بصیرت اخبار

عصر عاشور امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو شہید کردیا گیا ہے اور اب شام ہونے کو ہے، یزید کی فوج خیام حسینی کی طرف بڑھتی ہے اور لوٹ مار مچانا شروع کرتی ہے اس دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسینی قافلے کی سالاری سنبھالتی ہیں. ١١محرم کی رات کو شام غریباں کہا جاتا ہے، تاریخ عالم نے ایسی شام نہیں دیکھی ہوگی جب وجہ تخلیق کائنات کے فرزند کو اسی کی امت نے ذبح کر دیا اور اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ حرم کی خواتین پر حملہ کیا اور انہیں لوٹنے آگئے، خیام حسینی کو آگ لگائی، یتیم بچوں کے گوشوارے اتارے خواتین کے سر سے چادریں تک چھین لیں.

 قیام حسینی کی ابتدا سے ہی امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ گرامی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے ساتھ رہیں اور واقعہ کربلا کے دردناک مراحل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس تحریک کے دوران سب سے مشکل وقت شام غریباں کا تھا اور اسکے بعد کے حالات جب آپ نے عملی طور پر اس کاروان اسرا کی رہبری سنبھالی، شام غریباں کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا خیام حسینی میں موجود تمام اصحاب کی خواتین اور انکے بچوں کو سنبھالتی ہیں اور انکی سرپرستی کرتی ہیں.

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بھیا اور انکے اصحاب کی شہادت کے بعد جس صبر و استقامت و تدبیر، فصاحت و بلاغت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اسکی مثال نہیں ملتی، ایک ایسی خاتون جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے عزیز ترین افراد شہید کردیئے گئے مکمل استقامت کے ساتھ اپنے بھیا کے ہدف و مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتی ہے، اس بی بی نے غم سے نڈھال ہو کر ایک کونے میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بھیا کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کیا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے انہیں ظریف اقدامات میں سے ایک قدم یزید سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و ماتم کی اجازت لینا تھا. (١) یزید نے بھی اجازت دے دی اس نے سمجھا کہ اس سے کیا ہوگا بھلا؟ چند خواتین ہیں جو اپنے مرے ہوؤں پر رونا پیٹنا چاہتی ہیں کیا حرج ہے؟ لیکن یہی وہ کام تھا جو قیام و انقلاب زینبی کا باعث بنا، بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے قاتلان امام حسین علیہ السلام کو رسوا کرنا شروع کیا اور اھداف امام عالی مقام بیان کرنا شروع کئے، یہاں تک کہ لوگ قاتلان امام پر نفرین و لعن کرنے لگے، یزید نے ڈر کے مارے جب اپنی حکومت کی بنیادوں کو لرزتا ہوا دیکھا تو کہنے لگا کہ لعنت ہو ابن مرجانہ کے بیٹے پر کہ جس نے امام کو قتل کیا. (٢)

شام غریباں کے سب سے بڑے مصائب آل رسول کے خیموں میں یزیدی فوج کا آگ لگانا اور آل رسول کو لوٹنا تھا ایسے حال میں کہ جب بی بیوں کے سامنے انکے عزیزوں کے لاشے بکھرے پڑے تھے اور انکی لاشوں کو بغیر کفن و دفن کے صحرا کی ریت کے حوالے کردیا گیا تھا، لوٹنے والے بڑھ بڑھ کر آگ لگا رہے تھے، عورتوں اور بچوں کو ڈرا رہے تھے، ایک ملعون نے فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی کے گوشوارے چھینے(٣) حتی خواتین کی چادریں چھین لیں. (٤). ایک کہہ رہا تھا "أحرقوا بیوت الظالمین" ظالموں کے سر چھپانے کی جگہ کو جلادو. (٥). ایسے میں جب خیام میں آگ لگی تھی بچے جان بچانے کی غرض سے صحرا کی جانب بھاگ رہے تھے حضرت زینب سلام اللہ علیہا یزیدی افواج کی نامردی اور وحشی حرکت کو دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کیا خیام کی آگ میں جل جائیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "علیکن بالفرار" (٦)

علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا سے منقول ہے: میں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار میری طرف بڑھ رہا ہے فورا وہاں سے بھاگی لیکن وہ سوار تھا میرا پیچھا کرکے پہنچ گیا اس کے بعد اس نے ایک ضرب لگائی اور میں زمین پر گر گئی (٧). امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ میری نظر میری پھوپھی اور بہنوں پر پڑے اور میرے آنسو نہ ٹپکے ہوں اور مجھے یاد آتی ہے ان لحظوں کی کہ جب بی بیاں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف جاتیں اور دوسری طرف سے سپاہ کوفہ کہتی کہ خیموں کو آگ لگا دو" (٨). حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایسے حالات میں یتیم بچوں، بیواؤں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو سنبھالتی ہیں، اور دوسری جانب  گمشدہ بچوں کو تلاش کرتی ہیں، دشمن کے حملوں اور تازیانوں سے بچوں کو بچاتی ہیں لیکن خود زخمی ہوجاتی ہیں، اپنے بھیا حسین علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرماتی ہیں: "یابن امی لقد کللت عن المدافعة لھؤلاء النساء والأطفال و ھذا متنی قد اسود من الضرب" اے پیارے ماں جائے بچوں اور خواتین کا خیال رکھنے اور دشمن سے انکا دفاع کرنے سے ہلکان ہوگئی، میرے بازو و  چہرے دشمن کی ضربتوں سے کالے رنگ میں بدل گئے(٩).

خیام کی غارت کے بعد بی بی نے سب بچوں اور خواتین کو ایک خیمے میں جمع کیا اور تسلی و نوازش کرنے لگیں ایسے میں متوجہ ہوتی ہیں کہ دو بچے خیام میں موجود نہیں پریشان حالت میں بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہیں اور ان دونوں کو ایک گودال میں لیٹا ہوا دیکھتی ہیں، جب نزدیک ہو کر دیکھتی ہیں تو متوجہ ہوتی ہیں کہ دونوں بچے خیام میں آگ لگنے، اور اشکیا کے ڈر کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں. (١٠) صاحب معالی السبطین نقل کرتے ہیں کہ شام غریباں کو دو بچے دھشت و تشنگی سے مجبور ہو کر خیام سے فرار کرتے ہیں اور بی بی انکو ایسی حالت میں پاتی ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہوا ہے اور اس دوران انکی روح پرواز کرجاتی ہے. (١١) رات ڈھل جاتی ہے دن اور رات کی تھکی ہاری زینب س نماز شب کے لیے تیاری کرتی ہیں، اندرونی و بیرونی زخموں سے چور بی بی کھڑے ہو کر نماز شب نہیں پڑھ پاتیں اور بیٹھ کر اپنے خدا سے راز و نیاز کرتی ہیں. (١٢).

١١ محرم بعد از ظہر ملعون ابن سعد اپنے یزیدی ساتھیوں کو دفنانے، اور امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کے اجساد کو صحرا میں بنا دفن کئے اہلبیت علیہم السلام کو اسیر کر کے کوفہ کی طرف بڑھتا ہے . (١٣) عمر سعد کے حکم سے اسیران کو جان بوجھ کر مقتل گاہ شہداء کربلا سے گزارا گیا، جب بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھیا کے مقتل کے قریب سے گزرتی ہیں تو بین کرتی ہیں: یا محمداہ! یا محمداہ! ھذا الحسین بالعراء مرمل بالدماء مقطع الاعضاء. یا محمداہ! و بناتک سبایا و ذریتک مقتله تسقی علیہا الصبا، یا محمداہ! یا محمداہ!
یہ وہی حسین ہے جو آسمان کے نیچے پڑا ہے خاک و خون میں غلطان ہے جس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنایا گیا، تیرے بیٹوں کو مار دیا گیا، یہ سن کر عمر سعد کا لشکر بھی رونے لگا، اور بی بیاں ماتم کرنے لگیں. (١٤)

