بصیرت اخبار

سیاسی افکار

انواع حکومت بر اساس تعداد حاکم

تحریر :عون نقوی
02/11/2023

 

حکومت کے لغوی معنی فرمان جاری کرنے یا حکمرانی کرنے کے ہیں۔ اور اصطلاح میں حکومت سے مراد عمومی طور پر ملکی سیاست کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ مفکرین سیاسی حکومت کو مختلف جہات سے تقسیم کرتے ہیں۔ ایک تقسیم بر اساس تعداد حاکم ہے۔ اس تقسیم کو سمجھنا سیاسی تجزیہ تحلیل کرنے اور ملک کے سیاسی حالات سمجھنے میں بہت مفید ہے۔ بنیادی طور پر اس تقسیم میں تین صورتیں بنتی ہیں جو اختصار کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔

حکومت فردی

اس طرز حکومت میں ایک شخص حاکم ہوتا ہے۔ حکومت فردی کی دو قسمیں ہیں:
۱۔مونارشی:  اس سے مراد ایک ایسے شخص کی حکومت ہے جو صرف اپنی منفعت کا نہیں سوچتا بلکہ بقول افلاطون اس طرز حکومت میں شخصِ حاکم پیرو قانون ہوتا ہے اور اس کے مدنظر منفعت عمومی ہوتی ہے۔[1]
۲۔تیرانی: اس سے مراد ایک ایسے شخص واحد کی حکمرانی ہے جو ذاتی منفعت پر حکمرانی کرتا ہے۔ حکومت کو چلانے کے لیے خود قانون بناتا ہے۔ یہ طرز حکومت عمومی طور پر موروثی ہوتی ہے۔

حکومت گروہی

بادشاہت کے بعد تاریخ بشریت میں سب سے زیادہ یہ طرز حکومت رائج رہا ہے۔ حتی بادشاہی نظام میں بھی ممکن ہے ظاہر میں ایک شخص حاکم ہو لیکن پیچھے ایک چھوٹا سا طاقتور گروہ ہوتا ہے جو بادشاہت کو چلا رہا ہوتا ہے اور اصل قدرت اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس طرز حکومت کو اقلیت کی حکومت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ گروہ اپنی فکری یا طبقاتی برتری کا قائل ہوتا ہے۔ اس حکومت کی تین صورتیں متصور ہیں:
۱۔ارستوکریسی: اس طرز حکومت میں ایک قلیل گروہ ملکی سیاست کی مدیریت کرتا ہے۔ یہ قلیل گروہ اشرافی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی انواع حکومت کی طبقہ بندی میں اس طرز حکومت کا ذکر ہے۔ ارسطو اس طرز حکومت کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں ایک قلیل گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔[2]
۲۔الیگارشی: یہ طرز حکومت ارستوکریسی کی فاسد شکل ہے۔ حکومت قلیل گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ان کا مبناء سیاست ثروت ہوتا ہے۔ مغربی ڈیموکریسی پر نقد کرنے والے مفکرین از جملہ جوزف شومپیٹر کا اعتراض یہ ہے کہ یہ ڈیموکریسی کے نام پر الیگارشک سسٹم ہےجس میں سرمایہ دار گروہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
۳۔حاکمیت نخبگان: علوم سیاسی کے معاصرین گروہی حکومت میں ایک طرز حکومت کا اضافہ کرتے ہیں جس کو حکومت نخبگان کہتے ہیں۔ (Elite Theory) نظریہ نخبگان کے مطابق ہر معاشرے میں فکری، سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر چند شخصیات ابھر آتی ہیں جو سیاسی مقتدرین کے قریب ہوتی ہیں اور ملکی سیاست میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔ 
واضح رہے کہ اکثر ممالک جن میں ڈیموکریسی موجود ہے ان ممالک کے سیاسی مفکرین کے مطابق حقیقت میں پشت پردہ یا الیگارشک سسٹم حاکم ہے یا یہی حاکمیت نخبگان۔ یہ نخبگان الیگارشک طبقات کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں، اپنا قلیل نفع حاصل کر کے عوام کو بیچارہ کرتے ہیں۔ 

