استعماری طاقتیں کس دین اور دیندار سے ڈرتی ہیں
رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی
اردو ترجمہ
آج ایک بنیادی ترین مسئلہ جس کے بارے میں امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک مل کر بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، پریس، میڈیا، انٹرنیٹ، سیاسی کارکنوں وغیرہ کو تعلیم دیتے ہیں، یہ ہے کہ سیاسی دین کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ یعنی دین کو سیاست سے الگ کرنے کا پرچار کرنا۔ اس کا مطلب یہ کہ ہے اجتماعی زندگی سے دین کو الگ کیا جاۓ۔ دین مسجد کے کونے میں ہو سکتا ہے، گھر میں دین اپنایا جا سکتا ہے، اگر کوئی دین صرف دل میں رکھنا چاہتا ہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن عملی زندگی میں دین کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، معیشت سیکولر ہو، سیاست سیکولر ہو، دشمن سے مار کھانی ہے تو کوئی حرج نہیں دین اس بارے بھی نظر نہ دے، اپنے دوستوں سے لڑائی، اور دشمنوں سے دوستی جو کہ نص دین کے بر خلاف ہے یہ سب ہو سکتا ہے، ہاں اگر ظاہری شکل آپ دینی بھی اختیار کر لیں تو خیر ہے لیکن دین کے مطابق عمل نہیں انجام دینا، آج دشمن یہ چاہتا ہے۔ حقیقی دینی معرفت در اصل یہی ہے۔ مذہب اسلام بلکہ تمام مذاہب؛ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تمام مذاہب ایسے ہیں حتیٰ کہ عیسائیت۔ لیکن جو بات یقینی ہے وہ دین اسلام ہے، جہاں مکہ کی جلاوطنی کے بعد حضورﷺ کا پہلا کام ایک حکومت قائم کرنا تھا اور آپﷺ نے دینی حکومت تشکیل دے کر ایک مذہب قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پس حکومتی نظام کو قائم کیا حکومت سے دوری اختیار نہیں کی۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے کہ مذہب بیٹھے بس مسلسل نصیحت کرے، مسلسل بولتا رہے، اور طاقتور جو چاہے مذہب اور دین کے خلاف کرتا رہے۔ جب بھی ان کا دل کرے ایک لات ان کو مار دیں۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے۔ وہ ایسا دین چاہتے ہیں، وہ اس کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں، یہ علم ہونا چاہیے کہ دین سیاست سے الگ نہیں ہے۔ دین کا دشمن ایسے دین سے ڈرتا ہے جس کے پاس حکومت ہو، جو طاقت کو حاصل کرنے کا قائل ہو، جس کے پاس فوج ہو، معیشت ہو، مالیاتی نظام ہو، مختلف انتظامی ادارے ہوں۔ وہ اس دین سے ڈرتا ہے۔ ورنہ جس دین کے پیروکار صرف مسجد میں جا کر عبادت کریں(اور عملی زندگی میں دین کی دخالت کے قائل نہ ہوں)، تو دشمن پھی چاہتا ہے کہ کرو ایسے دین پر عمل، سو سال تک کرو۔
اصلی متن
امروز یکی از توصیههای اساسیای که هیئتهای اندیشهورز آمریکایی و انگلیسی دُور هم مینشینند، فکر میکنند، طرّاحی میکنند، دارند ارائه میدهند و به فعّالان مطبوعاتی و رسانهای و اینترنتی و سیاسی و غیره تعلیم میدهند، این است که میگویند با دینِ سیاسی باید مخالفت کرد؛ یعنی تبلیغِ جدایی دین از سیاست؛ یعنی جدایی دین از زندگی؛ دینِ گوشهی مسجد، دین داخل خانه، دین فقط در دل، نه در عمل، که اقتصاد غیر دینی باشد، سیاست غیر دینی باشد، زیر بار دشمن رفتن غیر دینی باشد، با دوست جنگیدن، با دشمن همراه شدن -بر خلاف نصّ دین- وجود داشته باشد، امّا ظاهر هم ظاهر دینی باشد؛ این را میخواهند. معرفت دینی یعنی اینکه دین -همهی ادیان؛ ادّعای ما این است که همهی ادیان اینجور هستند، حتّی مسیحیّت، امّا آنکه مسلّم و واضح و روشن است، دین اسلام است که پیغمبر اکرم اوّلْکاری که بعد از غربت دوران مکّه انجام داد، ایجاد حکومت بود و دین را با ریختن در قالب حکومت توانست ترویج بکند- جدای از حکومت نیست. معنای اینکه دینی از حکومت جدا باشد، این است که دین بنشیند دائم نصیحت بکند، دائم حرف بزند و قدرتمندان هم هر کار که دلشان میخواهد برخلاف دین و بر ضدّ دین بکنند؛ هر وقت هم که خواستند یک لگدی به سر اینها بزنند؛ دین غیر سیاسی یعنی این. این را میخواهند، این را دنبال میکنند. نخیر، این معرفت باید وجود داشته باشد که دین منفکّ از سیاست نیست؛ و دشمن دین، از آن دینی میترسد که دولت دارد، قدرت دارد، ارتش دارد، اقتصاد دارد، سیستم مالی دارد، تشکیلات گوناگون اداری دارد؛ از این دین میترسد؛ وَالّا آن دینی که مردم میروند و در مسجد عبادت میکنند، خب بکنند، صد سال بکنند.(۱)