بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

قَالَهٗ لِلْبُرْجِ بْنِ مُسْهِرٍ الطَّآئِىِّ وَ قَدْ قَالَ لَهٗ بِحَیْثُ یَسْمَعُهٗ: «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ»، وَ کَانَ مِنَ الْخَوَارِجِ:

برج ابن مسہر طائی نے کہ جو خوارج میں سے تھا (مشہور نعرہ) «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰه» (حکم کا اختیار صرف اللہ کو ہے) اس طرح بلند کیا کہ حضرتؑ سن لیں۔ چنانچہ آپؑ نے سن کر ارشاد فرمایا:

اُسْکُتْ قَبَّحَکَ اللهُ یَاۤ اَثْرَمُ! فَوَاللهِ! لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَکُنْتَ فِیْهِ ضَئِیْلًا شَخْصُکَ، خَفِیًّا صَوْتُکَ، حَتّٰۤی اِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُوْمَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

خاموش! خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے! خدا کی قسم! جب حق ظاہر ہوا تو اس وقت تیری شخصیت ذلیل اور تیری آواز دبی ہوئی تھی اور جب باطل زور سے چیخا ہے تو بھی بکری کے سینگ کی طرح ابھر آیا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 19:07
عون نقوی

فِیْ بَعْضِ اَیَّامِ صِفِّیْنَ

جنگ ِصفین کے دوران فرمایا

وَ قَدْ رَاَیْتُ جَوْلَـتَکُمْ، وَ انْحِیَازَکُمْ عَنْ صُفُوْفِکُمْ، تَحُوْزُکُمُ الْجُفَاةُ الطَّغَامُ، وَ اَعْرَابُ اَهْلِ الشَّامِ، وَ اَنْتُمْ لَهَامِیْمُ الْعَرَبِ، وَ یَاٰفِیْخُ الشَّرَفِ، وَ الْاَنْفُ الْمُقَدَّمُ، وَ السَّنَامُ الْاَعْظَمُ، وَ لَقَدْ شَفٰی وَ حَاوِحَ صَدْرِیْۤ اَنْ رَّاَیْتُکُمْ بِاَخَرَةٍ، تَحُوْزُوْنَهُمْ کَمَا حَازُوْکُمْ، وَ تُزِیْلُوْنَهُمْ عَنْ مَّوَاقِفِهِمْ کَمَاۤ اَزَالُوْکُمْ حَسًّۢا بِالنِّصَالِ، وَ شَجْرًۢا بِالرِّمَاحِ، تَرْکَبُ اُوْلَاهُمْ اُخْرَاهُمْ کَالْاِبِلِ الْهِیْمِ الْمَطْرُوْدَةِ، تُرْمٰی عَنْ حِیَاضِهَا، وَ تُذَادُ عَنْ مَّوَارِدِهَا.

