بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

وَ قَدْ اَشارَ عَلَیهِ اَصْحَابُهٗ بِالِاسْتِعْدَادِ لِلْحَرْبِ بَعْدَ اِرْسَالِهٖ جَرِیْرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِّیْ اِلٰى مُعَاوِیَةَ:

جب امیرالمومنین علیہ السلام نے جریر ابن عبداللہ بجلی کو معاویہ کے پاس(بیعت لینے کے لیے) بھیجا تو آپؑ کے اصحاب نے آپؑ کو جنگ کی تیاری کا مشورہ دیا، جس پر آپؑ نے فرمایا:

اِنَّ اسْتِعْدَادِیْ لِحَرْبِ اَهْلِ الشَّامِ وَ جَرِیْرٌ عِنْدَهُمْ، اِغْلَاقٌ لِّلشَّامِ، وَ صَرْفٌ لِّاَهْلِهٖ عَنْ خَیْرٍ اِنْ اَرَادُوْهُ، وَ لٰکِنْ قَدْ وَقَّتُّ لِجَرِیْرٍ وَّقْتًا لَّا یُقِیْمُ بَعْدَهٗ اِلَّاَ مَخْدُوْعًا اَوْ عَاصِیًا، وَ الرَّاْیُ عِنْدِیْ مَعَ الْاَنَاةِ، فَاَرْوِدُوْا، وَ لَاۤ اَکْرَهُ لَکُمُ الْاِعْدَادَ.

میرا جنگ کیلئے مستعد و آمادہ ہونا جب کہ جریر ابھی وہیں ہے، شام کا دروازہ بند کرنا ہے اور وہاں کے لوگ بیعت کا ارادہ بھی کریں تو انہیں اس ارادہ خیر سے روک دینا ہے۔ بے شک میں نے جریر کیلئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ ٹھہرے گا تو یا ان سے فریب میں مبتلا ہو کر یا (عمداً) سرتابی کرتے ہوئے۔ صحیح رائے کا تقاضا صبر و توقف ہے۔ اس لئے ابھی ٹھہرے رہو۔ البتہ اس چیز کو میں تمہارے لئے بُرا نہیں سمجھتا کہ (در پردہ) جنگ کا ساز و سامان کرتے رہو۔

وَ لَقَدْ ضَرَبْتُ اَنْفَ هٰذَا الْاَمْرِ وَ عَیْنَهٗ، وَ قَلَّبْتُ ظَهْرَهٗ وَ بَطْنَهٗ، فَلَمْ اَرَ لِیْۤ اِلَّا الْقِتَالَ اَوِ الْکُفْرَ بِمَا جَآءَ مُحَمَّدٌ ﷺ. اِنَّهٗ قَدْ کَانَ عَلَی الْاُمَّةِ وَالٍ اَحْدَثَ اَحْدَاثًا، وَ اَوْجَدَ لِلنَّاسَ مَقَالًا، فَقَالُوْا، ثُمَّ نَقَمُوْا فَغَیَّرُوْا.

میں نے اس امر کو اچھی طرح سے پرکھ لیا ہے اور اندر باہر سے دیکھ لیا ہے۔ مجھے تو جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا، یا یہ کہ رسول ﷺ کی دی ہوئی خبروں سے انکار کر دوں۔ حقیقت یہ ہے (مجھ سے پہلے) اس اُمت پر ایک ایسا حکمران تھا جس نے دین میں بدعتیں پھیلائیں اور لوگوں کو زبانِ طعن کھولنے کا موقعہ دیا۔ (پہلے تو) لوگوں نے اُسے زبانی کہا سنا، پھر اس پر بگڑے اور آخر سارا ڈھانچہ بدل دیا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:14
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَخْوَفَ مَاۤ اَخَافُ عَلَیْکُمُ اثْنَانِ: اتِّبَاعُ الْهَوٰی، وَ طُوْلُ الْاَمَلِ، فَاَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوٰی فَیَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ، وَ اَمَّا طُوْلُ الْاَمَلِ فَیُنْسِی الْاٰخِرَةَ.

