بصیرت اخبار

حضرت جونؓ حضرت ابوذر غفارىؓ کے غلام تھے ۔یہ حبشى تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ ہمیشہ اہل بیتؑ سے وابستہ رہے۔ عاشور کے روز امامؑ کى خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کى :مولا! مجھے بھى لڑنے کى اجازت مرحمت فرمائیں۔ امام نے فرمایا :نہیں! اس وقت تمہارے لئے مناسب ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور اس واقعے کے بعد اس دنیا کى نعمتوں سے لطف اندوز ہو، اب تک ہمارے خاندان کى جو خدمت کى وہ کافى ہے۔ ہم تم سے راضى ہیں۔ جون نے اپنى درخواست کو پھر دہرایا۔ امام حسین ؑ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ جونؑ نے امام عالى مقام کے پاؤں پکڑ لئے اور انہیں چومنے لگے اور بولے: مولاؑ ! مجھے محروم نہ فرمائیں۔ پھر انہوں نے ایک ایسا جملہ کہاجسے سن کر امامؑ نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا۔ 

جون ؑ نے عرض کى:

مولاؑ! میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دے رہے!! کہاں میں اور کہاں یہ خوش بختى! اس سیاہ رنگ ، گندے خون اور بدبودار جسم کے ساتھ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں! ایسى کوئى بات نہیں، تم میدان جاسکتے ہو۔

 جونؑ رِجز پڑھتے ہوۓ میدان میں وارد ہوۓ اور لڑتے ہوۓ شہید ہوگئے ۔

امام حسین ؑ ان کے سرہانے پہنچے اور دعا فرمائى! : 
اے پروردگار ! اس کا (اگلے) جہاں میں چہرہ سفید اور اس کى بو پسندیدہ بنادے ۔اسے ابرار کے ساتھ محشور فرما، اس دنیا میں اس کے اور آل محمد ؐ کے درمیان کامل آشنائى پیدا کردے
حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص:٢٤٤. 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:15
عون نقوی

گیارہ محرم ۶۱ہجری تقریبا ظہر تک یزیدی لشکر پلید کوفیوں کے اجساد دفن کرنے میں مصروف رہا۔ ایسے میں فرزند رسولﷺ و جگر گوشہ فاطمہؑ اور ان کے پاک اصحاب کے لاشے زیر آسمان موجود تھے اور ان کو کسی نے دفن نہ کیا۔ ابن سعد نے حکم دیا کہ شہداء کربلا کے سر ان کے بدنوں سے جدا کیے جائیں تاکہ کوفہ میں ابن زیاد سے انعام اور تقرب مل سکے۔ یہ پاک و پاکیزہ سر مختلف قبیلوں میں اس ترتیب کے ساتھ تقسیم ہوۓ:

۱۔ قیس بن اشعث کی سربراہی میں کندہ قبیلہ ۱۳ سر۔

۲۔ شمر بن ذی الجوشن کی سربراہی میں قبیلہ ہوازن ۱۲سر۔

۳۔ قبیلہ تمیم ۱۷سر۔

۴۔ قبیلہ بنی اسد ۹سر۔

۵۔ قبیلہ مذحج ۷سر۔
۶۔ بقیہ قبائل ۱۳سر۔ (۱)

عمر سعد اپنے سپاہیوں کے اجساد کو دفن کرنے کے بعد اسراء کو ساتھ ملا کر ۱۱ محرم کو کربلا سے کوفہ کی طرف نکل جاتا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ اسیروں میں ۱۲ بچے و جوان تھے۔ (۲)

 جبکہ اسیر خواتین میں ان بی بیوں کے نام شامل ہیں:
زینب کبری سلام اللہ علیہا، ام کلثوم سلام اللہ علیہا، سکینہ بنت حسینؑ۔ (۳)  

بی بی رباب ہمسر امام حسینؑ (۴)

 بی بی رملہ حضرت قاسمؑ کی مادر گرامی و امام حسن مجتبیؑ کی زوجہ۔ (۵) اس کے علاوہ بعض دیگر شہداۓ کربلا کی اسیر خواتین بھی موجود تھیں۔

