بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ طُوْلِ هَجْعَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ، وَ انْتِقَاضٍ مِّنَ الْمُبْرَمِ، فَجَآءَهُمْ بِتَصْدِیْقِ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهٖ، وَ النُّوْرِ الْمُقْتَدٰی بِهٖ. ذٰلِکَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ، وَ لَنْ یَّنْطِقَ، وَ لٰکِنْ اُخْبِرُکُمْ عَنْهُ: اَلَا اِنَّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یَاْتِیْ، وَ الْحَدِیْثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَآءَ دَآئِکُمْ، وَ نَظْمَ مَا بَیْنَکُمْ.

(اللہ نے) آپؐ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جب کہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور اُمتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپؐ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق (کرنے والی کتاب) اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ قرآن ہے۔ اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولے گی نہیں، البتہ میں تمہیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات، گزشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَعِنْدَ ذٰلِکَ لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا وَ اَدْخَلَهُ الظَّلَمَةُ تَرْحَةً، وَ اَوْلَجُوْا فِیْهِ نِقْمَةً، فَیَوْمَئِذٍ لَّا یَبْقٰی لَکُمْ فِی السَّمَآءِ عَاذِرٌ، وَ لَا فِی الْاَرْضِ نَاصِرٌ.

اس وقت کوئی پختہ گھر اور کوئی اونی خیمہ ایسا نہ بچے گا کہ جس میں ظالم غم و حزن کو داخل نہ کریں اور سختیوں کو اس کے اندر نہ پہنچائیں۔ وہ دن ایسا ہو گا کہ آسمان میں تمہارا کوئی عذر خواہ اور زمین میں کوئی تمہارا مدد گار نہ رہے گا۔

اَصْفَیْتُمْ بِالْاَمْرِ غَیْرَ اَهْلِهِ، وَ اَوْرَدْتُّمُوْهُ غَیْرَ مَوْرِدِهٖ، وَ سَیَنْتَقِمُ اللهُ مِمَّنْ ظَلَمَ، مَاْکَلًۢا بِمَاْکَلٍ، وَ مَشْرَبًۢا بِمَشْرَبٍ، مِنْ مَّطَاعِمِ الْعَلْقَمِ، وَ مَشَارِبِ الصَّبِرِ وَ الْمَقِرِ، وَ لِبَاسِ شِعَارِ الْخَوْفِ، وَ دِثَارِ السَّیْفِ. وَ اِنَّمَا هُمْ مَطَایَا الْخَطِیْٓئَاتِ وَ زَوَامِلُ الْاٰثَامِ.

تم نے امر (خلافت) کیلئے نااہلوں کو چن لیا اور ایسی جگہ پر سے لا اتارا کہ جو اس کے اترنے کی جگہ نہ تھی۔ عنقریب اللہ ظلم ڈھانے والوں سے بدلہ لے گا۔ کھانے کے بدلے میں کھانے کا اور پینے کے بدلے میں پینے کا۔ یوں کہ انہیں کھانے کیلئے حنظل اور پینے کیلئے ایلوا اور زہر ہلا ہل دیا جائے گا اور ان کا اندرونی لباس خوف اور بیرونی پہناوا تلوار ہو گا۔ وہ گناہوں کی سواریاں اور خطاؤں کے بار بردار اونٹ ہیں۔

فَاُقْسِمُ، ثُمَّ اُقْسِمُ، لَتَنْخَمَنَّهَا اُمَیَّةُ مِنْۢ بَعْدِیْ کَمَا تُلْفَظُ النُّخَامَةُ، ثُمَّ لَا تَذُوْقُهَا وَ لَا تَتَطَعَّمُ بِطَعْمِهَاۤ اَبَدًا مَّا کَرَّ الْجَدِیْدَانِ!.

میں قسم پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے بعد بنی امیہ کو یہ خلافت اس طرح تھوک دینا پڑے گی جس طرح بلغم تھوکا جاتا ہے۔ پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا وہ اس کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور نہ اس کا مزا اٹھا سکیں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:14
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَ الْحَمْدَ مِفْتَاحًا لِّذِکْرِهٖ، وَ سَبَبًا لِّلْمَزِیْدِ مِنْ فَضْلِهٖ، وَ دَلِیْلًا عَلٰۤی اٰلَآئِهٖ وَ عَظَمَتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس نے حمد کو اپنے ذکر کا افتتاحیہ، اپنے فضل و احسان کے بڑھانے کا ذریعہ اور اپنی نعمتوں اور عظمتوں کا دلیل راہ قرار دیا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ الدَّهْرَ یَجْرِیْ بِالْبَاقِیْنَ کَجَرْیِهٖ بِالْمَاضِیْنَ، لَا یَعُوْدُ مَا قَدْ وَلّٰی مِنْهُ، وَ لَا یَبْقٰی سَرْمَدًا مَّا فِیْهِ. اٰخِرُ فِعَالِهٖ کَاَوَّلِهٖ، مُتَسَابِقَةٌ اُمُوْرُهٗ، مُتَظَاهِرَةٌ اَعْلَامُهٗ. فَکَاَنَّکُمْ بِالسَّاعَةِ تَحْدُوْکُمْ حَدْوَ الزَّاجِرِ بِشَوْلِهٖ، فَمَنْ شَغَلَ نَفْسَهٗ بِغَیْرِ نَفْسِهٖ تَحَیَّرَ فِی الظُّلُمٰتِ، وَ ارْتَبَکَ فِی الْهَلَکَاتِ، وَ مَدَّتْ بِهٖ شَیَاطِیْنُهٗ فِیْ طُغْیَانِهٖ، وَ زَیَّنَتْ لَهٗ سَیِّئَ اَعْمَالِهٖ، فَالْجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقِیْنَ، وَ النَّارُ غَایَةُ الْمُفَرِّطِیْنَ.

اے اللہ کے بندو! باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ بھی زمانہ کی وہی روش رہے گی جو گزر جانے والوں کے ساتھ تھی۔ جتنا زمانہ گزر چکا ہے وہ پلٹ کر نہیں آئے گا اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ آخر میں بھی اس کی کارگزاریاں وہی ہوں گی جو پہلے رہ چکی ہیں۔ اس کی مصیبتیں ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتی ہیں اور اس کے جھنڈے ایک دوسرے کے عقب میں ہیں۔ گویا تم قیامت کے دامن سے وابستہ ہو کہ وہ تمہیں دھکیل کر اس طرح لئے جا رہی ہے جس طرح للکارنے والا اپنی اونٹنیوں کو۔ جو شخص اپنے نفس کو سنوارنے کے بجائے اور چیزوں میں پڑ جاتا ہے وہ تیرگیوں میں سرگرداں اور ہلاکتوں میں پھنسا رہتا ہے اور شیاطین اسے سرکشیوں میں کھینچ کر لے جاتے ہیں اور اس کی بداعمالیوں کو اس کے سامنے سجا دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے والوں کی آخری منزل جنت ہے اور عمداً کوتاہیاں کرنے والوں کی حد جہنم ہے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ التَّقْوٰی دَارُ حِصْنٍ عَزِیْزٍ، وَ الْفُجُوْرَ دَارُ حِصْنٍ ذَلِیْلٍ، لَا یَمْنَعُ اَهْلَهٗ، وَ لَا یُحْرِزُ مَنْ لَّجَاَ اِلَیْهِ. اَلَا وَ بِالتَّقْوٰی تُقْطَعُ حُمَةُ الْخَطَایَا، وَ بِالْیَقِیْنِ تُدْرَکُ الْغَایَةُ الْقُصْوٰی.

