بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

یہ سنہ 2011 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے  جب  مغربی ایشیا میں   بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل  پر واقع  ایک ملک، شام کے کچھ شہروں میں جنگ کے شعلے آہستہ آہستہ بھڑکنے لگے۔

ان دنوں ایک دہشت گرد گروہ کو یہاں  منڈلانے کا موقع ہاتھ آگیا اور اس نے بے گناہ لوگوں پر وحشیانہ حملے کرنا شروع کر دئے۔ داعش، ’’ عراق اور شام کی اسلامی حکومت کا مدعی  گروہ، ایک ملعون شیطانی شجرہ ‘‘ہے جس نے اسلامی دنیا میں آگ لگانے کی غرض سے، شام اور عراق کو شدید بحرانوں میں ڈال دیا وہ  ان پر حاوی ہونے کے بعد خطے میں دوسرے مذموم مقاصد بھی  حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔  لیکن خلافت کا یہ خواب بہت جلد  ادھورے خواب میں تبدیل ہو گیا۔

’’حقیر کو اس میدان میں حضرت عالی کی طرف سے  ایک سپاہی کے طور پر یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ  داعش کے آخری گڑھ ’’بوکمال ‘‘ کی آزادی کی کارروائی کی تکمیل  کرکے ،اس امریکی - صیہونی گروہ کا جھنڈا  گراکر شامی باشندوں کا پرچم بلند کرکے اس ملعون شیطانی شجرے  کے تسلط کے خاتمے کا اعلان کر دوں۔‘‘

سات سال کے بعد، 21 نومبر 2017 کو، جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم انقلاب کو خطاب کرتے ہوئے ایک خط لکھا، جس میں رسمی طور پر داعش کی حکمرانی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ جنرل ہےجس کی سات سالہ جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں تھی یہاں تک کہ  دشمنوں نے بارہا ان کی تعریف کی تھی۔ دنیا کو اپنا وطن سمجھنے والا سرفروش، جس کے ذہن میں  عظیم اہداف تھے  اور  پوری دنیا  سے  ظلم کا خاتمہ کردینا چاہتا تھا۔۔

اس نے بچپن سختیوں میں گزارا، والد ایک مزدور تھے جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ لہذا زندگی کے ابتدائی برسوں سے ہی غربت اور فقر کا مزہ چکھ لیا تھا۔ وہ پانچ سال کی عمر میں  ہی چرواہے بن گئے، پوشاک میں سال میں دو جوڑے پرانے کپڑے اور دو جوڑے ربڑ کے جوتے تھے۔ اسی طرح وہ بھیڑ بکریاں چراتے رہے اور خود ان کے بقول کسی چیز  سے  نہیں ڈرتے تھے۔ اپنی ڈائری میں وہ ان دنوں کا حال یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں سردیوں کے موسم میں ان بھیڑیوں کے خوف سے بے پروا  جو بھیڑ بکریوں کی کمین میں چھپے بیٹھے رہا کرتے تھے ، پہاڑی بادام کے جنگلوں میں چلا جایا کرتا تھا۔‘‘ لیکن کبھی کبھی اسی آنے جانے کے درمیان پھٹے جوتوں سے پیروں کی انگیاں  باہر نظر آنے لگتی تھیں جو پتھر سے ٹکرانے کی وجہ سے خون لہولہان ہو جایا کرتی تھیں۔

پندرہ سال کی عمر میں اپنے والد کے قرض کی ادائگی کیلئے شہر پہنچے۔ پہلی بار اپنی آنکھوں سے موٹرگاڑیاں دیکھیں اور تمام شہری کششوں اور خوبصورتیوں کے درمیان،  وہ خود کو اجنبی اور تنہا محسوس کرتے تھے۔ لیکن ہار نہیں ماننا تھی۔ بہر صورت اپنے لئے کوئی نوکری تلاش کرنی تھی۔ چھوٹے قد اور دبلے پتلے جسم  کی بنا پر مالکان کام دینے سے منع کر دیا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں: "میں نے ہر دوکان،  کیفے، رستورینٹ  اور ورکشاپ پر دستک دی اور پوچھا، ’’کیا یہاں کوئی کام مل سکتا ہے؟‘‘ سب میرے چھوٹے قد اور نحیف جسم کی طرف نگاہ کرتے اور منع کر دیتے تھے۔‘‘

لیکن اُس نوجوان کے لئے کوئی راستہ بند نہیں تھا۔ اصرار اور التماس نے اپنا کام کر دکھایا۔ بالآخر  ایک زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے  راجگیر کی  نگاہ توجہ ہو گئی اور اس نے  اینٹیں ڈھونے کے لئے رکھ لیا۔ وہ ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام تھا اور اگرچہ کام کرتے ہوئے اکثر  اُن کے ہاتھ زخمی ہو جایا کرتے تھے لیکن ہفتہ  کے آخر میں جب اجرت ملتی تو بدن کی ساری تھکاوٹ دور ہو جایا کرتی تھی۔ کہتے ہیں: "میں نے ایک چھوٹا 'مینو بسکٹ کا پیکٹ' دو ریال میں خریدا اور پانچ ریال دیکر چار عدد کیلے  لئے۔ بہت مزہ آیا۔ ساری تھکن میرے جسم کی نکل گئی۔ پہلی بار میں نے کیلا کھایا تھا۔‘‘ چھ مہینوں کے بعد، آخرکار اُس نوجوان نے اپنی ضرورت کی رقم اپنے گھر والوں کو گاؤں بھیج دی اور پھر دوسری نوکریاں بھی کیں۔

