بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «شام» ثبت شده است

کربلا کے مبلغ حضرت امام سجاد (ع) کی حیات طیبہ کے درخشان ترین صفحات میں سے ایک، وہ خطبہ ہے جو آپ (ع) مسجد اموی میں دیا۔ امام سجاد (ع) بظاہر اسیر تھے لیکن قید و بند سے رہا مدعی بھی جہاد کے وہ مدارج طے کرنے کا تصور نہیں کر سکتے جو آپ (ص) نے اسیر و  زنجیر میں طے کئے اور اسی جہاد کا ایک اور مرحلہ طے کیا جو سیدالشہداء (ع) نے کربلا میں اپنی اور اپنے اصحاب و اولاد کی قربانی دے کر شروع کیا تھا۔ آپ (ع) نے اس دن شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز؛ 40 سالوں سے جہل و نادانی کی دلدل میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ روایت ہے کہ:

{روی أن یزید لعنه الله أمر بمنبر وخطیب لیخبر الناس بمساوی الحسین وعلی علیهما السلام وما فعلا، فصعد الخطیب المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم أکثر الوقیعة فی علی والحسین، وأطنب فی تقریظ معاویة ویزید لعنهما الله فذکر هما بکل جمیل، قال: فصاح به علی بن الحسین: ویلک أیها الخاطب اشتریت مرضاة المخلوق بسخط الخالق، فتبو أمقعدک من النار ثم قال علی بن الحسین علیه السلام: یا یزید ائذن لی حتى أصعد هذه الاعواد فأتکلم بکلمات لله فیهن رضا، ولهؤلاء الجلساء فیهن أجر وثواب، قال: فأبى یزید علیه ذلک فقال الناس: یا أمیر المؤمنین ائذن له فلیصعد المنبر فلعلنا نسمع منه شیئا فقال: إنه إن صعد لم ینزل إلا بفضیحتی وبفضیحة آل أبی سفیان فقیل له: یا أمیر المؤمنین وما قدر ما یحسن هذا ؟ فقال: إنه من أهل بیت قد زقوا العلم زقا قال: فلم یزالوا به حتى أذن له فصعد المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم خطب خطبة أبکى منها العیون، وأوجل منها القلوب، ثم قال: أیها الناس اعطینا ستا وفضلنا بسبع: اعطینا العلم، والحلم، والسماحة، والفصاحة، والشجاعة، والمحبة فی قلوب المؤمنین، وفضلنا بأن منا النبی المختار محمدا، ومنا الصدیق، ومنا الطیار، ومنا أسد الله وأسد رسوله، ومنا سبطا هذه الامة، من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی أنبأته بحسبی ونسبی أیها الناس أنا ابن مکة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن من حمل الرکن بأطراف الردا، أنا ابن خیر من ائتزر وارتدى، أنا ابن خیر من انتعل واحتفى، أنا ابن خیر من طاف وسعى، أنا ابن خیر من حج ولبى، أنا ابن من حمل على البراق فی الهوا، أنا ابن من اسری به من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى، أنا ابن من بلغ به جبرئیل إلى سدرة المنتهى، أنا ابن من دنا فتدلى فکان قاب قوسین أو أدنى، أنا ابن من صلى بملائکة السماء، أنا ابن من أوحى إلیه الجلیل ما أوحى، أنا ابن محمد المصطفى، أنا ابن علی المرتضى، أنا ابن من ضرب خراطیم الخلق حتى قالوا: لاإله إلا الله أنا ابن من ضرب بین یدی رسول الله بسیفین، وطعن برمحین، وهاجر الهجرتین، وبایع البیعتین، وقاتل ببدر وحنین، ولم یکفر بالله طرفة عین، أنا ابن صالح المؤمنین، ووارث النبیین، وقامع الملحدین، ویعسوب المسلمین، ونور المجاهدین وزین العابدین، وتاج البکائین، وأصبر الصابرین، وأفضل القائمین من آل یاسین رسول رب العالمین، أنا ابن المؤید بجبرئیل، المنصور بمیکائیل، أنا ابن المحامی عن حرم المسلمین، وقاتل المارقین والناکثین والقاسطین، والمجاهد أعداءه الناصبین وأفخر من مشى من قریش أجمعین، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنین، وأول السابقین، وقاصم المعتدین، ومبید المشرکین، وسهم من مرامی الله على المنافقین، ولسان حکمة العابدین، وناصردین الله، وولی أمر الله، وبستان حکمة الله، وعیبة علمه سمح، سخی، بهی، بهلول، زکی، أبطحی، رضی، مقدام، همام صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الاصلاب، ومفرق الاحزاب، أربطهم عنانا، وأثبتهم جنانا، وأمضاهم عزیمة، وأشدهم شکیمة، أسد باسل، یطحنهم فی الحروب إذا ازدلفت الاسنة، وقربت الاعنة، طحن الرحا ویذروهم فیها ذرو الریح الهشیم، لیث الحجاز، وکبش العراق، مکی مدنی خیفی عقبی بدری احدی شجری مهاجری، من العرب سیدها، ومن الوغى لیثها، وارث المشعرین وأبو السبطین: الحسن والحسین، ذاک جدی علی بن أبیطالب ثم قال: أنا ابن فاطمة الزهراء، أنا ابن سیدة النساء، فلم یزل یقول: أنا أنا، حتى ضج الناس بالبکاء والنحیب، وخشی یزید لعنه الله أن یکون فتنة فأمر المؤذن فقطع علیه الکلام فلما قال المؤذن الله أکبر الله أکبر قال علی: لا شئ أکبر من الله، فلما قال: أشهد أن لاإله إلا الله، قال علی بن الحسین: شهد بها شعری وبشری ولحمی ودمی، فلما قال المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله التفت من فوق المنبر إلى یزید فقال: محمد هذا جدی أم جدک یا یزید ؟ فان زعمت أنه جدک فقد کذبت وکفرت، وإن زعمت أنه جدی فلم قتلت عترته ؟ قال: وفرغ المؤذن من الاذان والاقامة وتقدم یزید فصلى صلاة الظهر قال: وروی أنه کان فی مجلس یزید هذا حبر من أحبار الیهود فقال: من هذا الغلام یا أمیر المؤمنین ؟ قال: هو علی بن الحسین، قال: فمن الحسین ؟ قال: ابن علی بن أبی طالب، قال: فمن امه ؟ قال: امه فاطمة بنت محمد، فقال الحبر: یا سبحان الله ! فهذا ابن بنت نبیکم قتلتموه فی هذه السرعة ؟ بئسما خلفتموه فی ذریته والله لو ترک فینا موسى بن عمران سبطا من صلبه لظننا أنا کنا نعبده من دون ربنا وأنتم إنما فارقکم نبیکم بالامس، فوثبتم على ابنه فقتلتموه ؟ سوأة لکم من امة قال: فأمر به یزید لعنه الله فوجئ فی حلقه ثلاثا فقام الحبر وهو یقول: إن شئتم فاضربونی، وإن شئتم فاقتلونی أو فذرونی فانی أجد فی التوراة أن من قتل ذریة نبی لا یزال ملعونا أبدا ما بقی، فإذا مات یصلیه الله نار جهنم(۱)
روایت ہے کہ یزید نے منبر سجانے کا حکم دیا اور خطیب سے کہا کہ حسین اور علی علیہ السلام کی بد گوئی اور ان کے اعمال میں عیب جوئی کرے پس خطیب منبر پر بیٹھ گیا پس خدا کی حمد و ثناء کے بعد علی اور حسین علیہما السلام کی بدگوئی کی اور معاویہ اور یزید معاویہ اور یزید کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے اور تمام خوبیوں کو معاویہ اور یزید سے منسوب کیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے چلا کر فرمایا: وائے ہو تم پر اے خطیب! تو نے خلق کی خوشنودی کے لئے اللہ کا غضب کمایا اور اپنا ٹھکانہ جھنم کی آگ میں قرار دیا ہے۔ 
امام علیہ السلام نے اس کے بعد یزید سے کہا: مجھے بھی اجازت ہے کہ میں ایسے اللہ کے کلمات بیان کروں جن میں اللہ کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ معاویہ بن یزید نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین انہیں منبر پر بیٹھنے دو شاید ہم ان سے کوئی بات سن لیں۔
یزید نے کہا کہ اگر وہ منبر پر بیٹھیں تو منبر سے اترنے سے پہلے ہی مجھے اور خاندان ابوسفیان کو ذلیل و رسوا کریں گے۔ لیکن عوام نے اصرار کیا اور کہا کہ یہ نوجوان ہیں کر ہی کیا سکتے ہیں؟
یزید نے کہا: یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے افراد کو علم و دانش کی گھٹی دی جاتی ہے۔ شامیوں کے اصرار پر یزید کو بھی ماننا پڑا اور امام سجاد علیہ السلام کو منبر پر جانے کی اجازت دی اور ایسا خطبہ دیا کہ کہ تمام آنکھیں اشکبار ہوئیں اور تمام دل بے چین ہوگئے۔
فرمایا: اے لوگو! خداوند متعال نے ہم خاندان رسول (ص) کو چھ امتیازات سے نوازا ہے اور سات فضیلتوں سے ہمیں دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:
1۔ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد (ص) ہم سے ہیں۔
2۔ صدیق اکبر (امیرالمؤمنین علی) (ع) ہم سے ہیں۔
3۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔
4۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
5۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین (ع) ہم سے ہیں۔
6۔ زہرا بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
7۔ مہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجر اسود کو اپنی عبا سے اٹھا کر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں بیٹا جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃ المنتہی تک لے گئے میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛ میں محمد مصطفی (ص) اور علی مرتضی (ع) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛ میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی؛
بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زیادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے داد امیرالمؤمنین (ع) وہ ہیں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے، میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برتر و قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔ میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کر کے ہدف کو بہر صورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہو جاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔
وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری (۲) ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (۳) (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین (ع)" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد (ع) نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا (س) کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا:  الله أکبر الله أکبر امام سجاد (ع) نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا: أشهد أن لاإله إلا الله امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں 
مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله
امام (ع) نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد (ص) کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد (ص) میرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولو گے اور کافر ہو جاؤ گے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہوگیا اور نماز ظہر ادا ہوئی۔ 
بحار الانوار کی جلد 45 میں روایت کو یوں جاری رکھا گیا ہے:
جب امام سجاد (ع) نے اپنا بلیغ خطبہ مکمل کیا مسجد میں موجود لوگوں کو سخت متاثر کیا اور ان کو بیدار کردیا اور انہیں جرات ملی تو "مسجد اور مجلس یزید میں موجود ایک یہودی عالم" نے یزید سے کہا: اے امیرالمؤمنین! یہ نوجوان کون ہے؟
یزید نے کہا: یہ علی بن الحسین ہے۔
یہودی نے کہا: حسین کون ہے؟
یزید نے کہا: وہ علی ابن ابی طالب کا بیٹا ہے۔
یہودی نے پوچھا: اس کی والدہ کون ہیں؟
یزید نے کہا: محمد (ص) کی بیٹی؛
یہودی نے کہا: سبحان اللہ! یہ (امام حسین (ع) تہمارے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند ہیں جن کو تم نے اتنی تیزی سے  قتل کر دیا ہے؟! خدا کی قسم! اگر موسی بن عمران ہمارے درمیان کوئی فرزند چھوڑ کر جاتے تو ہم سمجھتے کہ اس کا پرستش کی حد تک احترام کرنا چاہئے اور تمہارے پیغمبر (ص) کل دنیا سے چلے گئے اور تم نے آج ان کے بیٹے کے خلاف بغاوت کردی اور انہیں تہہ تیغ کردیا؟ وائے بحال ہو تم امت کے!!
یزید غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ یہودی عالم کو زد و کوب کیا جائے اور یہودی عالم اٹھا اور کہا: چاہو تو مجھے مارو اور چاہو تو مجھے قتل کرو! مجھے کوئی پروا نہیں ہے؛ یا چاہو تو مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ جو کوئی پیغمبر کے فرزند کو قتل کرے گا وہ ہمیشہ کے لئے ملعون رہے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ میں ہے۔ (۵)
ایک اور روایت میں منقول ہے کہ امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا:

