بصیرت اخبار

۱۷۵ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام علیؑ» ثبت شده است

فِیْ مَعْنٰى طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰهِ

طلحہ ابن عبید اللہ کے بارے میں فرمایا

قَدْ کُنْتُ وَ مَاۤ اُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ، وَ لَاۤ اُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ، وَ اَنَا عَلٰی مَا قَدْ وَعَدَنِیْ رَبِّیْ مِنَ النَّصْرِ.

مجھے تو کبھی بھی حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہیں جا سکا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے کئے ہوئے وعدهٔ نصرت پر مطمئن ہوں۔

وَاللهِ! مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّدًا لِّلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ اِلَّا خَوْفًا مِّنْ اَنْ یُّطَالَبَ بِدَمِهٖ، لِاَنَّهٗ مَظِنَّتُهٗ، وَ لَمْ یَکُنْ فِی الْقَومِ اَحْرَصُ عَلَیْهِ مِنْهُ، فَاَرَادَ اَنْ یُّغَالِطَ بِمَاۤ اَجْلَبَ فِیْهِ لِیَلْتَبِسَ الْاَمْرُ وَ یَقَعَ الشَّکُّ.

خدا کی قسم! وہ خون عثمان کا بدلہ لینے کیلئے کھنچی ہوئی تلوار کی طرح اس لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اسی سے ان کے خون کا مطالبہ نہ ہونے لگے۔ کیونکہ (لوگوں کا) ظن غالب اس کے متعلق یہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ (قتل کرنیوالی) جماعت میں اس سے بڑھ کر ان کے خون کا پیاسا ایک بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے خون کا عوض لینے کے سلسلے میں جو فوجیں فراہم کی ہیں اس سے یہ چاہا ہے کہ لوگوں کو مغالطہ دے تاکہ حقیقت مشتبہ ہو جائے اور اس میں شک پڑ جائے۔

وَ وَاللهِ! مَا صَنَعَ فِیْۤ اَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِّنْ ثَلَاثٍ: لَئِنْ کَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِمًا ـ کَمَا کَانَ یَزْعُمُ ـ لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یُّوَازِرَ قَاتِلِیْهِ اَوْ اَنْ یُّنَابِذَ نَاصِرِیْهٖ، وَ لَئِنْ کَانَ مَظْلُوْمًا لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُنَهْنِهِیْنَ عَنْهُ وَ الْمُعَذِّرِیْنَ فِیْهِ، وَ لَئِنْ کَانَ فِیْ شَکٍّ مِّنَ الْخَصْلَتَیْنِ، لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّعْتَزِلَهٗ وَ یَرْکُدَ جَانِبًا وَّ یَدَعَ النَّاسَ مَعَهٗ، فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِّنَ الثَّلَاثِ، وَ جَآءَ بِاَمْرٍ لَّمْ یُعْرَفْ بَابُهٗ، وَ لَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِیْرُهٗ.

خدا کی قسم! اس نے عثمان کے معاملہ میں ان تین باتوں میں سے ایک بات پر بھی تو عمل نہیں کیا: اگر ابن عفان جیسا کہ اس کا خیال تھا ظالم تھے [۱] تو (اس صورت میں) اسے چاہیے تھا کہ ان کے قاتلوں کی مدد کرتا یا ان کے مددگاروں سے علیحدگی اختیار کر لیتا اور اگر وہ مظلوم تھے تو اس صورت میں اس کیلئے مناسب تھا کہ ان کے قتل سے روکنے والوں اور ان کی طرف سے عذر و معذرت کرنے والوں میں ہوتا اور اگر ان دونوں باتوں میں اسے شبہ تھا تو اس صورت میں اسے یہ چاہیے تھا کہ ان سے کنارہ کش ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا (کہ وہ جانیں اور ان کا کام)۔ لیکن اس نے ان باتوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا اور ایک ایسی بات کو لے کر سامنے آ گیا ہے کہ جس کی صحت کی کوئی صورت ہی نہیں اور نہ اس کا کوئی عذر درست ہے۔