میں نے تمہیں بھاگتے اور صفوں سے منتشر ہوتے ہوئے دیکھا، (جبکہ) تمہیں چند کھرے قسم کے اوباشوں اور شام کے بدؤں نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ حالانکہ تم عرب کے جواں مرد، شرف کے راس و رئیس، (قوم میں) اونچی ناک والے اور چوٹی کی بلندی والے ہو۔ میرے سینے سے نکلنے والی کراہنے کی آوازیں اسی وقت دب سکتی ہیں کہ جب میں دیکھ لوں کہ آخر کار جس طرح انہوں نے تمہیں گھیر رکھا ہے تم نے بھی انہیں اپنے نرغہ میں لے لیا ہو اور جس طرح انہوں نے تمہارے قدم اکھیڑ دیئے ہیں اسی طرح تم نے بھی ان کے قدم ان کی جگہوں سے اکھیڑ ڈالے ہوں، تیروں کی بوچھاڑ سے انہیں قتل کرتے ہوئے اور نیزوں کے ایسے ہاتھ چلاتے ہوئے کہ جس سے ان کی پہلی صفیں دوسری صفوں پر چڑھی جاتی ہوں، جیسے ہنکائے ہوئے پیاسے اونٹ کہ جنہیں ان کے تالابوں سے دور پھینک دیا گیا ہو اور ان کے گھاٹوں سے علیحدہ کر دیا گیا ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:56
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ شَرَعَ الْاِسْلَامَ فَسَهَّلَ شَرَآئِعَهٗ لِمَنْ وَرَدَهٗ، وَ اَعَزَّ اَرْکَانَهٗ عَلٰی مَنْ غَالَبَهٗ، فَجَعَلَهٗۤ اَمْنًا لِّمَنْ عَلِقَهٗ، وَ سِلْمًا لِّمَنْ دَخَلَهٗ، وَ بُرْهَانًا لِّمَنْ تَکَلَّمَ بِهٖ، وَ شَاهِدًا لِّمَنْ خَاصَمَ بِهٖ، وَ نُوْرًا لِّمَنِ اسْتَضَآءَ بِهٖ، وَ فَهْمًا لِّمَنْ عَقَلَ، وَ لُبًّا لِّمَنْ تَدَبَّرَ، وَ اٰیَةً لِّمَنْ تَوَسَّمَ، وَ تَبْصِرَةً لِّمَنْ عَزَمَ، وَ عِبْرَةً لِّمَنِ اتَّعَظَ، وَ نَجَاةً لِّمَنْ صَدَّقَ، وَ ثِقَةً لِّمَنْ تَوَکَّلَ، وَ رَاحَةً لِّمَنْ فَوَّضَ، وَ جُنَّةً لِّمَنْ صَبَرَ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس کے (سر چشمہ) ہدایت پر اترنے والوں کیلئے اس کے قوانین کو آسان کیا اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ و سرفرازی دی۔ چنانچہ جو اس سے وابستہ ہو اس کیلئے امن، جو اس میں داخل ہو اس کیلئے صلح و آشتی، جو اس کی بات کرے اس کیلئے دلیل، جو اس کی مدد لے کر مقابلہ کرے اس کیلئے اسے گواہ قرار دیا ہے اور اس سے کسب ضیا کرنے والے کیلئے نور، سمجھنے بوجھنے اور سوچ بچار کرنے والے کیلئے فہم و دانش، غور کرنے والے کیلئے (روشن) نشانی، ارادہ کرنے والے کیلئے بصیرت، نصیحت قبول کرنے والے کیلئے عبرت، تصدیق کرنے والے کیلئے نجات، بھروسا کرنے والے کیلئے اطمینان، ہر چیز اسے سونپ دینے والے کیلئے راحت اور صبر کرنے والے کیلئے سپر بنایا ہے۔

فَهُوَ اَبْلَجُ الْمَنَاهِجِ، وَاضِحُ الْوَلَاۗئِجِ، مُشْرَفُ الْمَنَارِ، مُشْرِقُ الْجَوَادِّ، مُضِیْٓءُ الْمَصَابِیْحِ، کَرِیْمُ الْمِضْمَارِ، رَفِیْعُ الْغَایَةِ، جَامِعُ الْحَلْبَةِ، مُتَنَافِسُ السُّبْقَةِ، شَرِیْفُ الْفُرْسَانِ. التَّصْدِیْقُ مِنْهَاجُهٗ، وَ الصَّالِحَاتُ مَنَارُهٗ، وَ الْمَوْتُ غَایَتُهٗ، وَ الدُّنْیَا مِضْمَارُهٗ، وَ الْقِیٰمَةُ حَلْبَتُهٗ، وَ الْجَنَّةُ سُبْقَتُهٗ.

وہ تمام سیدھی راہوں میں زیادہ روشن اور تمام عقیدوں میں زیادہ واضح ہے۔ اس کے مینار بلند، راہیں درخشاں اور چراغ روشن ہیں۔ اس کا میدان (عمل) باوقار اور مقصد و غایت بلند ہے۔ اس کے میدان میں تیز رفتار گھوڑوں کا اجتماع ہے۔ اس کی طرف بڑھنا مطلوب و پسندیدہ ہے۔ اس کے شاہسوار عزت والے اور اس کا راستہ (اللہ و رسولؐ کی) تصدیق ہے اور اچھے اعمال (راستے کے) نشانات ہیں۔ دنیا گھوڑ دوڑ کا میدان اور موت پہنچنے کی حد اور قیامت گھوڑوں کے جمع ہونے کی جگہ اور جنت بڑھنے کا انعام ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ ﷺ]

[اسی خطبہ کا یہ جز نبی ﷺ کے متعلق ہے]

حَتّٰۤی اَوْرٰی قَـبَسًا لِّقَابِسٍ، وَ اَنَارَ عَلَمًا لِّحَابِسٍ، فَهُوَ اَمِیْنُکَ الْمَاْمُوْنُ، وَ شَهِیْدُکَ یَوْمَ الدِّیْنِ، وَ بَعِیْثُکَ نِعْمَةً، وَ رَسُوْلُکَ بِالْحَقِّ رَحْمَةً.