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب مقتل گاہ سے قافلہ گزرا اور میں نے اپنے بھائیوں، اور بابا کا لاشہ جو بے سر و پا ٹکڑوؤں میں بٹا، گھوڑوں تلے مسلا ہوا بے گور و کفن دیکھا تو میری حالت غیر ہوگئی اور نزدیک تھا کہ میری جان چلی جاۓ، اس دوران پھپھی زینب سلام اللہ علیہا متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
«ما لی اراکَ تَجودُ بِنَفْسِکَ یا بَقیَّةَ جَدّی وَ اَبی وَ اِخْوَتی؟ فَقُلتُ: وکَیْفَ لااجْذَعُ و اَهْلَعُ وَ قَدْ اری سَیِّدی وَ اخْوَتی وعُمومَتی و وَلَد عَمّی وَ اَهْلی مُضَرَّجینَ بِدِمائِهِمْ مُرمَّلینَ بالعَراءِ مُسَلَّبینَ لایُکْفَنُونَ وَلا یُوارُونَ، وَلایَعْرجُ عَلَیْهِمْ اَحَدٌ. فرمایا کہ اے میرے جد و بابا اور بھیا کی نشانی! کیوں اپنی جان لینا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی جان دینا چاہتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ کیسے نہ اپنی جان دوں جبکہ اپنے مولا، اپنے بھائی، چچا اور چچازاد اور سارے گھر والوں کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں. اس بیابان میں خاک و خون میں لت پت ہیں انکے بدنوں پر کفن بھی موجود نہیں اور کوئی انکو کفن پہنانے والا بھی نہیں اور دفن کرنے والا بھی نہیں. (١٥)


حوالہ جات:
١. بحرانی، عبداللہ، العوالم الامام الحسین، ص٤٢٢.
٢. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج٢، ص٦٣.
٣. شمس الدین ذھبی، محمد بن احمد، سیر اعلام البلاء، ج٤، ص٣٦١.
٤. شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص٢٢٩.
٥. انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء، ج١٠، ص٢٩٣.
٦. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٤٨.
٧. علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج٤٥، ص٦٠.
٨. المجمع العالمی لأهل البیت إعلام الھدایة الإمام الحسین سید الشهداء، ص٢٠٤.
٩. بیضون، لبیب، موسوعة کربلاء، ج٢، ص٢٤٩.
١٠. قزوینی، سید محمد کاظم، زینب الکبری من المھد الی اللحد، ص٢٥٢. 
١١. مازندرانی حائری، محمد مھدی، معالی السبطین فی احوال الحسن و الحسین، ص١٥٢.
١٢. محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعه، ج٣، ص٦١.
١٣. سید ابن طاووس، علی بن موسی، اللھوف، ص٨٤.
١٤. ابو مخنف کوفی، لوط بن یحیی، وقعة الطف، ص٢٥٩.
١٥. قمی، شیخ عباس، نفس المھموم، ص٣٥٢.

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:24
عون نقوی

حضرت جونؓ حضرت ابوذر غفارىؓ کے غلام تھے ۔یہ حبشى تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزاد ہونے کے بعد وہ ہمیشہ اہل بیتؑ سے وابستہ رہے۔ عاشور کے روز امامؑ کى خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کى :مولا! مجھے بھى لڑنے کى اجازت مرحمت فرمائیں۔ امام نے فرمایا :نہیں! اس وقت تمہارے لئے مناسب ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور اس واقعے کے بعد اس دنیا کى نعمتوں سے لطف اندوز ہو، اب تک ہمارے خاندان کى جو خدمت کى وہ کافى ہے۔ ہم تم سے راضى ہیں۔ جون نے اپنى درخواست کو پھر دہرایا۔ امام حسین ؑ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ جونؑ نے امام عالى مقام کے پاؤں پکڑ لئے اور انہیں چومنے لگے اور بولے: مولاؑ ! مجھے محروم نہ فرمائیں۔ پھر انہوں نے ایک ایسا جملہ کہاجسے سن کر امامؑ نے انہیں روکنا مناسب نہ سمجھا۔ 

جون ؑ نے عرض کى:

مولاؑ! میں سمجھ گیا کہ آپ مجھے اجازت کیوں نہیں دے رہے!! کہاں میں اور کہاں یہ خوش بختى! اس سیاہ رنگ ، گندے خون اور بدبودار جسم کے ساتھ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں امام علیہ السلام نے فرمایا : نہیں! ایسى کوئى بات نہیں، تم میدان جاسکتے ہو۔

 جونؑ رِجز پڑھتے ہوۓ میدان میں وارد ہوۓ اور لڑتے ہوۓ شہید ہوگئے ۔

امام حسین ؑ ان کے سرہانے پہنچے اور دعا فرمائى! : 
اے پروردگار ! اس کا (اگلے) جہاں میں چہرہ سفید اور اس کى بو پسندیدہ بنادے ۔اسے ابرار کے ساتھ محشور فرما، اس دنیا میں اس کے اور آل محمد ؐ کے درمیان کامل آشنائى پیدا کردے
حوالہ:

اسلامى داستانیں، شہید مرتضى مطہرىؒ، ص:٢٤٤. 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 10:15
عون نقوی

گیارہ محرم ۶۱ہجری تقریبا ظہر تک یزیدی لشکر پلید کوفیوں کے اجساد دفن کرنے میں مصروف رہا۔ ایسے میں فرزند رسولﷺ و جگر گوشہ فاطمہؑ اور ان کے پاک اصحاب کے لاشے زیر آسمان موجود تھے اور ان کو کسی نے دفن نہ کیا۔ ابن سعد نے حکم دیا کہ شہداء کربلا کے سر ان کے بدنوں سے جدا کیے جائیں تاکہ کوفہ میں ابن زیاد سے انعام اور تقرب مل سکے۔ یہ پاک و پاکیزہ سر مختلف قبیلوں میں اس ترتیب کے ساتھ تقسیم ہوۓ:

۱۔ قیس بن اشعث کی سربراہی میں کندہ قبیلہ ۱۳ سر۔

۲۔ شمر بن ذی الجوشن کی سربراہی میں قبیلہ ہوازن ۱۲سر۔

۳۔ قبیلہ تمیم ۱۷سر۔

۴۔ قبیلہ بنی اسد ۹سر۔

۵۔ قبیلہ مذحج ۷سر۔
۶۔ بقیہ قبائل ۱۳سر۔ (۱)

عمر سعد اپنے سپاہیوں کے اجساد کو دفن کرنے کے بعد اسراء کو ساتھ ملا کر ۱۱ محرم کو کربلا سے کوفہ کی طرف نکل جاتا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ اسیروں میں ۱۲ بچے و جوان تھے۔ (۲)

 جبکہ اسیر خواتین میں ان بی بیوں کے نام شامل ہیں:
زینب کبری سلام اللہ علیہا، ام کلثوم سلام اللہ علیہا، سکینہ بنت حسینؑ۔ (۳)  

بی بی رباب ہمسر امام حسینؑ (۴)

 بی بی رملہ حضرت قاسمؑ کی مادر گرامی و امام حسن مجتبیؑ کی زوجہ۔ (۵) اس کے علاوہ بعض دیگر شہداۓ کربلا کی اسیر خواتین بھی موجود تھیں۔

 یہ وہ عترت رسول اللہ ﷺ کے بچے ہوۓ افراد تھے جنہیں ابن سعد اور اس کے سپاہی تمام جسارت اور بے حرمتی سے کوفہ کی طرف لے گئے۔ ۱۱ محرم کے سخت و دشوار ترین لحظات میں سے بلکہ تاریخ کربلا کا سنگین ترین وقت وہ ہے جب اسیروں کا یہ قافلہ اپنے عزیزوں کے ٹکڑوں میں بٹے ہوۓ اجساد سے وداع کرتا ہے۔ دشمن کی فوج نے عمدا اس قافلے کو اس جگہ سے گزارا جہاں پر ان کے عزیز ترین افراد بے گور و کفن آسمان کے نیچے اپنی حقانیت و در عین حال مظلومیت و عزت کا علم بنے ہوۓ تھے۔ البتہ بعض تواریخ میں آیا ہے کہ خود اسیران اہلیبتؑ کی جانب سے یہ تقاضا کیا گیا کہ ان کو قتلگاہ میں جانے کی اجازت دی جاۓ تاکہ اپںے عزیزوں سے آخری وداع کر سکیں۔ (۶)  