اللہ کے بندو! یاد رکھو کہ تقویٰ ایک مضبوط قلعہ ہے اور فسق و فجور ایک (کمزور) چار دیواری ہے کہ جو نہ اپنے رہنے والوں سے تباہیوں کو روک سکتی ہے اور نہ ان کی حفاظت کرسکتی ہے۔ دیکھو! تقویٰ ہی وہ چیز ہے کہ جس سے گناہوں کا ڈنک کاٹا جاتا ہے اور یقین ہی سے منتہائے مقصد کی کامرانیاں حاصل ہوتی ہیں۔

عِبَادَ اللهِ! اَللهَ اَللهَ فِیْۤ اَعَزِّ الْاَنْفُسِ عَلَیْکُمْ، وَ اَحَبِّهَاۤ اِلَیْکُمْ، فَاِنَّ اللهَ قَدْ اَوْضَحَ لَکُمْ سَبِیْلَ الْحَقِّ وَ اَنَارَ طُرُقَهٗ، فَشِقْوَةٌ لَازِمَةٌ، اَوْ سَعَادَةٌ دَآئِمَةٌ! فَتَزَوَّدُوْا فِیْۤ اَیَّامِ الْفَنَآءِ لِاَیَّامِ الْبَقَآءِ. قَدْ دُلِلْتُمْ عَلَی الزَّادِ، وَ اُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ، وَ حُثِثْتُمْ عَلَی الْمَسِیْرِ، فَاِنَّمَاۤ اَنْتُمْ کَرَکْبٍ وُّقُوفٍ، لَا تَدْرُوْنَ مَتٰی تُؤْمَرُوْنَ بِالسَّیْرِ، اَلَا فَمَا یَصْنَعُ بِالدُّنْیَا مَنْ خُلِقَ لِلْاٰخِرَةِ! وَ مَا یَصْنَعُ بِالْمَالِ مَنْ عَمَّا قَلِیْلٍ یُّسْلَبُهٗ، وَ تَبْقٰی عَلَیْهِ تَبِعَتُهٗ وَ حِسَابُهٗ!.

اے اللہ کے بندو! اپنے نفس کے بارے میں کہ جو تمہیں تمام نفسوں سے زیادہ عزیز و محبوب ہے اللہ سے ڈرو۔ اس نے تو تمہارے لئے حق کا راستہ کھول دیا ہے اور اس کی راہیں اجاگر کر دی ہیں۔ اب یا تو انمٹ بدبختی ہو گی یا دائمی خوش بختی و سعادت۔ دار فانی سے عالم باقی کیلئے توشہ مہیا کر لو۔ تمہیں زادِ راہ کا پتہ دیا جا چکا ہے اور کوچ کا حکم مل چکا ہے اور چل چلاؤ کیلئے جلدی مچائی جا رہی ہے۔ تم ٹھہرے ہوئے سواروں کے مانند ہو کہ تمہیں یہ پتہ نہیں کہ کب روانگی کا حکم دیا جائے گا۔ بھلا وہ دنیا کو لے کر کیا کرے گا جو آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہو اور اس مال کا کیا کرے گا جو عنقریب اس سے چھن جانے والا ہے اور اس کا مظلمہ و حساب اس کے ذمہ رہنے والا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! اِنَّهٗ لَیْسَ لِمَا وَعَدَ اللهُ مِنَ الْخَیْرِ مَتْرَکٌ، وَ لَا فِیْمَا نَهٰی عَنْهُ مِنَ الشَّرِّ مَرْغَبٌ.

اللہ کے بندو! خدا نے جس بھلائی کا وعدہ کیا ہے اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور جس برائی سے روکا ہے اس کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔

عِبَادَ اللهِ! احْذَرُوْا یَوْمًا تُفْحَصُ فِیْهِ الْاَعْمَالُ، وَ یَکْثُرُ فِیْهِ الزِّلْزَالُ، وَ تَشِیْبُ فِیْهِ الْاَطْفَالُ.

اللہ کے بندو! اس دن سے ڈرو کہ جس میں عملوں کی جانچ پڑتال اور زلزلوں کی بہتات ہو گی اور بچے تک اس میں بوڑھے ہو جائیں گے۔

اِعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ عَلَیْکُمْ رَصَدًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ، وَ عُیُوْنًا مِّنْ جَوَارِحِکُمْ، وَ حُفَّاظَ صِدْقٍ یَّحْفَظُوْنَ اَعْمَالَکُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسِکُمْ، لَا تَسْتُرُکُمْ مِنْهُمْ ظُلْمَةُ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا یُکِنُّکُمْ مِنْهُمْ بَابٌ ذُوْ رِتَاجٍ. وَ اِنَّ غَدًا مِّنَ الْیَوْمِ قَرِیْبٌ، یَذْهَبُ الْیَوْمُ بِمَا فِیْهِ، وَ یَجِیْٓءُ الْغَدُ لَاحِقًۢا بِهٖ.

اے اللہ کے بندو! یقین رکھو کہ خود تمہارا ضمیر تمہارا نگہبان اور خود تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے نگران ہیں اور تمہارے عملوں اور سانسوں کی گنتی کو صحیح صحیح یاد رکھنے والے (کراماً کاتبین) ہیں۔ ان سے نہ اندھیری رات کی اندھیاریاں تمہیں چھپا سکتی ہیں اور نہ بند دروازے تمہیں اوجھل رکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ آنے والا ’’کل‘‘ آج کے دن سے قریب ہے۔ ’’آج کا دن‘‘ اپنا سب کچھ لے کر چلا جائے گا اور ’’کل‘‘ اس کے عقب میں آیا ہی چاہتا ہے۔

فَکَاَنَّ کُلَّ امْرِئٍ مِّنْکُمْ قَدْ بَلَغَ مِنَ الْاَرْضِ مَنْزِلَ وَحْدَتِهٖ، وَ مَخَطَّ حُفْرَتِهٖ، فَیَالَهٗ مِنْۢ بَیْتِ وَحْدَةٍ، وَ مَنْزِلِ وَحْشَةٍ، وَ مُفْرَدِ غُرْبَةٍ! وَ کَاَنَّ الصَّیْحَةَ قَدْ اَتَتْکُمْ، وَ السَّاعَةَ قَدْ غَشِیَتْکُمْ، وَ بَرَزْتُمْ لِفَصْلِ الْقَضَآءِ، قَدْ زَاحَتْ عَنْکُمُ الْاَبَاطِیْلُ، وَ اضْمَحَلَّتْ عَنْکُمُ الْعِلَلُ، وَ اسْتَحَقَّتْ بِکُمُ الْحَقَآئِقُ، وَ صَدَرَتْ بِکُمُ الْاُمُوْرُ مَصَادِرَهَا، فَاتَّعِظُوْا بِالْعِبَرِ، وَ اعْتَبِرُوْا بِالْغِیَرِ، وَ انْتَفِعُوْا بِالنُّذُرِ.