سب سے اہم سرگرمیوں میں سے جو انھوں نے اپنی نوجوانی  سے پوری  سنجیدگی سے جاری رکھی  مارشل آرٹ اور اکھاڑے کی کسرت کی مشق تھی، اس طرح کے کھیل  کود نے میرے مذہبی رجحان پر بہت گہرا اثر ڈالا اور ایک سب سے اہم عنصر جس نے مجھے جوان ہونے کے باوجود اخلاقی بدعنوانیوں سے دور رکھا تھا۔ یہی وہ  کھیل تھے، خاص طور پر قدیمی کھیل جو اخلاقی اور مذہبی بنیا دیں رکھتے تھے‘‘۔ ان تمام کوششوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے وہ 21 سال کی عمر میں ایک پیشہ ور کھلاڑی اور بہت تندرست بن گئے۔

جوانی  کا دور  ایران میں شہنشاہی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر جاری جدوجہد کے ساتھ  گزرا، اور ان ہی  دنوں اُنھوں نے میں جو دوست بنائے  ان کی بدولت امام خمینی ؒ سے آشنا ہوئے اور  اس آشنائی نے ان کے ذہن کو امام خمینیؒ کی شخصیت سے  زیادہ  متاثر  اور شیدا ہونے کا موقع فراہم کیا اور اسی حوصلے ک ساتھ میدان انقلاب میں انھوں نے بہادری سے حصہ لیا۔  اگرچہ بعض اوقات شاہی انٹیلیجنس کے ایجنٹوں کے چنگل میں بھی پھنسے اور پٹائی بھی کھائی، لیکن جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : "میں درد کی شدت  سے تین دن تک ہل بھی نہیں سکتا تھا؛ لیکن  خود میں  نئی توانائی محسوس کرتا تھا۔ پٹائی   اور تشدد کا خوف ختم ہو گیا اور سوچتا تھا کہ جو کچھ بھی  ہونا ہے ہونے دو!‘‘

فروری 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، وہ کرمان  میں سپاہ پاسداران انقلاب (انقلابی  گارڈز) کے اعزازی رکن بن گئے اور  دو سال بعد ایران کی سرزمین پر عراق  کی  مسلط کردہ  جنگ کے آغاز  میں ، انھوں نے  فوجیوں کی جنگی تربیت شروع کر دی۔ اس کے بعد وہ کرمان ڈویژن کے کمانڈر مقرر ہوئے اور کئی  آپریشنوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک کمانڈر تھے، لیکن ماتحت فوجیوں کے ساتھ ان کے تعلقات افسر اور ماتحت جیسے نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان سے ایک دوست کی طرح  محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے ایک جنگ کے ساتھی نے ان کی یوں توصیف بیان کی ہے: "حاجی قاسم ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جو پہلے خود  آگے بڑھ جاتے تاکہ ان کے زیر کمان فوجیوں کو یہ محسوس ہو کہ وہ ان کے لئے ڈھال اور حفاظتی سپر ہیں۔ یہ چیز افواج میں خود اعتمادی، ہمت اور بہادری پیدا کر دیتی تھی ، وہ کسی بھی بند کو توڑ سکتے ہیں۔ ’’جب کمانڈر وہی لباس پہنتا ہے جو  سب کے سب پہنتے ہیں، وہی کھانا کھاتا ہے جو سب کے سب کھاتے ہیں، تو وہ  ہر دلعزیز ہو جاتا ہے اور آیت  «اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ ‏رُحَماءُ بَینَهُم»  کی واضح مثال بن جاتا ہے کہ وہ  میدان جنگ میں  دشمن کے خلاف سخت  اور  اپنے ساتھیوں کے  نہایت ہی  ہمدرد و رفیق ہیں۔۔۔

انھوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک رکھا تھا۔  بے شمار مصروفیات نے انھیں اپنے خاندان کی ضروریات سے غافل کیا، نہ ہی ان سے محبت میں کمی کا سبب بن سکیں۔ ان کے بھائی ان کے بارے میں کہتے ہیں: "میرے بھائی اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور  اہل بیتؑ کے حقیقی عقیدتمندوں کی طرح ان کی پرورش کی  ہے، حالات حاضرہ  اور اس کے مسائل  کے سلسلے میں بہت حساس تھے، یہاں تک کہ  تعلیم کے دوران ابتدائی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی  کے اعلی درجات تک، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم سال میں دو بار بچوں کے اسکول خود جائیں اور اُن  کے تعلیمی حالات سے باخبر رہیں، اسی طرح ہمیشہ اپنے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش میں رہتے تھے کیونکہ وہ  خدا کی خوشنودی  اور رضا ، ان کی خوشنودی اور رضا میں ہی سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو بھی اپنے والدین کا احترام کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔"

عراق  کی جانب سے  مسلط کردہ  جنگ کے خاتمے اور لبنان سے صیہونی افواج کے انخلاء نے خطے کی  استقامت  میں نئی ​​جان ڈال دی تھی۔ لبنان میں سید حسن نصراللہ کی قیادت  اور عماد مغنیہ کی  سپہ سالاری میں حزب اللہ  کو استحکام  حاصل ہوگیا تھا اور طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا،  لیکن جولائی 2006 میں اسرائیل نے اچانک ہی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بڑے ہی وسیع پیمانے پر حملے  کا فیصلہ کیا کہ اس تحریک کو ختم کر دے۔ یہی وہ وقت تھا جب سخت محاصرے اور خطروں کے باوجود وہ لبنان پہنچ گئے اور میدان میں  اُتر کر  وہاں موجود کمانڈروں اور مجاہدوں کو ضروری معلومات  و مہمات پہنچائیں۔

سید حسن نصراللہ  ۳۳؍ روزہ جنگ کے سلسلے میں کہتے ہیں: ’’جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی حاج قاسم کی لبنان میں موجودگی، بہت ہی حیات آفریں  اور اہم تھی۔ وہ چاہتے تو لبنان نہ آتے تہران میں رہ کر ہی  جنگ کی حالات کو فالو کرتے رہت یا یہ کہ دمشق جاکر جنگ کے حالات کا ہم سے  زیادہ قریب سے جائزہ لے سکتے تھے، اُس زمانے میں  دمشق  کو صیہونی حکومت کی طرف سے کسی حملے اور جارحیت کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا،  لیکن حاج قاسم نے لبنان آنے پر اصرار کیا تھا‘‘۔

پانچ سال بھی جب شام میں داعش کا منحوس وجود سامنے آیا تو اُن کی عسکری فراست  اور ذہانت، جس کے تحت ایران کی قدس فورس کی کمانڈ انھیں تفویض کی  گئی تھی کام آئی اور انھوں نے، دہشت گردوں کو مزید  آگے بڑھنے سے روک دیا اور  جب وہ ایک کمانڈر کے چالیسویں کی مجلس میں  تین مہینے کے اندر  داعش کے ٹھکانوں کو  نابود کر دینے  کا وعدہ کر رہے تھے تو کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ 59 دن بعد ہی  وہ  اور ان کی زیرکمان فوجیں، بوکمال  آپریشن میں  دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے پر فتح حاصل کرلیں گے اور وہ ہمیشہ کے لئے عراق اور شام پر مسلط داعش کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے۔  وہ تسلط جو امریکہ جیسے ممالک کی مالی امداد اور سہولت کاری کے تحت حاصل ہوا تھا اور جس کو باقی رکھنے کے لئے امریکیوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود ، خدا کے لطف  اور استقامتی  قوتوں کی مزاحمت  کے تحت اس گروہ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

آخر کار،  3 جنوری 2020 جمعہ کی صبح کو  بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب، جب وہ عراق کی عوامی فوج کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس  اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایک مشاورتی مشن کی انجام دہی کے لئے عراق پہنچے ہوئے تھے، بر سر اقتدار امریکی صدر  ٹرمپ کے حکم پر، دہشت گردانہ حملے میں انھیں نشانہ بنایا گیا اور اسلام کا عظیم اور قابل فخر سپاہی  شہید ہو گیا۔ دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں کے خلاف میدان جنگ میں برسوں کی مخلصانہ اور دلیرانہ جدوجہد اور  خدا  کی راہ میں میں شہادت کے لئے برسہا برس کی تڑپ نے آخر کار اُنھیں اُس بلند مقام پر فائز کر دیا اور ان کا پاکیزہ خون شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہایا گیا۔  ایک ایسا شخص جو  ہر  وقت اور  ہر جگہ  اپنی ذمہ داری ادا کرنے  کی کوشش میں  لگا رہا،  خواہ میدان جنگ  کا اگلا محاذ  ہو یا قدرتی آفات کے دوران، سیلاب  سے متاثر افراد کی امداد کا مرحلہ ہو،  یا پہاڑوں اور صحراؤں میں بھیڑ بکریوں کو چرانے کا کام ہو۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 January 22 ، 19:39
عون نقوی

رہبر انقلاب اسلامی نے 1 جنوری 2022 کی صبح شہید الحاج قاسم سلیمانی کی برسی کے پروگراموں کا انعقاد کرنے والی کمیٹی کے اراکین اور شہید کے اہل خانہ سے ملاقات میں صدق و اخلاص کو مکتب سلیمانی کا خلاصہ، مظہر اور شناخت بتایا اور خطے کے جوانوں کی نظر میں شہید سلیمانی کے ایک آئیڈیل کی حیثیت اختیار کر جانے کا حوالہ ہوئے کہا: عزیز قاسم سلیمانی، ایران کی سب سے بڑی قومی اور مسلم امہ کی سب سے بڑی 'امّتی' شخصیت تھے اور ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

     

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصّلاۃ والسلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطاہرین سیّما بقیۃاللّہ فی الارضین.

