بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

فِیْ تَخْوِیْـفِ اَهْلِ النَّهَرَوَانِ

اہل نہروان کو ان کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا

فَاَنَا نَذِیْرٌ لَّکُمْ اَنْ تُصْبِحُوْا صَرْعٰی بِاَثْنَآءِ هٰذَا النَّهَرِ، وَ بِاَهْضَامِ هٰذَا الْغَآئِطِ، عَلٰی غَیْرِ بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ، وَ لَا سُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ مَّعَکُمْ، قَدْ طَوَّحَتْ بِکُمُ الدَّارُ، وَ احْتَبَلَکُمُ الْمِقْدَارُ، وَ قَدْ کُنْتُ نَهَیْتُکُمْ عَنْ هٰذِهِ الْحُکُوْمَةِ فَاَبَیْتُمْ عَلَیَّ اِبَآءَ الْمُخَالِفِیْنَ الْمُنَابِذِیْنَ، حَتّٰی صَرَفْتُ رَاْیِیْ اِلٰی هَوَاکُمْ، وَ اَنْتُمْ مَعَاشِرُ اَخِفَّـآءُ الْهَامِ، سُفَهَآءُ الْاَحْلَامِ، وَ لَمْ اٰتِ ـ لَاۤ اَبَا لَکُمْ ـ بُجْرًا، وَ لَاۤ اَرَدْتُّ لَکُمْ ضُرًّا.

میں تمہیں متنبہ کر رہا ہوں کہ تم لوگ اس نہر کے موڑوں اور اس نشیب کی ہموار زمینوں پر قتل ہو ہو کر گرے ہوئے ہو گے، اس عالم میں کہ نہ تمہارے پاس اللہ کے سامنے (عذر کرنے کیلئے) کوئی واضح دلیل ہو گی نہ کوئی روشن ثبوت، اس طرح کہ تم اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے اور پھر قضائے الٰہی نے تمہیں اپنے پھندے میں جکڑ لیا۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی اس تحکیم سے روکا تھا، لیکن تم نے میرا حکم ماننے سے مخالف پیمان شکنوں کی طرح انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ (مجبوراً) مجھے بھی اپنی رائے کو ادھر موڑنا پڑا جو تم چاہتے تھے۔ تم ایک ایسا گروہ ہو جس کے افراد کے سر عقلوں سے خالی اور فہم و دانش سے عاری ہیں۔ خدا تمہارا بُرا کرے میں نے تمہیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ہے نہ تمہارا بُرا چاہا تھا۔


 