گویا تم میں سے ہر شخص زمین کے اس حصہ پر کہ جہاں تنہائی کی منزل اور گڑھے کا نشان (قبر) ہے پہنچ چکا ہے۔ اس تنہائی کے گھر، وحشت کی منزل اور مسافرت کے عالم تنہائی (کی ہولناکیوں) کا کیا حال بیان کیا جائے۔ گویا کہ صُور کی آواز تم تک پہنچ چکی ہے اور قیامت تم پر چھا گئی ہے اور آخری فیصلہ سننے کیلئے تم (قبروں سے) نکل آئے ہو، باطل کے پردے تمہارى آنکھوں سے ہٹا دئیے گئے ہیں اور تمہارے حیلے بہانے دب چکے ہیں اور حقیقتیں تمہارے لئے ثابت ہو گئی ہیں اور تمام چیزیں اپنے اپنے مقام کی طرف پلٹ پڑی ہیں۔ عبرتوں سے پند و نصیحت اور زمانہ کے الٹ پھیر سے عبرت حاصل کرو اور ڈرانے والی چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:45
عون نقوی

خَاطَبَ بِهٖۤ اَهْلَ الْبَصْرَةِ عَلٰی جِهَةِ اقْتِصَاصِ الْمَلَاحِمِ:

اس میں اہل بصرہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں فتنوں سے آگاہ کیا ہے:

فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذٰلِکَ اَنْ یَّعْتَقِلَ نَفْسَهٗ عَلَی اللهِ تَعَالٰی. فَلْیَفْعَلْ، فَاِنْ اَطَعْتُمُوْنِیْ فَاِنِّیْ حَامِلُکُمْ اِنْ شَآءَ اللهُ عَلٰی سَبِیْلِ الْجَنَّةِ، وَ اِنْ کَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِیْدَةٍ وَّ مَذَاقَةٍ مَّرِیْرَةٍ. وَ اَمَّا فُلَانَةُ فَاَدْرَکَهَا رَاْیُ الْنِّسَآءِ، وَ ضِغْنٌ غَلَا فِیْ صَدْرِهَا کَمِرْجَلِ الْقَیْنِ، وَ لَوْ دُعِیَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَیْرِیْ مَاۤ اَتَتْ اِلَیَّ، لَمْ تَفْعَلْ، وَ لَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الْاُوْلٰی، وَ الْحِسَابُ عَلَی اللهِ.

جو شخص ان( فتنہ انگیزیوں) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھہرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں ان شاء اللہ تمہیں جنت کی راہ پر لگا دوں گا۔ اگرچہ وہ راستہ کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لئے ہوئے ہے۔ رہیں فلاں [۱] تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آ گئی ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کرتیں۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے۔ ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔

[مِنْهُ]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

سَبِیْلٌ اَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ، اَنْوَرُ السِّرَاجِ، فَبِالْاِیْمَانِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحٰتِ، وَ بِالصّٰلِحٰتِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الْاِیْمَانِ، وَ بِالْاِیْمَانِ یُعْمَرُ الْعِلْمُ، وَ بِالْعِلْمِ یُرْهَبُ الْمَوْتُ، وَ بِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْیَا، وَ بِالدُّنْیَا تُحْرَزُ الْاٰخِرَةُ، وَ اِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِیٰمَةِ، مُرْقِلِیْنَ فِیْ مِضْمَارِهَاۤ اِلَی الْغَایَةِ الْقُصْوٰی.

(ایمان کی) راہ سب راہوں سے واضح اور سب چراغوں سے زیادہ نورانی ہے، ایمان سے نیکیوں پر استدلال کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے ایمان پر دلیل لائی جاتی ہے، ایمان سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اور علم کی بدولت موت سے ڈرا جاتا ہے اور موت سے دنیا کے سارے جھنجھٹ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ مخلوقات کیلئے قیامت سے ادھر کوئی منزل نہیں۔ وہ اسی کے میدان میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ لگانے والی ہے۔

[مِنْهُ]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

قَدْ شَخَصُوْا مِنْ مُّسْتَقَرِّ الْاَجْدَاثِ، وَ صَارُوْۤا اِلٰی مَصَآئِرِ الْغَایَاتِ، لِکُلِّ دَارٍ اَهْلُهَا، لَا یَسْتَبْدِلُوْنَ بِهَا وَ لَا یُنْقَلُوْنَ عَنْهَا. وَ اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللهِ سُبْحَانَهٗ، وَاِنَّهُمَا لَا یُقَرِّبَانِ مِنْ اَجَلٍ وَّ لَا یَنْقُصَانِ مِنْ رِّزْقٍ.

وہ اپنی قبروں کے ٹھکانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخرت کے ٹھکانوں کی طرف پلٹ پڑے۔ ہر گھر کیلئے اس کے اہل ہیں کہ نہ وہ اسے تبدیل کر سکیں گے اور نہ اس سے منتقل ہو سکیں گے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔ نہ ان کی وجہ سے موت قبل از وقت آ سکتی ہے اور نہ جو رزق مقرر ہے اس میں کوئی کمی ہوسکتی ہے۔

وَ عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللهِ، فَاِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِیْنُ، وَ النُّوْرُ الْمُبِیْنُ، وَ الشِّفَآءُ النَّافِعُ، وَ الرِّیُّ النَّاقِعُ، وَ الْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّکِ، وَ النَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ، لَا یَعْوَجُّ فَیُقَامَ، وَ لَا یَزِیْغُ فَیُسْتَعْتَبَ، وَ لَا تُخْلِقُهٗ کَثْرَةُ الرَّدِّ، وَ وُلُوْجُ السَّمْعِ، مَنْ قَالَ بِهٖ صَدَقَ، وَ مَنْ عَمِلَ بِهٖ سَبَقَ.