انا ابن الحسین القتیل بکربلا، انا ابن على المرتضى، انا ابن محمد المصطفى، انا ابن فاطمة الزهراء، انا ابن خدیجة الکبرى، انا ابن سدرة المنتهى، انا ابن شجرة طوبى، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بکى علیه الجن فی الظلماء، انا ابن من ناح علیه الطیور فی الهواء۔
میں حسین شہید کربلا کا بیٹا ہوں، میں علی مرتضی کا بیٹا ہوں، میں محمد مصطفی (ص) کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہراء کا بیٹا ہوں، میں خدیجۃ الکبری کا بیٹا ہوں، میں سدرة المنتهی کا بیٹا ہوں، میں شجرہ طوبی کا بیٹا ہوں، میں اس سید و سرور کا بیٹا ہوں جو اپنے خون میں نہا گئے اور اس بزرگ کا بیٹا ہوں جن کے سوگ میں پرندوں نے ماتم اور گریہ کیا۔
اس طرح کہ امور سبب ہوئے کہ یزید کا غرور خاک میں مل گیا جائے اور وہ جشن و سرور چھوڑنے پر مجبور ہو گیا؛ اور خوشی منانا اور سیدالشہداء (ع) کے مبارک لبوں کو چھڑی مارنا اور جاہلانہ اشعار پڑھنا ترک کر دیا وہ پشیمان نہیں ہوا بلکہ  تھا ڈر گیا تھاکیونکہ جب امام سجاد (ع) نے خطبہ دیا اس وقت بھی یزید نے امام حسین (ع) کا قتل ابن زیاد سے منسوب کیا اور پشیمانی کا اظہار کیا لیکن اس کے بعد امام حسین (ع) کا سر مبارک اپنے محل کے دروازے پر لٹکایا جس سے پشیمانی ظاہر نہ ہو رہی تھی اور پھر جب اس کی زوجہ نے چادر پھینک دی اور چیختی اور روتی ہوئی دربار میں پہنچی اور کہا کہ اب تم فرزند رسول (ص) کا سر میرے گھر کے دروازے پر لٹکاؤ گے جس پر یزید نے ایک بار پھر پشیمانی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ خدا ابن زیاد پر لعنت کرے میں نے اس کو امام حسین (ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا لیکن امام حسین (ع) کا سر اور اسیر خاندان دربار یزید میں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پشیمانی ایک افسانہ ہے بات یہ ہے کہ جتنی کہ بغاوت کی فضا وسیع سے وسیع تر ہورہی تھی یزید کے خوف میں بھی اضافہ ہورہا تھا اور جب خوشی منانے اور فخر کرنے کے تمام اسباب و محرکات ناپید ہوگئے یزید نے خاندان رسول (ص) کی رہائی کا حکم دیا۔
سبط بن الجوزى، لکھتے ہیں کہ جب امام (ع) کا سر شام لایا گیا تو یزید خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کے اقدام سے خوشنود ہوا اور اس کے لئے تحائف بھیجے، لیکن تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس نے اس عمل سے عوام کی بیزاری اور غم و غصے کو محسوس کیا اور دیکھا کہ لوگ اس کو گالیاں دے رہے ہیں۔  اپنے حکم اور اپنےعمل سے پشیمان ہوا اور کہتا تھا کہ "خداوند ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے امام حسین (ع) پر اتنی سختی کی کہ انھوں نے موت کو آسان سمجھا اور شہید ہوگئے! اور کہتا تھا کہ میں نے ابن زیاد کا کیا بگاڑا تھا جس نے مجھے لوگوں کے غضب کا نشانہ بنایا اور نیک لوگوں اور مجرموں کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا؟۔ (۶)
سیوطی کہتے ہیں:
{
فسر بقتلهم اولا ثم ندم لما مقته المسلمون على ذلک و ابغضه الناس و حق لهم ان یبغضوه!.(۷)
پس یزید ابتداء میں بہت مسرور ہوا اور جب لوگوں نے اس پر لعنت ملامت کی تو اپنے فعل پر "پشیمان" ہوا اور لوگوں نے اس سے بغض و دشمنی کی اور یہ ان کا حق تھا کہ اس سے نفرت کرتے۔
بہر حال تاریخ اسلام کے ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن میں فرمانروا اور بادشاہ جب کوئی کام کرتے اور عوام کے غصے کے اسباب فراہم ہوتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنے غلط فعل کو دوسروں سے نسبت دیں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے۔ چنانچہ یزید نے بھی بادشاہوں کی اسی عادت کے مطابق عمل کیا اور جب عقیلہ بنی ہاشم سیدہ ثانی زہراء (س) اور امام سجاد (ع) نے خطبے دیئے اور یزید رسوا ہو گیا، یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ بن عامر سر برہنہ دربار میں آئی، عیسائیوں اور یہودیوں نے اعتراض کیا، ابو برزہ اسلمی نے احتجاج کیا، یزید نے اپنی پالیسی فوری طور پر بدل دی اور امام حسین (ع) کے قتل کی ذمہ داری عبید اللہ بن زیاد پر عائد کی۔ کہتا تھا: "
لعن الله ابن مرجانة!" ، مرجانہ کے بیٹے پر اللہ کی لعنت ہو، حالانکہ جیسا کہ بیان ہوا یزید نے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ابن زیاد کو انعام و اکرام سے نوازا تھا اور اس کو بڑی رقم انعام کے طور پر بھجوائی اور جب وہ شام آیا تو یزید نے اس کو اپنے برابر میں بٹھایا اور اپنی حرمسرا میں اپنی عورتوں کے درمیان لے گیا جہاں رسول اللہ (ص) کی خلافت کے دعویدار یزید بن معاویہ بن ابی سفیان نے شراب ابن زیاد کے ساتھ مل کر ـ اپنے اس جرم عظیم پر خوشی مناتے ہوئے ـ شرابخواری کی اور یزید نے شراب کے نشے میں مست ہوکر اشعار کہے:
اسقنی شربة تروی مشاشی
ثم مل فاسق مثلها ابن زیاد
صاحب السر و الامانة عندی
و لتسدید مغنمی و جهادی
قاتل الخارجی اعنی حسینا
و مبید الاعداء و الاضداد

طبری کہتے ہیں:
{
فسر بقتلهم اولا و حسنت بذلک منزلة عبید الله عنده ثم لم یلبث الا قلیلا حتى ندم على قتل الحسین" ، حتی یقول: قال یزید: "لعن الله ابن مرجانة! فبغضنی الى المسلمین و زرع لی فی قلوبهم العداوة فبغضنی البر والفاجر بما استعظم الناس من قتلی حسینا!(۸)  
پس یزید امام حسین (ع) اور آپ (ع) کے افراد خاندان اور اصحاب و انصار کی شہادت پر خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کو بڑی منزلت دی لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ امام حسین (ع) کے قتل سے پشیمان ہوا اور کہنے لگا: "خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر! جس نے مجھے مسلمانوں کے غضب و نفرت کے قابل ٹہرایا اور ان کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا اور اب نیک لوگ بھی مجھ سے دشمنی کرتے ہیں اور برے لوگ بھی اس لئے کہ لوگوں نے میرے ہاتھوں امام حسین (ع) کے قتل کا واقعہ بہت ہی عظیم شمار کیا  ہے۔
شہید سید عبدالکریم ہاشمی نژاد یزید کی پشیمانی کے افسانے کی تردید کے حوالے سے متعدد دلائل اور ثبوت لاتے ہیں جن میں پانچویں دلیل مذکورہ بالا سطور کے مضمون سے مستند ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں:
"ابو سفیان کا پوتا ابن مرجانہ کے بیٹے کے فعل سے نہ صرف پشیمان نہ تھا بلکہ وہ اس فعل سے بہت زیادہ خوش تھا اور اس نے واقعہ کربلا کے بعد جو رویہ ابن زیاد کے ساتھ روا رکھا وہ اس بات کی دلیل ہے۔ 
ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: "جب امام حسین (ع) کا سر یزید کے سامنے لایا گیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہوا اور اس کے عمل سے خوش حال، اور اس کو صلہ اور انعام و اکرام دیا"۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص امام حسین (ع) کا سر وصول کر کے عبید اللہ بن مرجانہ کے فعل سے خوشنود ہوتا ہے اور حتی کہ اس کو "اس خدمت کے صلے میں" انعام اکرام اور بڑی نقد رقوم سے نوازتا ہے، تو یہ بات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے کہ "خداوند متعال ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے حسین کو قتل کیا ہے جبکہ میں اس کے اس عمل سے راضی نہ تھا؟!۔ (۹) 
اہل سنت کے ایک دوسرے مؤرخ نے لکھا ہے:
{
... انّه استدعی ابن‏زیاداً الیه و اعطاه اموالاً کثیرةً و تحفاً عظیمةً و قرب منزله و ادخله علی نسائه و جعله ندیمه و سکر لیلة و قال للمغن غن ثم قال یزید بدیها
کربلا کے واقعے کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اپنے پاس بلوایا اور بہت سے اموال اور عطیات اس کو عطا کئے اور اس کو قرب و منزلت سے نوازا اور اس کا رتبہ بڑھایا حتی کہ اس کو اپنا ندیم قرار دیا اور اس کو اپنی عورتوں گھسنے کی اجازت دی اور اپنی حرمسرا میں اس کے ساتھ ایک پوری رات شراب کے نشے میں بسر کی۔ اس رات یزید نے نغمہ سراؤں کو حکم دیا کہ گانے گائیں اور موسیقی بجائیں اور ہمارے لئے غنائی اشعار پڑھین اور پھر خود ہی فی البداہہ یہ اشعار کہے:

اسقنی شربة تروی ۔۔۔
ترجمہ:
"اے ساقی مجھے شراب پلاؤ جو میرے دل کو نشاط بخشے اور مجھے سیراب کردے
اور اس کے بعد میرا جام بھر دو اور وہی شراب ابن زیاد کو دے دو جو مجھے پلا رہے ہو
کہ وہ میرا صاحب اسرار (رازدان) اور میرا امین ہے
وہی جس کے ہاتھوں میری جنگ و غنیمت کی مشکل حل ہوگئی
یہ زیاد کا بیٹا جو اس مرد خارجی (!) یعنی حسین کا قاتل ہے۔
وہی جس نے میرے دشمنوں اور مجھ سے حسد کرنے والوں کے دلوں کو خوف سے بھر دیا"۔(۱۰)
امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کرایا اور امامت و رسالت کا شجرہ نامہ بیان کیا اور اس قدر اپنا تعارف کرانے میں بلاغت کے جوہر جگا دیئے کہ حاضرین بآواز بلند رونے لگے۔ یزید خوفزدہ ہوا کہ کہیں عوام اس کے خلاف انقلاب نہ کر دیں چنانچہ اس نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور وہ ہوا جو بیان ہوا اور امام (ع) نے خوابیدہ ذہنوں کو جگا دیا۔
مسجد میں جمع ہونے والے شامی، جو اموی تبلیغات کے نتیجے میں غفلت سے دوچار ہو گئے تھے اور خاندان نبی (ص) کو نہیں جانتے تھے، امام سجاد (ع) کا خطبہ سن کر حقائق سے آگاہ ہوئے چنانچہ یزید نے اذان کے ذریعے امام (ع) کو خطبہ جاری رکھنے سے روک لیا اور ابن زیاد کو قصور وار ٹہرا کر اپنے آپ کے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی تا کہ مسجد میں موجود لوگوں کو یقین دلا سکے کہ یزید اس مسئلے میں بے قصور تھا لیکن ابھی اسیران اہل بیت شام میں تھے اور امام حسین (ع) اور دوسرے شہداء کے شام میں تھے لہذا یہ ممکن نہ تھا کہ لوگ اس کو بے گناہ سمجھیں۔

 

 


حوالہ جات:
۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔
۲۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔

۳۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۳۲۔
۴۔ قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسینؑ، ج۳، ص۳۹۵۔
۵۔ شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص۴۵۱
۶۔ فرہاد میرزا، قمقام زخار، ص۵۷۷۔
۷۔ سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۱۵۸۔
۸۔ ابن جوزی، یوسف بن قزاوعلی، تذکرة الخواص، ص۱۶۴۔
۹۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبرى، ج۵، ص۲۵۵۔
۱۰۔ مہدی قزلی، کتاب قصہ کربلا، ص۵۰۶۔
۱۱۔ ہاشمی نژاد، عبدالکریم، درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص۳۷۲۔

source: valiasr-aj.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 12:05
عون نقوی

سیدہ زینب کبرىٰؑ کو قیدى بنے 22 روز گزر چکے تھے۔ اتنا عرصہ مسلسل دکھ تکلیف برداشت کرنے کے بعد انہیں دربار یزید میں لایا گیا۔ یزید کا ’’کاخ خضرا‘‘ جو اس کے باپ نے شام مىں بنوایا تھا اتنا شاندار تھا کہ  جو کوئى اس کى بناوٹ سجاوٹ اور شان و شوکت کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کو پہلے سات دالانوں میں سے گزرنا پڑتا تھا پھر وہ اس آخرى دالان میں پہنچتے تھے جس مىں یزید ایک مزین اور مرصع تخت پر بیٹھتا تھا ۔تمام امراء و روساء اور سفراء بھى سونے چاندى کى بنى ہوئى کرسیوں پر وہاں بیٹھتے تھے۔اس صورتحال میں قیدیوں کو پیش کیا گیا۔ اس موقع پر دکھ کى مارى شہزادى زینبؑ کى روح میں ایسا ولولہ پیدا ہوا جس نے حاضرین کے دلوں میں بھى ولولہ پیدا کردیا۔ یزید جو اپنى فصاحت و بلاغت کے لئے مشہور تھا گُنگ ہو کر رہ گیا۔ یزید اشعار گنگنا رہا تھا اور جو ظاہرى کامیابى اسے نصیب ہوئى تھى اس پر فخر کررہا تھا ۔ جناب زینبؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا: ’’اے یزید! تو سمجھتا ہے کہ آج تو نے ہمیں قیدى بنالیا ہے اور زمین ہم پر تنگ کردى۔ اور ہم تیرے نوکروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ تو یہ پروردگار کى طرف سے تیرے لئے ایک نعمت و تحفہ ہے؟ خدا کى قسم! تو اس وقت میرى نظروں میں بے حد پست، حقیر اور گھٹیا ہے۔ اور میرى نظروں میں تیرى کوئى حیثیت نہیں‘‘ سیدہ زینبؑ نے دربار یزید میں ایسى تقریر کى کہ یزید کے ہوش و حواس اڑ گئے اور اس ظالم اور ملعون کا پورا وجود غصے کى آگ میں جلنے لگا۔

حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص: ۱۷۵۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:49
عون نقوی

جنگ نہروان کے بعد امیرالمومنینؑ شام جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہیں خوارج کے خلاف نصرت عطا کی اب شام جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہو، اشعث بن قیس اور دیگر افراد نے کہا کہ ہماری تلواریں کند ہو گئی ہیں اور نیزوں کی انیاں ناکارہ، کچھ دن کوفہ جانے دیجیے تاکہ لشکر کچھ سستا لے اور تازہ دم ہو کر دشمن سے لڑا جاۓ۔ امیرالمومنینؑ نے مخالفت کی اور فرمایا کہ ہمارا اصل ہدف تو شام ہے اس میں تاخیر کرنا مصلحت کے خلاف ہے لیکن آپؑ کے لشکر والوں نے ایک نہ مانی اور مجبور کر دیا کہ واپس کوفہ تشریف لے جائیں۔

ادھر جب کوفہ پہنچے تو اور فتنے کھڑے ہو گئے، ان فتنوں کو ہم اس تحریر میں دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فتنہ خوارج اور ان کے ہمفکر اشخاص کا پھیلایا ہوا فتنہ تھا اگرچہ جنگ نہروان میں ان کی ایک بہت بڑی تعداد ماری گئی لیکن پوری طرح سے ان کا خاتمہ نہ کیا جا سکا، خوارج کے بہت سے ہمفکر لوگ کوفہ میں بھی ان کے ساتھ ملحق ہو گئے اور جتھا بندی کر کے مملکت کے نظم و نسق کو درہم برہم کر نے لگے اور دوسرا فتنہ جس نے مملکت اسلامی میں ہر طرف سے افراتفری پھیلا رکھی تھی وہ امیر شام کا پھیلایا ہوا فتنہ تھا۔ عموما سمجھا جاتا ہے کہ امیرالمومنینؑ کے خلاف تین جنگیں لڑی گئیں اور جنگ نہروان کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی گئی لیکن اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمومنینؑ نے اپنی ظاہری حکومت کے ایام میں ایک دن بھی چین سے نہیں گزارا اور فتنوں کو سرکوب کرنے میں مصروف رہے اور اسی مبارزے کے دوران شہید کر دیے گئے۔

 

۱۔ خوارج اور ان کے ہمفکر اشخاص کی بغاوتیں:

جنگ نہروان صفر کے مہینے سال ۳۸ ہجری میں برپاہوئی امیرالمومنینؑ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد کوفہ واپس پلٹے ہی تھے کہ حکومت کے خلاف دیگر فتنوں نے سر اٹھا لیا جن کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ اشرث بن عوف شیبانی کی بغاوت:

                        ربیع الثانی۳۸ ہجری میں اشرس بن اعوف شیبانی نے مقام دسکرہ میں امیرالمومنینؑ کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور دو سو افراد کو اپنے ساتھ ملا کر انبار میں جا کر ڈیرے جما لیے۔ امیرالمومنینؑ نے ابرش بن حسان کو تین سو کے لشکر کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا جس کے نتیجے میں اشرس مارا گیا اور اس کے بچے کھچے ساتھی منتشر ہو گئے۔ (۱) یوسفی، شیخ محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ج۵، ص۳۳۷۔

۲۔ ہلال ابن علفہ کی بغاوت:

امیرالمومنینؑ کے لشکر نے ابھی اشرث بن عوف کی بغاوت کو کچلا ہی تھا کہ کچھ دنوں بعد ہلال اور اس کے بھائی مجاہد نے خروج کیا، ان کے تعاقب کے لیے معقل بن قیس کو بھیجا گیا جنہون نے ماسبذان کے مقام پر ہلال اور مجاہد کو خونریز جنگ کے بعد شکست دی اور اس شورش کو بھی کچل دیا ۔ (۲) محمدی رے شہری، محمد، دانش نامہ امیرالمومنین بر پایہ قرآن و حدیث، ج۶، ص۵۰۵۔