جنگ نہروان کی وجہ یہ ہوئی کہ جب تحکیم کی قرارداد کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے تو جو لوگ تحکیم کے منوانے میں پیش پیش تھے، یہ کہنے لگے کہ: اللہ کے علاوہ کسی کو حکم ٹھہرانا کفر ہے اور معاذا للہ! امیر المومنین علیہ السلام تحکیم کو مان کر کافر ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے «لَاحُکْمَ اِلَّا لِلہِ» (حکم اللہ کیلئے مخصوص ہے) کو غلط معنی پہنا کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور امیر المومنین علیہ السلام سے کٹ کر کوفہ کے قریب مقامِ حروراء میں ڈیرے ڈال دیئے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو ان ریشہ دوانیوں کا علم ہوا تو آپؑ نے صعصعہ ابنِ صوحان اور زیاد ابنِ نضر حارثی کو ابنِ عباس کے ہمراہ ان کی طرف روانہ کیا اور بعد میں خود ان کی قیام گاہ تک تشریف لے گئے اور انہیں سمجھا بجھا کر منتشر کر دیا۔
جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے تحکیم کے معاہدہ کو توڑ ڈالا ہے اور وہ پھر سے شامیوں کے مقابلہ کیلئے آمادہ ہیں۔ حضرتؑ کو معلوم ہوا تو آپؑ نے اس کی تردید فرمائی جس پریہ لوگ فتنہ انگیزی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بغداد سے بارہ میل کے فاصلہ پر نہر کے نشیبی حصہ میں کہ جسے ’’نہروان‘‘ کہا جاتا ہے پڑاؤ ڈال دیا۔
ادھر امیر المومنین علیہ السلام تحکیم کا فیصلہ سن کر سپاهِ شام سے لڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور خوارج کو تحریر کیا کہ حکمین نے کتاب و سنت کے بجائے خواہشِ نفسانی سے کام لیتے ہوئے جو فیصلہ کیا ہے وہ ہمیں منظور نہیں ہے، لہٰذا ہم نے ان سے لڑنے کی ٹھان لی ہے، تم بھی ہمارا ساتھ دو تا کہ دشمن کی سرکوبی کی جائے۔ مگر خوارج نے اس کا یہ جواب دیا کہ آپؑ نے جب تحکیم مان لی تھی تو آپؑ ہمارے نزدیک کافر ہو گئے تھے۔ اب اگر آپؑ اپنے کفر کا اقرار کرتے ہوئے تو بہ کریں تو ہم اس معاملہ میں غور کریں گے اور سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
حضرتؑ نے ان کے جواب سے سمجھ لیا کہ ان کی سرکشی و گمراہی بہت شدید ہو گئی ہے۔ اب ان سے کسی قسم کی امید رکھنا بیکار ہے۔ لہٰذا آپؑ نے انہیں نظر انداز کر کے شام کی طرف کوچ کرنے کیلئے وادی نخیلہ میں پڑاؤ ڈال دیا۔ جب لشکر ترتیب دیا جا چکا تو حضرتؑ کو معلوم ہوا کہ لشکر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اہل نہروان سے نپٹ لیں اور بعد میں شام کا رخ کریں۔ مگر حضرتؑ نے فرمایا کہ ابھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑو، پہلے شام کی طرف بڑھو اور پھر انہیں دیکھ لیا جائے گا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم آپؑ کے ہر حکم کی تعمیل کیلئے بدل و جان حاضر ہیں۔ خواہ اِدھر چلیے یا اُدھر بڑھیے، لیکن ابھی لشکر نے حرکت نہ کی تھی کہ خوارج کی شورش انگیزیوں کی خبریں آنے لگیں اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عامل نہروان عبداللہ ابن خباب اور ان کی کنیز کو اس بچے سمیت جو اس کے شکم میں تھا ذبح کر ڈالا ہے اور بنی طے کی تین عورتوں اور ام سنان صیداویہ کو بھی قتل کر دیا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے حارث ابن مرہ کو تحقیق حال کیلئے روانہ کیا، لیکن یہ بھی ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔
جب ان کی شورش انگیزیاں اس حد تک بڑھ گئیں تو انہیں جھنجھوڑنا ضروری ہو گیا۔ چنانچہ لشکر نے نہر وان کا رُخ کر لیا اور وہاں پہنچ کر حضرتؑ نے انہیں کہلوا بھیجا کہ جن لوگوں نے عبداللہ ابن خباب اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا ہے انہیں ہمارے حوالے کرو تا کہ ہم اُن سے خون کا قصاص لیں۔ مگر اُن لوگوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ ہم سب نے مل کر اُن کو مارا ہے اور ہمارے نزدیک تم سب کا خون مباح ہے۔ اس پر بھی امیر المومنینؑ نے جنگ میں پہل نہ کی، بلکہ حضرت ابو ایوب انصاری کو پیغامِ امن دے کر اُن کی طرف بھیجا۔ چنانچہ اُنہوں نے پکار کر اُن سے کہا کہ جو شخص اس جھنڈے کے نیچے آ جائے گا یا اس جماعت سے کٹ کر کوفہ یا مدائن چلا جائے گا، اس کیلئے امان ہے اور اُس سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ فروہ ابنِ نوفل اشجعی نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس بنیاد پر امیر المومنین علیہ السلام سے آمادۂ پیکار ہوئے ہیں اور یہ کہہ کر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ الگ ہو گئے اور یونہی لوگ گروہ در گروہ چھٹنا شروع ہو گئے اور کچھ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام سے آ ملے۔ جو لوگ باقی رہ گئے اُن کی تعداد چار ہزار تھی۔ (طبری کی روایت کی بنا پر دو ہزار آٹھ سو تھی)۔ یہ لوگ کسی صورت میں دعوتِ حق کی پکار سننے کیلئے تیار نہ تھے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تھے۔
حضرتؑ نے اپنی فوج کو پہل کرنے سے روک رکھا تھا، مگر خوارج نے کمانوں میں تیر جوڑ لئے اور تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں۔ حضرت علیہ السلام نے اس موقعہ پر بھی جنگ کے ہولناک نتائج اور اس کے انجامِ بد سے انہیں آگاہ کیا اور یہ خطبہ بھی اسی زجر و توبیخ کے سلسلہ میں ہے۔ لیکن وہ اس طرح جوش میں بھرے بیٹھے تھے کہ یک لخت سپاهِ امیر المومنین علیہ السلام پر ٹوٹ پڑے۔ یہ حملہ اتنا بے پناہ تھا کہ پیادوں کے قدم اُکھڑ گئے، لیکن پھر اس طرح جمے کہ تیر و سنان کے حملے انہیں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوارج کا اس طرح صفایا کیا کہ نو آدمیوں کے علاوہ کہ جنہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچالی تھی ایک متنفس بھی زندہ نہ بچا۔ امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر میں سے صرف آٹھ آدمی شہید ہوئے۔ یہ جنگ ۹ صفر ۳۸ ھ میں واقع ہوئی۔
https://balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:36
عون نقوی

بَعْدَ التَّحْکِیْمِ

تحکیم کے بعد فرمایا

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اِنْ اَتَی الدَّهْرُ بِالْخَطْبِ الْفَادِحِ، وَ الْحَدَثِ الْجَلِیْلِ. وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ،وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، لَیْسَ مَعَهٗۤ اِلٰهٌ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ.

(ہر حالت میں) اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے۔ گو زمانہ (ہمارے لئے) جانکاہ مصیبتیں اور صبر آزما حادثے لے آیا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ولا شریک ہے، اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں اور محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں۔

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ مَعْصِیَةَ النَّاصِحِ الشَّفِیْقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ تُوْرِثُ الْحَسْرَةَ، وَتُعْقِبُ النَّدَامَةَ. وَقَدْ کُنْتُ اَمَرْتُکُمْ فِیْ هٰذِهِ الْحُکُوْمَةِ اَمْرِیْ، وَ نَخَلْتُ لَکُمْ مَخزُوْنَ رَاْیِیْ، لَوْ کَانَ یُطَاعُ لِقَصِیْرٍ اَمْرٌ! فَاَبَیْتُمْ عَلَیَّ اِبَآءَ الْمُخَالِفِیْنَ الْجُفَاةِ، وَ الْمُنَابِذِیْنَ الْعُصَاةِ، حَتَّی ارْتَابَ النَّاصِحُ بِنُصْحِهٖ، وَ ضَنَّ الزَّنْدُ بِقَدْحِهٖ، فَکُنْتُ اَنَا وَ اِیَّاکُمْ کَمَا قَالَ اَخُوْ هَوَازِنَ:

(تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ) مہربان، باخبر اور تجربہ کار ناصح کی مخالفت کا ثمرہ، حسرت و ندامت ہوتا ہے۔ میں نے اس تحکیم کے متعلق اپنا فرمان سنا دیا تھا اور اپنی قیمتی رائے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ دیا تھا۔ کاش کہ ’’قصیر‘‘ کا حکم مان لیا جاتا، لیکن تم تو تند خو مخالفین اور عہد شکن نافرمانوں کی طرح انکار پر تل گئے۔ یہاں تک کہ ناصح خود اپنی نصیحت کے متعلق سوچ میں پڑ گیا اور طبیعت اس چقماق کی طرح بجھ گئی کہ جس نے شعلے بھڑکانا بند کر دیا ہو۔ میری اور تمہاری حالت شاعر بنی ہوازن کے اس قول کے مطابق ہے:

اَمَرْتُکُمُ اَمْرِیْ بِمُنْعَرِجِ اللِّوٰی فَلَمْ تَسْتَبِیْنُوا النُّصْحَ اِلَّا ضُحَی الْغَدِ

’’میں نے مقامِ منعرج اللوی (ٹیلے کا موڑ) پر تمہیں اپنے حکم سے آگاہ کیا(گو اس وقت تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا) لیکن دوسرے دن کی چاشت کو میری نصیحت کی صداقت دیکھ لی‘‘۔


 
جب اہل عراق کی خونریز تلواروں سے شامیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور لیلة الہریر کے تابڑ توڑ حملوں نے ان کے حوصلے پست اور ولولے ختم کر دیئے تو عمرو بن عاص نے معاویہ کو یہ چال سوجھائی کہ قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے اسے حکم ٹھہرانے کا نعرہ لگایا جائے، جس کا اثر یہ ہو گا کہ کچھ لوگ جنگ کو رکوانا چاہیں گے اور کچھ جاری رکھنا چاہیں گے اور ہم اس طرح ان میں پھوٹ ڈلوا کر جنگ کو دوسرے موقعہ کیلئے ملتوی کرا سکیں گے۔ چنانچہ قرآن نیزوں پر بلند کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند سر پھروں نے شور و غوغا مچا کر تمام لشکر میں انتشار و برہمی پیدا کر دی اور سادہ لوح مسلمانوں کی سرگرمیاں فتح کے قریب پہنچ کر دھیمی پڑ گئیں اور بے سوچے سمجھے پکارنے لگے کہ: ہمیں جنگ پر قرآن کے فیصلے کو ترجیح دینا چاہیے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے جب قرآن کو آلہ کار بنتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ: اے لوگو! اس مکر و فریب میں نہ آؤ۔ یہ صرف شکست کی روسیاہیوں سے بچنے کیلئے چال چل رہے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ایک کی سیرت کو جانتا ہوں۔ نہ یہ قرآن والے ہیں اور نہ دین و مذہب سے انہیں کوئی لگاؤ ہے۔ ہمارے جنگ کرنے کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن کو مانیں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں۔ خدا کیلئے ان کی فریب کاریوں میں نہ آؤ۔ عزم و ہمت کے ولولوں کے ساتھ آگے بڑھو اور دم توڑتے ہوئے دشمن کو ختم کر کے دم لو۔
مگر باطل کا پر فریب حربہ چل چکا تھا۔ لوگ طغیان و سرکشی پر اتر آئے۔ سعد ابن فدکی تمیمی اور زید ابنِ حصین طائی دونوں بیس ہزار آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ اے علیؑ! اگر آپؑ نے قرآن کی آواز پر لبیک نہ کہی تو پھر ہم آپ کا وہی حشر کریں گے جو عثمان کا کیا تھا۔ آپؑ فوراً جنگ ختم کرائیں اور قرآن کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ حضرتؑ نے بہت سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، لیکن شیطان قرآن کا جامہ پہنے ہوئے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ایک نہ چلنے دی اور ان لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو مجبور کر دیا کہ وہ کسی کو بھیج کر مالک اشتر کو میدان جنگ سے واپس لوٹائیں۔
حضرتؑ نے لاچار ہو کر یزید ابن ہانی کو مالک کے بلانے کیلئے بھیجا۔ مالک نے جب یہ حکم سنا تو وہ چکرا سے گئے اور کہا کہ ان سے کہیے کہ یہ موقعہ مورچہ سے الگ ہونے کا نہیں ہے، کچھ دیر توقف فرمائیں تو میں نوید فتح لے کر حاضرِ خدمت ہوتا ہوں۔ یزید ابن ہانی نے پلٹ کر یہ پیغام دیا تو لوگوں نے غل مچایا کہ آپؑ نے چپکے سے انہیں جنگ پر جمے رہنے کیلئے کہلوا بھیجا ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ مجھے اس کا موقعہ کہاں ملا ہے کہ میں علیحدگی میں اسے کوئی پیغام دیتا۔ جو کچھ کہا ہے تمہارے سامنے کہا ہے۔ لوگوں نے کہا آپؑ اسے دوبارہ بھیجیں اور اگر مالک نے آنے میں تاخیر کی تو پھر آپؑ اپنی جان سے ہاتھ دھو لیں۔ حضرتؑ نے ہانی کو پھر روانہ کیا اور کہلوا بھیجا کہ فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ہے، جس حالت میں ہو فوراً آؤ۔ چنانچہ ہانی نے مالک سے جا کر کہا کہ: تمہیں فتح عزیز ہے یا امیر المومنین علیہ السلام کی جان؟ اگر ان کی جان عزیز ہے تو جنگ سے ہاتھ اٹھاؤ اور ان کے پاس پہنچو۔ مالک فتح کی کامرانیوں کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حسرت و اندوہ لئے ہوئے حضرتؑ کی خدمت میں پہنچے۔ وہاں ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ آپؑ نے لوگوں کو بہت بُرا بھلا کہا، مگر حالات اس طرح پلٹا کھا چکے تھے کہ انہیں سدھارا نہ جا سکتا تھا۔
اب یہ طے پایا کہ دونوں فریق میں سے ایک ایک حکم منتخب کر لیا جائے تا کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق خلافت کا فیصلہ کریں۔ معاویہ کی طرف سے عمرو ابن عاص قرار پایا اور حضرتؑ کی طرف سے لوگوں نے ابو موسیٰ اشعری کا نام پیش کیا۔ حضرتؑ نے اس غلط انتخاب کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ: اگر تم نے تحکیم کے بارے میں میرا حکم نہیں مانا تو اتنا تو کرو کہ اس (ابو موسیٰ) کو حَکَم نہ بناؤ۔ یہ بھروسے کا آدمی نہیں ہے۔ یہ عبداللہ ابن عباس ہیں، یہ مالک اشتر ہیں، ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور اسی کے نام پر اَڑ گئے۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ: اچھا جو چاہو کرو اور وہ دن دور نہیں ہے کہ اپنی بے راہ رویوں پر اپنے ہاتھ کاٹو گے۔
حکمین کی نامزدگی کے بعد جب عہد نامہ لکھا جانے لگا تو ’’علی ابنِ ابی طالبؑ‘‘ کے نام کے ساتھ ’’امیر المومنین‘‘ لکھا گیا۔ عمرو ابنِ عاص نے کہا کہ اس لفظ کو مٹا دیا جائے۔ اگر ہم انہیں امیر المومنین سمجھتے ہوتے تو یہ جنگ ہی کیوں لڑی جاتی۔ حضرتؑ نے پہلے تو اسے مٹانے سے انکار کیا اور جب وہ کسی طرح نہ مانے تو اسے مٹا دیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ حدیبیہ کے واقعہ سے بالکل ملتا جلتا ہے کہ جب کفار اس پر اَڑ گئے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے نام کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ کی لفظ مٹا دی جائے اور پیغمبر ﷺ نے اسے مٹا دیا۔ اس پر عمرو ابن عاص نے بگڑ کر کہا کہ: کیا آپؑ ہمیں کفار کی طرح سمجھتے ہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ: تمہیں کس دن ایمان والوں سے لگاؤ رہا ہے اور کب ان کے ہمنوا رہے ہو؟
بہر صورت اس قرارداد کے بعد لوگ منتشر ہو گئے اور ان دونوں حکموں نے آپس میں صلاح و مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے لوگوں کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں۔ جب اس کے اعلان کا وقت آیا تو عراق اور شام کے درمیان مقام دومة الجندل میں اجتماع ہوا اور یہ دونوں حَکَم بھی مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ سنانے کیلئے پہنچ گئے۔ عمرو ابن عاص نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ پر سبقت کرنا سوءِ اَدب سمجھتا ہوں، آپ سن وسال کے لحاظ سے بزرگ ہیں، لہٰذا پہلے آپ اعلان فرمائیں۔ چنانچہ ابوُ موسیٰ تاننے میں آ گئے اور جھوُمتے ہوئے مجمع کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اے مسلمانو! ہم نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ علی ابن ابی طالبؑ اور معاویہ کو معزول کر دیا جائے اور انتخاب خلافت کا حق مسلمانوں کو دے دیا جائے، وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے۔ اب عمرو ابنِ عاص کی باری آئی اور اس نے کہا کہ اے مسلمانو! تم نے سن لیا ہے کہ ابو موسیٰ نے علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کو معزول کر دیا ہے، میں بھی اس سے متفق ہوں، رہا معاویہ تو اس کے معزول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا میں اسے اس جگہ پر نصب کرتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیا۔ ابو موسیٰ بہت چیخے چلائے کہ یہ دھوکا ہے، فریب ہے اور عمرو ابن عاص سے کہا کہ تم نے چالبازی سے کام لیا ہے اور تمہاری مثال اس کتے کی سی ہے کہ جس پر کچھ لادو، جب ہانپے گا، چھوڑ دو جب ہانپے گا۔ عمرو ابن عاص نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ غرض عمرو ابن عاص کی چالاکی کام کر گئی اور معاویہ کے اکھڑے ہوئے قدم پھر سے جم گئے۔
یہ تھا اس تحکیم کا مختصر سا خاکہ جس کی اساس قرآن و سنت کو قرار دیا گیا تھا۔ مگر کیا یہ قرآن و سنت کا فیصلہ تھا؟ یا ان فریب کاریوں کا نتیجہ کہ جو دنیا والے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے کام میں لایا کرتے ہیں؟ کاش کہ تاریخ کے ان اوراق کو مستقبل کیلئے مشعل راہ بنایا جائے اور قرآن و سنت کو آڑ بنا کر حصول اقتدار کا ذریعہ اور دنیا طلبی کا وسیلہ نہ بننے دیا جائے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کو جب تحکیم کے اس افسوسناک نتیجہ کی اطلاع ملی تو آپؑ منبر پر تشریف لائے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس کے لفظ لفظ سے آپؑ کا اندوہ و قلق جھلک رہا ہے اور ساتھ ہی آپؑ کی صحت فکر و نظر، اصابتِ رائے اور دُور رس بصیرت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کسی نصیحت کرنے والے کی بات ٹھکرا دی جائے اور بعد میں پچھتایا جائے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حیرہ کے فرمانروا جذیمہ ابرش نے جزیرہ کے تاجدار عمرو ابن طرب کو قتل کر دیا جس کے بعد اس کی بیٹی زباء جزیرہ کی حکمران قرار پائی۔ اُس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے باپ کے انتقام لینے کی یہ تدبیر کی کہ جذیمہ کو پیغام بھیجا کہ میں تنہا امور سلطنت کی انجام دہی نہیں کر سکتی، اگر تم مجھے اپنے حبالہ عقد میں لے کر میری سرپرستی کرو تو میں شکر گزار رہوں گی۔ جذیمہ اس پیشکش پر پھولا نہ سمایا اور ہزار سوار ہمراہ لے کر جزیرہ جانے کیلئے آمادہ ہو گیا۔ اس کے غلام قصیر نے بہت سمجھایا بجھایا کہ یہ دھوکا اور فریب ہے۔ اس خطرے میں اپنے آپ کو نہ ڈالئے، مگر اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ زباء نے اپنی رفاقت کیلئے اپنے باپ کے قاتل ہی کو کیوں منتخب کیا ہے۔ بہر صورت یہ چل کھڑا ہوا اور جب حدودِ جزیرہ میں پہنچا تو گوزباء کا لشکر استقبال کیلئے موجود تھا مگر نہ اس نے کوئی خاص آؤ بھگت کی، نہ پر تپاک خیر مقدم کیا۔یہ رنگ دیکھ کر قصیر کا پھر ماتھا ٹھنکا اور اس نے جذیمہ سے پلٹ جانے کو کہا۔ مگر منزل کے نزدیک پہنچ کر آتشِِ شوق اور بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے پرواہ نہ کی اور قدم بڑھا کر شہر کے اندر داخل ہو گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قتل کر ڈالا گیا۔ قصیر نے یہ دیکھا تو کہا: «لَوْ کَانَ یُطَاعُ لِقَصِیْرٍ اَمْرٌ» (کاش قصیر کی بات مان لی ہوتی) اور اس وقت سے یہ مثل چل نکلی۔
شاعر بنی ہوازن سے مراد ’’دُرید ابنِ صمہ‘‘ ہے اور یہ شعر اس نے اپنے بھائی عبد اللہ ابن صمہ کے مرنے کے بعد کہا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ عبد اللہ اپنے بھائی کے ہمراہ بنی بکر ابن ہوازن پر حملہ آور ہوا اور ان کے بہت سے اونٹ ہنکا لایا۔ واپسی پر جب مقام منعرج اللوی میں سستانے کا ارادہ کیا تو دُرید نے کہا کہ: یہاں ٹھہرنا مصلحت کے خلاف ہے، ایسا نہ ہو کہ پیچھے سے دشمن ٹوٹ پڑے، مگر عبد اللہ نہ مانا اور وہاں ٹھہر گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح ہوتے ہی دشمنوں نے حملہ کیا اور عبد اللہ کو وہیں پر قتل کر دیا۔ دُرید کے بھی زخم آئے، لیکن وہ بچ نکلا اور اس کے بعد چند اشعار کہے ان میں سے ایک شعر یہ ہے جس میں اس کی رائے کے ٹھکرا دیئے جانے سے جو تباہی آئی تھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
https://balagha.org
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:29
عون نقوی

