بصیرت اخبار

(۱۷۲)

اَلنَّاسُ اَعْدَآءُ مَا جَهِلُوْا.

لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔


انسان جس علم و فن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتا ہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کیلئے اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کرے گا اس سے طبعاً نفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ: کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے، مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا؟ اس نے کہا کہ: چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہو گا جس سے متاثر ہو کر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا چونکہ جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے، اس لئے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔

(۱۷۳)

مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوْهَ الْاٰرَآءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَاِ.

جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:11
عون نقوی

(۱۷۰)

تَرْکُ الذَّنْۢبِ اَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ الْمَعُوْنَۃِ.

ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے آسان ہے۔


اول مرتبہ میں گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد۔ کیونکہ انسان جس چیز کا خو گر ہو جاتا ہے اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا، لیکن اسے چھوڑنے میں لوہے لگ جاتے ہیں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے ضمیر کی آواز کمزور پڑ جاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہنا کہ ’’پھر توبہ کر لیں گے‘‘، اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ابتدا میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے تو گناہ کی مدت کو بڑھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہو جائے گی۔

(۱۷۱)

کَمْ مِّنْ اَکْلَةٍ مَنَعَتْ اَکَلَاتٍ!.

بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہو جاتا ہے۔


یہ ایک مَثَل ہے جو ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ایک فائدہ کے پیچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لینا پڑے۔ جس طرح وہ شخص کہ جو ناموافق طبع یا ضرورت سے زیادہ کھا لے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:08
عون نقوی

(۱۶۸)

اَلْاَمْرُ قَرِیْبٌ وَّ الْاِصْطِحَابُ قَلِیْلٌ.

آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔

(۱۶۹)

قَدْ اَضَآءَ الصُّبْحُ لِذِیْ عَیْنَیْنِ.

آنکھ والے کیلئے صبح روشن ہو چکی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:06
عون نقوی

سوال

کیا ہنگامی حالت میں ہاتھ کی پشت پر سجدہ کرنا جائز ہے؟

جواب

آیت اللہ خامنہ ای:

جس چیز پر وہ سجدہ کر رہا ہے اگر وہ نماز کے بیچ میں گم ہو جائے اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جو سجدہ کے لیے صحیح ہو تو اگر اس کے پاس کافی وقت ہو تو نماز توڑ دے اور سجدہ گاہ کا اہتمام کرے۔ لیکن اگر نماز کا وقت تنگ ہو اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز بھی نہ ہو جس پر سجدہ صحیح ہوتا ہے، یا سردی یا گرمی وغیرہ کی وجہ سے اس پر سجدہ نہیں کر سکتا، تو اگر اس کا لباس کتان کا یا سوتی اور کتان کی کوئی چیز ہو تو ضروری ہے کہ اس پر سجدہ کرے، اور اگر اس کے پاس ایسا کپڑا نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر ہاتھ کی پشت پر سجدہ کرے۔

آیت اللہ سیتانی:

اگر اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ صحیح ہے یا اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس پر وہ شدید سردی یا گرمی وغیرہ کی وجہ سے سجدہ نہیں کر سکتا تو کپڑوں پر سجدہ کیا جائے یا کسی بھی چیز پر سجدہ پر کر سکتا ہے جس پر عمومی حالات میں سجدہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ لیکن احتیاط مستحب ہے کہ جب تک لباس پر سجدہ کرنا ممکن ہو کسی اور چیز پر سجدہ نہ کرے۔


۱۔ سائٹ ہدانا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 17:55
عون نقوی

(۱۶۶)

لَا یُعَابُ الْمَرْءُ بِتَاْخِیْرِ حَقِّهٖ، اِنَّمَا یُعَابُ مَنْ اَخَذَ مَا لَیْسَ لَهٗ.

اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جا سکتا، بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

(۱۶۷)

اَلْاِعْجَابُ یَمْنَعُ مِنَ الْاِزْدِیَادِ.

خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے۔


جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کیلئے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کر چکا ہے اب اسے کوئی منزل نظر ہی نہیں آتی کہ اس کیلئے تگ و دو کرے چنانچہ یہ خود پسند و بر خود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسندی اس کیلئے ترقی کی راہیں مسدود کر دے گی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 23 ، 14:16
عون نقوی