بصیرت اخبار

سیدہ زینب کبرىٰؑ کو قیدى بنے 22 روز گزر چکے تھے۔ اتنا عرصہ مسلسل دکھ تکلیف برداشت کرنے کے بعد انہیں دربار یزید میں لایا گیا۔ یزید کا ’’کاخ خضرا‘‘ جو اس کے باپ نے شام مىں بنوایا تھا اتنا شاندار تھا کہ  جو کوئى اس کى بناوٹ سجاوٹ اور شان و شوکت کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کو پہلے سات دالانوں میں سے گزرنا پڑتا تھا پھر وہ اس آخرى دالان میں پہنچتے تھے جس مىں یزید ایک مزین اور مرصع تخت پر بیٹھتا تھا ۔تمام امراء و روساء اور سفراء بھى سونے چاندى کى بنى ہوئى کرسیوں پر وہاں بیٹھتے تھے۔اس صورتحال میں قیدیوں کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر دکھ کى مارى شہزادى زینبؑ کى روح میں ایسا ولولہ پیدا ہوا جس نے حاضرین کے دلوں میں بھى ولولہ پیدا کردیا۔ یزید جو اپنى فصاحت و بلاغت کے لئے مشہور تھا گُنگ ہو کر رہ گیا۔ یزید اشعار گنگنا رہا تھا اور جو ظاہرى کامیابى اسے نصیب ہوئى تھى اس پر فخر کررہا تھا ۔ جناب زینبؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا: ’’اے یزید! تو سمجھتا ہے کہ آج تو نے ہمیں قیدى بنالیا ہے اور زمین ہم پر تنگ کردى۔ اور ہم تیرے نوکروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ تو یہ پروردگار کى طرف سے تیرے لئے ایک نعمت و تحفہ ہے؟ خدا کى قسم! تو اس وقت میرى نظروں میں بے حد پست، حقیر اور گھٹیا ہے۔ اور میرى نظروں میں تیرى کوئى حیثیت نہیں‘‘ سیدہ زینبؑ نے دربار یزید میں ایسى تقریر کى کہ یزید کے ہوش و حواس اڑ گئے اور اس ظالم اور ملعون کا پورا وجود غصے کى آگ میں جلنے لگا۔

حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص: ۱۷۵۔

موافقین ۰ مخالفین ۰ 21/08/20
عون نقوی

شام

شہید مطہری

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی