بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

وَ قَدِ اسْتَبْطَاَ اَصْحَابُهٗ اِذْنَهٗ لَهُمْ فِی الْقِتَالِ بِصِفِّیْنَ:

صفین میں حضرت علیہ السلام کے اصحاب نے جب اِذنِ جہاد دینے میں تاخیر پر بے چینی کا اظہار کیا، تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:

اَمَّا قَوْلُکُمْ: اَ کُلُّ ذٰلِکَ کَرَاهِیَةَ الْمَوْتِ؟ فَوَاللهِ! مَاۤ اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ.

تم لوگوں کا یہ کہنا :یہ پس و پیش کیا اس لئے ہے کہ میں موت کو ناخوش جانتا ہوں اور اس سے بھاگتا ہوں، تو خدا کی قسم! مجھے ذرا پروا نہیں کہ مَیں موت کی طرف بڑھوں یا موت میری طرف بڑھے۔

وَ اَمَّا قَوْلُکُمْ: شَکًّا فِیْ اَهْلِ الشَّامِ! فَوَاللهِ! مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ یَوْمًا اِلَّا وَ اَنَا اَطْمَعُ اَنْ تَلْحَقَ بِیْ طَآئِفَةٌ فَتَهْتَدِیَ بِیْ، وَ تَعْشُوَ اِلٰی ضَوْئِیْ، وَ ذٰلِکَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَقْتُلَهَا عَلٰی ضَلَالِهَا، وَ اِنْ کَانَتْ تَبُوْٓءُ بِاٰثَامِهَا.

اور اس طرح تم لوگوں کا یہ کہنا کہ مجھے اہل شام سے جہاد کرنے کے جواز میں کچھ شبہ ہے تو خدا کی قسم! میں نے جنگ کو ایک دن کیلئے بھی التوا میں نہیں ڈالا، مگر اس خیال سے کہ ان میں سے شاید کوئی گروہ مجھ سے آ کر مل جائے اور میری وجہ سے ہدایت پا جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کو بھی دیکھ لے اور مجھے یہ چیز گمراہی کی حالت میں انہیں قتل کر دینے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمہ دار بہرحال یہ خود ہوں گے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:36
عون نقوی

فَتَدَاکُّوْا عَلَیَّ تَدَاکَّ الْاِبِلِ الْهِیْمِ یَوْمَ وِرْدِهَا، قَدْ اَرْسَلَهَا رَاعِیْهَا، وَ خُلِعَتْ مَثَانِیْهَا، حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّهُمْ قَاتِلِیَّ، اَوْ بَعْضَهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَّدَیَّ، وَ قَدْ قَلَّبْتُ هٰذَا الْاَمْرَ بَطْنَهٗ وَ ظَهْرَهٗ، فَمَا وَجَدْتُّنِیْ یَسَعُنِیْۤ اِلَّا قِتَالُهُمْ اَوِ الْجُحُوْدُ بِمَا جَآءَ بِهٖ مُحَمَّدٌ ﷺ، فَکَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مُّعَالَجَةِ الْعِقَابِ، وَ مَوْتَاتُ الدُّنْیَا اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مَّوْتَاتِ الْاٰخِرَةِ.

وہ اس طرح بے تحاشا میری طرف لپکے جس طرح پانی پینے کے دن وہ اونٹ ایک دوسرے پر ٹوٹتے ہیں کہ جنہیں ان کے ساربان نے پیروں کے بندھن کھول کر کھلا چھوڑ دیا ہو۔ یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یا تو مجھے مار ڈالیں گے، یا میرے سامنے ان میں سے کوئی کسی کا خون کر دے گا۔ میں نے اس امر کو اندر باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے جنگ کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی، یا یہ کہ محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام سے انکار کر دوں، لیکن آخرت کی سختیاں جھیلنے سے مجھے جنگ کی سختیاں جھیلنا سہل نظر آیا اور آخرت کی تباہیوں سے دنیا کی ہلاکتیں میرے لئے آسان نظر آئیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:34
عون نقوی

فِیْ ذِکْرِ یَوْمِ النَّحْرِ وَ صِفَةِ الْاُضْحِیَّةِ

اس میں عید قربان اور ان صفتوں کا ذکر کیا ہے جو گوسفند قربانی میں ہونا چاہئیں

وَ مِنْ تَمَامِ الْاُضْحِیَّةِ اسْتِشْرَافُ اُذُنِهَا، وَ سَلَامَةُ عَیْنِهَا، فَاِذَا سَلِمَتِ الْاُذُنُ وَ الْعَیْنُ سَلِمَتِ الْاُضْحِیَّةُ وَ تَمَّتْ، وَ لَوْ کَانَتْ عَضْبَآءَ الْقَرْنِ تَجُرُّ رِجْلَهَا اِلَی الْمَنْسَکِ.

