نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰
لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ وَ قَدْ سَئَلَهٗ: کَیْفَ دَفَعَکُمْ قَوْمُکُمْ عَنْ هٰذَا الْمَقَامِ وَ اَنْتُمْ اَحَقُّ بِهٖ؟ فَقَالَ ؑ:
حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے آپؑ کو اس منصب سے الگ رکھا، حالانکہ آپؑ اس کے زیادہ حقدار تھے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:
یاۤ اَخَا بَنِیْۤ اَسَدٍ! اِنَّکَ لَقَلِقُ الْوَضِیْنِ، تُرْسِلُ فِیْ غَیْرِ سَدَدٍ، وَ لَکَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وَ حَقُّ الْمَسْئَلَةِ، وَ قَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ: اَمَّا الْاِسْتِبْدَادُ عَلَیْنَا بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ نَحْنُ الْاَعْلَوْنَ نَسَبًا، وَ الْاَشَدُّوْنَ بِالرَّسُوْلِ ﷺ نَوْطًا، فَاِنَّهَا کَانَتْ اَثَرَةً شَحَّتْ عَلَیْهَا نُفُوْسُ قَوْمٍ، وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفوْسُ اٰخَرِیْنَ، وَ الْحَکَمُ اللهُ، وَ الْمَعُوْدُ اِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.
اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اور بے راہ ہو کر چل نکلے ہو۔ (اس کے باوجود) چونکہ ہمیں تمہاری قرابت کا پاس و لحاظ ہے اور تمہیں سوال کرنے کا حق بھی ہے تو اب دریافت کیا ہے تو پھر جان لو کہ (ان لوگوں کا) اس منصب پر خود اختیاری سے جم جانا، باوجودیکہ ہم نسب کے اعتبار سے بلند تھے اور پیغمبر ﷺ سے رشتہ قرابت بھی قوی تھا ان کی یہ خود غرضی تھی جس میں کچھ لوگوں کے نفس اس پر مر مٹے تھے اور کچھ لوگوں کے نفسوں نے اس کی پروا تک نہ کی اور فیصلہ کرنے والا اللہ ہے اور اس کی طرف بازگشت قیامت کے روز ہے۔ (اس کے بعد حضرتؑ نے بطور تمثیل یہ مصرع پڑھا:)
“وَ دَعْ عَنْکَ نَهْبًا صِیْحَ فِیْ حَجَرَاتِهٖ”
’’چھوڑو اس لوٹ مار کے ذکر کو کہ جس کا چاروں طرف شور مچا ہوا تھا‘‘ [۱]
وَ هَلُمَّ الْخَطْبَ فِی ابْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ، فَلَقَدْ اَضْحَکَنِی الدَّهْرُ بَعْدَ اِبْکَآئِهٖ، وَ لَا غَرْوَ وَاللهِ، فَیَا لَهٗ خَطْبًا یَّسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ، وَ یُکْثِرُ الْاَوَدَ! حَاوَلَ الْقَوْمُ اِطْفَآءَ نُوْرِ اللهِ مِنْ مِّصْبَاحِهٖ، وَ سَدَّ فَوَّارِهٖ مِنْ یَّنْۢبُوْعِهٖ، وَ جَدَحُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ شِرْبًا وَّ بِیْٓـئًا، فَاِنْ تَرْتَفِـعْ عَنَّا وَ عَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوٰی، اَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلٰی مَحْضِهٖ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، ﴿فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُکَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾.
اب تو اس مصیبت کو دیکھو کہ جو ابو سفیان کے بیٹے کی وجہ سے آئی ہے۔ مجھے تو (اس پر) زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسایا ہے اور زمانہ کی (موجودہ روش سے) خدا کی قسم! کوئی تعجب نہیں ہے۔ اس مصیبت پر تعجب ہوتا ہے کہ جس سے تعجب کی حد ہو گئی ہے اور جس نے بے راہ رویوں کو بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اللہ کے روشن چراغ کا نور بجھانا چاہا اور اس کے سرچشمہ (ہدایت کے) فوارے کو بند کرنے کے درپے ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کی۔ اگر اس ابتلا کی دشواریاں ہمارے اور ان کے درمیان سے اٹھ جائیں تو میں انہیں خالص حق کے راستے پر لے چلوں گا اور اگر کوئی اور صورت ہو گئی تو پھر ان پر حسرت و افسوس کرتے ہوئے تمہارا دم نہ نکلے۔ اس لئے کہ یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
وَ هاتِ حَدِیْثًا مَّا حَدِیْثُ الرَّوَاحِل
اور ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں نے وہ اونٹ خالد کے روانہ کر دئیے تھے اور اس نے امرأ القیس کو دینے کے بجائے خود ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب امرأ القیس کو اس کا پتہ چلا تو اس نے چند اشعار کہے جن کا ایک شعر یہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان اونٹوں کا ذکر چھوڑو جنہیں لوٹا جا چکا ہے۔ اب ان اونٹنیوں کی بات کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہیں۔
حضرتؐ کے اس شعر کو بطور تمثیل پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ معاویہ بر سرپیکار ہے اس کی بات کرو اور ان لوگوں کی غارت گریوں کا ذکر رہنے دو کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد میرے حق پر چھاپہ مارا۔ وہ دور گزر چکا ہے۔ اب اس دور کے فتنوں سے نپٹنے کا وقت ہے۔ لہٰذا وقت کی بات کرو اور بے وقت کی راگنی نہ چھیڑو۔ یہ اس لئے فرمایا کہ سائل نے یہ سوال جنگ صفین کے موقع پر کیا تھا، جبکہ جنگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور کشت و خون کی گرم بازاری تھی۔
balagha.org