فِیْ اسْتِنْفَارِ النَّاسِ اِلٰۤی اَهْلِ الشَّامِ

لوگوں کو اہلِ شام سے آمادہ جنگ کرنے کیلئے فرمایا

اُفٍّ لَّکُمْ! لَقَدْ سَئِمْتُ عِتَابَکُمْ! ﴿اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ ﴾ عِوَضًا؟ وَ بِالذُّلِّ مِنَ الْعِزِّ خَلَفًا؟ اِذَا دَعَوْتُکُمْ اِلٰی جِهَادِ عَدُوِّکُمْ دَارَتْ اَعْیُنُکُمْ، کَاَنَّکُمْ مِنَ الْمَوْتِ فِیْ غَمْرَةٍ، وَ مِنَ الذُّهُوْلِ فِیْ سَکْرَةٍ، یُرْتَجُ عَلَیْکُمْ حَوَارِیْ فَتَعْمَهُوْنَ، فَکَاَنَّ قُلُوْبَکُمْ مَاْلُوْسَةٌ، فَاَنْتُمْ لَا تَعْقِلُوْنَ. مَاۤ اَنْتُمْ لِیْ بِثِقَةٍ سَجِیْسَ اللَّیَالِیْ، وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِرُکْنٍ یُّمَالُ بِکُمْ، وَ لَا زَوَافِرِ عِزٍّ یُّفْتَقَرُ اِلَیْکُمْ.