رحمت و رضوان خدا ہو ہمارے عزیز شہید پر! اس محترم عزیز کی شہادت کا واقعہ ایک قومی واقعہ بلکہ ایک عالمی اسلامی واقعہ بن گیا، اس وقت ان کی دوسری برسی ہے۔ لوگ اس طرح کے کام کر رہے ہیں اور میں اس عوامی مسئلے کی طرف واپس لوٹوں گا۔ درحقیقت ہم عوام کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ ہماری نشست، گفتگو اور اسی طرح کی دوسری باتیں اصل میں عوام کی اس جدت طرازی کی پیروی ہے جو پورے ملک میں انجام پا رہی ہے۔

میں نے ایک جملہ عرض کیا تھا اور کہا تھا کہ 'مکتب سلیمانی'(2) شہید سلیمانی ایک مکتب بن گئے یا پہلے سے ہی ایک مکتب تھے اور بحمد اللہ میں نے دیکھا کہ اس مکتب کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ میں نے ان کتابوں کو نہیں دیکھا تھا۔ ہم جس چیز کو مکتب سلیمانی کہتے ہیں اگر اس کو اختصار سے ایک دو جملے میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ یہ مکتب صدق و اخلاص کا مکتب ہے۔ یہ دو الفاظ درحقیقت، مکتب سلیمانی کا مظہر اور اہم خصوصیات ہیں۔ 'صدق' وہی چیز ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: "مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ"(3)۔ میں اس سلسلے میں مختصر تشریح پیش کرتا ہوں۔ 'اخلاص' بھی یہی ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی متعدد آیات میں ہوا ہے، جیسے "قُل اِنّی اُمِرتُ اَن اَعبُدَ اللہَ مُخلِصًا لَہُ الدّین"(4) یہ دو قرآنی عناوین، شہید سلیمانی کے کام کے بنیادی عناصر تھے۔

یہ بابرکت عمل، کہ اس مرد کی پوری زندگی بھی بابرکت ہو گئی اور اس کی شہادت بھی - ہم ائمہ علیہم السلام کی زیارت میں عرض کرتے ہیں: "وَ قَبَضَکَ اِلَیہِ بِاختیارِہ وَ اَلزَمَ اَعداءَکَ الحُجَّۃ"(5) آپ کی جان کو خدا نے لیا، روح قبض کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس روح کا قبض ہونا اس بات کا باعث بنا کہ آپ کے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں پر حجت تمام ہو جائے؛ یہاں بھی ایسا ہی ہے؛ جان اللہ کے ہاتھ میں ہے، سبھی کو دنیا سے جانا ہے اور سبھی کسی نہ کسی طریقے سے دنیا سے جاتے ہیں؛ شہید بھی دنیا سے گئے - تاہم ان کی شہادت کی کیفیت نے دشمنوں اور سبھی دیکھنے والوں پر حجت تمام کر دی۔

خیر تو"صَدَقوا ما عاھَدُوا اللہَ عَلَیہ" کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہدف کے ساتھ، عہد الہی کے ساتھ اور اہداف کے ساتھ ہمارا رویہ سچا اور صداقت والا ہونا چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے؛ بہت سارے معاملوں میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری روش میں اسلام اور انقلاب کے اہداف کی پابندی میں ہماری صداقت میں لغزش ہوتی ہے۔ اس مرد نے حقیقی معنی میں صادقانہ طریقے سے کام کیا اور اپنی زندگی میں ہمیشہ اسی طرح عمل کرتے رہے، جہاں تک ہم نے ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور پہچانا ہے؛ چاہے وہ مقدس دفاع کے دوران ہو، چاہے مقدس دفاع کے بعد کا دور ہو قدس فورس کی قیادت سنبھالنے سے پہلے تک یا قدس فورس کی سربراہی کا دور ہو۔ اہداف کی راہ میں مجاہدت کی تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا، یہ "صادقانہ" کا معنی ہے۔

اسلام اور انقلاب کا وفادار رہنا؛ وہ اپنے پورے وجود سے اسلام اور انقلاب کے وفادار رہے، جو عہد انھوں نے خدا اور امام خمینی سے کیا تھا، اس کے وفادار رہے؛ ایرانی قوم اور امت اسلامی کے سلسلے میں ان کی جو ذمہ داری تھی، اس پر پوری درستگی سے عمل کیا اور اپنے پورے وجود سے اس کے وفادار رہے؛ ایرانی قوم کے سلسلے میں بھی جو ذمہ داری تھی اس کے بھی اور امت اسلامی کے سلسلے میں جو ذمہ داری تھی اس کے بھی وفادار رہے۔

کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ملت اور امت کو دو متضاد چیزوں کے طور پر پیش کریں، اس کام کی بنیاد، دشمن نے رکھی ہے اور وہ یہ کام کر رہا ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور ملک کے اندر بھی ہم کبھی کبھی دیکھتے ہیں کہ وہ غفلت میں اسی نہج پر سوچتے ہیں کہ کوئی شخص امت اسلامی کے لیے کام کرہا ہے تو لازمی طور پر وہ ایرانی قوم کے بارے میں نہیں سوچتا یا اس کے برخلاف۔ ہمارے عزیز شہید، شہید سلیمانی نے ثابت کر دکھایا کہ کوئی ملک کا سب سے قومی چہرہ بھی ہو سکتا اور ساتھ ہی ملک کا سب سے امّتی چہرہ بھی ہو سکتا ہے؛ وہ ایک ہی وقت میں سب سے بڑا قومی چہرہ بھی تھے اور سب سے بڑا امتی چہرہ بھی تھے۔

سب سے بڑا قومی چہرہ تھے؛ کیسے معلوم ہوا؟ ان کے جلوس جنازہ سے! انقلاب کے زمانے کے ان برسوں میں، جو بڑے بڑے اجتماعات کا زمانہ ہے، کروڑوں افراد کی شرکت سے شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ جیسا اجتماع کب ہوا ہے؟ یہ کون لوگ تھے؟ قوم، یہ قوم ہی تو ہے۔ قوم کی تصویر کشی تصورات میں نہیں کی جا سکتی، قوم ایک زندہ حقیقت ہے۔ کروڑوں لوگون نے شہادت کے بعد اس مرد کے جلوس جنازہ میں شرکت کی تو یہ سب سے بڑا قومی چہرہ ہے۔ سب سے بڑا امتی چہرہ بھی ہے، اس لیے کہ دو سال کے اس عرصے میں عالم اسلام میں ان کے نام اور ان کی یاد کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عالم اسلام میں لگاتار شہید سلیمانی کا نام اور شہید سلیمانی کی یاد دوہرائی جا رہی ہے، اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ اس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔ وہ حقیقت میں صدق کا مظہر تھے: صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔

جیسا کہ ہم نے قریب سے ان کے کاموں کو دیکھا ہے، وہ واقعی کوشش اور جدوجہد کا مظہر تھے؛ انتھک محنت، انتھک کام۔ کبھی وہ مثال کے طور کسی ملک میں جاتے اور واپس آ کر ہمارے لیے رپورٹ بھیجتے تھے، میں جب اس رپورٹ کو پڑھتا تھا تو حیرت میں پڑ جاتا تھا کہ اتنے زیادہ کام صرف کچھ ہی دن میں انجام پائے ہیں! میں نے ان رپورٹوں میں سے کچھ کے نسخے اپنے پاس رکھنے کے لیے، لے لیے ہیں؛ ان پر لکھ بھی دیا ہے کہ اسے میں اپنے پاس رکھوں گا تاکہ مستقبل میں اسے دیکھا جا سکے، یہ پتہ چل سکے کہ اس مرد نے کتنے کام کیے ہیں۔ اس وقت ان کی ایسی دو تین رپورٹوں کے کچھ نسخے میرے پاس ہیں۔ انتھک کام۔

شجاعت کے ساتھ؛ یعنی جو کام معمولی نہیں ہے اور اس میں شجاعت کی ضرورت ہے، بہادری کی ضرورت ہے اور جو عقلمندی پر منحصر ہے؛ شجاعت بھی اور عقلمندی بھی، دونوں ہی تحسین کی حد تک؛ تدبیر کے ساتھ۔ وہ دشمن کو بھی صحیح طریقے سے پہچانتے تھے اور دشمن کے وسائل کو بھی جانتے تھے؛ یعنی ایسا نہیں تھا کہ شہید سلیمانی کو دشمن کے ان وسائل کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا تھا جنھیں وہ استعمال کر سکتا تھا اور نقصان پہنچا سکتا تھا؛ وہ دشمن کے وسائل و ذرائع کو پوری طرح جانتے اور پہچانتے تھے لیکن اس کے باوجود پوری طاقت اور شجاعت کے ساتھ میدان میں آ جاتے تھے۔ انھیں دشمن سے خوف نہیں تھا مگر بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ راستے کا انتخاب کرتے تھے۔

میں نے ملک کے  بعض اعلی حکام کی موجودگی میں، جہاں خود شہید بھی موجود تھے، ان کی موجودگی میں بھی اور عدم موجودگی میں بھی، کئی بار یہ بات کہی کہ وہ تدبیر کے ساتھ کام انجام دیتے تھے۔ ان کی شجاعت کچھ الگ ہی تھی اور ان کے شجاعانہ کاموں کو ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کی زبانوں پر ہیں؛ وہ کام جو شہید سلیمانی تدبیر کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے، ان کے ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے! صدق یہ ہے؛ صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ کا مطلب یہی چیزیں ہیں۔