یہاں تک کہ آپؐ نے روشنی ڈھونڈھنے والے کیلئے شعلے بھڑکائے اور (راستہ کھوکر) سواری کے روکنے والے کیلئے نشانات روشن کئے۔ (اے اللہ!) وہ تیرے بھروسے کا امین اور قیامت کے دن تیرا (ٹھہرایا ہوا) گواہ ہے، وہ تیرا نبی مرسل و رسول برحق ہے جو (دنیا کیلئے) نعمت و رحمت ہے۔

اَللّٰهُمَّ اقْسِمْ لَهٗ مَقْسَمًا مِّنْ عَدْلِکَ، وَ اجْزِهٖ مُضَاعَفَاتِ الْخَیْرِ مِنْ فَضْلِکَ.

(خدایا!) تو انہیں اپنے عدل و انصاف سے ان کا حصہ عطا کر اور اپنے فضل سے انہیں دہرے حسنات اجر میں دے۔

اَللّٰهُمَّ اَعْلِ عَلٰی بِنَآءِ الْبَانِیْنَ بِنَآئَهٗ، وَاَکْرِمْ لَدَیْکَ نُزُلَهٗ، وَ شَرِّفْ لَدَیْکَ مَنْزِلَهٗ، وَ اٰتِهِ الْوَسِیْلَةَ، وَ اَعْطِهِ السَّنَآءَ وَ الْفَضِیْلَةَ، وَ احْشُرْنَا فِیْ زُمْرَتِهٖ غَیْرَ خَزَایَا، وَ لَا نَادِمِیْنَ، وَ لَا نَاکِبِیْنَ، وَ لَا نَاکِثِیْنَ، وَ لَا ضَالِّیْنَ، وَ لَا مُضِلِّیْنَ وَ لَا مَفْتُوْنِیْنَ.

(اے اللہ!) ان کی عمارت کو تمام معماروں کی عمارتوں پر فوقیت عطا کر اور اپنے پاس ان کی عزت و آبرو سے مہمانی کر اور ان کے مرتبہ کو بلندی و شرف بخش اور انہیں بلند درجہ دے اور رفعت و فضیلت عطا کر اور ہمیں ان کی جماعت میں اس طرح محشور کر کہ نہ ہم ذلیل و رسوا ہوں، نہ نادم و پریشان، نہ حق سے روگردان، نہ عہد شکن، نہ گمراہ، نہ گمراہ کن اور نہ فریب خوردہ۔

وَ قَدْ مَضٰی هٰذَا الْکَلامُ فِیْمَا تَقَدمَّ اِلَّاۤ اَنَّنَا کَرَّرْنَاهُ هٰهُنَا لِمَا فِی الرِّوَایَتَیْنِ مِنَ الْاِخْتِلَافِ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں: یہ کلام اگرچہ پہلے گزر چکا ہے، مگر ہم نے پھر اعادہ کیا ہے چونکہ دونوں روایتوں کی لفظوں میں کچھ اختلاف ہے۔

[مِنْهَا: فِیْ خِطَابِ اَصْحَابِهٖ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے جس میں اپنے اصحاب سے خطاب فرمایا ہے]

وَ قَدْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرَامَةِ اللهِ لَکُمْ مَّنْزِلَةً تُکْرَمُ بِهَا اِمَآؤُکُمْ، وَ تُوْصَلُ بِهَا جِیْرَانُکُمْ، وَ یُعَظِّمُکُمْ مَّنْ لَّا فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْهِ، وَ لَا یَدَ لَکُمْ عِنْدَهٗ، وَ یَهَابُکُمْ مَنْ لَّا یَخَافُ لَکُمْ سَطْوَةً، وَ لَا لَکُمْ عَلَیْهِ اِمْرَةٌ.