۱؂مطلب یہ ہے کہ اگر طلحہ حضرت عثمان کو ظالم سمجھتے تھے تو ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے قاتلوں سے آمادۂ قصاص ہونے کے بجائے ان کی مدد کرنا چاہیے تھی اور ان کے اس اقدام کو صحیح و درست قرار دینا چاہیے تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ظالم ہونے کی صورت میں محاصرہ کرنے والوں کی ان کو مدد کرنا چاہیے تھی، کیونکہ ان کی مدد و ہمت افزائی تو وہ کرتے ہی رہے تھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:30
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا تُوَارِیْ عَنْهُ سَمَآءٌ سَمَآءً، وَ لَاۤ اَرْضٌ اَرْضًا.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس سے ایک آسمان دوسرے آسمان کو اور ایک زمین دوسری زمین کو نہیں چھپاتی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا]

وَ قَدْ قَالَ قَآئِلٌ: اِنَّکَ عَلٰی هٰذَا الْاَمْرِ یَا بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ لَحَرِیْصٌ. فَقُلْتُ: بَلْ اَنْتُمْ وَاللهِ! لَاَحْرَصُ وَ اَبْعَدُ، وَ اَنَا اَخَصُّ وَ اَقْرَبُ، وَ اِنَّمَا طَلَبْتُ حَقًّا لِّیْ وَ اَنْتُمْ تَحُوْلُوْنَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَهٗ، وَ تَضْرِبُوْنَ وَجْهِیْ دُوْنَهٗ، فَلَمَّا قَرَعْتُهٗ بِالْحُجَّةِ فِی الْمَلَاِ الْحَاضِرِیْنَ هَبَّ، کَاَنَّهٗ بُهِتَ لَا یَدْرِیْ مَا یُجِیْبُنِیْ بِهٖ!.

مجھ سے ایک کہنے والے [۱] نے کہا کہ: اے ابن ابی طالبؑ! آپؑ تو اس خلافت پر للچائے ہوئے ہیں تو میں نے کہا کہ: خدا کی قسم! تم اس پر کہیں زیادہ حریص اور (اس منصب کی اہلیت سے) دور ہو اور میں اس کا اہل اور (پیغمبر ﷺ سے) نزدیک تر ہوں۔ میں نے تو اپنا حق طلب کیا ہے اور تم میرے اور میرے حق کے درمیان حائل ہو جاتے ہو اور جب اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں تو تم میرا رخ موڑ دیتے ہو۔ چنانچہ جب بھری محفل میں مَیں نے اس دلیل سے اس (کے کان کے پردوں) کو کھٹکھٹایا تو چوکنا ہوا اور اس طرح مبہوت ہو کر رہ گیا کہ اسے کوئی جواب نہ سوجھتا تھا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْتَعْدِیْکَ عَلٰی قُرَیْشٍ وَّ مَنْ اَعَانَهُمْ! فَاِنَّهُمْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ صَغَّرُوْا عَظِیْمَ مَنْزِلَتِیْ، وَ اَجْمَعُوْا عَلٰی مُنَازَعَتِیْ اَمْرًا هُوَ لِیْ.ثُمَّ قَالُوْا: اَ لَاۤ اِنَّ فِی الْحَقِّ اَنْ تَاْخُذَهٗ، وَ فِی الْحَقِّ اَنْ تَتْرُکَهٗ.

خدایا! میں قریش اور ان کے مدد گاروں کے خلاف تجھ سے مدد چاہتا ہوں۔ کیونکہ انہوں نے قطع رحمی کی اور میرے مرتبہ کی بلندی کو پست سمجھا اور اس (خلافت) پر کہ جو میرے لئے مخصوص تھی ٹکرانے کیلئے ایکا کر لیا ہے۔ پھر کہتے یہ ہیں کہ حق تو یہی ہے کہ آپؑ اسے لیں اور یہ بھی حق ہے کہ آپؑ اس سے دستبردار ہو جائیں۔ [۲]

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ اَصْحَابِ الْجَمَلِ]

[اس خطبہ کا یہ جز اصحاب جمل کے متعلق ہے]