تمہیں کتاب خدا پر عمل کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ ایک مضبوط رسی، روشن و واضح نور، نفع بخش شفا، پیاس بجھانے والی سیرابی، تمسک کرنے والے کیلئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کیلئے نجات ہے۔ اس میں کجی نہیں آتی کہ اسے سیدھا کیا جائے، نہ حق سے الگ ہوتی ہے کہ اس کا رخ موڑا جائے۔ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے پرانا نہیں کرتا۔ جو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لیجانے والا ہے۔

وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: اَخْبِرْنَا عَنِ الْفِتْنَةِ، و هَلْ سَئَلْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ عَنْهَا؟ فَقَالَ ؑ:

(اسی اثنا میں) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ: ہمیں فتنہ کے بارے میں کچھ بتائیے اور کیا آپؑ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا؟ آپؑ نے فرمایا کہ:

لَمَّاۤ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهٗ قَوْلَهٗ: ﴿الٓمّٓۚ۝ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝﴾ عَلِمْتُ اَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا وَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ اَظْهُرِنَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الْفِتْنَةُ الَّتِیْۤ اَخْبَرَکَ اللهُ تَعَالٰی بِهَا؟ فَقَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ اُمَّتِیْ سَیُفْتَنُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ». فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! اَوَ لَیْسَ قَدْ قُلْتَ لِیْ یَوْمَ اُحُدٍ حَیْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ حِیْزَتْ عَنِّی الشَّهَادَةُ، فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَیَّ، فَقُلْتَ لِیْ: «اَبْشِرْ، فَاِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَّرَآئِکَ»؟ فَقَالَ لِیْ: «اِنَّ ذٰلِکَ لَکَذٰلِکَ، فَکَیْفَ صَبْرُکَ اِذَنْ»؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَیسَ هٰذَا مِنْ مَّوَاطِنِ الصَّبْرِ، وَ لٰکِنْ مِّنْ مَّوَاطِنِ الْبُشْرٰی وَ الشُّکُرِ، وَ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ الْقَوْمَ سَیُفْتَنُوْنَ بِاَمْوَالِهمْ، وَ یَمُنُّوْنَ بِدِیْنِهِمْ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهٗ، وَ یَاْمَنُوْنَ سَطْوَتَهٗ، وَ یَسْتَحِلُّوْنَ حَرَامَهٗ بِالشُّبُهَاتِ الْکَاذِبَةِ، وَ الْاَهْوَآءِ السَّاهِیَةِ، فَیَسْتَحِلُّوْنَ الْخَمْرَ بِالنَّبِیْذِ، وَ السُّحْتَ بِالْهَدِیَّةِ، وَ الرِّبَا بِالْبَیْعِ». قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! فَبِاَیِّ الْمَنَازِلِ اُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ؟ اَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ، اَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ؟ فَقَالَ: «بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ».

ہاں! جب اللہ نے یہ آیت اتاری کہ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے دوچار نہیں ہوں گے‘‘، تو میں سمجھ گیا کہ فتنہ ہم پر تو نہیں آئے گا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں، چنانچہ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! یہ فتنہ کیا ہے کہ جس کی اللہ نے آپؐ کو خبر دی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «اے علیؑ! میرے بعد میری اُمت جلد ہی فتنوں میں پڑ جائے گی» تو میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! اُحد کے دن جب شہید ہونے والے مسلمان شہید ہوچکے تھے اور شہادت مجھ سے روک لی گئی اور یہ مجھ پر گراں گزرا تھا تو آپؐ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ: «تمہیں بشارت ہو! کہ شہادت تمہیں پیش آنے والی ہے» اور یہ بھی فرمایا تھا کہ: «یہ یونہی ہو کر رہے گا۔ (یہ کہو) کہ اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہو گی» تو میں نے کہا تھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ صبر کا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ تو (میرے لئے) مژدہ اور شکر کا مقام ہو گا،۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «یا علیؑ! حقیقت یہ ہے کہ لوگ میرے بعد مال و دولت کی وجہ سے فتنوں میں پڑ جائیں گے اور دین اختیار کر لینے سے اللہ پر احسان جتائیں گے۔ اس کی رحمت کی آرزوئیں تو کریں گے لیکن اس کے قہر و غلبہ (کی گرفت) سے بے خوف ہو جائیں گے کہ جھوٹ موٹ کے شبہوں اور غافل کر دینے والی خواہشوں کی وجہ سے حلال کو حرام کر لیں گے، شراب کو انگور و خرما کا پانی کہہ کر اور رشوت کا نام ہدیہ رکھ کر اور سود کو خرید و فروخت قرار دے کر جائز سمجھ لیں گے»۔ (پھر) میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! میں انہیں اس موقع پر کس مرتبہ پر سمجھوں؟ اس مرتبہ پر کہ وہ مرتد ہو گئے ہیں؟ یا اس مرتبہ پر کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «فتنہ کے مرتبہ پر»۔


اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عائشہ کا رویہ امیر المومنین علیہ السلام سے ہمیشہ معاندانہ رہا اور اکثر ان کے دل کی کدورت ان کے چہرے پر کھل جاتی اور طرز عمل سے نفرت و بیزاری جھلک اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر کسی واقعہ کے سلسلہ میں حضرتؑ کا نام آ جاتا تو ان کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تھا اور اس کا زبان پر لانا بھی گوارا نہ کرتی تھیں۔ چنانچہ عبید اللہ ابن عبد اللہ نے حضرت عائشہ کی اس روایت کا کہ: ’’پیغمبر ﷺ حالت مرض میں فضل ابن عباس اور ایک دوسرے شخص کا سہارا لے کر ان کے ہاں چلے آئے‘‘، حضرت عبد اللہ ابن عباس سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا:
هَلْ تَدْرِیْ مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ وَ لٰکِنَّھَا کَانَتْ لَا تَقْدِرُ عَلٰی اَنْ تَذْکُرَہٗ بِخَیْرٍ.کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا شخص کون تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ: وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے مگر حضرت عائشہ کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ علی علیہ السلام کا کسی اچھائی کے ساتھ ذکر کرتیں۔(تاریخ طبری، ج۲، ص۴۳۳)اس نفرت و عناد کا ایک سبب حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا وجود تھا کہ جن کی ہمہ گیر عظمت و توقیر ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور سوتاپے کی جلن یہ گوارا نہ کر سکتی تھی کہ پیغمبر ﷺ سوت کی دختر کو اس طرح چاہیں کہ اسے دیکھتے ہی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائیں اور اپنی مسند پر جگہ دیں اور ’’سیدة نساء العالمین‘‘ کہہ کر دنیا جہاں کی عورتوں پر اس کی فوقیت ظاہر کریں اور اس کی اولاد کو اس حد تک دوست رکھیں کہ انہیں اپنا فرزند کہہ کر پکاریں۔ یہ تمام چیزیں ان پر شاق گزرنے والی تھیں اور فطری طور پر ان کے جذبات اس موقع پر یہی ہوں گے کہ اگر خود ان کے بطن سے اولاد ہوتی تو وہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کہلاتے اور بجائے حسنؑ و حسینؑ کے وہ ان کی محبت کا مرکز بنتے، مگر ان کی گود اولاد سے ہمیشہ خالی ہی رہی اور ماں بننے کی آرزو کو اپنے بھانجے کے نام پر اپنی کنیت اُمّ عبد اللہ رکھ کر پورا کر لیا۔غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے ان کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیا جس کے تقاضے سے مجبور ہو کر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خلاف شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھیں، مگر پیغمبر ﷺ کی توجہات ان سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس رنجش و کشیدگی کا تذکرہ حضرت ابوبکر کے کانوں میں بھی برابر پہنچتا رہتا تھا جس سے وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے مگر ان کے کئے بھی کچھ نہ ہو سکتا تھا سوا اس کے کہ ان کی زبانی ہمدردیاں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب موقع تھا کہ وہ جس طرح چاہتے انتقام لیتے اور جو تشدد چاہتے روا رکھتے۔ چنانچہ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو محروم الارث قرار دینے کیلئے پیغمبروں کے ورثہ کی نفی کر دی کہ: نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے بلکہ ان کا ترکہ حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے سیدہ سلام اللہ علیہا اس حد تک متاثر ہوئیں کہ ان سے ترک کلام کر دیا اور انہی تاثرات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر بھی اپنی روش نہ بدلی اور یہ تک گوارا نہ کیا کہ ان کے انتقال پر ملال پر افسوس کا اظہار کرتیں۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:ثُمَّ مَاتَتْ فَاطِمَةُ فَجَآءَ نِسَآءُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ کُلُّهُنَّ اِلٰى بَنِیْ هَاشِمٍ فِی الْعَزَآءِ اِلَّا عَآئِشَةَ، فَاِنَّهَا لَمْ تَاْتِ وَ اَظْهَرَتْ مَرَضًا وَ نُقِلَ اِلٰى عَلِیٍّ ؑ عَنْهَا کَلَامٌ یَّدُلُّ عَلَى السُّرُوْرِ.جب حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے رحلت فرمائی تو تمام ازواج پیغمبرؐ بنی ہاشم کے ہاں تعزیت کیلئے پہنچ گئیں سوا عائشہ کے کہ وہ نہ آئیں اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مریض ہیں اور حضرت علی علیہ السلام تک ان کی طرف سے ایسے الفاظ پہنچے جن سے ان کی مسرت و شادمانی کا پتہ چلتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۵۹)جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے اس حد تک عناد تھا تو جن سے ان کا دامن وابستہ ہو گا وہ کس طرح ان کی دشمنی و عناد سے بچ سکتا تھا، جب کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہوں کہ جو اس مخالفت کو ہوا دیتے اور ان کے جذبہ نفرت کو ابھارتے ہوں۔ جیسے واقعۂ افک کے سلسلہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا پیغمبر ﷺ سے یہ کہنا کہ: «اِنْ هِیَ اِلَّا شِسْعُ نَعْلِکَ» (۱): ’’یہ تو آپؐ کی جوتی کا تسمہ ہے‘‘، اسے چھوڑئیے اور طلاق دے کر الگ کیجئے۔ جب حضرت عائشہ نے یہ سنا ہوگا تو یقیناً بے قرارى کے بستر پر کروٹیں بدلی ہوں گی اور حضرتؑ کے خلاف جذبہ نفرت انتہائی شدت سے ابھرا ہوگا۔پھر ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے کہ ان کے والد حضرت ابوبکر کے مقابلہ میں حضرتؑ کو امتیاز دیا گیا اور ان کے مدارج کو بلند اور نمایاں کر کے دکھایا گیا۔ جیسے: تبلیغ سورۂ برائت کے سلسلہ میں پیغمبر ﷺ کا انہیں معزول کر کے واپس پلٹا لینا اور یہ خدمت حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کرنا اور یہ فرمانا کہ: «اَنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اُبَلِّغَهٗۤ اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ بَیْتِیْ» (۲): ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اسے پہنچاؤں یا وہ شخص جو میرے اہلبیتؑ میں سے ہو‘‘۔ اسی طرح مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے کہ جن میں حضرت ابوبکر کے گھر کا بھی دروازہ تھا چنوا دئیے اور صرف امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔حضرت عائشہ اپنے باپ کے مقابلہ میں حضرتؑ کا تفوق گوارا نہ کر سکتی تھیں اور جب کوئی امتیازی صورت پیدا ہوتی تھی تو اسے مٹانے کی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ جب پیغمبر ﷺ نے آخر وقت میں حضرت اسامہ کے ہمراہ لشکر روانہ کیا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو بھی ان کی زیر امارت جانے کا حکم دیا تو ازواج پیغمبرؐ کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی حالت نازک ہے، لشکر کو آگے بڑھنے کے بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ چونکہ ان کی دور رس نظروں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مدینہ کو مہاجرین و انصار سے خالی کرنے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ رحلت نبیؐ کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے کوئی مزاحم نہ ہو اور کسی شورش انگیزی کے بغیر آپؑ منصب خلافت پر فائز ہو جائیں۔ چنانچہ لشکر اسامہ اس پیغام پر پلٹ آیا۔ جب پیغمبر ﷺ نے یہ دیکھا تو اسامہ کو پھر لشکر لے جانے کی تاکید فرمائی اور یہ تک فرمایا کہ: « لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ» (۳): ’’جو شخص لشکر اسامہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ جس پر وہ پھر روانہ ہوئے مگر پھر انہیں واپس بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ کے مرض نے شدت اختیار کر لی اور لشکر کو روانہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اس کاروائی کے بعد بلال کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ امامت نماز کے فرائض سر انجام دیں تا کہ ان کی خلافت کیلئے راستہ ہموار ہو جائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انہیں ’’خَلِیْفَةُ ’’شقشقہ‘‘ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلَی الصَّلٰوةِ‘‘ کہہ کر خلیفہ علی الاطلاق مان لیا گیا اور پھر ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح خلافت امیر المومنین علیہ السلام تک نہ پہنچ سکے، لیکن دور ثالث کے بعد حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ لوگ آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور ہو گئے۔ حضرت عائشہ اس موقع پر مکہ میں تشریف فرما تھیں انہیں جب حضرتؑ کی بیعت کا علم ہوا تو ان کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے، غیظ و غضب نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی اور نفرت نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ جس خون کے بہانے کا فتویٰ دے چکی تھیں اسی کے قصاص کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجہ میں ایسا کشت و خون ہوا کہ بصرہ کی سرزمین کشتوں کے خون سے رنگین ہو گئی اور افتراق انگیزی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھل گیا۔
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۲، ص ۴۵۹۔
[۲]۔ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۳۱۱۔
[۳]۔ بحار الانوار، ج ۳۰، ص ۴۳۲۔

