بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «امام خامنہ ای» ثبت شده است

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

آج ایک بنیادی ترین مسئلہ جس کے بارے میں امریکی اور برطانوی تھنک ٹینک مل کر بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، پریس، میڈیا، انٹرنیٹ، سیاسی کارکنوں وغیرہ کو تعلیم دیتے ہیں، یہ ہے کہ سیاسی دین کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ یعنی دین کو سیاست سے الگ کرنے کا پرچار کرنا۔ اس کا مطلب یہ کہ ہے اجتماعی زندگی سے دین کو الگ کیا جاۓ۔ دین مسجد کے کونے میں ہو سکتا ہے، گھر میں دین اپنایا جا سکتا ہے، اگر کوئی دین صرف دل میں رکھنا چاہتا ہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن عملی زندگی میں دین کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، معیشت سیکولر ہو، سیاست سیکولر ہو، دشمن سے مار کھانی ہے تو کوئی حرج نہیں دین اس بارے بھی نظر نہ دے، اپنے دوستوں سے لڑائی، اور دشمنوں سے دوستی جو کہ نص دین کے بر خلاف ہے یہ سب ہو سکتا ہے، ہاں اگر ظاہری شکل آپ دینی بھی اختیار کر لیں تو خیر ہے لیکن دین کے مطابق عمل نہیں انجام دینا، آج دشمن یہ چاہتا ہے۔ حقیقی دینی معرفت در اصل یہی ہے۔ مذہب اسلام بلکہ تمام مذاہب؛ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تمام مذاہب ایسے ہیں حتیٰ کہ عیسائیت۔ لیکن جو بات یقینی ہے وہ دین اسلام ہے، جہاں مکہ کی جلاوطنی کے بعد حضورﷺ کا پہلا کام ایک حکومت قائم کرنا تھا اور آپﷺ نے دینی حکومت تشکیل دے کر ایک مذہب قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پس حکومتی نظام کو قائم کیا حکومت سے دوری اختیار نہیں کی۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے کہ مذہب بیٹھے بس مسلسل نصیحت کرے، مسلسل بولتا رہے، اور طاقتور جو چاہے مذہب اور دین کے خلاف کرتا رہے۔ جب بھی ان کا دل کرے ایک لات ان کو مار دیں۔ غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے۔ وہ ایسا دین چاہتے ہیں، وہ اس کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں، یہ علم ہونا چاہیے کہ دین سیاست سے الگ نہیں ہے۔ دین کا دشمن ایسے دین سے ڈرتا ہے جس کے پاس حکومت ہو، جو طاقت کو حاصل کرنے کا قائل ہو، جس کے پاس فوج ہو، معیشت ہو، مالیاتی نظام ہو، مختلف انتظامی ادارے ہوں۔ وہ اس دین سے ڈرتا ہے۔ ورنہ جس دین کے پیروکار صرف مسجد میں جا کر عبادت کریں(اور عملی زندگی میں دین کی دخالت کے قائل نہ ہوں)، تو دشمن پھی چاہتا ہے کہ کرو ایسے دین پر عمل، سو سال تک کرو۔

اصلی متن

امروز یکی از توصیه‌های اساسی‌ای که هیئتهای اندیشه‌ورز آمریکایی و انگلیسی دُور هم می‌نشینند، فکر میکنند، طرّاحی میکنند، دارند ارائه میدهند و به فعّالان مطبوعاتی و رسانه‌ای و اینترنتی و سیاسی و غیره تعلیم میدهند، این است که میگویند با دینِ سیاسی باید مخالفت کرد؛ یعنی تبلیغِ جدایی دین از سیاست؛ یعنی جدایی دین از زندگی؛ دینِ گوشه‌ی مسجد، دین داخل خانه، دین فقط در دل، نه در عمل، که اقتصاد غیر دینی باشد، سیاست غیر دینی باشد، زیر بار دشمن رفتن غیر دینی باشد، با دوست جنگیدن، با دشمن همراه شدن -بر خلاف نصّ دین- وجود داشته باشد، امّا ظاهر هم ظاهر دینی باشد؛ این را میخواهند. معرفت دینی یعنی اینکه دین -همه‌ی ادیان؛ ادّعای ما این است که همه‌ی ادیان این‌جور هستند، حتّی مسیحیّت، امّا آنکه مسلّم و واضح و روشن است، دین اسلام است که پیغمبر اکرم اوّلْ‌کاری که بعد از غربت دوران مکّه انجام داد، ایجاد حکومت بود و دین را با ریختن در قالب حکومت توانست ترویج بکند- جدای از حکومت نیست. معنای اینکه دینی از حکومت جدا باشد، این است که دین بنشیند دائم نصیحت بکند، دائم حرف بزند و قدرتمندان هم هر کار که دلشان میخواهد برخلاف دین و بر ضدّ دین بکنند؛ هر وقت هم که خواستند یک لگدی به سر اینها بزنند؛ دین غیر سیاسی یعنی این. این را میخواهند، این را دنبال میکنند. نخیر، این معرفت باید وجود داشته باشد که دین منفکّ از سیاست نیست؛ و دشمن دین، از آن دینی میترسد که دولت دارد، قدرت دارد، ارتش دارد، اقتصاد دارد، سیستم مالی دارد، تشکیلات گوناگون اداری دارد؛ از این دین میترسد؛ وَالّا آن دینی که مردم میروند و در مسجد عبادت میکنند، خب بکنند، صد سال بکنند.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 December 21 ، 19:13
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

