بصیرت اخبار

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ خَالِقِ الْعِبَادِ، وَ سَاطِحِ الْمِهَادِ، وَ مُسِیْلِ الْوِهَادِ، وَ مُخْصِبِ النِّجَادِ، لَیْسَ لِاَوَّلِیَّتِهِ ابْتِدَآءٌ، وَ لَا لِاَزَلِیَّتِهِ انْقِضَآءٌ، هُوَ الْاَوَّلُ لَمْ یَزَلْ، وَ الْبَاقِیْ بِلَاۤ اَجَلٍ. خَرَّتْ لَهُ الْجِبَاهُ، وَ وَحَّدَتْهُ الشِّفَاهُ، حَدَّ الْاَشْیَآءَ عِنْدَ خَلْقِهٖ لَهَاۤ اِبَانَةً لَّهٗ مِنْ شَبَهِهَا، لَا تُقَدِّرُهُ الْاَوْهَامُ بِالْحُدُوْدِ وَ الْحَرَکَاتِ، وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْاَدَوَاتِ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو بندوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، ندی نالوں کا بہانے والا اور ٹیلوں کو سر سبز و شاداب بنانے والا ہے۔ نہ اس کی اوّلیت کی کوئی ابتدا اور نہ اس کی ازلیت کی کوئی انتہا ہے۔ وہ ایسا اوّل ہے جو ہمیشہ سے ہے اور بغیر کسی مدت کی حد بندی کے ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پیشانیاں اس کے آگے (سجدہ میں) گری ہوئی ہیں اور لب اس کی توحید کے معترف ہیں۔ اس نے تمام چیزوں کو ان کے پیدا کرنے کے وقت ہی سے (جداگانہ صورتوں اور شکلوں میں) محدود کر دیا تاکہ اپنی ذات کو ان کی مشابہت سے الگ رکھے۔ تصورات اسے حدود و حرکات اور اعضاء و حواس کے ساتھ متعین نہیں کر سکتے۔

لَا یُقَالُ لَهٗ:«مَتٰی»؟ وَ لَا یُضْرَبُ لَهٗ اَمَدٌ «بِحَتّٰی»، الظَّاهِرُ لَا یُقَالُ: «مِمَّا»؟ وَ الْبَاطِنُ لَا یُقَالُ: «فِیْمَا»؟.

اس کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’وہ کب سے ہے‘‘ اور نہ یہ کہہ کر اس کی مدت مقرر کی جا سکتی ہے کہ ’’وہ کب تک ہے‘‘۔ وہ ظاہر ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’کس سے (ظاہر ہوا)‘‘ وہ باطن ہے مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’کس میں‘‘۔

لَا شَبَحٌ فَیَتَقَضّٰی، وَ لَا مَحْجُوْبٌ فَیُحْوٰی، لَمْ یَقْرُبْ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْتِصَاقٍ، وَ لَمْ یَبْعُدْ عَنْهَا بِافْتِرَاقٍ، لَا یَخْفٰی عَلَیْهِ مِنْ عِبَادِهٖ شُخُوْصُ لَحْظَةٍ، وَ لَا کُرُوْرُ لَفْظَةٍ، وَ لَا ازْدِلَافُ رَبْوَةٍ، وَ لَا انْبِسَاطُ خُطْوَةٍ فِیْ لَیْلٍ دَاجٍ، وَ لَا غَسَقٍ سَاجٍ، یَتَفَیَّاُ عَلَیْهِ الْقَمَرُ الْمُنِیْرُ، وَ تَعْقُبُهُ الشَّمْسُ ذَاتُ النُّوْرِ فِی الْاُفُوْلِ وَ الْکُرُوْرِ، وَ تَقَلُّبِ الْاَزْمِنَةِ وَ الدُّهُوْرِ، مِنْ اِقْبَالِ لَیْلٍ مُّقْبِلٍ، وَاِدْبَارِ نَهَارٍ مُّدْبِرٍ.