 

balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:42
عون نقوی

یَذْکُرُ فِیْهَا بَدِیْعَ خِلْقَةِ الْخُفَّاشِ

اس میں چمگادڑ [۱] کی عجیب و غریب خلقت کا ذکر فرمایاہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی انْحَسَرَتِ الْاَوْصَافُ عَنْ کُنْهِ مَعْرِفَتِهٖ، وَ رَدَعَتْ عَظَمَتُهُ الْعُقُوْلَ، فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغًا اِلٰی بُلُوْغِ غَایَةِ مَلَکُوْتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی معرفت کی حقیقت ظاہر کرنے سے اوصاف عاجز ہیں اور اس کی عظمت و بلندی نے عقلوں کو روک دیا ہے، جس سے وہ اس کی سرحد فرمانروائی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتیں۔

هُوَ اللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ، اَحَقُّ وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ، لَمْ تَبْلُغْهُ الْعُقُوْلُ بِتَحْدِیْدٍ فَیَکُوْنَ مُشَبَّهًا، وَ لَمْ تَقَعْ عَلَیْهِ الْاَوْهَامُ بِتَقْدِیْرٍ فَیَکُوْنَ مُمَثَّلًا.

وہ اللہ اقتدار کا مالک ہے اور (سراپا) حق اور (حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔ وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکارا ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔ عقلیں اس کی حد بندی کر کے اس تک نہیں پہنچ سکتیں کہ وہ دوسروں سے مشابہ ہو جائے اور نہ وہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے مانند ہو جائے۔

خَلَقَ الْخَلْقَ عَلٰی غَیْرِ تَمْثِیْلٍ، وَ لَا مَشُوْرَةِ مُشِیْرٍ، وَ لَا مَعُوْنَةِ مُعِیْنٍ، فَتَمَّ خَلْقُهٗ بِاَمْرِهٖ، وَ اَذْعَنَ لِطَاعَتِهٖ، فَاَجَابَ وَ لَمْ یُدَافِعْ، وَ انْقَادَ وَ لَمْ یُنَازِعْ.

اس نے بغیر کسی نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیر کار کے مشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس کے حکم سے مخلوق اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اس کی اطاعت کیلئے جھک گئی اور بلا توقف لبیک کہی اور بغیر کسی نزاع و مزاحمت کے اس کی مطیع ہو گئی۔

وَ مِنْ لَّطَآئِفِ صَنْعَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ خِلْقَتِهٖ، مَاۤ اَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِکْمَةِ فِیْ هٰذِهِ الْخَفَافِیْشِ الَّتِیْ یَقْبِضُهَا الضِّیَآءُ الْبَاسِطُ لِکُلِّ شَیْءٍ، وَ یَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِکُلِّ حَیٍّ، وَ کَیْفَ عَشِیَتْ اَعْیُنُهَا عَنْ اَنْ تَسْتَمِدَّ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیْٓئَةِ نُوْرًا تَهْتَدِیْ بِهٖ فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ تَتَّصِلُ بِعَلَانِیَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ اِلٰی مَعَارِفِهَا.

اس کی صنعت کی لطافتوں اور خلقت کی عجیب و غریب کار فرمائیوں میں کیا کیا گہری حکمتیں ہیں کہ جو اس نے ہمیں چمگادڑوں کے اندر دکھائی ہیں کہ جن کی آنکھوں کو (دن کا) اجالا سکیڑ دیتا ہے، حالانکہ وہ تمام آنکھوں میں روشنی پھیلانے والا ہے اور اندھیرا اُن کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے،حالانکہ وہ ہر زندہ شے کی آنکھوں پر نقاب ڈالنے والا ہے اور کیونکر چمکتے ہوئے سورج میں ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کہ وہ اس کی نور پاش شعاعوں سے مدد لے کر اپنے راستوں پر آ جا سکیں اور نورِ آفتاب کے پھیلاؤ میں اپنی جانی پہچانی ہوئی چیزوں تک پہنچ سکیں۔

وَ رَدَعَهَا بِتَلَاْلُؤِ ضِیَآئِهَا عَنِ الْمُضِیِّ فِیْ سُبُحَاتِ اِشْرَاقِهَا، وَ اَکَنَّهَا فِیْ مَکَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِیْ بَلَجِ ائْتِلَاقِهَا، فَهِیَ مُسْدَلَةُ الْجُفُوْنِ بِالنَّهَارِ عَلٰی حِدَاقِهَا، وَ جَاعِلَةُ اللَّیْلِ سِرَاجًا تَسْتَدِلُّ بِهٖ فِی الْتِمَاسِ اَرْزَاقِهَا، فَلَا یَرُدُّ اَبْصَارَهَاۤ اِسْدَافُ ظُلْمَتِهٖ، وَ لَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِیِّ فِیْهِ لِغَسَقِ دُجُنَّتِهٖ. فَاِذَاۤ اَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا، وَ بَدَتْ اَوْضَاحُ نَهَارِهَا، وَ دَخَلَ مِنْ اِشْرَاقِ نُوْرِهَا عَلَی الضِّبَابِ فِیْ وِجَارِهَا، اَطْبَقَتِ الْاَجْفَانَ عَلٰی مَاٰقِیْهَا، وَ تَبَلَّغَتْ بِمَا اکْتَسَبَتْہُ مِنَ الْمَعَاشِ فِیْ ظُلَمِ لَیَالِیْهَا.