 ۳۔ اشہب بن بشر کی بغاوت:

جمادی الثانی سال ۳۸ ہجری میں شہب بن بشر نے ایک سو اسی آدمیوں کے ساتھ بغاوت کی، یہ شخص قبیلہ بجلیہ سے ہے۔پہلے اپنا لشکر لے کر پہلے ماسبذان کی طرف گیا اور ہلال بن علفہ اور اس کے ساتھیوں کی میتوں پر نماز جنازہ پڑھی اور اس کے بعد امیرالمومنینؑ کے خلاف شورش کرنے نکل پڑا۔ اس کے مقابلہ کے لیے جاریہ بن قدامہ سعدی کو بھیجا گیا، سخت جنگ کے بعد جرجرایا میں مقام جوخا پر اشہب اور اس کے ساتھی قتل کر دیے گئے ۔ (۳) بغدادی، عبدالقاہر، الملل و النحل، ج۱، ص۶۱۔

۴۔ سعید بن قفل تیمی کی بغاوت:

ماہ رجب سال ۳۸ ہجری میں ہی سعید بن قفل تیمی نے بندنیجین کے مقام پر شورش برپا کی اور دو سو افراد کے ساتھ مقام درزنجان جا پہنچا جہاں حاکم مدائن سعد بن مسعود نے اس کے خلاف جنگ کی اور ان سب کو تہ تیغ کیا ۔ (۴) ابن الاثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۷۲۲۔

۵۔ ابو مریم سعدی تیمی کی بغاوت:

پانچویں بغاوت ماہ رمضان ۳۸ ہجری میں ابو مریم سعدی تیمی کی سربراہی میں ہوئی، ابو مریم سعدی کے ساتھ چار سو کے قریب عجمی افراد تھے اور اس کے لشکر میں فقط چھ افراد عرب تھے جن میں سے ایک عرب یہ خود تھا۔ اس نے کوفہ سے باہر پانچ فرسخ کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالا جب امیرالمومنینؑ کو خبر دی گئی تو انہوں نے مذاکرات کے لیے ایک سفیر بھیجا اور اسے کہا کہ جاؤ اور ان سے بیعت طلب کرو، انہوں نے اسے پیغام دیا کہ ہمارے اور علیؑ کے درمیان جنگ ناگزیر ہے امیرالمومنینؑ نے شریح بن ہانی کو سات سو افراد کے ساتھ بھیجا لیکن ابو مریم سعدی تیمی کے لشکر نے ان کو ابھی سنبھلنے ہی نہ دیا تھا اور حملہ کر دیا، شدید حملے کے نتیجے میں شریح کے لشکر کے بہت سے افراد منتشر ہوگئے۔ اور ان کے ہمراہ فقط دو سو آدمی رہ گئے جنہوں نے ایک آبادی میں پناہ لی، منتشر ہو جانے والے پانچ سو افراد میں سے کچھ تو کوفہ واپس ہو گئے اور کچھ شریح سے ملحق ہو گئے  جب امیرالمومنینؑ کو شریح کے لشکر کے منتشر ہونے کی خبریں ملیں تو جاریہ بن قدامہ کو خوارج کے پاس بھیجا اور انہیں بیعت کرنے پر ابھارا۔جب یہ کوشش بھی ناکام رہی تو امیرالمومنینؑ خود تشریف لاۓ اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے باغیانہ موفق پر ڈٹے رہے، حضرتؑ نے جب ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھا تو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور ان کو تہ تیغ کر دیا ۔ (۵) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۲، ص۴۸۵۔

۶۔ خریت بن راشد کی بغاوت:

خوارج کے باغی گروہوں میں سے ایک گروہ خریت بن راشد کا ہے جو بنی ناجیہ کے خوارج کا سربراہ اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ جب امیرالمومنینؑ جنگ نہروان کے بعد کوفہ واپس آۓ تو اس نے کوفہ کو ترک کر دیا اور امیرالمومنینؑ کو کہا کہ ہم آپ کا کوئی حکم نہیں مانیں گے، آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ کوفہ سے باہر نکل جانے کے بعد اس نے چند عرب اور مسیحی اپنے گرد اکٹھا کر لیے۔ عربوں کو یہ کہہ کر ورغلایا کہ اس حکومت کو زکات کے اموال نہ دیں کیونکہ یہ کافروں کی حکومت ہے اور مسیحیوں کو کہا کہ آپ لوگ اس حکومت کو جزیہ نہ دیں ان میں سے بعض ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے مسیحیت کو ترک کر کے دین اسلام کو قبول کیا تھا اور نہیں چاہتے تھے کہ جزیہ دیں جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان لوگ تو آپس میں ہی لڑ بھڑ رہے ہیں اس سے تو ہمارا اپنا دین اچھا تھا۔ اس اختلاف و باہمی دشمنی کو دیکھ کر وہ مرتد ہو گئے لیکن خریت نے ان کو کہا کہ تمہارے پاس اب کوئی چارہ نہیں کیونکہ جو شخص اسلام قبول کر کے دوبارہ کسی اور دین کو قبول کر لے تو وہ مرتد کہلاتا ہے اور مرتد کی سزا موت ہے اس لیے تم لوگ یہی کر سکتے ہو کہ ہمارے ساتھ ملحق ہو جاؤ اور جنگ کرو ورنہ یہ حکومت ویسے بھی مرتد ہونے کے جرم میں تم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ امیرالمومنینؑ نے معقل بن قیس کی سربراہی میں ایک لشکر خریت کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ معقل نے خریت کے لشکر کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا اور یہ اعلان کروا دیا کہ جو بھی خریت کے لشکر میں تازہ شامل ہوۓ ہیں اگر وہ الگ ہو جاتے ہیں تو ان کی باز پرس نہیں کی جاۓ گی۔ اس اعلان کایہ اثر ہوا کہ ایک بہت بڑی جماعت خریت کے لشکر سے جدا ہو گئی جس کی وجہ سے خریت کے لشکر میں پھوٹ پڑ گئی اور باقی رہے سہے افراد کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے اور اس طرح معقل نے خریت کے لشکر کو بدترین شکست دی اور اسے قتل کر دیا ۔ (۶) الثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص ۷۷۲۔

 

۲۔امیرالمومنینؑ کے خلاف اہل شام کی بغاوتیں:

                        امیرالمومنینؑ جنگ نہروان کے فورا بعد شام کی طرف نکلنا چاہتے تھے اور اس نامکمل جنگ کو مکمل کرنا چاہتے تھے جو صفین کے مقام پر فیصلہ کن مرحلے سے پہنچنے سے پہلے ہی امیر شام اور عمرو ابن عاص کے مکر و فریب کا شکار ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں نا صرف امیر شام شامات کے علاقوں پر مسلط ہو گیا بلکہ امیرالمومنینؑ کا لشکر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور بعض اپنے ہی نادانی میں امیرالمومنینؑ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ جب امیرالمومنینؑ خوارج کے خلاف مصروف جنگ تھے ادھر امیر شام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہا اور اپنے لشکر کو تازہ دم کی، ان کے حوصلے بلند کیے اور اس سے پہلے کہ امیرالمومنینؑ خود شام کی طرف لشکر کشی کرتے امیر شام نے اپنے لشکر کو امیرالمومنینؑ کی حکومت کو متزلزل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ذیل میں امیر شام کی جانب سے چند متعین افراد کے احوال ذکر کیے جا رہے ہیں جنہوں نے لشکر کشی کی صورت میں اس وقت کی اسلامی حکومت کے مختلف علاقوں میں مسلحانہ حملے کیے مسلمانوں کے اموال لوٹے اور ان کو موت کے گھاٹ اتارا اور ہر اس شخص کو شدید ترین شکنجے دیے جو امیرالمومنینؑ کی بیعت میں تھا۔

