بصیرت اخبار

۷۹ مطلب با موضوع «امام خامنہ ای» ثبت شده است

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالی سے عرض کریں گے:

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا.

اور رسول کہیں گے: اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔(۱)

آپ کے خیال میں قرآن کا ترک کیا جانا کس معنی میں ہے؟ یقینا اس معنی میں تو نہیں کہ انہوں نے قرآن اور قرآن کے نام کو بطور کلی خود سے دور کر لیا۔ یہ اتخاذ نہیں ہے۔ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس قرآن تو ہے لیکن قرآن مع ہجران۔ قرآن تو ہے لیکن مہجور۔ یعنی قرآن ان کے معاشروں میں تلاوت تو ہوتا ہے، ظاہری طور پر قرآن کا اکرام اور تعظیم بھی بہت کرتے ہیں لیکن اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور دین کی سیاست سے جدائی کے بہانے سے حکومت کو قرآن سے جدا کیا ہوا ہے۔ اگر ہدف یہ تھا کہ معاشروں میں قرآن اور اسلام کی حکومت نہیں ہوگی پھر رسول اللہ ﷺ کے مبارزات کا کیا فائدہ اور نتیجہ؟ اگر رسول اللہ ﷺ کی بھی یہی سوچ تھی کہ حکومتی امور، لوگوں کی اجتماعی زندگی، اور معاشرے کی سیاسی قدرت کے حوالے سے اسلام اور قرآن کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا، اور یہی کہ لوگوں کے عقائد کو اسلامی کردوں اور ان کو کچھ اعمال سکھا دوں جو وہ گھروں کے کونوں میں انجام دیں تو کیا رسول اللہ ﷺ کے خلاف اتنی جنگیں ہوتیں؟ اصل میں اسلام اور اس وقت کی گمراہ طاقتوں کا مسئلہ اور جھگڑا کیا تھا؟ در اصل رسول اللہ ﷺ کا ان سے جھگڑا سیاسی قدرت کا حصول اور اس قدرت پر قرآن کے ذریعے قبضہ کرنے کا جھگڑا تھا۔ ہجر قرآن کا معنی یہاں پر واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا نام تو باقی ہے لیکن معاشرے پر حاکمیت غیر قرآنی ہے۔ عالم اسلام میں ہر جگہ جہاں دراصل قرآن کی حاکمیت نہیں وہاں پر رسول اللہ ﷺ کا یہ خطاب ’’ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا‘‘ صادق آتا ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 December 21 ، 21:06
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک ملت بے شک اسلامی احکام پر عمل نہ کرتی ہو لیکن پھر بھی مسلمان ہو۔ دین کا سیاست سے جدائی کا مطلب در اصل یہی بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہیں مسلمان، لیکن اسلام کے احکام پر عمل نہیں کرتے، یعنی آپ کے ملک کا بینکنگ سسٹم، معیشت کا نظام، تعلیمی نظام، حکومت کی شکل و صورت اور آپ کے فرد و معاشرہ کے تعلقات اسلام کے خلاف ہیں اور غیر اسلامی ہیں لیکن آپ پھر بھی مسلمان ہی ہیں، حتیٰ اسلام مخالف قوانین بھی ملک میں نافذ ہیں۔ البتہ یہ ان ممالک کی بات ہے جن کے ہاں قانون موجود ہے چاہے وہ ایک ناقص اور قاصر ایک آمر انسان کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ آج بعض اسلامی ممالک میں حتی قانون بھی نہیں ہے۔ کوئی غیر اسلامی قانون بھی نہیں ہے وہاں صرف بعض افراد کی مرضی کے مطابق قانون چلتا ہے مثلا اقتدار پر ایک شخص بیٹھا ہے اور حکم دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ایسا ہونے دو، ویسا نہ ہونے دو وغیرہ۔ ہمارے لیے یہ گمان کرنا ممکن نہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہیں، لیکن اسلام سے انہوں نے فقط نماز، روزہ، طہارت اور نجاست کے مسائل لیے ہیں بس۔ جس معاشرے میں مسلمان ہوں وہاں پر اسلام کو حاکم ہونا چاہیے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 December 21 ، 20:56
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

امام زمانؑ کے منتظرین کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو معنوی، اخلاقی اور عملی طور پر تیار کریں، نیز مومنین کے ساتھ دینی، نظریاتی اور عاطفی تعلقات استوار کریں، تاکہ ظالموں سے نمٹنے کے لیے آمادہ ہوں۔(۱)


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 December 21 ، 15:12
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

کچھ لوگ نادانستہ طور پر دین اور سیاست کی علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ یعنی وہ دین کو ویران گوشوں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دیندار افراد صرف نصیحت و وعظ اور درس پر اکتفا کریں! نصیحت یہاں قدرت کے آگے کچھ نہیں کر سکتی۔ جو چیز سپر طاقتوں کو روک سکتی ہے، دھمکا سکتی ہے اور ظلم و فساد کا مقابلہ کر سکتی ہے، اسے اکھاڑ پھینک سکتی ہے یا ہلا سکتی ہے وہ الٰہی اور اسلامی طاقت ہے۔ یہ ایک سیاسی طاقت ہے جو اسلامی حکام کے اختیار میں ہے۔ امام زمان ارواحنا لہ الفداء، اقتدار اور قوت کے ساتھ، اپنے ایمان پر بھروسہ کرتے ہوۓ اور ان کے پیروکاروں اور دوستوں کے ایمان سے جو قدرت حاصل ہوگی اس کے ساتھ دنیا کے ستمکاروں کا گریبان پکڑیں گے اور ان کے محلوں کو ویران کریں گے۔(۱)