اس نے تو اپنی ضوپاشیوں کی تابش سے انہیں نور کی تجلّیوں میں بڑھنے سے روک دیا ہے اور ان کے پوشیدہ ٹھکانوں میں انہیں چھپا دیا ہے کہ وہ اس کی روشنی کے اجالوں میں آ سکیں۔ دن کے وقت تو وہ اس طرح ہوتی ہیں کہ ان کی پلکیں جھلک کر آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور تاریکی شب کو اپنا چراغ بنا کر رزق کے ڈھونڈنے میں اس سے مدد لیتی ہیں۔ رات کی تاریکیاں ان کی آنکھوں کو دیکھنے سے نہیں روکتیں اور نہ اس کی گھٹا ٹوپ اندھیاریاں راہ پیمائیوں سے باز رکھتی ہیں۔ مگر جب آفتاب اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے اور دن کے اجالے ابھر آتے ہیں اور سورج کی کرنیں سوسمار کے سوراخ کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں تو وہ اپنی پلکوں کو آنکھوں پر جھکا لیتی ہیں اور رات کی تیرگیوں میں جو معاش حاصل کی ہے اسی پر اپنا وقت پورا کر لیتی ہیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّیْلَ لَهَا نَهَارًا وَّ مَعَاشًا، وَ النَّهَارَ سَکَنًا وَّ قَرَارًا، وَ جَعَلَ لَهَاۤ اَجْنِحَةً مِّنْ لَّحْمِهَا تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ اِلَی الطَّیَرَانِ، کَاَنَّهَا شَظَایَا الْاٰذَانِ، غَیْرَ ذَوَاتِ رِیْشٍ وَّ لَا قَصَبٍ، اِلَّاۤ اَنَّکَ تَرٰی مَوَاضِعَ الْعُرُوْقِ بَیِّنَةً اَعْلَامًا، لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا یَرِقَّا فَیَنْشَقَّا، وَ لَمْ یَغْلُظَا فَیَثْقُلَا. تَطِیْرُ وَ وَلَدُهَا لَاصِقٌۢ بِهَا لَاجِئٌ اِلَیْهَا، یَقَعُ اِذَا وَقَعَتْ، وَ یَرْتَفِعُ اِذَا ارْتَفَعَتْ، لَا یُفَارِقُهَا حَتّٰی تَشْتَدَّ اَرْکَانُهٗ، وَ یَحْمِلَهٗ لِلنُّهُوْضِ جَنَاحُهٗ، وَ یَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَیْشِهٖ، وَ مَصَالِحَ نَفْسِهٖ. فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِکُلِّ شَیْءٍ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَیْرِهٖ!.

سبحان اللہ! کہ جس نے رات ان کے کسب ِمعاش کیلئے اور دن آرام و سکون کیلئے بنایا ہے اور ان کے گوشت ہی سے ان کے پر بنائے ہیں اور جب اُڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تو انہی پروں سے اونچی ہوتی ہیں۔ گویا کہ وہ کانوں کی لویں ہیں کہ نہ ان میں پر و بال ہیں اور نہ کریاں، مگر تم ان کی رگوں کی جگہ کو دیکھو گے کہ اس کے نشان ظاہر ہیں اور اس میں دو پر سے لگے ہوئے ہیں کہ جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے موٹے ہیں کہ بوجھل ہو جائیں (کہ اڑا نہ جا سکے)۔ وہ اڑتی ہیں تو بچے ان سے چمٹے رہتے ہیں اور ان کی پناہ میں ہوتے ہیں۔ جب وہ نیچے کی طرف جھکتی ہیں تو بچے بھی جھک پڑتے ہیں اور جب وہ اونچی ہوتی ہیں تو بچے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک الگ نہیں ہوتے جب تک ان کے اعضاء میں مضبوطی نہ آ جائے اور بلند ہونے کیلئے ان کے پَر (ان کا بوجھ) اٹھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ وہ اپنی زندگی کی راہوں اور اپنی مصلحتوں کو پہچانتے ہیں۔ پاک ہے وہ خدا کہ جس نے بغیر کسی نمونہ کے کہ جو اس سے پہلے کسی نے بنایا ہو، ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔


’’چمگادڑ‘‘ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جو انڈے دینے کے بجائے بچے دیتا ہے، دانہ بھرانے کے بجائے دودھ پلاتا اور بغیر پروں کے پرواز کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں جھلی دار ہوتی ہیں جن سے پروں کا کام لیتا ہے۔ ان پروں کا پھیلاؤ ڈیڑھ انچ سے پانچ فٹ تک ہوتا ہے۔ یہ اپنے پیروں کے بل چل پھر نہیں سکتا، اس لئے اڑ کر روزی حاصل کرتا اور درختوں اور چھتوں میں الٹا لٹکا رہتا ہے۔ دن کی روشنی میں اسے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے غروب آفتاب کے بعد ہی پرواز کرتا ہے اور کیڑے مکوڑے اور رات کو اڑنے والے پروانے کھاتا ہے۔ چمگادڑوں کی ایک قسم پھل کھاتی ہے اور بعض گوشت خوار ہوتی ہیں جو مچھلی کا شکار کرتی ہیں۔ شمالی امریکہ کے تاریک غاروں میں خونخوار چمگادڑیں بھی بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ بڑی خطرناک اور مہلک ہوتی ہیں۔ ان کی خوراک انسانی و حیوانی خون ہے۔ جب یہ کسی انسان کا خون چوستی ہیں تو انسانی خون میں زہر سرایت کر جاتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ہلکا سا بخار اور درد سر ہوتا ہے پھر سانس کی نالی متورم ہو جاتی ہے، کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے، جسم کا نیچے والا حصہ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے۔ آخر سانس کی آمد و شد رک جاتی ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے۔ یہ خوں آشام چمگادڑیں اس وقت حملہ کرتی ہیں جب آدمی بے ہوش ہو یا سو رہا ہو۔ جاگتے میں حملہ کم ہوتا ہے اور خون چوستے وقت درد کا احساس تک نہیں ہوتا۔

چمگادڑ کی آنکھ خاص قسم کی ہوتی ہے جو صرف تاریکی ہی میں کام کر سکتی ہے اور دن کے اجالے میں کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آنکھ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کی وسعت کے مقابلہ میں بڑا ہوتا ہے اور تیز روشنی میں سمٹ جاتا ہے اور کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑی طاقت کے کیمرہ سے کھلی روشنی میں تصویر اتاری جائے تو روشنی کی چھوٹ سے تصویر دھندلی اترتی ہے۔ اسی لئے کیمرہ کے شیشہ کا سائز جو بمنزلہ آنکھ کی پتلی کے ہوتا ہے چھوٹا کر دیا جاتا ہے تا کہ روشنی کی چکا چوند کم ہو جائے اور تصویر صاف اترے۔ اگر چمگادڑ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کے مقابلہ میں کم ہوتا تو وہ بھی دوسرے جانوروں کی طرح دن کی روشنی میں دیکھ سکتی تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 18:34
عون نقوی

لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ وَ قَدْ سَئَلَهٗ: کَیْفَ دَفَعَکُمْ قَوْمُکُمْ عَنْ هٰذَا الْمَقَامِ وَ اَنْتُمْ اَحَقُّ بِهٖ؟ فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے آپؑ کو اس منصب سے الگ رکھا، حالانکہ آپؑ اس کے زیادہ حقدار تھے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:

یاۤ اَخَا بَنِیْۤ اَسَدٍ! اِنَّکَ لَقَلِقُ الْوَضِیْنِ، تُرْسِلُ فِیْ غَیْرِ سَدَدٍ، وَ لَکَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وَ حَقُّ الْمَسْئَلَةِ، وَ قَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ: اَمَّا الْاِسْتِبْدَادُ عَلَیْنَا بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ نَحْنُ الْاَعْلَوْنَ نَسَبًا، وَ الْاَشَدُّوْنَ بِالرَّسُوْلِ ﷺ نَوْطًا، فَاِنَّهَا کَانَتْ اَثَرَةً شَحَّتْ عَلَیْهَا نُفُوْسُ قَوْمٍ، وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفوْسُ اٰخَرِیْنَ، وَ الْحَکَمُ اللهُ، وَ الْمَعُوْدُ اِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.

اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اور بے راہ ہو کر چل نکلے ہو۔ (اس کے باوجود) چونکہ ہمیں تمہاری قرابت کا پاس و لحاظ ہے اور تمہیں سوال کرنے کا حق بھی ہے تو اب دریافت کیا ہے تو پھر جان لو کہ (ان لوگوں کا) اس منصب پر خود اختیاری سے جم جانا، باوجودیکہ ہم نسب کے اعتبار سے بلند تھے اور پیغمبر ﷺ سے رشتہ قرابت بھی قوی تھا ان کی یہ خود غرضی تھی جس میں کچھ لوگوں کے نفس اس پر مر مٹے تھے اور کچھ لوگوں کے نفسوں نے اس کی پروا تک نہ کی اور فیصلہ کرنے والا اللہ ہے اور اس کی طرف بازگشت قیامت کے روز ہے۔ (اس کے بعد حضرتؑ نے بطور تمثیل یہ مصرع پڑھا:)

“وَ دَعْ عَنْکَ نَهْبًا صِیْحَ فِیْ حَجَرَاتِهٖ”

’’چھوڑو اس لوٹ مار کے ذکر کو کہ جس کا چاروں طرف شور مچا ہوا تھا‘‘ [۱]

وَ هَلُمَّ الْخَطْبَ فِی ابْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ، فَلَقَدْ اَضْحَکَنِی الدَّهْرُ بَعْدَ اِبْکَآئِهٖ، وَ لَا غَرْوَ وَاللهِ، فَیَا لَهٗ خَطْبًا یَّسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ، وَ یُکْثِرُ الْاَوَدَ! حَاوَلَ الْقَوْمُ اِطْفَآءَ نُوْرِ اللهِ مِنْ مِّصْبَاحِهٖ، وَ سَدَّ فَوَّارِهٖ مِنْ یَّنْۢبُوْعِهٖ، وَ جَدَحُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ شِرْبًا وَّ بِیْٓـئًا، فَاِنْ تَرْتَفِـعْ عَنَّا وَ عَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوٰی، اَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلٰی مَحْضِهٖ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، ﴿فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُکَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۝﴾.

اب تو اس مصیبت کو دیکھو کہ جو ابو سفیان کے بیٹے کی وجہ سے آئی ہے۔ مجھے تو (اس پر) زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسایا ہے اور زمانہ کی (موجودہ روش سے) خدا کی قسم! کوئی تعجب نہیں ہے۔ اس مصیبت پر تعجب ہوتا ہے کہ جس سے تعجب کی حد ہو گئی ہے اور جس نے بے راہ رویوں کو بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اللہ کے روشن چراغ کا نور بجھانا چاہا اور اس کے سرچشمہ (ہدایت کے) فوارے کو بند کرنے کے درپے ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کی۔ اگر اس ابتلا کی دشواریاں ہمارے اور ان کے درمیان سے اٹھ جائیں تو میں انہیں خالص حق کے راستے پر لے چلوں گا اور اگر کوئی اور صورت ہو گئی تو پھر ان پر حسرت و افسوس کرتے ہوئے تمہارا دم نہ نکلے۔ اس لئے کہ یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔


یہ عرب کے مشہور شاعر ’’امرأ القیس‘‘ کے ایک شعر کا مصرع ہے جس کا دوسرا مصرع یہ ہے:
وَ هاتِ حَدِیْثًا مَّا حَدِیْثُ الرَّوَاحِل
اس شعر کا واقعہ یہ ہے کہ جب امرأ القیس کا باپ حجر کندی مارا گیا تو وہ قبائل عرب میں چکر لگاتا تھا تا کہ ان کی مدد سے اپنے باپ کا قصاص لے سکے۔ چنانچہ بنی جدیلہ کے ایک شخص طریف کے یہاں چند دن ٹھہرا اور پھر وہاں سے اپنے کو غیر محفوظ سمجھ کر چل دیا اور خالد ابن سدوس کے ہاں جا اترا۔ اس دوران میں بنی جدیلہ کا ایک شخص باعث ابن خویص اس کا اونٹ ہنکا لایا۔ امرأ القیس نے اپنے میزبان سے اس کا شکوہ کیا تو اس نے کہا کہ تم اپنی اونٹنیاں میرے ساتھ کر دو میں تمہارے اونٹ ان سے واپس لائے دیتا ہوں۔ چنانچہ خالد ان کے ہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم نے میرے مہمان کے اونٹوں کو لوٹ لیاہے تمہیں ان اونٹوں کو واپس کر دینا چاہیے۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ نہ تمہارا مہمان ہے اور نہ تمہاری زیر حمایت ہے۔ خالد نے قسم کھا کر کہا کہ واقعی میرا مہمان ہے اور یہ اس کی اونٹنیاں میرے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ پھر ہم وہ اونٹ واپس دئیے دیتے ہیں۔ کہا تو یہ، لیکن ان اونٹوں کو واپس کرنے کے بجائے ان اونٹنیوں کو بھی ہنکا کر لے گئے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں نے وہ اونٹ خالد کے روانہ کر دئیے تھے اور اس نے امرأ القیس کو دینے کے بجائے خود ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب امرأ القیس کو اس کا پتہ چلا تو اس نے چند اشعار کہے جن کا ایک شعر یہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان اونٹوں کا ذکر چھوڑو جنہیں لوٹا جا چکا ہے۔ اب ان اونٹنیوں کی بات کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہیں۔
حضرتؐ کے اس شعر کو بطور تمثیل پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ معاویہ بر سرپیکار ہے اس کی بات کرو اور ان لوگوں کی غارت گریوں کا ذکر رہنے دو کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد میرے حق پر چھاپہ مارا۔ وہ دور گزر چکا ہے۔ اب اس دور کے فتنوں سے نپٹنے کا وقت ہے۔ لہٰذا وقت کی بات کرو اور بے وقت کی راگنی نہ چھیڑو۔ یہ اس لئے فرمایا کہ سائل نے یہ سوال جنگ صفین کے موقع پر کیا تھا، جبکہ جنگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور کشت و خون کی گرم بازاری تھی۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 19:12
عون نقوی