اس منظر کا مشاہدہ کرنا اپنے عزیزوں کے لاشے جو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیے گئے تھے کہ جن کی شناسائی بھی ممکن نہ تھی یقینا بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن علیؑ کی بہادر بیٹی نے صبر و استقامت و صلابت حیدری سے اس سنگین لمحات کو تحمل کیا۔ یہ مقدس بی بیاں جب مقتلگاہ کے قریب ہوئیں تو نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بی بی زینبؑ نے اس وقت اپنے بھیا کے لاشے پر آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا: اللہم تقبل ہذا القربان۔  خدایا اس قربانی کو قبول فرما۔ (۷)  

راوی کہتا ہے کہ میں سب کچھ بھول سکتا ہوں لیکن بی بی کے وہ کلمات کبھی نہیں بھول پاؤنگا خدا کی قسم اس وقت بی بی کی بے قراری و فریاد سے ہر دشمن اور دوست رو پڑا۔ بی بی نے شکستہ دل سے فریاد بلند کی: وا محمداہ، صلی علیک ملیک السماء، ہذا حسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الاعضاء، وا ثکلاہ، و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلۃ، تسفی علیہا ریح الصبا، ہذا حسین بالعراء، محزور الراس من القفاء مسلوب العمامۃ والرداء۔ یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ! آسمان کے فرشتوں کا آپ پر درود ہو! یہ تیرا حسینؑ ہے جو خون میں غلتان ہے اس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنا لیا گیا اور تیرے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا اور ان کے اجساد باد صبا چل رہی ہے۔ یہ تیرا حسینؑ ہے جو خاک پر پڑا ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور جن کے عمامے اور ردا کو لوٹ لیا گیا۔ (۸)
 

 


 


حوالہ جات:

۱۔ سید ابن طاؤوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۹۰۔

۲۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۳۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج۱، ص۷۹۔

۴۔ ابن اثیر، عزالدین، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۸۸۔

۵۔ سماوی، شیخ محمد، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۲۲۴۔

۶۔ مکارم شیرازی، ناصر، عاشورا ریشہ ہا، انگیزہ ہا، رویدادہا، پیامدہا، ج۱، ص۵۴۶۔

۷۔ مقرم، سید عبدالرزاق، مقتل الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۳۰۷۔

۸۔ سید ابن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ج۱، ص۱۸۱۔ 

 