۱ ۔ ضحاک بن قیس کی تباہ کاریاں:

ضحاک بن قیس فہری کا شمارحکومت بنی امیہ اور خصوصا معاویہ کے دور حکومت کے اہم ترین و بانفوذ سیاسی  افراد میں ہوتا ہے۔ وہ امیر شام کا مشاور و امین تھا اس  نے جنگ صفین میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔بعض منبع میں وارد ہوا ہے کہ وہ لشکر شام کے پیادہ نظام کا کمانڈر تھا۔   (۷)  ابن اعثم، احمد، الفتوح لابن اعثم، ج۳، ص۲۴۔

امیرالمومنینؑ جنگ نہروان سے ابھی فارغ ہوۓ ہی تھے کہ امیر شام نے ضحک بن قیس کی سربراہی میں چار ہزار کا لشکر کوفہ کی طرف بھیجا اور اسے  فرمان دیا کہ کوفہ کے تمام قبائل میں جاؤ اور اردگرد کی بستیوں کا چکر لگاؤ جو لوگ بھی علی کی اطاعت میں ہیں ان کو قتل کر دو اور ان کا مال و اسباب لوٹ لو، چنانچہ ضحاک بن قیس تمام آبادیوں کو روندتا ہوا مقام ثعلبیہ جا پہنچا۔ مقام ثعلبیہ سے ایک قافلہ جو حج کے لیے مکہ کی طرف جا رہا تھا ضحاک کے لشکر نے ان پر حملہ کر کے حاجیوں کے تمام ساز و سامان لوٹ لیا اور اس کے بعد تباہیاں مچاتا ہوا قطقطانہ کی طرف بڑھا جہاں عمرو بن قیس اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ جب امیرالمومنینؑ کو ضحاک کی تباہ کاریوں کی خبر دی گئی تو حضرت منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ عمر بن عمیس کی مدد کے لیے فورا نکل پڑو کیونکہ وہ سب تمہارے بھائی ہیں اور خطرے میں ہیں لیکن امیرالمومنینؑ کے لشکر پر امام کے حکم کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ آپؑ نے دردناک لہجے میں فرمایا کہ تمہاری حالت دیکھ کر میں معاویہ سے یہ معاملہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ میرے  دس بندے لے لے اور اپنا ایک بندہ دیدے۔ حضرتؑ نے ان کے رویوں پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور ان کی غیرت کو جھنجھوڑا بالآخر چار ہزار کا لشکر حجر ابن عدی کی قیادت میں آمادہ ہوا اور دشمن سے جنگ کرنے کے لیے سماوہ جا پہنچا۔ وہاں سے ضحاک کا لشکر کا نکل چکا تھا یہاں تک کہ حجر ابن عدی نے تدمر کے علاقے میں اسے پا لیادونوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی جس میں امیرالمومنینؑ کی فوج میں دو افراد شہید ہوۓ اور ضحاک کی فوج کے انیس افراد کام آۓ۔ بعد میں ضحاک کا لشکر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ فرار ہو گیا اور جب صبح حجر ابن عدی کو معلوم ہوا تو وہ بھی کوفہ واپس لوٹ آۓ، ضحاک کی غارتگریوں اور اپنوں کی بے حالی اور سستی پر امیرالمومنینؑ نے مفصل دردناک خطبہ دیا جو نہج البلاغہ میں (خطبہ۹۲) موجود ہے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوۓ قارئین کو اس خطبے کی طرف ارجاع دیا جا رہا ہے۔ (۸) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۲، ص۴۳۸۔

اس جنگ کے بعد بھی رقہ اور قرقیسیا کے علاقوں میں اس نے پیوستہ حملے کیے اور ان علاقوں کی امنیت کو خراب کیا ۔ (۹) ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۲، ص۵۲۶۔

۲۔ سفیان بن عوف غامدی کی تباہ کاریاں:

اسی سال ۳۹ہجری میں  معاویہ  نے سفیان بن عوف کی  سربراہی میں چھ ہزار فوجی ہیت ، انبار اور مدائن کی تباہی کے لیے بھیجے اسے ہدایت دی کہ وہ ہر فوجی چھاؤنی پر حملہ کرتا جاۓ اور انہیں تباہ و برباد کرتاجاۓ، ہیت کے گورنر جناب کمیل بن زیاد کو معلوم ہوا تو وہ شہر چھوڑ کر ان کے تعاقب میں چلے گئے جب سفیان چھپ چھپاتا ہیت پہنچا تو اس نے شہر کو خالی پا کر خوب تباہ کاری مچائی اور انبار کی طرف نکل گیا، شہر انبار کی حفاظت کے لیے پانچ سو افراد تعینات تھے جن میں سے اس وقت فقط دو سو افراد موجود تھے اور بقیہ ادھر ادھر جا چکے تھے، دشمن نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اکثر افراد کو شہید کر دیا وہاں شامیوں نے ایک ایک گھر کو لوٹا ، عورتوں کے زیورات اتار لیے اور جو ہاتھ لگا سمیٹ لیا۔ جب امیرالمومنینؑ کوخبر دی گئی تو آپؑ نے کمیل ابن زیاد کو تہدید آمیز خط لکھا اور اس کو شہر چھوڑنے پر توبیخ کی اور منبر پر جا کر لوگوں کو جہاد کی دعوت دی لیکن کسی سمت سے لبیک کی آواز بلند نہ ہوئی اس پر امیرالمومنینؑ غم و غصہ کی حالت میں تن تنہا دشمن کو کچلنے کے ارادہ سے خود تیار ہوۓ اب لوگوں کو غیرت آئی تو وہ بھی حضرت کے پیچھے وادی نخیلہ آن پہنچے، وہاں ہانی بن خطاب ہمدانی کو دشمن کی کھوج لگانے کے لیے بھیجا تو معلوم ہوا کہ سفیان کا لشکر آگے بڑھ چکا ہے۔

حضرتؑ نے دوبارہ ان کا تعاقب کرنے کے لیے اور جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوۓ خطبہ دیا جس میں فرمایا:

’’بنی غامد کے آدمی(سفیان بن عوف) کی فوج کے سوار انبار کے اندر پہنچ گئے ہیں اور حسان بن حسان بِکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے پیروں سے کڑے(ہاتھوں سے کنگن) اور گلوبند و گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ سوا اس کے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوۓ صبر سے کام لیں، یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں۔ وہ لدے پھندے ہوۓ پلٹ گئے، نہ کسی کو زخم آیا، نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جاۓ تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘۔

حضرتؑ نے مزید فرمایا:

’’ ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمیعت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے، تمہارا برا ہو، تم غم و حزن میں مبتلا رہو۔۔۔۔۔ اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کے لیے کہتا ہوں تو تم کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے اتنی مہلت دیں کہ گرمی کا زور ٹوٹ جاۓ اور اگر سردیوں میں چلنے کے لیے کہتا ہوں تو تم  کہتے ہو کہ کڑاکے کا جاڑا ہے۔۔۔۔ پھر امامؑ نے فرمایا کہ اے مردوں کی شکل و صورت والے نامردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کی سی ہے‘‘۔ (۱۰)  مفتی جعفر، حسین، نہج البلاغہ اردو، خطبہ۲۷، ص۴۴۔