وہ نہ دور سے نظر آنے والا کوئی ڈھانچہ ہے کہ مٹ جائے اور نہ کسی حجاب میں ہے کہ محدود ہو جائے۔ وہ چیزوں سے اس طرح قریب نہیں کہ ساتھ چھو جائے اور نہ وہ جسمانی طور پر ان سے الگ ہو کر دور ہوا ہے۔ اس سے کسی کا ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، کسی لفظ کا دہرایا جانا، کسی بلندی کا دور سے جھلکنا اور کسی قدم کا آگے بڑھنا پوشیدہ نہیں ہے۔ نہ اندھیری راتوں میں اور نہ چھائی ہوئی اندھیاریوں میں کہ جن پر روشن چاند اپنی کرنوں کا سایہ ڈالتا ہے اور نورانی آفتاب طلوع و غروب (کے چکروں) میں اور زمانہ کی ان گردشوں میں اندھیرے کے بعد نور پھیلاتا ہے کہ جو آنے والی رات اور جانے والے دن کی آمد و شد سے (پیدا) ہوتی ہیں۔

قَبْلَ کُلِّ غَایَةٍ وَّ مُدَّةٍ، وَ کُلِّ اِحْصَآءٍ وَعِدَّةٍ، تَعَالٰی عَمَّا یَنْحَلُهُ الْمُحَدِّدُوْنَ مِنْ صِفَاتِ الْاَقْدَارِ، وَ نِهَایَاتِ الْاَقْطَارِ، وَ تَاَثُّلِ الْمَسَاکِنِ، وَتَمَکُّنِ الْاَمَاکِنِ، فَالْحَدُّ لِخَلْقِهٖ مَضْرُوْبٌ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ مَنْسُوْبٌ.

وہ ہر مدت و انتہا اور ہر گنتی اور شمار سے پہلے ہے۔ اسے محدود سمجھ لینے والے جن اندازوں اور اطراف و جوانب کی حدوں اور مکانوں میں بسنے اور جگہوں میں ٹھہرنے کو اس کی طرف منسوب کر دیتے ہیں وہ ان نسبتوں سے بہت بلند ہے۔ حدیں تو اس کی مخلوق کیلئے قائم کی گئی ہیں اور دوسروں ہی کی طرف ان کی نسبت دی جایا کرتی ہے۔

لَمْ یَخْلُقِ الْاَشْیَآءَ مِنْ اُصُوْلٍ اَزَلِیَّةٍ، وَ لَا مِنْ اَوَآئِلَ اَبَدِیَّةٍ، بَلْ خَلَقَ مَا خَلَقَ فَاَقَامَ حَدَّهٗ، وَ صَوَّرَ مَا صَوَّرَ فَاَحْسَنَ صُوْرَتَهٗ، لَیْسَ لِشَیْءٍ مِّنْهُ امْتِنَاعٌ، وَ لَا لَهٗ بِطَاعَةِ شَیْءٍ انْتِفَاعٌ، عِلْمُهٗ بِالْاَمْوَاتِ الْمَاضِیْنَ کَعِلْمِهٖ بِالْاَحْیَآءِ الْبَاقِیْنَ، وَ عِلْمُهٗ بِمَا فِی السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی کَعِلْمِهٖ بِمَا فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰی.

اس نے اشیاء کو کچھ ایسے مواد سے پیدا نہیں کیا کہ جو ہمیشہ سے ہو اور نہ ایسی مثالوں پر بنایا کہ جو پہلے سے موجود ہوں، بلکہ اس نے جو چیز پیدا کی اسے مستحکم کیا اور جو ڈھانچہ بنایا اسے اچھی شکل و صورت دی۔ کوئی شے اس کے (حکم سے) سرتابی نہیں کرسکتی، نہ اس کو کسی کی اطاعت سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اسے پہلے مرنے والوں کا ویسا ہی علم ہے جیسا باقی رہنے والے زندہ لوگوں کا اور جس طرح بلند آسمانوں کی چیزوں کو جانتا ہے ویسے ہی پست زمینوں کی چیزوں کو پہچانتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اَیُّهَا الْمَخْلُوْقُ السَّوِیُّ، وَ الْمُنْشَاُ الْمَرْعِیُّ، فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْحَامِ، وَ مُضَاعَفَاتِ الْاَسْتَارِ، بُدِئْتَ ﴿مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۝﴾، وَ وُضِعْتَ ﴿فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍۙ۝ اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍۙ۝﴾ وَّ اَجَلٍ مَّقْسُوْمٍ، تَمُوْرُ فِیْ بَطْنِ اُمِّکَ جَنِیْنًا لَّا تُحِیْرُ دُعَآءً، وَ لَا تَسْمَعُ نِدَآءً، ثُمَّ اُخْرِجْتَ مِنْ مَّقَرِّکَ اِلٰی دَارٍ لَّمْ تَشْهَدْهَا، وَ لَمْ تَعْرِفْ سُبُلَ مَنَافِعِهَا، فَمَنْ هَدَاکَ لِاجْتِرَارِ الْغِذَآءِ مِنْ ثَدْیِ اُمِّکَ؟ وَ عَرَّفَکَ عِنْدَ الْحَاجَةِ مَوَاضِعَ طَلَبِکَ وَ اِرَادَتِکَ؟ هَیْهَاتَ، اِنَّ مَنْ یَّعْجِزُ عَنْ صِفَاتِ ذِی الْهَیْئَةِ وَ الْاَدَوَاتِ فَهُوَ عَنْ صِفَاتِ خَالِقِهٖۤ اَعْجَزُ، وَ مِنْ تَنَاوُلِهٖ بِحُدُوْدِ الْمَخْلُوْقِیْنَ اَبْعَدُ!.