حیف ہے تم پر! میں تو تمہیں ملامت کرتے کرتے بھی اکتا گیا ہوں۔ ’’کیا تمہیں آخرت کے بدلے دنیوی زندگی اور عزت کے بدلے ذلّت ہی گوارا ہے‘‘ ؟ جب تمہیں دشمنوں سے لڑنے کیلئے بلاتا ہوں تو تمہاری آنکھیں اس طرح گھومنے لگ جاتی ہیں کہ گویا تم موت کے گرداب میں ہو اور جان کنی کی غفلت اور مدہوشی تم پر طاری ہے۔ میری باتیں جیسے تمہاری سمجھ ہی میں نہیں آتیں تو تم ششدر رہ جاتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے جیسے تمہارے دل و دماغ پر دیوانگی کا اثر ہے کہ تم کچھ عقل سے کام نہیں لے سکتے۔ تم ہمیشہ کیلئے مجھ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہو۔ نہ تم کوئی قوی سہارا ہو کہ تم پر بھروسا کر کے دشمنوں کی طرف رخ کیا جائے اور نہ تم عزت و کامرانی کے وسیلے ہو کہ تمہاری ضرورت محسوس ہو۔

مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا کَاِبِلٍ ضَلَّ رُعَاتُهَا، فَکُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ انْتَشَرَتْ مِن اٰخَرَ، لَبِئْسَ ـ لَعَمْرُ اللهِ! سَعْرُ نَارِ الْحَرْبِ اَنْتُمْ، تُکَادُوْنَ وَ لَا تَکِیْدُوْنَ، وَ تُنْتَقَصُ اَطْرَافُکُمْ فَلَا تَمْتَعِضُوْنَ، لَا یُنَامُ عَنْکُمْ وَ اَنْتُمْ فِیْ غَفْلَةٍ سَاهُوْنَ، غُلِبَ وَاللهِ الْمُتَخَاذِلُوْنَ، وَایْمُ اللهِ! اِنِّیْ لَاَظُنُّ بِکُمْ اَنْ لَّوْ حَمِسَ الْوَغٰی، وَ اسْتَحَرَّ الْمَوْتُ، قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ انْفِرَاجَ الرَّاْسِ.

تمہاری مثال تو ان اونٹوں کی سی ہے جن کے چرواہے گُم ہو گئے ہوں، اگر انہیں ایک طرف سے سمیٹا جائے تو دوسری طرف سے تتر بتر ہو جائیں گے ۔ خدا کی قسم! تم جنگ کے شعلے بھڑکانے کیلئے بہت برے ثابت ہوئے ہو۔ تمہارے خلاف سب تدبیریں ہوا کرتی ہیں اور تم دشمنوں کے خلاف کوئی تدبیر نہیں کرتے۔ تمہارے (شہروں کے) حدود (دن بہ دن) کم ہوتے جا رہے ہیں مگر تمہیں غصہ نہیں آتا۔ وہ تمہاری طرف سے کبھی غافل نہیں ہوتے اور تم ہو کہ غفلت میں سب کچھ بھولے ہوئے ہو۔ خدا کی قسم! ایک دوسرے پر ٹالنے والے ہارا ہی کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں تمہارے متعلق یہ گمان رکھتا ہوں کہ اگر جنگ زور پکڑ لے اور موت کی گرم بازاری ہو تو تم ابن ابی طالب سے اس طرح کٹ جاؤ گے جس طرح بدن سے سر (کہ دوبارہ پلٹنا ممکن ہی نہ ہو)۔

وَاللهِ! اِنَّ امْرَاً یُّمَکِّنُ عَدُوَّهٗ مِنْ نَّفْسِهٖ یَعْرُقُ لَحْمَهٗ، وَ یَهْشِمُ عَظْمَهٗ، وَ یَفْرِیْ جِلْدَهٗ، لَعَظِیْمٌ عَجْزُهٗ، ضَعِیْفٌ مَّا ضُمَّتْ عَلَیْهِ جَوَانِحُ صَدْرِهٖ. اَنْتَ فَکُنْ ذَاکَ اِنْ شِئْتَ، فَاَمَّا اَنَا فَوَاللهِ! دُوْنَ اَنْ اُعْطِیَ ذٰلِکَ ضَرْبٌۢ بِالْمَشْرَفِیَّةِ تَطِیْرُ مِنْهُ فَرَاشُ الْهَامِ، وَ تَطِیْحُ السَّوَاعِدُ وَ الْاَقْدَامُ، وَ یَفْعَلُ اللهُ بَعْدَ ذٰلِکَ مَا یَشَآءُ.