تم اپنے اللہ کے لطف و کرم کی بدولت ایسے مرتبہ پر پہنچ گئے کہ تمہاری کنیزیں بھی محترم سمجھی جانے لگیں اور تمہارے ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کیا جانے لگا اور وہ لوگ بھی تمہاری تعظیم کرنے لگے جن پر تمہیں نہ کوئی فضیلت تھی، نہ تمہارا کوئی ان پر احسان تھا اور وہ لوگ بھی تم سے دہشت کھانے لگے جنہیں تمہارے حملہ کا کوئی اندیشہ نہ تھا اور نہ تمہارا ان پر تسلط تھا۔

وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُوْدَ اللهِ مَنْقُوْضَةً فَلَا تَغْضَبُوْنَ! وَ اَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ اٰبَآئِکُمْ تَاْنَفُوْنَ! وَ کَانَتْ اَمُوْرُ اللهِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ، وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ، وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِـعُ، فَمَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَّنْزِلَتِکُمْ، وَ اَلْقَیْتُمْ اِلَیْهِمْ اَزِمَّتَکُمْ، وَ اَسْلَمْتُمْ اُمُوْرَ اللهِ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ، یَعْمَلُوْنَ بِالشُّبُهَاتِ، وَ یَسِیْرُوْنَ فِی الشَّهَوَاتِ، وَ اَیْمُ اللهِ! لَوْ فَرَّقُوْکُمْ تَحْتَ کُلِّ کَوْکَبٍ لَّجَمَعَکُمُ اللهُ لِشَرِّ یَوْمٍ لَّهُمْ.

مگر اس وقت تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ کے عہد توڑے جا رہے ہیں اور تم غیظ میں نہیں آتے، حالانکہ اپنے آباؤ اجداد کے قائم کردہ رسم و آئین کے توڑے جانے سے تمہارى رگِ حمیت جنبش میں آ جاتی ہے۔ حالانکہ اب تک اللہ کے معاملات تمہارے ہی سامنے پیش ہوتے رہے اور تمہارے ہی (ذریعہ سے) ان کا حل ہوتا رہا ہے اور تمہاری ہی طرف ہر پھر کر آتے ہیں۔ لیکن تم نے اپنی جگہ ظالموں کے حوالے کر دی ہے اور اپنی باگ ڈور انہیں تھما دی ہے اور اللہ کے معاملات انہیں سونپ دیئے ہیں کہ وہ شبہوں پر عمل پیرا اور نفسانی خواہشوں پر گامزن ہیں۔ خدا کی قسم! اگر وہ تمہیں ہر ستارے کے نیچے بکھیر دیں تو بھی اللہ تمہیں اس دن (ضرور) جمع کرے گا جو ان کیلئے بہت بُرا دن ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:49
عون نقوی

حَتّٰی بَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًا ﷺ، شَهِیْدًا وَّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا، خَیْرَ الْبَرِیَّةِ طِفْلًا، وَ اَنْجَبَهَا کَهْلًا، اَطْهَرَ الْمُطَهَّرِیْنَ شِیْمَةً، وَ اَجْوَدَ الْمُسْتَمْطَرِیْنَ دِیْمَةً.

آخر اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا در آنحالیکہ وہ گواہی دینے والے، خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تھے۔ جو بچپنے میں بھی بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہونے پر بھی اشرفِ کائنات تھے اور پاک لوگوں میں خو خصلت کے اعتبار سے پاکیزہ تر اور جود و سخا میں ابر صفت، برسائے جانے والوں میں سب سے زائد لگاتار برسنے والے تھے۔

فَمَا احْلَوْلَتْ لَکُمُ الدُّنْیَا فِیْ لَذَّتِهَا، وَ لَا تَمَکَّنْتُمْ مِنْ رَّضَاعِ اَخْلَافِهَا، اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا صَادَفْتُمُوْهَا جَآئِلًا خِطَامُهَا، قَلِقًا وَضِیْنُهَا، قَدْ صَارَ حَرَامُهَا عِنْدَ اَقْوَامٍۭ بِمَنْزِلَةِ السِّدْرِ الْمَخْضُوْدِ، وَ حَلَالُهَا بَعِیْدًا غَیْرَ مَوْجُوْدٍ.