 

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 December 21 ، 21:28
عون نقوی

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام سیاسی ہونے چاہیے اس سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عالم دین کے پاس سیاسی تجزیہ تحلیل کرنے کی طاقت ہو۔ میں ہمیشہ طلباء اور اسٹوڈنٹس سے کہتا ہوں، آپ کو بھی یہی عرض کرونگا، اس کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے ہمیں سیاسی ہونا چاہیے۔ لیکن واضح رہے کہ سیاسی ہونے کا مطلب سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں میں شامل ہونا نہیں ہے۔ اس پارٹی یا اس سیاسی جماعت یا گروہ یا پیشہ ور سیاست دانوں کے ساتھ مل جانا سیاسی کھیل تماشہ مراد نہیں۔ یہ ہرگز مقصود نہیں ہے۔ بلکہ عالم دین یا طالب علم کے سیاسی ہونے سے مراد سیاسی بیداری، سیاسی تجزیے کی طاقت ہے، جس کے پاس ایک مضبوط سیاسی قطب نما ہے جو صحیح سمت دکھاسکتا ہے۔ بعض اوقات ہم طالب علم غلطیاں کرتے ہیں۔ ہمارا قطب نما ٹھیک سے کام نہیں کرتا اور صحیح سیاسی جہت کا راستہ نہیں بتاتا۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ سیاسی بصیرت کا حصول ایسی چیز نہیں ہے جو راتوں رات حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو اس کام میں مشغول ہونا ہوگا۔ آپ کو سیاسی مسائل سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی، ملک کے سیاسی واقعات اور دنیا کے سیاسی واقعات کو جاننا ہوگا۔ طلباء کو آج ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ کسی کونے میں سر جھکاۓ بیٹھے رہنا اور ملک و معاشرے کے کاموں سے کوئی سروکار نہ ہونا اور کسی واقعہ، یا حادثہ کا علم نہ ہونا، انسان کو معاشرتی جریانوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری طرف رجوع کرتے ہیں خدانخواستہ اگر لوگوں کو ہم نے ہی کوئی غلط ایڈریس دے دیا یا کوئی ایسی سطحی سیاسی نظر دے دی جو دشمن کو مطلوب ہو تو خود اندازہ لگائیں اس کا کتنا نقصان ہوگا۔ اس لیے آج ہمارے سامنے سب سے اہم کام سیاست سے رابطہ قائم کرنا ہے۔ سیاست سے دستبردار ہونا درست نہیں اور یہ شیعہ علماء کا کام نہیں ہے۔

اصلی متن

اینکه ما میگوییم روحانیون سیاسی باشند، یعنی چه؟ این، آن نکته‌ی اساسی است؛ یعنی قدرت تحلیل سیاسی داشته باشد. من همیشه به دانشجوها و طلبه‌ها میگویم، به شما هم عرض میکنم، و این به همه‌ی روحانیت مربوط میشود: باید سیاسی باشید؛ منتها نه به معنای ورود در باندها و جناحهای سیاسی؛ نه به معنای ملعبه و آلت دست شدن این یا آن حزب یا گروه سیاسی، یا سیاست‌بازان حرفه‌ای؛ این مطلقاً مورد نظر نیست؛ بلکه به معنای آگاهی سیاسی، قدرت تحلیل سیاسی، داشتن قطب‌نمای سالم سیاسی که جهت را درست نشان بدهد. گاهی ما طلبه‌ها اشتباه میکنیم؛ قطب‌نمای ما درست کار نمیکند و جهت‌یابی سیاسی را درست نشان نمیدهد. این، چیزی نیست که به خودی خود و یک شبه به وجود بیاید؛ نه، این مُزاولت در کار سیاست لازم دارد؛ باید با مسائل سیاسی آشنا شوید، حوادث سیاسی کشور را بدانید و حوادث سیاسی دنیا را بدانید. طلبه‌ها امروز به اینها نیاز دارند. یک گوشه‌ای نشستن، سرخود را پایین انداختن، به هیچ کار کشور و جامعه کاری نداشتن و از هیچ حادثه‌ای، پیش‌آمدی، اتفاق خوب یا بدی خبر نداشتن، انسان را از جریان دور میکند. ما مرجع مردم هم هستیم؛ یعنی مورد مراجعه‌ی مردمیم و اگر خدای نکرده یک علامت غلط نشان بدهیم، یا یک چیزی که مطلوب دشمن است بر زبان ما جاری بشود، ببینید چقدر خسارت وارد میکند. بنابراین، یک وظیفه‌ی مهمی که امروز ماها داریم، ارتباط با سیاست است. کناره‌گیری از سیاست درست نیست و کار روحانی شیعه نیست.(۱)

 

صوبہ سمنان کے طلاب سے خطاب


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 December 21 ، 21:09
عون نقوی