بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی:

سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ بے دین بن جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ مذہب کا عمل دخل صرف ذاتی امور تک ہے، سیاست اور معاشرے کے اجتماعی امور میں مذہب کی رو سے نظریہ نہ رکھا جاۓ۔ ہاں، اگر کوئی مغربی ہے یا مشرقی مختلف سماجی نظاموں کے اندر رہتے ہوۓ اپنے لیے، یا اپنے دل میں، خدا سے تعلق رکھتا ہے تو رکھتا رہے۔ سیکولرازم کا مطلب یہ ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 December 21 ، 19:29
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ مسجد کو سیاسی مسائل سے مکمل طور پر دور رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب، سیاسی باتیں مت کریں اور بس اپنا کام کریں۔ آپ کے کام کا کیا مطلب ہے؟ یعنی بس نماز پڑھو او جاؤ اپنے روز مرہ معمول میں لگ جاؤ۔ امام مسجد کا کام فقط پیش نمازی کرنا ہے اس کو سیاست سے کیا لینا دینا؟ یا ایک نمازی کو اجتماعی اور سیاسی مسائل سے کیا کام۔ یہی سیکولرازم (secularism) ہے، سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ بے دین بن جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ مذہب کا عمل دخل صرف ذاتی امور تک ہے، سیاست اور معاشرے کے اجتماعی امور میں مذہب کی رو سے نظریہ نہ رکھا جاۓ۔ ہاں، اگر کوئی مغربی ہے یا مشرقی مختلف سماجی نظاموں کے اندر رہتے ہوۓ اپنے لیے، یا اپنے دل میں، خدا سے تعلق رکھتا ہے تو رکھتا رہے۔ سیکولرازم کا مطلب یہ ہے۔

دشمن ایسا مذہب اور ایسا مذہبی چاہتا ہے۔ جس دین کی وہ مخالفت کرتے ہیں، جس عقیدے کے خلاف وہ لڑتے ہیں، وہ ایمان ہے جو اسلامی نظام کے قیام کا باعث بنتا ہے اور اسلام کو مضبوط کرتا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ اسلام سے ڈرتے ہیں۔ لیکن کون سا اسلام؟ ایک ایسا اسلام جس کے پاس طاقت ہے، اس کے پاس نظام ہے، اس کے پاس سیاست ہے، اس کے پاس حکومت ہے، اس کے پاس فوج ہے، اس کے پاس مسلح قوت ہے، اس کے پاس سائنسی صلاحیت ہے، اس کے پاس بین الاقوامی صلاحیتیں ہیں۔ وہ اس قسم کے اسلام سے خوفزدہ ہیں، اور وہ ایسے اسلام سے نہیں ڈرتے یا ایسے فرقے سے نیہں ڈرتے کہ مثلا فلاں زمیں کے خطے پر ان کے اتنے لاکھ افراد ہیں، ہاں اگر ان کے پاس طاقت نہیں تو چاہے زیادہ بھی ہو جائیں کوئی مسئلہ نہیں۔ جس اسلام کی وہ مخالفت کرتے ہیں، جس سے وہ مقابلہ کرتے ہیں، یا جس کے دشمن ہیں، وہ اسلام ہے جو مقتدر ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:
۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 December 21 ، 19:05
عون نقوی

۱۔ انسان آزادی پسند ہے لیکن اس کے لیے آزادی کا مفہوم مبہم ہے

بلا تفریق ہر انسان کی خواہش ہے کہ اسے سعادت اور آزادی حاصل ہو۔ کوئی بھی عاقل انسان ایسا نہیں جو سعادت اور آزاد ہونا نہ چاہتا ہو۔ انسان چاہے غرب کا ہو یا شرق کا وہ آزادی خواہ ہے، وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر انسان آزادی پسند ہے۔ ظاہری طور پر تو ہم سب سعادت اور آزادی چاہتے ہیں لیکن ان دو مفہوموں کے دقیق اور روشن معنی نہیں جانتے۔ کیا آزادی سے مراد صرف بدن کی آزادی ہے، اگر کسی کا بدن پابند سلاسل نہ ہو لیکن اس کی سوچ اور عقیدہ غلام ہو تو کیا پھر بھی وہ آزاد کہلاۓ گا؟ کیا نفس کی خواہشات میں محبوس شخص جسے اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور جو اپنے نفس کا غلام ہے کیا وہ بھی آزادی رکھتا ہے؟ کیا آزادی صرف بدن کی ہے؟ یا انسان سوچ کا، معاشرے کا، نفس کا یا روحی طور پر بھی غیر آزاد ہو سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کے ابھارنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمیں سعادت اور آزادی کی درست تفسیر معلوم نہیں، کسی شخص کے نزدیک آزادی اور سعادت کچھ اور ہے اور دوسرے فرد کی نظر میں یہی دو مفہوم کسی اور معنی میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقی سعادت یا خوشبختی کی حدود کیا ہیں، اسی طرح سے مفہوم ’’آزادی‘‘ بھی ہے۔ ہر شخص آزادی چاہتا ہے لیکن اسے دقیق علم نہیں کہ آزادی کی حدود اور حقیقی تفسیر کیا ہے؟  

۲۔ آزادی کی مختلف تعریفیں

آزادی انسانی صفت ہے، اسلام بھی چاہتا ہے کہ انسان آزاد ہو اور غرب بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ ہمارا مکتب انسان کو آزادی فراہم کرتا ہے؟ جس آزادی کو اسلام آزادی کہتا ہے وہ غربیوں کے ہاں پابندی ہے اور جو مغربیوں کے ہاں آزادی کا نظریہ پایا جاتا ہے وہ آزادی اسلامی فکر کے مطابق درست نیہں۔ بقول استاد جوادی آملی آزادی کی تعریف انسان شناسی اور جہان بینی کی تعریف پر منحصر ہے۔ جس طرح سے آپ کی انسان شناسی ہے اسی طرح آپ آزادی کی تعریف کریں گے، یا جس طرح سے آپ جہان بینی کا نظریہ رکھتے ہیں ویسی ہی آپ آزادی کی تعریف کریں گے۔ بالفرض اگر ایک شخص کی جہان بینی یہ ہے کہ یہی جان اور جہان ہے ساٹھ ستر سال کی زندگی ہے، عیش و عشرت سے زندگی گزارو، اس شخص کی آزادی کی تعریف اور اس شخص کی آزادی کی تعریف جس کے نزدیک جہان اور یہ دنیا آخرت کے لیے کشت زار ہے فرق کرے گی۔ پس یہیں سے آزادی کی تعریف جو اسلام نے کی ہے وہ زمین تا آسمان اس تعریف سے جدا ہے جو مغربی مکاتب فکر نے کی۔ پس یہاں سے معلوم ہوا دونوں نے ایک ہی شے ایک ہی مفہوم ’’آزادی‘‘ کی تعریف الگ الگ کیوں کی؟ جواب یہ ہے کہ دونوں کی نظر میں جہان اور انسان کی تعریف اور اس کی حدود مختلف ہیں۔ مغربی تفکر نےجہان اور انسان کو ایک جدا جہت سے ملاحظہ کیا لیکن اسلام نے انسان اور جہان کے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا۔ 

۳۔ اسلام کا آزادی کے بارے میں نظریہ

مغربی تفکر نے آزادی کے بارے میں یہ نظریہ اختیار کیا کہ انسان کو جتنی آزادی میسر ہو بہتر ہے؟ انسان کو کوئی بھی چیز اس کو آزاد رہنے سے نہیں روک سکتی۔ چاہے وہ خالقِ مخلوقات ہو، کوئی دین ہو یا اخلاقیات، اگر انسان کی آزادی کا راستہ روکتے ہیں تو یہ درست نہیں، اگر کوئی شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو ماننے سے اس کی آزادی سلب ہوتی ہے یا دوسروں کی آزادی کو ضرر پہنچتا ہے تو خدا کے حکم کو ترک کیا جاۓ گا اور انسان کی آزادی کو اولویت دینا ہوگی۔ اسی طرح سے دین کے احکام یا اخلاقیات ہیں جب تک کہ آپ کی آزادی سے نہیں ٹکراتے ٹھیک ہیں، لیکن اگر انسان کو کسی چیز کا مقید کرتے ہیں تو ان کو ترک کیا جاۓ۔ انسان کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہے۔ لیکن اسلام اس بات کا قائل ہے کہ انسان کے لیے آزادی کسی بھی صورت میں مطلق اور نامحدود نہیں ہو سکتی۔ اس سے پہلے کہ آپ انسان کو کاملا آزادی دینے کا نظریہ اختیار کریں اس سے پہلے انسان کی طبیعت اور اس کی ذات کو درست درک کریں۔ یہ بات ہم بھی کرتے ہیں اور مغربی تفکر بھی اس بات کو قبول کرتا ہے کہ انسان ایک محدود ذات ہے۔ ہر ذات کی صفات اپنے وجود میں اس ذات کی تابع ہوتی ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ موصوف محدود ہو اور اس کی صفات نامحدود قرار پائیں۔ مثلا انسان ایک محدود ذات ہے لذا اس کی صفات بھی محدود ہونگی۔ انسان ایک محدود ذات ہے اس کی آزادی بھی محدود ہونی چاہیے، انسان کو نا محدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔ اس کے برعکس جو وجود نامحدود ہو اس کی صفات بھی نامحدود ہیں جیسا کہ ذات باری تعالی ہے۔ اس کی سب صفات مطلق اور نامحدود ہیں۔