دنیا اپنی لذتوں میں اس وقت تمہارے لئے شیریں و خوشگوار ہوئی اور اس وقت تم اس کے تھنوں سے دودھ پینے پر قادر ہوئے کہ جبکہ اس کے پہلے اس کی مہاریں جھول رہی تھیں اور اس کا تنگ (ڈھیلا ہو کر) ہل رہا تھا (یعنی اس کا کوئی سوار اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا جو اس کی باگیں اٹھاتا اور اس کا تنگ کستا)۔ کچھ قوموں کیلئے تو حرام اس بیری کے مانند (خوشگوار اور مزے دار) ہو گیا تھا جس کی شاخیں پھلوں کی وجہ سے جھکی ہوئی ہوں اور حلال ان کیلئے (کوسوں) دور اور نایاب تھا۔

وَ صَادَفْتُمُوْهَا وَاللهِ! ظِلًّا مَمْدُوْدًا اِلٰۤی اَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ، فَالْاَرْضُ لَکُمْ شَاغِرَةٌ، وَ اَیْدِیْکُمْ فِیْهَا مَبْسُوْطَةٌ، وَ اَیْدِی الْقَادَةِ عَنْکُمْ مَکْفُوْفَةٌ، وَ سُیُوْفُکُمْ عَلَیْهِمْ مُسَلَّطَةٌ، وَ سُیُوْفُهُمْ عَنْکُمْ مَقْبُوْضَةٌ.

خدا کی قسم! یہ دنیا لمبی چھاؤں کی صورت میں ایک مقررہ وقت تک تمہارے پاس ہے۔ مگر اس وقت تو زمین بغیر روک ٹوک کے تمہارے قبضے میں ہے، تمہارے ہاتھ اس میں کھلے ہوئے ہیں اور پیشواؤں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، تمہاری تلواریں ان پر مسلط ہیں اور ان کی تلواریں روکی جا چکی ہیں۔

اَلَاۤ اِنَّ لِکُلِّ دَمٍ ثَآئِرًا، وَ لِکُلِّ حَقٍّ طَالِبًا، وَ اِنَّ الثَّـآئِرَ فِیْ دِمَآئِنَا کَالْحَاکِمِ فِیْ حَقِّ نَفْسِهٖ، وَ هُوَ اللهُ الَّذِیْ لَا یُعْجِزُهٗ مَنْ طَلَبَ، وَ لَا یَفُوْتُهٗ مَنْ هَرَبَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر خون کا کوئی قصاص لینے والا اور ہر حق کا کوئی طلب کرنے والا بھی ہوتا ہے اور ہمارے خون کا قصاص لینے والا اس حاکم کے مانند ہے جو اپنے ہی حق کے بارے میں فیصلہ کرے اور وہ اللہ ہے کہ جسے وہ تلاش کرے وہ اسے بے بس نہیں بنا سکتا اور جو بھاگنے کی کوشش کرے وہ اس کے ہاتھوں سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔

فَاُقْسِمُ بِاللهِ یَا بَنِیْۤ اُمَیَّةَ! عَمَّا قَلِیْلٍ لَتَعْرِفُنَّهَا فِیْۤ اَیْدِیْ غَیْرِکُمْ وَ فِیْ دَارِ عَدُوِّکُمْ! اَلَا اِنَّ اَبْصَرَ الْاَبْصَارِ مَا نَفَذَ فِی الْخَیْرِ طَرْفُهٗ! اَلَا اِنَّ اَسْمَعَ الْاَسْمَاعِ مَا وَعَی التَّذْکِیْرَ وَ قَبِلَهٗ.

اے بنی امیہ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جلد ہی تم اپنی دنیا (اور اس کی ثروتوں کو) دوسروں کے ہاتھوں اور دشمنوں کے گھروں میں دیکھو گے۔ سب آنکھوں سے زیادہ دیکھنے والی وہ آنکھ ہے جس کی نظر نیکیوں میں اتر جائے اور سب کانوں سے بڑھ کر سننے والا وہ کان ہے کہ جو نصیحت کی باتیں سنے اور انہیں قبول کرے۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اسْتَصْبِحُوْا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحِ وَّاعِظٍ مُّتَّعِظٍ، وَ امْتَاحُوْا مِنْ صَفْوِ عَیْنٍ قَدْ رُوِّقَتْ مِنَ الْکَدَرِ.

اے لوگو! واعظ با عمل کے چراغ (ہدایت) کی لو سے اپنے چراغ روشن کر لو اور اس صاف و شفاف چشمہ سے پانی بھر لو جو (شبہات کی) آمیزشوں اور کُدورتوں سے نتھر چکا ہے۔

عِبَادَ اللهِ! لَا تَرْکَنُوْۤا اِلٰی جَهَالَتِکُمْ، وَ لَا تَنْقَادُوْا لِاَهْوَآئِکُمْ، فَاِنَّ النَّازِلَ بِهٰذَا الْمَنْزِلِ نَازِلٌۢ بِشَفَا جُرُفٍ هَارٍ، یَنْقُلُ الرَّدٰی عَلٰی ظَهْرِهٖ مِنْ مَّوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ، لِرَاْیٍ یُّحْدِثُهٗ بَعْدَ رَاْیٍ، یُرِیْدُ اَنْ یُّلْصِقَ مَا لَا یَلْتَصِقُ، وَ یُقَرِّبَ مَا لَا یَتَقَارَبُ! فَاللهَ اللهَ! اَنْ تَشْکُوْا اِلٰی مَنْ لَا یُشْکِیْ شَجْوَکُمْ، وَ لَا یَنْقُضُ بِرَاْیِهٖ مَا قَدْ اُبْرِمَ لَکُمْ.

اے اللہ کے بندو! اپنی جہالتوں کی طرف نہ مڑو اور نہ اپنی خواہشوں کے تابع ہو جاؤ۔ اس لئے کہ خواہشوں کی منزل میں اترنے والا ایسا ہے جیسے کوئی سیلاب زدہ دیوار کے کنارے پر کھڑا ہو کہ جو گرا چاہتی ہو، وہ ہلاکتوں کا پلندہ اپنی پیٹھ پر اٹھائے کبھی اس کندھے پر رکھتا ہے کبھی اس کندھے پر۔ اپنی ان رایوں کی صورت میں جنہیں وہ بدلتا رہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس پر (کوئی دلیل) چسپاں کرے مگر جو چپکنے والی نہیں ہوتی اور اسے (ذہنوں سے) قریب کرنا چاہتا ہے جو قریب ہونے کے قابل نہیں۔ اللہ سے ڈرو کہ تم اپنی شکایتیں اس شخص کے سامنے لے کر بیٹھ جاؤ کہ جو (تمہاری خواہشوں کے مطابق) تمہارے شکووں کے قلق کو دور نہیں کرے گا اور نہ شریعت کے محکم و مضبوط احکام کو توڑے گا۔

اِنَّهٗ لَیسَ عَلَی الْاَمَامِ اِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ اَمْرِ رَبِّهِ: الْاِبْلَاغُ فِی الْمَوْعِظَةِ، وَ الْاِجْتِهَادُ فِی النَّصِیْحَةِ، وَ الْاِحْیَآءُ لِلسُّنَّةِ، وَ اِقَامَةُ الْحُدُوْدِ عَلٰی مُسْتَحِقِّیْهَا، وَ اِصْدَارُ السُّهْمَانِ عَلٰۤی اَهْلِهَا.

امام کا فرض تو بس یہ ہے کہ جو کام اسے اپنے پروردگار کی طرف سے سپرد ہوا ہے (اسے انجام دے) اور وہ یہ ہے کہ پند و نصیحت کی باتیں ان تک پہنچائے، سمجھانے بجھانے میں پوری پوری کوشش کرے، سنت کو زندہ رکھے اور جن پر حد لگنا ہے ان پر حد جاری کرے اور (غصب کئے ہوئے) حصوں کو ان کے اصلی وارثوں تک پہنچائے۔

فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِیْحِ نَبْتِهٖ، وَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُشْغَلُوْا بِاَنْفُسِکُمْ عَنْ مُّسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ اَهْلِهٖ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تَنَاهَوْا عَنْهُ، فَاِنَّمَا اُمِرْتُمْ بِالنَّهْیِ بَعْدَ التَّنَاهِیْ!.