 یہ وہ عترت رسول اللہ ﷺ کے بچے ہوۓ افراد تھے جنہیں ابن سعد اور اس کے سپاہی تمام جسارت اور بے حرمتی سے کوفہ کی طرف لے گئے۔ ۱۱ محرم کے سخت و دشوار ترین لحظات میں سے بلکہ تاریخ کربلا کا سنگین ترین وقت وہ ہے جب اسیروں کا یہ قافلہ اپنے عزیزوں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوۓ اجساد سے وداع کرتا ہے۔ دشمن کی فوج نے عمدا اس قافلے کو اس جگہ سے گزارا جہاں پر ان کے عزیز ترین افراد بے گور و کفن آسمان کے نیچے اپنی حقانیت و در عین حال مظلومیت و عزت کا علم بنے ہوۓ تھے۔ البتہ بعض تواریخ میں آیا ہے کہ خود اسیران اہلیبتؑ کی جانب سے یہ تقاضا کیا گیا کہ ان کو قتلگاہ میں جانے کی اجازت دی جاۓ تاکہ اپںے عزیزوں سے آخری وداع کر سکیں۔ (۶)  

اس منظر کا مشاہدہ کرنا اپنے عزیزوں کے لاشے جو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیے گئے تھے کہ جن کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی یقینا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن علیؑ کی بہادر بیٹی نے صبر و استقامت و صلابت حیدری سے اس سنگین لمحات کو تحمل کیا۔ یہ مقدس بی بیاں جب مقتلگاہ کے قریب ہوئیں تو نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بی بی زینبؑ نے اس وقت اپنے بھیا کے لاشے پر آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: اللہم تقبل ہذا القربان۔  خدایا اس قربانی کو قبول فرما۔ (۷)  

راوی کہتا ہے کہ میں سب کچھ بھول سکتا ہوں لیکن بی بی کے وہ کلمات کبھی نہیں بھول پاؤنگا خدا کی قسم اس وقت بی بی کی بے قراری و فریاد سے ہر دشمن اور دوست رو پڑا۔ بی بی نے شکستہ دل سے فریاد بلند کی: وا محمداہ، صلی علیک ملیک السماء، ہذا حسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الاعضاء، وا ثکلاہ، و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلۃ، تسفی علیہا ریح الصبا، ہذا حسین بالعراء، محزور الراس من القفاء مسلوب العمامۃ والرداء۔ یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ! آسمان کے فرشتوں کا آپ پر درود ہو! یہ تیرا حسینؑ ہے جو خون میں غلتان ہے اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنا لیا گیا اور تیرے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے اجساد باد صبا چل رہی ہے۔ یہ تیرا حسینؑ ہے جو خاک پر پڑا ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور جن کے عمامے اور ردا کو لوٹ لیا گیا۔ (۸)
 

 


 


حوالہ جات:

۱۔ سید ابن طاؤوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۹۰۔

۲۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۳۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۴۔ ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۸۸۔

۵۔ سماوی، شیخ محمد، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۲۲۴۔

۶۔ مکارم شیرازی، ناصر، عاشورا ریشہ ہا، انگیزہ ہا، رویدادہا، پیامدہا، ج۱، ص۵۴۶۔

۷۔ مقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۰۷۔

۸۔ سید ابن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۸۱۔ 

 