جہاں تک ان کے اخلاص کی بات ہے تو، (ہم نے کہا کہ) صدق و اخلاص، اگر اخلاص نہ ہو تو کام میں برکت نہیں ہوتی؛ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ کام میں برکت آ جاتی ہے، یہ اخلاص کی وجہ سے ہے۔ ان کے اخلاص کو کہاں سے سمجھا جا سکتا ہے؟ ایسے سمجھا جا سکتا ہے کہ نام و نمود کے بالکل بھی خواہاں نہیں تھے، ذرہ برابر بھی نام و نمود نہیں چاہتے تھے۔ وہ دیکھے جانے سے دور بھاگتے تھے اور اب ایسا ہو گیا ہے کہ پوری دنیا انھیں دیکھ رہی ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہ خدا کے لیے کام کرتے تھے، دکھاوا نہیں تھا، بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے تھے، ایسی باتیں کرنے سے دور رہتے تھے۔ ان کا پہلا دنیوی انعام جو خداوند عالم نے انھیں اس اخلاص کی وجہ سے دیا، ان کے جلوس جنازہ میں دسیوں لاکھ افراد کی شرکت تھی۔ یہ جلوس جنازہ دنیا میں ان کے اخلاص کا پہلا بدلہ تھا، آخرت کا اجر تو اپنی جگہ محفوظ ہے ہی۔ شہید سلیمانی کے نام کا، ان کی شخصیت کا،  ان کی یاد کا اور ان کے نام کا دنیا میں پھیل جانا، ان کی دنیوی جزا تھی۔ ان دو برسوں میں لاکھوں بار شہید سلیمانی کا نام لوگوں کی زبان پر، لوگوں کی تحریروں میں آیا ہے۔ اس سال بھی لوگ خود ہی ان کی برسی کے پروگرام  تیار کر رہے ہیں - میں نے کہا تھا کہ اس نکتے کی طرف لوٹوں گا - یہ اس عزیز کے اخلاص کی وجہ سے ہے۔

شہید سلیمانی آئیڈیل بن گئے؛ ایک بڑی نمایاں حقیقت یہ ہے کہ شہید سلیمانی ایک آئیڈیل میں تبدیل ہو گئے۔ آج عالم اسلام، خاص طور پر اس علاقے میں بہت سے جوان، میرے پاس جو اطلاع ہے وہ اس علاقے کی ہے، شہید سلیمانی جیسے ہیروز کی موجودگی کے خواہاں ہیں، آج وہ اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ سلیمانی کا نام اور ان کا ذکر جتنا زیادہ پھیل رہا ہے، اتنا ہی زیادہ ان جوانوں کی دلبستگی اور اپنے ملک میں اس طرح کے ہیروز کی موجودگی کے سلسلے میں ان کی تشنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج شہید سلیمانی ہمارے علاقے میں امید اور خود اعتمادی کا مظہر ہیں، شجاعت کا مظہر ہیں، استقامت و فتح کا استعارہ ہیں۔ یہ کام خدا کر رہا ہے؛ یہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں؛ ہم لوگ کسی بھی تدبیر سے اس طرح کا کام کرنا جانتے ہی نہیں ہیں۔ یہ خدا کے کام ہیں۔

کسی نے کہا تھا شہید سلیمانی اپنے دشمنوں کے لیے سردار سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں؛ وہ صحیح سمجھا تھا، واقعی ایسا ہی ہے۔ جن لوگوں نے دو سال پہلے شہید سلیمانی اور عزیز ابو مہدی کو اور ان کے دیگر ساتھیوں کو شہید کیا، وہ سوچ رہے تھے کہ کام ختم ہو گیا، سوچ رہے تھے کہ ہم نے انھیں مار دیا اور بات ختم، کام تمام ہو گیا۔ آج آپ ان کی حالت دیکھیے کہ وہ کس حالت میں ہیں؟ امریکا کی حالت دیکھیے! افغانستان سے اس طرح فرار ہوا ہے، عراق میں نکلنے کا دکھاوا کرنے پر مجبور ہے - البتہ ہمارے عراقی بھائیوں کو ہوشیاری سے اس معاملے پر نظر رکھنی چاہیے- امریکا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ میں اس کے بعد فوجی مشیر کا کردار ادا کروں گا؛ یعنی یہ ماننے پر مجبور ہوا ہے کہ وہاں وہ اپنی فوجی موجودگی نہیں رکھنا چاہتا اور نہیں رکھ سکتا۔ یمن کے مسئلے کو دیکھیے، لبنان کے معاملے کو دیکھیے۔

خطے میں سامراج مخالف مزاحمتی محاذ، آج دو سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ امید کے ساتھ، زیادہ نشاط کے ساتھ اور زیادہ رونق کے ساتھ کام کر رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ شام میں بھی یہ لوگ شکست کھا چکے ہیں، شام میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے؛ یہ اس عزیز خون اور مظلوم خون کی برکتیں ہیں۔