تمہیں چاہیے کہ علم کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ اس کا (ہرا بھرا) سبزہ خشک ہو جائے اور قبل اس کے کہ اہل علم سے علم سیکھنے میں اپنے ہی نفس کی مصروفیتیں حائل ہو جائیں۔ دوسروں کو برائیوں سے روکو اور خود بھی رکے رہو۔ اس لئے کہ تمہیں برائیوں سے رکنے کا حکم پہلے ہے اور دوسروں کو روکنے کا بعد میں ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:45
عون نقوی

وَقَدْ تَقَدَمَّ مُخْتَارُھَا بِخَلَافِ ھٰذِہِ الرِّوَایَۃِ:

ایک دوسری روایت کی بنا پر یہ خطبہ پہلے درج ہو چکا ہے:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْرَاُ کِتَابًا، وَ لَا یَدَّعِیْ نُبُوَّةً وَّ لَا وَحْیًا، فَقَاتَلَ بِمَنْ اَطَاعَهٗ مَنْ عَصَاهُ، یَسُوْقُهُمْ اِلٰی مَنْجَاتِهِمْ، وَ یُبَادِرُ بِهِمُ السَّاعَةَ اَنْ تَنْزِلَ بِهِمْ، یَحْسِرُ الْحَسِیْرُ، وَ یَقِفُ الْکَسِیْرُ فَیُقِیْمُ عَلَیْهِ حَتّٰی یُلْحِقَهُ غَایَتَهٗ، اِلَّا هَالِکًا لَّا خَیْرَ فِیْهِ، حَتّٰی اَرَاهُمْ مَنْجَاتَهُمْ وَ بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، فَاسْتَدَارَتْ رَحَاهُمْ، وَ اسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَایْمُ اللهِ! لَقَدْ کُنْتُ مِنْ سَاقَتِهَا حَتّٰی تَوَلَّتْ بِحَذَافِیْرِهَا، وَ اسْتَوْسَقَتْ فِیْ قِیَادِهَا، مَا ضَعُفْتُ، وَلَا جَبُنْتُ، وَ لَا خُنْتُ، وَ لَا وَهَنْتُ، وَایْمُ اللهِ! لَاَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ حَتّٰۤی اُخْرِجَ الْحَقَّ مِنْ خَاصِرَتِهٖ.

جب اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا تو عربوں میں نہ کوئی (آسمانی) کتاب کا پڑھنے والا تھا اور نہ کوئی نبوت و وحی کا دعوے دار۔ آپؐ نے اطاعت کرنے والوں کو لے کر اپنے مخالفوں سے جنگ کی۔ درآنحالیکہ آپؐ ان لوگوں کو نجات کی طرف لے جا رہے تھے اور قبل اس کے کہ موت ان لوگوں پر آ پڑے، ان کی ہدایت کیلئے بڑھ رہے تھے۔ جب کوئی تھکا ماندہ رک جاتا تھا اور خستہ و درماندہ ٹھہر جاتا تھا تو آپؐ اس کے (سر پر) کھڑے ہو جاتے تھے اور اسے اس کی منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی ایسا تباہ حال ہو جس میں ذرّہ بھر بھلائی ہی نہ ہو۔ یہاں تک کہ آپؐ نے انہیں نجات کی منزل دکھا دی اور انہیں ان کے مرتبہ پر پہنچا دیا، چنانچہ ان کی چکی گھومنے لگی اور ان کے نیزے کا خم جاتا رہا۔ خدا کی قسم میں بھی انہیں ہنکانے والوں میں تھا۔ یہاں تک کہ وہ پوری طرح پسپا ہو گئے اور اپنے بندھنوں میں جکڑ دئیے گئے۔ اس دوران میں نہ مَیں عاجز ہوا نہ بزدلی دکھائی، نہ کسی قسم کی خیانت کی اور نہ مجھ میں کمزوری آئی۔ خدا کی قسم! میں (اب بھی) باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 February 23 ، 18:42
عون نقوی