اے لوگو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو باتوں کا ڈر ہے: ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ خواہشوں کی پیروی وہ چیز ہے جو حق سے روک دیتی ہے اور امیدوں کا پھیلاؤ آخرت کو بھلا دیتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ الدُّنْیَا قَدْ وَلَّتْ حَذَّآءَ، فَلَمْ یَبْقَ مِنْهَا اِلَّا صُبَابَةٌ کَصُبَابَةِ الْاِنَآءِ اصْطَبَّهَا صَابُّهَا، اَلَا وَ اِنَّ الْاٰخِرَةَ قَدْ اَقْبَلَتْ، وَ لِکُلٍّ مِّنْهُمَا بَنُوْنَ، فَکُوْنُوْا مِنْ اَبْنَآءِ الْاٰخِرَةِ، وَ لَا تَکُوْنُوْا مِنْ اَبْنَآءِ الدُّنْیَا، فَاِنَّ کُلَّ وَلَدٍ سَیُلْحَقُ بِاُمِّهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ، وَ اِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَّ لَا حِسَابَ، وَ غَدًا حِسَابٌ وَّ لَا عَمَلَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا تیزی سے جا رہی ہے اور اس میں سے کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے، مگر اتنا ہے کہ جیسے کوئی انڈیلنے والا برتن کو انڈیلے تو اس میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے۔ اور آخرت ادھر کا رخ لئے ہوئے آرہی ہے اور دنیا و آخرت ہر ایک والے خاص آدمی ہوتے ہیں۔ تو تم فرزند آخرت بنو اور ابنائے دنیا نہ بنو۔ اس لئے کہ ہر بیٹا روزِ قیامت اپنی ماں سے منسلک ہو گا۔ آج عمل کا دن ہے اور حساب نہیں ہے اور کل حساب کا دن ہو گا، عمل نہ ہو سکے گا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:12
عون نقوی

اِنَّ الْوَفَآءَ تَوْاَمُ الصِّدْقِ، وَ لَاۤ اَعْلَمُ جُنَّةً اَوْقٰی مِنْهُ، وَ لَا یَغْدِرُ مَنْ عَلِمَ کَیْفَ الْمَرْجِـعُ، وَ لَقَدْ اَصْبَحْنَا فِیْ زَمَانٍ قَدِ اتَّخَذَ اَکْثَرُ اَهْلِهِ الْغَدْرَ کَیْسًا، وَ نَسَبَهُمْ اَهْلُ الْجَهْلِ فِیْهِ اِلٰی حُسْنِ الْحِیْلَةِ. مَا لَهُمْ! قَاتَلَهُمُ اللهُ! قَدْ یَرَی الْحُوَّلُ الْقُلَّبُ وَجْهَ الْحِیْلَةِ وَ دُوْنَهٗ مَانِعٌ مِّنْ اَمْرِ اللهِ وَ نَهْیِهٖ، فَیَدَعُهَا رَاْیَ عَیْنٍ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ یَنْتَهِزُ فُرْصَتَهَا مَنْ لَّا حَرِیْجَةَ لَهٗ فِی الدِّیْنِ.

وفائے عہد اور سچائی دونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے اور میرے علم میں اس سے بڑھ کر حفاظت کی اور کوئی سپر نہیں۔ جو شخص اپنی باز گشت کی حقیقت جان لیتا ہے وہ کبھی غداری نہیں کرتا۔ مگر ہمارا زمانہ ایسا ہے جس میں اکثر لوگوں نے غدر و فریب کو عقل و فراست سمجھ لیا ہے اور جاہلوں نے ان کی (چالوں) کو حسن تدبیر سے منسوب کر دیا ہے۔ اللہ انہیں غارت کرے! انہیں کیا ہو گیا ہے؟ وہ شخص جو زمانے کی اونچ نیچ دیکھ چکا ہے اور اس کے ہیر پھیر سے آگاہ ہے وہ کبھی کوئی تدبیر اپنے لئے دیکھتا ہے، مگر اللہ کے اوامر و نواہی اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس حیلہ و تدبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اس پر قابو پانے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے اور جسے کوئی دینی احساس سد راہ نہیں ہے وہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھا لے جاتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:10
عون نقوی

فِی الْخَوَارِجِ لَمَّا سَمِعَ قَوْلَهُمْ: «لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ»، قَالَ ؑ:

جب آپؑ نے خوارج کا قول (لا حکم الا لله) (حکم اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے) سنا تو فرمایا

کَلِمَةُ حَقٍّ یُّرَادُ بِهَا بَاطِلٌ! نَعَمْ اِنَّهٗ لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰهِ، وَلٰکِنَّ هٰٓؤُلَآءِ یَقُوْلُوْنَ:لَاۤ اِمْرَةَ اِلَّا لِلّٰهِ، وَ اِنَّهٗ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْکَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِهٖ لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.