۴۔ انسان تکوینی طور پر بہت محدود ہے

کامل طور پر انسان کو آزاد چھوڑ دینا انسان کی طبیعت اور ذات کے بھی بر خلاف ہے، اگر آپ انسان کی ذات پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو تکوینی طور پر بہت کم اختیارات عطا ہوۓ ہیں، مثلا انسان بنا سانس لیے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا، کھانا کھاے بغیر صرف کچھ دن تک زندہ رہ سکتا ہے، بنا سوۓ کوئی کام تمرکز سے نہیں کرسکتا، انسان دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتا، ہوا میں نہیں اڑ سکتا، دور سے آتی ہوئی چیز کو نہیں دیکھ سکتا، یہ وہ تکوینی امور ہیں جہاں انسان کو ہم مجبور دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہت محدود ذات عطا کی ہے لذا اس کی آزادی اور اختیار بھی لا محالہ محدود ہے۔ اس کے علاوہ قانونی، حقوقی اور اجتماعی قید و بند بھی انسان کی آزادی کو محصور کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اگر انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اور زیادہ محدود تر ہو جاتا ہے اگر خود کو محدود نہیں کرے گا تو خود اس کی ذات کے لیے ضرر ہے۔

۵۔ آزادی کے بارے میں درست نظریہ

انسان کے بارے میں درست نظریہ یہ ہے کہ وہ نا صرف تشریعی طور پر محدود اور مطلق آزادی نہیں رکھتا بلکہ تھوڑا سا غور کرنے سے علم ہو جاتا ہے کہ انسان تکوینی طور پر بھی بہت محدود ہے اور کاملاََ آزادی نہیں رکھتا۔ پس کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک انسان جو معاشرے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کو کاملا اور مطلق آزادی دے دی جاۓ اور معاشرہ ہرج و مرج کا شکار نہ ہو، کیا یہ معاشرہ سعادت اور کمال حاصل کر سکتا ہے؟

 

 


اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، آیت اللہ العظمی جوادی آملی حفظہ اللہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 December 21 ، 18:33
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

آج ایک بنیادی ترین مسئلہ جس کے بارے میں امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک مل کر بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، پریس، میڈیا، انٹرنیٹ، سیاسی کارکنوں وغیرہ کو تعلیم دیتے ہیں، یہ ہے کہ سیاسی دین کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ یعنی دین کو سیاست سے الگ کرنے کا پرچار کرنا۔ اس کا مطلب یہ کہ ہے اجتماعی زندگی سے دین کو الگ کیا جاۓ۔ دین مسجد کے کونے میں ہو سکتا ہے، گھر میں دین اپنایا جا سکتا ہے، اگر کوئی دین صرف دل میں رکھنا چاہتا ہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن عملی زندگی میں دین کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، معیشت سیکولر ہو، سیاست سیکولر ہو، دشمن سے مار کھانی ہے تو کوئی حرج نہیں دین اس بارے بھی نظر نہ دے، اپنے دوستوں سے لڑائی، اور دشمنوں سے دوستی جو کہ نص دین کے بر خلاف ہے یہ سب ہو سکتا ہے، ہاں اگر ظاہری شکل آپ دینی بھی اختیار کر لیں تو خیر ہے لیکن دین کے مطابق عمل نہیں انجام دینا، آج دشمن یہ چاہتا ہے۔ حقیقی دینی معرفت در اصل یہی ہے۔ مذہب اسلام بلکہ تمام مذاہب؛ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تمام مذاہب ایسے ہیں حتیٰ کہ عیسائیت۔ لیکن جو بات یقینی ہے وہ دین اسلام ہے، جہاں مکہ کی جلاوطنی کے بعد حضورﷺ کا پہلا کام ایک حکومت قائم کرنا تھا اور آپﷺ نے دینی حکومت تشکیل دے کر ایک مذہب قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پس حکومتی نظام کو قائم کیا حکومت سے دوری اختیار نہیں کی۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے کہ مذہب بیٹھے بس مسلسل نصیحت کرے، مسلسل بولتا رہے، اور طاقتور جو چاہے مذہب اور دین کے خلاف کرتا رہے۔ جب بھی ان کا دل کرے ایک لات ان کو مار دیں۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے۔ وہ ایسا دین چاہتے ہیں، وہ اس کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں، یہ علم ہونا چاہیے کہ دین سیاست سے الگ نہیں ہے۔ دین کا دشمن ایسے دین سے ڈرتا ہے جس کے پاس حکومت ہو، جو طاقت کو حاصل کرنے کا قائل ہو، جس کے پاس فوج ہو، معیشت ہو، مالیاتی نظام ہو، مختلف انتظامی ادارے ہوں۔ وہ اس دین سے ڈرتا ہے۔ ورنہ جس دین کے پیروکار صرف مسجد میں جا کر عبادت کریں(اور عملی زندگی میں دین کی دخالت کے قائل نہ ہوں)، تو دشمن پھی چاہتا ہے کہ کرو ایسے دین پر عمل، سو سال تک کرو۔