شہید کے حوالے سے کہا گیا کہ انھوں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ جو شہیدوں کی زندگی گزارتا ہے، وہی شہید ہوتا ہے اور انھوں نے ویسی ہی زندگی گزاری؛ حقیقت میں شہید کی طرح رہے، شہیدوں والی زندگی گزاری۔ شہید کی بعض اخلاقی خصوصیات بھی قابل توجہ ہیں۔ میں اس وقت ایک کتاب پڑھ رہا ہوں، شہید کے اخلاقیات اور ان کی زندگی کے بارے میں، ان کے ایک پرانے دوست نے لکھی ہے، "وہ سلیمانی جنھیں میں جانتا ہوں"(6) میرے خیال سے ایسا ہی کوئی عنوان ہے۔ اس میں کافی دلچسپ باتیں ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے ایک شہید دوست کے نواسے کی سرجری ہونے والی تھی،(7) شہید اسپتال میں گئے اور جب تک آپریشن پورا نہیں ہو گیا، ٹھہرے رہے۔ اس بچے کی ماں نے کہا کہ جناب آپریشن پورا ہو گیا، آپ تشریف لے جائیے، اب آپ جا کر اپنے امور انجام دیجیے۔ انھوں نے کہا، نہیں! تمھارے والد، یعنی اس بچے کے نانا میری جگہ جا کر شہید ہوئے ہیں، اب میں ان کی جگہ یہاں کھڑا رہوں گا۔ وہ تب تک وہاں رکے رہے جب تک بچہ ہوش میں نہیں آ گیا، جب انھیں اطمینان ہو گیا تب وہاں سے گئے۔ شہداء کے اہل خانہ سے ان کا رویہ اِس طرح کا ہے، شر پسندوں اور تخریب کاروں سے ان کا رویہ الگ طرح کا ہے، ملک کے باہر ایک طرح کا، ملک کے اندر ایک طرح کا، کرمان کے جنوب میں اور جیرفت کے علاقے میں انھوں نے ان برسوں میں جو کام کیے وہ دوسری طرح کے،(8) جس طاقت کا انھوں نے مظاہرہ کیا اور جتنے ٹھوس اور بڑے کام وہ انجام دیتے تھے وہ ایسے تھے کہ جب وہ کہیں پہنچ جاتے تھے اور (دشمن) سمجھ جاتے تھے کہ وہ آ گئے ہیں تو ان کی آمد ہی فریق مقابل اور دشمن کے حوصلے کو پست کر دیتی تھی، زائل کر دیتی تھی۔

آج بھی دنیا کے سامراجی ان کے نام سے خوف کھاتے ہیں، ان کے تذکرے سے تھراتے ہیں؛ سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں دیکھیے - آپ کو تو مجھ سے زیادہ اطلاع ہوگی - شہید کے نام کے ساتھ ان کا کس طرح کا رویہ ہے؟ یہ بھی ایک انتباہ ہے، ہمارے اور ملک کے سائبر اسپیس کے شعبے کے عہدیداران کے لیے ایک اور انتباہ ہے کہ یہ سمجھیں کہ انھیں کیا کرنا ہے کہ دشمن اپنی مرضی مسلط نہ کر سکے، تو شہید کا نام پھیلنے اور ان جیسے مزید افراد کے سامنے آنے سے سامراجی خوفزدہ ہیں؛ آئیڈیل کا مطلب یہ ہے؛ وہ ڈرتے ہیں کہ ان جیسے اور نہ بن جائیں۔

بہرحال شہید سلیمانی لازوال ہیں، زندۂ جاوید ہیں؛ جن لوگوں نے انھیں شہید کیا - ٹرمپ اور اس جیسے افراد - ان کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہے اور وہ کوڑے دان میں تاریخ کے فراموش شدہ لوگوں میں ہوں گے لیکن شہید ابد تک زندہ رہیں گے؛ شہید ایسا ہی ہوتا ہے اور ان کے دشمن تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے، البتہ ان شاء اللہ اپنے دنیوی جرم کی قیمت چکانے کے بعد وہ ناپید ہو جائیں گے۔

آپ لوگ بھی، ان کے محترم اہل خانہ بھی، ان کے دوست اور ساتھ میں لڑ چکے افراد بھی اور جنرل قاآنی(9) بھی، جو بحمد اللہ بہت اچھی طرح سے کام کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، ان شاء اللہ آپ سبھی اس سمت میں آگے بڑھتے رہیے۔ خداوند عالم نے ہم سے فتح کا وعدہ کیا ہے: اِنَّ اللہَ یُدافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا(10) اس نے دفاع کا وعدہ کیا ہے۔ ہم خدا کے ارادے اور اس کے اہداف کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور قوم، اسلام کے لیے کام کر رہی ہے؛ یہ دفاع ہے، اس کے بعد نصرت اور مدد ہے: لَیَنصُرَنَّ اللہُ مَن یَنصُرُہ(11) اِن تَنصُرُوا اللہَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم(12)