غیر سیاسی دین کا مطلب یہ ہے کہ دین بیٹھے اور بس نصیحت کرے، ہمیشہ بولنے کی حد تک رہے صرف اور طاقتور ظالم طبقے کا جو دل کرے برخلاف دین اور ضدِ دبن انجام دے، ہر وقت جب ان کا دل چاہے ایک لات ان کو مار دیں۔

اصلی متن

معنای دین غیر سیاسی این است که دین بنشیند دائم نصیحت بکند، دائم حرف بزند و قدرتمندان هم هر کار که دلشان میخواهد برخلاف دین و بر ضدّ دین بکنند؛ هر وقت هم که خواستند یک لگدی به سر اینها بزنند.(۱)


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 01 December 21 ، 21:37
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

دنیا میں اربوں لوگ موجود ہیں ان میں سے بہت قلیل ایسے ہونگے جن کے پاس عیش و عشرت کا سب سامان موجود ہے لیکن یہی قلیل بھی آسودہ خاطر نہیں ہیں، آرامش و احساس سکون نہیں کرتے بہر حال پریشان اور مضطرب ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی اور یہ سب تحولات انسان کو آج تک خوشبختی عطا کرنے والا آلہ عطا نہیں کر سکے۔ بلاشبہ، انسانی عقل ایک عظیم نعمت ہے، تجربہ بہت بڑی نعمت ہے [یہ] خدا کی نعمتیں ہیں اور زندگی کے بہت سے مسائل حل کر سکتی ہیں، لیکن کچھ گرہیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کھولا نہیں جا سکتا۔ فرض کریں یہی عدالت کا مسئلہ ہے۔ آج کی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے عدالت کو قائم نہیں کی جا سکا۔ اس کی گرہ نہیں کھولی جا سکتی۔ آج کی دنیا میں بے عدالتی اور ظلم کو الٹا سائنس کی خدمت حاصل ہے کجا یہ کہ اس سے عدالت کو قائم کیا جاۓ۔ جنگ بھڑکانے کی خدمت میں، دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی خدمت میں، قوموں پر تسلط کی خدمت میں۔

اس لیے سائنس اب ان گرہوں کو نہیں کھول سکتی۔ ان چیزوں کو انجام دینے کے لیے ایک روحانی طاقت، ایک الہی طاقت، معصوم امام کے قدرت مند ہاتھ کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، حضرت بقیۃ اللہ (ہماری جان قربان) کا عظیم مشن ’’یملأ اللہ بہ الارض قسطا و عدلا‘‘ ہے۔ بہت سی روایات میں، دعاؤوں میں، زیارتوں میں، یہ مطلب مذکور ہے۔ قسط اور عدل قائم کرنا امام کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو بقیۃ اللہ بازو سے نکلنے والی قدرت الٰہی کے سوا ممکن نہیں۔ یہ عدل جس کی توقع امام سے ہے وہ عدل کسی خاص موضوع کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں عدل قائم کرنا ہے۔ قدرت و اقتدار میں عدالت، دولت اور ثروت میں عدالت، امنیتی مسائل میں عدالت، انسانی وقار اور سماجی اعتبار سے عدالت، روحانیت میں عدالت اور ترقی کے امکانات، زندگی کے تمام پہلوؤں میں عدالت کو قائم کرنا اس امام کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہ توقعات ہیں دنیا میں حضرت بقیۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو ان شاء اللہ خدا کے فضل سے پوری ہونگی۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 November 21 ، 18:59
عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 November 21 ، 20:08
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

بنیادی کمی ہمارے طرز زندگی میں ہے۔ یہ عہدیداران کی بات نہیں ہے، ہماری اور آپ کی سارے عوام کی مشکل ہے۔ طرز زندگی میں کچھ مشکلات ہیں۔ ہماری ایک مشکل صارف کلچر ہے، ہماری ایک اور مشکل اسراف اور فضول خرچی ہے، ہماری ایک اور مشکل حد سے زیادہ آرام پسندی ہے، ہماری ایک اور مشکل اشرافیہ کلچر ہے۔ اشرافیہ کلچر اوپر کے طبقات سے نچلے طبقات میں پھیلتا ہے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا شخص بھی جب کوئی تقریب منعقد کرتا ہے، شادی کا پروگرام رکھتا ہے تو رئیسوں کے انداز میں شادی کرتا ہے۔ یہ بری بات ہے، یہ غلط ہے۔ اس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔ زیادہ خرچ کرنا، زیادہ طلب کرنا، ہمارے طرز زندگی کی خامیاں ہیں۔

حرم امام رضا علیہ السلام میں زائرین اور خدام سے خطاب 21 مارچ 2018

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 November 21 ، 18:50
عون نقوی