اے وہ مخلوق کہ جس کی خلقت کو پوری طرح درست کیا گیا ہے اور جسے شکم کی اندھیاریوں اور دوہرے پردوں میں بنایا گیا ہے اور ہر طرح سے اس کی نگہداشت کی گئی ہے، تیری ابتدا مٹی کے خلاصہ سے ہوئی اور تجھے جانے پہچانے ہوئے وقت اور طے شدہ مدت تک ایک جماؤ پانے کی جگہ میں ٹھہرایا گیا کہ تو جنین ہونے کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پھرتا تھا۔ نہ تو کسی پکار کا جواب دیتا تھا اور نہ کوئی آواز سنتا تھا۔ پھر تو اپنے ٹھکانے سے ایسے گھر میں لایا گیا کہ جو تیرا دیکھا بھالا ہوا نہ تھا اور نہ اس سے نفع حاصل کرنے کے طریقے پہچانتا تھا۔ کس نے تجھ کو ماں کی چھاتی سے غذا حاصل کرنے کی راہ بتائی؟ اور ضرورت کے وقت طلب مقصود کی جگہ پہچنوائیں؟۔ بھلا جو شخص ایک صورت و اعضاء والی مخلوق کے پہچاننے سے بھی عاجز ہو وہ اس کے پیدا کرنے والے کی صفات سے کیسے عاجز و درماندہ نہ ہو گا اور کیونکر مخلوقات کی سی حد بندیوں کے ساتھ اسے پالینے سے دور نہ ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 24 February 23 ، 15:07
عون نقوی

{فرمودات رہبر معظم}

بعثت کے متعلق رہبر معظم کے ۲۰فرمودات

ترجمہ :عون نقوی
02/11/2023

 