فَخَرَجُوْا یَجُرُّوْنَ حُرْمَةَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ کَمَا تُجَرُّ الْاَمَةُ عِنْدَ شِرَآئِهَا، مُتَوَجِّهِیْنَ بِهَاۤ اِلَی الْبَصْرَةِ، فَحَبَسَا نِسَآءَ هُمَا فِیْ بُیُوْتِهِمَا، وَ اَبْرَزَا حَبِیْسَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ لَهُمَا وَ لِغَیْرِهِمَا، فِیْ جَیْشٍ مَّا مِنْهُمْ رَجُلٌ اِلَّا وَ قَدْ اَعْطَانِی الطَّاعَةَ، وَ سَمَحَ لِیْ بِالْبَیْعَةِ، طَآئِعًا غَیْرَ مُکْرَهٍ، فَقَدِمُوْا عَلٰی عَامِلِیْ بِهَا وَ خُزَّانِ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ غَیْرِهِمْ مِنْ اَهْلِهَا، فَقَتَلُوْا طَآئِفَةً صَبْرًا، وَ طَآئِفَةً غَدْرًا.

وہ لوگ (مکہ سے) بصرہ کا رخ کئے ہوئے اس طرح نکلے کہ رسول اللہ ﷺ کی حُرمت و ناموس کو یوں کھینچے پھرتے تھے جس طرح کسی کنیز کو فروخت کیلئے (شہر بشہر) پھرایا جاتا ہے۔ ان دونوں نے اپنی بیویوں کو تو گھروں میں روک رکھا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی بیوی کو اپنے اور دوسروں کے سامنے کھلے بندوں لے آئے تھے۔ ایک ایسے لشکر میں کہ جس کا ایک ایک فرد میری اطاعت تسلیم کئے ہوئے تھا اور برضا و رغبت میری بیعت کر چکا تھا۔ یہ لوگ بصرہ میں میرے (مقررہ کردہ) عامل اور مسلمانوں کے بیت المال کے خزینہ داروں اور وہاں کے دوسرے باشندوں تک پہنچ گئے اور کچھ لوگوں کو قید کے اندر مار مار کے اور کچھ لوگوں کو حیلہ و مکر سے شہید کیا۔

فَوَاللهِ! لَوْ لَمْ یُصِیْبُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلَّا رَجُلًا وَّاحِدًا مُّعْتَمِدِیْنَ لِقَتْلِهٖ، بِلَا جُرْمٍ جَرَّهٗ، لَحَلَّ لِیْ قَتْلُ ذٰلِکَ الْجَیْشِ کُلِّهٖ، اِذْ حَضَرُوْهُ فَلَمْ یُنْکِرُوْا، وَ لَمْ یَدْفَعُوْا عَنْهُ بِلِسَانٍ وَّ لَا یَدٍ. دَعْ مَاۤ اَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مِثْلَ الْعِدَّةِ الَّتِیْ دَخَلُوْا بِهَا عَلَیْهِمْ!.

خدا کی قسم! اگر وہ مسلمانوں میں سے صرف ایک ناکردہ گناہ مسلمان کو عمداً قتل کرتے تو بھی میرے لئے جائز ہوتا کہ میں اس تمام لشکر کو قتل کر دوں، کیونکہ وہ موجود تھے اور انہوں نے نہ تو اسے بُرا سمجھا اور نہ زبان اور ہاتھ سے اس کی روک تھام کی، چہ جائیکہ انہوں نے مسلمانوں کے اتنے آدمی قتل کر دیے جتنی تعداد خود ان کے لشکر کی تھی جسے لے کر ان پر چڑھ دوڑے تھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:26
عون نقوی

بَعَثَهٗ بِالنُّوْرِ الْمُضِیْٓءِ، وَ الْبُرْهَانِ الْجَلِیِّ، وَ الْمِنْهَاجِ الْبَادِیْ، وَ الْکِتَابِ الْهَادِیْ. اُسْرَتُهٗ خَیْرُ اُسْرَةٍ، وَ شَجَرَتُهٗ خَیْرُ شَجَرَةٍ، اَغصَانُهَا مُعْتَدِلَةٌ، وَ ثِمَارُهَا مُتَهَدِّلَةٌ. مَوْلِدُهٗ بِمَکَّةَ، وَ هِجْرَتُهٗ بِطَیْبَةَ، عَلَا بِهَا ذِکْرُهٗ، وَ امْتَدَّ مِنْهَا صَوْتُهٗ.

اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو چمکتے ہوئے نور، روشن دلیل، کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے کہ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہے کہ جہاں سے آپؐ کے نام کا بول بالا ہوا اور آپؐ کا آوازہ (چار سو) پھیلا۔

اَرْسَلَهٗ بِحُجَّةٍ کَافِیَةٍ، وَ مَوْعِظَةٍ شَافِیَةٍ، وَ دَعْوَةٍ مُّتَلَافِیَةٍ. اَظْهَرَ بِهِ الشَّرآئِعَ الْمَجْهُوْلَةَ، وَ قَمَعَ بِهِ الْبِدَعَ الْمَدْخُوْلَةَ، وَ بَیَّنَ بِهِ الْاَحْکَامَ الْمَفْصُوْلَةَ. فَـ ﴿مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا﴾ تَتَحَقَّقْ شِقْوَتُهٗ، وَ تَنْفَصِمْ عُرْوَتُهٗ، وَ تَعْظُمْ کَبْوَتُهٗ، وَ یَکُنْ مَّاٰبُهٗ اِلَی الْحُزْنِ الطَّوِیْلِ وَ الْعَذَابِ الْوَبِیْلِ وَ اَتَوَکَّلُ عَلَی اللهِ تَوَکُّلَ الْاِنَابَةِ اِلَیْهِ، وَ اَسْتَرْشِدُهُ السَّبِیْلَ المُؤَدِّیَةَ اِلٰی جَنَّتِهٖ، الْقَاصِدَةَ اِلٰی مَحَلِّ رَغْبَتِهٖ.

اللہ نے آپؐ کو مکمل دلیل، شفا بخش نصیحت اور (پہلی جہالتوں کی) تلافی کرنے والا پیغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے (شریعت کی) نامعلوم راہیں آشکارا کیں اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا اور (قرآن و سنت میں) بیان کئے ہوئے احکام واضح کئے تو اب ’’جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے‘‘ تو اس کی بدبختی مسلّم، اس کا شیرازہ درہم و برہم اور اس کا منہ کے بل گرنا سخت (و ناگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ میں اللہ پر بھروسا رکھتا ہوں ایسا بھروسا کہ جس میں ہمہ تن اس کی طرف توجہ ہے اور ایسے راستے کی ہدایت چاہتا ہوں کہ جو اس کی جنت تک پہنچانے والا اور منزل مطلوب کی طرف بڑھنے والا ہے۔

اُوْصِیْکُمْ عِبَادَ اللهِ! بِتَقْوَی اللهِ وَ طَاعَتِهٖ، فَاِنَّهَا النَّجَاةُ غَدًا، وَ الْمَنْجَاةُ اَبَدًا. رَهَّبَ فَاَبْلَغَ، وَ رَغَّبَ فَاَسْبَغَ، وَ وَصَفَ لَکُمُ الدُّنْیَا وَ انْقِطَاعَهَا، وَ زَوَالَهَا وَ انْتِقَالَهَا. فَاَعْرِضُوْا عَمَّا یُعْجِبُکُمْ فِیْهَا لِقِلَّةِ مَا یَصْحَبُکُمْ مِنْهَا، اَقْرَبُ دَارٍ مِّنْ سَخَطِ اللهِ، وَ اَبْعَدُهَا مِنْ رِّضْوَانِ اللهِ! فَغُضُّوْا عَنْکُمْ ـ عِبَادَاللهِ ـ غُمُوْمَهَا وَ اَشْغَالَهَا، لِمَا قَدْ اَیْقَنْتُمْ بِهٖ مِنْ فِرَاقِهَا وَ تَصَرُّفِ حَالَاتِهَا.

اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ تقویٰ ہی کل رستگاری (کا وسیلہ) اور نجات کی منزل دائمی ہو گا۔ اس نے اپنے عذاب سے ڈرایا تو سب کو خبردار کر دیا اور جنت کی رغبت دلائی تو اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا اور اس کے فنا و زوال اور اس کے پلٹ جانے کو کھول کر بیان کیا۔ جو چیزیں اس دنیا سے تمہیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ان سے پہلو بچائے رکھو، کیونکہ ان میں سے ساتھ جانے والی تو بہت ہی تھوڑی ہیں۔ دنیا کی منزل اللہ کی ناراضگیوں سے قریب اور اس کی رضامندیوں سے دور ہے۔ اللہ کے بندو! اس کی فکروں اور اس کے دھندوں سے آنکھیں بند کر لو۔ اس لئے کہ تمہیں یقین ہے کہ آخر یہ جدا ہو جانے والی ہے اور اس کے حالات پلٹا کھانے والے ہیں۔