حکومت جمہوری

ظاہری طور پر اس نظام میں حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہے۔ حکومت محدود مدت کے لیے انتخاب ہوتی ہے، عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومت کی مدت ختم ہوتی ہے تو وہ ذمہ دارہوتی ہے کہ دوبارہ ووٹنگ کرواۓ اور حکومتی مناصب اگلی منتخب عوامی حکومت کے حوالے کرے۔ اس طرز حکومت کی دو شکلیں مشہور ہیں:
۱۔ریاستی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت مستقیم طور پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ عوامی ووٹ سے منتخب شدہ صدر اپنی کابینہ بناتا ہے اور مختلف وزارتوں پر افراد کو منصوب کرتا ہے۔ ریاستی جمہوری سسٹم میں صدر مملکت کو قوہ مقننہ پر مافوق قرار نہیں دیا جاتا بلکہ اگر صدر مملکت ملکی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قوہ قانونگذار اس کو محاکمہ کر سکتی ہے۔
۲۔پارلیمانی جمہوری: اس طرز حکومت میں صدر مملکت عوام کے مستقیم طور پر ووٹ سے منتخب نہیں ہوتااورا س کا عہدہ تشریفاتی ہوتا ہے ۔ عوام پارلیمنٹ کے ارکان کو ووٹ دے کر چنتی ہے۔ جس سیاسی حزب کے نمائندے زیادہ منتخب ہوتے ہیں وہ حزب اپنا نمائندہ پیش کرتی ہے جو حکومت کا سربراہ قرار پاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوری کا ریاستی جمہوری سے بنیادی فرق یہی ہے کہ اس طرز حکومت میں حکومت کا سربراہ مستقیم عوام کے ووٹ سے نہیں بنتا بلکہ عوامی نمائندوں کے انتخاب سے بنتا ہے۔ حکومتی وزراء مجلس مقننہ کے عضو ہوتے ہیں۔[3]
وطن عزیز پاکستان میں ظاہری طور پر پارلیمانی جمہوری نظام حاکم ہے۔

منابع:

 

1 سائٹ البر۔
2 سائٹ البر۔
3 شجاعی، ہادی، مبانی علم سیاست، ص۵۳الی۵۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:47
عون نقوی

(۱۸۰)

اَلطَّمَعُ رِقٌّ مُّؤَبَّدٌ.

لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

ثَمَرَةُ التَّفْرِیْطِ النَّدَامَةُ، وَ ثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اور احتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:19
عون نقوی

(۱۷۸)

اُحْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَیْرِکَ بِقَلْعِهٖ مِنْ صَدْرِکَ.

دوسرے کے سینہ سے کینہ و شر کی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو۔

(۱۷۹)

اَللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّاْیَ.

ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کر دیتی ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:17
عون نقوی

(۱۷۶)

اٰلَةُ الرِّیَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

(۱۷۷)

اُزْجُرِ الْمُسِیْٓءَ بِثوَابِ الْـمُحْسِنِ.

بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔


مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگاتا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:15
عون نقوی

(۱۷۴)

مَن اَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلّٰهِ قَوِیَ عَلٰى قَتْلِ اَشِدَّآءِ الْبَاطِلِ.

جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب تیز کرتا ہے وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔


جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کر سکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سید نعمت جزائری علیہ الرحمہ نے ’’زہر الربیع‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ: ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبۂ دینی سے متاثر ہو کر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا۔ اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ اس مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب؟ وہ جانیں اور ان کا کام۔ مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا۔ جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کر ہی گزرے گا تو اس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے۔ یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہوا تو درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے، مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

(۱۷۵)

اِذَا هِبْتَ اَمْرًا فَقَعْ فِیْهِ، فَاِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّیْهِ اَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْهُ.

جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لئے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔


 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 15:13
عون نقوی