اس  پر جندب بن عفیف ازدی کھڑے ہوۓ اور کہا کہ میں اور میرا بھتیجا تیار ہیں آپ جو حکم دیں گے ہم وہ بجا لائیں گے ، امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ جو میں چاہتا ہوں وہ تم دو آدمیوں کے بس میں نہیں کیونکہ حضرتؑ یہ چاہتے تھے کہ ان تمام افراد کو سزا دی جاۓ جنہوں نے جہاں کہیں بھی مملکت اسلامی کا امن خراب کرنے کی کوشش کی۔ آپؑ نے سعید بن قیس کی واپسی کے بعد دوبارہ اہل کوفہ کو جمع کر کے خطبہ دیا اور فرمایا کہ انصار مدینہ تعداد میں تم سے کم تھے لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حمایت و نصرت کی یہاں تک کہ اسلام کا پرچم فضاۓ عرب میں لہرانے لگا۔ اس پر ایک دراز قامت شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے علی! آپ نہ محمد ہیں اور نہ ہم انصار ، ہم پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا ہم اٹھا سکیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ بات کو سمجھو اور سوچ کر بولو۔ میں نے کب کہا کہ میں محمد ہوں اور تم انصار؟میں نے فقط مثال دی کہ اگر انصار کی روش پر چلیں تو دشمن کی غارتگریوں کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس پر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ آج امیرالمومنینؑ کو اصحاب نہروان کی ضرورت کا احساس ہوا ہوگا کہ جنہیں خود اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔ (۱۱) مفتی جعفر، حسین، سیرت امیرالمومنین، ج۱، ص۶۹۲۔

بعد میں امیرالمومنینؑ نے معقل بن قیس تمیمی کو چھ ہزار کا لشکر دے کر سفیان بن عوف کے تعاقب کے لیے بھیجاجب معقل اس تک پہنچےتب تک سفیان بن عوف  اپنا کام کر چکا تھا، امیرالمومنینؑ کے لشکر کے تیار ہونے تک اس نے  فرات کے ساحلی علاقوں، شہر انبار، اور مدائن میں خوب تباہ کاریاں مچائیں جب اسے معقل کے لشکر کا علم ہوا تو وہ فرار کر کے شام کی طرف بھاگ گیا۔(۱۲) ثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص۴۷۰۔

۳۔عبداللہ بن مسعدہ فزاری کی لشکر کشی:

اسی سال امیر شام نے عبداللہ بن مسعدہ فزاری کو سترہ سو افراد کے ساتھ تیماء کی جانب روانہ کیا اور اسے کہا کہ وہ مکہ اور مدینہ کی اردگرد کی بستیوں میں وہاں کے لوگوں سے زکات کا مطالبہ کرے اور جو انکار کرے اس کو قتل کر دے۔ جب امیرالمومنینؑ کو اس کا علم ہوا تو آپؑ نے مسیب بن نجبہ فزاری کو جنگ کے لیے بھیجا، مسیب ظہر کے وقت تیماء جا پہنچے دونوں کے درمیان جنگ ہوئی، مسیب نے تیسرے وار پر ہی ابن مسعدہ کو گرا دیا چونکہ یہ  دونوں ایک ہی قبیلے سے تھے مسیب نے چپکے سے اسے کہا کہ بھاگ جاؤ۔ اس کے نتیجے میں ابن مسعدہ اور اس کے ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ (۱۳) طبری، ابن جریر، تاریخ طبری تاریخ الرسل و الملوک و صله تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۳۵۔

۴ ۔ بسر ابن ابی ارتاۃ کی تباہ کاریاں:

بسر بن ابی ارطاۃ قبیلہ قریش بنی عامر سے ہے بعض شامی مؤرخین نے اسے صحابی قرار دیا ہے جبکہ مشہور قول کی بنا پر اس کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے دو سال بعد ہے اور اس بنا پر اکثر محققین اس کے صحابی ہونے کو رد کرتے ہیں۔ بسر جنگ صفین میں امیر شام کی سپاہ کے کمانڈروں میں سے تھا، امیرالمومنینؑ کے سامنے آنے سے گھبراتا تھا، ایک بار جب ناگزیر صورتحال میں امیرالمومنینؑ سے جنگ میں سامنا ہوا تو عمرو بن عاص کی طرح خود کو امیرالمومنینؑ کے آگے ننگا کر دیا جس کی وجہ سے امیرالمومنینؑ منہ پھیر کر آگے بڑھ گئے اور اس نے اپنی جان بچا لی۔  (۱۴) منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ج۱، ص۴۶۱۔

جنگ نہروان کے بعد امیر شام کی جانب سے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو متزلزل کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھاۓ گئے ان کا ایک حصہ اوپر بیان ہوا ہے، انہیں اقدامات میں سے معاویہ کا بسر ابن ابی ارطاۃ قرشی کو لشکر دے کر مختلف بلاد اسلامی میں اعزام کرنا ہے جس نے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑا دیں۔ امیر شام نے عراق و حجاز کی سرزمین پر امیرالمومنینؑ سے بیعت کرنے والے قبائل کو کچلنے کے لیے بسر کو تین ہزار کے لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور اسے کہا کہ جو بھی امیرالمومنینؑ کی بیعت کو توڑ کر میری بیعت نہ کرے اسے موت کے گھاٹ اتار دو۔ (۱۵) ابن ابی الحدید، عزالدین، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۶۔

بسر شام سے تباہیاں پھیلاتا ہوا مدینہ پہنچا تو والی مدینہ ابو ایوب انصاری وہاں سے نکل کھڑے ہوۓ، بسر مدینہ کے لوگوں سے خصوصا انصار سے نہایت سخت لہجے سے پیش آیا اور ایک قول کی بنا پر ہر اس شخص کو قتل کر دیا جس پر خلیفہ سوم کے قتل کا اتہام تھا ۔ (۱۶) ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج۱۰، ص۱۵۲۔

بسر جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوا مسجد نبوی کے منبر پر جا کر سب کو قتل کر دینے کی دھمکی دی اور کہا کہ تم سب لوگ خلیفہ سوم کے قتل کے جرم میں شریک ہو بعدمیں  عبداللہ بن زبیر کی سفارش پر اس کام سے رک گیا اور مدینہ کے لوگوں سے زبردستی امیر شام کے لیے بیعت لی۔ اہل مدینہ میں سے اکثریت نے بیعت کر لی یا خوف سے شہر سے باہر نکل گئے انہیں میں سے ایک شخصیت جابر بن عبداللہ انصاری ہیں، بسر نے جابر کے قبیلے والوں سے کہا کہ جابر کو میرے پاس لاؤ ورنہ تم سب کو قتل کر دیا جاۓ گا جب جابر کو اس کی خبر ہوئی تو وہ ام المومنین ام سلمہ کے پاس مشورت کے لیے تشریف لاۓ اور پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے؟ اگر بیعت نہ کروں تو میری جان اور قبیلے والے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور اگر بیعت کروں تویہ بھی ضلالت و گمراہی ہے۔ تاریخ طبری میں آیا ہے کہ اس ملاقات کے بعد جابر نے بسر کے ہاتھ پر امیر شام کی بیعت کر لی۔  (۱۷) طبری، ابو جعفر، تاریخ الطبری تاریخ الرسل و الملوک، و صلۃ تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۳۹۔ بسر مدینہ میں ایک ماہ رہا اس دوران اس نے انصار اور شیعیان علیؑ کے گھروں کو جلایا، جن میں  زرارہ بن جرول، رفاعہ بن رافع، ابو ایوب انصاری کے گھر شامل ہیں۔   (۱۸) ثقفی الکوفی، ابراہیم، الغارات، ج۲، ص۵۵۴۔

ان تمام افراد کو بھی قتل کر دیا جن کا قتل خلیفہ سوم میں شریک ہونے کا شک یا ظن تھا، اس کے علاوہ بنی کعب بن عمرو کے چند افراد کو کنویں میں پھینکوایا ۔ (۱۹) ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری متمم الصحابۃ الطبقۃ الخامسۃ، ج۲، ص۱۸۶۔