۱۔ یوم مبعث سال کے تمام دنوں سے افضل اور عظیم و بابرکت ترین دن ہے۔ ہمیں اس دن کو یاد اور اس کی عظمت کو مجسم کرنا چاہئے۔
۲۔ بعثت کا مطلب بشر کی نجات اور بنی نوع انسان کی نجات کے لیے انگیزہ بیدار کرنا ہے۔ اس سے مراد انسانی معاشرے کے درمیان نظام عدل و انصاف کا قیام ہے۔
۳۔ جشن بعثت اور اس دن کی یاد منانا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے اہداف کو دوبارہ یاد کرین اور اس سے سبق حاصل کریں۔ 
۴۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی اور دنیا میں رسول اللہﷺ کی بعثت کے ہدف کو درک کرے۔ اور ایمان و عمل سے ان اہداف کی طرف بڑھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے اہدف تھے۔
۵۔ آج ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ دنیا کو بعثت کی حقیقت سے آگاہ کریں۔
۶۔ انقلاب اسلامی رسول اللہ کی بعثت کا تسلسل تھا، اسلامی جمہوریہ رسول اللﷺ کی بعثت کا تسلسل ہے۔ جو شخص اسلامی انقلاب کا دشمن ہے وہ اسلام کے آغاز کے دشمنوں کی طرح اسلامی بعثت اور توحیدی تحریک کا دشمن ہے۔
۷۔ آج بھی حضورﷺ بعثت پر ہیں۔ [یعنی] یہ جو آپ قرآن پڑھتے ہیں، اسلامی تعلیمات سے درس لیتے ہیں، انگیزہ پیدا کرتے ہیں یا تحریک چلاتے ہیں، یہ سب پیغمبرﷺ کے بعثت کا تسلسل ہے۔
۸۔ ایران میں عظیم اسلامی انقلاب نے عصر حاضر میں بعثت کے موضوع کی تجدید کی۔ خداوند متعال نے امام(خمینی) کو اس دور میں ان کی پیش قدمی، جرأت، بلند فکر اور فداکاری کی بنا پر یہ توفیق دی کہ وہ خط نبوت کے تسلسل کو اجاگر کریں اور اس کو پررنگ بنا دیں۔
۹۔ بعثت کے مدمقابل جہالت کا محاذ ہے۔ جہالت کسی ایک تاریخی دور سے مختص نہیں ہے بلکہ جہالت ابھی بھی جاری ہے اس لیے بعثت بھی جاری ہے۔
۱۰۔ مرحلہ اول میں بعثت کی تحریک شعب ابی طالب کی طرح تین سال سختیاں برداشت کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس مرحلہ اول کی استقامت معاشرے میں ایک ایسی استقامت پیدا کر دیتی ہے کہ افراد اس پر صبر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہی مرحلہ امت اسلامی کو بیدار کر دیتا ہے اور اسی کو بعثت امت اسلامی بھی کہہ سکتے ہیں۔
۱۱۔ رسول اللہﷺ نے لوگوں کو تحریک چلانے اور قیام کرنے کی دعوت دی۔ انسانی زندگی کے تمام حالات میں قیام براۓ خدا کارساز ہے اور اس کی طرف حرکت کیے بغیر اور قیام کے بغیر کسی بھی عالی ہدف تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
۱۲۔ انبیاء کی بعثت کا ہدف ایک صالح معاشرے کا قیام اور تہذیب و تمدن کی تشکیل ہے۔
۱۳۔ بعثت اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لایا جا سکے۔
۱۴۔ رسول اللہﷺ کی بعثت درحقیقت رحمت کی بعثت تھی۔ اس بعثت کے ساتھ خدا کی رحمت بندوں کو شامل حال ہوئی۔ اس نے انسانوں کے لیے راستے کھول دیے اور عدل و سلامتی و امنیت کا ذکر معاشرے میں عام کیا۔
۱۵۔ رسول اللہﷺ کی بعثت کا بنیادی ہدف توحید تھا۔ توحید صرف ایک فلسفیانہ اور فکری نظریہ  نہیں ہے بلکہ توحید ایک روش زندگی ہے۔ توحید یعنی اپنی زندگی میں ایک خدا کی حاکمیت ہو اور انسانوں پر مختلف سپر پاور کی حاکمیت نا ہو۔
۱۶۔ انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوۓ، وہ اس لیے مبعوث ہوۓ تاکہ لوگوں کو اوج کمال تک پہنچائیں اور یہ خدا کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اس تحریک کا عروج رسول اللہﷺ کی بعثت تھی۔
۱۷۔ عید بعثت انسانی تکالیف و مصائب کو دور کرنے کی عید ہے اس لیے حقیقتا اسے عید کہہ سکتے ہیں۔ غیر خدا کی بندگی، ظلم اور بے عدالتی کا استقرار، لوگوں کے مابین فاصلاتی طبقات، محروم طبقے کے رنج و غم، اور ظالمین کے ظلم و ستم وغیرہ یہ وہ مصائب ہیں جو ہمیشہ سے بشر کے ہمراہ رہے ہیں۔
۱۸۔ تاریخ بشریت میں اہمیت کے لحاظ سے رسول اللہﷺ کی بعثت تمام چھوٹے بڑے واقعات میں سرفہرست ہے۔
۱۹۔ ہر نبی کی ولادت اور اس کی بعثت کا دن بنی نوع انسان کے لیے عید کا دن ہے۔ انبیاء نے انسانوں کے لیے زندگی کو آمادہ کیا اور اسے ارتقاء دے کر زندگی کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ رسول اللہﷺ خاتم النبیین اور انسانیت کے لیے آخری اور نہ ختم ہونے والے کلمہ کے علمبردار ہیں۔
۲۰۔ شاید یہ کہا جاسکے کہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی بعثت ایک ایسا واقعہ ہے جس کا موازنہ انسانی خلقت کے واقعہ سے کیا جانا چاہیے۔[1]