تحریر: عون نقوی

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 01:45
عون نقوی

رسول اللہ ﷺ نے جب علانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو قریش کو حضرت ابو طالبؑ کا تھوڑا بہت پاس و لحاظ تھا انہوں نت براہ راست مزاحمت کرنے کے بجاۓ اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو جہاں پائیں ان کو ستائیں اور ان پر اینٹ پتھر برسائیں تاکہ وہ تنگ آ کر بت پرستی کے خلاف کہنا چھوڑ دیں اور اسلام کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ جب رسول  اللہ ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو قریش کے لڑکے پیچھے لگ جاتے کوئی خس و خاشاک پھینکتا اور کوئی اینٹ پتھر مارتا، آنحضرت ﷺ آزردہ خاطر ہوتے اذیتیں برداشت کرتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتے اور نہ کچھ کہنے کا محل تھا، اس لیے کہ بچوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا کسی بھی سنجیدہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ امام علیؑ نے آپ کے جسم مبارک پر چوٹوں کے نشانات دیکھے تو پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے جسم پر نشانات کیسے ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے بھر آئی آواز میں فرمایا کہ اے علی! قریش خود تو سامنے نہیں آتے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مجھے جہاں پائیں تنگ کریں، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں تو وہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہو کر ڈھیلے پھینکتے اور پتھر برساتے ہیں۔ یہ انہیں چوٹوں کے نشانات ہیں۔ امام علیؑ نے یہ سنا تو بے چین ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آئندہ آپ تنہا کہیں نہ جائیں جہاں جانا ہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپ تو ان بچوں کا مقابلہ کرنے سے رہے مگر میں تو بچہ ہوں میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا اور آئندہ انہیں جرات نہ ہوگی کہ وہ آپ کو اذیت دیں یا راستہ روکیں۔
دوسرے دن رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو علیؑ بھی ساتھ لے لیا۔ قریش کے لڑکے حسب عادت ہجوم کر کے آگے بڑھے دیکھا کہ آگے عیؑ کھڑے ہیں وہ بچے بھی علیؑ کے سن و سال کے ہوں گے انہیں اپنے ہمسن کے مقابلے میں تو بڑی جرات دکھانا چاہیے تھی مگر علیؑ کے بگڑے ہوۓ تیور دیکھ کر جھجکے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے ادھر علیؑ نے اپنی آستینیں الٹیں اور بپھرے ہوۓ شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ کسی کا بازو توڑا کسی کا سر پھوڑا کسی کو زمین پر پٹخا او رکسی کو پیروں تلے روند دیا۔ بچوں کا ہجوم اپنے ہی سن و سال کے ایک بچے سے پٹ پٹا بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے بڑوں سے فریاد کی کہ ’’قضمنا علی‘‘ علیؑ نے ہمیں بری طرح سے پیٹا ہے۔ مگر بڑوں کو بھی جرات نہ ہو سکی کہ فرزند ابو طالبؑ سے کچھ کہیں اس لیے کہ ہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد بچوں کو بھی ہوش آگیا اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ علیؑ کو دیکھتے تو کہیں دبک کر بیٹھ جاتے یا ادھر ادھر منتشر ہو جاتے۔ اس واقعہ کے بعد علیؑ کو قضیم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ جس کے معنی ہیں ہڈی پسلی توڑ دینے والا۔

 حوالہ:
 علامہ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص ۱۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 13:03
عون نقوی

شہید مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ:

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ علیؑ ہر میدان کے مرد تھے لیکن ایک اچھے سیاستدان نہیں تھے،  صاحبِ علم، باعمل، باتقوی، انسانیت دوست ، باتدبیر و بہت بڑے خطیب تھے لیکن ان کے اندر ایک بہت بڑا عیب یہ تھا کہ سیاست کے گُر نہیں جانتے تھے، ذرہ برابر بھی انعطاف نہیں رکھتے تھے اور سیاسی مصلحتوں سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایک سمجھدار سیاستدان وہ ہوتا ہے جو ایک جگہ جھوٹ بولتا ہے ، جھوٹے وعدے دیتا ہے اور بعد میں بے شک عمل نہیں کرتا، مصلحت کو دیکھتے ہوۓ کسی غیر مردانہ معاہدے پر دستخط کر لیتا ہے اور بعد میں یوٹرن لے لیتا ہے۔ اسلام میں یہی تو مسئلہ ہے کہ بہت خشک ہے لچکدار نہیں ہے ، زمانے کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ اصولوں کو لے کر چلتا ہے اگر آج کے دور میں کوئی سیاستدان اسلامی اصولوں کے مطابق سیاست کرنے لگ جاۓ تو اسے کوئی بھی سیاستدان نہیں کہے گا۔

حوالہ:

مطہری، مرتضی، اسلام و نیازہای زمان، ج۱، ص۲۲ً۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:57
عون نقوی

رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی:

  اگر زمانہ غیبت میں فقیہ کی حکومت اور ولایت فقیہ کا نظام نہ ہو تو پھر جو بھی حکومت ہوگی وہ طاغوت کی حکومت ہے۔ دنیا میں دو قسم کی حکومتیں ہیں یا الہی حکومتیں ہیں یا طاغوتی حکومتیں ہیں، اگر کوئی حکومت خدا کے اذن سے نہ بنے، اگر کسی ملک کے صدر یا وزیر کو فقیہ نائب امام منصوب نہ کرے تو اس کی حکومت غیر مشروع ہے۔ اور جب غیر مشروع ہے تو طاغوتی حکومت ہے، ایسے وزیر یا صدر کی اطاعت کرنا طاغوت کی اطاعت کے مترادف ہے۔

حوالہ:

نگاہی بہ نظریہ ہای انتظار، ص۱۴–١٥۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:45
عون نقوی