یہ جملہ تو صحیح ہے مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں! بے شک حکم اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے، مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے۔ خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ (اگر اچھا ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا، (اگر برا ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اسی حاکم کی وجہ سے مال (خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔

وَ فِیْ رِوَایَةٍ اُخْرٰی: اَنَّهٗ ؑ لَمَّا سَمِعَ تَحْکِیْمَهُمْ قَالَ:

ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ: جب آپ علیہ السلام نے تحکیم کے سلسلے میں (ان کا قول) سنا تو فرمایا:

حُکْمَ اللهِ اَنْتَظِرُ فِیْکُمْ.

میں تمہارے بارے میں حکم خدا ہی کا منتظر ہوں۔

وَ قَالَ:

پھر فرمایا کہ:

 الْاِمْرَةُ الْفَاجِرَةُ فَیَتَمَتَّعُ فِیْهَا الشَّقِیُّ، اِلٰۤی اَنْ تَنْقَطِعَ مُدَّتُهٗ، وَ تُدْرِکَهٗ مَنِیَّتُهٗ.

اگر حکومت نیک ہو تو اس میں متقی و پرہیز گار اچھے عمل کرتا ہے اور بری حکومت ہو تو اس میں بدبخت لوگ جی بھر کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا زمانہ ختم ہو جائے اور موت انہیں پالے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 January 23 ، 15:08
عون نقوی

وَ لَقَدْ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، نَقْتُلُ اٰبَآئَنَا وَ اَبْنَآئَنَا وَ اِخْوَانَنَا وَ اَعْمَامَنَا، مَا یَزِیْدُنَا ذٰلِکَ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا، وَ مُضِیًّا عَلَی اللَّقَمِ، وَ صَبْرًا عَلٰی مَضَضِ الْاَلَمِ، وَ جِدًّا فِیْ جِهَادِ الْعَدُوِّ، وَ لَقَدْ کَانَ الرَّجُلُ مِنَّا وَ الْاٰخَرُ مِنْ عَدُوِّنا یَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَیْنِ، یَتَخَالَسَانِ اَنْفُسَهُمَا: اَیُّهُمَا یَسْقِیْ صَاحِبَهٗ کَاْسَ الْمَنُوْنِ، فَمَرَّةً لَّنَا مِنْ عَدُوِّنَا، وَ مَرَّةً لِّعَدُوِّنَا مِنَّا، فَلَمَّا رَاَی اللهُ صِدْقَنَا اَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْکَبْتَ، وَ اَنْزَلَ عَلَیْنَا النَّصْرَ، حَتَّی اسْتَقَرَّ الْاِسْلَامُ مُلْقِیًا جِرَانَهٗ وَ مُتَبَوِّئًا اَوْطَانَهٗ، وَ لَعَمْرِیْ! لَوْ کُنَّا نَاْتِیْ مَاۤ اَتَیْتُمْ، مَا قَامَ لِلدِّیْنِ عَمُوْدٌ، وَ لَا اخْضَرَّ لِلْاِیْمَانِ عُوْدٌ. وَ اَیْمُ اللهِ لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَمًا، وَ لَتُتْبِعُنَّهَا نَدَمًا!

ہم (مسلمان) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر اپنے باپ، بیٹوں، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔ اس سے ہمارا ایمان بڑھتا تھا، اطاعت اور راہ حق کی پیروی میں اضافہ ہوتا تھا اور کرب و الم کی سوزشوں پر صبر میں زیادتی ہوتی تھی اور دشمنوں سے جہاد کرنے کی کوششیں بڑھ جاتی تھیں۔ (جہاد کی صورت یہ تھی کہ) ہم میں کا ایک شخص اور فوجِ دشمن کا کوئی سپاہی، دونوں مَردوں کی طرح آپس میں بھڑتے تھے اور جان لینے کیلئے ایک دوسرے پر جھپٹے پڑتے تھے کہ کون اپنے حریف کو موت کا پیالہ پلاتا ہے، کبھی ہماری جیت ہوتی تھی اور کبھی ہمارے دشمن کی۔ چنانچہ جب خداوند عالم نے ہماری (نیتوں کی) سچائی دیکھ لی تو اس نے ہمارے دشمنوں کو رسوا و ذلیل کیا اور ہماری نصرت و تائید فرمائی، یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ پر جم گیا اور اپنی منزل پر برقرار ہو گیا۔ خدا کی قسم! اگر ہم بھی تمہاری طرح کرتے تو نہ کبھی دین کا ستون گڑتا اور نہ ایمان کا تنا برگ و بار لاتا۔ خدا کی قسم! تم اپنے کئے کے بدلے میں (دودھ کے بجائے) خون دوہو گے اور آخر تمہیں ندامت و شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 18:37
عون نقوی