منابع:

1 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 18 February 23 ، 12:32
عون نقوی

ایک اچھے تحقیقی عنوان کی خصوصیات

۱۔ سپیشلائزیشن سے مربوط

۲۔ پریکٹیکل ہو

۳۔ معاشرے کی ضرورت کے مطابق

۴۔ جدید مطالعات سے مروبط

۵۔ قابل تحقیق 

۶۔ تحقیق کے منابع دسترس میں ہونا

۷۔ تکراری نا ہو۔

 

نوٹ

ganj.irandoc.ac.ir پر جا کر چیک کر سکتے ہیں کہ آپ کا عنوان پہلے کسی نے تحقیق کیا ہے یا نہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 February 23 ، 10:33
عون نقوی

سیاسی افکار

افلاطون کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

یونانی فلاسفہ کے نظریات ہر دور میں توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سیاسی مفکرین آج بھی ان کے نظریات سے خود کو بے نیاز نہیں سمجھتے۔ افلاطون ان افراد میں سے ہے ہیں جن سے اسلامی فلاسفہ بھی متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکے۔ حکومت کے بارے میں افلاطون کا نظریہ کیا تھا اور انہوں نے حکومت کی کتنی انواع بیان کی ہیں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاۓ گا۔

افلاطون کی نظر میں حکومت

افلاطون کی نظر میں اچھے حاکم کا معیار فلسفہ و ہنر سیاست کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی حکمران فیلسوف نہیں ہے اور سیاست کے ہنر کو نہیں جانتا اسے حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ افلاطون کی نظر میں حکمران کو فیلسوف ہونا چاہیے۔ فیلسوف وہ شخص ہے جو صاحب حکمت و تدبیر ،اخلاقی طور پر شجاع ہےاور عدل و انصاف سے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اس لیے تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔[1]

 انواع حکومت

افلاطون نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتا ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اپنی نظر کو مسلط کرتا ہے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
ان دو قسموں میں ایک گروہ کی حکومت ہے۔

۵۔ اچھی ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کرتے ہیں۔
۶۔ بری ڈیموکریسی: جس میں حکومت عام عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی نہیں کرتے۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔

 مطلوب ترین حکومت

افلاطون کی نظر میں مطلوب ترین حکومت مونارشی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں مونارشی قائم ہو جاۓوہ مدینہ فاضلہ کا مصداق بن جاۓ گا۔ لیکن اگر مونارشی قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم اریستوکریسی قائم ہونی چاہیے۔ بے شک اقتدار چند افراد میں تقسیم ہو جاۓ لیکن وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی کریں۔ اگر اریستوکریسی بھی قائم نہیں ہو سکتی تو پھر اچھی ڈیموکریسی قائم کریں۔ واضح رہے کہ اچھی ڈیموکریسی اگر قائم ہو جاۓ تو تب بھی اس کا درجہ مطلوب حکومتوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔

نامطلوب ترین حکومت

اس کے برعکس سب سے بد ترین حکومت استبدادی حکومت ہے جس میں صرف ایک شخص حاکم ہے اور وہ فیلسوف کے قانون کی پیروی بھی نہیں کرتا۔ نامطلوب حکومتوں میں دوسرا نمبر الیگارشی کا ہے جس میں ایک گروہ پوری مملکت پر مسلط ہو جاتا ہے اور کسی اقدار و قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ اورتیسرا نمبر بری ڈیموکریسی کا ہےجس میں حکومت ایک شخص یا کسی گروہ کے قبضہ میں نہیں ہے۔ یہ طرز حکومت الیگارشی اور استبدادی سے پھر بھی بہتر ہے۔ کیونکہ اس حکومت میں کم از کم اقتدار کو تقسیم کردیا گیا ہے اگر یہی قدرت ایک گروہ یا خدانخواستہ ایک شخص کے ہاتھ لگ جاۓ بدترین نوع حکومت وجود میں آتی ہے۔[2]