قربانی کے جانور کا مکمل ہونا یہ ہے کہ اس کے کان اُٹھے ہوئے ہوں (یعنی کٹے ہوئے نہ ہوں) اور اس کی آنکھیں صحیح و سالم ہوں۔ اگر کان اور آنکھیں سالم ہیں تو قربانی بھی سالم اور ہر طرح سے مکمل ہے۔ اگرچہ اس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں اور ذبح کی جگہ تک اپنے پیر کو گھسیٹ کر پہنچے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:33
عون نقوی

اَلَا وَ اِنَّ الدُّنْیَا قَدْ تَصَرَّمَتْ، وَ اٰذَنَتْ بِانْقِضَآءٍ، وَ تَنَکَّرَ مَعْرُوْفُهَا، وَ اَدْبَرَتْ حَذَّآءَ، فَهِیَ تَحْفِزُ بِالْفَنَآءِ سُکَّانَهَا، وَ تَحْدُوْ بِالْمَوْتِ جِیْرَانَهَا، وَ قَدْ اَمَرَّ مِنْهَا مَا کَانَ حُلْوًا، وَ کَدِرَ مِنْهَا مَا کَانَ صَفْوًا، فَلَمْ یَبْقَ مِنْهَا اِلَّا سَمَلَةٌ کَسَمَلَةِ الْاِدَاوَةِ، اَوْ جُرْعَةٌ کَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ، لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْیَانُ لَمْ یَنْقَعْ، فَاَزْمِعُوْا عِبَادَ اللهِ الرَّحِیْلَ عَنْ هٰذِهِ الدَّارِ الْمَقْدُوْرِ عَلٰۤی اَهْلِهَا الزَّوَالُ، وَ لَا یَغْلِبَنَّکُمْ فِیْهَا الْاَمَلُ، وَ لَا یَطُوْلَنَّ عَلَیْکُمُ الْاَمَدُ.

دنیا اپنا دامن سمیٹ رہی ہے اور اس نے اپنے رخصت ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کی جانی پہچانی ہوئی چیزیں اجنبی ہو گئیں اور وہ تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ رہی ہے اور اپنے رہنے والوں کو فنا کی طرف بڑھا رہی ہے اور اپنے پڑوس میں بسنے والوں کو موت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس کے شیریں (مزے) تلخ اور صاف و شفاف (لمحے) مکدر ہو گئے ہیں۔ دنیا سے بس اتنا باقی رہ گیا ہے جتنا برتن میں تھوڑا سا بچا پانی یا نپا تلا ہوا جرعۀ آب کہ پیاسا اگر اسے پئے تو اُس کی پیاس نہ بجھے۔ خدا کے بندو! اس دارِ دنیا سے کہ جس کے رہنے والوں کیلئے زوال امر مسلّم ہے، نکلنے کا تہیہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آرزوئیں تم پر غالب آ جائیں اور اس (چند روزہ زندگی) کی مدت کو دراز سمجھ بیٹھو۔

فَوَاللهِ! لَوْ حَنَنْتُمْ حَنِیْنَ الْوُلَّهِ الْعِجَالِ، وَ دَعَوْتُمْ بِهَدِیْلِ الْحَمَامِ، وَ جَاَرْتُمْ جُؤَارَ مُتَبَتِّلِی الرُّهْبَانِ، وَ خَرَجْتُمْ اِلَی اللهِ مِنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ، الْتِمَاسَ الْقُرْبَةِ اِلَیْهِ فِی ارْتِفَاعِ دَرَجَةٍ عِنْدَهٗ، اَوْ غُفْرَانِ سِیِّئَةٍ اَحْصَتْهَا کُتُبُهٗ، وَ حَفِظَتْهَا رُسُلُهٗ، لَکَانَ قَلِیْلًا فِیْمَاۤ اَرْجُوْ لَکُمْ مِنْ ثَوَابِهٖ، وَ اَخَافُ عَلَیْکُمْ مِنْ عِقَابِهٖ.