تحریر: عون نقوی

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 August 21 ، 01:45
عون نقوی

رسول اللہ ﷺ نے جب علانیہ تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو قریش کو حضرت ابو طالبؑ کا تھوڑا بہت پاس و لحاظ تھا انہوں نت براہ راست مزاحمت کرنے کے بجاۓ اپنے لڑکوں کو یہ سکھایا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو جہاں پائیں ان کو ستائیں اور ان پر اینٹ پتھر برسائیں تاکہ وہ تنگ آ کر بت پرستی کے خلاف کہنا چھوڑ دیں اور اسلام کی تبلیغ سے کنارہ کش ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں۔ چنانچہ جب رسول  اللہ ﷺ گھر سے باہر نکلتے تو قریش کے لڑکے پیچھے لگ جاتے کوئی خس و خاشاک پھینکتا اور کوئی اینٹ پتھر مارتا، آنحضرت ﷺ آزردہ خاطر ہوتے اذیتیں برداشت کرتے مگر زبان سے کچھ نہ کہتے اور نہ کچھ کہنے کا محل تھا، اس لیے کہ بچوں سے الجھنا اور ان کے منہ لگنا کسی بھی سنجیدہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ امام علیؑ نے آپ کے جسم مبارک پر چوٹوں کے نشانات دیکھے تو پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے جسم پر نشانات کیسے ہیں؟
رسول اللہ ﷺ نے بھر آئی آواز میں فرمایا کہ اے علی! قریش خود تو سامنے نہیں آتے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ مجھے جہاں پائیں تنگ کریں، میں جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں تو وہ گلیوں اور بازاروں میں جمع ہو کر ڈھیلے پھینکتے اور پتھر برساتے ہیں۔ یہ انہیں چوٹوں کے نشانات ہیں۔ امام علیؑ نے یہ سنا تو بے چین ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آئندہ آپ تنہا کہیں نہ جائیں جہاں جانا ہو مجھے ساتھ لے جائیں۔ آپ تو ان بچوں کا مقابلہ کرنے سے رہے مگر میں تو بچہ ہوں میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا اور آئندہ انہیں جرات نہ ہوگی کہ وہ آپ کو اذیت دیں یا راستہ روکیں۔
دوسرے دن رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو علیؑ بھی ساتھ لے لیا۔ قریش کے لڑکے حسب عادت ہجوم کر کے آگے بڑھے دیکھا کہ آگے عیؑ کھڑے ہیں وہ بچے بھی علیؑ کے سن و سال کے ہوں گے انہیں اپنے ہمسن کے مقابلے میں تو بڑی جرات دکھانا چاہیے تھی مگر علیؑ کے بگڑے ہوۓ تیور دیکھ کر جھجکے۔ پھر ہمت کر کے آگے بڑھے ادھر علیؑ نے اپنی آستینیں الٹیں اور بپھرے ہوۓ شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ کسی کا بازو توڑا کسی کا سر پھوڑا کسی کو زمین پر پٹخا او رکسی کو پیروں تلے روند دیا۔ بچوں کا ہجوم اپنے ہی سن و سال کے ایک بچے سے پٹ پٹا بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے بڑوں سے فریاد کی کہ ’’قضمنا علی‘‘ علیؑ نے ہمیں بری طرح سے پیٹا ہے۔ مگر بڑوں کو بھی جرات نہ ہو سکی کہ فرزند ابو طالبؑ سے کچھ کہیں اس لیے کہ ہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہوتا تھا۔ اس دن کے بعد بچوں کو بھی ہوش آگیا اور جب وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ علیؑ کو دیکھتے تو کہیں دبک کر بیٹھ جاتے یا ادھر ادھر منتشر ہو جاتے۔ اس واقعہ کے بعد علیؑ کو قضیم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ جس کے معنی ہیں ہڈی پسلی توڑ دینے والا۔

 حوالہ:
 علامہ مفتی جعفر حسین، سیرت امیرالمومنینؑ، ص ۱۴۶۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 13:03
عون نقوی

شہید مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ:

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ علیؑ ہر میدان کے مرد تھے لیکن ایک اچھے سیاستدان نہیں تھے،  صاحبِ علم، باعمل، باتقوی، انسانیت دوست ، باتدبیر و بہت بڑے خطیب تھے لیکن ان کے اندر ایک بہت بڑا عیب یہ تھا کہ سیاست کے گُر نہیں جانتے تھے، ذرہ برابر بھی انعطاف نہیں رکھتے تھے اور سیاسی مصلحتوں سے کام نہیں لیتے تھے۔ ایک سمجھدار سیاستدان وہ ہوتا ہے جو ایک جگہ جھوٹ بولتا ہے ، جھوٹے وعدے دیتا ہے اور بعد میں بے شک عمل نہیں کرتا، مصلحت کو دیکھتے ہوۓ کسی غیر مردانہ معاہدے پر دستخط کر لیتا ہے اور بعد میں یوٹرن لے لیتا ہے۔ اسلام میں یہی تو مسئلہ ہے کہ بہت خشک ہے لچکدار نہیں ہے ، زمانے کے ساتھ نہیں چلتا بلکہ اصولوں کو لے کر چلتا ہے اگر آج کے دور میں کوئی سیاستدان اسلامی اصولوں کے مطابق سیاست کرنے لگ جاۓ تو اسے کوئی بھی سیاستدان نہیں کہے گا۔

حوالہ:

مطہری، مرتضی، اسلام و نیازہای زمان، ج۱، ص۲۲ً۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 August 21 ، 12:57
عون نقوی