منابع:

1 افلاطون، دوره آثار افلاطون، ج۲، ص۱۰۱۶، ترجمہ محمدحسن لطفی و رضا کاویانی۔
2 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۵۵۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 19:01
عون نقوی

سیاسی افکار

ارسطو کی نظر میں انواع حکومت

تحریر: عون نقوی 

 

ارسطو ۳۸۴سال قبل از مسیح یونان کے شہر استاگیرا میں پیدا ہوۓ۔ سترہ سال کی عمر میں افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہوۓ۔ ارسطو کے فلسفہ سیاسی میں افلاطون کے نظریات کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ارسطو نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں اخلاق نیکوماخوس (Nicomachean Ethics)، سیاست اور کتاب اصول حکومت آتن فلسفہ سیاسی ارسطو سے مربوط ہیں۔

ارسطو کی نظر میں سیاست

ارسطو کی نظر میں سیاست کی غایت خیر اعلی ہے۔ خیر کی دو اقسام ہیں:
۱۔ خیر براے غیر: یہ خیر خود مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی اور خیر کے لیے چاہا جاتا ہے۔
۲۔ خیر براۓ خود: یہ خیر کسی اور خیر کے لیے نہیں بلکہ خود مطلوب ہوتا ہے۔ بلکہ اور خیر بھی اس خیر تک پہنچنے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ اسے خیر اعلی بھی کہتے ہیں۔ سیاست کی غایت و ہدف یہی خیر اعلی ہے۔ سیاست تعیین کرتی ہے کہ معاشرے میں کونسے علوم اور ہنر ہوں۔ کس طبقے کو کس حد تک علوم و ہنر سیکھنے چاہئیں یہ بھی سیاست تعیین کرتی ہے۔ اسی طرح سے مملکت کا نظام، دفاع، اقتصاد اور فنون دیگر سب سیاست کے تابع ہیں۔ سیاست اہم ترین و بہترین علم ہے جس کا موضوع خیر اعلی بہترین موضوعات میں سے ہے۔

انواع حکومت

ارسطو نے حکومت کی چھ قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔حکومت مونارشی:  جس میں ایک فرد حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہے۔
۲۔ حکومت استبدادی: جس میں ایک فرد حاکم ہے لیکن اسے صرف ذاتی منفعت چاہیے۔
پہلی دو قسموں میں ایک فرد کی حکومت ہے۔

۳۔ حکومت اریستوکریسی: جس میں ایک قلیل  گروہ مشترک طور پر حاکم ہے اور وہ منفعت عمومی کے لیے کوشاں ہیں۔
۴۔ حکومت الیگارشی: جس میں ایک گروہ کی حکومت ہے اور وہ صرف اپنی ذاتیات کی منفعت کے لیے کوشاں ہیں۔
ان دو قسموں میں اقلیت کی حکومت ہے۔

۵۔ جمہوری یا پولیٹی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سب عوام کے منافع کے لیے کوشاں ہیں ۔
۶۔ ڈیموکریسی: جس میں حکومت اکثریت عوام کے ہاتھوں میں ہے اور صرف اکثریت کے منفعت کے خواہاں ہیں۔
آخری دو قسموں میں جمہوریت ہے جس میں عوام الناس شامل ہے۔ جمہوری اور ڈیموکریسی کی حکومت میں فرق یہ ہے  کہ جمہوری حکومت میں اگرچہ اکثریت کی حکومت ہے لیکن وہ اکثریت ملک کی تمام اقلیتوں کا بھی خیال رکھتی ہے اور اس طرز حکومت میں تمام افراد برابر ہیں چاہے وہ اکثریت میں شامل ہوتے ہیں یا اقلیت میں۔ اس کے برعکس جمہوری حکومت صرف اکثریت کے منافع کو دیکھتی ہے اوراقلیت کو نظر انداز کرتی ہے۔[1]


منابع:

1 قربانی، مہدی، تاریخ اندیشہ سیاسی غرب، ص۶۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 February 23 ، 18:58
عون نقوی