نہج البلاغہ خطبہ ۵۱
لَمَّا غَلَبَ اَصْحَابُ مُعَاوِیَةَ اَصْحَابَهٗ ؑ عَلٰى شَرِیْـعَةِ الْـفُرَاتِ بِصِفِّیْنَ وَ مَنْعُوْهُمْ مِنَ الْمَآءِ:
جب صفین میں معاویہ کے ساتھیوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب پر غلبہ پا کر فرات کے گھاٹ پر قبضہ جما لیا اور پانی لینے سے مانع ہوئے تو آپؑ نے فرمایا:
قَدِ اسْتَطْعَمُوْکُمُ الْقِتَالَ، فَاَقِرُّوْا عَلٰی مَذَلَّةٍ، وَ تَاْخِیْرِ مَحَلَّةٍ، اَوْ رَوُّوا السُّیُوْفَ مِنَ الدِّمَآءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ، فَالْمَوْتُ فِیْ حَیَاتِکُمْ مَقْهُوْرِیْنَ، وَ الْحَیٰوةُ فِیْ مَوْتِکُمْ قَاهِرِیْنَ. اَلَا وَ اِنَّ مُعَاوِیَةَ قَادَ لُمَةً مِّنَ الْغُوَاةِ، وَ عَمَسَ عَلَیْهِمُ الْخَبَرَ، حَتّٰی جَعَلُوْا نُحُوْرَهُمْ اَغْرَاضَ الْمَنِیَّةِ.
وہ تم سے جنگ کے لقمے طلب کرتے ہیں۔ تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی و حقارت پر سرِ تسلیم خم کر دو، یا تلواروں کی پیاس خون سے بجھا کر اپنی پیاس پانی سے بجھاؤ۔ تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آ کر مرنا بھی جینے کے برابر ہے۔ معاویہ گم کردہ راہ سر پھروں کا ایک چھوٹا سا جتھا لئے پھرتا ہے اور واقعات سے انہیں اندھیرے میں رکھ چھوڑا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سینوں کو موت (کے تیروں) کا ہدف بنا لیا ہے۔
https://balagha.org