دعاگو ہوں کہ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب رہیں اور آپ کو توفیق حاصل ہوتی رہے۔ جن کاموں کا ذکر ان محترمہ (زینب سلیمانی) نے کیا، وہ اچھے کام ہیں؛ ان شاء اللہ یہ سب بہترین طریقے سے جاری رہیں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں شہید سلیمانی کی بیٹی محترمہ زینب سلیمانی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ، 17/1/2020

(3) سورۂ احزاب، آیت 23، مومنین کے درمیان ایسے مرد بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے گئے عہد کو سچائی سے پورا کر دکھایا،

(4) سورۂ زمر، آیت 11، (اے پیغمبر!) ان سے کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اُس کی بندگی کروں۔

(5) مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، جلد 2، صفحہ 738

(6) 'حاج قاسمی کہ می‌شناسم' (وہ الحاج قاسم، جنھیں میں جانتا ہوں) حجۃ الاسلام علی شیرازی کی یادوں پر مشتمل کتاب۔

(7) رہبر انقلاب کا گریہ

(8) شہید سلیمانی، مقدس دفاع کے بعد کرمان، سیستان و بلوچستان اور ہرمزگان صوبوں کے فوجیوں پر مشتمل اکتالیسویں ثاراللہ بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے، ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں سیکورٹی قائم کرنے اور ان علاقوں کے شر پسند عناصر اور منشیات کے اسمگلروں سے لڑنے کے مشن کے ذمہ دار تھے اور وہ ان علاقوں میں امن و امان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

(9) آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر، بریگیڈیر جنرل اسماعیل قاآنی

(10) سورۂ حج، آیت 38، یقینا خدا، ایمان لانے والوں کا دفاع کرے گا۔

(11) سورۂ حج، آیت 40، اور یقینا خدا (اپنے دین کی) مدد کرنے والے کی مدد کرتا ہے۔

(12) سورۂ محمد، آیت 7، اگر تم خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدموں کو مضبوطی سے جما دے گا۔

 

 


آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 January 22 ، 21:07
عون نقوی

رہبر مسلمین امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

ہماری زبانیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بلند مقام پر بات کرنے کے لیے قاصر ہیں۔ یہ بات میں واقعی طور پر کہہ رہا ہوں تکلفا نہیں کہہ رہا ہماری زبان، ہمارے دل اور ہماری عقلیں اس مقام اعلی کو سمجھنے سے واقعی قاصر ہیں۔ یہ انسان، یہ عظیم نوجوان خاتون، اتنی فضیلت، اتنی نورانیت، اتنی باوقار اور عظمت ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جیسی شخصیت ان کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ نا صرف ان کے احترام کے لیے کھڑے ہو جاتے بلکہ آگے ان کی طرف بڑھتے۔ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کمرے میں داخل ہوتا ہے تو آپ اس کے احترام میں فقط کھڑے ہو جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ بی بی کے لیے کھڑے بھی ہوتے اور ان کی طرف بے تابی سے بڑھتے۔ یہ کوئی عام بات نہیں۔ یہ باپ بیٹی کے رشتے کی بھی بات نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بی بی کے اس طرح سے تجلیل و تکریم کی کہ فرمایا ان کی رضامندی میری رضامندی ہے اور میں رضا اللہ تعالی کی رضا ہے۔ بی بی کی ناراضی میری ناراضی قرار دیا اور میری ناراضی اللہ تعالی کی نارضی ہے۔ یہ فاطمہ زہراؑ کے مقامات ہیں۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 December 21 ، 19:56
عون نقوی

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

متن عربی

من بلغ ولده النکاح وعنده ما ینکحه فلم ینکحه ثم أحدث حدثا فالإثم علیه.

اردو ترجمہ

جس شخص کی اولاد شادی کے سن تک پہنچ جائے اور وہ شخص اپنی اولاد کے لیے ہمسر بھی لا سکتا ہو لیکن ایسا نہ کرے تو (اولاد کی طرف سے) جو بھی ہوگا اسکا گناہ اس شخص(باپ) پر ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ متقی ہندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال ولافعال، ج۱۶، ص۴۴۲۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 November 21 ، 11:21
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

جو لوگ کسی ملک یا معاشرے میں اپنا نفوذ پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہاں کی ثقافت کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنی ثقافت کو ان پر مسلط کرتے ہیں، ان کا ایک کام عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کی مستحکم بنیاد یعنی ’’خانوادہ‘‘ کو ہلانا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے ممالک میں، انہوں نے بدقسمتی سے ایسا کیا ہے۔ مردوں کو غیر ذمہ دار اور خواتین کو بداخلاق بنا دیا ہے۔

اصلی متن

آن کسانی که می‌خواهند در یک کشور یا جامعه‌ای نفوذ پیدا کنند فرهنگ آن جامعه را در مشت خود بگیرند و فرهنگ خود را به آنها تحمیل نمایند، یکی از کارهایشان، معمولاً متزلزل کردن بنیان #خانواده است. کما اینکه در خیلی از کشورها این کار را متأسفانه انجام داده‌اند. مردها را بی‌مسئولیت و زنها را بد اخلاق کرده‌اند.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 November 21 ، 18:03
عون نقوی