اصلی متن

امروز یکی از توصیه‌های اساسی‌ای که هیئتهای اندیشه‌ورز آمریکایی و انگلیسی دُور هم می‌نشینند، فکر میکنند، طرّاحی میکنند، دارند ارائه میدهند و به فعّالان مطبوعاتی و رسانه‌ای و اینترنتی و سیاسی و غیره تعلیم میدهند، این است که میگویند با دینِ سیاسی باید مخالفت کرد؛ یعنی تبلیغِ جدایی دین از سیاست؛ یعنی جدایی دین از زندگی؛ دینِ گوشه‌ی مسجد، دین داخل خانه، دین فقط در دل، نه در عمل، که اقتصاد غیر دینی باشد، سیاست غیر دینی باشد، زیر بار دشمن رفتن غیر دینی باشد، با دوست جنگیدن، با دشمن همراه شدن -بر خلاف نصّ دین- وجود داشته باشد، امّا ظاهر هم ظاهر دینی باشد؛ این را میخواهند. معرفت دینی یعنی اینکه دین -همه‌ی ادیان؛ ادّعای ما این است که همه‌ی ادیان این‌جور هستند، حتّی مسیحیّت، امّا آنکه مسلّم و واضح و روشن است، دین اسلام است که پیغمبر اکرم اوّلْ‌کاری که بعد از غربت دوران مکّه انجام داد، ایجاد حکومت بود و دین را با ریختن در قالب حکومت توانست ترویج بکند- جدای از حکومت نیست. معنای اینکه دینی از حکومت جدا باشد، این است که دین بنشیند دائم نصیحت بکند، دائم حرف بزند و قدرتمندان هم هر کار که دلشان میخواهد برخلاف دین و بر ضدّ دین بکنند؛ هر وقت هم که خواستند یک لگدی به سر اینها بزنند؛ دین غیر سیاسی یعنی این. این را میخواهند، این را دنبال میکنند. نخیر، این معرفت باید وجود داشته باشد که دین منفکّ از سیاست نیست؛ و دشمن دین، از آن دینی میترسد که دولت دارد، قدرت دارد، ارتش دارد، اقتصاد دارد، سیستم مالی دارد، تشکیلات گوناگون اداری دارد؛ از این دین میترسد؛ وَالّا آن دینی که مردم میروند و در مسجد عبادت میکنند، خب بکنند، صد سال بکنند.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 December 21 ، 19:13
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے کہ دین بیٹھے اور بس نصیحت کرے، ہمیشہ بولنے کی حد تک رہے صرف اور طاقتور ظالم طبقے کا جو دل کرے برخلاف دین اور ضدِ دبن انجام دے، ہر وقت جب ان کا دل چاہے ایک لات ان کو مار دیں۔

اصلی متن

معنای دین غیر سیاسی این است که دین بنشیند دائم نصیحت بکند، دائم حرف بزند و قدرتمندان هم هر کار که دلشان میخواهد برخلاف دین و بر ضدّ دین بکنند؛ هر وقت هم که خواستند یک لگدی به سر اینها بزنند.(۱)


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 01 December 21 ، 21:37
عون نقوی