اگر ہم اپنے کام کے انجام کے بارے میں غور کر لیں تو اس سے دل مطمئن ہو جاتا ہے، انسان کے فکری دریچے کھلتے ہیں، روحانی دریچے کھلتے ہیں۔ اگر ہم اپنے عمل کے انجام کے بارے میں پہلے ہی سوچ لیں تو ہم گناہ نہیں کریں گے، فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہوں گے، اگر ہم اپنے کاموں کے انجام کے بارے میں سوچ لیں تو ہم سے وہ لغزشیں نہیں ہوں گی جو عام طور پر ہم سے ہو جاتی ہیں۔ ذاتی مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا اور بڑے مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا، ملک کی سطح کے بڑے مسائل میں بھی یہ فائدہ ہوگا۔ اگر یہ ہو گیا تو ہم امید و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تمام عہدیداران کے لئے جو مجریہ میں، عدلیہ کے اندر یا دیگر شعبوں میں کسی انتظامی عہدے پر فائز ہیں میری سفارش یہ ہے کہ افسردگی اور تساہلی کی کیفیت اپنے سے دور کریں، اپنے سے مایوسی دور کریں اور یاد رکھیں کہ کام آگے بڑھ رہا ہے، انقلاب پیش قدمی کر رہا ہے، آپ نے دیکھا کہ گیارہ فروری کو اس ملک میں کیا عظیم کارنامہ انجام پایا۔ ظاہر ہے یہ انقلاب ہے، انقلاب آگے بڑھ رہا ہے، مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس ملت اور بزرگوار امام کی تحریک کو چالیس سال گزر چکے ہیں، اب تک تو ساری چیزیں فراموش کر دی جانی چاہئے تھیں، لیکن انقلاب کے سلسلے میں عوام کا طرز عمل ایسا ہے گویا یہ انقلاب ابھی کل ہی آیا ہو! اس طرح سڑکوں پر نکلتے ہیں، مختلف جگہوں کے بارے میں مجھے جو رپورٹ ملی اس کے مطابق تہران میں میدان آزادی کی طرف جانے والی سڑکوں پر مجمع اتنا تھا کہ آگے جانا مشکل ہو گیا تھا۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی صورت حال تھی۔ گزشتہ تمام برسوں کی نسبت اس سال مجمع زیادہ تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ دشمن کی دھمکیاں زیادہ تھیں۔ عوام نے اپنی ذمہ داری اور اپنے فریضے کو محسوس کیا۔ تو کام آگے بڑھ رہا ہے۔ مایوسی وغیرہ جیسی چیزیں تمام عہدیداران، اعلی عہدیداران بھی، اوسط درجے کے عہدیداران بھی اور نچلے درجے کے عہدیداران بھی کنارے رکھ دیں! یہ تو رہی ایک بات۔

دوسری چیز ہے عاقبت اندیشی۔ جو کام انجام دینا چاہتے ہیں، غور کر لیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ جو فیصلہ آپ کرنا چاہتے ہیں، جس کام کو آپ منظوری دینا یا مسترد کرنا چاہ رہے ہیں دیکھ لیجئے کہ اس کا انجام کیا ہوگا، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ آپ کے اس اقدام کے جواب میں دشمن کیا قدم اٹھائے گا  اور اس صورت میں آپ کیا کر سکیں گے؟ اس پر غور کر لیجئے! اس کے بعد آپ اللہ کے لئے خلوص کے ساتھ عمل کیجئے۔

۱۔ امالی طوسی، مجلس یازدہم، صفحہ ۳۰۱۔ ‌امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو انسان پیشاب کے دباؤ میں ہے اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ جس انسان کے پاس حوصلہ اور برداشت نہیں ہے اس کا کوئی دوست نہیں ہوتا، حاسد انسان کبھی بے نیاز نہیں ہو پاتا، جو ناعاقبت اندیش ہو وہ عقلمند اور پختگی سے کام کرنے والا نہیں ہے، کاموں کے انجام کے بارے میں پہلے ہی سوچ لینے سے انسانوں کی فکر و روح کے دریچے کھل جاتے ہیں۔

source: urdu.khamenei.ir

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 September 21 ، 11:57
عون نقوی