فَاحْذَرُوْهَا حَذَرَ الشَّفِیْقِ النَّاصِحِ، وَ الْمُجِدِّ الْکَادِحِ، وَ اعْتَبِرُوْا بِمَا قَدْ رَاَیْتُمْ مِّنْ مَّصَارِعِ الْقُرُوْنِ قَبْلَکُمْ: قَدْ تَزَایَلَتْ اَوْصَالُهُمْ، وَ زَالَتْ اَبْصَارُهُمْ وَ اَسْمَاعُهُمْ، وَ ذَهَبَ شَرَفُهُمْ وَ عِزُّهُمْ، وَ انْقَطَعَ سُرُوْرُهُمْ وَ نَعِیْمُهُمْ فَبُدِّلُوْا بِقُرْبِ الْاَوْلَادِ فَقْدَهَا، وَ بِصُحْبَةِ الْاَزْوَاجِ مُفَارَقَتَهَا. لَا یَتَفَاخَرُوْنَ، وَ لَا یَتَنَاسَلُوْنَ، وَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ لَا یَتَجَاوَرُوْنَ.

اس دنیا سے اس طرح خوف کھاؤ جس طرح کوئی ڈرنے والا اور اپنے نفس کا خیر خواہ اور جانفشانی کے ساتھ کوشش کرنے والا ڈرتا ہے۔ تم نے اپنے سے پہلے لوگوں کے جو گرنے کی جگہیں دیکھی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے جوڑ بند الگ الگ ہو گئے۔ نہ ان کی آنکھیں رہیں اور نہ کان۔ ان کا شرف و وقار مٹ گیا، ان کی مسرتیں اور نعمتیں جاتی رہیں اور بال بچوں کے قرب کے بجائے علیحدگی اور بیویوں سے ہم نشینی کے بجائے ان سے جدائی ہو گئی۔ اب نہ وہ فخر کرتے ہیں اور نہ ان کے اولاد ہوتی ہے، نہ ایک دوسرے سے ملتے ملاتے ہیں اور نہ آپس میں ایک دوسرے کے ہمسایہ بن کر رہتے ہیں۔

فَاحْذَرُوْا عِبَادَ اللهِ! حَذَرَ الْغَالِبِ لِنَفْسِهٖ، الْمَانِعِ لِشَهْوَتِهٖ، النَّاظِرِ بِعَقْلِهٖ فَاِنَّ الْاَمْرَ وَاضِحٌ، وَ الْعَلَمَ قَآئِمٌ، وَ الطَّرِیْقَ جَدَدٌ، وَ السَّبِیْلَ قَصْدٌ.

اے اللہ کے بندو! ڈرو جس طرح اپنے نفس پر قابو پا لینے والا اور اپنی خواہشوں کو دبانے والا اور چشم بصیرت سے دیکھنے والا ڈرتا ہے، کیونکہ (ہر) چیز واضح ہو چکی ہے۔ نشانات قائم ہیں، راستہ ہموار ہے اور راہ سیدھی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:22
عون نقوی

اَمْرُهٗ قَضَآءٌ وَّ حِکْمَةٌ، وَ رِضَاهُ اَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ، یَقْضِیْ بِعِلْمٍ، وَ یَعْفُوْ بِحِلْمٍ.

اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے۔ وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی مَا تَاْخُذُ وَ تُعْطِیْ، وَ عَلٰی مَا تُعَافِیْ وَ تَبْتَلِیْ،حَمْدًا یَّکُوْنُ اَرْضَی الْحَمْدِ لَکَ، وَ اَحَبَّ الْحَمْدِ اِلَیْکَ، وَ اَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَکَ، حَمْدًا یَّمْلَاُ مَا خَلَقْتَ، وَ یَبْلُغُ مَاۤ اَرَدْتَّ، حَمْدًا لَّا یُحْجَبُ عَنْکَ، وَ لَا یُقْصَرُ دُوْنَکَ، حَمْدًا لَّا یَنْقَطِعُ عَدَدُهٗ، وَ لَا یَفْنٰی مَدَدُهٗ.

بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے، ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو، ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے، ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے اور نہ اس کیلئے کوئی بندش، ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو۔

فَلَسْنَا نَعْلَمُ کُنْهَ عَظَمَتِکَ اِلَّاۤ اَنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ حَیٌّ قَیُّوْمٌ، لَا تَاْخُذُکَ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ، لَمْ یَنْتَهِ اِلَیْکَ نَظَرٌ، وَ لَمْ یُدْرِکْکَ بَصَرٌ، اَدْرَکْتَ الْاَبْصَارَ، وَ اَحْصَیْتَ الْاَعْمَارَ، وَ اَخَذْتَ بِالنَّواصِیْ وَ الْاَقْدَامِ، وَ مَا الَّذِیْ نَرٰی مِنْ خَلْقِکَ، وَ نَعْجَبُ لَهٗ مِنْ قُدْرَتِکَ، وَ نَصِفُهٗ مِنْ عَظِیْمِ سُلْطَانِکَ، وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ، وَ قَصُرَتْ اَبْصَارُنَا عَنْهُ، وَ انْتَهَتْ عُقُوْلُنَا دُوْنَهٗ، وَ حَالَتْ سَوَاتِرُ الْغُیُوْبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗۤ اَعْظَمُ.

ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے، مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں، تو نے نظروں کو پا لیا ہے اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز اور عقلیں درماندہ ہیں اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے۔

فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهٗ، وَ اَعْمَلَ فِکْرَهٗ، لِیَعْلَمَ کَیْفَ اَقَمْتَ عَرْشَکَ، وَ کَیْفَ ذَرَاْتَ خَلْقَکَ، وَ کَیْفَ عَلَّقْتَ فِی الْهَوَآءِ سَمٰوٰتِکَ، وَ کَیْفَ مَدَدْتَ عَلٰی مَوْرِ الْمَآءِ اَرْضَکَ، رَجَعَ طَرْفُهٗ حَسِیْرًا، وَ عَقْلُهٗ مَبْهُوْرًا، وَ سَمْعُهٗ وَالِهًا، وَ فِکْرُهٗ حَآئِرًا.

جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے کر یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے تو اس کی آنکھیں تھک کر اور عقل مغلوب ہو کر اور کان حیران و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

یَدَّعِیْ بِزَعْمِهٖۤ اَنَّهٗ یَرْجُو اللهَ، کَذَبَ وَ الْعَظِیْمِ! مَا بَالُهٗ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلَهٖ؟ فَکُلُّ مَنْ رَّجَا عُرِفَ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلِهٖ، وَ کُلُّ رَجَآءٍ ـ اِلَّا رَجَآءَ اللهِ تَعَالٰی ـ فَاِنَّهٗ مَدْخُوْلٌ، وَ کُلُّ خَوْفٍ مُّحَقَّقٌ، اِلَّا خَوْفَ اللهِ فَاِنَّهٗ مَعْلُوْلٌ، یَرْجُو اللهَ فِی الْکَبِیْرِ، وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِی الصَّغِیْرِ، فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ! فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَآؤُهٗ یُقَصَّرُ بِهٖ عَمَّا یُصْنَعُ بِهٖ لِعِبَادِهٖ؟

وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے۔ خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے۔ (اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی، جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے، سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے۔ وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے۔ پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے۔

اَ تَخَافُ اَنْ تَکُوْنَ فِیْ رَجَآئِکَ لَهٗ کَاذِبًا؟ اَوْ تَکُوْنَ لَا تَرَاهُ لِلرَّجَآءِ مَوْضِعًا؟ وَکَذٰلِکَ اِنْ هُوَ خَافَ عَبْدًا مِّنْ عَبِیْدِهٖ، اَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهٖ مَا لَا یُعْطِیْ رَبَّهٗ، فَجَعَلَ خَوْفَهٗ مِنَ الْعِبَادِ نَقْدًا، وَ خَوْفَهٗ مِنْ خَالِقِهٖ ضِمَارًا وَّ وَعْدًا، وَ کَذٰلِکَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ کَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهٖ، اٰثَرَهَا عَلَی اللهِ تَعَالٰی، فَانْقَطَعَ اِلَیْهَا، وَ صَارَ عَبْدًا لَّهَا.

کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟ یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے۔ یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا۔ انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے۔ یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے اور اس کی طرف مڑتا ہے اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ کَافٍ لَّکَ فِی الْاُسْوَةِ، وَ دَلِیْلٌ لَّکَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا، وَ کَثْرَةِ مَخَازِیْهَا وَ مَسَاوِیْهَا، اِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ اَطْرَافُهَا، وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِهٖ اَکْنَافُهَا، وَ فُطِمَ عَنْ رَّضَاعِهَا، وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا.

تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے۔ اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوْسٰی کَلِیْمِ اللهِ ؑ اِذْ یَقُوْلُ: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۝﴾، وَاللهِ١ مَا سَئَلَهٗۤ اِلَّا خُبْزًا یَّاْکُلُهٗ، لِاَنَّهٗ کَانَ یَاْکُلُ بَقْلَةَ الْاَرْضِ، وَلَقَدْ کَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرٰی مِنْ شَفِیْفِ صِفَاقِ بَطْنِهٖ، لِهُزَالِهٖ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهٖ.

اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ: ’’پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں‘‘۔ خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا۔ چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔

وَ اِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوٗدَ ؑ صَاحِبِ الْمَزَامِیْرِ، وَ قَارِئِ اَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلَقَدْ کَانَ یَعْمَلُ سَفَآئِفَ الْخُوْصِ بِیَدِهٖ، وَ یَقُوْلُ لِجُلَسَآئِهٖ: اَیُّکُمْ یَکْفِیْنِیْ بَیْعَهَا! وَ یَاْکُلُ قُرْصَ الشَّعِیْرِ مِنْ ثَمَنِهَا.

اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو جو صاحب زبور اور اہل جنت کے قاری ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ: تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے۔ (پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے۔

وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ؑ، فَلَقَدْ کَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ، وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ، وَ کَانَ اِدَامُهُ الْجُوْعَ، وَ سِرَاجُهٗ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ، وَ ظِلَالُهٗ فِی الشِّتَآءِ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا، وَ فَاکِهَتُهٗ وَ رَیْحَانُهٗ مَا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ لِلْبَهَآئِمِ، وَ لَمْ تَکُنْ لَّهٗ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهٗ، وَ لَا وَلَدٌ یَّحْزُنُهٗ، وَ لَا مَالٌ یَّلْفِتُهٗ، وَ لَا طَمَعٌ یُّذِلُّهٗ، دَآبَّتُهٗ رِجْلَاهُ، وَ خَادِمُهٗ یَدَاهُ!.

اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک اور رات کے چراغ کی جگہ چاند اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی، وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی، نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی۔ ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے۔

فَتَاَسَّ بِنَبِیِّکَ الْاَطْیَبِ الْاَطْهَرِ- ﷺ، فَاِنَّ فِیْهِ اُسْوَةً لِّمَنْ تَاَسّٰی، وَ عَزَآءً لِّمَنْ تَعَزّٰی ــ وَ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلَی اللهِ الْمُتَاَسِّیْ بِنَبِیِّهٖ، وَ الْمُقْتَصُّ لِاَثَرِهٖ ـ قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْمًا، وَ لَمْ یُعِرْهَا طَرْفًا، اَهْضَمُ اَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحًا، وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْنًا، عُرِضَتْ عَلَیْهِ الدُّنْیَا فَاَبٰی اَنْ یَّقْبَلَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗۤ اَبْغَضَ شَیْئًا فَاَبْغَضَهٗ، وَ حَقَّرَ شَیْئًا فَحَقَّرَهٗ، وَ صَغَّرَ شَیْئًا فَصَغَّرَهٗ. وَلَوْ لَمْ یَکُنْ فِینَاۤ اِلَّا حُبُّنَا مَاۤ اَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ تَعْظِیْمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، لَکَفٰی بِهٖ شِقَاقًا لِلّٰهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْرِ اللهِ.

تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو، چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ- ﷺ یَاْکُلُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ، وَ یَخْصِفُ بِیَدِهٖ نَعْلَهٗ، وَ یَرْقَعُ بِیَدِهٖ ثَوْبَهٗ، وَ یَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ، وَ یُرْدِفُ خَلْفَهٗ، وَ یَکُوْنُ السِّتْرُ عَلٰی بَابِ بَیْتِهٖ فَتَکُوْنُ فِیْهِ التَّصَاوِیْرُ فَیَقُوْلُ: «یَا فُلَانَةُ! ـ لِاِحْدٰۤی اَزْوَاجِهٖ ـ غَیِّبِیْهِ عَنِّیْ، فَاِنِّیْۤ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیْهِ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا».

رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے، اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔ گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں۔

فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِکْرَهَا مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِکَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، وَ لَا یَعْتَقِدَهَا قَرَارًا، وَ لَا یَرْجُوْ فِیْهَا مُقَامًا، فَاَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ، وَ اَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ، وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ. وَ کَذٰلِکَ مَنْ اَبْغَضَ شَیْئًا اَبْغَضَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْهِ، وَ اَنْ یُّذْکَرَ عِنْدَهٗ.

آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا۔ یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔

وَ لَقَدْ کَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مَا یَدُلُّکَ عَلٰی مَسَاوِی الدُّنْیَا وَ عُیُوْبِهَا: اِذْ جَاعَ فِیْهَا مَعَ خَاصَّتِهٖ، وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیْمِ زُلْفَتِهٖ.

رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی، جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں۔

فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌۢ بِعَقْلِهٖ: اَکْرَمَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِذٰلِکَ اَمْ اَهَانَهٗ؟! فَاِنْ قَالَ: اَهَانَهٗ، فَقَدْ کَذَبَ وَ اَتٰى بِالْاِفْکِ الْعَظِیْمِ، وَ اِنْ قَالَ: اَکْرَمَهٗ، فَلْیَعْلَمْ اَنَّ اللهَ قَدْ اَهَانَ غَیْرَهٗ حَیْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهٗ، وَ زَوَاهَا عَنْ اَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.

چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا۔

فَتَاَسّٰی مُتَاَسٍّۭ بِنَبِیِّهٖ، وَ اقْتَصَّ اَثَرَهٗ، وَ وَلَجَ مَوْلِجَهٗ، وَ اِلَّا فَلَا یَاْمَنِ الْهَلَکَةَ، فَاِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّدًا -ﷺ عَلَمًا لِلسَّاعَةِ، وَ مُبَشِّرًۢا بِالْجَنَّةِ، وَ مُنْذِرًۢا بِالْعُقُوْبَةِ. خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیْصًا، وَ وَرَدَ الْاٰخِرَةَ سَلِیْمًا، لَمْ یَضَعْ حَجَرًا عَلٰی حَجَرٍ، حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِهٖ، وَ اَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهٖ.

پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کے نشان قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔ دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی۔

فَمَاۤ اَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِیْنَ اَنْعَمَ عَلَیْنَا بِهٖ سَلَفًا نَتَّبِعُهٗ، وَ قَآئِدًا نَّطَاُ عَقِبَهٗ! وَاللهِ! لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِیْ هٰذِهٖ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَّاقِعِهَا، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ قَآئِلٌ: اَلَا تَنْبِذُهَا عَنْکَ؟ فَقُلْتُ: اغْرُبْ عَنِّیْ، فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرٰی!.

یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ (انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:20
عون نقوی

وَ لَقَدْ اَحْسَنْتُ جِوَارَکُمْ، وَ اَحَطْتُ بِجُهْدِی مِنْ وَّرَآئِکُمْ، وَ اَعْتَقْتُکُمْ مِنْ رِّبَقِ الذُّلِّ، وَ حَلَقِ الضَّیْمِ، شُکْرًا مِّنِّیْ لِلْبِرِّ الْقَلِیْلِ، وَ اِطْرَاقًا عَمَّاۤ اَدْرَکَهُ الْبَصَرُ، وَ شَهِدَهُ الْبَدَنُ، مِنَ الْمُنْکَرِ الْکَثِیْرِ.

میں تمہارا اچھا ہمسایہ بن کر رہا اور اپنی طاقت بھر تمہاری نگہداشت و حفاظت کرتا رہا اور تمہیں ذلت کے پھندوں اور ظلم کے بندھنوں سے آزاد کیا۔ (یہ صرف) تمہاری تھوڑی سی بھلائی کا شکریہ ادا کرنے اور تمہاری بہت سی ایسی برائیوں سے چشم پوشی برتنے کیلئے کہ جو میری آنکھوں کے سامنے اور میری موجودگی میں ہوتی تھیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:15
عون نقوی