(خدا کی قسم!) جو شخص کہ اپنے دشمن کو اس طرح اپنے پر قابو دے دے کہ وہ اس کی ہڈیوں سے گوشت تک اتار ڈالے اور ہڈیوں کو توڑ دے اور کھال کو پارہ پارہ کر دے، تو اس کا عجز انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور سینے کی پسلیوں میں گھرا ہوا (دل) کمزور و ناتواں ہے۔ اگر تم ایسا ہونا چاہتے ہو تو ہوا کرو، لیکن میں تو ایسا اس وقت تک نہ ہونے دوں گا جب تک مقام مشارف کی (تیز دھار) تلواریں چلا نہ لوں کہ جس سے سر کی ہڈیوں کے پرخچے اڑ جائیں اور بازو اور قدم کٹ کٹ کر گرنے لگیں۔ اس کے بعد جو اللہ چاہے وہ کرے۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ لِیْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، وَ لَکُمْ عَلَیَّ حَقٌّ: فَاَمَّا حَقُّکُمْ عَلَیَّ: فَالنَّصِیْحَةُ لَکُمْ، وَ تَوْفِیْرُ فَیْئِکُمْ عَلَیْکُمْ، وَ تَعْلِیْمُکُمْ کَیْلَا تَجْهَلُوْا، وَ تَاْدِیْبُکُمْ کَیْمَا تَعْلَمُوْا. وَ اَمَّا حَقِّیْ عَلَیْکُمْ فَالْوَفَآءُ بِالْبَیْعَةِ، وَ النَّصِیْحَةُ فِی الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِیْبِ، وَ الْاِجَابَةُ حِیْنَ اَدْعُوْکُمْ، وَ الطَّاعَةُ حِیْنَ اٰمُرُکُمْ.

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے۔ (تمہارا مجھ پر حق یہ ہے) کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو، اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ بیعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرو اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:22
عون نقوی

عِنْدَ خُرُوْجِہٖ لِقِتَالِ اَھْلِ الْبَصْرَۃِ

امیر المومنین علیہ السلام جب اہل بصرہ سے جنگ کیلئے نکلے

قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ ابْنُ الْعَبَّاسِ: دَخَلْتُ عَلٰۤى اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ بِذِیْ قَارٍ وَّ هُوَ یَخْصِفُ نَعْلَهٗ، فَقَالَ لِیْ: مَا قِیْمَةُ هٰذِهِ النَّعْلِ؟ فَقُلْتُ: لَا قِیْمَةَ لَهَا! فَقَالَؑ:

تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ: میں مقامِ ذی قار میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؑ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ: اے ابنِ عباس! اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی؟ میں نے کہا کہ: اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی، تو آپؑ نے فرمایا کہ:

وَ اللهِ! لَهِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اِمْرَتِکُمْ، اِلَّاۤ اَنْ اُقِیْمَ حَقًّا، اَوْ اَدْفَعَ بَاطِلًا.

اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔

ثُمَّ خَرَجَ ؑ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ ؑ:

پھر آپؑ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں یہ خطبہ دیا:

اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ یَقْرَاُ کِتَابًا، وَ لَا یَدَّعِیْ نُبُوَّةً، فَسَاقَ النَّاسَ حَتّٰی بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، وَ بَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ، فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَ اطْمَاَنَّتْ صَفَاتُهُمْ.

اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپؐ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے۔

اَمَا وَاللهِ! اِنْ کُنْتُ لَفِیْ سَاقَتِهَا حَتّٰی تَوَلَّتْ بِحَذَافِیْرِهَا، مَا ضَعُفْتُ وَ لَا جَبُنْتُ، وَ اِنَّ مَسِیْرِیْ هٰذَا لِمِثْلِهَا، فَلَاَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ حَتّٰی یَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْۢبِهٖ.

خدا کی قسم! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورتِ حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہو گیا۔ میں نے (اس کام میں) نہ کمزوری دکھائی نہ بزدلی سے کام لیا اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کیلئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں۔

مَالِیْ وَ لِقُرَیْشٍ! وَاللهِ! لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ کَافِرِیْنَ، وَ لَاُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُوْنِیْنَ، وَ اِنِّیْ لَصَاحِبُهُمْ بِالْاَمْسِ، کَمَاۤ اَنَا صَاحِبُهُمُ الْیَوْمَ.

مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے؟ خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ورغلانے میں آ چکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مدّ مقابل رہ چکا ہوں ویسا ہی آج ثابت ہوں گا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:19
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّا قَدْ اَصْبَحْنَا فِیْ دَهْرٍ عَنُوْدٍ، وَ زَمَنٍ کَنُوْدٍ، یُعَدُّ فِیْهِ الْمُحْسِنُ مُسِیْٓـئًا، وَ یَزْدَادُ الظَّالِمُ فِیْهِ عُتُوًّا، لَا نَنْتَفِـعُ بِمَا عَلِمْنَا، وَ لَا نَسْئَلُ عَمَّا جَهِلْنَا، وَ لَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتّٰى تَحُلَّ بِنَا. فَالنَّاسُ عَلٰۤى اَرْبَعَةِ اَصْنَافٍ:

اے لوگو! ہم ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گزار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطا کار سمجھا جاتا ہے اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ (اس زمانے کے) لوگ چار طرح کے ہیں:

مِنْهُمْ مَنْ لَّا یَمْنَعُهُ الْفَسَادَ اِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِهٖ، وَ کَلَالَةُ حَدِّهٖ وَ نَضِیْضُ وَفْرِهٖ،

کچھ وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف ان کے نفس کا بے وقعت ہونا، ان کی دھار کا کند ہونا اور ان کے پاس مال کا کم ہونا ہے۔

وَ مِنْهُمُ الْمُصْلِتُ لِسَیْفِهٖ، وَ الْمُعْلِنُ بِشَرِّهٖ، وَ الْمُجْلِبُ بِخَیْلِهٖ وَ رَجْلِهٖ، قَدْ اَشْرَطَ نَفْسَهٗ وَ اَوْبَقَ دِیْنَهٗ لِحُطَامٍ یَنْتَهِزُهٗ اَوْ مِقْنَبٍ یَّقُوْدُهٗ، اَوْ مِنْۢبَرٍیَفْرَعُهٗ وَ لَبِئْسَ الْمَتْجَرُ اَنْ تَرَى الدُّنْیَا لِنَفْسِکَ ثَمَنًا، وَ مِمَّا لَکَ عِنْدَ اللهِ عِوَضًا!

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں۔ صرف کچھ مال بٹورنے، یا کسی دستہ کی قیادت کرنے، یا منبر پر بلند ہونے کیلئے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو۔

وَ مِنْهُمْ مَنْ یَّطلُبُ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الْاٰخِرَةِ، وَ لَا یَطْلُبُ الْاٰخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْیَا، قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِهٖ، وَ قَارَبَ مِنْ خَطْوِهٖ، وَ شَمَّرَ مِنْ ثَوْبِهٖ، وَ زَخْرَفَ مِنْ نَّفْسِهٖ لِلْاَمَانَةِ، وَ اتَّخَذَ سِتْرَ اللهِ ذَرِیْعَةً اِلَى الْمَعْصِیَةِ.

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں۔ یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں۔ یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں۔

وَمِنْهُمْ مَنْ اَقْعَدَهٗ عَنْ طَلَبِ الْمُلْکِ ضُؤٗلَةُ نَفْسِهٖ وَ انْقِطَاعُ سَبَبِهٖ، فَقَصَرَتْهُ الْحَالُ عَلٰى حَالِهٖ، فَتَحَلّٰى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ، وَ تَزَیَّنَ بِلِبَاسِ اَهْلِ الزَّهَادَةِ، وَ لَیْسَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ مَرَاحٍ وَّ لَا مَغْدًى.

اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی ملک گیری کیلئے اٹھنے نہیں دیتی۔ ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ و عاجز کر دیا ہے۔ اس لئے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے کو سجا لیا ہے، حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا۔

وَ بَقِیَ رِجَالٌ غَضَّ اَبْصَارَهُمْ ذِکْرُ الْمَرْجِـعِ، وَ اَرَاقَ دُمُوْعَهُمْ خَوْفُ الْـمَحْشَرِ، فَهُمْ بَیْنَ شَرِیْدٍ نَّادٍّ، وَ خَآئِفٍ مَّقْمُوْعٍ، وَ سَاکِتٍ مَّکْعُوْمٍ، وَ دَاعٍ مُّخْلِصٍ، وَ ثَکْلَانَ مُوْجَعٍ، قَدْ اَخْمَلَتْهُمُ التَّقِیَّةُ وَ شَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ، فَهُمْ فِیْ بَحْرٍ اُجَاجٍ، اَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ، وَ قُلُوْبُهُمْ قَرِحَةٌ، وَ قَدْ وَعَظُوْا حَتّٰى مَلُّوْا وَ قُهِرُوْا حَتّٰى ذَلُّوْا، وَ قُتِلُوْا حَتّٰى قَلُّوْا.

اِسکے بعد تھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکی ہوئی ہیں اور ان سے آنسو رواں رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے ہیں اور کچھ خوف و ہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہ گویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں، کچھ خلوص سے دُعائیں مانگ رہے ہیں، کچھ غم زدہ و درد رسیدہ ہیں جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اور خستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ ایک شور دریا میں ہیں (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر وہ پیاسے ہیں)۔ ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا بجھایا کہ وہ اکتا گئے اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں (نمایاں) کمی ہو گئی۔

فَلْتَکُنِ الدُّنْیَاۤ فِیْۤ اَعْیُنِکُمْ اَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وَ قُرَاضَةِ الْجَلَمِ وَ اتَّعِظُوْا بِمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ قَبْلَ اَنْ یَّتَّعِظَ بِکُمْ مَنْۢ بَعْدَکُمْ، وَ ارْفُضُوْهَا ذَمِیْمَةً، فَاِنَّهَا قَد رَفَضَتْ مَنْ کَانَ اَشْغَفَ بِهَا مِنْکُمْ.

اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو۔ اس کے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی بُرائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو۔ اس لئے کہ اس نے آخر میں ایسوں سے قطع تعلق کر لیا جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شیدا تھے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 23 ، 15:16
عون نقوی