ایک ماہ کی مدینہ میں سکونت کے بعد بسر مکہ کی طرف بڑھا، راستے میں بنی خزاعہ کے بہت سے افراد کو قتل کیا اور ان کے اموال کو غارت کیا۔  (۲۰) ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۲، ص۴۰۴۔ امیرالمومنینؑ کی جانب سے متعین مکہ کے والی قثم بن عباس کو جب علم ہوا کہ بسر نے مکہ کی طرف رخ کر لیا ہے تو وہ شہر سے بھاگ کھڑا ہوا اس طرح بسر بنا کسی خوف و خطر کے مکہ میں داخل ہوا، بسر مکہ میں پہنچا تو قریش مکہ میں سے ایک گروہ بسر کو ملنے گیا، بسر نے سب کو قتل کرنے کی دھمکی دی بعد میں بخشش طلب کرنے اور قبائلی تعصب آل امیہ سے وفاداری کی قسم کھا کر ان کی جان بخش دی۔ اس کے بعد خطبہ میں امیر شام کو خلافت کے لیے سزاوار تر قرار دیتے ہوۓ اہل مکہ کو ان کے گھروں کو جلا دینے کی دھمکی دیتے ہوۓ ڈرا کرمعاویہ کے لیے  بیعت لی اور شیبہ بن عثمان بدری کو مکہ کا حکمران قرار دے کر مکہ سے نکل کھڑا ہوا۔ (۲۱) ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۳۸۳۔

یمن کا رخ کرنے سے پہلے بسر نے طائف اور نجران جانے کا فیصلہ کیا، جہاں شیعیان علیؑ کو بے دردی سے شہید کیا۔  راستے میں دہشت و خوف پھیلاتا ہوا یمن پہنچا، یمن میں سب سے پہلے اس نے جا کر امیرالمومنینؑ کی جانب سے متعین یمن کے والی عبیداللہ بن عباس کے دو کم عمر بچوں کو بے دردی سے ذبح کیا ۔ (۲۲) طبری، ابو جعفر، تاریخ الطبری تاریخ الرسل و الملوک، وصلۃ تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۴۰۔

نیز عمرو بن اراکہ جو عبیداللہ بن عباس کے جانشین تھے اور ان کے ہمراہ ایک سو ایرانی شرفاء کو اس جرم میں قتل کیا کہ عبیداللہ کے دو بیٹے ام نعمان کے ہاں کیوں چھپاۓ گئے۔ (ام نعمان ایرانی شرفاء میں سے ایک بزرگ بزرج کی بیٹی تھیں)۔ (۲۳) ابن ابی الحدید، عزالدین، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۱۶۔ بسر نے شہر یمن کے مضافاتی علاقوں سراۃ، نجران، ارحب، جرف اور جیفان کے مختلف قبائل کو تہ تیغ کیا اور وہاں پر رہنے والے شیعیان علیؑ کو  با طرز فجیع قتل کیا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنایا ۔ (۲۴) یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۹۹۔

اس کے علاوہ بسر نے حضرموت میں بھی شیعیان علیؑ کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا، مختلف تاریخی اسناد کے مطابق بسر بن ابی ارطاۃ نے اس ماموریت میں شام آنے سے واپس جانے کی اس مسافت کے دوران ۳۰ ہزار مسلمانوں کو شہید کیا ۔ (۲۵) ابن اعثم، احمد بن علی، الفتوح لابن اعثم، ج۴، ص۲۳۸۔

جب امیرالمومنینؑ کو بسر کی تباہ کاریوں کی خبر ملی تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتیا لیں گے، اس لیے کہ وہ باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ امانتداری کے ساتھ فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تویہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جاۓ گا۔ (۲۶) مفتی جعفر، حسین، ترجمہ نہج البلاغہ اردو، خطبہ۲۵، ص۴۳۔

اس کے بعد امیرالمومنینؑ نے جاریہ بن قدامہ کو دو ہزار سپاہی دے کر بسر کے تعاقب کے لیے صنعا بھیجا، وہب بن مسعود خثعمی بھی دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ حجاز میں اس کے ساتھ  ملحق ہو گئے، جب جاریہ  یمن پہنچے تو بسر وہاں سے فرار کرتے ہوۓ شام بھاگ چکا تھاالبتہ یہاں پر ابن اعثم کوفی نے بقیہ تاریخی اسناد سے اختلاف کرتے ہوۓ بیان کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ بسر شام کی طرف فرار کرتے ہوۓ وہاں سے بھاگتا ،عبیداللہ بن عباس نے اسے پا لیا دونوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس لڑائی میں بسر اور اس کے چند ساتھی ہلاک ہو گئے۔  (۲۷) ابن اعثم، احمد بن علی، الفتوح لابن اعثم، ج۴، ص۲۳۸۔

نتیجہ:

                        ایک اعتراض جو اکثر سننے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بدعات اور خرافات جوخلفاء ثلاثہ کے زمانہ خلافت میں امت میں پھیلا دی گئی تھیں اگر وہ واقعی طور پر بدعات تھیں اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں امت میں رائج نہ تھیں تو کیوں زمانہ خلافت امیرالمومنینؑ میں ان خرافات و بدعات پر حکومتی پابندی نہ لگائی گئی جبکہ امیرالمومنینؑ حکم حکومتی سے ان تمام بدعات کو ختم کر سکتے تھے۔ اس کا جواب ہمیں اس تحریر کو پڑھنے سے مل جاتا ہے ، اور ہر ذی شعور شخص کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیرالمومنینؑ نے جس دور میں حکومت کی ، امام کو ان خرافات و بدعات کو ختم کرنے کا موقع ہی نہ ملا، اس سے پہلے کہ امیرالمومنینؑ جزئی و فرعی اختلافات کو امت سے ختم کرتے امیرالمومنینؑ کی حکومت پر پے درپے حملے شروع ہوگئے، امیرالمومنینؑ کا ہدف بنیادی و اصلی ترین خرابی کو ختم کرنا تھا جس نے امت میں اختلاف و دشمنی کو پیدا کیا۔ ظاہر ہے جب خرافات و بدعات کی جڑ کٹ جاتی جزئی و فرعی اختلافات بھی آہستہ آہستہ تربیتی روش سے ختم ہو جاتے، لیکن امیرالمومنینؑ کو اس بنیادی ترین خرابی کو جڑ سے کاٹ پھینکنے کا بھی موقع میسر نہ ہوا اور شہید کر دیے گئے۔ ابتداء حکومت میں ہی بعض بیعت شکنوں اور مفاد پرستوں نے جنگ جمل میں امیرالمومنینؑ کو ام المومنین کے خلاف لا کھڑا کیا اور امت میں افتراق و اختلاف کی بنیاد رکھ دی، اس کے بعد صفین اور نہروان۔ امیرالمومنینؑ نے اپنادوران حکومت مسلسل جنگوں میں گزارا،حتی جن ایام میں آپؑ کی شہادت ہوئی انہیں ایام میں چالیس ہزار کا لشکر امیر شام کی ناجائز و ستمگر حکومت کو گرانے کے لیے آمادہ و تیار تھا لیکن امت کے شقی ترین انسان نے مسجد میں امیرالمومنینؑ کو شہید کر دیا ، خون کے آنسو روۓ انسان اس مصیبت پر کہ عین اسی وقت جب ایک طاغوت کو کچلنے کے لیے اسلامی افواج آمادہ ہو چکی تھیں ایک شقی ازلی اس قیام کے آگے مانع بن گیا اور اس کے نتیجے میں ایسا تاریک و ظلم و استبداد کا دور شروع ہو گیا کہ جس سے اسلام کے خدوخال مسخ ہو کر گئے۔

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 August 21 ، 16:10
عون نقوی