خدا کی قسم! اگر تم اُن اونٹنیوں کی طرح فریاد کرو جو اپنے بچوں کو کھو چکی ہوں اور ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو (جو اپنے ساتھیوں سے الگ ہو گئے ہوں) اور اُن گوشہ نشین راہبوں کی طرح چیخو چلاؤ جو گھر بار چھوڑ چکے ہوں اور مال اور اولاد سے بھی اپنا ہاتھ اٹھا لو، اس غرض سے کہ تمہیں بارگاہِ الٰہی میں تقرب حاصل ہو درجہ کی بلندی کے ساتھ اس کے یہاں، یا ان گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ جو صحیفہ اعمال میں درج اور کراماً کاتبین کو یاد ہیں، تو وہ تمام بے تابی اور نالہ و فریاد اُس ثواب کے لحاظ سے جس کا میں تمہارے لئے امیدوار ہوں اور اس عقاب کے اعتبار سے جس کا مجھے تمہارے لئے خوف و اندیشہ ہے بہت ہی کم ہو گی۔

وَاللهِ! لَوِ انْمَاثَتْ قُلُوْبُکُمُ انْمِیَاثًا، وَ سَالَتْ عُیُوْنُکُمْ مِنْ رَّغْبَةٍ اِلَیْهِ وَ رَهْبَةٍ مِّنْهُ دَمًا، ثُمَّ عُمِّرْتُمْ فِی الدُّنْیَا، مَا الدُّنْیَا بَاقِیَةٌ، مَا جَزَتْ اَعْمَالُکُمْ ـ وَ لَوْ لَمْ تُبْقُوْا شَیْئًا مِّنْ جُهْدِکُمْ ـ اَنْعُمَهٗ عَلَیْکُمُ الْعِظَامَ، وَ هُدَاهُ اِیَّاکُمْ لِلْاِیْمَانِ.

خدا کی قسم! اگر تمہارے دل بالکل پگھل جائیں اور تمہاری آنکھیں امید و بیم سے خون بہانے لگیں اور پھر رہتی دنیا تک (اسی حالت میں)جیتے بھی رہو تو بھی تمہارے اعمال اگرچہ تم نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہو، اس کی نعماتِ عظیم کی بخشش اور ایمان کی طرف راہنمائی کا بدلہ نہیں اتار سکتے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:31
عون نقوی

لَمَّا غَلَبَ اَصْحَابُ مُعَاوِیَةَ اَصْحَابَهٗ ؑ عَلٰى شَرِیْـعَةِ الْـفُرَاتِ بِصِفِّیْنَ وَ مَنْعُوْهُمْ مِنَ الْمَآءِ:

جب صفین میں معاویہ کے ساتھیوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب پر غلبہ پا کر فرات کے گھاٹ پر قبضہ جما لیا اور پانی لینے سے مانع ہوئے تو آپؑ نے فرمایا:

قَدِ اسْتَطْعَمُوْکُمُ الْقِتَالَ، فَاَقِرُّوْا عَلٰی مَذَلَّةٍ، وَ تَاْخِیْرِ مَحَلَّةٍ، اَوْ رَوُّوا السُّیُوْفَ مِنَ الدِّمَآءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ، فَالْمَوْتُ فِیْ حَیَاتِکُمْ مَقْهُوْرِیْنَ، وَ الْحَیٰوةُ فِیْ مَوْتِکُمْ قَاهِرِیْنَ. اَلَا وَ اِنَّ مُعَاوِیَةَ قَادَ لُمَةً مِّنَ الْغُوَاةِ، وَ عَمَسَ عَلَیْهِمُ الْخَبَرَ، حَتّٰی جَعَلُوْا نُحُوْرَهُمْ اَغْرَاضَ الْمَنِیَّةِ.

وہ تم سے جنگ کے لقمے طلب کرتے ہیں۔ تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی و حقارت پر سرِ تسلیم خم کر دو، یا تلواروں کی پیاس خون سے بجھا کر اپنی پیاس پانی سے بجھاؤ۔ تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آ کر مرنا بھی جینے کے برابر ہے۔ معاویہ گم کردہ راہ سر پھروں کا ایک چھوٹا سا جتھا لئے پھرتا ہے اور واقعات سے انہیں اندھیرے میں رکھ چھوڑا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سینوں کو موت (کے تیروں) کا ہدف بنا لیا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:29
عون نقوی